ابن ابی حاتم فرماتے ہیں:
وسألتُ أبِي عَن حدِيثٍ ؛ رواهُ الثّورِيُّ ، عن عاصِمِ بنِ كُليبٍ ، عن عَبدِ الرّحمنِ بنِ الأسودِ ، عن علقمة ، عن عَبدِ اللهِ أنَّ النّبِيّ صلى الله عليه وسلم قام فكبّر فرفع يديهِ ، ثُمّ لم يعُد.قال أبِي : هذا خطأٌ ، يُقالُ : وهِم فِيهِ الثّورِيُّ.وروى هذا الحدِيث عن عاصِمٍ جماعةٌ ، فقالُوا كُلُّهُم : أنَّ النّبِيّ صلى الله عليه وسلم افتتح فرفع يديهِ ، ثُمّ ركع فطبّق وجعلها بين رُكبتيهِ ، ولم يقُل أحدٌ ما رواهُ الثّورِيُّ.
علل الحديث [1 /96 رقم 258]
پہلی بات تو یہ کہ اس میں خطا کس سے ہوئی ابو حاتم رح نے یہ نہیں بتلایا آپ تو جانتے ہی ہیں سند میں سے ہی کسی ایک سے غلطی ہوئی ہوگی نا تو امام ابو حاتم رح نے یہ تو نہیں بتلایا تو یہ جرح مفسر کیسے ہوئی؟؟ اسے مبہم ہی کہیں گے ہوسکتا ہے آپ کہیں کے اس کے آگے لکھا تو ہے کہ
کہا جاتا ہے سفیان کو اس میں وہم ہوا یعنی "کہا جاتا ہے" کس نے کہا معلوم نہیں اگر خضر حیات صاحب اگر آپ کو معلوم ہوگا تو بتلادیں تاکہ معلوم تو ہو امیر المومنین فی الحدیث پر وہم کی جرح کرنے والا کون بندہ یے؟
شاید اسی نور العینین میں جس کا آپ حوالہ دے رہے ہیں اس میں زبیر علی زائ، محمد بن اسماعیل رح پر ابن ابی حاتم کی جرح
تکلموا فیہ کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں یہ جرح غیر مفسر ہے اور اس کا جارح نامعلوم ہے ـ کیا احناف کے لیے یہ اصول باقی نہیں رہتے یا صرف احناف کے خلاف استعمال کرنے کے لیے ہی یہ اصول ہیں کچھ تو انصاف سے کام کیجیے صاحب!
ابو حاتم رح نے ایک جماعت کا ذکر کیا جو تطبیق والی حدیث نقل کرتے ہیں لیکن جب کتب احادیث میں تلاش کیا گیا تو عاصم بن کلیب سے یہ روایت کرنے والے صرف ابن ادریس ہی ملے پتہ نہیں ابو حاتم رح نے کونسی جماعت کا تذکرہ کیا تو خضر حیات صاحب آپ بتا دیں وہ کونسی جماعت ہے ورنہ ایسی اندھی تقلید کی تو آپ زبردست مخالف ہے یہاں آپ کیوں تقلید کرنے لگ جاتے اللہ اعلم
آپ جیسے حضرات سے مجھے امید نہیں تھی کہ اس قول کو پیش کرتے ـ
اب ایک سوال اٹھتا ہے کہ عبداللہ بن ادریس کی روایت کا کیا؟؟
جسے یحی بن معین رح شعبہ رح ابو عاصم رح وغیرہ نے امیر المومنین فی الحدیث جیسے لقب سے نوازا ان کا مقابلہ ابن ادریس رح سے کیا جاسکتا ہے؟؟
زیادہ تفصیل میں نہ جاتے ہوئے حافظ ابن حجر رح کے اقوال ملاحضہ کرلیں
سفيان بن سعيد بن مسروق الثوري أبو عبد الله الكوفي ثقة حافظ فقيه عابد إمام حجة( تقریب التہذیب )
اور عبداللہ بن ادریس کے بارے میں لکھتے ہیں
عبد الله بن إدريس بن يزيد بن عبد الرحمن الأودي بسكون الواو أبو محمد الكوفي ثقة فقيه عابد( تقریب التہذیب)
آپ کے شیخ نذیر حسین دہلوی رح اپنے فتاوی ص 450 میں کہتے ہیں اگر کوئی سفیان کی مخالفت کرے گا تو سفیان کا ہی قول معتبر ہوگاـ
اب خود فیصلہ کرلیں کس کے قول کا اعتبار کیا جائیگا اور کس کی بیان کردہ حدیث معتبر ہوگی ـ