کلیم حیدر
ناظم خاص
- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,747
- ری ایکشن اسکور
- 26,381
- پوائنٹ
- 995
کنیز کی تعریف اور اس کے حلال ہونے کی دلیل
سوال: قرآن مجید نے کنیز کی کیا تعریف بیان کی ہے؟ اور کنیز کے بلا نکاح حلال ہونے کی دلیل کیاہے؟
رہی ان کے بلا نکاح حلال ہونے کی دلیل ، تو وہ یہ ہے کہ اول تو مذکورہ بالا آیت میں جن شادی شدہ عورتوں کو حرام کیا گیا ہے، ان سے وہ عورتیں مستثنیٰ کردی گئی ہیں جو جنگ میں گرفتار ہو کر آئی ہوں۔ پھر ا س کے بعد فرمایا:
اس معنی پر یہ آیت بھی دلالت کرتی ہے:
(بحوالہ رسائل و مسائل: ترجمان القرآن۔ شوال ۱۳۷۵ھ، جون ۱۹۵۶ء)
سوال: قرآن مجید نے کنیز کی کیا تعریف بیان کی ہے؟ اور کنیز کے بلا نکاح حلال ہونے کی دلیل کیاہے؟
یہ تعریف اور ایسی عورت کے حلال ہونے کی دلیل اس آیت میں ہم کو ملتی ہے:جواب: قرآن میں کنیز کی تعریف یہ کی گئی ہے کہ “وہ عورت جو زورِ بازو سے حاصل ہو” اور چونکہ قرآن مجید زور بازو کے استعمال کو صرف قتال فی سبیل اللہ تک محدود رکھتا ہے اس لئے قرآن مجیدکی تعریف کی رو سے کنیز صرف وہ عورت ہے ،جو راہ خدا کی جنگ میں گرفتار ہو کر مسلمانوں کے ہاتھ آئے۔
سیدھا ہاتھ عربی میں قدرت، غلبہ و قہر اور زورِ بازو کے مفہوم میں بولا جاتا ہے۔ یہ بجائے خود کنیز کی مذکورہ بالا تعریف کے حق میں کافی دلیل ہے۔ اس پر مزید یہ دلیل ہے کہ وہ شادی شدہ عورت جس کو اس آیت میں حرمت کے حکم سے مستثنیٰ قرار دیا گیاہے، بہرحال وہ عورت تو نہیں ہو سکتی جس کا نکاح دارالاسلام میں ہوا ہو، کیوں کہ آیت کا سیاق خود بتا رہا ہے کہ وہ ان محصنات میں شامل ہے جو حُرِّمَتْ عَلَیْکُم کے تحت آتی ہیں۔ اس لئے لا محالہ اِلَّا مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ سے مراد وہی شادی شدہ عورتیں ہوں گی جن کے نکاح دارالحرب میں ہوئے ہوں اور پھر وہ جنگ میں گرفتار ہو کر آئی ہوں۔حُرِّمَتْ عَلَیْکُمْ اُمَّھٰتُکُمْ وَبَنَاتُکُمْ وَ اَخَوَاتُکُمْ وَعَمّٰتُکُمْ وَ خَاٰلتُکُمْ وَ بَنٰتُ الْاَخِ وَبَنٰتُ الْاُخْتِ وَ اُمَّھٰتُکُمُ الّٰتِیْٓ اَرْضَعْنَکُمْ وَ اَخَوَاتُکُمْ مِّنَ الرَّضَاعَةِ وَ اُمَّھٰتُ نِسَآئِکُمْ وَ رَبَآئِبُکُمُ الّٰتِیْ فِیْ حُجُوْرِکُمْ مِّنْ نِّسَآئِکُمُ الّٰتِیْ دَخَلْتُمْ بِھِنَّ فَاِنْ لَّمْ تَکُوْنُوْا دَخَلْتُمْ بِھِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ وَ حَلَآئِلُ اَبْنَائِکُمُ الَّذِیْنَ مِنْ اَصْلَابِکُمْ وَ اَنْ تَجْمَعُوْا بَیْنَ الْاُخْتَیْنِ اِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ اِنَّ اللهَ کَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا وَّ الْمُحْصَنٰتُ مِنَ النِّسَآءِ اِلَّا مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ (سورة النساء آیت نمبر ۲۲۔۲۳)
تم پر حرام کی گئیں تمہاری مائیں اور تمہاری بیٹیاں اور تمہاری بہنیں اور تمہاری پھوپھیاں اور تمہاری خالائیں اور بھتیجیاں اور بھانجیاں اور تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تم کو دودھ پلایا ہے اور تمہاری وہ بہنیں جو دودھ پینے کی وجہ سے ہیں۔ اور تمہاری بیبیوں کی مائیں اور تمہاری بیبیوں کی بیٹیاں جو کہ تمہاری پرورش میں رہتی ہیں، ان بیبیوں سے کہ جن کے ساتھ تم نے صحبت کی ہو اور اگر تم نے ان بیبیوں سے صحبت نہ کی ہو تو تم کو کوئی گناہ نہیں۔اور تمہارے ان بیٹوں کی بیبیاں جو کہ تمہاری نسل سے ہوں، اور یہ کہ تم دوبہنوں کو (رضاعی ہوں یا نسبی) ایکساتھ رکھولیکن جو پہلے ہوچکا۔ بیشک اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا بڑا رحمت والا ہے۔ اور وہ عورتیں جو کہ شادی شدہ ہوں ما سوا اُن عورتوں کے جن کے مالک ہوئے تمہارئے سیدھے ہاتھ۔
رہی ان کے بلا نکاح حلال ہونے کی دلیل ، تو وہ یہ ہے کہ اول تو مذکورہ بالا آیت میں جن شادی شدہ عورتوں کو حرام کیا گیا ہے، ان سے وہ عورتیں مستثنیٰ کردی گئی ہیں جو جنگ میں گرفتار ہو کر آئی ہوں۔ پھر ا س کے بعد فرمایا:
اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ملک یمین میں آئی ہوئی عورتوں کو مہر دے کر نکاح میں لانے کی ضرورت نہیں ہے، وہ اس کے بغیر ہی حلال ہیں۔﴿ وَ اُحِلَّ لَکُمْ مَّا وَرَآءَ ذٰلِکُمْ اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِکُمْ مُّحْصِنِیْنَ غَیْرَ مُسَافِحِیْنَط ﴾
“اور حلال کیا گیا تمہارے لیے ان کے سوا دوسری عورتوں کو اس طور پر کہ تم ان کو اپنے اموال کے بدلے حاصل کرو، قید نکاح میں لانے والے بن کر، نہ کہ آزاد شہوت رانی کرتے ہوئے”۔
اس معنی پر یہ آیت بھی دلالت کرتی ہے:
اس آیت میں اہل ایمان کے لئے دو قسم کی عورتوں سے تعلق شہوانی کو جائز ٹھہرایا گیا ہے۔ ایک ان کی ازواج۔ دوسرے مَا مَلَکَت اَیْمَانُھُمْ ازواج سے مراد تو ظاہر ہے کہ منکوحہ بیویاں ہیں۔ اب اگر مَا مَلَکَت اَیْمَانُھُمْ بھی منکوحہ بیویاں ہی ہوں تو ان کا ازواج سے الگ ذکر سراسرفضول ٹھہرتا ہے۔ لا محالہ اس سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ ان سے محض ملک یمین کی بنا پر تمتع جائزہے۔قَدْاَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ ھُمْ فِیْ صَلَا تِھِمْ خٰشِعُوْنَ … وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِفُرُوْجِھِمْ حٰفِظُوْنَ اِلَّا عَلٰٓی اَزْوَاجِھِمْ اوْ مَا مَلَکَت اَیْمَانُھُمْ فَاِنَّھُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَ
فلاح پائی ایمان لانے والوں نے جو اپنی نماز میں خشوع برتتے ہیں… اور جو اپنی شرم گاہوں کو محفوظ رکھتے ہیں ، سوائے اپنی بیویوں یا اپنی لونڈیوں کے، کیونکہ بیویوں اور لونڈیوں سے محفوظ نہ رکھنے پر وہ قابل ملامت نہیں ہیں۔ (سورہ المومنون آیات نمبر ۱ ۔ ۶)
(بحوالہ رسائل و مسائل: ترجمان القرآن۔ شوال ۱۳۷۵ھ، جون ۱۹۵۶ء)