• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امیر المومنین عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے آٹھ (8) رکعات تراویح کا حکم دیا تھا، الحمدللہ !

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069

اس فاروقی حکم کی سند بالکل صحیح ہے:
دلیل1: اس کے تمام راوی زبردست قسم کے ثقہ ہیں۔

دلیل2: اس سند کے کسی راوی پر کوئی جرح نہیں ہے۔

دلیل3: اسی سند کے ساتھ ایک روایت صحیح بخآری کتاب الحج میں بھی موجود ہے۔ (ح 1858)

دلیل4: شاہ ولی اللہ الدہلوی نے "اہل الحدیث" سے نقل کیا ہے کہ موطأ کی تمام احادیث صحیح ہیں۔ (حجة اللہ البالغہ:241/2)

دلیل5:طحاوی حنفی نے "لھٰذا یدل" کہہ کر یہ اثر بطور حجت پیش کیا ہے۔ (معانی الآثار:193/1)

دلیل6: ضیاء المقدسی نے المختارہ میں یہ اثر لا کر اپنے نزدیک اس کا صحیح ہونا ثابت کردیا ہے۔ (دیکھئے اختصار علوم الحدیث ص 77)

دلیل7:امام ترمذی نے اس جیسی ایک سند کے بارے میں کہا: "حسن صحیح"(926)

دلیل8: اس روایت کو متقدمین میں سے کسی ایک محدث نے بھی ضعیف نہیں کہا۔

دلیل9:علامہ باجی نے اس اثر کو تسلیم کیا ہے۔ (موطأ بشرح الزرقانی:238/1ح 249)

دلیل10:مشہور غیر اہل الحدیث محمد بن علی النیموی نے اس روایت کے بارے میں کہا: "و إسنادہ صحیح" (آثآر السنن ص 250) اور اس کی سند صحیح ہے۔

(لہٰذا بعض متعصب لوگوں کا پندرہویں صدی میں اسے مضطرب کہنا باطل اور بے بنیاد ہے۔)

 
شمولیت
جون 01، 2014
پیغامات
297
ری ایکشن اسکور
49
پوائنٹ
41
عامر یونس صاحب :
امام عمر فاروق کے زمانے میں لوگ(صحابہ و تابعین) بیس رکعت تراویح پڑھتے تھے ،یہ بھی اسی موطا امام مالک میں موجود ہے۔

عَنْ مَالِك ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ رُومَانَ ، أَنَّهُ قَالَ : " كَانَ النَّاسُ يَقُومُونَ فِي زَمَانِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِي رَمَضَانَ بِثَلَاثٍ وَعِشْرِينَ رَكْعَةً " .[موطأ مالك رواية يحيى الليثي » كِتَابُ الصَّلاةِ فيِ رَمَضَانَ, رقم الحديث: 251]
امام مالک نے یزید بن رومان سے روایت کیا ہے کہ: لوگ (صحابہ و تابعین) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں رمضان میں تئیس ( ۲۳) رکعتیں (بیس تراویح اور تین رکعات وتر) پڑھا کرتے تھے.[موطا امام مالک: ٢/١٥٥]
اس روایت پر اعتراض کرنے سے پہلے اپنی پیش کردہ ایک دلیل پڑھ لیں !
(دلیل4: شاہ ولی اللہ الدہلوی نے "اہل الحدیث" سے نقل کیا ہے کہ موطأ کی تمام احادیث صحیح ہیں۔ (حجة اللہ البالغہ:241/2)
یہ روایت اہل حدیث کے نزدیک بلکل صحیح ہے۔ثابت ہوا کہ صحابہ وتابعیں بیس رکعات تراویح پڑھتے تھے ۔

اس پوسٹ کے شروع میں امام عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا قول جناب نے پہلے پیش کیا اور بخاری کی حدیث رسول بعد میں پیش کی کیوں؟ اس سے یہ بات تو صاف ہوگئی کہ اس حدیث کا تعلق "تراویح" کے متعلق نہیں ہے ورنہ پہلے جناب حدیث پیش کرتے قول عمر نہیں ؟

اسی حدیث میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا تعلق تراویح سے ہر گز نہیں ہے (1) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نماز ہمیشہ گھر میں پڑھی ہے۔(2) بغیر جماعت کے پڑھی ہے ،(3) رمضان وغیر رمضان میں پڑھی ہے،(4) رات کے پچھلے پہرسو کر اُٹھنے کے بعد پڑھی ہے، (5) چار رکعت پھر چار رکعت کے ساتھ پڑھی ہے، (6)رمضان و غیر رمضان یعنی پورا سال تین رکعت وتر پڑھنا اس حدیث سے ثابت ہے،(7)وتر پڑھنے سے پہلے آپ کا دوبارا سونا اس حدیث سے ثابت ہے۔

اہل حدیث اس حدیث کی مکمل مخالفت کرتے ہیں تو یہ اُن کی دلیل کیسے ہوئی؟ اگر اس حدیث پر عمل کرنا ہے تو تراویح گھر پڑھیں۔ بغیر جماعت کے پڑھیں ۔رًضان و غیر رمضان میں پڑھیں۔رات کے پچھلے پہر سو کر اُٹھنے کے بعد پڑھیں۔چار چار رکعت کر کے پڑھیں دو ،دو کر کے نہیں؟۔پورا سال تین وتر پڑھیں ۔وتر پڑھنے سے پہلے دوبارا سو لیا کریں ۔
دیکھتا ہوں کہ اس رمضان میں اس حدیث پر کون سا اہل حدیث عمل کرتا ہے اور کون سے اس کی مخالفت کرتے ہیں
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
عامر یونس صاحب :
امام عمر فاروق کے زمانے میں لوگ(صحابہ و تابعین) بیس رکعت تراویح پڑھتے تھے ،یہ بھی اسی موطا امام مالک میں موجود ہے۔

عَنْ مَالِك ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ رُومَانَ ، أَنَّهُ قَالَ : " كَانَ النَّاسُ يَقُومُونَ فِي زَمَانِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِي رَمَضَانَ بِثَلَاثٍ وَعِشْرِينَ رَكْعَةً " .[موطأ مالك رواية يحيى الليثي » كِتَابُ الصَّلاةِ فيِ رَمَضَانَ, رقم الحديث: 251]
امام مالک نے یزید بن رومان سے روایت کیا ہے کہ: لوگ (صحابہ و تابعین) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں رمضان میں تئیس ( ۲۳) رکعتیں (بیس تراویح اور تین رکعات وتر) پڑھا کرتے تھے.[موطا امام مالک: ٢/١٥٥]
اس روایت پر اعتراض کرنے سے پہلے اپنی پیش کردہ ایک دلیل پڑھ لیں !
(دلیل4: شاہ ولی اللہ الدہلوی نے "اہل الحدیث" سے نقل کیا ہے کہ موطأ کی تمام احادیث صحیح ہیں۔ (حجة اللہ البالغہ:241/2)
یہ روایت اہل حدیث کے نزدیک بلکل صحیح ہے۔ثابت ہوا کہ صحابہ وتابعیں بیس رکعات تراویح پڑھتے تھے ۔

اس پوسٹ کے شروع میں امام عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا قول جناب نے پہلے پیش کیا اور بخاری کی حدیث رسول بعد میں پیش کی کیوں؟ اس سے یہ بات تو صاف ہوگئی کہ اس حدیث کا تعلق "تراویح" کے متعلق نہیں ہے ورنہ پہلے جناب حدیث پیش کرتے قول عمر نہیں ؟

اسی حدیث میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا تعلق تراویح سے ہر گز نہیں ہے (1) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نماز ہمیشہ گھر میں پڑھی ہے۔(2) بغیر جماعت کے پڑھی ہے ،(3) رمضان وغیر رمضان میں پڑھی ہے،(4) رات کے پچھلے پہرسو کر اُٹھنے کے بعد پڑھی ہے، (5) چار رکعت پھر چار رکعت کے ساتھ پڑھی ہے، (6)رمضان و غیر رمضان یعنی پورا سال تین رکعت وتر پڑھنا اس حدیث سے ثابت ہے،(7)وتر پڑھنے سے پہلے آپ کا دوبارا سونا اس حدیث سے ثابت ہے۔

اہل حدیث اس حدیث کی مکمل مخالفت کرتے ہیں تو یہ اُن کی دلیل کیسے ہوئی؟ اگر اس حدیث پر عمل کرنا ہے تو تراویح گھر پڑھیں۔ بغیر جماعت کے پڑھیں ۔رًضان و غیر رمضان میں پڑھیں۔رات کے پچھلے پہر سو کر اُٹھنے کے بعد پڑھیں۔چار چار رکعت کر کے پڑھیں دو ،دو کر کے نہیں؟۔پورا سال تین وتر پڑھیں ۔وتر پڑھنے سے پہلے دوبارا سو لیا کریں ۔
دیکھتا ہوں کہ اس رمضان میں اس حدیث پر کون سا اہل حدیث عمل کرتا ہے اور کون سے اس کی مخالفت کرتے ہیں

gza2.jpg
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
@محمد باقر کیا انور شاہ کشمیری نے سچ کہا یا جھوٹ - پلیز ذرا بتا دیں تا کہ ہمارے علم میں اضافہ ھو -
 
شمولیت
جون 01، 2014
پیغامات
297
ری ایکشن اسکور
49
پوائنٹ
41
عامر یونس صاحب : سید انور شاہ صاحب کشمیری رحمہ اللہ کی آدھی بات مانتے ہو آدھی نہیں کیوں؟؟؟
اسی صفحہ208 کی ابتدائی عبارت کو پڑھیں :
"لم يقل أحد من الأئمة الأربعة بأقل من عشرين ركعة فى التراويح وعليه جمهور الصحابة الخ"
امام محمد أنور شاه الكشميري الحنفي رحمه الله فرماتے ہیں کہ ائمہ اربعہ میں سے کوئی بهی بیس رکعات سے کم تراویح کا قائل نہیں ہے اور جمہور صحابه کرام کا عمل بهی اسی پر ہے الخ
صفحہ 209 کی عبارت پڑھیں :
أقول : إن سنة الخلفاء الراشدين أيضاً تكون سنة الشريعة لما في الأصول أن السنة سنة الخلفاء وسنته، وقد صح في الحديث :عليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين‘‘ فيكون فعل الفاروق الأعظم أيضاً سنة... ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔واستقر الأمر على عشرين ركعة. اھ۔
امام محمد أنور شاه الكشميري الحنفي رحمه الله نے فرمایا کہ حضرت فاروق الأعظم رضی الله عنه کا یہ فعل سنت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اوراسی بیس رکعات تراویح پر ہی عمل برقرار رہا ہے الخ

یہ عبارت تو بتا رہی ہے کہ جمہور صحابہ کرام اور ائمہ اربعۃ بیس رکعت سے کم کے قائل ہی نہیں تھے اور اسی بیس رکعت تراویح پر عمل برقرار رہا
اسی کو کہتے ہیں کہ
کیا لطف کہ غیر پردہ کھو لے
جادو وہ جو سر پر چڑھ کر بولے
 
Top