• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امت کا یہ بہترین کون شخص ہوگا جس کے ذریعہ دجال کو شکست فاش ہوگی

وجاہت

رکن
شمولیت
مئی 03، 2016
پیغامات
421
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
45
میں نے تو آپ کے سوالات کے جوابات دے دیئے ،
اب میں آپ کو یاد دلاؤں کہ بڑے دن ہوگئے آپ سے کہا تھا ،آج پھر گذارش ہے کہ :
آپ اسلامک بیلف والوں کے چاہنے والے ہیں ۔
ان سے یہ ضرور پوچھ کر بتلائیں کہ :
(۱) ان کے ہاں قرآن مجید کے بعد کونسی کتاب مستند اور معتبر ہے ،
(۲ ) اور صحابہ کرام کے بعد کوئی عالم ہے جس پر اعتماد و اعتبار کیا جاسکے ،
(۳) مصلح الحدیث میں کونسی کتاب فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہے ،

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے ان سوالوں کے جواب لئے بغیر آپ کوئی سوال یہاں نہ رکھیئے گا ،
تاکہ پتا تو چلے ۔۔ اسلامک بیلف والوں ۔۔ کا مشن کیا ہے ، اور ان کا مذہب کیا ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کے اپنے الفاظ
اب میں آپ کو یاد دلاؤں کہ بڑے دن ہوگئے آپ سے کہا تھا ،آج پھر گذارش ہے کہ :
بھائی میں نے تو آپ سے بہت کچھ پوچھا ہوا ہے - لیکن آپ نے جواب نہیں دیا - کہیں تو میں آپ کو یاد کروا دوں -


باقی آپ نے جو کچھ اسلامک بیلیف والوں سے کچھ پوچھنا ہے تو آپ خود پوچھ لیں - مجھے جو کچھ پوچھنا ہوتا ہے میں ان سے اور آپ سے کھلے عام پوچھ لیتا ہوں -

@عدیل سلفی بھائی بھی سوالات پوچھتے رہتے ہیں -

لنک

 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,717
ری ایکشن اسکور
430
پوائنٹ
197
@عدیل سلفی بھائی بھی سوالات پوچھتے رہتے ہیں -

لنک

وجاہت بھائی یہ عدیل سلفی میں نہیں ہوں جو اسلامک بلیف پر آپ نے کمنٹ دیکھا ہے میں اگر کسی ایسی سائٹ پر سوال پوچھونگا تو میرے یہ پروفائل فوٹو جو اسی فورم پر ہے اور نام عدیل خان نظر آئیگا

اور اسلامک بلیف کی پوسٹ کی تاریخ March 4, 2017 at 3:44 am ہے میرا موبائل فون تقریبا دس دن سے خراب ہے یہ پوسٹ بھی سائبر کیفے سے کر رہا ہوں

اور مجھے جو کچھ بھی پوچھنا ہوتا ہے میں اسی فورم پر پوچھ لیتا ہوں یا اردو مجلس اور صراط الہدی فورم پر پوچھتا ہوں

والسلام
untitled.PNG
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
باقی آپ نے جو کچھ اسلامک بیلیف والوں سے کچھ پوچھنا ہے تو آپ خود پوچھ لیں - مجھے جو کچھ پوچھنا ہوتا ہے میں ان سے اور آپ سے کھلے عام پوچھ لیتا ہوں -
ما شاء اللہ
مجھے یہی توقع تھی ، اسلامی بیلف کے نمائندے سے ۔
اسلامیک بیلف والے صرف محدثین کرام کے خلاف بدگمانیاں ، اور اپنی جہالت نشر کرسکتے ہیں ، کسی سوال کا جواب تو درکنار ۔۔ سوال سمجھ بھی نہیں سکتے ۔
وہاں کس درجہ جہالت ہے اس کا اندازہ ابھی پچھلی پوسٹ میں عدیل سلفی بھائی کے امیج سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے ،
بے چارے پتا نہیں کس مذہب کے پیروکار ہیں ، سلام کے الفاظ تک لکھنے بولنے نہیں آتے ،
اور جرات یہ کہ محدثین کی مساعی پر سوال اٹھاتے ہیں ، سبحان اللہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چلیں ان سے پوچھنے کی جراءت تو آپ نہ کرسکے ۔
اتنا تو کرسکتے ہیں کہ خود ہی ان سوالوں کے جواب دے دیں ۔ یعنی ان تین بنیادی امور پر آپ کا موقف کیا ہے ؟
اپنے موقف کے متعلق جواب دینے میں تو آپ کو کوئی جھجک نہیں ہونی چاہیئے ،
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
’ شریعت ‘ اور ’ فلسفیانہ ‘ مزاج میں ایک تگڑی حد فاصل ہے : شریعت مختصر اور مدلل بات کرتی ہے ، قیل و قال میں پڑنا شریعت کا مزاج نہیں ۔ فلسفیانہ مزاج اس کے برعکس ہے ۔
شریعت جو کچھ ہے ، بتادیتی ہے ۔ اس کے بعد ایسے کیوں نہیں ؟ ویسے کیوں نہیں ؟ یہ بھی تو ہو سکتا ہے ؟ ویسے کا بھی امکان ہے ؟ یہ انداز فلسفے کا ہے ، اسی لیے آپ دیکھیں شرعی علوم کے ماہرین مطمئن رہتے ہیں ، جبکہ محض فلسفیانہ مزاج والے ایک الجھن سے نکل کر دوسری میں پھنس جاتے ہیں ۔
شریعت میں اہمیت ’ دلیل ‘ کی ہے ، ان کے ہاں اہمیت ’ احتمال ‘ کی ہے ۔ آپ پینتیس دلیلیں دے لیں ، یہ ان سب کا جواب ایک ’ احتمال پیدا کرنا ‘ ہی سمجھتے ہوں گے ۔
مثال لے لیں :
ایک راوی پر چودہ صدیوں سے ہزاروں لوگ مطمئن ہیں ، انہوں نے اس کی بات کی تصدیق کی ہے ، یہ بات ان کے لیے کافی نہیں ، کیوں ؟ صرف اس لیے کہ راوی میں جھوٹ اور سچ کا احتمال موجود ہوتا ہے ۔ :)
علم کی خدمت شبہات کا حل ہے ، یہ لوگ شبہے چھوڑنے کا علم کی معراج سمجھتے ہیں ۔
حرف اعتذار : جس سوچ کا آج کل ہمیں سامنا ، اسے ’ فلسفیانہ ‘ کہنا بھی شاید فلسفے کے ساتھ زیادتی ہو ، لیکن مجھے کوئی اس سے مناسب تعبیر نہیں مل سکی ۔
 
Last edited:

وجاہت

رکن
شمولیت
مئی 03، 2016
پیغامات
421
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
45
ما شاء اللہ
مجھے یہی توقع تھی ، اسلامی بیلف کے نمائندے سے ۔
اسلامیک بیلف والے صرف محدثین کرام کے خلاف بدگمانیاں ، اور اپنی جہالت نشر کرسکتے ہیں ، کسی سوال کا جواب تو درکنار ۔۔ سوال سمجھ بھی نہیں سکتے ۔
وہاں کس درجہ جہالت ہے اس کا اندازہ ابھی پچھلی پوسٹ میں عدیل سلفی بھائی کے امیج سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے ،
بے چارے پتا نہیں کس مذہب کے پیروکار ہیں ، سلام کے الفاظ تک لکھنے بولنے نہیں آتے ،
اور جرات یہ کہ محدثین کی مساعی پر سوال اٹھاتے ہیں ، سبحان اللہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چلیں ان سے پوچھنے کی جراءت تو آپ نہ کرسکے ۔
اتنا تو کرسکتے ہیں کہ خود ہی ان سوالوں کے جواب دے دیں ۔ یعنی ان تین بنیادی امور پر آپ کا موقف کیا ہے ؟
اپنے موقف کے متعلق جواب دینے میں تو آپ کو کوئی جھجک نہیں ہونی چاہیئے ،
میں کہیں بھی سوال پوچھ سکتا ہوں - میں آپ کا یا کسی اور کا پابند نہیں ہوں - آپ خود تو جواب دیتے نہیں - پھر گلہ بھی کرتے ہیں کہ میں جواب نہیں دیتا -

پوسٹ نمبر ١٢ کے پوچھے گیۓ سوالات کا جواب آپ دیتے نہیں - ممکن ہے کہ آپ اس وجہ سے جواب نہ دیتے ہوں - کیوں کہ

صحیح بخاری میں ایک حدیث کے الفاظ ہیں کہ

سعید بن عفیر نے ہم سے بیان کیا، ان سے لیث نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمن بن خالد بن مسافر نے ابن شہاب کے واسطے سے بیان کیا، انھوں نے سالم اور ابوبکر بن سلیمان بن ابی حثمہ سے روایت کیا کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ آخر عمر میں ( ایک دفعہ ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں عشاء کی نماز پڑھائی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا تو کھڑے ہو گئے اور فرمایا کہ تمہاری آج کی رات وہ ہے کہ اس رات سے سو برس کے آخر تک کوئی شخص جو زمین پر ہے وہ باقی نہیں رہے گا۔

یہی بات صحیح بخاری حدیث نمبر ١١٦ اور ١٠٦ میں بیان ہوئی ہے - صحیح مسلم میں حدیث نمبر ٦٤٧٩
اور سنن ابو داوود حدیث نمبر ٤٣٤٨ اور ترمزی میں حدیث نمبر ٢٢٥١ میں بیان ہوئی ہے-

اب ان احادیث کی روشنی میں کوئی بھی انسان جو اس وقت زندہ تھا جب حضور صلی الله علیہ وسلم نے یہ حدیث بیان کی وہ سو سال بعد باقی نہیں رہا -

اب دوسری طرف صحیح مسلم کی یہ حدیث ہے


7386 . حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ بْنِ عَبْدِ الْوَارِثِ وَحَجَّاجُ بْنُ الشَّاعِرِ كِلَاهُمَا عَنْ عَبْدِ الصَّمَدِ وَاللَّفْظُ لِعَبْدِ الْوَارِثِ بْنِ عَبْدِ الصَّمَدِ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ جَدِّي عَنْ الْحُسَيْنِ بْنِ ذَكْوَانَ حَدَّثَنَا ابْنُ بُرَيْدَةَ حَدَّثَنِي عَامِرُ بْنُ شَرَاحِيلَ الشَّعْبِيُّ شَعْبُ هَمْدَانَ أَنَّهُ سَأَلَ فَاطِمَةَ بِنْتَ قَيْسٍ أُخْتَ الضَّحَّاكِ بْنِ قَيْسٍ وَكَانَتْ مِنْ الْمُهَاجِرَاتِ الْأُوَلِ فَقَالَ حَدِّثِينِي حَدِيثًا سَمِعْتِيهِ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تُسْنِدِيهِ إِلَى أَحَدٍ غَيْرِهِ فَقَالَتْ لَئِنْ شِئْتَ لَأَفْعَلَنَّ فَقَالَ لَهَا أَجَلْ حَدِّثِينِي فَقَالَتْ نَكَحْتُ ابْنَ الْمُغِيرَةِ وَهُوَ مِنْ خِيَارِ شَبَابِ قُرَيْشٍ يَوْمَئِذٍ فَأُصِيبَ فِي أَوَّلِ الْجِهَادِ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا تَأَيَّمْتُ خَطَبَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ فِي نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَخَطَبَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى مَوْلَاهُ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ وَكُنْتُ قَدْ حُدِّثْتُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ أَحَبَّنِي فَلْيُحِبَّ أُسَامَةَ فَلَمَّا كَلَّمَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْتُ أَمْرِي بِيَدِكَ فَأَنْكِحْنِي مَنْ شِئْتَ فَقَالَ انْتَقِلِي إِلَى أُمِّ شَرِيكٍ وَأُمُّ شَرِيكٍ امْرَأَةٌ غَنِيَّةٌ مِنْ الْأَنْصَارِ عَظِيمَةُ النَّفَقَةِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يَنْزِلُ عَلَيْهَا الضِّيفَانُ فَقُلْتُ سَأَفْعَلُ فَقَالَ لَا تَفْعَلِي إِنَّ أُمَّ شَرِيكٍ امْرَأَةٌ كَثِيرَةُ الضِّيفَانِ فَإِنِّي أَكْرَهُ أَنْ يَسْقُطَ عَنْكِ خِمَارُكِ أَوْ يَنْكَشِفَ الثَّوْبُ عَنْ سَاقَيْكِ فَيَرَى الْقَوْمُ مِنْكِ بَعْضَ مَا تَكْرَهِينَ وَلَكِنْ انْتَقِلِي إِلَى ابْنِ عَمِّكِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ وَهُوَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي فِهْرٍ فِهْرِ قُرَيْشٍ وَهُوَ مِنْ الْبَطْنِ الَّذِي هِيَ مِنْهُ فَانْتَقَلْتُ إِلَيْهِ فَلَمَّا انْقَضَتْ عِدَّتِي سَمِعْتُ نِدَاءَ الْمُنَادِي مُنَادِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُنَادِي الصَّلَاةَ جَامِعَةً فَخَرَجْتُ إِلَى الْمَسْجِدِ فَصَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكُنْتُ فِي صَفِّ النِّسَاءِ الَّتِي تَلِي ظُهُورَ الْقَوْمِ فَلَمَّا قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاتَهُ جَلَسَ عَلَى الْمِنْبَرِ وَهُوَ يَضْحَكُ فَقَالَ لِيَلْزَمْ كُلُّ إِنْسَانٍ مُصَلَّاهُ ثُمَّ قَالَ أَتَدْرُونَ لِمَ جَمَعْتُكُمْ قَالُوا اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ إِنِّي وَاللَّهِ مَا جَمَعْتُكُمْ لِرَغْبَةٍ وَلَا لِرَهْبَةٍ وَلَكِنْ جَمَعْتُكُمْ لِأَنَّ تَمِيمًا الدَّارِيَّ كَانَ رَجُلًا نَصْرَانِيًّا فَجَاءَ فَبَايَعَ وَأَسْلَمَ وَحَدَّثَنِي حَدِيثًا وَافَقَ الَّذِي كُنْتُ أُحَدِّثُكُمْ عَنْ مَسِيحِ الدَّجَّالِ حَدَّثَنِي أَنَّهُ رَكِبَ فِي سَفِينَةٍ بَحْرِيَّةٍ مَعَ ثَلَاثِينَ رَجُلًا مِنْ لَخْمٍ وَجُذَامَ فَلَعِبَ بِهِمْ الْمَوْجُ شَهْرًا فِي الْبَحْرِ ثُمَّ أَرْفَئُوا إِلَى جَزِيرَةٍ فِي الْبَحْرِ حَتَّى مَغْرِبِ الشَّمْسِ فَجَلَسُوا فِي أَقْرُبْ السَّفِينَةِ فَدَخَلُوا الْجَزِيرَةَ فَلَقِيَتْهُمْ دَابَّةٌ أَهْلَبُ كَثِيرُ الشَّعَرِ لَا يَدْرُونَ مَا قُبُلُهُ مِنْ دُبُرِهِ مِنْ كَثْرَةِ الشَّعَرِ فَقَالُوا وَيْلَكِ مَا أَنْتِ فَقَالَتْ أَنَا الْجَسَّاسَةُ قَالُوا وَمَا الْجَسَّاسَةُ قَالَتْ أَيُّهَا الْقَوْمُ انْطَلِقُوا إِلَى هَذَا الرَّجُلِ فِي الدَّيْرِ فَإِنَّهُ إِلَى خَبَرِكُمْ بِالْأَشْوَاقِ قَالَ لَمَّا سَمَّتْ لَنَا رَجُلًا فَرِقْنَا مِنْهَا أَنْ تَكُونَ شَيْطَانَةً قَالَ فَانْطَلَقْنَا سِرَاعًا حَتَّى دَخَلْنَا الدَّيْرَ فَإِذَا فِيهِ أَعْظَمُ إِنْسَانٍ رَأَيْنَاهُ قَطُّ خَلْقًا وَأَشَدُّهُ وِثَاقًا مَجْمُوعَةٌ يَدَاهُ إِلَى عُنُقِهِ مَا بَيْنَ رُكْبَتَيْهِ إِلَى كَعْبَيْهِ بِالْحَدِيدِ قُلْنَا وَيْلَكَ مَا أَنْتَ قَالَ قَدْ قَدَرْتُمْ عَلَى خَبَرِي فَأَخْبِرُونِي مَا أَنْتُمْ قَالُوا نَحْنُ أُنَاسٌ مِنْ الْعَرَبِ رَكِبْنَا فِي سَفِينَةٍ بَحْرِيَّةٍ فَصَادَفْنَا الْبَحْرَ حِينَ اغْتَلَمَ فَلَعِبَ بِنَا الْمَوْجُ شَهْرًا ثُمَّ أَرْفَأْنَا إِلَى جَزِيرَتِكَ هَذِهِ فَجَلَسْنَا فِي أَقْرُبِهَا فَدَخَلْنَا الْجَزِيرَةَ فَلَقِيَتْنَا دَابَّةٌ أَهْلَبُ كَثِيرُ الشَّعَرِ لَا يُدْرَى مَا قُبُلُهُ مِنْ دُبُرِهِ مِنْ كَثْرَةِ الشَّعَرِ فَقُلْنَا وَيْلَكِ مَا أَنْتِ فَقَالَتْ أَنَا الْجَسَّاسَةُ قُلْنَا وَمَا الْجَسَّاسَةُ قَالَتْ اعْمِدُوا إِلَى هَذَا الرَّجُلِ فِي الدَّيْرِ فَإِنَّهُ إِلَى خَبَرِكُمْ بِالْأَشْوَاقِ فَأَقْبَلْنَا إِلَيْكَ سِرَاعًا وَفَزِعْنَا مِنْهَا وَلَمْ نَأْمَنْ أَنْ تَكُونَ شَيْطَانَةً فَقَالَ أَخْبِرُونِي عَنْ نَخْلِ بَيْسَانَ قُلْنَا عَنْ أَيِّ شَأْنِهَا تَسْتَخْبِرُ قَالَ أَسْأَلُكُمْ عَنْ نَخْلِهَا هَلْ يُثْمِرُ قُلْنَا لَهُ نَعَمْ قَالَ أَمَا إِنَّهُ يُوشِكُ أَنْ لَا تُثْمِرَ قَالَ أَخْبِرُونِي عَنْ بُحَيْرَةِ الطَّبَرِيَّةِ قُلْنَا عَنْ أَيِّ شَأْنِهَا تَسْتَخْبِرُ قَالَ هَلْ فِيهَا مَاءٌ قَالُوا هِيَ كَثِيرَةُ الْمَاءِ قَالَ أَمَا إِنَّ مَاءَهَا يُوشِكُ أَنْ يَذْهَبَ قَالَ أَخْبِرُونِي عَنْ عَيْنِ زُغَرَ قَالُوا عَنْ أَيِّ شَأْنِهَا تَسْتَخْبِرُ قَالَ هَلْ فِي الْعَيْنِ مَاءٌ وَهَلْ يَزْرَعُ أَهْلُهَا بِمَاءِ الْعَيْنِ قُلْنَا لَهُ نَعَمْ هِيَ كَثِيرَةُ الْمَاءِ وَأَهْلُهَا يَزْرَعُونَ مِنْ مَائِهَا قَالَ أَخْبِرُونِي عَنْ نَبِيِّ الْأُمِّيِّينَ مَا فَعَلَ قَالُوا قَدْ خَرَجَ مِنْ مَكَّةَ وَنَزَلَ يَثْرِبَ قَالَ أَقَاتَلَهُ الْعَرَبُ قُلْنَا نَعَمْ قَالَ كَيْفَ صَنَعَ بِهِمْ فَأَخْبَرْنَاهُ أَنَّهُ قَدْ ظَهَرَ عَلَى مَنْ يَلِيهِ مِنْ الْعَرَبِ وَأَطَاعُوهُ قَالَ لَهُمْ قَدْ كَانَ ذَلِكَ قُلْنَا نَعَمْ قَالَ أَمَا إِنَّ ذَاكَ خَيْرٌ لَهُمْ أَنْ يُطِيعُوهُ وَإِنِّي مُخْبِرُكُمْ عَنِّي إِنِّي أَنَا الْمَسِيحُ وَإِنِّي أُوشِكُ أَنْ يُؤْذَنَ لِي فِي الْخُرُوجِ فَأَخْرُجَ فَأَسِيرَ فِي الْأَرْضِ فَلَا أَدَعَ قَرْيَةً إِلَّا هَبَطْتُهَا فِي أَرْبَعِينَ لَيْلَةً غَيْرَ مَكَّةَ وَطَيْبَةَ فَهُمَا مُحَرَّمَتَانِ عَلَيَّ كِلْتَاهُمَا كُلَّمَا أَرَدْتُ أَنْ أَدْخُلَ وَاحِدَةً أَوْ وَاحِدًا مِنْهُمَا اسْتَقْبَلَنِي مَلَكٌ بِيَدِهِ السَّيْفُ صَلْتًا يَصُدُّنِي عَنْهَا وَإِنَّ عَلَى كُلِّ نَقْبٍ مِنْهَا مَلَائِكَةً يَحْرُسُونَهَا قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَطَعَنَ بِمِخْصَرَتِهِ فِي الْمِنْبَرِ هَذِهِ طَيْبَةُ هَذِهِ طَيْبَةُ هَذِهِ طَيْبَةُ يَعْنِي الْمَدِينَةَ أَلَا هَلْ كُنْتُ حَدَّثْتُكُمْ ذَلِكَ فَقَالَ النَّاسُ نَعَمْ فَإِنَّهُ أَعْجَبَنِي حَدِيثُ تَمِيمٍ أَنَّهُ وَافَقَ الَّذِي كُنْتُ أُحَدِّثُكُمْ عَنْهُ وَعَنْ الْمَدِينَةِ وَمَكَّةَ أَلَا إِنَّهُ فِي بَحْرِ الشَّأْمِ أَوْ بَحْرِ الْيَمَنِ لَا بَلْ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ مَا هُوَ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ مَا هُوَ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ مَا هُوَ وَأَوْمَأَ بِيَدِهِ إِلَى الْمَشْرِقِ قَالَتْ فَحَفِظْتُ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

حکم : صحیح

ابن بریدہ نے ہمیں حدیث بیان کی،کہا:مجھے عامر بن شراحیل شعبی نے جن کا تعلق شعب ہمدان سے تھا،حدیث بیان کی ،انھوں نے ضحاک بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہمشیرہ سید ہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سوال کیا،وہ اولین ہجرت کرنے والوں میں سے تھیں کہ آپ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی حدیث بیان کریں جو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے(بلاواسطہ) سنی ہو۔وہ بولیں کہ اچھا، اگر تم یہ چاہتے ہو تو میں بیان کروں گی۔ انہوں نے کہا کہ ہاں بیان کرو۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں نے ابن مغیرہ سے نکاح کیا اور وہ ان دنوں قریش کے عمدہ جوانوں میں سے تھے، پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پہلے ہی جہاد میں شہید ہو گئے۔ جب میں بیوہ ہو گئی تو مجھے عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے چند کے ساتھ آ کر نکاح کا پیغام دیا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مولیٰ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کے لئے پیغام بھیجا۔ اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ حدیث سن چکی تھی کہ جو شخص مجھ سے محبت رکھے، اس کو چاہئے کہ اسامہ رضی اللہ عنہ سے بھی محبت رکھے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے اس بارے میں گفتگو کی تو میں نے کہا کہ میرے کام کا اختیار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم جس سے چاہیں نکاح کر دیجئیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم ام شریک کے گھر چلی جاؤ اور ام شریک انصار میں ایک مالدار عورت تھی اور اللہ کی راہ میں بہت زیادہ خرچ کرتی تھیں، اس کے پاس مہمان اترتے تھے۔ میں نے عرض کیا کہ بہت اچھا، میں ام شریک کے پاس چلی جاؤں گی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ام شریک کے پاس مت جا اس کے پاس مہمان بہت آتے ہیں اور مجھے برا معلوم ہوتا ہے کہ کہیں تیری اوڑھنی گر جائے یا تیری پنڈلیوں پر سے کپڑا ہٹ جائے اور لوگ تیرے بدن میں سے وہ دیکھیں جو تجھے برا لگے گا۔ تم اپنے چچا کے بیٹے عبداللہ بن عمرو ابن ام مکتوم کے پاس چلی جاؤ اور وہ بنی فہر میں سے ایک شخص تھا اور فہر قریش کی ایک شاخ ہے اور وہ اس قبیلہ میں سے تھا جس میں سے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں۔ پھر سیدہ فاطمہ نے کہا کہ میں ان کے گھر میں چلی گئی۔ جب میری عدت گزر گئی تو میں نے پکارنے والے کی آواز سنی اور وہ پکارنے والا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منادی تھا، وہ پکار رہا تھا کہ نماز کے لئے جمع ہو جاؤ۔ میں بھی مسجد کی طرف نکلی اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی۔ میں اس صف میں تھی جس میں عورتیں لوگوں کے پیچھے تھیں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھ لی تو منبر پر بیٹھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر ایک آدمی اپنی نماز کی جگہ پر رہے۔ پھر فرمایا کہ تم جانتے ہو کہ میں نے تمہیں کیوں اکٹھا کیا ہے؟ صحابہ بولے کہ اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم خوب جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کی قسم میں نے تمہیں رغبت دلانے یا ڈرانے کے لئے جمع نہیں کیا، بلکہ اس لئے جمع کیا کہ تمیم داری ایک نصرانی تھا، وہ آیا اور اس نے بیعت کی اور مسلمان ہوا اور مجھ سے ایک حدیث بیان کی جو اس حدیث کے موافق ہے جو میں تم سے دجال کے بارے میں بیان کیا کرتا تھا۔ اس نے بیان کیا کہ وہ یعنی تمیم سمندر کے جہاز میں تیس آدمیوں کے ساتھ سوار ہوا جو لخم اور جذام کی قوم میں سے تھے، پس ان سے ایک مہینہ بھر سمندر کی لہریں کھیلتی رہیں۔ پھر وہ لوگ سمندر میں ڈوبتے سورج کی طرف ایک جزیرے کے کنارے جا لگے۔ پس وہ جہاز سے پلوار (یعنی چھوٹی کشتی) میں بیٹھے اور جزیرے میں داخل ہو گئے وہاں ان کو ایک جانور ملا جو کہ بھاری دم، بہت بالوں والا کہ اس کا اگلا پچھلا حصہ بالوں کے ہجوم سے معلوم نہ ہوتا تھا۔ لوگوں نے اس سے کہا کہ اے کمبخت تو کیا چیز ہے؟ اس نے کہا کہ میں جاسوس ہوں۔ لوگوں نے کہا کہ جاسوس کیا؟ اس نے کہا کہ اس
مرد کے پاس چلو جو دیر میں ہے، کہ وہ تمہاری خبر کا بہت مشتاق ہے۔ تمیم رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جب اس نے مرد کا نام لیا تو ہم اس جانور سے ڈرے کہ کہیں شیطان نہ ہو۔ تمیم نے کہا کہ پھر ہم دوڑتے ہوئے (یعنی جلدی) دیر میں داخل ہوئے۔ دیکھا تو وہاں ایک بڑے قد کا آدمی ہے کہ ہم نے اتنا بڑا آدمی اور ویسا سخت جکڑا ہوا کبھی نہیں دیکھا۔ اس کے دونوں ہاتھ گردن کے ساتھ بندھے ہوئے تھے اور دونوں زانوں سے ٹخنوں تک لوہے سے جکڑا ہوا تھا۔ ہم نے کہا کہ اے کمبخت! تو کیا چیز ہے؟ اس نے کہا تم میری خبر پر قابو پا گئے ہو (یعنی میرا حال تو تم کو اب معلوم ہو جائے گا)، تم اپنا حال بتاؤ کہ تم کون ہو؟ لوگوں نے کہا کہ ہم عرب لوگ ہیں، سمندر میں جہاز میں سوار ہوئے تھے، لیکن جب ہم سوار ہوئے تو سمندر کو جوش میں پایا پھر ایک مہینے کی مدت تک لہر ہم سے کھیلتی رہی، پھر ہم اس جزیرے میں آ لگے تو چھوٹی کشتی میں بیٹھ کر جزیرے میں داخل ہوئے، پس ہمیں ایک بھاری دم کا اور بہت بالوں والا جانور ملا، ہم اس کے بالوں کی کثرت کی وجہ سے اس کا اگلا پچھلا حصہ نہ پہچانتے تھے۔ ہم نے اس سے کہا کہ اے کمبخت! تو کیا چیز ہے؟ اس نے کہا کہ میں جاسوس ہوں۔ ہم نے کہا کہ جاسوس کیا؟ اس نے کہا کہ اس مرد کے پاس چلو جو دیر میں ہے اور وہ تمہاری خبر کا بہت مشتاق ہے۔ پس ہم تیری طرف دوڑتے ہوئے آئے اور ہم اس سے ڈرے کہ کہیں بھوت پریت نہ ہو۔ پھر اس مرد نے کہا کہ مجھے بیسان کے نخلستان کی خبر دو۔ ہم نے کہا کہ تو اس کا کون سا حال پوچھتا ہے؟ اس نے کہا کہ میں اس کے نخلستان کے بارے میں پوچھتا ہوں کہ پھلتا ہے؟ ہم نے اس سے کہا کہ ہاں پھلتا ہے۔ اس نے کہا کہ خبردار رہو عنقریب وہ نہ پھلے گا۔ اس نے کہا کہ مجھے طبرستان کے دریا کے بارے میں بتلاؤ۔ ہم نے کہا کہ تو اس دریا کا کون سا حال پوچھتا ہے؟ وہ بولا کہ اس میں پانی ہے؟ لوگوں نے کہا کہ اس میں بہت پانی ہے۔ اس نے کہا کہ البتہ اس کا پانی عنقریب ختم ہو جائے گا۔ پھر اس نے کہا کہ مجھے زغر کے چشمے کے بارے میں خبر دو۔ لوگوں نے کہا کہ اس کا کیا حال پوچھتا ہے؟ اس نے کہا کہ اس چشمہ میں پانی ہے اور وہاں کے لوگ اس پانی سے کھیتی کرتے ہیں؟ ہم نے اس سے کہا کہ ہاں! اس میں بہت پانی ہے اور وہاں کے لوگ اس کے پانی سے کھیتی کرتے ہیں۔ اس نے کہا کہ مجھے امییّن کے پیغمبر کے بارے میں خبر دو کہ وہ کیا رہے؟ لوگوں نے کہا کہ وہ مکہ سے نکلے ہیں اور مدینہ میں گئے ہیں۔ اس نے کہا کہ کیا عرب کے لوگ ان سے لڑے؟ ہم نے کہا کہ ہاں۔ اس نے کہا کہ انہوں نے عربوں کے ساتھ کیا کیا؟ ہم نے کہا کہ وہ اپنے گرد و پیش کے عربوں پر غالب ہوئے اور انہوں نے ان کی اطاعت کی۔ اس نے کہا کہ یہ بات ہو چکی؟ ہم نے کہا کہ ہاں۔ اس نے کہا کہ خبردار رہو یہ بات ان کے حق میں بہتر ہے کہ پیغمبر کے تابعدار ہوں۔ اور البتہ میں تم سے اپنا حال کہتا ہوں کہ میں مسیح (دجال) ہوں۔ اور البتہ وہ زمانہ قریب ہے کہ جب مجھے نکلنے کی اجازت ہو گی۔ پس میں نکلوں گا اور سیر کروں گا اور کسی بستی کو نہ چھوڑوں گا جہاں چالیس رات کے اندر نہ جاؤں، سوائے مکہ اور طیبہ کے، کہ وہاں جانا مجھ پر حرام ہے یعنی منع ہے۔ جب میں ان دونوں بستیوں میں سے کسی کے اندر جانا چاہوں گا تو میرے آگے ایک فرشتہ بڑھ آئے گا اور اس کے ہاتھ میں ننگی تلوار ہو گی، وہ مجھے وہاں جانے سے روک دے گا اور البتہ اس کے ہر ایک ناکہ پر فرشتے ہوں گے جو اس کی چوکیداری کریں گے۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چھڑی منبر پر مار کر فرمایا کہ طیبہ یہی ہے، طیبہ یہی ہے، طیبہ یہی ہے۔ یعنی طیبہ سے مراد مدینہ منورہ ہے۔ خبردار رہو! بھلا میں تم کو اس حال کی خبر دے نہیں چکا ہوں؟ تو اصحاب نے کہا کہ ہاں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے تمیم رضی اللہ عنہ کی بات اچھی لگی جو اس چیز کے موافق ہوئی جو میں نے تم لوگوں سے دجال اور مدینہ اور مکہ کے حال سے فرما دیا تھا۔ خبردار ہو کہ وہ شام یا یمن کے سمندر میں ہے؟ نہیں بلکہ وہ مشرق کی طرف ہے، وہ مشرق کی طرف ہے، وہ مشرق کی طرف ہے (مشرق کی طرف بحر ہند ہے شاید دجال بحر ہند کے کسی جزیرہ میں ہو) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرق کی طرف اشارہ کیا۔ سیدہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا نے کہا کہ یہ حدیث میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یاد رکھی ہے۔

اب حضور صلی الله وسلم کا یہ فرمانا کہ
تمہاری آج کی رات وہ ہے کہ اس رات سے سو برس کے آخر تک کوئی شخص جو زمین پر ہے وہ باقی نہیں رہے گا۔

اس کی روشنی میں صحیح مسلم کی حدیث جو اوپر بیان ہوئی ہے- اس میں جو ذکر ہے ہے کہ


وہاں ایک بڑے قد کا آدمی ہے کہ ہم نے اتنا بڑا آدمی اور ویسا سخت جکڑا ہوا کبھی نہیں دیکھا

اور پھر بیان ہوا کہ


میں مسیح (دجال) ہوں۔ اور البتہ وہ زمانہ قریب ہے کہ جب مجھے نکلنے کی اجازت ہو گی۔ پس میں نکلوں گا اور سیر کروں گا

ایک دجال جو ایک انسان ہے - کیسے زمانہ قریب تک جو اوپر بیان ہوا ہے - زندہ رہ سکتا ہے -

فضيلة الشيخ محمد بن صالح العثيمين سے سوال ہوا اور وہ بھی اس حدیث پر کہہ چکے ہیں کہ
حديث تميم الداري في ذكر الجساسة في نفسي منه شيء، هل هو من تعبير الرسول – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – أو لا

سئل فضيلة الشيخ: ذكرتم في الفتوى السابقة رقم “147”: أن الدجال غير موجود الآن، وهذا الكلام ظاهره يتعارض مع حديث فاطمة بنت قيس في الصحيح، عن قصة تميم الداري، فنرجو من فضيلتكم التكرم بتوضيح ذلك؟ .
فأجاب بقوله: ذكرنا هذا مستدلين بما ثبت في الصحيحين، عن النبي – صلى الله عليه وآله وسلم -، قال: «إنه على رأس مائة سنة لا يبقى على وجه الأرض ممن هو عليها اليوم أحد» .
فإذا طبقنا هذا الحديث على حديث تميم الداري صار معارضا له؛ لأن ظاهر حديث تميم الداري أن هذا الدجال يبقى حتى يخرج، فيكون معارضا لهذا الحديث الثابت في الصحيحين، وأيضا فإن سياق حديث تميم الداري في ذكر الجساسة في نفسي منه شيء، هل هو من تعبير الرسول – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – أو لا


شیخ محمد بن صالح العثيمين سے سوال ہوا : اپ نے ذکر کیا کہ دجال ابھی موجود نہیں ہے اور اپ کا کلام حدیث فاطمہ بنت قیس سے معارض ہے جو صحیح میں ہے روایت کیا ہے قصہ تمیم الداری کا پس ہم اپ کی توضیح اس پر چاہتے ہیں

پس شیخ نے جواب دیا : ہم نے ذکر کیا جو دلیل کرتا ہے صحیح میں ثابت قول ہے نبی صلی الله علیہ وسلم سے کہ ١٠٠ سال کے پورا ہونے پر زمین پر کوئی زندہ نہ رہے گا – پس جب اس حدیث کو تمیم داری کی حدیث پر رکھتے ہیں تو یہ اس سے متعارض ہے جو صحیحین میں ثابت ہے اور ساتھ ہی اس حدیث میں جاسوس کا ذکر ہے جس سے دل میں چیز ہے کہ یہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی تعبیر تھی بھی یا نہیں


اور


عرب محقق دکتور حاكم المطيري کی تحقیق کے ساتھ کتاب

٢٠٠٩ چھپی ہے جس میں اس روایت کو معلول کہا گیا ہے اس میں اس کے تمام طرق جمع کیے گئے ہیں-

اور

مودودی صاحب (ترجمان القرآن۔ربیع الاول ۴۵ھ؍ فروری۴۶ء) سے سوال ہوا تو انھوں نے کہا

میں نے جس چیز کو افسانہ قرار دیا ہے وہ یہ خیال ہے کہ دجال کہیں مقید ہے




پوری بات آپ لوگوں کے سامنے ہے - اب اس پر مزید بحث کرنے کا فائدہ نہیں - ہدایت الله کے ہاتھ میں ہے -
 

وجاہت

رکن
شمولیت
مئی 03، 2016
پیغامات
421
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
45
ایک راوی پر چودہ صدیوں سے ہزاروں لوگ مطمئن ہیں ، انہوں نے اس کی بات کی تصدیق کی ہے ، یہ بات ان کے لیے کافی نہیں ، کیوں ؟ صرف اس لیے کہ راوی میں جھوٹ اور سچ کا احتمال موجود ہوتا ہے ۔ :)
علم کی خدمت شبہات کا حل ہے ، یہ لوگ شبہے چھوڑنے کا علم کی معراج سمجھتے ہیں ۔
حرف اعتذار : جس سوچ کا آج کل ہمیں سامنا ، اسے ’ فلسفیانہ ‘ کہنا بھی شاید فلسفے کے ساتھ زیادتی ہو ، لیکن مجھے کوئی اس سے مناسب تعبیر نہیں مل سکی ۔
ہاں جی @خضر حیات بھائی - کیا حال ہے آپ کا - الله آپ کو لمبی زندگی دے - آمین -

میں نے جو حدیث پیش کی تھی وہ یہ ہے

7132 . حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ أَنَّ أَبَا سَعِيدٍ قَالَ حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا حَدِيثًا طَوِيلًا عَنْ الدَّجَّالِ فَكَانَ فِيمَا يُحَدِّثُنَا بِهِ أَنَّهُ قَالَ يَأْتِي الدَّجَّالُ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْهِ أَنْ يَدْخُلَ نِقَابَ الْمَدِينَةِ فَيَنْزِلُ بَعْضَ السِّبَاخِ الَّتِي تَلِي الْمَدِينَةَ فَيَخْرُجُ إِلَيْهِ يَوْمَئِذٍ رَجُلٌ وَهُوَ خَيْرُ النَّاسِ أَوْ مِنْ خِيَارِ النَّاسِ فَيَقُولُ أَشْهَدُ أَنَّكَ الدَّجَّالُ الَّذِي حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثَهُ فَيَقُولُ الدَّجَّالُ أَرَأَيْتُمْ إِنْ قَتَلْتُ هَذَا ثُمَّ أَحْيَيْتُهُ هَلْ تَشُكُّونَ فِي الْأَمْرِ فَيَقُولُونَ لَا فَيَقْتُلُهُ ثُمَّ يُحْيِيهِ فَيَقُولُ وَاللَّهِ مَا كُنْتُ فِيكَ أَشَدَّ بَصِيرَةً مِنِّي الْيَوْمَ فَيُرِيدُ الدَّجَّالُ أَنْ يَقْتُلَهُ فَلَا يُسَلَّطُ عَلَيْهِ

حکم : صحیح

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبردی، انہیں زہری نے، انہیں عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے خبردی، ان سے ابوسعید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے دجال کے متعلق ایک طویل بیان کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں یہ بھی تھا کہ آپ نے فرمایا دجال آئے گا اور اس کے لیے ناممکن ہوگا کہ مدینہ کی گھاٹیوں میں داخل ہو۔ چنانچہ وہ مدینہ منورہ کے قریب کسی شور زمین پر قیام کرے گا۔ پھر اس دن اس کے پاس ایک مرد مومن جائے گا اور وہ افضل ترین لوگوں میں سے ہوگا۔ اور اس سے کہے گا کہ میں گواہی دیتا ہوں اس بات کی جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے بیان فرمایا تھا۔ اس پر دجال کہے گا کیا تم دیکھتے ہو اگر میں اسے قتل کردوں اور پھر زندہ کروں تو کیا تمہیں میرے معاملہ میں شک و شبہ باقی رہےگا؟ اس کے پاس والے لوگ کہیں گے کہ نہیں چنانچہ وہ اس صاحب کو قتل کردے گا اور پھر اسے زندہ کردے گا۔ اب وہ صاحب کہیں گے کہ واللہ! آج سے زیادہ مجھے تیرے معاملے میں پہلے اتنی بصیرت حاصل نہ تھی۔ اس پر دجال پھر انہیںقتل کرنا چاہے گا لیکن اس مرتبہ اسے مارنہ سکے گا۔
اور پوچھا تھا کہ
امت کا یہ بہترین شخص ہوگا جس کے ذریعہ دجال کو شکست فاش ہوگی۔

یہ کون ہو گا

اس حدیث کی شرح میں کیا کہا گیا
یہاں پر اس کے عجیب غریب جوابات دیے گیۓ - اب جب یہ حدیث میں نے
کی ویب سائٹ پر دیکھی تو وہاں تخریج میں اس صحیح مسلم کی اس حدیث کو بھی پیش کیا کیا گیا -



دجال کے وصف اور اس مدینہ کی حرمت اور اس کا مومن کو قتل اور زندہ کرنے کے بیان میں

راوی: عمرو ناقد حسن حلوانی عبد بن حمید عبد یعقوب ابن ابراہیم بن سعد ابوصالح ابن شہاب عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ ابوسعید خدری

حَدَّثَنِي عَمْرٌو النَّاقِدُ وَالْحَسَنُ الْحُلْوَانِيُّ وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ وَأَلْفَاظُهُمْ مُتَقَارِبَةٌ وَالسِّيَاقُ لِعَبْدٍ قَالَ حَدَّثَنِي و قَالَ الْآخَرَانِ حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ وَهُوَ ابْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ صَالِحٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ أَنَّ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ قَالَ حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا حَدِيثًا طَوِيلًا عَنْ الدَّجَّالِ فَکَانَ فِيمَا حَدَّثَنَا قَالَ يَأْتِي وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْهِ أَنْ يَدْخُلَ نِقَابَ الْمَدِينَةِ فَيَنْتَهِي إِلَی بَعْضِ السِّبَاخِ الَّتِي تَلِي الْمَدِينَةَ فَيَخْرُجُ إِلَيْهِ يَوْمَئِذٍ رَجُلٌ هُوَ خَيْرُ النَّاسِ أَوْ مِنْ خَيْرِ النَّاسِ فَيَقُولُ لَهُ أَشْهَدُ أَنَّکَ الدَّجَّالُ الَّذِي حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثَهُ فَيَقُولُ الدَّجَّالُ أَرَأَيْتُمْ إِنْ قَتَلْتُ هَذَا ثُمَّ أَحْيَيْتُهُ أَتَشُکُّونَ فِي الْأَمْرِ فَيَقُولُونَ لَا قَالَ فَيَقْتُلُهُ ثُمَّ يُحْيِيهِ فَيَقُولُ حِينَ يُحْيِيهِ وَاللَّهِ مَا کُنْتُ فِيکَ قَطُّ أَشَدَّ بَصِيرَةً مِنِّي الْآنَ قَالَ فَيُرِيدُ الدَّجَّالُ أَنْ يَقْتُلَهُ فَلَا يُسَلَّطُ عَلَيْهِ
قَالَ أَبُو إِسْحَقَ يُقَالُ إِنَّ هَذَا الرَّجُلَ هُوَ الْخَضِرُ عَلَيْهِ السَّلَام


عمرو ناقد حسن حلوانی عبد بن حمید عبد یعقوب ابن ابراہیم بن سعد ابوصالح ابن شہاب عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے ایک دن ہم سے دجال کے متعلق ایک لمبی حدیث بیان کی اسی حدیث کے درمیان ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ وہ آئے گا لیکن مدینہ کی گھاٹیوں میں داخل ہونا اس پر حرام ہوگا وہ مدینہ کے قریب بعض بنجر زمینوں تک پہنچے گا پس ایک دن اس کی طرف ایک ایسا آدمی نکلے گا جو لوگوں میں سے سب سے افضل یا افضل لوگوں میں سے ہوگا وہ بزرگ اس سے کہے گا میں گواہی دیتا ہوں کہ تو وہی دجال ہے جس کے بارے میں ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث بیان کی تھی تو دجال کہے گا اگر میں اس آدمی کو قتل کر دوں اور پھر اسے زندہ کروں تو تمہاری کیا رائے ہے پھر بھی تم میرے معاملہ میں شک کرو گے وہ کہیں گے نہیں تو وہ اسے قتل کرے گا پھر اسے زندہ کرے گا تو وہ آدمی کہے گا جب اسے زندہ کیا جائے گا اللہ کی قسم مجھے تیرے بارے میں اب جتنی بصیرت ہے اتنی پہلے نہ تھی پھر دجال اسے دوبارہ قتل کرنے کا ارادہ کرے گا لیکن اس پر قادر نہ ہوگا
ابواسحاق نے کہا، کہا جاتا ہے کہ وہ آدمی حضرت خضر علیہ السلام ہوں گے۔


یہی حدیث محدث احادیث کے سافٹ ویئر میں یہاں ہے لیکن اس میں

قَالَ أَبُو إِسْحَقَ يُقَالُ إِنَّ هَذَا الرَّجُلَ هُوَ الْخَضِرُ عَلَيْهِ السَّلَام

نہیں لکھے گیۓ -

اور اس حدیث کی شرح جو

صحيح مسلم بشرح النووي


میں جو اس لنک پر موجود ہے

بیان ہوئی ہے-

صحیح بخاری کی حدیث نمبر ١١٦ کے حاشیہ میں اس کی وضاحت بھی کی گئی ہے
حدیث حاشیہ: مطلب یہ ہے کہ عام طور پر اس امت کی عمریں سوبرس سے زیادہ نہ ہوںگی،یا یہ کہ آج کی رات میں جس قدر انسان زندہ ہیں سوسال کے آخر تک یہ سب ختم ہوجائیںگے۔ اس رات کے بعد جو نسلیں پیدا ہوں گی ان کی زندگی کی نفی مراد نہیں ہے۔ محققین کے نزدیک اس کا مطلب یہی ہے اور یہی ظاہر لفظوں سے سمجھ میں آتا ہے۔ چنانچہ سب سے آخری صحابی ابوطفیل عامربن واثلہ کا ٹھیک سوبرس بعد110برس کی عمرمیں انتقال ہوا مقصد یہ ہے کہ درس وتدریس وعظ وتذکیر بوقت ضرورت دن اور رات کے ہر حصہ میں جائز اور درست ہے۔ خصوصاً طلباءکے لیے رات کا پڑھنا دل ودماغ پر نقش ہو جاتا ہے۔ اس حدیث سے حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے دلیل پکڑی ہے کہ حضرت خضرعلیہ السلام کی زندگی کا خیال صحیح نہیں۔ اگروہ زندہ ہوتے توآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ضرور ملاقات کرتے۔ بعض علماءان کی حیات کے قائل ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب۔
میں نے یہی سوال پوچھنا تھا کہ بعض لوگ جو خضر علیہ اسلام کی حیات کے قائل ہیں- کیا ان کا یہ عقیدہ صحیح ہے یا نہیں- اور ان کی دلیل کیا ہے - لیکن یہاں پر سوال پوچھتے کچھ اور ہیں اور سمجھا کچھ اور جاتا ہے - اور بات کہاں سے کہاں چلی جاتی ہے -

اور دوسری بات یہ پوچھنی ہے کہ امام ابن تیمیہ رحمہ الله کی ایک بات جو خضر علیہ اسلام کی حیات کے بارے میں ہے - وہ پیش کی جاتی ہے -

وسئل شيخ الإسلام ابن تيمية - رحمه الله - عن الخضر فقال : لو كان حيا لوجب عليه أن يأتي النبي - صلى الله عليه وسلم - ، ويجاهد بين يديه ، ويتعلم منه ، وقد قال - صلى الله عليه وسلم - يوم بدر : اللهم إن تهلك هذه العصابة لا تعبد في الأرض وكانوا ثلاثمائة وثلاثة عشر رجلا ، معروفين بأسمائهم وأسماء آبائهم وقبائلهم " فأين كان الخضر حينئذ ؟ وسئل أيضا عن الخضر وإلياس ، هل هما معمران ؟ قال : إنهما ليسا من الأحياء ولا معمران ، وقد سأل إبراهيم الحربي أحمد بن حنبل عن تعمير الخضر وإلياس ، يرويان ويروى عنهما فقال الإمام أحمد : من أحال على غائب لم ينصف منه ، وما ألقى هذا إلا شيطان
وقال ابن القيم في المنار المنيف : والأحاديث التي يذكر فيها

اور اس کا حوالہ ابن قیم رحمہ الله کی کتاب المنار المنيف سے دیا جاتا ہے -

لیکن
امام ابن تیمیہ رحمہ الله کی یہ بات ان کے اپنے مجموع الفتاوى سے کیوں نہیں پیش کی جاتی -

یہاں کسی پر کوئی تنقید کرنا مقصد نہیں - جواب دینا یا نہ دینا آپ لوگوں کی مرضی -

الله ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ دے - آمین
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
میں کہیں بھی سوال پوچھ سکتا ہوں - میں آپ کا یا کسی اور کا پابند نہیں ہوں - آپ خود تو جواب دیتے نہیں - پھر گلہ بھی کرتے ہیں کہ میں جواب نہیں دیتا -
زبردست !
جواب تو آپ نے دےدیا ، پھر بھی کہہ رہے ہیں کہ آپ جواب دینے کے پابند نہیں ،
دراصل آپ کے جواب میں یہ بات ثابت ہوئی کہ آپ کو اسلامی بیلف والوں کی طرح امت کے کسی عالم پر کوئی اعتماد بھروسہ نہیں ،
اور ’’ مصطلح ‘‘ کو آپ نہ جانتے ہیں ، اور نہ مانتے ہیں ،
آپ کے نزدیک صحیحین کے متون متضاد اور مشکوک ہیں ، ابھی صحیح مسلم کا آپریشن جاری ہے ،(افسانہ ) تو بنا دیا ہے اب آگے ۔۔۔۔۔

اور اپنے انہی خیالات کو ’’ مستور ،مخفی ‘‘ رکھنا چاہتے ہیں ، اسی لئے جلال سے فرماتے ہیں :
میں آپ کا یا کسی اور کا پابند نہیں ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی کسی کا پابند نہیں ،میں اور محترم شیخ خضر حیات صاحب بھی آپ کے پابند نہیں ،
آپ صرف ۔۔اسلامک بیلف والوں ۔۔ کے پابند ہیں ،
جنہیں سلام لکھنا نہیں آتا ، اور محدثین و علماء پر زبانیں دراز کرتے ہیں ،
۔۔۔۔۔۔۔
 

وجاہت

رکن
شمولیت
مئی 03، 2016
پیغامات
421
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
45
زبردست !
جواب تو آپ نے دےدیا ، پھر بھی کہہ رہے ہیں کہ آپ جواب دینے کے پابند نہیں ،
آپ کے الفاظ تھے
ما شاء اللہ
مجھے یہی توقع تھی ، اسلامی بیلف کے نمائندے سے ۔
اسلامیک بیلف والے صرف محدثین کرام کے خلاف بدگمانیاں ، اور اپنی جہالت نشر کرسکتے ہیں ، کسی سوال کا جواب تو درکنار ۔۔ سوال سمجھ بھی نہیں سکتے ۔
وہاں کس درجہ جہالت ہے اس کا اندازہ ابھی پچھلی پوسٹ میں عدیل سلفی بھائی کے امیج سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے ،
بے چارے پتا نہیں کس مذہب کے پیروکار ہیں ، سلام کے الفاظ تک لکھنے بولنے نہیں آتے ،
اور جرات یہ کہ محدثین کی مساعی پر سوال اٹھاتے ہیں ، سبحان اللہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چلیں ان سے پوچھنے کی جراءت تو آپ نہ کرسکے ۔
اتنا تو کرسکتے ہیں کہ خود ہی ان سوالوں کے جواب دے دیں ۔ یعنی ان تین بنیادی امور پر آپ کا موقف کیا ہے ؟
اپنے موقف کے متعلق جواب دینے میں تو آپ کو کوئی جھجک نہیں ہونی چاہیئے ،
میں نے کہا
میں کہیں بھی سوال پوچھ سکتا ہوں - میں آپ کا یا کسی اور کا پابند نہیں ہوں - آپ خود تو جواب دیتے نہیں - پھر گلہ بھی کرتے ہیں کہ میں جواب نہیں دیتا ----------------------------
اب اس سے آپ کیا اخذ کر رہے ہیں -
 
Top