عبداللہ عبدل
مبتدی
- شمولیت
- نومبر 23، 2011
- پیغامات
- 493
- ری ایکشن اسکور
- 2,479
- پوائنٹ
- 26
مریکی سیلاب سینڈی جماعت الدعوۃ کے امیر حافظ محمد سعید حفظہ اللہ کی جانب سے تعاون کی پیش کش کی شرعی حیثیت
علمی استفادہ از : فضیلۃ الشیخ محمد رفیق طاہر
بسم اللہ الرحمن الرحیم
گزشتہ دنوں امریکہ میں آنے والے سیلاب پر امیر محترم حافظ محمد سعید حفظہ اللہ نے امریکی حکومت کو تعاون کی پیش کش کی جس پرمخالفین نے ایک طوفان بدتمیزی کھڑا کر دیا ۔ کہ وہ امریکہ جسکی تباہی اور ہلاکت کے لیے آپ بددعائیں کرتے تھے ، اب وہاں اللہ کا عذاب آیا تو انکی مدد کرنے کے لیے پیش کشیں ہو رہی ہیں ۔لیکن یہ بیچارے لوگ معاملات کو نہیں سمجھتے اور صرف مخالفت برائے مخالفت میں ایسے دھن جاتے ہیں کہ دامن انصاف کو بھی ہاتھوں سے چھوڑ بیٹھتے ہیں جبکہ
اللہ تعالی نے حکم دیا ہے :
اولا:یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا کُونُوا قَوَّامِینَ لِلَّہِ شُہَدَاء َ بِالْقِسْطِ وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَی أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا ہُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَی وَاتَّقُوا اللَّہَ إِنَّ اللَّہَ خَبِیرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ (المائدہ :٨)
اے اہل ایمان اللہ کے لیے انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بن کے کھڑے ہو جاؤ ، کسی قوم کی دشمنی تمہیں انصاف سے پھیر کر مجرم نہ بنا دے ، انصاف ہی کرو (خواہ دشمنی ہی کیوں نہ ہو) یہ تقوی کے زیادہ قریب ہے ، اور اللہ تعالی ڈرو یقینا اللہ تعالی تمہارے اعمال کی خبر رکھنے والا ہے ۔
امیر محترم کا یہ بیان جیسا کہ ساری دنیا جانتی ہے سیاسی نوعیت کا تھا ۔ جس میں سب کو علم ہے کہ امریکہ کبھی بھی ایک جہادی تنظیم کی پیش کش قبول کرنے والا نہیں ہے ۔ البتہ اسکا یہ فائدہ ضرور ہوا ہے کہ مسلمانوں اور بالخصوص مجاہدین کا ایک اچھا امیج دنیا کے سامنے آیا ہے ۔ کہ ملت کفر جنکی جانوں کی دشمن ہے وہ اپنے عمل سے بتا رہے ہیں کہ ہم ہر ہر کافر کے دشمن نہیں ہیں بلکہ ہماری دشمنیاں صرف ان لوگوں سے ہیں جو اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے گستاخ ہیں ، اہل ایمان کے قاتل ہیں اور مسلمانوں پر جنگ مسلط کیے ہوئے ہیں اور اسی بات کا ہمیں اللہ تعالی نے حکم دیا ہے :
ثانیا :لَا یَنْہَاکُمُ اللَّہُ عَنِ الَّذِینَ لَمْ یُقَاتِلُوکُمْ فِی الدِّینِ وَلَمْ یُخْرِجُوکُمْ مِنْ دِیَارِکُمْ أَنْ تَبَرُّوہُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَیْہِمْ إِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِینَ ' إِنَّمَا یَنْہَاکُمُ اللَّہُ عَنِ الَّذِینَ قَاتَلُوکُمْ فِی الدِّینِ وَأَخْرَجُوکُمْ مِنْ دِیَارِکُمْ وَظَاہَرُوا عَلَی إِخْرَاجِکُمْ أَنْ تَوَلَّوْہُمْ وَمَنْ یَتَوَلَّہُمْ فَأُولَئِکَ ہُمُ الظَّالِمُونَ (َالممتحنۃ: 8-9)
اللہ تمہیں ان لوگوں سے دوستی سے منع نہیں کرتا، جنہوں نے نہ تم سے جنگ کی اور نہ تمہیں تمہارے گھر وں سے نکالا کہ تم ان سے نیک سلوک کرو اور ان کے حق میں انصاف کرو یقیناًاللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔ اور اللہ تو تمہیں انہی لوگوں سے دوستی سے منع کرتا ہے جنہوں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ کی اور تمہیں تمہارے گھروں سے نکالااور تمہارے نکالنے میں ایک دوسرے کی مدد کی اور جو ان سے دوستی کرے گا تو وہی لوگ ظالم ہیں ۔
یہ بیچارے یہ بھی نہیں جانتے کہ جہاد کیسے ہوتا ہے ، وگرنہ وہ یہ اعتراض کبھی بھی نہ کرتے ۔ کیونکہ عسکریت کو جاننے والے یہ بات اچھی طرح سے سمجھتے ہیں کہ ایسے دگرگوں حالات میں اگر دشمن کے علاقوں میں داخلہ کا موقع مل جائے تو بہت سی ایسی جگہوں کی جاسوسی کرنا نہایت ہی آسان ہو جاتی ہے کہ عام حالات میں جہاں جانا بھی ناممکن ہوتا ہے ۔ اور پھر ایسے افرا تفری کے حالات میں اہم ترین اہداف کو نشانہ بنایا جاسکتا ہے ۔ جو کہ عام دنوں میں ممکن نہیں ۔اور پھر سیلاب میں پھنسے ہوئے اہداف تک مدد کے بہانے پہنچ کر سیلاب میں ہی ڈبویا بھی جاسکتا ہے ۔
میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ جہاد مضبوط حکمت عملی اور تدبیر کا محتاج ہے یہ صرف جنگی جنون کا نا م نہیں ہے ۔
ثالثا :
ان علاقوں میں جا کر ریلیف کا کام کرنے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ وہاں اسلام کی دعوت پھیلے گی اور بہت سے لوگ مسلمانوں کے حسن سلوک کی وجہ سے مسلمان ہو جائیں گے ۔ کیا آپ دیکھتے نہیں کہ کفار مسلمانوں کے آفت زدہ علاقوں میں ریلیف کا کام کرتے ہیں اور عیسائیت کی تبلیغ وترویج کرتے ہیں اور کئی مسلمانوں کو عیسائی بناڈالتے ہیں ۔
اور یہ بات بھی اخبارات اور رسائل وجرائد کی زینت بن چکی ہے کہ سندھ کے سیلاب میں جب فلاح انسانیت فاؤنڈیشن نے بلا امتیاز مذہب تمام تر انسانوں کو ریلیف دیا تو بہت سے ہندو گھرانے حلقہ بگوش اسلام ہوگئے تھے ۔
الغرض مصیبت زدہ کفار کو ریلیف دینا بھی اشاعت اسلام کاسبب ہے اور اسکی زندہ مثالیں بھی موجود ہیں ۔
رابعا :
مصیبت زدہ مشرکین کی مدد کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ثابت ہے ۔ مثلا : مشرکین مکہ ، جن کے بارہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بد دعائیں کیں کہ اے اللہ ان پر قحط نازل فرما دے ۔ جب سیدنا ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ مسلمان ہوئے تو انہوں نے اہل مکہ کی طرف اناج بھیجنا بند کر دیا ۔ اور مکہ کی زمین زرعی زمین نہ تھی ، انکے لیے سارا غلہ واناج باہر سے آتاتھا ۔ سیدنا ثمامہ رضی اللہ عنہ کے غلہ روکنے کی وجہ سے مکہ میں قحط آگیا اور لوگ بھوک سے مرنے لگے تو وہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو درخواست کی کہ ثمامہ رضی اللہ عنہ کو حکم دے کر ہمارا راشن بحال کروا دیں ، جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثمامہ رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تو انہوں نے غلہ بھیج دیا ۔ (زاد المعاد ج٣ ص ٢٤٨، ط: الرسالۃ، صحیح البخاری، کتاب المغازی)
یہ وہ اہل مکہ ہیں جن کے خلاف نبیe نے قحط کی بد دعاء فرمائی تھی ، لیکن جن ان پر قحط نازل ہوا اور انہوں نے فریاد کی تو نبی e نے رحمت وشفقت کرتے ہوئے یمامہ سے آنے والا اناج بحال کروا دیا۔
اور امیر محترم کی تعاون کی پیشکش بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی اسوہ حسنہ کی پیروی میں تھی ۔
کچھ لوگ یہ اعتراض وارد کرتے ہیں کہ اللہ تعالی نے تو عذاب والے علاقوں جانے سے منع کرکے وہاں سے نکلنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا ہے :
اور اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس علاقہ میں سے تیزی کے ساتھ گزرتے تھے جہاں اللہ کا عذاب نازل ہوچکا ہوتا تھا ۔وَلَا یَلْتَفِتْ مِنْکُمْ أَحَدٌ وَامْضُوا حَیْثُ تُؤْمَرُونَ (الحجر:٦٥)
اور تم میں سے کوئی بھی پیچھے مڑ کر نہ دیکھے ، اور جہاں سے تمہیں حکم دیا گیا نکل جاؤ ۔
اسکے جواب میں عرض یہ ہے کہ آیت میں جس بات کا تذکرہ ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے نبی لوط علیہ سلام کو عذاب نازل ہونے سے پہلے ہی خبر دار فرما دیا تھا کہ عذاب نازل ہونے والا ہے لہذا یہاں سے اہل ایمان کو لے کر نکل جائیے۔ جبکہ یہاں معاملہ اسکے برعکس ہے کیونکہ عذاب نازل ہوچکا ہے اور بہت سے لوگ لقمہ اجل بن چکے ہیں ۔ اب صرف بچ جانے والوں کو ریلیف دیا جا رہا ہے ۔
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عذاب زدہ علاقہ سے تیزی سے گزرنا اس بات کی دلیل ہے کہ جہاں عذاب نازل ہو چکا ہوں وہاں بلا وجہ نہیں جانا چاہیے اور اگر کسی سبب سے چلے جا ئیں تو وہاں سے جلدی ہی نکل جانا چاہئے۔ یعنی ضمنا اس عمل نبوی e سے آفت زدہ علاقوں میں جانا ثابت بھی ہو رہا ہے ۔ اور یہ وہ علاقے ہیں جہاں عذاب نازل ہونے کے بعد زندگی کے آثار بھی ختم ہو گئے ۔
البتہ وہ علاقے جہاں عذاب نازل ہوا ہو اور ابھی زندگی کے آثار باقی ہوں تو انکی مدد کرنا ، انہیں دعوت اسلام دینا ، ان پر رحم کھانا بھی نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت طیبہ سے ثابت ہے ۔ جیساکہ اہل مکہ کے واقعہ سے واضح ہوتا ہے ۔
خامسا :
یہ سیلاب امریکہ کے بہت سے علاقوں میں آیا ہے اور یہ بات سب کو معلوم ہے کہ امریکہ میں صرف کفار ہی نہیں ہیں بلکہ بہت سے مسلمان بھی وہاں آباد ہیں ۔ بلکہ وہاں آباد کچھ اہل ایمان تو عقیدہ وعمل کے اعتبار سے ہمارے ہاں مقیم مسلمانوں سے بدرجہا بہتر ہیں ۔ اور اہل اسلام کی مناصرت سے کسی کو بھی انکار نہیں ہے ۔
سادسا :
سینڈی امریکہ میں آیا ہے اور ہاں تعاون کی پیش کش پر بھی اعتراض کیا جا رہا ہے ، حالانکہ ابھی ذرہ بھر تعاون بھی تا حال نہیں کیا گیا ہے ۔ اور معترضین کے عقیدہ کے مطابق تو پاکستان میں بسنے والے وہ لوگ جو زلزلہ سے متأثر ہو ئے یا جو سیلاب سے متأثر ہوئے وہ بھی کافر ہی ہیں ! ۔ لیکن یا للعجب کہ پاکستان امدادی کاروائیوں میں معترضین بھی شامل ہوئے ہیں ۔ لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان کے مصیبت زدگان کو ریلیف کیوں دیا گیا ؟؟؟ یا انہیں ریلیف دینا کیونکر درست ٹھہرا ؟؟؟ حالانکہ پاکستان میں آنے والا آزاد کشمیر کا زلزلہ اور جنوبی پنجاب اور سندھ میں آنے والاسیلاب بھی تو اللہ کا عذاب ہی تھا ! فما ذا جوابکم فہو جوابنا !!!
اور ہمیں یقین ہے کہ معترضین کو اسکا جواب نہیں سوجھے گا ۔ اور ہم اسکا جواب گزشتہ پانچ اعتبارات سے صراحت کے ساتھ با دلیل دے چکے ہیں ۔
والحمد للہ رب العالمین
بشکریہ : جابر علی عسکری ، ملتقی اہل حدیث اردو