• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امام بخاری کے شیعہ راوی اور احادیث

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
سوال

جواب

اب میرے اس سوال کو معکوس کرکے پیش کرتا ہوں کہ اگر کسی حدیث کی روایت میں تمام راوی بنو امیہ کے وظیفہ خور ہو اور روایت بھی بنو امیہ کے حکمرانوں کے مناقب بیان کرتی ہو اور تمام محدیثین اس پر صحیح کا حکم اپنے کس خود ساختہ اصول حدیث کی بناء پر لگاتے ہیں مثلا جیسے آپ حدیث قسطنطنیہ کہتے ہیں( جبکہ اس حدیث میں قسطنطنیہ کا کہیں ذکر تک نہیں ) اس حدیث کے تمام راوی بنوامیہ کے درباری وظیفہ خور ہیں پھر بھی یہ حدیث صحیح ہے کیا آپ کے یہ اصول انصاف پر مبنی ہے؟
اس روایت میں شامیوں کا تفرد نہیں. اس کے ایک راوی خالد بن معدان بن أبي كرب الكلاعي بھی ہیں

الأعلام الزركلي کے مطابق : خالد بن معدان بن أبي كرب الكلاعي، أبو عبد الله: تابعيّ، ثقة، ممن اشتهروا بالعبادة. أصله من اليمن، وإقامته في حمص (بالشام)

خالد بن معدان بن أبي كرب الكلاعي، أبو عبد الله یمنی تھے لیکن حمص شام میں رہتے تھے

یہ روایت ام حرام بنت ملحان رضی الله تعالی عنہا کی ہے اور ام حرام ، انس بن مالک رضی الله تعالی عنہ کی خالہ اور عُبَادَةَ بنِ الصَّامِتِ رضی الله تعالی عنہ کی بیوی ہیں. مدینہ کی رہنے والی تھیں. یہ بھی شامی نہیں. مسلمان فتوحات کی وجہ سے بہت علاقوں میں پھیل گئے تھے. اگر اس اعتراض کو صحیح مانا جاے تو اس بنیاد پر تو علی رضی الله تعالی عنہ بھی کوفی کہلائیں گے.

روایت کے دوسرے راوی ثور بن يزيد کے لئے لکھتے ہیں کہ

یحیی ابن معین (جن کے فن رجال کو تمام علماء مانتے ہیں) اس ثور کے متعلق لکھتے ہیں کہ یہ ثور اس جماعت میں شامل تھا جو علی ابن ابی طالب پر سب کرتے تھے (سب کا مطلب ہے برا کہنا اور گالیاں وغیرہ دینا)۔ یحیی ابن معین کے الفاظ یہ ہیں : و قال فى موضع آخر : أزهر الحرازى ، و أسد بن وداعة و جماعة كانوا يجلسون و يسبون على بن أبى طالب ، و كان ثور بن يزيد لا يسب عليا ، فإذا لم يسب جروا برجلہ.

جواب: احمد کہتے ہیں کہ : وكان من أهل حمص اور یہ اہل حمص میں سے تہے. ابن معین کے الفاظ کا مطلب ہے: أزهر الحرازي اورأسد بْن وداعة علی کو گالیاں دتیے تھے و كان ثور بن يزيد لا يسب عليا اور ثور بن يزيد علی کو گالیاں نہیں دیتے تھے بحوالہ الكامل في ضعفاء الرجال از ابن عدی

اس بات کا تو مطلب ہی الٹا ہے ثور بن يزيد ، علی کو گالیاں نہیں دیتے تھے. ہاں یہ ضرور ہے کہ ابن سعد کے مطابق وہ لا أحب رجلا قتل جدى : علی کو اپنے دادا کے صفیں میں قتل کی وجہ سے نا پسند کرتے تھے
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
اب میرے اس سوال کو معکوس کرکے پیش کرتا ہوں کہ اگر کسی حدیث کی روایت میں تمام راوی بنو امیہ کے وظیفہ خور ہو اور روایت بھی بنو امیہ کے حکمرانوں کے مناقب بیان کرتی ہو اور تمام محدیثین اس پر صحیح کا حکم اپنے کس خود ساختہ اصول حدیث کی بناء پر لگاتے ہیں مثلا جیسے آپ حدیث قسطنطنیہ کہتے ہیں( جبکہ اس حدیث میں قسطنطنیہ کا کہیں ذکر تک نہیں ) اس حدیث کے تمام راوی بنوامیہ کے درباری وظیفہ خور ہیں پھر بھی یہ حدیث صحیح ہے کیا آپ کے یہ اصول انصاف پر مبنی ہے؟
یہ اصول اہل بدعت کی روایت کے بارے میں ہے ۔ ’’ رافضیت ‘‘ ، ’’ ناصبیت ‘‘ ، ’’ خارجیت ‘‘ وغیرہ وغیرہ بدعات ہیں ، اموی ہونا کوئی بدعت نہیں ۔
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
اس روایت میں شامیوں کا تفرد نہیں. اس کے ایک راوی خالد بن معدان بن أبي كرب الكلاعي بھی ہیں

الأعلام الزركلي کے مطابق : خالد بن معدان بن أبي كرب الكلاعي، أبو عبد الله: تابعيّ، ثقة، ممن اشتهروا بالعبادة. أصله من اليمن، وإقامته في حمص (بالشام)

خالد بن معدان بن أبي كرب الكلاعي، أبو عبد الله یمنی تھے لیکن حمص شام میں رہتے تھے
ابن أبي كرب ، الإمام ، شيخ أهل الشام ، أبو عبد الله الكلاعي ، الحمصي

سير أعلام النبلاء» الطبقة الثانية» خالد بن معدان
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
یہ روایت ام حرام بنت ملحان رضی الله تعالی عنہا کی ہے اور ام حرام ، انس بن مالک رضی الله تعالی عنہ کی خالہ اور عُبَادَةَ بنِ الصَّامِتِ رضی الله تعالی عنہ کی بیوی ہیں. مدینہ کی رہنے والی تھیں. یہ بھی شامی نہیں. مسلمان فتوحات کی وجہ سے بہت علاقوں میں پھیل گئے تھے. اگر اس اعتراض کو صحیح مانا جاے تو اس بنیاد پر تو علی رضی الله تعالی عنہ بھی کوفی کہلائیں گے.
مگر یہ بات بھی بہت عجیب ہے کہ ام حرام نے یہ روایت کسی بھی مدینہ کے رہنے والے صحابی یا تعابعی سے بیان نہیں فرمائی لے دے کر صرف بنو امیہ کے درباری راویوں سے بیان کی
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
اس بات کا تو مطلب ہی الٹا ہے ثور بن يزيد ، علی کو گالیاں نہیں دیتے تھے. ہاں یہ ضرور ہے کہ ابن سعد کے مطابق وہ لا أحب رجلا قتل جدى : علی کو اپنے دادا کے صفیں میں قتل کی وجہ سے نا پسند کرتے تھے
یعنی یہ بدعتی جس کے بارے میں اکثر ائمہ نے یہ کہا ہے کہ یہ قدری تھا یہ حضرت علی سے محبت نہیں رکھتا تھا کیوں حضرت علی نے اس کے اجداد کو جنگ صفین میں قتل کیا تھا کیا صرف آپ کی اس تشریح کے مطابق ہی یہ ثور بن یزید منافق نہیں ہوگیا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ
حضرت علی سے محبت صرف مومن ہی رکھے گا
صحیح مسلم
پھر جس سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول محبت رکھیں اس سے یہ ثور بن یزید محبت نہ رکھے پھر بھی اس میں کوئی برائی نہیں لَا حَولَ وَلَا قُوَّہَاِلَّا بِاللَّہِ العَلِیِّ العَظِیم
جس دن خیبر فتح ہونا تھا ‘ جب اس کی رات آئی تو آپ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم نے فرمایا کہ کل میں (اسلامی) عَلم اس شخص کو دوں گا یا فرمایا کہ عَلم وہ شخص لے گا جس سے اللہ اور اس کا رسول محبت رکھتے ہیں اور جس کے ہاتھ پر فتح حاصل ہو گی۔ ہم سب ہی اس سعادت کے امیدوار تھے لیکن کہا گیا کہ یہ ہیں علی رضی اللہ عنہ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں کو جھنڈا دیا اور انہیں کے ہاتھ پر خیبر فتح ہوا۔

صحیح بخاری : حدیث نمبر: 4209
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
یعنی یہ بدعتی جس کے بارے میں اکثر ائمہ نے یہ کہا ہے کہ یہ قدری تھا یہ حضرت علی سے محبت نہیں رکھتا تھا کیوں حضرت علی نے اس کے اجداد کو جنگ صفین میں قتل کیا تھا کیا صرف آپ کی اس تشریح کے مطابق ہی یہ ثور بن یزید منافق نہیں ہوگیا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ
حضرت علی سے محبت صرف مومن ہی رکھے گا
صحیح مسلم
پھر جس سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول محبت رکھیں اس سے یہ ثور بن یزید محبت نہ رکھے پھر بھی اس میں کوئی برائی نہیں لَا حَولَ وَلَا قُوَّہَاِلَّا بِاللَّہِ العَلِیِّ العَظِیم
جس دن خیبر فتح ہونا تھا ‘ جب اس کی رات آئی تو آپ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم نے فرمایا کہ کل میں (اسلامی) عَلم اس شخص کو دوں گا یا فرمایا کہ عَلم وہ شخص لے گا جس سے اللہ اور اس کا رسول محبت رکھتے ہیں اور جس کے ہاتھ پر فتح حاصل ہو گی۔ ہم سب ہی اس سعادت کے امیدوار تھے لیکن کہا گیا کہ یہ ہیں علی رضی اللہ عنہ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں کو جھنڈا دیا اور انہیں کے ہاتھ پر خیبر فتح ہوا۔

صحیح بخاری : حدیث نمبر: 4209
آپ کی بات سے تو یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ :

جس جس نے بھی حضرت علی رضی الله عنہ سے جنگ کی چاہے وہ صحابی ہوں یا تابعی یا حتیٰ کہ حضرت علی رضی الله عنہ کے سگے بھائی (حضرت عقیل بن ابی طالب رضی الله عنہ جو جنگ صفین میں حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کے ساتھ تھے) وہ بھی کیوں نہ ہوں - تمام کے تمام فاسق و فاجر اور جہنمی ہوے؟؟؟ -

کیوں جنگ کبھی محبّت کی بنا پر نہیں لڑی جاتی- اختلاف کی بنیاد پر ہی لڑی جاتی ہے- کیا کہیں گے اس بارے میں آپ؟؟ -

یہ بات ذہن میں رہے کہ آپ کے علماء اور احباب صحابی رسول حضرت عقیل بن ابی طالب رضی الله عنہ کے نام پر اپنے نام رکھتے ہیں - جو جنگ صفین میں حضرت علی رضی الله عنہ کی مخالف فوج میں تھے - اور آپ کے نزدیک جو حضرت علی رضی الله عنہ سے محبّت نہ رکھے کبھی مومن نہیں ہو سکتا - ؟؟
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
آپ کی بات سے تو یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ :

جس جس نے بھی حضرت علی رضی الله عنہ سے جنگ کی چاہے وہ صحابی ہوں یا تابعی یا حتیٰ کہ حضرت علی رضی الله عنہ کے سگے بھائی (حضرت عقیل بن ابی طالب رضی الله عنہ جو جنگ صفین میں حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کے ساتھ تھے) وہ بھی کیوں نہ ہوں - تمام کے تمام فاسق و فاجر اور جہنمی ہوے؟؟؟ -

کیوں جنگ کبھی محبّت کی بنا پر نہیں لڑی جاتی- اختلاف کی بنیاد پر ہی لڑی جاتی ہے- کیا کہیں گے اس بارے میں آپ؟؟ -

یہ بات ذہن میں رہے کہ آپ کے علماء اور احباب صحابی رسول حضرت عقیل بن ابی طالب رضی الله عنہ کے نام پر اپنے نام رکھتے ہیں - جو جنگ صفین میں حضرت علی رضی الله عنہ کی مخالف فوج میں تھے - اور آپ کے نزدیک جو حضرت علی رضی الله عنہ سے محبّت نہ رکھے کبھی مومن نہیں ہو سکتا - ؟؟
اس کے لئے آپ کو عقیل بن ابی طالب کا کوئی قول پیش کرنا پڑے گا جس میں انہوں نے ارشاد فرمایا ہو کہ "میں حضرت علی سے محبت نہیں رکھتا "جیسا کہ اس قدری بدعتی بنو امیہ کے درباری راوی کا قول پیش کیا گیا ہے کہ "میں علی سے محبت نہیں رکھتا"
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
آپ حدیث قسطنطنیہ کہتے ہیں( جبکہ اس حدیث میں قسطنطنیہ کا کہیں ذکر تک نہیں ) اس حدیث کے تمام راوی بنوامیہ کے درباری وظیفہ خور ہیں پھر بھی یہ حدیث صحیح ہے کیا آپ کے یہ اصول انصاف پر مبنی ہے؟
اتامرون الناس بالبر والی بات کتنی دفعہ دہرا چکا ہوںپھر بھی جو نشہ لگا ہے اسکا حل شاید ممکن نہیں
اوپر آپ کو مندرجہ ذیل دو باتوں میں بے انصافی نظر آئی
1۔ایک راوی جب اپنی فیور میں بات کرے (مثلا بنو امیہ کے درباری کا بنو امیہ کے حق میں بات کرنا) تو ہم اسکو قبول کر لیتے ہیں
2۔دوسری طرف جب بدعتی اپنی بدعت کے فیور میں بات کرے تو اسکو قبول نہیں کرتے

ان اصولوں کا انصاف دیکھنا ہے تو پہلے اسکو اپنے پر اپلائی کر کے دیکھو کہ آپ کے نزدیک باقی صحابہ کی بجائے آپ کے بارہ اماموں کی بات بی حجت ہوتی ہے اور

1۔آپ ان اماموں کی اپنے بارے اچھائی بیان کرنے والی احادیث کو تو مان لیتے ہیں
2۔لیکن جو ان اماموں کو اس طرح نہیں مانتا جس طرح تم چاہتے ہو تو تم اسکی نہ تو اسکے نظریہ کے حق میں بات مانتے ہو اور نہ اسکے اس نظریے سے ہٹ کر ہی کوئی بات تسلیم کرتے ہو

بھلا زیادہ دوغلہ کون ہوا

ویسے ہمارے ہاں کوئی حدیث صرف اس وجہ سے رد نہیں کی جاتی کہ وہ کہنے والے کی فیور میں جاتی ہے کیونکہ ہم تو ایسی اور بہت سی احادیث کو بھی مانتے ہیں جن میں مختلف صحابہ نے اپنے کارنامے بتائے ہوتے ہیں پس ہم بے انصافی تو اس وقت کرتے جب ہم باقیوں کی اپنے بارے تعریف کو نہ مانتے مگر بنو امیہ والے یا بنو امیہ سے تعلق یا وظیفہ لینے والے راویوں کی انکے بارے تعریف کو مان رہے ہوتے اور یہ تو آپ سمجھتے ہوں گے کہ کسی راوی کا اپنی تعریف کرنے کو ماننا زیادہ خطرناک ہے بنسبت کسی راوی کا بنو امیہ کے امراء کی تعریف کو ماننے سے- پس جب ہمارے لئے کسی راوی کا اپنی تعریف کرنا درست ہو سکتا ہے تو کسی دربار کی تعریف کرنا تو دلالت اولی سے ثابت ہو جائے گا

اب یہ بھی یاد رکھ لو کہ کسی ثقہ راوی کا اپنی تعریف میں کوئی بات کرنا ہمارے ہاں (اور آپ کے ہاں بھی) کیوں درست مانا جاتا ہے
ہمارے حدیث کو رد کرنے کے اصول میں پہلا اصول یہی ہے کہ والذین امنوا اشد حب للہ یعنی ہم اللہ سے شدید محبت کرنے والے ہیں کسی اماموں کو اللہ کے برابر محبت اور اطاعت نہیں دے سکتے پس ہمارے اصولوں کا دارومدار اسی محبت کے تحت ہے اور آپ کے اصولوں کا دارو مدار اس نظریہ کے تحت ہے کہ آپ کچھ ہستیوں کو اللہ کے برابر محبت یا اطاعت دیتے ہو
پس ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اگر راوی ثقہ ہے تو اسکا اپنی تعریف کرنا غلط نہیں ہو سکتا کیونکہ ثقہ ہوتا ہی وہی ہے جس کو جج کرنے کا اصول اللہ نے یہ کہ کر بیان کیا کہ اے کافرو اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جانچنا چاہتے ہو تو فقد لبثت فیکم عمرا من قبلہ یعنی اسنے تمھارے درمیان جب جھوٹ نہیں بولا تو فمن اظلم ممن افتری علی اللہ کذبا کہ اللہ پر وہ جھوٹ کیسے باندھ لے گا البتہ جب کوئی بدعت اختیار کرتا ہے تو چونکہ ہمارا اسکو ثقہ کہنا ہی اللہ کے لئے تھا تو اگر بدعت ایسی ہو کہ اسکی ثقاہت پر تو اثر نہیں پڑتا مگر اللہ کے حق پر اثر پڑ سکتا ہے تو اب ہم اسکی ثقاہت پر ایک اور شرط کا اضافہ کریں گے کہ اگر اسکی بدعت سے اللہ کے حق پر زیادہ اثر پڑتا ہے تو اسکی ثقاہت کارآمد نہیں رہے گی ورنہ کارآمد رہے گی
اب اس کم یا زیادہ اثر کا تعلق دعوت دین سے ہے اگر دعوت دین کو فرق پڑتا ہے تو اثر زیادہ ہے ورنہ کم
اس پر محترم خضر حیات بھائی نے پہلے بتا بھی دیا ہے کہ یہ دو اور دو چار والا معاملہ نہیں
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
اتامرون الناس بالبر والی بات کتنی دفعہ دہرا چکا ہوںپھر بھی جو نشہ لگا ہے اسکا حل شاید ممکن نہیں
اوپر آپ کو مندرجہ ذیل دو باتوں میں بے انصافی نظر آئی
1۔ایک راوی جب اپنی فیور میں بات کرے (مثلا بنو امیہ کے درباری کا بنو امیہ کے حق میں بات کرنا) تو ہم اسکو قبول کر لیتے ہیں
2۔دوسری طرف جب بدعتی اپنی بدعت کے فیور میں بات کرے تو اسکو قبول نہیں کرتے

ان اصولوں کا انصاف دیکھنا ہے تو پہلے اسکو اپنے پر اپلائی کر کے دیکھو کہ آپ کے نزدیک باقی صحابہ کی بجائے آپ کے بارہ اماموں کی بات بی حجت ہوتی ہے اور

1۔آپ ان اماموں کی اپنے بارے اچھائی بیان کرنے والی احادیث کو تو مان لیتے ہیں
2۔لیکن جو ان اماموں کو اس طرح نہیں مانتا جس طرح تم چاہتے ہو تو تم اسکی نہ تو اسکے نظریہ کے حق میں بات مانتے ہو اور نہ اسکے اس نظریے سے ہٹ کر ہی کوئی بات تسلیم کرتے ہو

بھلا زیادہ دوغلہ کون ہوا
چلیں یہ تو ہوا کہ اپنا دوغلہ پن کا اعتراف کرلیا کہ ہم کم دوغلے ہیں
 
Top