abdullah786
رکن
- شمولیت
- نومبر 24، 2015
- پیغامات
- 428
- ری ایکشن اسکور
- 25
- پوائنٹ
- 46
جنابآپ کی بات واضح نہیں ہے۔ کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ یہاں پرابوشہاب کوئی مجہول راوی ہے؟
یا یہ کہنا چاہتے ہیں یہاں ابوشہاب اصغرہے یااکبر اس کی تعیین کی دلیل نہیں ہے؟
آپ اپنی رائے واضح کریں تاکہ آپ کوجواب دیاجاسکے۔
دوسری بات یہ کہ راوی کے تعین میں صرف استاذوں اور شاگردوں کی فہرست ہی نہیں دیکھی جاتی ہے۔بلکہ اوربھی بہت ساری چیزیں دیکھی جاتی ہیں۔اس لئے استاذ اورشاگرد ہونے کا کسی نے ذکرنہیں کیا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ استاذاورشاگرد نہیں ۔
اوراگر استاذی اورشاگردی کے عدم ذکر سے آپ استاذی اورشاگردی کی نفی کررہے ہیں تو کیا آپ کا یہ اصول صرف اسی روایت میں ہے یا ہرروایت میں جہاں دوراوی کے بیچ استاذی اورشاگردی کاتذکرہ نہ ملے وہاں آپ اس چیزکوروایت میں علت سمجھیں گے ؟اگرآپ کا یہ نرالااصول ہے تو اس کی ہی وضاحت کردیں۔اورپھرائمہ حدیث سے اس کے دلائل ذکرکردیں۔
ماشاء اللہ !
کیا زودار تحقیق ہے!
جناب ! اس روایت کی صحت سے کس کو انکار ہے؟ پھرکیوںآپ اس کے راویوں کی توثیق پیش کرکے خواہ مخواہ اپنا وقت بربادکررہے ہیں۔
اس روایت میں چوتھے دورمیں ملک عضوض کا ذکر ہے۔نہ کہ تیسرے دور میں اوراس سے کسی کو انکار نہیں ۔
یعنی آپ کے حساب سے حسن رضی اللہ عنہ کادور خلافت کادور نہیں ہے؟بلکہ یہ( ثم کذاوکذا )والادورہے؟
آپ کی بات کا کوئی سرپرہے یا ایسے ہی جومن میں آیا بولتے چلے گئے؟
آپ کی اس بھونڈی تشریح سے تو حسن رضی اللہ عنہ کا دوربھی خلافت کےدور میں شمار نہیں ہوتا۔
آل سباء کے ساتھ یہی مصیبت ہوتی ہے کہ وہ بنوامیہ پربھونکتے بھونکتے اہل بیت پربھی شروع ہوجاتے ہیں؟
اچھا اگر یہ مان بھی لین کہ (ثم کذاوکذا)والادور حسن رضی اللہ عنہ کا دورہے تو اس بات کی کیادلیل ہے کہ صلح کے بعدیہ دور ختم ہوگیاِ؟
اگردورنبوت کے بعددوسرے دور یعنی دورخلافت میں ایک سے زائد صحابہ کی حکومت شامل ہوسکتی توپھر تیسرے دور(ثم کذاوکذا)میں ایس سے زائد لوگوں کی حکومت کیوں شامل نہیں ہوسکتی ؟
ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت اور مسند احمد کی حذیفہ رضی اللہ عنہ والی اس روایت میں معنوی طورپر کوئی تضاد نہیں ہے کیونکہ حذیفہ رضی اللہ عنہ کی یہ روایت طبرانی میں جسے آپ صحیح کہہ رہے اس میں ملک عضوض سے قبل (ثم یکون کذاوکذا)کا دور اجمالی طور پر مذکور ہے ۔اوراسی کی صراحت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت میں ملک رحمۃ سے ہے ۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ حذیفہ رضی اللہ عنہ کے ایک طریق میں راوی نے اختصارکرتے ہوئے تیسرے دور یعنی ملک رحمہ اللہ کا تذکرہ نہیں کیا ہے ۔
ان طرح ان روایات میں تیسرے دور سے متعلق کوئی تضاد نہیں ہے۔
اوراگرآپ تضاد مانتے ہیں تو ابن عباس رضی اللہ عنہ ہی کی روایت راجح ہوگی کیونکہ اس کی سند حذیفہ رضی اللہ عنہ کی روایت کے اس طریق سے بہتر ہے جس میں ملک رحمہ اللہ کاذکر نہیں ۔نیز خود حذیفہ رضی اللہ عنہ ہی کی روایت کے دوسرے طریق میں تیسرے دور کا مجملا ذکرموجود ہے۔
سفینہ رضی اللہ عنہ کی اس روایت میں خلافت کے بعد ملک عضوض کاذکر کہاں ہے؟
اس میں توصرف مطلق ملک کاذکر ہے ۔اورابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت میں صراحتااسی طرح حذیفہ رضی اللہ عنہ کی روایت کے ایک طریق اجمالا یہ ذکرہے خلافت کے بعد والا یہ دور ملک رحمہ کا دور ہوگا اس لئے سفینہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں بھی خلافت کے بعد مذکور ملک سے ملک رحمہ کومراد لیا جائے گا۔
ان ائمہ نے تمام روایات کو ایک ساتھ رکھ کرتبصرہ نہیں کیا ہے ۔اس لئے صحیح اور صریح روایات کے خلاف ان کا تبصرہ بے دلیل ہے۔
آپ نے ابن کثیر اورابن حجررحمہ اللہ کے نام پیش کئے ہیں ۔
یہ دونوں ائمہ یزید کو جیش مغفور والی حدیث کا مصداق بتلاتے ہیں کیا آپ کوان ائمہ کی یہ بات بھی قبول ہے؟
آپ اسی بات کودلائل اورقرائین سے ثابت کردیں کہ سخاوی نے یہ بات ابن المدینی کی کتاب سے نقل کی ہے۔
تدلیس تسویہ کاالزام کسی نے نہیں لگایا ہے آپ کو عربی سمجھنے میں دشواری ہے۔
تدلیس کاالزام جس نے لگایاہے وہ بھی ثابت نہیں۔گرچہ ابن القطان کا قول ثابت مان لیں۔کیونکہ ابن القطان نے بھی تدلیس کاالزام نہیں لگایاہے۔
اس خاص لفظ کوبھی علامہ البانی نے ضعیف نہیں کیا ہے ۔صرف آپ کہہ رہے جو بے دلیل ہے۔
اولا یہ منفرد نہیں ہے معنوی طور پردوسری روایات میں بھی اس کاذکرہے۔
اوراگرمنفرد ہے تو بھی اس کاانفراد قبول ہے آپ کے پاس اس انفراد کے رد کرنے کی کوئی دلیل نہین ہے۔
تغیر کے بعدروایت کرنا ثابت نہیں اس لئے یہ حوالہ بے کار ہے۔
غلطی کا کوئی ثبوت نہیں صرف آپ کا بے دلیل دعوی ہے۔
اصح روایت تو ملک رحمہ والی ہے ۔اس لئے آپ ہی کے اصول سے ملک رحمہ کے ذکر سے خالی ملک عضوض والی روایت ضعیف ہے۔
ملک عضوض کے ثبوت سے کسی کو انکارنہیں لیکن ملک عضوض کادور ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت اور حذیفہ رضی اللہ عنہ کی روایت کے بھی ایک طریق سے ملک رحمہ کے بعد کادور ہے۔
اب آپ یہ بتائیں کہ ملک رحمہ والی روایت کو کس محدث نے ضعیف کہاہے؟
سب سے پہلے فطر بن خلیفہ کے تدلیس کے معاملہ کو لیں لیتے ہیں تاکہ یہ معاملہ صاف ہو جائے اپ نے لکھا کہ" تدلیس تسویہ کاالزام کسی نے نہیں لگایا ہے آپ کو عربی سمجھنے میں دشواری ہے۔
تدلیس کاالزام جس نے لگایاہے وہ بھی ثابت نہیں۔گرچہ ابن القطان کا قول ثابت مان لیں۔کیونکہ ابن القطان نے بھی تدلیس کاالزام نہیں لگایاہے۔"
فطر بن خلیفہ کے متعلق ساری بحث امام سخاوی تدلیس تسویہ کے تحت فرما رہے ہیں تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ فطر تدلیس نہ کر رہا ہے مجھے تو عربی پڑھنے میں دشواری ہے آپ خود پڑھ لیں۔
فَقَدْ أَدْرَجَ الْخَطِيبُ ثُمَّ النَّوَوِيُّ فِي هَذَا الْقِسْمِ تَدْلِيسَ التَّسْوِيَةِ كَمَا سَيَأْتِي، وَوَصَفَ غَيْرُ وَاحِدٍ بِالتَّدْلِيسِ مَنْ رَوَى عَمَّنْ رَآهُ وَلَمْ يُجَالِسْهُ، بِالصِّيغَةِ الْمُوهِمَةِ، بَلْ وُصِفَ بِهِ مَنْ صَرَّحَ بِالْإِخْبَارِ فِي الْإِجَازَةِ كَأَبِي نُعَيْمٍ، أَوْ بِالتَّحْدِيثِ فِي الْوِجَادَةِ كَإِسْحَاقَ بْنِ رَاشِدٍ الْجَزَرِيِّ، وَكَذَا فِيمَا لَمْ يَسْمَعْهُ كَفِطْرِ بْنِ خَلِيفَةَ أَحَدِ مَنْ رَوَى لَهُ الْبُخَارِيُّ مَقْرُونًا.
وَلِذَا قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ: قُلْتُ لِيَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْقَطَّانِ: يُعْتَمَدُ عَلَى قَوْلِ فِطْرٍ ثَنَا، وَيَكُونُ مَوْصُولًا؟ فَقَالَ: لَا، فَقُلْتُ: أَكَانَ ذَلِكَ مِنْهُ سَجِيَّةً؟ قَالَ: نَعَمْ.
وَكَذَا قَالَ الْفَلَّاسُ: إِنَّ الْقَطَّانَ قَالَ لَهُ: وَمَا يُنْتَفَعُ بِقَوْلِ فِطْرٍ " ثَنَا " عَطَاءٌ، وَلَمْ يَسْمَعْ مِنْهُ. وَقَالَ ابْنُ عَمَّارٍ عَنِ الْقَطَّانِ: كَانَ فِطْرٌ صَاحِبَ ذِي سَمِعْتُ سَمِعْتُ، يَعْنِي أَنَّهُ يُدَلِّسُ فِيمَا عَدَاهَا، وَلَعَلَّهُ تَجَوَّزَ فِي صِيغَةِ الْجَمْعِ فَأَوْهَمَ دُخُولَهُ.
كَقَوْلِ الْحَسَنِ الْبَصْرِيِّ: " خَطَبَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ " وَ " خَطَبَنَا عُتْبَةُ بْنُ غَزْوَانَ " وَأَرَادَ أَهْلَ الْبَصْرَةِ بَلَدِهِ، فَإِنَّهُ لَمْ يَكُنْ بِهَا حِينَ خُطْبَتِهِمَا، وَنَحْوُهُ فِي قَوْلِهِ: " حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ " وَقَوْلِ طَاوُسٍ: " قَدِمَ عَلَيْنَا مُعَاذٌ الْيَمَنَ ".
وَأَرَادَ أَهْلَ بَلَدِهِ، فَإِنَّهُ لَمْ يُدْرِكْهُ، كَمَا سَيَأْتِي الْإِشَارَةُ لِذَلِكَ فِي أَوَّلِ أَقْسَامِ التَّحَمُّلِ، وَلَكِنَّ صَنِيعَ فِطْرٍ فِيهِ غَبَاوَةٌ شَدِيدَةٌ يَسْتَلْزِمُ تَدْلِيسًا صَعْبًا
(فتح المغیث جلد 1 ص 226 باب فرق بین تدلیس و ارسال)
اس کو اپ خود پڑھ لیں اور دوسری بات آپ کی بات مان لی کہ مجھے عربی سمجھنے میں دشواری ہے تو کیا شیخ مسفر الدمینی جامعہ محمد بن السعود میں علوم کلیہ اصول دین کے استاذ کو بھی سمجھ نہیں آئی کے انہی دلائل کی بنیاد پر انہوں اپ کتاب التدلیس فی الحدیث میں فطر بن خلیفہ کو تیسرے درجے کا مدلس نقل کیا ہے اب اس کے بعد میں نہ مانو کا علاج کچھ بھی نہیں ہے۔
تو یہ روایت اپنی پہلی علت سے ہی ضعیف ہوتی ہے کہ اس میں فطر نے تدلیس کر رکھی ہے مگر میں جانتا ہے اپ مانیں گے نہیں اس لیے دیگر دلائل بھی پیش کر دیتا ہے اپ نے اپنی پچھلی پوسٹ میں لکھا تھا کہ" یعنی صحیح روایات کی بنیادپر ادوارحکومت کی ترتیب اس طرح ہوگی :
پہلا دور : ۔دورنبوت
دوسرا دور: ۔دورخلافت
تیسرادور:۔دورملک رحمہ
چوتھا دور: ۔دورملک عضوض
اس روایت کو میں بھی اپ تک سلسلہ الصحیحہ سے دیکھ رہا تھا مگر جب میں نے اس کے اصل ماخذ یعنی طبرانی الکبیر میں پڑھا تو الگ ہی بات سامنے آئی ہے اب بھی دیکھ لو اس سے اس حدیث کے ضعیف ہونے کی ایک اور وجہ سامنے آئی گی اور النفیلی کے تغیر میں روایت کی ایک دلیل اور سامنے آتی ہے۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ النَّضْرِ الْعَسْكَرِيُّ، ثنا سَعِيدُ بْنُ حَفْصٍ النُّفَيْلِيُّ، ثنا مُوسَى بْنُ أَعْيَنَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ فِطْرِ بْنِ خَلِيفَةَ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَوَّلُ هَذَا الْأَمْرِ نُبُوَّةٌ وَرَحْمَةٌ، ثُمَّ يَكُونُ خِلَافَةً وَرَحْمَةً، ثُمَّ يَكُونُ مُلْكًا وَرَحْمَةً، ثُمَّ يَكُونُ إِمَارَةً وَرَحْمَةً، ثُمَّ يَتَكادَمُونَ عَلَيْهِ تَكادُمَ الْحُمُرِ فَعَلَيْكُمْ بِالْجِهَادِ، وَإِنَّ أَفْضَلَ جهادِكُمُ الرِّبَاطُ، وَإِنَّ أَفْضَلَ رباطِكُمْ عَسْقَلَان(الطبرانی الکبیر رق 11138)
اپ نےاس حدیث کے مطابق چوتھا دور ملک عضوض بنایا تھا جبکہ اپ کے النفیلی صاحب اپ کے چاروں ادوار ہی رحمت کر دیئے ہیں
نُبُوَّةٌ وَرَحْمَةٌ، ثُمَّ يَكُونُ خِلَافَةً وَرَحْمَةً، ثُمَّ يَكُونُ مُلْكًا وَرَحْمَةً، ثُمَّ يَكُونُ إِمَارَةً وَرَحْمَةً،
اب اپ بتاؤ صحیح ترین روایت میں ملک عضوض کا لفظ ہے اس روایت میں کوئی ایک دور بھی عضوض نہیں سب ادوار رحمت ہی ہیں یہ دلیل ہے اس بات کی کے النفیلی نے یہاں تمام ادوار کو رحمت کر دیا ہے جو اس روایت میں اس کے تغیر کی دلیل ہے دوسری دلیل یہ ہے کہ
احمد بن النضر کی وفات 290 ھجری میں ہے اور النفیلی کی تاریخ وفات 237 ہجری ہے جن میں 53 سال کا فرق ہے اور اس سے بھی اس بات کا قوی امکان ہے کہ النفیلی نے یہ روایت تغیر کے زمانے میں کی ہے اور صاحب المختارہ نے جو اس کی روایت کو صحیح کہا ہے تو اگر اپ ان کی بات مانتے ہے اور دلیل کو نظر انداز کرتے ہین تو پھر اپ تو ناف کے نیچھے ہاتھ باندھتے ہو گے۔(اشارہ کافی ہے)
اب اپ کو اس حوالے سے سب سے صحیح روایت پیش کردیتا ہوں کہ جس میں خود حذیفہ رضی اللہ عنہ نے ملک عضوض کہا ہے اور یہ مسند احمد والی روایت نہیں ہے
حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ، ثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ شِيرَوَيْهِ،. وَحَدَّثَنَا أَبُو عَمْرِو بْنُ حَمْدَانَ، ثَنَا الْحَسَنُ بْنُ سُفْيَانَ، قَالَا: ثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، ثَنَا بَكَّارُ بْنُ عَبْدِ اللهِ، حَدَّثَنِي خَلَّادُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ أَبَا الطُّفَيْلِ، حَدَّثَهُ أَنَّهُ سَمِعَ حُذَيْفَةَ، يَقُولُ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ، أَلَا تَسْأَلُونِي؟ فَإِنَّ النَّاسَ كَانُوا يَسْأَلُونَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْخَيْرِ، وَكُنْتُ أَسْأَلُهُ عَنِ الشَّرِّ، أَفَلَا تُسْأَلُونَ عَنْ مَيِّتِ الْأَحْيَاءِ؟ فَقَالَ: إِنَّ اللهَ تَعَالَى بَعَثَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَعَا النَّاسَ مِنَ الضَّلَالَةِ إِلَى الْهُدَى، وَمِنَ الْكُفْرِ إِلَى الْإِيمَانِ، فَاسْتَجَابَ لَهُ مَنِ اسْتَجَابَ، فَحَيَى بِالْحَقِّ مَنْ كَانَ مَيِّتًا، وَمَاتَ بِالْبَاطِلِ مَنْ كَانَ حَيًّا، ثُمَّ ذَهَبَتِ النُّبُوَّةُ فَكَانَتِ الْخِلَافَةُ عَلَى مَنَهَاجِ النُّبُوَّةِ، ثُمَّ يَكُونُ مُلْكًا عَضُوضًا، فَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُنْكِرُ بِقَلْبِهِ وَيَدِهِ وَلِسَانِهِ وَالْحَقَّ اسْتَكْمَلَ، وَمِنْهُمْ مَنْ يُنْكِرُ بِقَلْبِهِ وَلِسَانِهِ كَافًّا يَدَهُ وَشُعْبَةً مِنَ الْحَقِّ تَرَكَ، وَمِنْهُمْ مَنْ يُنْكِرُ بِقَلْبِهِ كَافًّا يَدَهُ وَلِسَانَهُ وَشُعْبَتَيْنِ مِنَ الْحَقِّ تَرَكَ، وَمِنْهُمْ مَنْ لَا يُنْكِرُ بِقَلْبِهِ وَلِسَانِهِ فَذَلِكَ مَيِّتُ الْأَحْيَاء (حلیۃ الاولیاء باب مھاجروں من اصحاب جلد 1 ص275)
اس کو اچھی طرح چیک کر لیں اس کے تمام راوی ثقہ ہے اور یہ حکما مرفوع ہے کیونکہ اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حوالہ دے کر شر کی بات بتلائی ہے اور اگر اپ نہ مانو تو بھی حذیفہ رضی اللہ عنہ خود اپنی بیان کردہ حدیث کی وضاحت کر رہے ہے تو اب مسند احمد کی حدیث اس روایت کی وجہ سے حسن نہیں رہی بلکہ صحیح لغیرہ ہو گئی ہے اور دیگر روایات بھی ہیں جو جن میں علت بھی ہے مثلا مکحول کی تدلیس کی وجہ سے ایک روایت ضیعف ہے مگر اس کا مضموں یہی ہے جس سے اس کی تائید ہوتی ہے تو اپ رہ گئی وہ وضاحت جس کی وجہ سے اپ آپے سے باہر ہو گئے مگر علم انسان کو بردباری سکھاتا ہے جہالت نہیں اپ نے لکھا کہ " یعنی آپ کے حساب سے حسن رضی اللہ عنہ کادور خلافت کادور نہیں ہے؟بلکہ یہ( ثم کذاوکذا )والادورہے؟
آپ کی بات کا کوئی سرپرہے یا ایسے ہی جومن میں آیا بولتے چلے گئے؟
آپ کی اس بھونڈی تشریح سے تو حسن رضی اللہ عنہ کا دوربھی خلافت کےدور میں شمار نہیں ہوتا۔
آل سباء کے ساتھ یہی مصیبت ہوتی ہے کہ وہ بنوامیہ پربھونکتے بھونکتے اہل بیت پربھی شروع ہوجاتے ہیں؟
اچھا اگر یہ مان بھی لین کہ (ثم کذاوکذا)والادور حسن رضی اللہ عنہ کا دورہے تو اس بات کی کیادلیل ہے کہ صلح کے بعدیہ دور ختم ہوگیاِ؟
اگردورنبوت کے بعددوسرے دور یعنی دورخلافت میں ایک سے زائد صحابہ کی حکومت شامل ہوسکتی توپھر تیسرے دور(ثم کذاوکذا)میں ایس سے زائد لوگوں کی حکومت کیوں شامل نہیں ہوسکتی ؟ "
اپ سے کس نے کہا کہ میں نے حسن رضی اللہ کے دور کو خلافت سے نکال دیا
ان کا دور خلافت میں ہی ہے حدیث میں یہی ہے خلافت رحمہ ثم کذا و کذا
یعنی حسن رضی اللہ عنہ کے چھ ماہ ملا کر خلافت رحمہ پوری ہوئی ثم کذا و کذا سے مراد حسن رضی اللہ عنہ کا معاویہ رضی اللہ عنہ سے معاہدہ اور دستبرداری کذا و کذا میں ہے اور اس کی دلیل یہی ہے کہ حافظ ابن حجر لکھتے ہیں کہ"
أخبر به عن الحسن حيث قال: «إنّ ابني هذا سيّد وسيصلح اللَّه به بين فئتين عظيمتين من المسلمين» [ (1) ] .
وهكذا أصبحت الخلافة ملكا عضوضا على يد معاوية
تو یہ کذا و کذا وہ صلح ہے جو ہوئی ہے اس کے بعد ملک عضوض ہےاور یہ حدیث سے ثابت ہے یہ کسی کی حکومت کا دور نہیں ہے اس کو ایک روایت میں بیان کر دیا اور باقی نے اس کو بیان کیے بغیر ملک عضوض بیان کیا ہے اب میں صحیح مسلم سے ایک روایت پیش کر دیتا ہوں کے واقعی خلافت کے بعد ملک عضوض ہی تھی۔ کیونکہ بنی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ملک عضوضا ہے تو ہے۔پڑھ لیں
عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ رَبِّ الْكَعْبَةِ، قَالَ: دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ فَإِذَا عَبْدُ اللهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ جَالِسٌ فِي ظِلِّ الْكَعْبَةِ، وَالنَّاسُ مُجْتَمِعُونَ عَلَيْهِ، فَأَتَيْتُهُمْ فَجَلَسْتُ إِلَيْهِ، فَقَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، فَنَزَلْنَا مَنْزِلًا فَمِنَّا مَنْ يُصْلِحُ خِبَاءَهُ، وَمِنَّا مَنْ يَنْتَضِلُ، وَمِنَّا مَنْ هُوَ فِي جَشَرِهِ، إِذْ نَادَى مُنَادِي رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الصَّلَاةَ جَامِعَةً، فَاجْتَمَعْنَا إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " إِنَّهُ لَمْ يَكُنْ نَبِيٌّ قَبْلِي إِلَّا كَانَ حَقًّا عَلَيْهِ أَنْ يَدُلَّ أُمَّتَهُ عَلَى خَيْرِ مَا يَعْلَمُهُ لَهُمْ، وَيُنْذِرَهُمْ شَرَّ مَا يَعْلَمُهُ لَهُمْ، وَإِنَّ أُمَّتَكُمْ هَذِهِ جُعِلَ عَافِيَتُهَا فِي أَوَّلِهَا، وَسَيُصِيبُ آخِرَهَا بَلَاءٌ، وَأُمُورٌ تُنْكِرُونَهَا، وَتَجِيءُ فِتْنَةٌ فَيُرَقِّقُ بَعْضُهَا بَعْضًا، وَتَجِيءُ الْفِتْنَةُ فَيَقُولُ الْمُؤْمِنُ: هَذِهِ مُهْلِكَتِي، ثُمَّ تَنْكَشِفُ وَتَجِيءُ الْفِتْنَةُ، فَيَقُولُ الْمُؤْمِنُ: هَذِهِ هَذِهِ، فَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يُزَحْزَحَ عَنِ النَّارِ، وَيُدْخَلَ الْجَنَّةَ، فَلْتَأْتِهِ مَنِيَّتُهُ وَهُوَ يُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، وَلْيَأْتِ إِلَى النَّاسِ الَّذِي يُحِبُّ أَنْ يُؤْتَى إِلَيْهِ، وَمَنْ بَايَعَ إِمَامًا فَأَعْطَاهُ صَفْقَةَ يَدِهِ، وَثَمَرَةَ قَلْبِهِ، فَلْيُطِعْهُ إِنِ اسْتَطَاعَ، فَإِنْ جَاءَ آخَرُ يُنَازِعُهُ فَاضْرِبُوا عُنُقَ الْآخَرِ "، فَدَنَوْتُ مِنْهُ، فَقُلْتُ لَهُ: أَنْشُدُكَ اللهَ آنْتَ سَمِعْتَ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَأَهْوَى إِلَى أُذُنَيْهِ، وَقَلْبِهِ بِيَدَيْهِ، وَقَالَ: «سَمِعَتْهُ أُذُنَايَ، وَوَعَاهُ قَلْبِي» ، فَقُلْتُ لَهُ: هَذَا ابْنُ عَمِّكَ مُعَاوِيَةُ، يَأْمُرُنَا أَنْ نَأْكُلَ أَمْوَالَنَا بَيْنَنَا بِالْبَاطِلِ، وَنَقْتُلَ أَنْفُسَنَا، وَاللهُ يَقُولُ: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ إِنَّ اللهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا} [النساء: 29] قَالَ: فَسَكَتَ سَاعَةً، ثُمَّ قَالَ: «أَطِعْهُ فِي طَاعَةِ اللهِ، وَاعْصِهِ فِي مَعْصِيَةِ اللهِ»(صحیح مسلم رقم 1844 کتاب امارہ باب بَابُ الْأَمْرِ بالْوَفَاءِ بِبَيْعَةِ الْخُلَفَاءِ، الْأَوَّلِ فَالْأَوَّل)
اس کے یہ الفاظ پڑھ لیں جب عبدالرحمن نے عمرو بن العاص سے کہا کہ
فَقُلْتُ لَهُ: هَذَا ابْنُ عَمِّكَ مُعَاوِيَةُ، يَأْمُرُنَا أَنْ نَأْكُلَ أَمْوَالَنَا بَيْنَنَا بِالْبَاطِلِ، وَنَقْتُلَ أَنْفُسَنَا، وَاللهُ يَقُولُ: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ إِنَّ اللهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا} [النساء: 29] قَالَ: فَسَكَتَ سَاعَةً، ثُمَّ قَالَ: «أَطِعْهُ فِي طَاعَةِ اللهِ، وَاعْصِهِ فِي مَعْصِيَةِ اللهِ»
اپ کا چچا کا بیٹا معاویہ تو ہمیں باطل طریقہ سے مال کھانے اور قتل کرنے کا حکم دیتا ہے اس میں عمرو بن العاص نے یہ نہیں کہا کذبت تو جھوٹ بولتا وہ تو ملک رحمہ ہے بلکہ یہ جواب دیا
قَالَ: فَسَكَتَ سَاعَةً، ثُمَّ قَالَ: «أَطِعْهُ فِي طَاعَةِ اللهِ، وَاعْصِهِ فِي مَعْصِيَةِ اللهِ»
اللہ کے اطاعت کے تحت ان کی اطاعت کرو اور اللہ کی نافرمانی میں ان کی نافرمانی کرو۔
یہ ہے اس ملک عضوض کی ایک نمونہ دوسرا یہ ہے کہ
ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ جیسے صحابی حدیث رسول بتائیں گے تو ان کو اپنی جان کا خوف ہے کیوں ملک رحمہ میں خوف کیسا بھائی یہ بخاری اور مسلم کی احادیث ہیں ان کو بھی ضعیف کر دو۔ یہ ایک آدھا نمونہ ہے احادیث بھر پڑی ہے اس قسم کی واقعات سے کیونکہ یہ ملک عضوض تھی جو ایک تغیر شدہ راوی کی روایت سے رحمت نہیں بن جائے گی۔ اللہ سب کو ہدایت دے