عامر یونس صاحب :
امام عمر فاروق کے زمانے میں لوگ(صحابہ و تابعین) بیس رکعت تراویح پڑھتے تھے ،یہ بھی اسی موطا امام مالک میں موجود ہے۔
عَنْ مَالِك ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ رُومَانَ ، أَنَّهُ قَالَ : " كَانَ النَّاسُ يَقُومُونَ فِي زَمَانِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِي رَمَضَانَ بِثَلَاثٍ وَعِشْرِينَ رَكْعَةً " .
[موطأ مالك رواية يحيى الليثي » كِتَابُ الصَّلاةِ فيِ رَمَضَانَ, رقم الحديث: 251]
امام مالک نے یزید بن رومان سے روایت کیا ہے کہ: لوگ (صحابہ و تابعین) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں رمضان میں تئیس ( ۲۳) رکعتیں (بیس تراویح اور تین رکعات وتر) پڑھا کرتے تھے.[
موطا امام مالک: ٢/١٥٥]
اس روایت پر اعتراض کرنے سے پہلے اپنی پیش کردہ ایک دلیل پڑھ لیں !
(دلیل4: شاہ ولی اللہ الدہلوی نے "اہل الحدیث" سے نقل کیا ہے کہ موطأ کی تمام احادیث صحیح ہیں۔ (حجة اللہ البالغہ:241/2)
یہ روایت اہل حدیث کے نزدیک بلکل صحیح ہے۔ثابت ہوا کہ صحابہ وتابعیں بیس رکعات تراویح پڑھتے تھے ۔
اس پوسٹ کے شروع میں امام عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا قول جناب نے پہلے پیش کیا اور بخاری کی حدیث رسول بعد میں پیش کی کیوں؟ اس سے یہ بات تو صاف ہوگئی کہ اس حدیث کا تعلق "تراویح" کے متعلق نہیں ہے ورنہ پہلے جناب حدیث پیش کرتے قول عمر نہیں ؟
اسی حدیث میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا تعلق تراویح سے ہر گز نہیں ہے (1) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نماز ہمیشہ گھر میں پڑھی ہے۔(2) بغیر جماعت کے پڑھی ہے ،(3) رمضان وغیر رمضان میں پڑھی ہے،(4) رات کے پچھلے پہرسو کر اُٹھنے کے بعد پڑھی ہے، (5) چار رکعت پھر چار رکعت کے ساتھ پڑھی ہے، (6)رمضان و غیر رمضان یعنی پورا سال تین رکعت وتر پڑھنا اس حدیث سے ثابت ہے،(7)وتر پڑھنے سے پہلے آپ کا دوبارا سونا اس حدیث سے ثابت ہے۔
اہل حدیث اس حدیث کی مکمل مخالفت کرتے ہیں تو یہ اُن کی دلیل کیسے ہوئی؟ اگر اس حدیث پر عمل کرنا ہے تو تراویح گھر پڑھیں۔ بغیر جماعت کے پڑھیں ۔رًضان و غیر رمضان میں پڑھیں۔رات کے پچھلے پہر سو کر اُٹھنے کے بعد پڑھیں۔چار چار رکعت کر کے پڑھیں دو ،دو کر کے نہیں؟۔پورا سال تین وتر پڑھیں ۔وتر پڑھنے سے پہلے دوبارا سو لیا کریں ۔
دیکھتا ہوں کہ اس رمضان میں اس حدیث پر کون سا اہل حدیث عمل کرتا ہے اور کون سے اس کی مخالفت کرتے ہیں