• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امرأۃ القرآن کا تحقیقی جائزہ

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
کنیز کی تعریف اور اس کے حلال ہونے کی دلیل
سوال: قرآن مجید نے کنیز کی کیا تعریف بیان کی ہے؟ اور کنیز کے بلا نکاح حلال ہونے کی دلیل کیاہے؟
جواب: قرآن میں کنیز کی تعریف یہ کی گئی ہے کہ “وہ عورت جو زورِ بازو سے حاصل ہو” اور چونکہ قرآن مجید زور بازو کے استعمال کو صرف قتال فی سبیل اللہ تک محدود رکھتا ہے اس لئے قرآن مجیدکی تعریف کی رو سے کنیز صرف وہ عورت ہے ،جو راہ خدا کی جنگ میں گرفتار ہو کر مسلمانوں کے ہاتھ آئے۔
یہ تعریف اور ایسی عورت کے حلال ہونے کی دلیل اس آیت میں ہم کو ملتی ہے:
حُرِّمَتْ عَلَیْکُمْ اُمَّھٰتُکُمْ وَبَنَاتُکُمْ وَ اَخَوَاتُکُمْ وَعَمّٰتُکُمْ وَ خَاٰلتُکُمْ وَ بَنٰتُ الْاَخِ وَبَنٰتُ الْاُخْتِ وَ اُمَّھٰتُکُمُ الّٰتِیْٓ اَرْضَعْنَکُمْ وَ اَخَوَاتُکُمْ مِّنَ الرَّضَاعَةِ وَ اُمَّھٰتُ نِسَآئِکُمْ وَ رَبَآئِبُکُمُ الّٰتِیْ فِیْ حُجُوْرِکُمْ مِّنْ نِّسَآئِکُمُ الّٰتِیْ دَخَلْتُمْ بِھِنَّ فَاِنْ لَّمْ تَکُوْنُوْا دَخَلْتُمْ بِھِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ وَ حَلَآئِلُ اَبْنَائِکُمُ الَّذِیْنَ مِنْ اَصْلَابِکُمْ وَ اَنْ تَجْمَعُوْا بَیْنَ الْاُخْتَیْنِ اِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ اِنَّ اللهَ کَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا وَّ الْمُحْصَنٰتُ مِنَ النِّسَآءِ اِلَّا مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ (سورة النساء آیت نمبر ۲۲۔۲۳)
تم پر حرام کی گئیں تمہاری مائیں اور تمہاری بیٹیاں اور تمہاری بہنیں اور تمہاری پھوپھیاں اور تمہاری خالائیں اور بھتیجیاں اور بھانجیاں اور تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تم کو دودھ پلایا ہے اور تمہاری وہ بہنیں جو دودھ پینے کی وجہ سے ہیں۔ اور تمہاری بیبیوں کی مائیں اور تمہاری بیبیوں کی بیٹیاں جو کہ تمہاری پرورش میں رہتی ہیں، ان بیبیوں سے کہ جن کے ساتھ تم نے صحبت کی ہو اور اگر تم نے ان بیبیوں سے صحبت نہ کی ہو تو تم کو کوئی گناہ نہیں۔اور تمہارے ان بیٹوں کی بیبیاں جو کہ تمہاری نسل سے ہوں، اور یہ کہ تم دوبہنوں کو (رضاعی ہوں یا نسبی) ایکساتھ رکھولیکن جو پہلے ہوچکا۔ بیشک اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا بڑا رحمت والا ہے۔ اور وہ عورتیں جو کہ شادی شدہ ہوں ما سوا اُن عورتوں کے جن کے مالک ہوئے تمہارئے سیدھے ہاتھ۔
سیدھا ہاتھ عربی میں قدرت، غلبہ و قہر اور زورِ بازو کے مفہوم میں بولا جاتا ہے۔ یہ بجائے خود کنیز کی مذکورہ بالا تعریف کے حق میں کافی دلیل ہے۔ اس پر مزید یہ دلیل ہے کہ وہ شادی شدہ عورت جس کو اس آیت میں حرمت کے حکم سے مستثنیٰ قرار دیا گیاہے، بہرحال وہ عورت تو نہیں ہو سکتی جس کا نکاح دارالاسلام میں ہوا ہو، کیوں کہ آیت کا سیاق خود بتا رہا ہے کہ وہ ان محصنات میں شامل ہے جو حُرِّمَتْ عَلَیْکُم کے تحت آتی ہیں۔ اس لئے لا محالہ اِلَّا مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ سے مراد وہی شادی شدہ عورتیں ہوں گی جن کے نکاح دارالحرب میں ہوئے ہوں اور پھر وہ جنگ میں گرفتار ہو کر آئی ہوں۔
رہی ان کے بلا نکاح حلال ہونے کی دلیل ، تو وہ یہ ہے کہ اول تو مذکورہ بالا آیت میں جن شادی شدہ عورتوں کو حرام کیا گیا ہے، ان سے وہ عورتیں مستثنیٰ کردی گئی ہیں جو جنگ میں گرفتار ہو کر آئی ہوں۔ پھر ا س کے بعد فرمایا:
﴿ وَ اُحِلَّ لَکُمْ مَّا وَرَآءَ ذٰلِکُمْ اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِکُمْ مُّحْصِنِیْنَ غَیْرَ مُسَافِحِیْنَط ﴾
“اور حلال کیا گیا تمہارے لیے ان کے سوا دوسری عورتوں کو اس طور پر کہ تم ان کو اپنے اموال کے بدلے حاصل کرو، قید نکاح میں لانے والے بن کر، نہ کہ آزاد شہوت رانی کرتے ہوئے”۔
اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ملک یمین میں آئی ہوئی عورتوں کو مہر دے کر نکاح میں لانے کی ضرورت نہیں ہے، وہ اس کے بغیر ہی حلال ہیں۔
اس معنی پر یہ آیت بھی دلالت کرتی ہے:
قَدْاَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ ھُمْ فِیْ صَلَا تِھِمْ خٰشِعُوْنَ … وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِفُرُوْجِھِمْ حٰفِظُوْنَ اِلَّا عَلٰٓی اَزْوَاجِھِمْ اوْ مَا مَلَکَت اَیْمَانُھُمْ فَاِنَّھُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَ
فلاح پائی ایمان لانے والوں نے جو اپنی نماز میں خشوع برتتے ہیں… اور جو اپنی شرم گاہوں کو محفوظ رکھتے ہیں ، سوائے اپنی بیویوں یا اپنی لونڈیوں کے، کیونکہ بیویوں اور لونڈیوں سے محفوظ نہ رکھنے پر وہ قابل ملامت نہیں ہیں۔ (سورہ المومنون آیات نمبر ۱ ۔ ۶)
اس آیت میں اہل ایمان کے لئے دو قسم کی عورتوں سے تعلق شہوانی کو جائز ٹھہرایا گیا ہے۔ ایک ان کی ازواج۔ دوسرے مَا مَلَکَت اَیْمَانُھُمْ ازواج سے مراد تو ظاہر ہے کہ منکوحہ بیویاں ہیں۔ اب اگر مَا مَلَکَت اَیْمَانُھُمْ بھی منکوحہ بیویاں ہی ہوں تو ان کا ازواج سے الگ ذکر سراسرفضول ٹھہرتا ہے۔ لا محالہ اس سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ ان سے محض ملک یمین کی بنا پر تمتع جائزہے۔
(بحوالہ رسائل و مسائل: ترجمان القرآن۔ شوال ۱۳۷۵ھ، جون ۱۹۵۶ء)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
تعداد ازواج اور لونڈیاں
سوال: حسب ذیل آیت کی تفہیم کے لئے آپ کو تکلیف دے رہا ہوں:
وَ اِنْ خِفْتُمْ اَلاَّ تُقْسِطُوْا فِی الْیَتٰمٰی فَانْکِحُوْا مَا طَابَ لَکُمْ مِّنَ النِّسَآءِ مَثْنٰی وَثُلٰثَ وَ رُبٰعَ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلاَّ تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ (سورہ النساء آیت نمبر۳)
دریافت طلب امر یہ ہے کہ اس آیت میں چار بیویاں کرنے کی اجازت صرف اس شخص کو ہے جو یتیم لڑکیوں کا ولی ہو، اور اس کو اس امر کا اندیشہ ہو کہ وہ ان لڑکیوں کے متعلق انصاف نہ کرسکے گا؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ بیویوں کے متعلق تو تعداد کی قید ہے کہ زیادہ سے زیادہ چار بیویاں کی جا سکتی ہیں، لیکن لونڈیوں کے ساتھ تعلقات زن وشوئی قائم کرنے کے بارے میں ان کی تعداد کے متعلق کوئی تعین نہیں کیا گیا۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ اگر اس کا جواب یہ ہو کہ جنگ کے زمانہ میں جو عورتیں پکڑی ہوئی آئیں گی، ان کی تعداد کا تعین نہیں کیا جاسکتا، اس لئے لونڈیوں سے تمتع حاصل کرنے کے متعلق بھی تعداد کا تعین نہیں کیا گیا۔
تو میں یہ عرض کروں گا کہ بے شک یہ صحیح ہے اور اس لحاظ سے یہ تعین بھی نہیں کیا جاسکتا کہ ایک مسلمان کے حصے میں کتنی لونڈیاں آئیں گی۔ ہو سکتا ہے کہ ایک شخص کے حصہ میں دس آئیں اور دوسرے کے حصہ میں بیس۔ لیکن جہاں تک ان لونڈیوں سے تمتع کا تعلق ہے، اس کا تعین تو بہرحال ہو سکتا تھا، کہ ایک شخص کے پاس لونڈیاں چاہے کتنی ہی ہوں، وہ ان میں سے صرف ایک یا دو سے تمتع کر سکتا ہے، جیسا کہ بیویوں کی صورت میں تحدید ہے۔
اس آزادی کے ہوتے ہوئے ایک شخص نہ صرف یہ کہ مال غنیمت میں حصہ کے طور پر بہت سی لونڈیاں حاصل کرسکتا ہے، بلکہ وہ ان کی جتنی تعداد چاہے خرید بھی سکتا ہے۔ ایسی صورت میں ایک نفس پرست سرمایہ دار کے لئے کھلا ہوا موقع ہے کہ وہ جتنی لونڈیاں چاہے خریدے اور ہوس رانی کرتا رہے۔ لونڈیوں سے بلاتعین تعداد، تمتع کرنے کی کھلی ہوئی اور عام اجازت دینے کیوجہ سے معاشرہ کے اندر وہی خرابی داخل ہوجاتی ہے، جس کو اسلام نے زنا کہہ کر سخت سزا کا مستوجب قرار دیا ہے۔ میرے خیال میں یہی سبب تھا کہ جوں جوں مسلمانوں کی سلطنتیں وسیع ہوئیں اور ان کی دولت میں اضافہ ہوا، مسلم سوسائٹی میں رجم کی سزا کے جاری ہونے کے باوجود ہوس رانی بڑھتی گئی۔ کوئی قانون ایسا نہ تھا، جو اس خرابی کا انسداد کرتا اور یہی وجہ ہے کہ ہم خلفائے بنواُمیہ اور بنو عباسیہ کے حرم میں لونڈیوں کے غول کے غول پھرتے دیکھتے ہیں اور پھر تاریخوں میں ان ذلیل سازشوں کا حال پڑھتے ہیں، جو لونڈی غلاموں کے ذریعے پروان چڑھتی تھیں۔
پس میری رائے یہ ہے کہ اگر لونڈیوں سے تمتع کرنے کی اجازت بھی بہ تعین تعداد ہوتی تو مسلم معاشرہ میں وہ مفاسد اور نفس پرستیاں نہ پیدا ہوتیں، جن کی طرف اوپر اشارہ کیا گیا ہے۔ بہرحال ارشاد فرمایا جائے کہ شارع نے کن وجوہ و مصالح کی بنا پر لونڈیوں سے تمتع کی اجازت دیتے ہوئے تعداد کا تعین نہیں کیا؟
اسی ضمن میں ایک تیسرا سوال یہ بھی ہے کہ اگر لونڈی مشترکہ ہو تو کیا اس کے ساتھ تمتع جائز ہے؟
جواب1:
نوٹ:1.اس طرح کے سوالات اور ان کے جوابات سے لوگ بسا اوقات یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ شاید یہ مسائل حال یا مستقبل کے لئے زیر بحث آرہے ہیں۔ حالانکہ دراصل ان سوالات کا تعلق اس دور کے حالات سے ہے جبکہ دنیا میں اسیران جنگ کے تبادلہ کا طریقہ رائج نہ ہوا تھا اور فدیے پر سمجھوتا کرنا بھی دشمن سلطنتوں کے لئے مشکل ہوتا تھا۔ آج کل ان مسائل پر بحث کرنے کی غرض یہ نہیں ہے کہ ہم اب لونڈیوں کی تجارت کا بازار کھولنا چاہتے ہیں بلکہ اس کی غرض یہ بتانا ہے کہ جس دور میں اسیران جنگ کا تبادلہ اور فدیے کا معاملہ نہیں ہو سکتا تھا، اس زمانہ میں اسلام نے اس پیچیدہ مسئلہ کو کس طرح حل کیا تھا۔ نیز اس کی غرض ان اعتراضات کو رفع کرنا ہے جو نا واقف لوگوں کی طرف سے اسلام کے اس حل پر کئے جاتے ہیں۔ ہم نے جب کبھی اس مسئلے (گذشتہ سے پیوستہ) سے بحث کی ہے، اسی غرض سے کی ہے مگر افسوس ہے کہ فتنہ پرداز لوگ جان بوجھ کر اسے یہ معنی پہناتے ہیں کہ ہم آج اس زمانہ میں بھی غلامی ہی کے طریقے کو جاری رکھنا چاہتے ہیں، خواہ اسیران جنگ کا تبادلہ اور فدیہ ممکن ہو یا نہ ہو۔ ہمیں معلوم ہے کہ وہ اس قسم کی باتیں کسی غلط فہمی کی بناء پر نہیں کہتے ہیں اور ہم ان سے اتنی حیا داری کی توقع بھی نہیں رکھتے کہ وہ ہماری اس تصریح کے بعد اپنی الزام تراشیوں سے باز آجائیں گے۔ تاہم یہ تصریح صرف اسی لئے کی جارہی ہے کہ جو لوگ ان کی باتوں سے کسی غلط فہمی میں پڑگئے ہیں، ان کی غلط فہمی دور ہوسکے۔
آیت وَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تُقْسِطُوْا فِی الْیَتَامي پر تفصیل کے ساتھ تفہیم القرآن میں نوٹ لکھ چکا ہوں۔ اس کے اعادے کی حاجت نہیں۔ آپ اسے ملاحظہ فرمائیں۔ جہاں تک خود اس آیت کی تفسیر کا تعلق ہے، اس کے کئی معنی ہو سکتے ہیں اور صحابہ و تابعین سے منقول ہیں۔ مثلاً ایک معنی یہ بھی ہیں، کہ اگر تم یتیموں کے ساتھ یوں انصاف نہیں کرسکتے تو ایسی عورتوں سے نکاح کرلو جن کے شوہرمرچکے ہیں اور چھوٹے چھوٹے یتیم بچے چھوڑ کر گئے ہیں۔ یہ معنی اس لحاظ سے زیادہ دل کو لگتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں کہ یہ سورة جنگ احد کے بعد نازل ہوئی تھی، اور اس جنگ میں بہت سے مسلمان شہید ہوگئے تھے۔ لیکن یہ بات کہ اسلام میں چار بیویوں سے نکاح کرنے کی اجازت ہے ، اوریہ کہ بیک وقت چار سے زیادہ کی اجازت نہیں ہے، اور یہ کہ اس فرمان کا کوئی تعلق یتامیٰ کے معاملہ سے نہیں ہے، محض اس آیت سے نہیں نکلتی بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قولی و عملی تشریح سے معلوم ہوتی ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو جن کے نکاح میں چار سے زیادہ عورتیں تھیں، حکم دے دیا کہ وہ صرف چار رکھ لیں اور اس سے زائد جس قدر بھی ہوں، انہیں چھوڑ دیں۔
حالانکہ ان کے ہاں یتامیٰ کا کوئی معاملہ درپیش نہ تھا۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں بکثرت صحابہ نے چار کی حد کے اندر متعدد نکاح کئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی سے یہ نہ فرمایا کہ تمہارے لئے یتیم بچوں کی پرورش کا کوئی سوال نہیں ہے، اس لئے تم اس اجازت سے فائدہ اٹھانے کا حق نہیں رکھتے۔ اسی بناپرصحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے لے کر بعد کے ادوار تک اُمت کے تمام فقہا نے یہ سمجھا کہ یہ آیت نکاح کے لئے بیک وقت چار کی حد مقرر کرتی ہے، جس سے تجاوز نہیں کیا جاسکتا، اور یہ کہ چار کی اجازت عام ہے، اس کے ساتھ کوئی قید نہیں کہ یتامیٰ کا کوئی معاملہ بھی درمیان میں ہو۔ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد نکاح کیے اورکسی میں یتیموں کے مسئلے کا دخل نہ تھا۔
لونڈیوں کے بارے میں آپ یہ جو تجویز پیش کرتے ہیں کہ ایک شخص کو لونڈیاں تو بلا قید تعداد رکھنے کی اجازت ہوتی، مگر تمتع کے لئے ایک یا دو کی حد مقرر کردی جاتی، اس میں آپ نے صرف ایک ہی پہلوپر نگاہ رکھی ہے، دوسرے پہلووٴں پر غور نہیں فرمایا۔ تمتع کے لئے جو حد بھی مقرر کی جاتی، اس سے زائد بچی ہوئی عورتوں کے مسئلہ کا کیا حل تھا؟ کیا یہ کہ وہ مرد کی صحبت سے مستقل طور پر محروم کردی جاتیں؟ یا یہ کہ انہیں گھر کے اندر اور اس کے باہر اپنی خواہشات نفس کی تسکین کے لئے ناجائز وسائل تلاش کرنے کی آزادی دے دی جاتی؟ یا یہ کہ ان کے نکاح لازماً دوسرے لوگوں سے کرنے پر مالکوں کو ازروئے قانون مجبور کیا جاتا اور قیدی عورتوں کو سنبھالنے کی ذمہ داری ڈالنے کے علاوہ ایک اور ذمہ داری ان پر یہ بھی ڈال دی جاتی کہ وہ ان کے لئے ایسے شوہر تلاش کرتے پھریں، جو لونڈیوں کو نکاح میں لینے پر راضی ہوں؟
آپ کے تیسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ لونڈی سے تمتع کے لیے شریعت میں یہ قید نہیں ہے کہ وہ اہل کتاب میں سے ہو۔ اور یہ قید عقل کی رو سے بھی نہیں ہونی چاہیے تھی۔ اگر ایسا ہوتا تو وہ مصلحتیں آدھی سے زیادہ فوت ہو جاتیں جن کی بنا پر اسیران جنگ کو (تبادلہ نہ ہوسکنے کی صورت میں) افراد کی ملکیت میں دینے کا طریقہ پسند کیا گیا تھا اور قیدی عورتوں سے ان کے مالکوں کو تمتع کی اجازت دی گئی تھی۔ کیوں کہ اس صورت میں صرف وہ عورتیں مسلم سوسائٹی کے اندر جذب ہو سکتی تھیں، جو کسی اہل کتاب قوم میں سے گرفتار ہو کر آئی ہوں۔ غیر اہل کتاب سے جنگ پیش آنے کی صورت میں مسلمانوں کے لئے پھر یہ مسئلہ حل طلب رہ جاتا کہ ان میں سے جو عورتیں قید ہوں ، ان کو دارالاسلام کے لئے فتنہ بننے سے کیسے بچایا جائے؟ واللہ الھادی۔ (رسائل و مسائل)۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
شبہ: عدم ادائیگی مہر
لکھتے ہیں اس شبہ میں بیوی کو مہرادا نہیں کیا جاتا اسلام کی آڑ لے کر، یعنی کسی بھی طریقے سے عورت کو کوئی فائدہ نہ پہنچے اور وہ ہمیشہ مرد کی محتاج بن کر رہے۔ (صفحہ:۱۱۰)۔
جواب شبہ کے تحت سورہ نساء کی آیت نمبر۲۴ اور سورہ بقرہ کی آیت نمبر۲۳۶ بمع ترجمہ تحریر کرتے ہیں۔ پھر تفسیر بالرائے کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ عورتوں کو نکاح کے وقت مہر فوراً ادا کیا کرو۔
آگے چل کر لکھتے ہیں (اہل سنت پر اعتراض کرتے ہوئے) ذرا ان سے پوچھا جائے کہ مہر “کل موٴجل” یعنی کل مہر بعد میں ادا کی جائے گی، یہ کہاں سے ثابت ہے اور یہ کونسی سنت ہے میرے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی؟ آپ غور فرمائیں “کل مہر” بعد میں ادا کرنا کتاب و سنت کے خلاف ہی نہیں بلکہ قرآن سے حکم عدولی ہے۔ (صفحہ:۱۱۱ تا ۱۱۳)۔
پھر آگے چلتے ہوئے لکھتے ہیں: (ا س شوہر پر اعتراض کرتے ہوئے جو مہر کی ادائیگی سے قبل فوت ہوگیا)
اب سوال یہ ہے؟ کہ زندگی بھر جو رشتہ قائم تھا نکاح کا اس کی ایک لازمی شرط مہر ادا کرنا تھا جو نہیں ادا کیا گیا، نتیجے کے طور پر یہ رشتہ حرام کا رشتہ ٹھہرا۔ دشمنان اسلام وزن نے کسی بھی موقع کو ہاتھ سے نہیں جانے دیا، جس سے انہوں نے عورت کی تذلیل و تحقیر نہ کی ہو۔ تاریخ کا مطالعہ اس بات کو باورکراتا ہے کہ مہر نہ دینا قدیم اہل عراق کا دستور رہا ہے۔ (صفحہ:۱۱۳ تا ۱۱۴)۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
تحقیقی نظر:
اس شبہ خود کشیدہ میں جناب نے بغیر ذکر کئے، کئی ایک احادیث سے عداوت کا اظہار کیا ہے (جس کی تفصیل آگے آرہی ہے)۔باقی رہا موصوف کا اس پر ناراض ہونا کہ مہر ادا نہیں کیا جاتا تو اس سلسلے میں عرض ہے کہ ایسے لوگوں کو آپ جانتے ہوں گے۔ جائیے ان پر حجت قائم کیجئے، تمام مرد حضرات کو بلاوجہ مطعون نہ کیجئے کہ یہ بہتان ہے۔
اور جہاں تک سورہ نساء اور سورہ بقرہ کی آیات سے استدلال، کہ مہر فوراً (نکاح کے وقت) ادا کرناتو یہ پورے قرآن میں کہیں بھی نہیں ہے۔ جناب کی فقط خود ساختہ ترجمانی ہے جیسا کہ اور جگہ یہی دھاندلی کی ہے کہ پہلے مسئلہ بناتے ہیں پھر قرآن سے دلیل ڈھونڈتے ہیں۔جناب کی پیش کردہ آیت بقرہ تو جناب کے نظریہ کی تردید کرتی ہے۔ جناب ترجمہ میں لکھتے ہیں “اور اگر تم عورتوں کو اس صورت میں طلاق دو کہ نہ ان کو چھوا ہو اور نہ ان کے لئے مہر مقرر کیا ہو تو ان کے مہر کے بارے میں تم پر کوئی حرج نہیں اور خرچ دو ان کو شرع کے مطابق “۔
اب بتائیں اس میں نکاح کے وقت فوراً مہر ادا کرنے کاذکر کہاں ہے؟بلکہ یہاں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ نکاح کے بعد زندگی گزارتے ہوئے طلاق کی نوبت آگئی اور ابھی حق مہرطے بھی نہیں ہوا۔ نیز متعہ دینا (خرچ دینا) خود اس بات کا متقاضی ہے کہ مہر نہیں دیا جائے گا۔فافھم
امام شوکانی رحمہ اللہ فتح القدیر میں لکھتے ہیں کہ مطلقہ چار قسم کی ہوتی ہیں :
1…مطلقہ مدخول بہا جس کا مہر مقرر کیا جا چکا ہو۔
2…مطلقہ غیر مدخول بہا جس کا مہر بھی مقرر نہ کیا گیا ہواور اس آیت (یعنی سورة بقرہ) میں اسی کا ذکر ہے۔ اسے مہر نہیں بلکہ متعہ (خرچہ) دیا جائے گا۔
3…مطلقہ غیر مدخول بہا جس کا حق مہر مقرر ہو چکا ہو۔
4…مطلقہ مدخول بہا جس کا مہر بھی مقرر نہ کیا گیا ہو اور اس کا ذکر سورة نساء آیت ۲۴ میں ہے۔
اس بیان کی روشنی میں موصوف کا تصور مہر کا خود ساختہ نظریہ پاش پاش ہوجاتا ہے اور از خود خلاف قرآن و سنت ثابت ہوجاتاہے۔امام شوکانی رحمہ اللہ نے اس بات پر اجماع نقل کیا ہے کہ نکاح کے بعد قبل از دخول اور قبل از تقرر مہر طلاق پر صرف متعہ (خرچ) ہی دینا ہے نہ کہ مہر۔ (فتح القدیر) فاعتبروا یا اولی الابصار
اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ جناب کا “کل مہر” بعد میں ادا کرنے کو قرآن و سنت کی حکم عدولی قراردینا بلا دلیل و بے بنیاد ہے۔
ویسے کیا ہم سوال کرسکتے ہیں کہ کیا “کل مہر” کی جگہ “بعض مہر” بعد میں کبھی ادا کیا جائے تو کیا یہ آپ کو منظور ہوگا؟ کس دلیل کی بنیاد پر؟
موصوف کی پیش کردہ سورة بقرہ کی آیت نمبر۲۳۶ میں وارد لفظ “ومتعوھن” کی تفسیر میں حبرالامة جناب عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ “یہ حکم اس مرد کو ہے، جس نے ایک عورت سے نکاح کیا اور حق مہر (ابھی) مقرر نہ کیا تھا کہ قبل الدخول ہی طلاق دے بیٹھا (گویا “ومتعوھن” (خرچ دو) مہر کی نفی ہے) ۔ (دیکھئے فتح القدیر از شوکانی)
اس تفسیر کی روشنی میں جناب کی فہم ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ کی فہم کے بالکل مخالف و متضاد ہے۔صحیح ابو داوٴد شریف میں باب قائم کیا گیا ہے “اگر کوئی نکاح کے وقت مہر مقرر نہ کرے اور پھر اس کی وفات ہو جائے تو”؟
اور اس باب کے تحت یہ واقعہ موجود ہے، کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مسئلہ پوچھا گیا کہ ایک شخص نے کسی عورت سے شادی کی پھر وفات پا گیا ،جبکہ ان کا ملاپ نہ ہوا تھا اور نہ حق مہر ہی مقرر کیا تھا(تواس صورت میں کیا حکم ہے) انہوں نے فرمایا اس عورت کے لئے پورا مہر ہے، اس پر عدت لازم ہے اور یہ وراثت کی بھی حق دار ہے۔ (تب) معقل بن سنان رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بتایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (ایسے ہی) سنا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بروع بنت واشق کے بارے میں یہی فیصلہ فرمایا تھا۔ (ابو داوٴد حدیث رقم ۲۱۱۴ تا ۲۱۱۷ طبع دارالسلام)۔
معلوم ہوا کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ نکاح کے وقت فوراً حق مہر ادا کیا جائے بلکہ قرآن و سنت سے اس کے بالکل برعکس ہی ثابت ہوتا ہے۔ لہٰذا جناب کا بعد میں مہر کی ادائیگی کو قرآن و سنت کے حکم کی عدولی قرار دینا، از خود قرآن و سنت کی حکم عدولی ہے اور اہل السنہ پر اتہام و بہتان ہے کہ (نعوذباللہ) اس طرح کے رشتہ حرام و ناجائز ہیں۔ اعاذنا اللہ من ھذہ الھفوات ہم کہہ سکتے ہیں کہ:
“سب سے بڑھ گئی ہے بے حیائی آپ کی” (مسئلہ بالا کی مکمل تفصیل فتح القدیر ، صحیح ابوداوٴد اور فتاویٰ اہلحدیث میں دیکھی جا سکتی ہے)
تنبیہ: شبہ: مہر انتہائی کم اور شبہ: ولدیت سے لاتعلقی کے ضمن میں کوئی خاطر خواہ بات نہیں ہے۔ لہٰذا ہم اسے فی الحال موقوف کرکے آگے بڑھتے ہیں۔ والله ولی التوفیق
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
شبہ نوکرانی
لکھتے ہیں اس شبہ میں یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ عورت نوکرانی ہے، تبھی جب شادی کرکے لاتے ہیں تو درحقیقت مقصد ایک نوکرانی لانا ہوتا ہے۔ جو نہ صرف شوہر کی خدمت کرے بلکہ شوہر کے ماں باپ بہن بھائی بلکہ پورے خاندان کی خادمہ ہو، اور یہ سب کچھ دین کی آڑ میں کیا جاتا ہے۔ (صفحہ:۱۲۰)
جواب شبہ میں سورة بنی اسرائیل کی آیت ۲۴،۲۳ سورة لقمان کی آیت نمبر۱۴ اور سورة احقاف کی آیت نمبر۱۵ بمع ترجمہ تحریر کرتے ہیں۔ پھر تفسیر بالرائے فرماتے ہیں:
لہٰذا شوہر اپنے ماں باپ کی خدمت کا ذمہ دار اور جواب دہ ہے اور بیوی اپنے ماں باپ کی خدمت کی ذمہ دار اور جواب دہ ہے نہ کہ شوہر کے ماں باپ کی، جو کہ در حقیقت مذاہب باطلہ کا رواج ہے(صفحہ:۱۲۰)
آگے چل کر تیسری دلیل کے تحت لکھتے ہیں: شرعی لحاظ سے بیوی کی ذمہ داری صرف ایک ہی ہے اور وہ ہے حق زوجیت ادا کرنا۔ اس کے علاوہ کھانا پکانا، کپڑے دھونا، اولاد کی رضاعت کرنا اور ان کی دیکھ بھال کرنا یہ تمام ذمہ داریوں میں شامل نہیں بلکہ یہ احسان ہے شوہر پر۔
پھر سورة نساء کی آیت ۲۴ پیش کر کے اس سے زبردستی اپنا مطلب کشید کرتے ہوئے تفسیر بالرائے میں فرماتے ہیں: یہ بات سنت مبارکہ سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیوی کا حق شوہر کے لئے سوائے حق زوجیت کے کچھ اور نہیں قرار دیا۔پھر کچھ آگے چل کر لکھتے ہیں! غور طلب بات یہ ہے کہ اگر کتاب و سنت کے حوالے سے شوہر کی خدمت گزاری کرنا ثابت نہیں تو پھر شوہر کے ماں باپ کی خدمت کہاں سے واجب ہوگئی؟ (صفحہ:۱۲۶ سے ۱۲۸تک دیکھئے)۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
تحقیقی نظر
موصوف کو اس قدر عورت فوبیا ہو گیا ہے کہ انہیں معلوم بھی نہیں ہوتا کہ وہ کیا ہذیان بک رہے ہیں؟کیا قرآن ،کیا سنت ،سب کو یکلخت اپنی رائے سے بدل ڈالتے ہیں۔
جناب کا عورت کو نوکرانی کہے جانا کھل رہا ہے تو سوال یہ ہے کہ اس نظریہ کا کون حامل ہے؟ جا کراسی سے شکوہ کیجئے تمام مسلمانوں کو ہدف تنقید کیوں بنارہے ہیں؟ باقی رہا خاندان بھر کی خدمت، تو جناب نے یہ بھی غلط فرمایا کوئی بھی خاندان بھر کی خدمت نہیں کرواتا۔ کیا جناب کے ہاں سارا خاندان ایک ساتھ ہی رہتا ہے؟ جب ایک ساتھ رہنا ہی ممکن نہیں تو پھر خدمت کیسے ممکن ہے؟
اہل السنة کے ہاں تو کوئی اس عمل کا قائل و فاعل نہیں ہے، البتہ موصوف کے نظرئیے (چہرہ کا پردہ نہیں ہے) سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ جناب عورت کو خاندان بھر کی خادمہ بنانا چاہتے ہیں اور وہ بھی بے پردہ۔آیت سے استدلال کرکے یہ کہنا کہ عورت فقط اپنے ہی والدین کی خدمت کرے گی وغیرہ وغیرہ تویہ بھی صحیح نہیں، کیونکہ عورت تو شوہر کے گھر میں ہوتی ہے نہ کہ والدین کے گھر میں۔ شاید موصوف بالکل ہی عقل کھو بیٹھے ہیں جو اتنی سی بات بھی نہیں سمجھ سکتے۔موصوف نے نہ جانے کس آیت اور کس سنت سے عورت کو فقط حق زوجیت کی ادائیگی کی ذمہ داری دی ہے (اور شکر ہے کہ یہ ذمہ داری دی ہے اگر یہ بھی نہ دیتے تو ہم کیا کرلیتے)۔
قرآن مجید میں تو شوہر کی کامل مکمل اطاعت کا بھی ذکر ہے فرمایا:
فَاِنْ اَطَعْنَکُمْ فَلااَا تَبْغُوْا عَلَیْھِنَّ سَبِیْلااً (سورة النساء آیت نمبر۳۴)
دیگر حقوق بھی ہیں؛ فرمایا: “وَ لَھُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْھِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ” (سورہ البقرہ :۲۲۸)
اسی طرح حدیث شریف میں ہے عورت شوہر کی مکمل اطاعت کرے، شوہر کی بلا اجازت کسی کو گھرمیں نہ آنے دے، نفلی عبادت بھی شوہر کے اذن سے کرے، گھر کے کام کاج کرنا جس طرح سیدہ فاطمہ کیا کرتی تھیں ۔ حتیٰ کہ ہاتھوں میں چھالے پڑجاتے تھے۔ (دیکھئے صحیح بخاری شریف)۔
جناب نے خاندان بھر کی خدمت سے روکتے روکتے شوہر کی اطاعت و خدمت سے بھی روک دیاآخر کس دلیل سے؟ اگر جناب کی خدمت “محترمہ” نہیں کرتیں تو ہم کیا کریں۔ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا گھر کے سارے کام اپنے ہاتھوں سے سر انجام دیتی تھیں اور روٹی نہ پکا سکنے پر پڑوسنیں آکرروٹی پکاجاتیں۔(بخاری و مسلم)
یہ واقعہ خود اسماء بنت ابی بکر اپنی شادی کے بعد بیان فرماتی ہیں۔
عورت پر شوہر کا یہ بھی حق ہے کہ وہ اس کے مال کی حفاظت کرے۔ (مسند احمد و ترمذی)
مزید دلائل بھی پیش کیے جاسکتے ہیں، مگر ماننے والوں کے لئے تو ایک ہی دلیل کافی ہے۔ واللہ الھادی۔
قرآن و سنت میں ہر وہ چیز عورت پر واجب کی گئی ہے، جو شوہر کی اطاعت کے زمرے میں آتی ہے۔ اب موصوف اس کے منکر ہیں تو ہوتے رہیں، انہیں آنکھ بند ہوتے ہی سب کچھ سمجھ آجائے گا۔ان شاء اللہ۔
ویسے جناب کا عورت کے لئے “حق زوجیت” کو باقی رکھنا یا واجب قرار دینا، کیا جناب کی ذہنی شہوت پرستی کی غمازی نہیں ہے؟ اگر یہ حق قرآن و سنت میں ہے تو اور بھی حقوق قرآن و سنت میں ہیں،جن میں سے چند ایک ہم نے بیان کردیئے ہیں۔ والحمد لله۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
شبہ طلاق
لکھتے ہیں!
اس شبہ میں شوہر کو مکمل اختیار دیا جاتا ہے، حاکم و جابر سرغنہ کی طرح اور اس کو طلاق کا حق دے دیا جاتا ہے۔
جواب شبہ کے تحت لکھتے ہیں:
طلاق کے حوالے سے بہت ساری باتیں کتاب و سنت کے خلاف رائج ہیں…آگے چل کر لکھتے ہیں: دشمنان اسلام نے طلاق کو ایک مضحکہ خیز عمل بنا دیا ہے۔ اس حدتک کہ اگر کوئی شوہر خواب میں بھی طلاق دے دے تو وہ طلاق واقع ہو جاتی ہے۔ (صفحہ:۱۲۹)۔
پھر مسئلہ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں! ایک مجلس میں تین دفعہ طلاق دینے کا تصور غیر شرعی ہے اور بطور حوالہ سورة بقرة کی آیت نمبر ۲۲۹ بمع ترجمہ تحریر کی ہے۔
تفسیر بالرائے فرماتے ہیں! طلاق الگ الگ وقت میں دو مرتبہ دی جائے لہٰذا ایک مجلس میں تین طلاقیں دینا بدعت ہے۔ (صفحہ:۱۳۰۔ ۱۳۱)۔
صحیح بخاری شریف سے استدلال کرتے ہوئے رقم طراز ہوتے ہیں کہ
عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنی گھر والی کو حالت حیض میں طلاق دے دی۔ پھر جب یہ خبر میرے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے سوال کیا “کیا وہ حالت حیض میں تھی”؟ انہوں نے جواب دیا جی ہاں! تو پھر میرے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو حکم دیا کہ جاوٴ رجوع کرلویہ طلاق واقع نہیں ہوئی۔ (صفحہ:۱۳۳)۔
پھر تیسری دلیل کے ضمن میں سورة طلاق کی آیت نمبر۲ بمع ترجمہ پیش کرکے تفسیر بالرائے فرماتے ہیں: جس طرح نکاح دو گواہوں کے بغیر نا مکمل ہے، اسی طریقے سے طلاق کے لئے دو گواہوں کی شرط لازم ہے، جو اللہ کی طرف سے مقرر ہے مگر اس کی حکم عدولی کی گئی اور شوہر کو یہ کھلا اختیار دے دیاگیاکہ جب چاہے رات کی تنہائی کے کسی پہر میں عورت کو طلاق دے دے تو وہ قبول ہو جائے گی۔
پھر سورہ بقرہ کی آیت ۲۲۷۔۲۲۶ بمع ترجمہ پیش کر کے مسئلہ “ایلاء” کی بات کرتے ہیں کہ شوہر کو لٹکانے کا حق نہیں، بلکہ صرف چار مہینے تک مہلت دی جائے گی۔ اس کے بعد یقینی طور پرطلاق دینی ہوگی۔ (صفحہ:۱۳۴ سے ۱۳۶ تک دیکھئے)۔ اور آخر میں احادیث کی روشنی میں عورت کی فضیلت و مرتبہ بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ (صفحہ:۱۳۸ تا ۱۴۰)۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
تحقیقی نظر
نہ جانے موصوف کو مردوں سے اس قدر عداوت کیوں ہے، کہ وہ قرآن و سنت کے نصوص بھی اس دشمنی میں پس پشت ڈال دیتے ہیں۔ نہ جانے موصوف جنسی طور پر خود کیا ہیں؟
کیا قرآن و سنت میں یہ مسئلہ واضح نہیں کہ مرد کو ہی طلاق دینے کا اختیار ہے؟ قرآن مجید میں کئی ایک مقام پر یہ بات بیان کی گئی ہے۔ مثلاً
وَ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ ۔ اور جب تم عورتوں کو طلاق دو (البقرہ۔۲۳۱)
لااَا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ اِنْ طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ تم پر عورتوں کو طلاق دینے میں کوئی حرج نہیں (البقرہ۔۲۳۶)
فَاِنْ طَلَّقَھَا… پس اگر وہ (مرد) اسے طلاق دیدے (البقرہ۔۲۳۰)
مزید دیکھئے سورہ بقرہ میں آیت ۲۳۲، ۲۳۶ ،۲۳۷، سورہ احزاب میں آیت نمبر۴۹ اور سورة طلاق میں آیت نمبر۱ وغیرہ وغیرہ۔
اسی طرح احادیث و سنن کا مطالعہ کرنیوالے بھی جانتے ہیں کہ طلاق دینے کا اختیارتو صرف شوہر کو ہی ہے اور بس۔ (صحاح ستہ میں سے کسی بھی کتاب میں ابواب طلاق کا مطالعہ کیجئے)امت مسلمہ کا اس پر اجماع بھی ہے۔ اب جناب مدنی محض صاحب نہ جانے کیوں ان نصوص کو ٹھکرا کر خود کواعداء قرآن و سنت میں شمار کروانا چاہتے ہیں؟جہاں تک خواب میں طلاق دینے اور اس کے مقبول واقع ہونے کی بات ہے تو یہ نہ قرآن و سنت میں ہے اوار نہ ہی اجماع امت مسلمہ میں۔ ہو سکتا ہے کہ جس فقہ کو فی کے جناب آج کل علمبردار ہیں اس میں ایسا کوئی حیلہ ان کی نگاہ عقابی سے گزرا ہو اور انہیں یاد رہ گیا ہو۔
موصوف نے آگے چل کر ایک ساتھ تین طلاقیں دینے کے عمل کو بدعت قراردیا ہے اور یہ بالکل منہج سلفی کی ترجمانی ہے اور صحیح ہے۔ مگر جناب نے آگے چل کر اس کے واقع ہونے کی جو تردید کی ہے، وہ سراسر مخالفت حدیث پر مبنی ہے۔ جس میں ذکر ہوا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں، عہد صدیقی میں اور عہد فاروقی کے صدر اول میں ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک ہی شمار کی جاتی تھیں۔ (یعنی ایک تو یقینا واقع ہوتی ہے)۔ (صحیح مسلم)۔
پھر جو موصوف نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف یہ منسوب کیا ہے (قصہ ابن عمر میں) کہ جاوٴ رجوع کرلو یہ طلاق واقع نہیں ہوئی۔ تو اس سلسلے میں جناب تقول علی الرسول صلی اللہ علیہ وسلم اور الکذب علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے جہنم کی وعید کے مستحق ہوگئے ہیں۔ اعاذنا الله منہ۔
موصوف قیامت تک صحیح بخاری سے یہ الفاظ نہیں دکھا سکتے کہ “یہ طلاق واقع نہیں ہوئی”۔ بلکہ صحیح بخاری میں تو اس مسئلہ پر باب قائم کیا گیا ہے کہ “حائضہ بعد از طلاق عدت طلاق گزارے گی” یا دوسرے لفظوں میں “وہ اس طلاق کو شمار کریگی”۔ اور پھر اس کے تحت جو قصہ ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا ذکر ہوا ہے، اس میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کورجوع کرنے کا حکم دیا جو، از خود اس کے واقع ہونے کی دلیل ہے۔
نوٹ: (ہم نے یہاں اس بات سے صرف نظر کیا ہے کہ ہمارا نقطہ نظر اس سلسلے میں کیا ہے) نیز اس سلسلے میں (تفہیم کیلئے) صحیح بخاری میں باب “مراجعة الحائض “ کا مطالعہ بھی مفید رہے گا۔
نکاح اور طلاق پر جناب نے جو دو گواہوں کو لازمی شرط قرار دے دیا ہے یہ بھی تقول علی الله ہے نعوذ بالله من ذلک۔ کیونکہ نہ یہ شرط ہے نہ فرض و واجب، یہ اسی طرح مستحب و مندوب ہی کہلائے گا جس طرح کہ بیع کے وقت حکم ہے “واشھدوا اذا تبایعتم” ۔ اب ظاہر ہے یہ واجبی حکم نہیں ہے اور اس کی تائید جناب کی عملی زندگی بھی کرتی ہے۔
نکاح میں گواہوں کا ہونا موقوف روایتوں سے ثابت ہے مرفوع نہیں ۔ ( دیکھئے ارواء الغلیل و سنن ابی داوٴد وغیرہ)۔ جناب کی پیش کردہ آیت میں “گواہوں” کی گواہی کے موقع و محل میں مفسرین کا اختلاف ہے۔ (دیکھئے فتح القدیر اور زاد المسیر)۔
اس لئے جناب نہ تو تفسیر بالرائے سے گواہوں کا شرط ہونا اور واجب ہونا ثابت کرسکتے ہیں اور نہ ہی گواہی کا موقعہ و محل ۔ہاں البتہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ بھی قول ہے اور یہ بھی۔ نیز صحیح ابوداوٴد طبع دارالسلام میں حدیث رقم ۲۱۸۶ میں یہ واقعہ بیان ہواہے کہ سید نا عمران بن حصین رضی اللہ تعالٰی عنہ سے سوال کیا گیا کہ ایک آدمی اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہے اور پھر اس سے مباشرت کرلیتاہے مگر طلاق دینے یا اس سے رجوع کرنے پر گواہ نہیں بناتا۔ تو انہوں نے فرمایا کہ ا س نے خلاف سنت طلاق دی اور خلاف سنت ہی رجوع کیا۔ بیوی کو طلاق دیتے وقت گواہ بناوٴ اور رجوع کے وقت بھی اورپھر آئندہ ایسا نہ کرنا۔
اس موقوف روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ طلاق اور رجوع میں گواہ بنا لینا مستحب ہے اور افضل ہے۔ بالخصوص جب رجوع زبانی ہو۔ کیونکہ رجوع بالفعل میں گواہ کے کوئی معنی نہیں الایہ کہ اذالم تستحی فاصنع ماشئت کا مصداق بن جائے۔ فافھم و تدبر۔
لہٰذا شوہر کا اکیلے میں تنہائی میں طلاق دے دینا کوئی حکم عدولی نہیں، بلکہ اس کا اپنے حق کو استعمال کرنا ہے جس کا وہ خود ہی حق دار ہے۔ ہم جناب کو مشورہ دیں گے کہ کچھ اپنا بھی خیال کریں کہ ہماری نگاہ میں تو آپ بھی ایک “مرد” ہی ہیں۔ واللہ اعلم۔
آخر میں جو مسئلہ “ایلاء” پر جناب نے لب کشائی کی ہے، تو اس سلسلے میں تو یہ بات واضح ہو گئی کہ کم از کم چار ماہ تک شوہر کو مہلت مل سکتی ہے۔ جس کے جناب بھی قائل ہیں مگر کیا اس سے مرد کی فوقیت ثابت نہیں ہوتی؟ اختیار ثابت نہیں ہوتا؟ جسے ختم کرنے کیلئے جناب نے خود کوتباہی کے دہانے پرپہنچادیاہے۔ مگر یاد رہے حافظ صاحب نے یہ جو لکھا ہے (اور قرآن سے ثابت کرنے کی ناپاک جسارت کی ہے) کہ “اس کے بعد یقینی طور پر طلاق دینی ہوگی” یہ اللہ کے پاک کلام میں کہیں بھی نہیں بلکہ پہلے “فاء وا “ کا ذکر ہے یعنی وہ رجوع کا اختیار رکھتے ہیں چاہیں تو رجوع کرلیں۔
اور امام ابن المنذر رحمہ اللہ نے تمام اہل علم کا اجماع نقل کیا ہے کہ “فاء وا”سے مراد اپنی عورت سے جماع و ہم بستری کرنا مراد ہے الایہ کہ کوئی عذر ہو۔ (فتح القدیر از شوکانی)۔
لہٰذا جناب کا خود ساختہ قرآن بنا کر یہ کہنا کہ چار ماہ بعد یقینی طور پر طلاق دینی ہوگی۔ صراحة تحریف قرآن ہے۔ اور اس طرح جناب نے اپنے موجودہ اکابر و اصاغر کے منہج کو پھر سے زندہ کر دیا ہے کہ وہ تحریف کے عادی ہیں۔ (دیکھئے قرآن و حدیث میں تحریف از ابو جابر)۔
باقی رہی عورتوں کی فضیلت کی بات تو ہر مسلمان ہی قرآن و سنت میں وارد فضیلت کو تسلیم کرتا ہے۔ البتہ جناب کی حرکت یہ ہے کہ وہ عورتوں کی حمایت میں احادیث لکھ دیتے ہیں مگر اپنی (یعنی مرد کی) حمایت میں آنے والی احادیث کو مسیحی اور ہندو روایت کہہ کر رد کردیتے ہیں۔
امام سیوطی رحمہ اللہ نے “مفتاح الجنہ” میں لکھا ہے کہ جس نے بھی محدثین کے ثابت شدہ اصولوں پر ثابت شدہ ایک حدیث کو بھی رد کیا، وہ کفر میں داخل ہوگیا اور اس کا حشرو نشر یہود و نصاریٰ یادیگر ملت کافرہ کے ساتھ ہوگا۔ ان شاء اللہ۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
شبہ شرپسندی
لکھتے ہیں:
اس شبہ میں یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ عورت بدزبان ، بداخلاق، بدتہذیب، الغرض تمام برائیوں کا مجموعہ ہوتی ہے اور یقینا اپنے اس دعوے کو ثابت کرنے کیلئے اسلام کا سہارا لیا جاتا ہے جھوٹی روایت کو بنیاد بنا کر۔ جواب شبہ میں لکھتے ہیں: قرآنی تعلیمات کے مطابق انسان (مرد یا عورت) دونوں میں ہی اچھائی اور برائی کا امکان ہوتاہے ۔پھربطور مثال سورہ ابراہیم کی آیت نمبر۳۴ سورہ معارج کی آیت نمبر۱۹ اور سورة عادیات کی آیت نمبر۶ بمع ترجمہ تحریر کی ہیں۔ (صفحہ:۱۴۱ سے ۱۴۲)۔
آگے چل کر موضوع اور من گھڑت احادیث کی بعض مثالیں دی ہیں جو کچھ اس طرح ہیں:
1…عورتوں کو لکھنا پڑھنا نہ سکھاوٴ اور نہ ان کو اچھے گھروں میں رکھو۔
2…سب سے بدترین دشمن آپ کی بیوی ہے جس کے ساتھ آپ سوتے ہیں۔
3…تین چیزیں قابل اعتماد نہیں ہیں۔ دنیا، حاکم وقت اور عورت۔
4…تین چیزیں ہیں، اگر آپ ان کو عزت دو گے تو وہ جواب میں آپکی توہین کریں گی ان میں سے سب سے پہلے عورت ہے۔
5…عورت کی فرمانبرداری میں حسرت و ندامت ہے۔
6…اگر عورتیں نہ ہوتی تو مرد جنت میں جاتے۔
7…اگر عورتیں نہ ہوتیں تو اللہ تعالیٰ کی کماحقہ عبادت ہوتی۔
8…تین چیزوں میں نحوست ہے۔ عورت، گھوڑا اور گھر۔ …وغیرہ وغیرہ… (صفحہ:۱۴۳۔۱۴۴)۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
تحقیقی نظر
جناب کا عورتوں کو ایسا اور ویسا کہنے پر برہمی بجا ہے، ہم جناب کے ساتھ ایسے لوگوں کی بھرپورمذمت کرتے ہیں جو کہ خود ساختہ جھوٹی روایتوں کو دلیل بنا کر عورتوں کی توہین کرتے ہیں۔ فعلیھم ما علیھم۔
صحیح بات یہی ہے کہ مردو عورت دونوں سے ہی برائی کا امکان ہوتا ہے جیسا کہ موصوف نے بھی اقرار کیا ہے۔ اسی لئے قرآن مجید میں فرعون، ہامان وغیرہ کی طرح زوجہ نوح علیہ السلام اور زوجہ لوط علیہ السلام کا بھی ذکرکیا گیا ہے ۔ نیز ابولہب کی زوجہ ملعونہ کا بھی ذکر ہوا ہے۔
جناب نے جو ۱۴ حدیثوں کی فہرست بیان کی ہے، اسے خود ہی موضوع اور من گھڑت قراردیا ہے توسوال یہ ہے، کہ جب وہ ہیں ہی جھوٹی تو ان کا جھوٹا ہونا بیان کرکے بات ختم ہوجانی چاہیے ادھرادھرجانے کی ضرورت ہی کیاہے۔ مگر یہ ضروری ہے کہ جناب ان روایتوں کے ماخذ اور ان کاموضوع ہونا مستند کتابوں سے پہلے ثابت کریں۔ کیونکہ اگر یہ صحیح ثابت ہوگئیں تو جناب پر امام سیوطی رحمہ اللہ کا فتویٰ عائد ہوجائے گا اور ساتھ ہی ساتھ امام طحاوی حنفی رحمہ اللہ کا فتویٰ بھی جو شرح عقیدہ طحاویہ میں دیکھا جاسکتاہے۔
جناب نے حدیث نمبر۱۴ میں جو عبارت دی ہے، وہ موضوع اور من گھڑت نہیں بلکہ صحیح بخاری میں موجود ہے۔ مگر جناب اسے سمجھے ہی نہیں اور نہ ہی اس کے دیگر طرق کو دیکھا کہ بات واضح ہو جاتی کہ اس حدیث کے اجمال کو دوسری حدیث کے الفاظ دور کرتے ہیں کہ اگر نحوست ہوتی تو ان تین چیزوں میں ہوتی۔ (لفظ “اگر” انتہائی قابل غور ہے)۔
اس سے مقصود یہ تھا کہ (مطلقاً) نظریہ جہالت کی تردید کردی جائے کہ اس میں نحوست اور یہ نامبارک۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ بھی بیان کیا کہ اہل جاہلیت نحوست کے قائل تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بات بیان کرکے تردید کر دی۔ (گویا نحوست کسی بھی چیز میں نہیں ہوتی) (دیکھئے مشکل الآثار از طحاوی)
 
Top