لَا تَحْسَبُوهُ شَرًّا لَكُمْ
موضوع کے متعلق بہت ساری باتیں ذہن میں ہیں جن کے بیان کےلیے مناسب ترتیب کی تلاش ہے ۔ فی الحال ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی کی فقاہت پر سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ کی یہ تحریر ملاحظہ فرمائیں
روایت کے ساتھ درایت
لیکن محض روایت کی کثرت ، ان کی فضیلت اور مزیت کا باعث نہیں ہے، اصل چیز دقّت رسی اور نکتہ فہمی ہے اس مخصوص فضیلت میں حضرت عائشہؓ کے ساتھ صرف عبد اللہ بن عباس شریک ہیں جو روایت کی کثرت کے ساتھ
تفقہ ، اجتہاد ، فکر اور قوّتِ استنباط میں بھی ممتاز تھے۔
روایت کی کثرت کے ساتھ اور قوّت استنباط کے علاوہ عائشہؓ کی روایتوں کی
ایک خاص خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ جن احکام اور واقعات کو نقل کرتی ہیں ، اکثر ان کے علل و اسباب بھی بیان کرتی ہیں ، وہ خاص حکم جن مصلحتوں پر مبنی رہتا ہے ان کی تشریح کرتی ہیں ۔ صحیح بخاری میں حضرت عبد اللہ بن عمرؓ ، حضرت سعید خدریؓ اور حضرت عائشہ تینوں سے پہلو بہ پہلو روایتیں ہیں کہ جمعہ کے دن غسل کرنا چاہئے، اب تینوں بزرگوں کی روایتوں کے الفاظ کو پڑھو، اس سے حضرت عائشہؓ کی امتیازی حیثیت واضح ہو گی۔
سمعت رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) یقول
’’من جاء منکم الجمعۃ فلیغتسل‘‘
میں نے آنحضرت(صلی اللہ علیہ وسلم) کو فر ما تے ہوئے سنا کہ جو جمعہ میں آئے وہ غسل کرے۔
حضرت ابو سعید خدریؓ فرماتے ہیں :
ان رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم)
قال ’’غسل یوم الجمعۃ واجب علی کل محتلم‘‘
آنحضرت(صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ جمعہ کا غسل ہر بالغ پر فرض ہے۔
اسی مسئلہ کو حضرت عائشہؓ ان الفاظ میں بیان فرماتی ہیں :
قالت کان الناس ینتابون الجمعۃ من منازلھم والعوالی فیاتون فی الغبار یصیبھم الغبار والعرق فیخرج منھم العرق فاتی رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) انسان منھم و ھو عندی فقال النبی(صلی اللہ علیہ وسلم) لو انکم تطہر تم لیومکم ھٰذا (کتاب الجمۃ)
۔’’لوگ اپنے اپنے گھروں سے اور مدینہ کے باہر کی آبادیوں سے جمعہ کے روز آتے تھے ،وہ غبار اور پسینہ میں شرابور ہوتے تھے، ان کے بد ن سے پسینہ نکلتا رہتا تھا ۔ ایک دفعہ ایک صاحب ان میں سے آپ کے پاس آئے اور آپ میرے پاس بیٹھے تھے، آپؐ نے فرمایا بہتر ہوتا، اگر تم اس دن غسل کر لیا کرتے۔‘‘
ابو داؤد کے سوا صحاح کی تمام کتابوں میں حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ آپؐ کو دست کا گوشت بہت پسند تھا، لیکن حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ دست کا گوشت آپ کو بہت پسند نہ تھا، بلکہ چونکہ گوشت کم میسر تھا اور دست کا گوشت جلد پک جاتا تھا ، اس لئے آپ اسی کو کھاتے تھے۔ (ترمذی)
احادیث میں مذکور ہے کہ آپؐ ہر سال ایک آدمی خیبر بھیجتے تھے، وہ پیداوار کو جا کر دیکھتا اور تخمینہ لگاتا تھا، دوسرے راوی اس واقعہ کو صرف اس قدر بیان کر کے رہ جاتے ہیں ، لیکن حضرت عائشہؓ جب اس روایت کو بیان کرتی ہیں ، تو فرماتی ہیں ۔
وانما کان امر النبی(صلی اللہ علیہ وسلم) بالخرص لکی یحصی الزکوہ قبل ان توکل التمرۃ وتفرق۔
آپ نے تخمینہ لگانے کا اس لئے حکم دیا کہ پھل کھانے اور اس کی تقسیم سے پہلے زکوٰۃ کا اندازہ کر لیا جائے