• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امرأۃ القرآن کا تحقیقی جائزہ

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
شبہ عورت کو مکمل ڈھانکنا
لکھتے ہیں:
اس شبہ میں یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ عورت کو مکمل طور پر چھپانا چاہیے۔ جواب شبہ کے تحت لکھتے ہیں: اس کو ثابت کرنے کے لئے میرے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک جھوٹ منسوب کیا گیا اور وہ تھا “المرأة عورة” یعنی عورت مکمل ڈھکی ہونی چاہیے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ عورت کے خلاف ایک ایسی موضوع روایت کو ہوا دی گئی جو بے بنیاد ہے۔
کچھ آگے چل کر لکھتے ہیں! جبکہ قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق مرد، عورت دونوں کو اپنے اپنے دائرے میں دین کو فروغ دینا ثابت ہے۔ (صفحہ:۱۴۵۔ ۱۴۶)۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
تحقیقی نظر
جناب شاید کسی بے پردہ اور بازاری گھر کے چشم و چراغ ہیں جو اس قدر چادر و چار دیواری اورعورت کے پردہ پر چراغ پا ہورہے ہیں۔ حالانکہ ہر سلیم العقل خصوصاً متدین شخص اس مسئلہ کی حقیقت کو سمجھتا ہے۔ نہ جانے جناب عورتوں کے پردے کھلوا کر کیا گل کھلانا چاہتے ہیں؟
اللہ تعالیٰ نے یدنین علیھن من جلابیبھن اور وَ لْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلٰی جُیُوْبِہِنَّ کہہ کر عورت کو اپنے تحفظ کے لئے خود کو ڈھانپنے اور چھپانے کا حکم دیا ہے حتیٰ کہ زینت کے مخفی رکھنے کے لئے حکم دیدیا کہ ولا یضربن بارجلھن یعنی پیر بھی زور سے مار کر نہ چلیں۔البتہ بوقت ضرورت عورت باپردہ ہو کر باہر جاسکتی ہے، شریعت نے اس سے نہیں روکا۔ اب اس میں کیا اعتراض والی بات ہے جو موصوف حدیث دشمنی پر اتر آئے ہیں۔
اس شبہ میں جناب نے جس روایت کو جھوٹی اور موضوع قرار دیا ہے وہ روایت صحیح ابن حبان میں حدیث رقم ۵۵۹۹، ۵۵۹۸ کے تحت موجود ہے اور بالکل صحیح ہے۔ اگر صرف زبانی جمع خرچ سے ہی حدیث موضوع اور جھوٹی ہوجاتی ہے، تو پھر قرآن کی بھی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی کہ وہ بالکل صحیح ہے۔ بلکہ کوئی بھی من چلا اسے جھوٹا قرار دے سکتا ہے۔ اعاذ نا الله من ھذہ الھفوات۔
آخر میں جو جناب نے مرد و عورت کے اپنے اپنے دائرے کی بات کی ہے، یہ بالکل صحیح ہے اور یہ دائرے ہی دلیل ہیں کہ عورت مرد سے خود کو علیحدہ اور چھپا کر رکھے گی۔ فامنھم
دین اسلام میں مخلوط مجالس کا کوئی تصور نہیں ہے اسی لئے تو اللہ تعالیٰ نے مردوں کو دوسرے مردوں کے ساتھ تمسخر سے روکا ہے، اور عورتوں کو علیحدہ کہا کہ عورتیں دوسری عورتوں کا تمسخر نہ اڑائیں (ذرا گہری نظر سے سورئہ حجرات کا مطالعہ کیجئے)۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
شبہ کہ عورت، کتا اور گدھا
لکھتے ہیں:
اس شبہ میں بخاری شریف “کتاب الصلاة” سے حوالہ دیا جاتا ہے کہ نماز کے آگے سے اگر کتا، گدھا، عورت، یہودی گزر جائے، تو نماز ٹوٹ جاتی ہے۔ جواب شبہ کے تحت لکھتے ہیں: قرآن کریم سورة اعراف آیت نمبر۱۷۹ میں اللہ تعالیٰ نے نافرمانوں کی مثال چوپایوں سے دی ہے نہ کہ جانوروں سے۔ اس لئے کہ چوپائے انسان کے لئے بہت ہی مفید ہوتے ہیں۔ جس میں اشارہ مل رہا ہے کہ خدا نے نافرمانوں کی چوپایوں سے مثال دے کران کی تذلیل و تحقیر نہیں کرنی چاہی، بلکہ انہیں نا سمجھ قراردیاہے۔ (صفحہ:۱۴۷)۔
مذکورہ روایت پر اعتراض کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ غور طلب بات یہ ہے کہ یہ روایتیں بخاری شریف میں کیسے درج کردی گئیں۔ یقینا یہ کچھ لوگوں کا کارنامہ ہے۔ کہ انہوں نے ایسی بہت سی نازیبا،قرآن و سنت کے بالکل برعکس روایتیں درج کردیں اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کیلئے۔
دوسری دلیل کے تحت لکھتے ہیں: بخاری شریف کی بالا روایات سے تو یہ ثابت ہو رہا ہے کہ میرے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے فوراً بعد ہی عورتوں کے خلاف محاذ کھڑا کردیاتھا…تو جب معاذ اللہ عورت کو اتنی بڑی گالی دی جائے گی، تو پھر وہ کہاں معتبر رہے گی۔
تیسری دلیل کے تحت لکھتے ہیں: میرے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم سے جھوٹی باتیں منسوب کرنا جیسا کہ مذکورہ مسئلے میں ہوا اس کے باوجود ان دونوں حدیثوں کو بخاری شریف سے الگ نہیں کیا جاسکا، جو کہ بہت بڑا المیہ ہے۔ لہٰذا ہر مسئلے کو کتاب و سنت کے پیمانے سے دیکھنا چاہیے نہ کہ روایات سے۔ (صفحہ:۱۴۹، ۱۵۰)۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
تحقیقی نظر
جناب نے یہاں اعتراض کے ساتھ ساتھ حدیث کی طرف لفظ یہودی بھی منسوب کیا ہے جو کہ صحیح بخاری میں نہیں ہے اس سے اندازہ کرلیں کہ جناب عورت کی محبت میں کس قدر اندھے پن کا مظاہرہ کررہے ہیں۔اسلام دشمنی کا عالم یہ ہے کہ جن لوگوں کی “کالانعام” کہہ کر اللہ تعالیٰ نے مذمت کی ہے، جناب انہیں بہت “مفید” قرار دے رہے ہیں اور اپنے رشتہ دار چوپایوں سے مودت کا اظہار کررہے ہیں۔ کیا واقعی چوپائے جانور نہیں ہوتے؟ دنیا کی کس لغت میں لکھا ہے؟ اور کیا اگر ہم جناب کو ناسمجھ چوپایہ قرار دیں تو جناب خوش ہوں گے اس لقب کو قبول کریں گے؟
جناب حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں “بخاری شریف میں (یہ روایتیں ) کیسے درج ہوگئیں”۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جناب کے ہاں بھی صحیح بخاری کا کچھ نہ کچھ مقام ضرور ہے چاہے کسی خاص مقصد کے تحت ہی ہو۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ جناب نے پہلی حدیث کو دوسری حدیث سے ہی رد کرنے کی کوشش کی ہے، اب اگر یہ جھوٹی ہیں تو پھر صحیح بخاری سے استدلال کے کیا معنی؟جناب کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ مکروفریب انہیں “منافق علیم اللسان” قرار دینے کے لئے کافی ہے اور ایسے ہی شخص کے مسلط ہوجانے کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خوف تھا۔ (دیکھئے جامع بیان العلم و فضلہ)۔
یہاں جناب نے ایک اور عندیہ دیا ہے اور وہ یہ ہے کہ (عندہ) سنت ، حدیث سے الگ کوئی چیزہے۔ یہی کہنا مولانا امین احسن کا تھا اور یہی ان کے شاگرد جاوید احمد غامدی کا دعویٰ ہے۔ حالانکہ اس فرق کی ان سب کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے اور یہ فہم سلف صالحین سے انحراف کی سبیل ہے جس پر “نولہ ما تولی و نصلہ جھنم “ کی وعید وارد ہوئی ہے۔جناب ذرا ہمت کرکے سنت کی تعریف ہی کردیں کہ ان کے ہاں بعد از قرآن وہی پیمانہ حق ہے۔
عورت گذرجانے سے نماز کا ٹوٹ جانا حدیث میں وارد ہوا ہے یہ کوئی اس کے خلاف محاذ قائم کرنے والی بات نہیں ہے اور نہ ہی کوئی گالی، اور اسے (نعوذ باللہ) گالی قرار دینا جناب کی انتہائی جسارت بے مہار ہے اور از خود ایک گالی ہے۔جہاں تک ان دونوں روایتوں کو بخاری شریف سے الگ کرنے کی بات ہے تو کیا جناب ان دوروایتوں کے اخراج کے بعد باقی تمام حدیثوں کو صحیح مان لیں گے؟
نیز دونوں کو علیحدہ کرنے سے تو جناب کی خود ہی تردید ہو جائے گی کیونکہ ایک سے تو جناب بھی استدلال کررہے ہیں۔عجیب تضاد ہے فکر کا، نظرکا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے فرمان کی توضیح (جو جناب نے پیش کیا ہے) یہ ہے کہ کچھ لوگوں نے جب اس حدیث کو بالکل ہی ظاہر پر محمول کرنا چاہا تو آپ نے اپنے عمل سے (جو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں کیاتھا)وضاحت کی کہ اگر سامنے عورت لیٹی ہو تو نماز میں کوئی خلل نہیں پڑتا۔ چہ جائیکہ اسے کلب و حمار پر محمول کرتے ہوئے نماز ہی کو باطل قرار دے دیا جائے۔اس میں یہ لطیف سا نکتہ بھی ہے کہ حالت کی تبدیلی سے حکم بھی بدل جاتا ہے آگے سے گزرنا اور ہے اور آگے لیٹے ہوئے ہونا اور ہے اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کلب و حمار اور عورت کی آپس میں کلی مشابہت و مماثلت کی نفی بھی کرنا چاہ رہی تھیں۔ اس میں کیا اشکال ہے واقعی عورت کلب و حمارسے جداہے۔ (مسئلہ کو سمجھنے کے لئے تمام کتب احادیث سے روایات کو جمع کیجئے نیز فتح الباری جلد اول بھی دیکھئے)۔
آگے جناب نے “شبہ حیض اور نجاست” ذکر کیا ہے، جس کا تفصیلی جواب ہم “شبہ کم دینی” کے تحت دے چکے ہیں۔ (والحمدللہ) وہاں دیکھ لیا جائے۔ شکریہ۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
شبہ مکرو فریب
لکھتے ہیں:
بعض نے قصداً عورت کو تمام مکروفریب کا ذمہ دار ٹھہرایا جس کے لئے انہوں نے من گھڑت جھوٹی احادیث کا سہارا لیا، جبکہ یہ مرد بھول گئے کہ ان کی ماں بھی ایک عورت تھی۔
جواب شبہ کے تحت لکھتے ہیں:
کتاب و سنت کی تعلیمات کے مطابق عورت مکروفریب اور تمام برائیوں کا سرچشمہ نہیں ہے۔ یہ تو مذاہب باطلہ کا تصور ہے…لہٰذا مکرو فریب قرآن نے مردوں کے حوالے سے بیان کیا ہے نہ کہ عورتوں کے حوالے سے۔ بطور حوالہ کے سورة آل عمران کی آیت نمبر۵۴ اور سورة انفال کی آیت نمبر۳۰ بمع ترجمہ کے بیان کی ہیں۔ (دیکھئے صفحہ:۱۵۵ تا ۱۵۶)۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
تحقیقی نظر
جناب اپنے خیالات کا تانہ بانہ بنتے رہتے ہیں اور جب چاہتے ہیں ان دیکھے لوگوں پر کوئی نہ کوئی الزام دھر دیتے ہیں۔ جیسے یہاں کیا ہے یہ لکھا ہی نہیں کہ “بعض” سے مراد کون لوگ ہیں اور کیا یہ انصاف کی بات ہے کہ بعض کا مسئلہ “کل” کے سر تھوپ دیاجائے؟ ہمیں امید ہے وہ “بعض” بھی جناب کی طرح (پی۔ ایچ۔ ڈی) پھرے ہوئے دماغ رکھتے ہوں گے، ورنہ تو عورت کا مقام و مرتبہ واضح ہی ہے۔جناب کا ان دیکھی روایتوں کو جھوٹی اور من گھڑت قرار دینا بھی غلط ہے اور بلادلیل، پہلے روایات پیش کرنا چاہیے پھر اس پر اصول محدثین سے پرکھ کر حکم لگانا چاہیے۔ جو انداز جناب کا ہے اس سے توصرف دشمن حدیث ہونا ہی ثابت ہوتا ہے اور بس۔
جہاں تک مکرو فریب کی بات ہے تو یہ صفت مردو عورت دونوں میں پائی جا سکتی ہے فقط مردوں کوہی مورد الزام ٹھہرانے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ ان کا باپ بھی ایک مرد ہی تھا۔قرآن مجید میں صرف مردوں کے مکر کا ہی ذکر نہیں بلکہ عورتوں کے مکروفریب کا بھی ذکر ہواہے دیکھئے سورہ یوسف میں عزیز مصر کی بیوی اور اس کی رفقاء عورتوں کے مکروفریب کی صراحت موجود ہے۔
وَغَلَّقَتِ الْاَبْوَابَ وَ قَالَتْ ھَیْتَ لَکَط (سورہ یوسف آیت نمبر۲۳)
دروازے بند کرکے دعوت گناہ دینے والی مکر کرتی ہے۔
قَالَتْ مَا جَزَآءُ مَنْ اَرَادَ بِاَھْلِکَ سُوْٓئًا (سورہ یوسف آیت نمبر۲۵)
کیا بدلہ ہو گا اس کا جو مجھ سے (تیری اہل سے) برائی کا ارادہ کرے۔
یہ مکر ہے یا نہیں کس کا ایک عورت کا، ماڈرن اور روشن خیال، جناب بھی روشن خیال ہیں، ذرا اپنے گھر کی خبر بھی لے لیں۔
اتنا بڑا مکرو فریب کہ شوہر بھی کہہ اٹھا
اِنَّہ مِنْ کَیْدِکُنَّط اِنَّ کَیْدَکُنَّ عَظِیْمٌ (سورہ یوسف آیت نمبر۲۸)
یہ تمہارا ہی مکر ہے اور تمہارا مکر تو بہت ہی خطرناک ہے۔
اور عورتوں نے بھی مکر کیا۔
فَلَمَّا سَمِعَتْ بِمَکْرِھِنَّ (سورہ یوسف آیت نمبر۳۱)
جب اس نے ان کا مکر سنا۔
یوسف علیہ السلام کے الفاظ کو اللہ تعالیٰ نے کلام پاک بنادیا۔
اِنَّ رَبِّیْ بِکَیْدِھِنَّ عَلِیْمٌ (سورہ یوسف آیت نمبر۵۰)
مگر ہائے، وائے افسوس عورت فوبیا کا شکار ابو خالد ان آیات کوکیوں دیکھے؟
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
شبہ کہ عورت شیطان ہے
لکھتے ہیں:
بعض نے تمام انسانی حدوں کو تجاوز کرتے ہوئے عورت سے بغض اور نفرت کی انتہا کو پہنچے، یہ بہتان لگا کر کہ عورت شیطان ہے اور یقینا اس کے لئے جھوٹی روایات کا سہارا لیا جاتا ہے۔
جواب شبہ کے تحت لکھتے ہیں:
کتاب وسنت کی تعلیمات کے مطابق شیطان مرد اور عورت دونوں کو قرار دیا گیا، اگر وہ دونوں اللہ کے راستے سے روکیں۔ پھر” سورة الناس” کی آیت ۳،۴،۵ بمع ترجمہ تحریر کی ہیں۔ اس کے بعد تفسیر بالرائے فرماتے ہیں…پورے قرآن میں کسی سرکش عورت کا ذکرنہیں ملتا، جیسے کہ فرعون، قارون یا ہامان ہیں۔ آگے پھر سورة الاحزاب کی آیت نمبر۳۵ بمع ترجمہ عورت کی حمایت میں پیش کی ہے۔ (صفحہ:۱۵۸ سے ۱۶۰ تک)۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
تحقیقی نظر
اس مذکورہ شبہ میں نہ تو جناب نے عورت سے نفرت کرنے والے “بعض” لوگوں کی نشاندہی کی ہے اور نہ ہی اس روایت کا ذکر کیا ہے جس پر جناب نے جھوٹی ہونے کا فتویٰ صادر کیا ہے اور جس میں بقول جناب کے عورت کو شیطان کہا گیا ہے۔موصوف سے التماس کیا جاتا ہے کہ پہلے یہ روایت، اس کا ماخذ و مصدر، اس کی سند پیش کریں اورپھر اصول محدثین کی روشنی میں پرکھ کر اس پر حکم لگائیں آپ کو کوئی نہیں روکتا۔ مگر بلا دلیل فقط زبانی جمع خرچ سے دشنام طرازی نشان شرافت نہیں ہے۔
آگے کی دونوں باتیں باہم متصادم و متضاد ہیں۔ پہلی میں عورت کو قرآن سے شیطان (سرکش) ثابت کررہے ہیں اور دوسری بات میں کہتے ہیں کہ قرآن میں کسی سرکش عورت کا ذکر نہیں ملتا۔ اب خودہی بتائیں یہ انداز بیان کیا ہے؟اور یہ دوسری بات بھی سراسر تجاہل عارفانہ اور قرآنی تحریف کی دلیل ہے جناب یہود و نصاریٰ کی طرح شاید افتوٴمنون ببعض الکتاب وتکفرون ببعض کا مصداق بنے ہوئے ہیں۔
قرآن میں کیا ابو لہب کی بیوی کا ذکرنہیں جسے حمالة الحطب سے موسوم کرکے فی جید ھاحبل من مسد کی وعید سنائی گئی ہے۔ کیا وہ سرکش نہیں تھی؟کیا نوح اور لوط علیہم السلام کی بیویوں کا ذکر وعید جہنم کے ساتھ نہیں ہے کہ قیل ادخلا النار مع الداخلین کیا وہ اللہ کی فرمانبردار تھیں؟
کیا قرآن مجید میں زنا جیسے فحش اور شیطانی عمل کے بیان میں الزانیة والزانی… یہ کہہ کر اس عمل بد کا پیش خیمہ عورت کو نہیں قرار دیاگیا؟
کیا حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں شیطانی صفت کی حامل عورت “عزیٰ” کا ذکر نہیں ملتا؟ بہرحال جناب نے اس شبہ کی بحث میں یہ قبول کرلیا ہے کہ جناب میں شیطانی صفت اور سرکشی محترمہ کی نسبت زیادہ ہی ہے۔ ہمیں اس پر کوئی اعتراض بھی نہیں۔ بشرطیکہ موصوف مرد بننے پر تیار ہوں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
شبہ شوہر کے لئے مکمل تابعداری
لکھتے ہیں:
بعض نے عورت کی شخصیت کو مکمل مسخ کردیا اور اس کے ہرہر ارادہ خواہش اور مرضی کی نفی کی، یعنی صرف ایک کنیز ہے۔ جسے صرف فرمانبرداری کرنی ہے۔ اعتراض، وضاحت، سوال اس کی اس کو قطعاً اجازت نہیں…اور میرے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم سے جھوٹی باتیں منسوب کی گئی ہیں۔
جواب شبہ کے تحت لکھتے ہیں:
سورة بقرہ آیت نمبر۲۵۶ میں واضح کردیا گیا ہے کہ دین میں زبردستی نہیں۔ (صفحہ:۱۶۲)۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
تحقیقی نظر
جناب اس شبہ میں (ایک شوہر ہو کر بھی) شوہر کے خلاف زہر اگل رہے ہیں اور وہ یہ کہ بیوی اپنے شوہر کی مکمل فرمانبرداری نہ کرے، ورنہ وہ کنیز اور جانور کی مانند ہو جائے گی۔ اب ظاہر ہے یہ تمام باتیں(جو بھی جناب نے لکھی ہیں) ان کی اپنی خود ساختہ ہیں اور برہمی جناب کی احادیث رسول پرکیوں؟
ڈگیاں کھوتے توں تے غصہ کمہار تے​
شریعت مطہرہ میں تو ایک عورت کو اپنے شوہر کی کامل مکمل اطاعت و فرمانبرداری کا پابندکیاگیاہے۔ قرآن مجید میں “فان اطعنکم” اور حدیث نبوی میں “طاعت بعلھا” اسی امر کی نشاندہی ہے۔
جہاں تک یہ بات ہے کہ عورت کو اعتراض و سوال وغیرہ کی قطعاً اجازت نہیں تو یہ بھی جناب کی ابلیسی تلبیس ہے ۔ قرآن و سنت میں ایسی کوئی بھی بات وارد نہیں ہوئی، اگر بعض الناس یہ کہتے ہیں توان سے دلیل مانگی جائے اور پھر اس دلیل کو محدثین کے قائم کردہ اصول پر پرکھ کر حکم لگادیا جائے نہ کہ اپنی طرف سے کسی روایت کو جھوٹی کہہ کر عداوت و دشمنی رسول کا اظہار کیا جائے۔قرآن و سنت اور تفاسیر و تواریخ میں ایسے بہت سے آثار موجود ہیں جن میں عورتوں کا کسی مسئلہ پر اعتراض کرنا، اس کی وضاحت طلب کرنا، کسی سلسلے میں مشورہ دینا وارد ہواہے۔ کما لا یخفی علی اھل العلم و المعرفة ۔
کم از کم اگر جناب کی پچھلے شبہ میں پیش کردہ سورة احزاب کی آیت نمبر۳۵ کا شان نزول ہی دیکھ لیں تو بات سمجھ میں آجائے گی کہ عورتیں اعتراض کا حق رکھتی ہیں یا نہیں۔باقی رہا کہ دین میں زبردستی و جبر نہیں ہے تو بات تو صحیح ہے مگر یہاں جس پیرائے میں جناب نے اسے پیش کرکے آیت سے استدلال کیا ہے، وہ کلمہٴ حق ارید بہ الباطل کا مصداق ہے۔ خارجیوں کی طرح جناب نے حرکت کی ہے کہ جو آیت اہل کفر و حرب کے بارے میں تھی وہ مسلمانوں پر فٹ کردی۔
شاید جناب چوری پر ہاتھ کاٹنے کو، زنا پر رجم کرنے کو، شرب خمر پر کوڑے مارے جانے کو اور دیگراسلامی تعزیرات کو جبر سے تعبیر کرتے ہوں جس طرح کہ آج نام نہاد اتحاد امت اور روشن خیالی (بے حیائی) کے داعی کہتے ہیں ،کہ یہ سزائیں زبردستی، جبرو اکراہ اور تشدد و انتہاء پسندی ہے معاذ الله
 
Top