• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امیر یزید اور (حديث الخلافة ثلاثون عاما)

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
آپ کی بات واضح نہیں ہے۔ کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ یہاں پرابوشہاب کوئی مجہول راوی ہے؟
یا یہ کہنا چاہتے ہیں یہاں ابوشہاب اصغرہے یااکبر اس کی تعیین کی دلیل نہیں ہے؟
آپ اپنی رائے واضح کریں تاکہ آپ کوجواب دیاجاسکے۔

دوسری بات یہ کہ راوی کے تعین میں صرف استاذوں اور شاگردوں کی فہرست ہی نہیں دیکھی جاتی ہے۔بلکہ اوربھی بہت ساری چیزیں دیکھی جاتی ہیں۔اس لئے استاذ اورشاگرد ہونے کا کسی نے ذکرنہیں کیا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ استاذاورشاگرد نہیں ۔
اوراگر استاذی اورشاگردی کے عدم ذکر سے آپ استاذی اورشاگردی کی نفی کررہے ہیں تو کیا آپ کا یہ اصول صرف اسی روایت میں ہے یا ہرروایت میں جہاں دوراوی کے بیچ استاذی اورشاگردی کاتذکرہ نہ ملے وہاں آپ اس چیزکوروایت میں علت سمجھیں گے ؟اگرآپ کا یہ نرالااصول ہے تو اس کی ہی وضاحت کردیں۔اورپھرائمہ حدیث سے اس کے دلائل ذکرکردیں۔



ماشاء اللہ !
کیا زودار تحقیق ہے!
جناب ! اس روایت کی صحت سے کس کو انکار ہے؟ پھرکیوںآپ اس کے راویوں کی توثیق پیش کرکے خواہ مخواہ اپنا وقت بربادکررہے ہیں۔
اس روایت میں چوتھے دورمیں ملک عضوض کا ذکر ہے۔نہ کہ تیسرے دور میں اوراس سے کسی کو انکار نہیں ۔



یعنی آپ کے حساب سے حسن رضی اللہ عنہ کادور خلافت کادور نہیں ہے؟بلکہ یہ( ثم کذاوکذا )والادورہے؟
آپ کی بات کا کوئی سرپرہے یا ایسے ہی جومن میں آیا بولتے چلے گئے؟
آپ کی اس بھونڈی تشریح سے تو حسن رضی اللہ عنہ کا دوربھی خلافت کےدور میں شمار نہیں ہوتا۔
آل سباء کے ساتھ یہی مصیبت ہوتی ہے کہ وہ بنوامیہ پربھونکتے بھونکتے اہل بیت پربھی شروع ہوجاتے ہیں؟

اچھا اگر یہ مان بھی لین کہ (ثم کذاوکذا)والادور حسن رضی اللہ عنہ کا دورہے تو اس بات کی کیادلیل ہے کہ صلح کے بعدیہ دور ختم ہوگیاِ؟
اگردورنبوت کے بعددوسرے دور یعنی دورخلافت میں ایک سے زائد صحابہ کی حکومت شامل ہوسکتی توپھر تیسرے دور(ثم کذاوکذا)میں ایس سے زائد لوگوں کی حکومت کیوں شامل نہیں ہوسکتی ؟



ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت اور مسند احمد کی حذیفہ رضی اللہ عنہ والی اس روایت میں معنوی طورپر کوئی تضاد نہیں ہے کیونکہ حذیفہ رضی اللہ عنہ کی یہ روایت طبرانی میں جسے آپ صحیح کہہ رہے اس میں ملک عضوض سے قبل (ثم یکون کذاوکذا)کا دور اجمالی طور پر مذکور ہے ۔اوراسی کی صراحت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت میں ملک رحمۃ سے ہے ۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ حذیفہ رضی اللہ عنہ کے ایک طریق میں راوی نے اختصارکرتے ہوئے تیسرے دور یعنی ملک رحمہ اللہ کا تذکرہ نہیں کیا ہے ۔
ان طرح ان روایات میں تیسرے دور سے متعلق کوئی تضاد نہیں ہے۔

اوراگرآپ تضاد مانتے ہیں تو ابن عباس رضی اللہ عنہ ہی کی روایت راجح ہوگی کیونکہ اس کی سند حذیفہ رضی اللہ عنہ کی روایت کے اس طریق سے بہتر ہے جس میں ملک رحمہ اللہ کاذکر نہیں ۔نیز خود حذیفہ رضی اللہ عنہ ہی کی روایت کے دوسرے طریق میں تیسرے دور کا مجملا ذکرموجود ہے۔



سفینہ رضی اللہ عنہ کی اس روایت میں خلافت کے بعد ملک عضوض کاذکر کہاں ہے؟
اس میں توصرف مطلق ملک کاذکر ہے ۔اورابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت میں صراحتااسی طرح حذیفہ رضی اللہ عنہ کی روایت کے ایک طریق اجمالا یہ ذکرہے خلافت کے بعد والا یہ دور ملک رحمہ کا دور ہوگا اس لئے سفینہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں بھی خلافت کے بعد مذکور ملک سے ملک رحمہ کومراد لیا جائے گا۔




ان ائمہ نے تمام روایات کو ایک ساتھ رکھ کرتبصرہ نہیں کیا ہے ۔اس لئے صحیح اور صریح روایات کے خلاف ان کا تبصرہ بے دلیل ہے۔
آپ نے ابن کثیر اورابن حجررحمہ اللہ کے نام پیش کئے ہیں ۔
یہ دونوں ائمہ یزید کو جیش مغفور والی حدیث کا مصداق بتلاتے ہیں کیا آپ کوان ائمہ کی یہ بات بھی قبول ہے؟



آپ اسی بات کودلائل اورقرائین سے ثابت کردیں کہ سخاوی نے یہ بات ابن المدینی کی کتاب سے نقل کی ہے۔




تدلیس تسویہ کاالزام کسی نے نہیں لگایا ہے آپ کو عربی سمجھنے میں دشواری ہے۔
تدلیس کاالزام جس نے لگایاہے وہ بھی ثابت نہیں۔گرچہ ابن القطان کا قول ثابت مان لیں۔کیونکہ ابن القطان نے بھی تدلیس کاالزام نہیں لگایاہے۔



اس خاص لفظ کوبھی علامہ البانی نے ضعیف نہیں کیا ہے ۔صرف آپ کہہ رہے جو بے دلیل ہے۔



اولا یہ منفرد نہیں ہے معنوی طور پردوسری روایات میں بھی اس کاذکرہے۔
اوراگرمنفرد ہے تو بھی اس کاانفراد قبول ہے آپ کے پاس اس انفراد کے رد کرنے کی کوئی دلیل نہین ہے۔




تغیر کے بعدروایت کرنا ثابت نہیں اس لئے یہ حوالہ بے کار ہے۔




غلطی کا کوئی ثبوت نہیں صرف آپ کا بے دلیل دعوی ہے۔




اصح روایت تو ملک رحمہ والی ہے ۔اس لئے آپ ہی کے اصول سے ملک رحمہ کے ذکر سے خالی ملک عضوض والی روایت ضعیف ہے۔



ملک عضوض کے ثبوت سے کسی کو انکارنہیں لیکن ملک عضوض کادور ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت اور حذیفہ رضی اللہ عنہ کی روایت کے بھی ایک طریق سے ملک رحمہ کے بعد کادور ہے۔
اب آپ یہ بتائیں کہ ملک رحمہ والی روایت کو کس محدث نے ضعیف کہاہے؟
جناب
سب سے پہلے فطر بن خلیفہ کے تدلیس کے معاملہ کو لیں لیتے ہیں تاکہ یہ معاملہ صاف ہو جائے اپ نے لکھا کہ" تدلیس تسویہ کاالزام کسی نے نہیں لگایا ہے آپ کو عربی سمجھنے میں دشواری ہے۔
تدلیس کاالزام جس نے لگایاہے وہ بھی ثابت نہیں۔گرچہ ابن القطان کا قول ثابت مان لیں۔کیونکہ ابن القطان نے بھی تدلیس کاالزام نہیں لگایاہے۔"
فطر بن خلیفہ کے متعلق ساری بحث امام سخاوی تدلیس تسویہ کے تحت فرما رہے ہیں تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ فطر تدلیس نہ کر رہا ہے مجھے تو عربی پڑھنے میں دشواری ہے آپ خود پڑھ لیں۔
فَقَدْ أَدْرَجَ الْخَطِيبُ ثُمَّ النَّوَوِيُّ فِي هَذَا الْقِسْمِ تَدْلِيسَ التَّسْوِيَةِ كَمَا سَيَأْتِي، وَوَصَفَ غَيْرُ وَاحِدٍ بِالتَّدْلِيسِ مَنْ رَوَى عَمَّنْ رَآهُ وَلَمْ يُجَالِسْهُ، بِالصِّيغَةِ الْمُوهِمَةِ، بَلْ وُصِفَ بِهِ مَنْ صَرَّحَ بِالْإِخْبَارِ فِي الْإِجَازَةِ كَأَبِي نُعَيْمٍ، أَوْ بِالتَّحْدِيثِ فِي الْوِجَادَةِ كَإِسْحَاقَ بْنِ رَاشِدٍ الْجَزَرِيِّ، وَكَذَا فِيمَا لَمْ يَسْمَعْهُ كَفِطْرِ بْنِ خَلِيفَةَ أَحَدِ مَنْ رَوَى لَهُ الْبُخَارِيُّ مَقْرُونًا.
وَلِذَا قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ: قُلْتُ لِيَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْقَطَّانِ: يُعْتَمَدُ عَلَى قَوْلِ فِطْرٍ ثَنَا، وَيَكُونُ مَوْصُولًا؟ فَقَالَ: لَا، فَقُلْتُ: أَكَانَ ذَلِكَ مِنْهُ سَجِيَّةً؟ قَالَ: نَعَمْ.
وَكَذَا قَالَ الْفَلَّاسُ: إِنَّ الْقَطَّانَ قَالَ لَهُ: وَمَا يُنْتَفَعُ بِقَوْلِ فِطْرٍ " ثَنَا " عَطَاءٌ، وَلَمْ يَسْمَعْ مِنْهُ. وَقَالَ ابْنُ عَمَّارٍ عَنِ الْقَطَّانِ: كَانَ فِطْرٌ صَاحِبَ ذِي سَمِعْتُ سَمِعْتُ، يَعْنِي أَنَّهُ يُدَلِّسُ فِيمَا عَدَاهَا، وَلَعَلَّهُ تَجَوَّزَ فِي صِيغَةِ الْجَمْعِ فَأَوْهَمَ دُخُولَهُ.
كَقَوْلِ الْحَسَنِ الْبَصْرِيِّ: " خَطَبَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ " وَ " خَطَبَنَا عُتْبَةُ بْنُ غَزْوَانَ " وَأَرَادَ أَهْلَ الْبَصْرَةِ بَلَدِهِ، فَإِنَّهُ لَمْ يَكُنْ بِهَا حِينَ خُطْبَتِهِمَا، وَنَحْوُهُ فِي قَوْلِهِ: " حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ " وَقَوْلِ طَاوُسٍ: " قَدِمَ عَلَيْنَا مُعَاذٌ الْيَمَنَ ".
وَأَرَادَ أَهْلَ بَلَدِهِ، فَإِنَّهُ لَمْ يُدْرِكْهُ، كَمَا سَيَأْتِي الْإِشَارَةُ لِذَلِكَ فِي أَوَّلِ أَقْسَامِ التَّحَمُّلِ، وَلَكِنَّ صَنِيعَ فِطْرٍ فِيهِ غَبَاوَةٌ شَدِيدَةٌ يَسْتَلْزِمُ تَدْلِيسًا صَعْبًا
(فتح المغیث جلد 1 ص 226 باب فرق بین تدلیس و ارسال)
اس کو اپ خود پڑھ لیں اور دوسری بات آپ کی بات مان لی کہ مجھے عربی سمجھنے میں دشواری ہے تو کیا شیخ مسفر الدمینی جامعہ محمد بن السعود میں علوم کلیہ اصول دین کے استاذ کو بھی سمجھ نہیں آئی کے انہی دلائل کی بنیاد پر انہوں اپ کتاب التدلیس فی الحدیث میں فطر بن خلیفہ کو تیسرے درجے کا مدلس نقل کیا ہے اب اس کے بعد میں نہ مانو کا علاج کچھ بھی نہیں ہے۔
تو یہ روایت اپنی پہلی علت سے ہی ضعیف ہوتی ہے کہ اس میں فطر نے تدلیس کر رکھی ہے مگر میں جانتا ہے اپ مانیں گے نہیں اس لیے دیگر دلائل بھی پیش کر دیتا ہے اپ نے اپنی پچھلی پوسٹ میں لکھا تھا کہ" یعنی صحیح روایات کی بنیادپر ادوارحکومت کی ترتیب اس طرح ہوگی :
پہلا دور : ۔دورنبوت
دوسرا دور: ۔دورخلافت
تیسرادور:۔دورملک رحمہ
چوتھا دور: ۔دورملک عضوض
اس روایت کو میں بھی اپ تک سلسلہ الصحیحہ سے دیکھ رہا تھا مگر جب میں نے اس کے اصل ماخذ یعنی طبرانی الکبیر میں پڑھا تو الگ ہی بات سامنے آئی ہے اب بھی دیکھ لو اس سے اس حدیث کے ضعیف ہونے کی ایک اور وجہ سامنے آئی گی اور النفیلی کے تغیر میں روایت کی ایک دلیل اور سامنے آتی ہے۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ النَّضْرِ الْعَسْكَرِيُّ، ثنا سَعِيدُ بْنُ حَفْصٍ النُّفَيْلِيُّ، ثنا مُوسَى بْنُ أَعْيَنَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ فِطْرِ بْنِ خَلِيفَةَ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَوَّلُ هَذَا الْأَمْرِ نُبُوَّةٌ وَرَحْمَةٌ، ثُمَّ يَكُونُ خِلَافَةً وَرَحْمَةً، ثُمَّ يَكُونُ مُلْكًا وَرَحْمَةً، ثُمَّ يَكُونُ إِمَارَةً وَرَحْمَةً، ثُمَّ يَتَكادَمُونَ عَلَيْهِ تَكادُمَ الْحُمُرِ فَعَلَيْكُمْ بِالْجِهَادِ، وَإِنَّ أَفْضَلَ جهادِكُمُ الرِّبَاطُ، وَإِنَّ أَفْضَلَ رباطِكُمْ عَسْقَلَان(الطبرانی الکبیر رق 11138)
اپ نےاس حدیث کے مطابق چوتھا دور ملک عضوض بنایا تھا جبکہ اپ کے النفیلی صاحب اپ کے چاروں ادوار ہی رحمت کر دیئے ہیں
نُبُوَّةٌ وَرَحْمَةٌ، ثُمَّ يَكُونُ خِلَافَةً وَرَحْمَةً، ثُمَّ يَكُونُ مُلْكًا وَرَحْمَةً، ثُمَّ يَكُونُ إِمَارَةً وَرَحْمَةً،
اب اپ بتاؤ صحیح ترین روایت میں ملک عضوض کا لفظ ہے اس روایت میں کوئی ایک دور بھی عضوض نہیں سب ادوار رحمت ہی ہیں یہ دلیل ہے اس بات کی کے النفیلی نے یہاں تمام ادوار کو رحمت کر دیا ہے جو اس روایت میں اس کے تغیر کی دلیل ہے دوسری دلیل یہ ہے کہ
احمد بن النضر کی وفات 290 ھجری میں ہے اور النفیلی کی تاریخ وفات 237 ہجری ہے جن میں 53 سال کا فرق ہے اور اس سے بھی اس بات کا قوی امکان ہے کہ النفیلی نے یہ روایت تغیر کے زمانے میں کی ہے اور صاحب المختارہ نے جو اس کی روایت کو صحیح کہا ہے تو اگر اپ ان کی بات مانتے ہے اور دلیل کو نظر انداز کرتے ہین تو پھر اپ تو ناف کے نیچھے ہاتھ باندھتے ہو گے۔(اشارہ کافی ہے)
اب اپ کو اس حوالے سے سب سے صحیح روایت پیش کردیتا ہوں کہ جس میں خود حذیفہ رضی اللہ عنہ نے ملک عضوض کہا ہے اور یہ مسند احمد والی روایت نہیں ہے

حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ، ثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ شِيرَوَيْهِ،. وَحَدَّثَنَا أَبُو عَمْرِو بْنُ حَمْدَانَ، ثَنَا الْحَسَنُ بْنُ سُفْيَانَ، قَالَا: ثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، ثَنَا بَكَّارُ بْنُ عَبْدِ اللهِ، حَدَّثَنِي خَلَّادُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ أَبَا الطُّفَيْلِ، حَدَّثَهُ أَنَّهُ سَمِعَ حُذَيْفَةَ، يَقُولُ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ، أَلَا تَسْأَلُونِي؟ فَإِنَّ النَّاسَ كَانُوا يَسْأَلُونَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْخَيْرِ، وَكُنْتُ أَسْأَلُهُ عَنِ الشَّرِّ، أَفَلَا تُسْأَلُونَ عَنْ مَيِّتِ الْأَحْيَاءِ؟ فَقَالَ: إِنَّ اللهَ تَعَالَى بَعَثَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَعَا النَّاسَ مِنَ الضَّلَالَةِ إِلَى الْهُدَى، وَمِنَ الْكُفْرِ إِلَى الْإِيمَانِ، فَاسْتَجَابَ لَهُ مَنِ اسْتَجَابَ، فَحَيَى بِالْحَقِّ مَنْ كَانَ مَيِّتًا، وَمَاتَ بِالْبَاطِلِ مَنْ كَانَ حَيًّا، ثُمَّ ذَهَبَتِ النُّبُوَّةُ فَكَانَتِ الْخِلَافَةُ عَلَى مَنَهَاجِ النُّبُوَّةِ، ثُمَّ يَكُونُ مُلْكًا عَضُوضًا، فَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُنْكِرُ بِقَلْبِهِ وَيَدِهِ وَلِسَانِهِ وَالْحَقَّ اسْتَكْمَلَ، وَمِنْهُمْ مَنْ يُنْكِرُ بِقَلْبِهِ وَلِسَانِهِ كَافًّا يَدَهُ وَشُعْبَةً مِنَ الْحَقِّ تَرَكَ، وَمِنْهُمْ مَنْ يُنْكِرُ بِقَلْبِهِ كَافًّا يَدَهُ وَلِسَانَهُ وَشُعْبَتَيْنِ مِنَ الْحَقِّ تَرَكَ، وَمِنْهُمْ مَنْ لَا يُنْكِرُ بِقَلْبِهِ وَلِسَانِهِ فَذَلِكَ مَيِّتُ الْأَحْيَاء (حلیۃ الاولیاء باب مھاجروں من اصحاب جلد 1 ص275)
اس کو اچھی طرح چیک کر لیں اس کے تمام راوی ثقہ ہے اور یہ حکما مرفوع ہے کیونکہ اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حوالہ دے کر شر کی بات بتلائی ہے اور اگر اپ نہ مانو تو بھی حذیفہ رضی اللہ عنہ خود اپنی بیان کردہ حدیث کی وضاحت کر رہے ہے تو اب مسند احمد کی حدیث اس روایت کی وجہ سے حسن نہیں رہی بلکہ صحیح لغیرہ ہو گئی ہے اور دیگر روایات بھی ہیں جو جن میں علت بھی ہے مثلا مکحول کی تدلیس کی وجہ سے ایک روایت ضیعف ہے مگر اس کا مضموں یہی ہے جس سے اس کی تائید ہوتی ہے تو اپ رہ گئی وہ وضاحت جس کی وجہ سے اپ آپے سے باہر ہو گئے مگر علم انسان کو بردباری سکھاتا ہے جہالت نہیں اپ نے لکھا کہ " یعنی آپ کے حساب سے حسن رضی اللہ عنہ کادور خلافت کادور نہیں ہے؟بلکہ یہ( ثم کذاوکذا )والادورہے؟
آپ کی بات کا کوئی سرپرہے یا ایسے ہی جومن میں آیا بولتے چلے گئے؟
آپ کی اس بھونڈی تشریح سے تو حسن رضی اللہ عنہ کا دوربھی خلافت کےدور میں شمار نہیں ہوتا۔
آل سباء کے ساتھ یہی مصیبت ہوتی ہے کہ وہ بنوامیہ پربھونکتے بھونکتے اہل بیت پربھی شروع ہوجاتے ہیں؟

اچھا اگر یہ مان بھی لین کہ (ثم کذاوکذا)والادور حسن رضی اللہ عنہ کا دورہے تو اس بات کی کیادلیل ہے کہ صلح کے بعدیہ دور ختم ہوگیاِ؟
اگردورنبوت کے بعددوسرے دور یعنی دورخلافت میں ایک سے زائد صحابہ کی حکومت شامل ہوسکتی توپھر تیسرے دور(ثم کذاوکذا)میں ایس سے زائد لوگوں کی حکومت کیوں شامل نہیں ہوسکتی ؟ "
اپ سے کس نے کہا کہ میں نے حسن رضی اللہ کے دور کو خلافت سے نکال دیا
ان کا دور خلافت میں ہی ہے حدیث میں یہی ہے خلافت رحمہ ثم کذا و کذا
یعنی حسن رضی اللہ عنہ کے چھ ماہ ملا کر خلافت رحمہ پوری ہوئی ثم کذا و کذا سے مراد حسن رضی اللہ عنہ کا معاویہ رضی اللہ عنہ سے معاہدہ اور دستبرداری کذا و کذا میں ہے اور اس کی دلیل یہی ہے کہ حافظ ابن حجر لکھتے ہیں کہ"
أخبر به عن الحسن حيث قال: «إنّ ابني هذا سيّد وسيصلح اللَّه به بين فئتين عظيمتين من المسلمين» [ (1) ] .
وهكذا أصبحت الخلافة ملكا عضوضا على يد معاوية
تو یہ کذا و کذا وہ صلح ہے جو ہوئی ہے اس کے بعد ملک عضوض ہےاور یہ حدیث سے ثابت ہے یہ کسی کی حکومت کا دور نہیں ہے اس کو ایک روایت میں بیان کر دیا اور باقی نے اس کو بیان کیے بغیر ملک عضوض بیان کیا ہے اب میں صحیح مسلم سے ایک روایت پیش کر دیتا ہوں کے واقعی خلافت کے بعد ملک عضوض ہی تھی۔ کیونکہ بنی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ملک عضوضا ہے تو ہے۔پڑھ لیں

عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ رَبِّ الْكَعْبَةِ، قَالَ: دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ فَإِذَا عَبْدُ اللهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ جَالِسٌ فِي ظِلِّ الْكَعْبَةِ، وَالنَّاسُ مُجْتَمِعُونَ عَلَيْهِ، فَأَتَيْتُهُمْ فَجَلَسْتُ إِلَيْهِ، فَقَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، فَنَزَلْنَا مَنْزِلًا فَمِنَّا مَنْ يُصْلِحُ خِبَاءَهُ، وَمِنَّا مَنْ يَنْتَضِلُ، وَمِنَّا مَنْ هُوَ فِي جَشَرِهِ، إِذْ نَادَى مُنَادِي رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الصَّلَاةَ جَامِعَةً، فَاجْتَمَعْنَا إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " إِنَّهُ لَمْ يَكُنْ نَبِيٌّ قَبْلِي إِلَّا كَانَ حَقًّا عَلَيْهِ أَنْ يَدُلَّ أُمَّتَهُ عَلَى خَيْرِ مَا يَعْلَمُهُ لَهُمْ، وَيُنْذِرَهُمْ شَرَّ مَا يَعْلَمُهُ لَهُمْ، وَإِنَّ أُمَّتَكُمْ هَذِهِ جُعِلَ عَافِيَتُهَا فِي أَوَّلِهَا، وَسَيُصِيبُ آخِرَهَا بَلَاءٌ، وَأُمُورٌ تُنْكِرُونَهَا، وَتَجِيءُ فِتْنَةٌ فَيُرَقِّقُ بَعْضُهَا بَعْضًا، وَتَجِيءُ الْفِتْنَةُ فَيَقُولُ الْمُؤْمِنُ: هَذِهِ مُهْلِكَتِي، ثُمَّ تَنْكَشِفُ وَتَجِيءُ الْفِتْنَةُ، فَيَقُولُ الْمُؤْمِنُ: هَذِهِ هَذِهِ، فَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يُزَحْزَحَ عَنِ النَّارِ، وَيُدْخَلَ الْجَنَّةَ، فَلْتَأْتِهِ مَنِيَّتُهُ وَهُوَ يُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، وَلْيَأْتِ إِلَى النَّاسِ الَّذِي يُحِبُّ أَنْ يُؤْتَى إِلَيْهِ، وَمَنْ بَايَعَ إِمَامًا فَأَعْطَاهُ صَفْقَةَ يَدِهِ، وَثَمَرَةَ قَلْبِهِ، فَلْيُطِعْهُ إِنِ اسْتَطَاعَ، فَإِنْ جَاءَ آخَرُ يُنَازِعُهُ فَاضْرِبُوا عُنُقَ الْآخَرِ "، فَدَنَوْتُ مِنْهُ، فَقُلْتُ لَهُ: أَنْشُدُكَ اللهَ آنْتَ سَمِعْتَ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَأَهْوَى إِلَى أُذُنَيْهِ، وَقَلْبِهِ بِيَدَيْهِ، وَقَالَ: «سَمِعَتْهُ أُذُنَايَ، وَوَعَاهُ قَلْبِي» ، فَقُلْتُ لَهُ: هَذَا ابْنُ عَمِّكَ مُعَاوِيَةُ، يَأْمُرُنَا أَنْ نَأْكُلَ أَمْوَالَنَا بَيْنَنَا بِالْبَاطِلِ، وَنَقْتُلَ أَنْفُسَنَا، وَاللهُ يَقُولُ: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ إِنَّ اللهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا} [النساء: 29] قَالَ: فَسَكَتَ سَاعَةً، ثُمَّ قَالَ: «أَطِعْهُ فِي طَاعَةِ اللهِ، وَاعْصِهِ فِي مَعْصِيَةِ اللهِ»(صحیح مسلم رقم 1844 کتاب امارہ باب بَابُ الْأَمْرِ بالْوَفَاءِ بِبَيْعَةِ الْخُلَفَاءِ، الْأَوَّلِ فَالْأَوَّل)
اس کے یہ الفاظ پڑھ لیں جب عبدالرحمن نے عمرو بن العاص سے کہا کہ
فَقُلْتُ لَهُ: هَذَا ابْنُ عَمِّكَ مُعَاوِيَةُ، يَأْمُرُنَا أَنْ نَأْكُلَ أَمْوَالَنَا بَيْنَنَا بِالْبَاطِلِ، وَنَقْتُلَ أَنْفُسَنَا، وَاللهُ يَقُولُ: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ إِنَّ اللهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا} [النساء: 29] قَالَ: فَسَكَتَ سَاعَةً، ثُمَّ قَالَ: «أَطِعْهُ فِي طَاعَةِ اللهِ، وَاعْصِهِ فِي مَعْصِيَةِ اللهِ»
اپ کا چچا کا بیٹا معاویہ تو ہمیں باطل طریقہ سے مال کھانے اور قتل کرنے کا حکم دیتا ہے اس میں عمرو بن العاص نے یہ نہیں کہا کذبت تو جھوٹ بولتا وہ تو ملک رحمہ ہے بلکہ یہ جواب دیا
قَالَ: فَسَكَتَ سَاعَةً، ثُمَّ قَالَ: «أَطِعْهُ فِي طَاعَةِ اللهِ، وَاعْصِهِ فِي مَعْصِيَةِ اللهِ»
اللہ کے اطاعت کے تحت ان کی اطاعت کرو اور اللہ کی نافرمانی میں ان کی نافرمانی کرو۔
یہ ہے اس ملک عضوض کی ایک نمونہ دوسرا یہ ہے کہ
ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ جیسے صحابی حدیث رسول بتائیں گے تو ان کو اپنی جان کا خوف ہے کیوں ملک رحمہ میں خوف کیسا بھائی یہ بخاری اور مسلم کی احادیث ہیں ان کو بھی ضعیف کر دو۔ یہ ایک آدھا نمونہ ہے احادیث بھر پڑی ہے اس قسم کی واقعات سے کیونکہ یہ ملک عضوض تھی جو ایک تغیر شدہ راوی کی روایت سے رحمت نہیں بن جائے گی۔ اللہ سب کو ہدایت دے
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
محترم -

اگر آپ میں ذرا بھی ایمان کی رمق ہو تو صحابہ کرام رضوان الله اجمعین خوصو صاً صحابی و مہدی رسول حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کے متعلق اس قسم کی نا زیبا زبان استمعال نہ کریں جو آپ ایک ہفتہ سے مسلسل کررہے ہیں - مزید یہ کہ آپ اس زمن میں خلافت سے متعلق یا تو ضعیف پہ ضعیف روایات پیش کررہے ہیں یا جو صحیح روایات ہیں اس کے غلط معنی اخذ کرکے ان سے لوگوں میں صحابہ رسول و مغفورسالار قسطنطنیہ امیر معاویہ رضی الله عنہ کی شخصیت ان کی حکومت اور ان کی آل اولاد سے متعلق لوگوں میں بد گمانی پیدا کرہے ہیں-

آپ نے ایک ساتھ بہت ساری پوسٹ کردی ہیں اس لئے فرداً فرداً ان کا جواب دینا آسان نہیں کہ اس میں کافی وقت درکار ہے - فلحال آپ کی سفینہ رضی الله عنہ والی تیس سالہ خلافت پر تبصرہ پیش کررہ ہوں -

سفينة الْخِلَافَةُ بَعْدِي ثَلَاثُونَ سَنَةً ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا عَضُوضًا» .
پہلی بات اس روایت کے حوالے سے ابن ابی حاتم نے لا يحتج به کے الفاظ استمعال کیے ہیں - اگرچہ اکثر مجتحدین کے نزدیک ابن ابی حاتم رحم الله احادیث تعدیل و جرح میں متشدد ہیں لیکن یہ کوئی بری بات نہیں- امام بخاری رحم الله کو اسی بنا پر پر دوسرے محدثین پرفوقیت ہے کہ احدیث نبوی کی پرکھ میں وہ باقی آئمہ و محدثین کے نسبت متشدد واقع ہوے تھے-

دوسرے یہ کہ حضرت سفینہ رضی اﷲ عنہ کا اپنا عمل یہ تھا کہ انہوں نے نہ صرف سیدنا معاویہؓ رضی الله عنہ کے ہاتھ پر بھی بیعت کی۔ (تاریخ طبری جلد ٧ ، مقدمہ ابن خلدون ، اخبار اطول) -اگر یہ خلافت نہیں ظلم کی بادشاہت تھی تو حضرت سفینہ رضی اﷲ عنہ نے حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کی حکومت کو تسلیم ہی کیوں کیا ؟؟ محدثین کے اصول کے مطابق جب کسی حدیث کا راوی اپنی روایت کردہ حدیث کے خلاف عمل کرے تو وہ روایت اپنا اعتبار کھو دیتی ھے چاہے سند کتنی بھی قوی ھو،،قابلِ عمل نہیں رھتی -

تیسرے یہ کہ :
بخاری نے اپنی سند کے ساتھ جابر بن سمره سے نقل کیا ہے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا: ""یکون اثنا عشر امیرا، فقال کلمه لم اسمعھافقال ابی : انہ قال : کلھم من قریش "" ۔ میرے بعد امیر ہوں گے ، اس کے بعد آپ نے ایک بات کہی جو میں نے نہیں سنی، میرے والد نے کہا کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا : وہ سب قریش سے ہوں گے (١)

امام بدر الدین عینی ان بارہ کی تفصیل کچھ یوں بتاتے ھیں، 1 ابوبکرؓ 2 عمرؓ 3 عثمانؓ 4 علیؓ 5 حسن بن علیؓ 6 معاویہ بن سفیانؓ 7 یزید بن معاویہ 8 عبداللہ بن زبیرؓ 9 عبدالملک 10ولید بن عبالملک 11 سلیمان بن عبدالمک 12 عمر بن عبدالعزیز ( عمدۃ القاری شرح بخاری )- اس بارہ خلفاء والی حدیث کی فہرست میں نہ صرف حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ موجود ہے بلھے ان کے فرزند یزید بن معاویہ راضی الله عنہ کا نام بھی بنفس نفیس بوجود ہے-

چوتھے یہ کہ :
آپ بار بار ایک ہی راگ الاپ رہے ہے کہ خلافت تیس سال ہے اس کا بعد " ملک عضوضا کا لفظ جمع کیا گیا ہے" - تو اکثر مفسرین جن کے نزدیک یہ روایت صحیح تسلیم کی گئی ہے - تو پھر بھی اس روایت سے وہ مطلب اخذ کرنا جو آپ کررہے ہیں سراسر گمراہی ہے- تیس سال بعد "ملک " کا مطلب حکومت وقت ہے اور یہ کہ "ملک" کی خواہش کرنا کوئی ایسا خلاف دین بھی نہیں- قرآن میں الله رب العزت خود فرماتا ہے کہ:

قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَن تَشَاءُ وَتَنزِعُ الْمُلْكَ مِمَّن تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَن تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَن تَشَاءُ بِيَدِكَ الْخَيْرُ إِنَّكَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ سوره آ ل عمران ٢٦
کہو کہ اے الله! حاکموں کے حکم ہے- تو جیسے چاہے حکومت عطا کرے اور جس سے چاہے حکومت چھین لے -اور جس کو چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلیل کرے ہر طرح کی بھلائی تیرے ہی ہاتھ ہے اور بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے-

ظاہر ہے جب یہاں الله رب العزت خود "ملک" حاصل کرنے کے لئے دعا بیان فرما رہے ہیں - تو اس "ملک" سے غلط مطلب اخذ کرنا جو صحابہ کرام کی عظمت و منزلت کے منافی ہے کہاں کی عقلمندی ہے -

پھر یہ کہ اس لفظ "ملک" کے ساتھ عضوضا" کا اضافہ بھی کردیں تو اس کا مطلب بنتا ہے "مضبوطی سے پکڑی ہوئی حکومت یا مضبوط حکومت" - مثال کے طور پر ملاحظه ہو نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کی ایک اور حدیث مبارکہ جس میں یہ لفظ " عَضُّوا کا مطلب دانتوں سے مضبوطی پکڑنا بیان کیا گیا ہے :

"فَمَنْ أَدْرَكَ ذَلِكَ مِنْكُمْ فَعَلَيْهِ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ عَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ"۔ ((ترمذی، صحیح)
سو جو تم میں سے یہ (فتنوں کا) زمانہ پائے اسے لازم ہے کہ میری سنت اور خلفائے راشدین کی سنت کو دانتوں کے زور سے لازم پکڑے۔

یہاں واضح ہے کہ عَضُّوا سے مراد "مضبوطی سے پکڑنا" ہی لیا گیا ہے- نہ کہ "کاٹ کھانا یا ظلم و ستم " مراد ہے -

تو پھر رافضیوں کی اقتداء اور صحابہ دشمنی میں "ملک عضوضا" سے کاٹ کھانے والی بادشاہت مراد لینا کہاں کی دانشمندی ہے - یہ ٹھیک ہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کے دور میں کچھ خارجی و داخلی انتشار کے با عث ان کی خلافت "خلافت راشدہ " کے نہج سے ہٹ گئی تھی لیکن ان کی حکومت کا ظلم و ستم اور فسق و فجور سے دور دور کا بھی واسطہ نہیں تھا -

آخر میں آپ سے یہی درخواست ہے کہ :-
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ ۖ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَىٰ أَلَّا تَعْدِلُوا ۚ اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَىٰ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ سوره المائدہ ٨

اے ایمان والو! الله کے واسطے انصاف کی گواہی دینے کے لیے کھڑے ہو جاؤ اور کسی قوم کی دشمنی کے باعث انصاف کو ہر گز نہ چھوڑو انصاف کرو یہی بات تقویٰ کے زیادہ نزدیک ہے اور الله سے ڈرتے رہو جو کچھ تم کرتے ہو بے شک الله اس سے خبردارہے-
جناب جس بات کا الزام اپ مجھ پر لگا رہے ہیں سب سے پہلے ان میں ابن حجر ، ملا علی قاری ، ابن کثیر وغیرہ کو شامل کرے کہ ان میں ایمان کی رمق نہیں ہے مجھ سے پہلے انہوں نے اس حکومت کو ملک عضوض کہا ہے دوبارہ پڑھ لیں
أخبر به عن الحسن حيث قال: «إنّ ابني هذا سيّد وسيصلح اللَّه به بين فئتين عظيمتين من المسلمين» [ (1) ] .
وهكذا أصبحت الخلافة ملكا عضوضا على يد معاوية الّذي ورثها لابنه اليزيد، وأجبر الناس على بيعته في حياته حتى لا ينازعه في ملكه منازع من بعده.
اور ملک عضوض کس کو کہتے ہیں یہ بھی خود ہی لکھا ہے

ولسنا نقول بأن الخبر الّذي قاله النّبي صلّى اللَّه عليه وسلم عن الملك العضوض حين يفيد انتقاصا من قدر الملوك فإنه غالبا ما يكون فيهم الحزم والكياسة إلى جانب الشّدة والعنف۔
تو اپ نے جو عضوض کے مفہوم بیان کیے ہیں وہ بالکل آلگ ہیں اور اس میں تو ابن حجر فرما رہے ہیں کہ عضوض سے مراد تشدد کی حکومت ہو گی تو کس کی مانیں جو عربی اور احادیث کا حافظ ہے یعنی ابن حجر رحمہ اللہ یا اپ کی مانی جائے
دوسری بات اپ نے لکھی ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے صرف ابن حاتم کے قول سے اگر روایت ضعیف ہونے لگی تو پھر بخاری کی بہت سی روایات ضعیف ہے جائے گی کیونکہ ابن ابی حاتم نے بخاری اور مسلم کے بہت سے رواہ کو لا یحتج بہ کہا ہے اس لیے صرف ایک قول سے حدیث ضعیف نہیں ہوتی ہے
دوسری بات جو اپ نے لکھی ہے کہ سفینہ رضی اللہ عنہ نے معاویہ رضی اللہ عنہ کی خود بیعت کی ہے اس لیے بھی یہ روایت ناقابل حجت ہے تو بھائی ملک عضوض میں بیعت بھی تغلب اور جبری لی جاتی ہے تو کیوں کوئی بیعت کرے گا
اس کی مثال بھی صحیح حدیث سے پیش کر دیتا ہوں۔
حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ قَالَ: حَدَّثَنِي الْوَلِيدُ بْنُ كَثِيرٍ، عَنْ وَهْبِ بْنِ كَيْسَانَ قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ يَقُولُ: لَمَّا كَانَ عَامُ الْجَمَاعَةِ بَعَثَ مُعَاوِيَةُ إِلَى الْمَدِينَةِ بُسْرَ بْنَ أَرْطَاةَ لِيُبَايِعَ أَهْلَهَا عَلَى رَايَاتِهِمْ وَقَبَائِلِهِمْ، فَلَمَّا كَانَ يَوْمَ جَاءَتْهُ الْأَنْصَارُ جَاءَتْهُ بَنُو سُلَيْمٍ فَقَالَ: أَفِيهِمْ جَابِرٌ؟ قَالُوا: لَا، قَالَ: فَلْيُرْجَعُوا فَإِنِّي لَسْتُ مُبَايِعَهُمْ حَتَّى يَحْضُرَ جَابِرٌ، قَالَ: فَأَتَانِي فَقَالَ: نَاشَدْتُكَ اللَّهَ، إِلَّا مَا انْطَلَقْتَ مَعَنَا فَبَايَعْتَ فَحَقَنْتَ دَمَكَ وَدِمَاءَ قَوْمِكَ، فَإِنَّكَ إِنْ لَمْ تَفْعَلْ قُتِلَتْ مُقَاتِلَتُنَا وَسُبِيَتْ ذَرَارِيُّنَا، قَالَ: فَأَسْتَنْظِرُهُمْ إِلَى اللَّيْلِ، فَلَمَّا أَمْسَيْتُ دَخَلْتُ عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْتُهَا الْخَبَرَ فَقَالَتْ: «يَا ابْنَ أُمَّ، انْطَلِقْ، فَبَايِعْ وَاحْقِنْ دَمَكَ وَدِمَاءَ قَوْمِكَ، فَإِنِّي قَدْ أَمَرْتُ ابْنَ أَخِي يَذْهَبُ فَيُبَايِعُ»(مصنف ابن ابی شیبہ رقم30562 کتاب امراء)
بسر بن ارطاہ نے پورے مدینہ کی بیعت زبردستی لی ہے اور اس کو معاویہ رضی اللہ عنہ نے ہی بیعت لینے بھیجا تھا جب سارے مدینہ نے بیعت کر لی تو پھر سفینہ رضی اللہ عنہ کیوں نہ کرتے ملک عضوض ہے ملک عضوضا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو نہ جھٹلاؤ۔
اپ نے مانا کہ"
یہ ٹھیک ہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کے دور میں کچھ خارجی و داخلی انتشار کے با عث ان کی خلافت "خلافت راشدہ " کے نہج سے ہٹ گئی تھی لیکن ان کی حکومت کا ظلم و ستم اور فسق و فجور سے دور دور کا بھی واسطہ نہیں تھا "
خلافت راشدہ کے نہج سے ہٹ گئی تھی اپ یہ کتنی ہٹی تھی یہ آپ خود دیکھ لو
چنانچہ صحیح مسلم میں موجود ہے کہ
وَحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ الْبَرَّاءِ، قَالَ: أَخَّرَ ابْنُ زِيَادٍ الصَّلَاةَ، فَجَاءَنِي عَبْدُ اللهِ بْنُ الصَّامِتِ، فَأَلْقَيْتُ لَهُ كُرْسِيًّا، فَجَلَسَ عَلَيْهِ، فَذَكَرْتُ لَهُ صَنِيعَ ابْنُ زِيَادٍ، فَعَضَّ عَلَى شَفَتِهِ، وَضَرَبَ فَخِذِي، وَقَالَ: إِنِّي سَأَلْتُ أَبَا ذَرٍّ كَمَا سَأَلْتَنِي، فَضَرَبَ فَخِذِي كَمَا ضَرَبْتُ فَخِذَكَ، وَقَالَ: إِنِّي سَأَلْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَمَا سَأَلْتَنِي، فَضَرَبَ فَخِذِي كَمَا ضَرَبْتُ فَخِذَكَ، وَقَالَ: «صَلِّ الصَّلَاةَ لِوَقْتِهَا، فَإِنْ أَدْرَكَتْكَ الصَّلَاةُ مَعَهُمْ فَصَلِّ، وَلَا تَقُلْ إِنِّي قَدْ صَلَّيْتُ فَلَا أُصَلِّي»(صحیح مسلم رقم 648 باب کراھیہ تاخیر الصلاۃ)
اس کی شرح میں امام نووی لکھتے ہیں کہ یہ کب ہوتا تھا وَقَدْ وَقَعَ هَذَا فِي زَمَنِ بَنِي أُمَيَّة"
میں اس سے معاویہ رضی اللہ عنہ کو نہیں شامل کر رہا مگر یہ بتا رہا ہوں کہ یزید تک بات یہاں تک آ گئی تھی کہ نماز ضائع کی جاتی تھی اور قرآن کہتا ہے کہ
فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلَاةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا(سورہ مریم آیت 58)
اور اس پر امام اوراعی وغیرہ فرماتے تھے
إِنَّمَا أَضَاعُوا الْمَوَاقِيتَ، وَلَوْ كَانَ تَرْكًا كَانَ كُفْرًا.
ضائع کرنا یہ ہے کو اس کو وقت سے نہ پڑھا جائے اگر ترک کرے گا یہ تو کفر ہو گا۔
اور حدیث ہے کہ نبی صلی اللہ وسلم نے فرمایا کہ ساٹھ سال بعد نمازیں ضائع ہو گی اور خواہشات کی پیروی ہو گی اور یہ ساٹھ سال والا دور کس کا تھا یہ اپ جانتے ہیں ان کا دفاع کرنا چھوڑو انہوں نے دین برباد کیا اور کچھ نہیں یہ ناصبی فکر اپنے ذہنوں سے نکالو اللہ سب کو ہدایت دے
 

غازی

رکن
شمولیت
فروری 24، 2013
پیغامات
117
ری ایکشن اسکور
183
پوائنٹ
90
سب سے پہلے فطر بن خلیفہ کے تدلیس کے معاملہ کو لیں لیتے ہیں تاکہ یہ معاملہ صاف ہو جائے اپ نے لکھا کہ" تدلیس تسویہ کاالزام کسی نے نہیں لگایا ہے آپ کو عربی سمجھنے میں دشواری ہے۔
تدلیس کاالزام جس نے لگایاہے وہ بھی ثابت نہیں۔گرچہ ابن القطان کا قول ثابت مان لیں۔کیونکہ ابن القطان نے بھی تدلیس کاالزام نہیں لگایاہے۔"
فطر بن خلیفہ کے متعلق ساری بحث امام سخاوی تدلیس تسویہ کے تحت فرما رہے ہیں تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ فطر تدلیس نہ کر رہا ہے مجھے تو عربی پڑھنے میں دشواری ہے آپ خود پڑھ لیں۔
فَقَدْ أَدْرَجَ الْخَطِيبُ ثُمَّ النَّوَوِيُّ فِي هَذَا الْقِسْمِ تَدْلِيسَ التَّسْوِيَةِ كَمَا سَيَأْتِي، وَوَصَفَ غَيْرُ وَاحِدٍ بِالتَّدْلِيسِ مَنْ رَوَى عَمَّنْ رَآهُ وَلَمْ يُجَالِسْهُ، بِالصِّيغَةِ الْمُوهِمَةِ، بَلْ وُصِفَ بِهِ مَنْ صَرَّحَ بِالْإِخْبَارِ فِي الْإِجَازَةِ كَأَبِي نُعَيْمٍ، أَوْ بِالتَّحْدِيثِ فِي الْوِجَادَةِ كَإِسْحَاقَ بْنِ رَاشِدٍ الْجَزَرِيِّ، وَكَذَا فِيمَا لَمْ يَسْمَعْهُ كَفِطْرِ بْنِ خَلِيفَةَ أَحَدِ مَنْ رَوَى لَهُ الْبُخَارِيُّ مَقْرُونًا.
وَلِذَا قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ: قُلْتُ لِيَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْقَطَّانِ: يُعْتَمَدُ عَلَى قَوْلِ فِطْرٍ ثَنَا، وَيَكُونُ مَوْصُولًا؟ فَقَالَ: لَا، فَقُلْتُ: أَكَانَ ذَلِكَ مِنْهُ سَجِيَّةً؟ قَالَ: نَعَمْ.
وَكَذَا قَالَ الْفَلَّاسُ: إِنَّ الْقَطَّانَ قَالَ لَهُ: وَمَا يُنْتَفَعُ بِقَوْلِ فِطْرٍ " ثَنَا " عَطَاءٌ، وَلَمْ يَسْمَعْ مِنْهُ. وَقَالَ ابْنُ عَمَّارٍ عَنِ الْقَطَّانِ: كَانَ فِطْرٌ صَاحِبَ ذِي سَمِعْتُ سَمِعْتُ، يَعْنِي أَنَّهُ يُدَلِّسُ فِيمَا عَدَاهَا، وَلَعَلَّهُ تَجَوَّزَ فِي صِيغَةِ الْجَمْعِ فَأَوْهَمَ دُخُولَهُ.
كَقَوْلِ الْحَسَنِ الْبَصْرِيِّ: " خَطَبَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ " وَ " خَطَبَنَا عُتْبَةُ بْنُ غَزْوَانَ " وَأَرَادَ أَهْلَ الْبَصْرَةِ بَلَدِهِ، فَإِنَّهُ لَمْ يَكُنْ بِهَا حِينَ خُطْبَتِهِمَا، وَنَحْوُهُ فِي قَوْلِهِ: " حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ " وَقَوْلِ طَاوُسٍ: " قَدِمَ عَلَيْنَا مُعَاذٌ الْيَمَنَ ".
وَأَرَادَ أَهْلَ بَلَدِهِ، فَإِنَّهُ لَمْ يُدْرِكْهُ، كَمَا سَيَأْتِي الْإِشَارَةُ لِذَلِكَ فِي أَوَّلِ أَقْسَامِ التَّحَمُّلِ، وَلَكِنَّ صَنِيعَ فِطْرٍ فِيهِ غَبَاوَةٌ شَدِيدَةٌ يَسْتَلْزِمُ تَدْلِيسًا صَعْبًا
(فتح المغیث جلد 1 ص 226 باب فرق بین تدلیس و ارسال)
یہ بھی آپ کی عربی دانی کا نمونہ ہے۔
پتہ نہیں آپ سمجھ پائیں گے یانہیں ،پھربھی آپ کوسمجھانے کی تھوڑی سی کوشش کرتاہوں۔
آپ نے کہا:
’’ساری بحث امام سخاوی تدلیس تسویہ کے تحت فرما رہے ہیں‘‘
جناب تدلیس تسویہ کی یہاں بحث ہی نہیں ہےبلکہ امام سخاوی کے الفاظ آپ نے خود نقل کئے جو یہ ہیں:
فَقَدْ أَدْرَجَ الْخَطِيبُ ثُمَّ النَّوَوِيُّ فِي هَذَا الْقِسْمِ تَدْلِيسَ التَّسْوِيَةِ كَمَا سَيَأْتِي
خطیب اورنووی نے اس قسم میں تدلیس تسویہ کو داخل کیا ہے جیساکہ بات آگے آرہی ہے۔
جناب امام سخاوی کے الفاظ ’’کماسیاتی ‘‘پرغور کریں۔تدلیس تسویہ والی یہ بات آگے آرہی ہے یہاں بھی تدلیس تسویہ کی بات نہیں چل رہی ہے سمجھ جناب !


ور دوسری بات آپ کی بات مان لی کہ مجھے عربی سمجھنے میں دشواری ہے تو کیا شیخ مسفر الدمینی جامعہ محمد بن السعود میں علوم کلیہ اصول دین کے استاذ کو بھی سمجھ نہیں آئی کے انہی دلائل کی بنیاد پر انہوں اپ کتاب التدلیس فی الحدیث میں فطر بن خلیفہ کو تیسرے درجے کا مدلس نقل کیا ہے اب اس کے بعد میں نہ مانو کا علاج کچھ بھی نہیں ہے۔
میں نے یہ کب کہا کہ دکتورمسفرصاحب کو عربی نہیں آتی ۔
آ پ تدلیس تسویہ کاالزام فطر پر لگارہے ہیں کیا دکتور مسفرنے بھی فطر پرتدلیس تسویہ کاالزام لگایاہے؟
ہاں انہوں نے فطرکو مدلس مان کر انہیں تیسرے طبقہ کا مدلس کہا ہے۔اس بات کی انہوں نے کوئی دلیل نہیں دی ہے۔جو باتیں ذکر کی ہیں وہ ثابت نہیں ۔اورجوثابت ہیں ان سے تدلیس ثابت نہیں ہوتی ۔


اپ نے اپنی پچھلی پوسٹ میں لکھا تھا کہ" یعنی صحیح روایات کی بنیادپر ادوارحکومت کی ترتیب اس طرح ہوگی :
پہلا دور : ۔دورنبوت
دوسرا دور: ۔دورخلافت
تیسرادور:۔دورملک رحمہ
چوتھا دور: ۔دورملک عضوض
اس روایت کو میں بھی اپ تک سلسلہ الصحیحہ سے دیکھ رہا تھا مگر جب میں نے اس کے اصل ماخذ یعنی طبرانی الکبیر میں پڑھا تو الگ ہی بات سامنے آئی ہے اب بھی دیکھ لو اس سے اس حدیث کے ضعیف ہونے کی ایک اور وجہ سامنے آئی گی اور النفیلی کے تغیر میں روایت کی ایک دلیل اور سامنے آتی ہے۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ النَّضْرِ الْعَسْكَرِيُّ، ثنا سَعِيدُ بْنُ حَفْصٍ النُّفَيْلِيُّ، ثنا مُوسَى بْنُ أَعْيَنَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ فِطْرِ بْنِ خَلِيفَةَ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَوَّلُ هَذَا الْأَمْرِ نُبُوَّةٌ وَرَحْمَةٌ، ثُمَّ يَكُونُ خِلَافَةً وَرَحْمَةً، ثُمَّ يَكُونُ مُلْكًا وَرَحْمَةً، ثُمَّ يَكُونُ إِمَارَةً وَرَحْمَةً، ثُمَّ يَتَكادَمُونَ عَلَيْهِ تَكادُمَ الْحُمُرِ فَعَلَيْكُمْ بِالْجِهَادِ، وَإِنَّ أَفْضَلَ جهادِكُمُ الرِّبَاطُ، وَإِنَّ أَفْضَلَ رباطِكُمْ عَسْقَلَان(الطبرانی الکبیر رق 11138)
اپ نےاس حدیث کے مطابق چوتھا دور ملک عضوض بنایا تھا جبکہ اپ کے النفیلی صاحب اپ کے چاروں ادوار ہی رحمت کر دیئے ہیں
نُبُوَّةٌ وَرَحْمَةٌ، ثُمَّ يَكُونُ خِلَافَةً وَرَحْمَةً، ثُمَّ يَكُونُ مُلْكًا وَرَحْمَةً، ثُمَّ يَكُونُ إِمَارَةً وَرَحْمَةً،
میں نے چوتھا دور ملک عضوض بنایا تھا کیونکہ ملک رحمہ اور امارۃ رحمہ کومیں نے رحمہ کی بنیاد پرایک ہی دور شمارکیا ہےاور اس پورے دور کو اجمالی طورپرملک رحمہ کانام دیا تھا۔
یہ جوکچھ ہے میری بیان کردہ ترتیب ہے ۔یہ کوئی نص حدیث نہیں ہے کہ اسے بنیاد بناکرآپ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث کوضعیف کہنے بیٹھ جائیں ۔
اگرلفظ پرستی کاثبوت دیتے ہوئے مان لین کہ امارہ رحمہ ۔ایک مستقل الگ دور ہے تو بھی کوئی مسئلہ نہیں کیونکہ ایسی صورت میں زیادہ سے زیادہ یہ بات کہی جائے گی کہ ملک عضوض کا دور پانچواں دورہے۔جو ثم یتکادمون کے الفاظ میں بیان ہے۔
آپ کچھ بھی مانیں لیکن یہ بات النفیلی کی غلطی کی دلیل کیسے ؟
بھائی میں نے کوئی ترتیب بتلائی ،اب آپ کو النفیلی کی روایت اس کے خلاف لگی تو کیا میری دی گئی ترتیب سے نفیلی کی روایت ضعیف ہوجائے گی؟ یہ بڑی عجیب بات ہے۔

رہی وہ روایت جسے آپ نے صحیح کہا ہے وہ بھی اس کے خلاف نہیں ہوگی کیونکہ اس میں (یکون کذاوکذ) میں ملک رحمہ اورامارہ رحمہ کا دور مراد ہوگا۔

اب اپ بتاؤ صحیح ترین روایت میں ملک عضوض کا لفظ ہے اس روایت میں کوئی ایک دور بھی عضوض نہیں سب ادوار رحمت ہی ہیں یہ دلیل ہے اس بات کی کے النفیلی نے یہاں تمام ادوار کو رحمت کر دیا ہے جو اس روایت میں اس کے تغیر کی دلیل ہے
ملک عضوض والی جس روایت کو آپ صحیح ترین کہہ رہے ہیں وہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کے خلاف نہیں ۔اس کی وضاحت باربارکی جاچکی ہے۔
اورابن عباس کی روایت میں بھی معنوی طور پر ملک عضوض کا دور ہے اس کابیان ثم یتکادمون سے شروع ہے۔لفظ پرستی کانعرہ لگانے سے کام نہیں بنے گا ۔

دوسری دلیل یہ ہے کہ
احمد بن النضر کی وفات 290 ھجری میں ہے اور النفیلی کی تاریخ وفات 237 ہجری ہے جن میں 53 سال کا فرق ہے اور اس سے بھی اس بات کا قوی امکان ہے کہ النفیلی نے یہ روایت تغیر کے زمانے میں کی ہے
النفیلی سے 53 سال بعد فوت ہونے سے یہ کیسے لازم آگیا کہ انہوں نے النفیلی سے ان کے آخری ایام میں سناہے؟
کیا آپ سے پہلے کسی محدث نے اس طرح آخری عمر میں سننے کااثبات کیا ہے؟

اور صاحب المختارہ نے جو اس کی روایت کو صحیح کہا ہے تو اگر اپ ان کی بات مانتے ہے اور دلیل کو نظر انداز کرتے ہین تو پھر اپ تو ناف کے نیچھے ہاتھ باندھتے ہو گے۔(اشارہ کافی ہے)
صاحب مختارہ کے خلاف آپ کے پاس کوئی دلیل نہیں ۔
اورآپ کااشارہ میں سمجھنے سے قاصر ہوں کچھ وضاحت کردیتے تو اس پربھی کچھ عرض کیاجاتا۔

اب اپ کو اس حوالے سے سب سے صحیح روایت پیش کردیتا ہوں کہ جس میں خود حذیفہ رضی اللہ عنہ نے ملک عضوض کہا ہے اور یہ مسند احمد والی روایت نہیں ہے

حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ، ثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ شِيرَوَيْهِ،. وَحَدَّثَنَا أَبُو عَمْرِو بْنُ حَمْدَانَ، ثَنَا الْحَسَنُ بْنُ سُفْيَانَ، قَالَا: ثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، ثَنَا بَكَّارُ بْنُ عَبْدِ اللهِ، حَدَّثَنِي خَلَّادُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ أَبَا الطُّفَيْلِ، حَدَّثَهُ أَنَّهُ سَمِعَ حُذَيْفَةَ، يَقُولُ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ، أَلَا تَسْأَلُونِي؟ فَإِنَّ النَّاسَ كَانُوا يَسْأَلُونَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْخَيْرِ، وَكُنْتُ أَسْأَلُهُ عَنِ الشَّرِّ، أَفَلَا تُسْأَلُونَ عَنْ مَيِّتِ الْأَحْيَاءِ؟ فَقَالَ: إِنَّ اللهَ تَعَالَى بَعَثَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَعَا النَّاسَ مِنَ الضَّلَالَةِ إِلَى الْهُدَى، وَمِنَ الْكُفْرِ إِلَى الْإِيمَانِ، فَاسْتَجَابَ لَهُ مَنِ اسْتَجَابَ، فَحَيَى بِالْحَقِّ مَنْ كَانَ مَيِّتًا، وَمَاتَ بِالْبَاطِلِ مَنْ كَانَ حَيًّا، ثُمَّ ذَهَبَتِ النُّبُوَّةُ فَكَانَتِ الْخِلَافَةُ عَلَى مَنَهَاجِ النُّبُوَّةِ، ثُمَّ يَكُونُ مُلْكًا عَضُوضًا، فَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُنْكِرُ بِقَلْبِهِ وَيَدِهِ وَلِسَانِهِ وَالْحَقَّ اسْتَكْمَلَ، وَمِنْهُمْ مَنْ يُنْكِرُ بِقَلْبِهِ وَلِسَانِهِ كَافًّا يَدَهُ وَشُعْبَةً مِنَ الْحَقِّ تَرَكَ، وَمِنْهُمْ مَنْ يُنْكِرُ بِقَلْبِهِ كَافًّا يَدَهُ وَلِسَانَهُ وَشُعْبَتَيْنِ مِنَ الْحَقِّ تَرَكَ، وَمِنْهُمْ مَنْ لَا يُنْكِرُ بِقَلْبِهِ وَلِسَانِهِ فَذَلِكَ مَيِّتُ الْأَحْيَاء (حلیۃ الاولیاء باب مھاجروں من اصحاب جلد 1 ص275)
یہ سب سے صحیح روایت ہے؟
کیا آپ نے اپنے علاوہ سب کو بے وقوف سمجھا رکھا ہے آپ نے ؟
جناب یہ ضعیف ترین روایت ہےکیونکہ اسے عبدالرزاق سے اسحاق بن ابراہیم الدبری نے نقل کیا ہے۔
اورمصنف عبدالرزاق سے باہر عبدالرزاق سے اسحاق بن ابراہیم کی روایت ضعیف روایت شمارہوتی ہے۔
اسی طرح ابونعیم کے استاذ پر اختلاط کی واضح جرح موجودہے۔آپ النفیلی کے اس تغیر کے پیچھے پڑے ہیں جو اختلاط کو مستلزم نہیں کیونکہ اس کی مقدار تک نہی معلوم ۔اورجس تغیر کے بعد انہوں نے روایت بیان کرنابند کردیا۔
اوریہاں ایسی سند کو سب سے صحیح کہتے ہوئے نہیں شرماتے ہیں جس میں ایک راوی پرصراحتااختلاط کی جرح ہے۔
اوردوسرا راوی ضعیف ہے۔اوراس کے اس طریق کے ضعیف ہونے پرائمہ نقد کااتفاق ہے۔

ان کا دور خلافت میں ہی ہے حدیث میں یہی ہے خلافت رحمہ ثم کذا و کذا
یعنی حسن رضی اللہ عنہ کے چھ ماہ ملا کر خلافت رحمہ پوری ہوئی ثم کذا و کذا سے مراد حسن رضی اللہ عنہ کا معاویہ رضی اللہ عنہ سے معاہدہ اور دستبرداری کذا و کذا میں ہے اور اس کی دلیل یہی ہے کہ حافظ ابن حجر لکھتے ہیں کہ"
أخبر به عن الحسن حيث قال: «إنّ ابني هذا سيّد وسيصلح اللَّه به بين فئتين عظيمتين من المسلمين» [ (1) ] .
وهكذا أصبحت الخلافة ملكا عضوضا على يد معاوية
تو یہ کذا و کذا وہ صلح ہے جو ہوئی ہے
جناب حذیفہ کی روایت میں یکون کذاوکذ ا کاذکر بطور ایک دور کے ہوا ہے روایت دیکھیں:
6581 - حدثنا محمد بن جعفر بن أعين، ثنا أبو بكر بن أبي شيبة، ثنا زيد بن الحباب، ثنا العلاء بن المنهال الغنوي، حدثني مهند القيسي، وكان ثقة، عن قيس بن مسلم، عن طارق بن شهاب، عن حذيفة بن اليمان قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إنكم في نبوة ورحمة، وستكون خلافة ورحمة، ثم يكون كذا وكذا، ثم يكون ملكا عضوضا، يشربون الخمور، ويلبسون الحرير، وفي ذلك ينصرون إلى أن تقوم الساعة»(المعجم الأوسط 6/ 345)

اس روایت میں یکون کذا وکذا کاتذکرہ کسی’’ واقعہ ‘‘کے طورپر نہیں بلکہ ایک ’’دور‘‘کے طور پر ہوا۔ حدیث کا پوراسیاق اس پر واضح دلیل ہے۔اس لئے اس سے مراد صلح حسن رضی اللہ عنہ نہیں بلکہ ایک دورہے اور ابن عباس رضی اللہ عنہ کی صحیح روایت میں پوری صراحت آگئی ہے یہ دور ملک رحمہ کا دور ہوگا۔
لہٰذا یہاں صلح حسن کاواقعہ قطعا مراد نہیں ہوسکتا ۔اوراگر ان کا دورحکومت مراد لیتے ہیں تو پھرحسن رضی اللہ عنہ بھی خلیفہ نہیں رہ جاتے نیزیہ دوسری حدیث کے خلاف بھی ہے۔
رہی ابن حجررحمہ اللہ کی عبارت تو ابن حجر رحمہ اللہ نے یکون کذاوکذا والی حدیث کی تشریح کرتے ہوئے یہ بات نہیں کہی ہے بلکہ مذکورہ بات کہتے وقت ان کی نظر میں صرف ملک عضوض والی روایت ہے ۔اس بنیاد پر وہ اپنی بات کہہ رہے ہیں نہ کہ یکون کذا وکذا والی حدیث کی تشریح کررہے ہیں۔

اوراگرابن حجررحمہ اللہ نے معاویہ رضی اللہ عنہ کی حکومت کو ملک عضوض کہا ہے توان سے بہت قبل شیخ الاسلام بن تیمیہ رحمہ اللہ نے معاویہ رضی اللہ عنہ کی حکومت کو ملک رحمہ کہا ہے۔اورملک رحمہ والی حدیث سے استدلال کیا ہے۔

شیخ الاسلام بن تیمیہ لکھتے ہیں:
وضعفت خلافة (النبوة) ضعفا أوجب أن تصير ملكا، فأقامها معاوية ملكا برحمة وحلم، كما في الحديث المأثور : " «تكون نبوة ورحمة، ثم تكون خلافة نبوة ورحمة، ثم يكون ملك ورحمة ، ثم يكون ملك» " (منهاج السنة النبوية 7/ 453)

ایک اورجگہ لکھتے ہیں:
واتفق العلماء على أن معاوية أفضل ملوك هذه الأمة فإن الأربعة قبله كانوا خلفاء نبوة وهو أول الملوك ؛ كان ملكه ملكا ورحمة كما جاء في الحديث : " { يكون الملك نبوة ورحمة ثم تكون خلافة ورحمة ثم يكون ملك ورحمة ثم ملك وجبرية ثم ملك عضوض } " وكان في ملكه من الرحمة والحلم ونفع المسلمين ما يعلم أنه كان خيرا من ملك غيره (مجموع الفتاوى 4/ 478)

اب میں صحیح مسلم سے ایک روایت پیش کر دیتا ہوں کے واقعی خلافت کے بعد ملک عضوض ہی تھی۔ کیونکہ بنی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ملک عضوضا ہے تو ہے۔پڑھ لیں

عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ رَبِّ الْكَعْبَةِ، قَالَ: دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ فَإِذَا عَبْدُ اللهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ جَالِسٌ فِي ظِلِّ الْكَعْبَةِ، وَالنَّاسُ مُجْتَمِعُونَ عَلَيْهِ، فَأَتَيْتُهُمْ فَجَلَسْتُ إِلَيْهِ، فَقَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، فَنَزَلْنَا مَنْزِلًا فَمِنَّا مَنْ يُصْلِحُ خِبَاءَهُ، وَمِنَّا مَنْ يَنْتَضِلُ، وَمِنَّا مَنْ هُوَ فِي جَشَرِهِ، إِذْ نَادَى مُنَادِي رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الصَّلَاةَ جَامِعَةً، فَاجْتَمَعْنَا إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " إِنَّهُ لَمْ يَكُنْ نَبِيٌّ قَبْلِي إِلَّا كَانَ حَقًّا عَلَيْهِ أَنْ يَدُلَّ أُمَّتَهُ عَلَى خَيْرِ مَا يَعْلَمُهُ لَهُمْ، وَيُنْذِرَهُمْ شَرَّ مَا يَعْلَمُهُ لَهُمْ، وَإِنَّ أُمَّتَكُمْ هَذِهِ جُعِلَ عَافِيَتُهَا فِي أَوَّلِهَا، وَسَيُصِيبُ آخِرَهَا بَلَاءٌ، وَأُمُورٌ تُنْكِرُونَهَا، وَتَجِيءُ فِتْنَةٌ فَيُرَقِّقُ بَعْضُهَا بَعْضًا، وَتَجِيءُ الْفِتْنَةُ فَيَقُولُ الْمُؤْمِنُ: هَذِهِ مُهْلِكَتِي، ثُمَّ تَنْكَشِفُ وَتَجِيءُ الْفِتْنَةُ، فَيَقُولُ الْمُؤْمِنُ: هَذِهِ هَذِهِ، فَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يُزَحْزَحَ عَنِ النَّارِ، وَيُدْخَلَ الْجَنَّةَ، فَلْتَأْتِهِ مَنِيَّتُهُ وَهُوَ يُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، وَلْيَأْتِ إِلَى النَّاسِ الَّذِي يُحِبُّ أَنْ يُؤْتَى إِلَيْهِ، وَمَنْ بَايَعَ إِمَامًا فَأَعْطَاهُ صَفْقَةَ يَدِهِ، وَثَمَرَةَ قَلْبِهِ، فَلْيُطِعْهُ إِنِ اسْتَطَاعَ، فَإِنْ جَاءَ آخَرُ يُنَازِعُهُ فَاضْرِبُوا عُنُقَ الْآخَرِ "، فَدَنَوْتُ مِنْهُ، فَقُلْتُ لَهُ: أَنْشُدُكَ اللهَ آنْتَ سَمِعْتَ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَأَهْوَى إِلَى أُذُنَيْهِ، وَقَلْبِهِ بِيَدَيْهِ، وَقَالَ: «سَمِعَتْهُ أُذُنَايَ، وَوَعَاهُ قَلْبِي» ، فَقُلْتُ لَهُ: هَذَا ابْنُ عَمِّكَ مُعَاوِيَةُ، يَأْمُرُنَا أَنْ نَأْكُلَ أَمْوَالَنَا بَيْنَنَا بِالْبَاطِلِ، وَنَقْتُلَ أَنْفُسَنَا، وَاللهُ يَقُولُ: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ إِنَّ اللهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا} [النساء: 29] قَالَ: فَسَكَتَ سَاعَةً، ثُمَّ قَالَ: «أَطِعْهُ فِي طَاعَةِ اللهِ، وَاعْصِهِ فِي مَعْصِيَةِ اللهِ»(صحیح مسلم رقم 1844 کتاب امارہ باب بَابُ الْأَمْرِ بالْوَفَاءِ بِبَيْعَةِ الْخُلَفَاءِ، الْأَوَّلِ فَالْأَوَّل)
اس کے یہ الفاظ پڑھ لیں جب عبدالرحمن نے عمرو بن العاص سے کہا کہ
فَقُلْتُ لَهُ: هَذَا ابْنُ عَمِّكَ مُعَاوِيَةُ، يَأْمُرُنَا أَنْ نَأْكُلَ أَمْوَالَنَا بَيْنَنَا بِالْبَاطِلِ، وَنَقْتُلَ أَنْفُسَنَا، وَاللهُ يَقُولُ: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ إِنَّ اللهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا} [النساء: 29] قَالَ: فَسَكَتَ سَاعَةً، ثُمَّ قَالَ: «أَطِعْهُ فِي طَاعَةِ اللهِ، وَاعْصِهِ فِي مَعْصِيَةِ اللهِ»
اپ کا چچا کا بیٹا معاویہ تو ہمیں باطل طریقہ سے مال کھانے اور قتل کرنے کا حکم دیتا ہے اس میں عمرو بن العاص نے یہ نہیں کہا کذبت تو جھوٹ بولتا وہ تو ملک رحمہ ہے بلکہ یہ جواب دیا
قَالَ: فَسَكَتَ سَاعَةً، ثُمَّ قَالَ: «أَطِعْهُ فِي طَاعَةِ اللهِ، وَاعْصِهِ فِي مَعْصِيَةِ اللهِ»
اللہ کے اطاعت کے تحت ان کی اطاعت کرو اور اللہ کی نافرمانی میں ان کی نافرمانی کرو۔
یہ ہے اس ملک عضوض کی ایک نمونہ
اس میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی حکومت کو ملک عضوض کہنے کی کوئی دلیل دور دور تک نہیں ہے۔
یہ وہ حدیث ہے جسے روافض ہمیشہ سے امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف پیش کرتے آئے اور ہیں اور اہل سنت نے ان کا بارہا جواب دیا ہے۔

لیکن امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی شان میں بدتمیزی کرتے ہوئے اس حدیث سے جو آپ نے استدلال کیا ہے شایدکوئی عقلمند رافضی بھی اس استدلال کی جرات نہ کرسکے ۔
آپ نے اس حدیث سے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور کوملک عضوض توثابت تو کردیا لیکن یہ بھول گئے امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ سے متعلق شخص مذکور کایہ تبصرہ علی رضی اللہ عنہ کے زمانے کا ہے۔امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ،علی رضی اللہ عنہ کے خلاف لڑنے کی بات کرتے تھے اسی کو شخص مذکور نے مذکورہ الفاظ سے تعبیر کیا ہے۔جیساکہ امام نووی رحمہ اللہ نے اس حدیث کی تشریح میں کہا:
المقصود بهذا الكلام أن هذا القائل لما سمع كلام عبد الله بن عمرو بن العاص وذكر الحديث في تحريم منازعة الخليفة الأول وأن الثاني يقتل فاعتقد هذا القائل هذا الوصف في معاوية لمنازعته عليا رضي الله عنه وكانت قد سبقت بيعة علي فرأى هذا أن نفقة معاوية على أجناده وأتباعه في حرب علي ومنازعته ومقاتلته إياه من أكل المال بالباطل ومن قتل النفس لأنه قتال بغير حق فلا يستحق أحد مالا في مقاتلته(شرح النووي على مسلم 12/ 234)

اب اگر امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کا قتال کی بات کرنا اس وقت ملک عضوض کا دور ہونے کی دلیل ہے تو پھر ماننا پڑے گاکہ علی رضی اللہ عنہ کا دور بھی ملک عضوض کا دور تھا۔بلکہ آپ کے اصول کے مطابق ملک عضوض کا دور علی رضی اللہ عنہ کے خلیفہ بننے کے بعد شروع ہوا۔

اب میں معذرت کے ساتھ پھروہی بات کہوں گا کہ آل سباء بنوامیہ پربھونکتے بھونکتے اہل بیت پربھی شروع ہوجاتے ہیں۔خداراآپ ان کے نقش قدم کی پیروی نہ کریں۔

دوسرا یہ ہے کہ
ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ جیسے صحابی حدیث رسول بتائیں گے تو ان کو اپنی جان کا خوف ہے کیوں ملک رحمہ میں خوف کیسا بھائی یہ بخاری اور مسلم کی احادیث ہیں ان کو بھی ضعیف کر دو۔ یہ ایک آدھا نمونہ ہے احادیث بھر پڑی ہے اس قسم کی واقعات سے کیونکہ یہ ملک عضوض تھی جو ایک تغیر شدہ راوی کی روایت سے رحمت نہیں بن جائے گی۔ اللہ سب کو ہدایت دے
ابوہرہ رضی اللہ عنہ نے یہ کہاں صراحت کی ہے کہ انہیں جان کا خوف امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے تھا؟
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
یہ بھی آپ کی عربی دانی کا نمونہ ہے۔
پتہ نہیں آپ سمجھ پائیں گے یانہیں ،پھربھی آپ کوسمجھانے کی تھوڑی سی کوشش کرتاہوں۔
آپ نے کہا:
’’ساری بحث امام سخاوی تدلیس تسویہ کے تحت فرما رہے ہیں‘‘
جناب تدلیس تسویہ کی یہاں بحث ہی نہیں ہےبلکہ امام سخاوی کے الفاظ آپ نے خود نقل کئے جو یہ ہیں:
فَقَدْ أَدْرَجَ الْخَطِيبُ ثُمَّ النَّوَوِيُّ فِي هَذَا الْقِسْمِ تَدْلِيسَ التَّسْوِيَةِ كَمَا سَيَأْتِي
خطیب اورنووی نے اس قسم میں تدلیس تسویہ کو داخل کیا ہے جیساکہ بات آگے آرہی ہے۔
جناب امام سخاوی کے الفاظ ’’کماسیاتی ‘‘پرغور کریں۔تدلیس تسویہ والی یہ بات آگے آرہی ہے یہاں بھی تدلیس تسویہ کی بات نہیں چل رہی ہے سمجھ جناب !



میں نے یہ کب کہا کہ دکتورمسفرصاحب کو عربی نہیں آتی ۔
آ پ تدلیس تسویہ کاالزام فطر پر لگارہے ہیں کیا دکتور مسفرنے بھی فطر پرتدلیس تسویہ کاالزام لگایاہے؟
ہاں انہوں نے فطرکو مدلس مان کر انہیں تیسرے طبقہ کا مدلس کہا ہے۔اس بات کی انہوں نے کوئی دلیل نہیں دی ہے۔جو باتیں ذکر کی ہیں وہ ثابت نہیں ۔اورجوثابت ہیں ان سے تدلیس ثابت نہیں ہوتی ۔




میں نے چوتھا دور ملک عضوض بنایا تھا کیونکہ ملک رحمہ اور امارۃ رحمہ کومیں نے رحمہ کی بنیاد پرایک ہی دور شمارکیا ہےاور اس پورے دور کو اجمالی طورپرملک رحمہ کانام دیا تھا۔
یہ جوکچھ ہے میری بیان کردہ ترتیب ہے ۔یہ کوئی نص حدیث نہیں ہے کہ اسے بنیاد بناکرآپ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث کوضعیف کہنے بیٹھ جائیں ۔
اگرلفظ پرستی کاثبوت دیتے ہوئے مان لین کہ امارہ رحمہ ۔ایک مستقل الگ دور ہے تو بھی کوئی مسئلہ نہیں کیونکہ ایسی صورت میں زیادہ سے زیادہ یہ بات کہی جائے گی کہ ملک عضوض کا دور پانچواں دورہے۔جو ثم یتکادمون کے الفاظ میں بیان ہے۔
آپ کچھ بھی مانیں لیکن یہ بات النفیلی کی غلطی کی دلیل کیسے ؟
بھائی میں نے کوئی ترتیب بتلائی ،اب آپ کو النفیلی کی روایت اس کے خلاف لگی تو کیا میری دی گئی ترتیب سے نفیلی کی روایت ضعیف ہوجائے گی؟ یہ بڑی عجیب بات ہے۔

رہی وہ روایت جسے آپ نے صحیح کہا ہے وہ بھی اس کے خلاف نہیں ہوگی کیونکہ اس میں (یکون کذاوکذ) میں ملک رحمہ اورامارہ رحمہ کا دور مراد ہوگا۔



ملک عضوض والی جس روایت کو آپ صحیح ترین کہہ رہے ہیں وہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کے خلاف نہیں ۔اس کی وضاحت باربارکی جاچکی ہے۔
اورابن عباس کی روایت میں بھی معنوی طور پر ملک عضوض کا دور ہے اس کابیان ثم یتکادمون سے شروع ہے۔لفظ پرستی کانعرہ لگانے سے کام نہیں بنے گا ۔


النفیلی سے 53 سال بعد فوت ہونے سے یہ کیسے لازم آگیا کہ انہوں نے النفیلی سے ان کے آخری ایام میں سناہے؟
کیا آپ سے پہلے کسی محدث نے اس طرح آخری عمر میں سننے کااثبات کیا ہے؟


صاحب مختارہ کے خلاف آپ کے پاس کوئی دلیل نہیں ۔
اورآپ کااشارہ میں سمجھنے سے قاصر ہوں کچھ وضاحت کردیتے تو اس پربھی کچھ عرض کیاجاتا۔



یہ سب سے صحیح روایت ہے؟
کیا آپ نے اپنے علاوہ سب کو بے وقوف سمجھا رکھا ہے آپ نے ؟
جناب یہ ضعیف ترین روایت ہےکیونکہ اسے عبدالرزاق سے اسحاق بن ابراہیم الدبری نے نقل کیا ہے۔
اورمصنف عبدالرزاق سے باہر عبدالرزاق سے اسحاق بن ابراہیم کی روایت ضعیف روایت شمارہوتی ہے۔
اسی طرح ابونعیم کے استاذ پر اختلاط کی واضح جرح موجودہے۔آپ النفیلی کے اس تغیر کے پیچھے پڑے ہیں جو اختلاط کو مستلزم نہیں کیونکہ اس کی مقدار تک نہی معلوم ۔اورجس تغیر کے بعد انہوں نے روایت بیان کرنابند کردیا۔
اوریہاں ایسی سند کو سب سے صحیح کہتے ہوئے نہیں شرماتے ہیں جس میں ایک راوی پرصراحتااختلاط کی جرح ہے۔
اوردوسرا راوی ضعیف ہے۔اوراس کے اس طریق کے ضعیف ہونے پرائمہ نقد کااتفاق ہے۔



جناب حذیفہ کی روایت میں یکون کذاوکذ ا کاذکر بطور ایک دور کے ہوا ہے روایت دیکھیں:
6581 - حدثنا محمد بن جعفر بن أعين، ثنا أبو بكر بن أبي شيبة، ثنا زيد بن الحباب، ثنا العلاء بن المنهال الغنوي، حدثني مهند القيسي، وكان ثقة، عن قيس بن مسلم، عن طارق بن شهاب، عن حذيفة بن اليمان قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إنكم في نبوة ورحمة، وستكون خلافة ورحمة، ثم يكون كذا وكذا، ثم يكون ملكا عضوضا، يشربون الخمور، ويلبسون الحرير، وفي ذلك ينصرون إلى أن تقوم الساعة»(المعجم الأوسط 6/ 345)

اس روایت میں یکون کذا وکذا کاتذکرہ کسی’’ واقعہ ‘‘کے طورپر نہیں بلکہ ایک ’’دور‘‘کے طور پر ہوا۔ حدیث کا پوراسیاق اس پر واضح دلیل ہے۔اس لئے اس سے مراد صلح حسن رضی اللہ عنہ نہیں بلکہ ایک دورہے اور ابن عباس رضی اللہ عنہ کی صحیح روایت میں پوری صراحت آگئی ہے یہ دور ملک رحمہ کا دور ہوگا۔
لہٰذا یہاں صلح حسن کاواقعہ قطعا مراد نہیں ہوسکتا ۔اوراگر ان کا دورحکومت مراد لیتے ہیں تو پھرحسن رضی اللہ عنہ بھی خلیفہ نہیں رہ جاتے نیزیہ دوسری حدیث کے خلاف بھی ہے۔
رہی ابن حجررحمہ اللہ کی عبارت تو ابن حجر رحمہ اللہ نے یکون کذاوکذا والی حدیث کی تشریح کرتے ہوئے یہ بات نہیں کہی ہے بلکہ مذکورہ بات کہتے وقت ان کی نظر میں صرف ملک عضوض والی روایت ہے ۔اس بنیاد پر وہ اپنی بات کہہ رہے ہیں نہ کہ یکون کذا وکذا والی حدیث کی تشریح کررہے ہیں۔

اوراگرابن حجررحمہ اللہ نے معاویہ رضی اللہ عنہ کی حکومت کو ملک عضوض کہا ہے توان سے بہت قبل شیخ الاسلام بن تیمیہ رحمہ اللہ نے معاویہ رضی اللہ عنہ کی حکومت کو ملک رحمہ کہا ہے۔اورملک رحمہ والی حدیث سے استدلال کیا ہے۔

شیخ الاسلام بن تیمیہ لکھتے ہیں:
وضعفت خلافة (النبوة) ضعفا أوجب أن تصير ملكا، فأقامها معاوية ملكا برحمة وحلم، كما في الحديث المأثور : " «تكون نبوة ورحمة، ثم تكون خلافة نبوة ورحمة، ثم يكون ملك ورحمة ، ثم يكون ملك» " (منهاج السنة النبوية 7/ 453)

ایک اورجگہ لکھتے ہیں:
واتفق العلماء على أن معاوية أفضل ملوك هذه الأمة فإن الأربعة قبله كانوا خلفاء نبوة وهو أول الملوك ؛ كان ملكه ملكا ورحمة كما جاء في الحديث : " { يكون الملك نبوة ورحمة ثم تكون خلافة ورحمة ثم يكون ملك ورحمة ثم ملك وجبرية ثم ملك عضوض } " وكان في ملكه من الرحمة والحلم ونفع المسلمين ما يعلم أنه كان خيرا من ملك غيره (مجموع الفتاوى 4/ 478)



اس میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی حکومت کو ملک عضوض کہنے کی کوئی دلیل دور دور تک نہیں ہے۔
یہ وہ حدیث ہے جسے روافض ہمیشہ سے امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف پیش کرتے آئے اور ہیں اور اہل سنت نے ان کا بارہا جواب دیا ہے۔

لیکن امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی شان میں بدتمیزی کرتے ہوئے اس حدیث سے جو آپ نے استدلال کیا ہے شایدکوئی عقلمند رافضی بھی اس استدلال کی جرات نہ کرسکے ۔
آپ نے اس حدیث سے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور کوملک عضوض توثابت تو کردیا لیکن یہ بھول گئے امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ سے متعلق شخص مذکور کایہ تبصرہ علی رضی اللہ عنہ کے زمانے کا ہے۔امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ،علی رضی اللہ عنہ کے خلاف لڑنے کی بات کرتے تھے اسی کو شخص مذکور نے مذکورہ الفاظ سے تعبیر کیا ہے۔جیساکہ امام نووی رحمہ اللہ نے اس حدیث کی تشریح میں کہا:
المقصود بهذا الكلام أن هذا القائل لما سمع كلام عبد الله بن عمرو بن العاص وذكر الحديث في تحريم منازعة الخليفة الأول وأن الثاني يقتل فاعتقد هذا القائل هذا الوصف في معاوية لمنازعته عليا رضي الله عنه وكانت قد سبقت بيعة علي فرأى هذا أن نفقة معاوية على أجناده وأتباعه في حرب علي ومنازعته ومقاتلته إياه من أكل المال بالباطل ومن قتل النفس لأنه قتال بغير حق فلا يستحق أحد مالا في مقاتلته(شرح النووي على مسلم 12/ 234)

اب اگر امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کا قتال کی بات کرنا اس وقت ملک عضوض کا دور ہونے کی دلیل ہے تو پھر ماننا پڑے گاکہ علی رضی اللہ عنہ کا دور بھی ملک عضوض کا دور تھا۔بلکہ آپ کے اصول کے مطابق ملک عضوض کا دور علی رضی اللہ عنہ کے خلیفہ بننے کے بعد شروع ہوا۔

اب میں معذرت کے ساتھ پھروہی بات کہوں گا کہ آل سباء بنوامیہ پربھونکتے بھونکتے اہل بیت پربھی شروع ہوجاتے ہیں۔خداراآپ ان کے نقش قدم کی پیروی نہ کریں۔



ابوہرہ رضی اللہ عنہ نے یہ کہاں صراحت کی ہے کہ انہیں جان کا خوف امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے تھا؟
جناب
خرد کو جنوں کردے جنوں کو خرد
جو چاہے اپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
بالکل ہی کورا سمجھا ہے کیا
اپ نے لکھا ہے کہ
جناب امام سخاوی کے الفاظ ’’کماسیاتی ‘‘پرغور کریں۔تدلیس تسویہ والی یہ بات آگے آرہی ہے یہاں بھی تدلیس تسویہ کی بات نہیں چل رہی ہے
جناب امام سخاوی یہاں ارسال اور التدلس کے فرق پر بحث فرما رہے ہیں اور یہ جو اپ نے عبارت نقل کی ہے "
خطیب اورنووی نے اس قسم میں تدلیس تسویہ کو داخل کیا ہے جیساکہ بات آگے آرہی ہے۔
کسی قسم کو تدلس تسویہ میں داخل کیا ہے وہ ارسال کرنا ہے کہ راوی کسی کا سماع کسی سے ثابت نہ ہو مگر پھر بھی اس سے روایت بیان کرے اس کو امام نووی نے اور خطیب نے تدلیس تسویہ میں لیا ہے امام سخاوی اور سے ارسال کی بحث کرتے آ رہے ہیں

اور صرف اوپر کی عبارت پڑھ کر بیٹھ گئے یہ بھی تو پڑھیں
وَوَصَفَ غَيْرُ وَاحِدٍ بِالتَّدْلِيسِ مَنْ رَوَى عَمَّنْ رَآهُ وَلَمْ يُجَالِسْهُ، بِالصِّيغَةِ الْمُوهِمَةِ، بَلْ وُصِفَ بِهِ مَنْ صَرَّحَ بِالْإِخْبَارِ فِي الْإِجَازَةِ كَأَبِي نُعَيْمٍ، أَوْ بِالتَّحْدِيثِ فِي الْوِجَادَةِ كَإِسْحَاقَ بْنِ رَاشِدٍ الْجَزَرِيِّ، وَكَذَا فِيمَا لَمْ يَسْمَعْهُ كَفِطْرِ بْنِ خَلِيفَةَ أَحَدِ مَنْ رَوَى لَهُ الْبُخَارِيُّ مَقْرُونًا.
امام سخاوی نے اس میں امثال پیش کی ہے اور اس میں سے ایک مثال میں فطر بن خلیفہ کا نام بھی لیا ہے کہ
وَكَذَا فِيمَا لَمْ يَسْمَعْهُ كَفِطْرِ بْنِ خَلِيفَةَ
اسی طرح فطر بھی جو نہیں سنتا مگر( اسحاق بن راشد کی طرح تحدیث کی صراحت کرتا ہے)
اس کے بعد انہوں نے اپ بات کو مزید مضبوط کرنے کے لیے ابن المدینی سے یحی بن القطان کا قول نقل کیا ہے
وَلِذَا قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ: قُلْتُ لِيَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْقَطَّانِ: يُعْتَمَدُ عَلَى قَوْلِ فِطْرٍ ثَنَا، وَيَكُونُ مَوْصُولًا؟ فَقَالَ: لَا، فَقُلْتُ: أَكَانَ ذَلِكَ مِنْهُ سَجِيَّةً؟ قَالَ: نَعَم
ابن المدینی نے ابن القطان سے پوچھاکہ فطر کے سماع تحدیث یعنی ثناء کے لفظ پر اعتماد کیا جائے انہوں نے منع کر دیا
اس کے بعد دوسرا قول نقل کیا ہے کہ
قَالَ ابْنُ عَمَّارٍ عَنِ الْقَطَّانِ: كَانَ فِطْرٌ صَاحِبَ ذِي سَمِعْتُ سَمِعْتُ، يَعْنِي أَنَّهُ يُدَلِّسُ فِيمَا عَدَاهَا
اور اخر میں اپنا فیصلہ دیا کہ فطر شدید قسم کی تدلیس کرتا ہے جیسا ہمارے شیخ نے بیان کیا ہے۔
وَلَكِنَّ صَنِيعَ فِطْرٍ فِيهِ غَبَاوَةٌ شَدِيدَةٌ يَسْتَلْزِمُ تَدْلِيسًا صَعْبًا، كَمَا قَالَ شَيْخُنَا
اور آگے پھر امام عبدالرزاق کی تدلیس پر بحث کرتے ہیں
اور اسی بنیاد پر مسفر الدمینی نے فطر کو 3 درجے کے مدلس میں نقل کیا ہے مگر اپ نے اب بھی نہیں ماننا ہے۔

خرد کو جنوں کردے جنوں کو خرد
جو چاہے اپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
اپ نے میری حلیۃ الاولیاء روایت پر تبصرہ کیا کہ اس میں ایک ضعیف راوی اسحاق بن ابراہیم الدبری ہے کچھ اللہ کا خوف کرو امام عبدالرزاق کے اسحاق بن ابراہیم کے نام سے چار شاگرد ہیں۔
(1) اسحاق بن ابراہیم بن راھویہ
(2) اسحاق بن ابراہیم بن عباد الدبری
(3)اسحاق بن ابراہیم بن نصر السعدی
(4) اسحاق بن ابراہیم الطبری
اور اسحاق بن ابراہیم بن راھویہ کے شاگرد میں الحسن بن سفیان کا نام موجود ہے جس نے اسحاق بن ابراہیم سے روایت کی ہے اسلئے اس روایت میں اسحاق بن ابراہیم الدبری نہیں بلکہ اسحاق بن ابراہیم بن راھویہ ہے جو ثقہ اور جن کے بارے میں حافظ ابن حجر لکھتے ہیں ثقہ حافظ مجتھد اور ذہبی فرماتے ہیں الامام تو یہ روایت بالکل صحیح ہے اور اپ نے جس دوسرے روای کے اختلاط کا ذکر کیا ہے اس کے بارے میں ذرا تفصیل سے نقل کریں کون سا راوی ہے اور کن آئمہ محدثین نے اس کے اختلاط پر کلام کیا اس کا پھر جواب دیا جائے گا۔
آپ نے لکھا کہ
ملک رحم اور امارہ رحمہ کو میں رحمہ کی وجہ سے ایک ہی دور مانتا ہوں
جو اپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
پہلے جب طبرانی کی صحیح روایت میں ثم کذا و کذا اس کے بعد ملک عضوض آیا تو جناب نے ملک رحمہ کے بعد ملک عضوض کر لیا مگر جب یہ معلوم ہوا کہ ملک رحمہ کے بعد امارت بھی رحمہ ہے تو اس کو ثم کی قید ہونے کے باوجود ایک ہی دور بنا دیا اپ بادشا ہ جو چاہیں کریں مگر عربی نحو وصرف کا ایک ادنی طالب علم بھی جانتا ہے کہ ثم عطف ہے جو ترتیب کو مقید کرتا ہے کہ اس کے بعد یہ ہونا ہے وہ کام ثم کی قید کی وجہ سے نہ پہلے ہو سکتا ہے اورنہ وہ ایک ہی ہو سکتا ہے چنانچہ قرآن مجید میں موجود ہے کہ
كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَكُنْتُمْ أَمْوَاتًا فَأَحْيَاكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُون(سورہ البقرہ 28)
تو یہ تیں الگ ادوار ہے جو ایک ساتھ نہیں ہو سکتے اورنہ ایک دوسرے سے قبل مگر اپ تو جو چاہیں کریں
تو اب اپ نے یتکادمون کو ملک عضوض بنایا ہے مگر جناب مگر جو صحیح ترین روایت ہے جس میں اگر اپ کی بات بحث کے لیے مان لی جائے تو کذا و کذا ملک رحمہ ہے اور جسا اپ نے کہا اگر الفاظ کو مان لیا جائے تو 4 دور امارہ رحمہ ہے مگر صحیح روایت میں 4 دور ملک عضوض ہے۔ اس لئے میں پھر یہی کہتا ہوں کہ النفیلی نے سب ادوار کو رحمہ بنادیا ہے اور اپنے حافظہ میں تغیر کی بنا پر غلطی کر گیا ہے کیونکہ یہ واحد روایت ہے جس میں ملک رحمہ کا لفظ ہے اس کے علاوہ تمام روایات میں ملک عضوض ہے چاہے صحیح ہو یہ اس میں معمولی علت ہو اور ایک اور صحیح روایت میں پیش ہی کر چکا ہوں
اپ نے کہا کہ
اس روایت میں یکون کذا وکذا کاتذکرہ کسی’’ واقعہ ‘‘کے طورپر نہیں بلکہ ایک ’’دور‘‘کے طور پر ہوا۔ حدیث کا پوراسیاق اس پر واضح دلیل ہے
یہ تو اپ کہہ رہے ہیں اگر یہ دور ہوتا تو ثقہ راویوں کی جماعت کو نقل کرتی مگر اس کو روایت ایسے نے جو منفرد روایت کرتا ہے ایک کو تغیر ہے اور تیسرا مدلس ہے اور پھر اس میں یہ تعین بھی نہیں ہے ابو شھاب اکبر ہے یا اصغریہ اپ بتا دینا
تو حدیث کا سیاق یہ بتا رہا ہے کہ کذا و کذا سے مراد کوئی حکومت کا ادوار نہین ہے یہ اس صلاح کا ذکر ہے جس کے بعد ملک عضوض آئی تھی اور جس کے جواب میں اپ نے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا قول نقل کیا ہے ان کا قول ایک ضعیف روایت کی بنیاد پر ہے جو قابل قبول نہیں ہو سکتا ہے جبکہ ابن کثیر ابن حجر اور ملا علی قاری ابن عبدالبر ابن حزم وغیرہ اس کو ملک عضوض ہی مانتے ہیں اور جمہور کی رائے قوی ہوتی ہے
اپ نے جو صحیح مسلم کی حدیث کی شرح کی ہے اس پر میں اپنی غلطی مانتا ہوں مگر ایک شرح میں بھی اپ کو پڑھاتا ہوں
ابن حجر بخاری کی اس حدیث کے تحت فرماتے کہ جس میں ابوھریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں اگر دوسری قسم کی حدیث بتاؤں تو میری شہ رگ کاٹی جائے
وَحَمَلَ الْعُلَمَاءُ الْوِعَاءَ الَّذِي لَمْ يَبُثَّهُ عَلَى الْأَحَادِيثِ الَّتِي فِيهَا تَبْيِينُ أَسَامِي أُمَرَاءِ السُّوءِ وَأَحْوَالِهِمْ وَزَمَنِهِمْ وَقَدْ كَانَ أَبُو هُرَيْرَةَ يَكُنِّي عَنْ بَعْضِهِ وَلَا يُصَرِّحُ بِهِ خَوْفًا عَلَى نَفْسِهِ مِنْهُمْ(فتح الباری تحت رقم 120)
ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ کو کس حکومت سے خوف تھا معاویہ رضی اللہ عنہ کی حکومت تھی اور یہ حکومت کیسے قائم ہوئی یہ بھی پڑھ لیں

حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ قَالَ: حَدَّثَنِي الْوَلِيدُ بْنُ كَثِيرٍ، عَنْ وَهْبِ بْنِ كَيْسَانَ قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ يَقُولُ: لَمَّا كَانَ عَامُ الْجَمَاعَةِ بَعَثَ مُعَاوِيَةُ إِلَى الْمَدِينَةِ بُسْرَ بْنَ أَرْطَاةَ لِيُبَايِعَ أَهْلَهَا عَلَى رَايَاتِهِمْ وَقَبَائِلِهِمْ، فَلَمَّا كَانَ يَوْمَ جَاءَتْهُ الْأَنْصَارُ جَاءَتْهُ بَنُو سُلَيْمٍ فَقَالَ: أَفِيهِمْ جَابِرٌ؟ قَالُوا: لَا، قَالَ: فَلْيُرْجَعُوا فَإِنِّي لَسْتُ مُبَايِعَهُمْ حَتَّى يَحْضُرَ جَابِرٌ، قَالَ: فَأَتَانِي فَقَالَ: نَاشَدْتُكَ اللَّهَ، إِلَّا مَا انْطَلَقْتَ مَعَنَا فَبَايَعْتَ فَحَقَنْتَ دَمَكَ وَدِمَاءَ قَوْمِكَ، فَإِنَّكَ إِنْ لَمْ تَفْعَلْ قُتِلَتْ مُقَاتِلَتُنَا وَسُبِيَتْ ذَرَارِيُّنَا، قَالَ: فَأَسْتَنْظِرُهُمْ إِلَى اللَّيْلِ، فَلَمَّا أَمْسَيْتُ دَخَلْتُ عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْتُهَا الْخَبَرَ فَقَالَتْ: «يَا ابْنَ أُمَّ، انْطَلِقْ، فَبَايِعْ وَاحْقِنْ دَمَكَ وَدِمَاءَ قَوْمِكَ، فَإِنِّي قَدْ أَمَرْتُ ابْنَ أَخِي يَذْهَبُ فَيُبَايِعُ»
(مصنف ابن ابی شیبہ رقم 30562)
اور چند باتیں زبانی عرض کر دوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بتانا مشکل تھا صحیح بخاری میں موجود ہے کہ مروان عید کا خطبہ نماز سے پہلے دے رہا تھا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے منع کیا اور کہا یہ سنت نہیں ہے اس پر اس نے کہا وہ دن گئے جو تو جانتا تھا اور مسلم میں ہے کہ اب سنت متروک ہو گئی نعوذ باللہ کیوں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اس ملک رحمہ میں جا کر اس مروان کی شکایت نہ کرتے جو کھلم کھلا سنت توڑتا تھا اسی طرح ابن زیاد جس نے صحابی رسول کو کہا کہ تو اصحاب محمد کی بھوسی ہے اور نماز لیٹ کرتا تھا صحابہ کرام کیوں معاویہ رضی اللہ عنہ سے ان کی شکایت نہیں کرتے تھے ایک نے شکایت کی تھی ان کو شہید کردیا گیا تھا حجر بن عدی رضی اللہ عنہ تو اپ سے یہ چند جواب چاہیں کہ اس ملک رحمہ میں سنت توڑی جاتی ہے جبر سے بعیت لی جاتی ہے نماز لیٹ کی جاتی ہے حدیث سنانا جرم ہے جو صحابہ سنائے تو مرنے کے وقت سنائے ( صحیح مسلم کتاب امارہ) علی رضی اللہ عنہ جیسے صحابی کو منبروں پر لعنت کی جاتی تھی ان سب باتوں کے باوجود کوئی کاروائی نہیں ہوتی مروان اور زیاد دونوں معاویہ رضی اللہ عنہ کے انتقال تک عھدوں پر فائز رہے ہیں اللہ سب کو ہدایت دے
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
جناب جس بات کا الزام اپ مجھ پر لگا رہے ہیں سب سے پہلے ان میں ابن حجر ، ملا علی قاری ، ابن کثیر وغیرہ کو شامل کرے کہ ان میں ایمان کی رمق نہیں ہے مجھ سے پہلے انہوں نے اس حکومت کو ملک عضوض کہا ہے دوبارہ پڑھ لیں
أخبر به عن الحسن حيث قال: «إنّ ابني هذا سيّد وسيصلح اللَّه به بين فئتين عظيمتين من المسلمين» [ (1) ] .
وهكذا أصبحت الخلافة ملكا عضوضا على يد معاوية الّذي ورثها لابنه اليزيد، وأجبر الناس على بيعته في حياته حتى لا ينازعه في ملكه منازع من بعده.
اور ملک عضوض کس کو کہتے ہیں یہ بھی خود ہی لکھا ہے

ولسنا نقول بأن الخبر الّذي قاله النّبي صلّى اللَّه عليه وسلم عن الملك العضوض حين يفيد انتقاصا من قدر الملوك فإنه غالبا ما يكون فيهم الحزم والكياسة إلى جانب الشّدة والعنف۔
تو اپ نے جو عضوض کے مفہوم بیان کیے ہیں وہ بالکل آلگ ہیں اور اس میں تو ابن حجر فرما رہے ہیں کہ عضوض سے مراد تشدد کی حکومت ہو گی تو کس کی مانیں جو عربی اور احادیث کا حافظ ہے یعنی ابن حجر رحمہ اللہ یا اپ کی مانی جائے
دوسری بات اپ نے لکھی ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے صرف ابن حاتم کے قول سے اگر روایت ضعیف ہونے لگی تو پھر بخاری کی بہت سی روایات ضعیف ہے جائے گی کیونکہ ابن ابی حاتم نے بخاری اور مسلم کے بہت سے رواہ کو لا یحتج بہ کہا ہے اس لیے صرف ایک قول سے حدیث ضعیف نہیں ہوتی ہے
دوسری بات جو اپ نے لکھی ہے کہ سفینہ رضی اللہ عنہ نے معاویہ رضی اللہ عنہ کی خود بیعت کی ہے اس لیے بھی یہ روایت ناقابل حجت ہے تو بھائی ملک عضوض میں بیعت بھی تغلب اور جبری لی جاتی ہے تو کیوں کوئی بیعت کرے گا
اس کی مثال بھی صحیح حدیث سے پیش کر دیتا ہوں۔
حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ قَالَ: حَدَّثَنِي الْوَلِيدُ بْنُ كَثِيرٍ، عَنْ وَهْبِ بْنِ كَيْسَانَ قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ يَقُولُ: لَمَّا كَانَ عَامُ الْجَمَاعَةِ بَعَثَ مُعَاوِيَةُ إِلَى الْمَدِينَةِ بُسْرَ بْنَ أَرْطَاةَ لِيُبَايِعَ أَهْلَهَا عَلَى رَايَاتِهِمْ وَقَبَائِلِهِمْ، فَلَمَّا كَانَ يَوْمَ جَاءَتْهُ الْأَنْصَارُ جَاءَتْهُ بَنُو سُلَيْمٍ فَقَالَ: أَفِيهِمْ جَابِرٌ؟ قَالُوا: لَا، قَالَ: فَلْيُرْجَعُوا فَإِنِّي لَسْتُ مُبَايِعَهُمْ حَتَّى يَحْضُرَ جَابِرٌ، قَالَ: فَأَتَانِي فَقَالَ: نَاشَدْتُكَ اللَّهَ، إِلَّا مَا انْطَلَقْتَ مَعَنَا فَبَايَعْتَ فَحَقَنْتَ دَمَكَ وَدِمَاءَ قَوْمِكَ، فَإِنَّكَ إِنْ لَمْ تَفْعَلْ قُتِلَتْ مُقَاتِلَتُنَا وَسُبِيَتْ ذَرَارِيُّنَا، قَالَ: فَأَسْتَنْظِرُهُمْ إِلَى اللَّيْلِ، فَلَمَّا أَمْسَيْتُ دَخَلْتُ عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْتُهَا الْخَبَرَ فَقَالَتْ: «يَا ابْنَ أُمَّ، انْطَلِقْ، فَبَايِعْ وَاحْقِنْ دَمَكَ وَدِمَاءَ قَوْمِكَ، فَإِنِّي قَدْ أَمَرْتُ ابْنَ أَخِي يَذْهَبُ فَيُبَايِعُ»(مصنف ابن ابی شیبہ رقم30562 کتاب امراء)
بسر بن ارطاہ نے پورے مدینہ کی بیعت زبردستی لی ہے اور اس کو معاویہ رضی اللہ عنہ نے ہی بیعت لینے بھیجا تھا جب سارے مدینہ نے بیعت کر لی تو پھر سفینہ رضی اللہ عنہ کیوں نہ کرتے ملک عضوض ہے ملک عضوضا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو نہ جھٹلاؤ۔
اپ نے مانا کہ"
یہ ٹھیک ہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کے دور میں کچھ خارجی و داخلی انتشار کے با عث ان کی خلافت "خلافت راشدہ " کے نہج سے ہٹ گئی تھی لیکن ان کی حکومت کا ظلم و ستم اور فسق و فجور سے دور دور کا بھی واسطہ نہیں تھا "
خلافت راشدہ کے نہج سے ہٹ گئی تھی اپ یہ کتنی ہٹی تھی یہ آپ خود دیکھ لو
چنانچہ صحیح مسلم میں موجود ہے کہ
وَحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ الْبَرَّاءِ، قَالَ: أَخَّرَ ابْنُ زِيَادٍ الصَّلَاةَ، فَجَاءَنِي عَبْدُ اللهِ بْنُ الصَّامِتِ، فَأَلْقَيْتُ لَهُ كُرْسِيًّا، فَجَلَسَ عَلَيْهِ، فَذَكَرْتُ لَهُ صَنِيعَ ابْنُ زِيَادٍ، فَعَضَّ عَلَى شَفَتِهِ، وَضَرَبَ فَخِذِي، وَقَالَ: إِنِّي سَأَلْتُ أَبَا ذَرٍّ كَمَا سَأَلْتَنِي، فَضَرَبَ فَخِذِي كَمَا ضَرَبْتُ فَخِذَكَ، وَقَالَ: إِنِّي سَأَلْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَمَا سَأَلْتَنِي، فَضَرَبَ فَخِذِي كَمَا ضَرَبْتُ فَخِذَكَ، وَقَالَ: «صَلِّ الصَّلَاةَ لِوَقْتِهَا، فَإِنْ أَدْرَكَتْكَ الصَّلَاةُ مَعَهُمْ فَصَلِّ، وَلَا تَقُلْ إِنِّي قَدْ صَلَّيْتُ فَلَا أُصَلِّي»(صحیح مسلم رقم 648 باب کراھیہ تاخیر الصلاۃ)
اس کی شرح میں امام نووی لکھتے ہیں کہ یہ کب ہوتا تھا وَقَدْ وَقَعَ هَذَا فِي زَمَنِ بَنِي أُمَيَّة"
میں اس سے معاویہ رضی اللہ عنہ کو نہیں شامل کر رہا مگر یہ بتا رہا ہوں کہ یزید تک بات یہاں تک آ گئی تھی کہ نماز ضائع کی جاتی تھی اور قرآن کہتا ہے کہ
فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلَاةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا(سورہ مریم آیت 58)
اور اس پر امام اوراعی وغیرہ فرماتے تھے
إِنَّمَا أَضَاعُوا الْمَوَاقِيتَ، وَلَوْ كَانَ تَرْكًا كَانَ كُفْرًا.
ضائع کرنا یہ ہے کو اس کو وقت سے نہ پڑھا جائے اگر ترک کرے گا یہ تو کفر ہو گا۔
اور حدیث ہے کہ نبی صلی اللہ وسلم نے فرمایا کہ ساٹھ سال بعد نمازیں ضائع ہو گی اور خواہشات کی پیروی ہو گی اور یہ ساٹھ سال والا دور کس کا تھا یہ اپ جانتے ہیں ان کا دفاع کرنا چھوڑو انہوں نے دین برباد کیا اور کچھ نہیں یہ ناصبی فکر اپنے ذہنوں سے نکالو اللہ سب کو ہدایت دے
حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کی خلافت کے متعلق ابن حجر نے کوئی وضاحت نہیں کی کہ ان کی یہ حکومت جس کو وہ "ملک عضوض" کہہ رہے ہیں ہیں اس کی نوعیت کیا تھی - ان کے دور میں لوگوں کے ساتھ کس قسم ظلم و ستم روا رکھا تھا ؟؟ -کون کون سی بدعتیں اس دور میں ظہور پذیر ہوئیں وغیرہ؟؟ -اس لئے ابن ہجر کے مطابق یہ ملک عضوض مراد تشدد کی حکومت ہو گی- کسی طور پر قابل قبول نہیں- نیز نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کا یہ فرمان ہی حضرت امیر معاویہ راضی الله عنہ کی پاک دامنی اور جنّتی ہونے کا واضح ثبوت ہے :

’ أَوَّلُ جَیْشٍ مِنْ أُمَّتِي یَغْزُونَ الْبَحْرَ قَدْ أَوجَبُوا‘‘ قالتْ: قلتُ یَا رسولَ اﷲ! أَنَا فیہِم؟ قَالَﷺ: ’’ أَنْتِ فِیہِمْ ‘‘ ثمّ قالﷺ: ’’ أَوَّلُ جَیْشٍ مِنْ أُمَّتِي یَغْزُونَ مَدِینَۃَ قَیْصَرَ مَغْفُورٌ لَہُمْ ‘‘، فَقلتُ: أَنا فیہِمْ یا رسولَ اﷲ!؟! قال: ’’ لا ‘‘ (صحیح البخاري: ۲۹۲۴)
’’میری اُمت میں سے سب سے پہلے جس نے بحری جنگ لڑی، اُس پر جنت واجب کر دی گئی ہے۔‘‘ اُم حرام کہتی ہیں کہ میں نے پوچھا کہ کیا میں بھی اس میں شامل ہوں گی؟ فرمایا: ’ہاں! تو ان میں ہوگی۔‘‘ پھر نبی کریمﷺ نے فرمایا: ’’میری اُمت کا وہ گروہ جو سب سے پہلے شہر قیصر میں لڑے گا اس کو بخش دیا گیا ہے۔‘‘ میں پوچھا کہ کیا میں اس گروہ میں بھی شامل ہوں گی؟ فرمایا: ’’نہیں۔‘‘

اور تمام آئمہ محدثین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ پہلی اسلامی بحری جنگ حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کی سکرادگی میں لڑی گئی تھی -

قَالَ : أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ بْنُ عَطَاءِ بْنِ الأَغَرِّ الْمَكِّيُّ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الأُمَوِيُّ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ : كَانَتْ إِدَاوَةٌ يَحْمِلُهَا أَبُو هُرَيْرَةَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَاشْتَكَى أَبُو هُرَيْرَةَ فَحَمَلَهَا مُعَاوِيَةُ ، فَبَيْنَمَا هُوَ يُوَضِّئُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَفَعَ رَأْسَهُ فَقَالَ : " يَا مُعَاوِيَةُ : إِنْ وُلِّيتَ مِنْ أُمُورِ الْمُؤْمِنِينَ شَيْئًا فَاتَّقِ اللَّهَ وَاعْدِلْ " . فَمَا زِلْتُ أَظُنُّ أَنِّي مُبْتَلًى حَتَّى وُلِّيتُ ، لِقَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ .
[الطبقات الكبرى لابن سعد (سنة الوفاة:230) » الطبقة الرابعة ممن أسلم عند فتح مكة وما بعد ذلك » مِنْ بَنِي عَبْدِ شَمْسِ بْنِ عَبْدِ مَنَافِ بْنِ ... رقم الحديث: 10780(8 : 486)]


وعن معاوية قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " يا معاوية إن وليت أمرا فاتق الله واعدل " . قال : فما زلت أظن أني مبتلى بعمل لقول النبي صلى الله عليه و سلم حتى ابتليت. [مشکوۃ شریف:جلد سوم:حدیث نمبر 846]

ترجمہ : ایک مرتبہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیمار ہوگئے تو ان کے پیچھے حضرت معاویہؓ نے (ان کی خدمت سنبھالی اور) برتن لیا اور نبی ﷺ کے پیچھے چلے گئے، ابھی وہ نبی ﷺ کو وضو کرا رہے تھے کہ نبی ﷺ نے ایک دو مرتبہ ان کی طرف سر اٹھا کر دیکھا اور فرمایا "اے معاویہ ! اگر تمہیں (مومنین) کے کسی کام (یا کسی جگہ ) متولی وحاکم بنایا جائے تو امور حکومت کی انجام دہی میں ) اللہ سے ڈرتے رہنا اور عدل وانصاف کے دامن کو ہاتھ سے نہ چھوڑنا ۔" حضرت معاویہؓ کہتے ہیں کہ میں برابر خیال کرتا رہا کہ آنحضرت ﷺ کے فرمانے کے بمو جب میں کسی کام (یعنی امارت وسرداری) میں مبتلا کیا جاؤں گا ۔ یہاں تک کہ میں مبتلا کیا گیا "[مسند احمد:16486]

المحدث: الهيثمي - المصدر: مجمع الزوائد -الصفحة أو الرقم: 9/358
خلاصة حكم المحدث: مرسل ‏ورجاله رجال الصحيح‏‏

المحدث: الألباني - المصدر: تخريج مشكاة المصابيح - الصفحة أو الرقم: 3642
خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح

اب آپ ان صحیح روایت کے متعلق کیا فرمائیں گے ؟؟ جن میں نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کی طرف سے حضرت معاویہؓ قدر و منزلت بیان کی گئی ہے -

حَدَّثَنَاهُ حَدَّثَنَاهُ الدُّورِيُّ قَالَ : ثَنَا نُوحُ بْنُ يَزِيدَ الْمُؤَدِّبُ قَالَ : ثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ : " مَا رَأَيْتُ أَحَدًا بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ أَسْوَدَ مِنْ مُعَاوِيَةَ ، ... ومعنى أسود قيل : أسخى وأعطى للمال ، وقيل : أحكم منه .[السنة لأبي بكر بن الخلال » ذِكْرُ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي ... رقم الحديث: 677]
ترجمہ : حضرت عبدالله بن عمر رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ نہیں دیکھا کسی ایک کو بھی لوگوں میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے بعد معاویہؓ سے زیادہ اسود یعنی سخی یا حکمران.

وَمَا لَكُمْ أَلَّا تُنفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ وَلِلَّـهِ مِيرَ‌اثُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ ۚ لَا يَسْتَوِي مِنكُم مَّنْ أَنفَقَ مِن قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ ۚ أُولَـٰئِكَ أَعْظَمُ دَرَ‌جَةً مِّنَ الَّذِينَ أَنفَقُوا مِن بَعْدُ وَقَاتَلُوا ۚ وَكُلًّا وَعَدَ اللَّـهُ الْحُسْنَىٰ ۚ وَاللَّـهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ‌ ١٠ ۔۔۔ سورة الحديد
تمہیں کیا ہو گیا ہے جو تم اللہ کی راه میں خرچ نہیں کرتے؟ دراصل آسمانوں اور زمینوں کی میراث کا مالک (تنہا) اللہ ہی ہے تم میں سے جن لوگوں نے فتح سے پہلے فی سبیل اللہ دیا ہے اور قتال کیا ہے وه (دوسروں کے) برابر نہیں، بلکہ ان سے بہت بڑے درجے کے ہیں جنہوں نے فتح کے بعد خیراتیں دیں اور جہاد کیے۔ ہاں بھلائی (جنت) کا وعده تو اللہ تعالیٰ کاان سب سے ہے جو کچھ تم کر رہے ہو اس سے اللہ خبردار ہے (10)

اللہ تعالیٰ نے سب صحابہ سے خواہ وہ فتح مکہ سے قبل ایمان لائے ہوں یا بعد میں حسنیٰ کا وعدہ فرمایا ہے، اور یہاں ’حسنیٰ‘ سے مراد جنت ہے، ثابت ہوا کہ تمام صحابہ کرام رضوان الله اجمعین جنّتی ہیں،

سفینہ رضی اللہ عنہ کی بیعت صرف معاویہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر ثابت ہے -سوال ہے کہ اگر وہ امیر معاویہ رضی الله عنہ کی امارات کو صحیح نہیں سمجھتے تھے تو ان کی زبردستی کی بیعت بھی نہیں کرنی چاہیے تھی- جب کہ معصیت میں اقتداء لازم نہیں ہے - جب کہ سفینہ رضی اللہ کی روایت کے مطابق یہ تھی بھی بدعتی امارت ؟؟-
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کی خلافت کے متعلق ابن حجر نے کوئی وضاحت نہیں کی کہ ان کی یہ حکومت جس کو وہ "ملک عضوض" کہہ رہے ہیں ہیں اس کی نوعیت کیا تھی - ان کے دور میں لوگوں کے ساتھ کس قسم ظلم و ستم روا رکھا تھا ؟؟ -کون کون سی بدعتیں اس دور میں ظہور پذیر ہوئیں وغیرہ؟؟ -اس لئے ابن ہجر کے مطابق یہ ملک عضوض مراد تشدد کی حکومت ہو گی- کسی طور پر قابل قبول نہیں- نیز نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کا یہ فرمان ہی حضرت امیر معاویہ راضی الله عنہ کی پاک دامنی اور جنّتی ہونے کا واضح ثبوت ہے :

’ أَوَّلُ جَیْشٍ مِنْ أُمَّتِي یَغْزُونَ الْبَحْرَ قَدْ أَوجَبُوا‘‘ قالتْ: قلتُ یَا رسولَ اﷲ! أَنَا فیہِم؟ قَالَﷺ: ’’ أَنْتِ فِیہِمْ ‘‘ ثمّ قالﷺ: ’’ أَوَّلُ جَیْشٍ مِنْ أُمَّتِي یَغْزُونَ مَدِینَۃَ قَیْصَرَ مَغْفُورٌ لَہُمْ ‘‘، فَقلتُ: أَنا فیہِمْ یا رسولَ اﷲ!؟! قال: ’’ لا ‘‘ (صحیح البخاري: ۲۹۲۴)
’’میری اُمت میں سے سب سے پہلے جس نے بحری جنگ لڑی، اُس پر جنت واجب کر دی گئی ہے۔‘‘ اُم حرام کہتی ہیں کہ میں نے پوچھا کہ کیا میں بھی اس میں شامل ہوں گی؟ فرمایا: ’ہاں! تو ان میں ہوگی۔‘‘ پھر نبی کریمﷺ نے فرمایا: ’’میری اُمت کا وہ گروہ جو سب سے پہلے شہر قیصر میں لڑے گا اس کو بخش دیا گیا ہے۔‘‘ میں پوچھا کہ کیا میں اس گروہ میں بھی شامل ہوں گی؟ فرمایا: ’’نہیں۔‘‘

اور تمام آئمہ محدثین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ پہلی اسلامی بحری جنگ حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کی سکرادگی میں لڑی گئی تھی -

قَالَ : أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ بْنُ عَطَاءِ بْنِ الأَغَرِّ الْمَكِّيُّ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الأُمَوِيُّ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ : كَانَتْ إِدَاوَةٌ يَحْمِلُهَا أَبُو هُرَيْرَةَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَاشْتَكَى أَبُو هُرَيْرَةَ فَحَمَلَهَا مُعَاوِيَةُ ، فَبَيْنَمَا هُوَ يُوَضِّئُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَفَعَ رَأْسَهُ فَقَالَ : " يَا مُعَاوِيَةُ : إِنْ وُلِّيتَ مِنْ أُمُورِ الْمُؤْمِنِينَ شَيْئًا فَاتَّقِ اللَّهَ وَاعْدِلْ " . فَمَا زِلْتُ أَظُنُّ أَنِّي مُبْتَلًى حَتَّى وُلِّيتُ ، لِقَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ .
[الطبقات الكبرى لابن سعد (سنة الوفاة:230) » الطبقة الرابعة ممن أسلم عند فتح مكة وما بعد ذلك » مِنْ بَنِي عَبْدِ شَمْسِ بْنِ عَبْدِ مَنَافِ بْنِ ... رقم الحديث: 10780(8 : 486)]


وعن معاوية قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " يا معاوية إن وليت أمرا فاتق الله واعدل " . قال : فما زلت أظن أني مبتلى بعمل لقول النبي صلى الله عليه و سلم حتى ابتليت. [مشکوۃ شریف:جلد سوم:حدیث نمبر 846]

ترجمہ : ایک مرتبہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیمار ہوگئے تو ان کے پیچھے حضرت معاویہؓ نے (ان کی خدمت سنبھالی اور) برتن لیا اور نبی ﷺ کے پیچھے چلے گئے، ابھی وہ نبی ﷺ کو وضو کرا رہے تھے کہ نبی ﷺ نے ایک دو مرتبہ ان کی طرف سر اٹھا کر دیکھا اور فرمایا "اے معاویہ ! اگر تمہیں (مومنین) کے کسی کام (یا کسی جگہ ) متولی وحاکم بنایا جائے تو امور حکومت کی انجام دہی میں ) اللہ سے ڈرتے رہنا اور عدل وانصاف کے دامن کو ہاتھ سے نہ چھوڑنا ۔" حضرت معاویہؓ کہتے ہیں کہ میں برابر خیال کرتا رہا کہ آنحضرت ﷺ کے فرمانے کے بمو جب میں کسی کام (یعنی امارت وسرداری) میں مبتلا کیا جاؤں گا ۔ یہاں تک کہ میں مبتلا کیا گیا "[مسند احمد:16486]

المحدث: الهيثمي - المصدر: مجمع الزوائد -الصفحة أو الرقم: 9/358
خلاصة حكم المحدث: مرسل ‏ورجاله رجال الصحيح‏‏

المحدث: الألباني - المصدر: تخريج مشكاة المصابيح - الصفحة أو الرقم: 3642
خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح

اب آپ ان صحیح روایت کے متعلق کیا فرمائیں گے ؟؟ جن میں نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کی طرف سے حضرت معاویہؓ قدر و منزلت بیان کی گئی ہے -

حَدَّثَنَاهُ حَدَّثَنَاهُ الدُّورِيُّ قَالَ : ثَنَا نُوحُ بْنُ يَزِيدَ الْمُؤَدِّبُ قَالَ : ثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ : " مَا رَأَيْتُ أَحَدًا بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ أَسْوَدَ مِنْ مُعَاوِيَةَ ، ... ومعنى أسود قيل : أسخى وأعطى للمال ، وقيل : أحكم منه .[السنة لأبي بكر بن الخلال » ذِكْرُ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي ... رقم الحديث: 677]
ترجمہ : حضرت عبدالله بن عمر رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ نہیں دیکھا کسی ایک کو بھی لوگوں میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے بعد معاویہؓ سے زیادہ اسود یعنی سخی یا حکمران.

وَمَا لَكُمْ أَلَّا تُنفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ وَلِلَّـهِ مِيرَ‌اثُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ ۚ لَا يَسْتَوِي مِنكُم مَّنْ أَنفَقَ مِن قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ ۚ أُولَـٰئِكَ أَعْظَمُ دَرَ‌جَةً مِّنَ الَّذِينَ أَنفَقُوا مِن بَعْدُ وَقَاتَلُوا ۚ وَكُلًّا وَعَدَ اللَّـهُ الْحُسْنَىٰ ۚ وَاللَّـهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ‌ ١٠ ۔۔۔ سورة الحديد
تمہیں کیا ہو گیا ہے جو تم اللہ کی راه میں خرچ نہیں کرتے؟ دراصل آسمانوں اور زمینوں کی میراث کا مالک (تنہا) اللہ ہی ہے تم میں سے جن لوگوں نے فتح سے پہلے فی سبیل اللہ دیا ہے اور قتال کیا ہے وه (دوسروں کے) برابر نہیں، بلکہ ان سے بہت بڑے درجے کے ہیں جنہوں نے فتح کے بعد خیراتیں دیں اور جہاد کیے۔ ہاں بھلائی (جنت) کا وعده تو اللہ تعالیٰ کاان سب سے ہے جو کچھ تم کر رہے ہو اس سے اللہ خبردار ہے (10)

اللہ تعالیٰ نے سب صحابہ سے خواہ وہ فتح مکہ سے قبل ایمان لائے ہوں یا بعد میں حسنیٰ کا وعدہ فرمایا ہے، اور یہاں ’حسنیٰ‘ سے مراد جنت ہے، ثابت ہوا کہ تمام صحابہ کرام رضوان الله اجمعین جنّتی ہیں،

سفینہ رضی اللہ عنہ کی بیعت صرف معاویہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر ثابت ہے -سوال ہے کہ اگر وہ امیر معاویہ رضی الله عنہ کی امارات کو صحیح نہیں سمجھتے تھے تو ان کی زبردستی کی بیعت بھی نہیں کرنی چاہیے تھی- جب کہ معصیت میں اقتداء لازم نہیں ہے - جب کہ سفینہ رضی اللہ کی روایت کے مطابق یہ تھی بھی بدعتی امارت ؟؟-
جناب،
ابن حجر نے لکھا ہے کہ ظلم کی حکومت ہو گی جس میں تشدد ہوگا اب یہ کہنا اس کی نوعیت کیسی تھی اس میں تھپڑ مارتے تھے قتل کرتے تھے یا صرف ڈراتے تھے یہ انتہائی احمقانہ بات ہے کہ کس نوعیت کا ظلم تھا میں کہتا ہے اگر صرف ڈرا کر حکومت کرتے تھے یہ جائز ہو گی نہیں ہو گی میں ڈر والی دلیل پیش کر دیتا ہوں۔
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ حَكِيمٍ الْأَوْدِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ مَيْسَرَةَ بْنِ حَبِيبٍ، عَنْ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ ابْنِ عَبَّاسٍ، بِعَرَفَاتٍ، فَقَالَ: «مَا لِي لَا أَسْمَعُ النَّاسَ يُلَبُّونَ؟» قُلْتُ: يَخَافُونَ مِنْ مُعَاوِيَةَ، فَخَرَجَ ابْنُ عَبَّاسٍ، مِنْ فُسْطَاطِهِ، فَقَالَ: «لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ فَإِنَّهُمْ قَدْ تَرَكُوا السُّنَّةَ مِنْ بُغْضِ عَلِيٍّ»
__________

[حكم الألباني] صحيح الإسناد
یہ پڑھو ابن عباس رضی اللہ عنہ نے پوچھا یہ لوگ تلبیہ کیوں نہیں پڑھتے ہیں اس پر سعید بن جبیر تابعین کے سردارون میں سے ہیں فرماتے ہیں " يَخَافُونَ مِنْ مُعَاوِيَةَ" معاویہ رضی اللہ عنہ کے خوف سے ایسا نہیں کر رہے ہیں
اور یہ تلبیہ پڑھنا کیا ہے سنت ہے جیس خود ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا فَإِنَّهُمْ قَدْ تَرَكُوا السُّنَّةَ مِنْ بُغْضِ عَلِيٍّ»
تو سنت پوری کرنے میں معاویہ رضی اللہ عنہ کا کیا خوف اور حج پر جمع غفیر ہوتا ہے وہ سب خاموش ہیں ایسا معاویہ رضی اللہ عنہ کے خوف سے کر رہے ہیں بھائی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایساہی نہیں فرمایا ملک عضوض ہوگا۔ اللہ سے ڈرو حدیث رسول کو نہ جھٹلاؤ ۔یہ تھا وہ ڈر جس کو ابن حجر نے فرمایا کہ تشدد کی حکومت ہو گی۔
اپ نے بخاری کی روایت سے معاویہ رضی اللہ عنہ کی جنتی ہونے کی بات کی ہے
کیا جنتی ہونا اس بات کی ضمانت ہے کہ ان سے خطائیں نہیں ہو گی
اللہ مسلمانوں کی خطاؤں کو معاف کرنے والا ہے
اللہ کے بندوں جنت اللہ کی ملک ہے وہ جس کو چاہے گا دے گا اور یہ تو اپ لوگوں کی جہالت ہے کہ بس اگر کسی کی غلطی یا اس کی خطا کے بارے میں بات کی تو اپ نے فورا یہ سمجھ لینا ہے کہ اب وہ جنت میں نہیں جائے گے یہ اپ کی اپنی افتراع ہے آئم کے اقوال پیش کروں گا کہ امام ذہبی جیسی شخصیت نے معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں کیا لکھا ہے فلحال قرآن سے بات پیش کرتا ہوں
آدم علیہ السلام اللہ کے جلیل القدر نبی ہے انہوں نے اپنے لیے خود دعا کی جس کا ذکر قرآن میں موجود ہے کیا نعوذ باللہ نعوذ باللہ آدم علیہ السلام کے جنت میں جانے کا کسی کو شک ہے اگر ہے تو پھر وہ مسلمان نہیں رہے گا قرآن نے خود اور حدیث میں بھی آدم علیہ السلام کی اس اجتھادی خطا کا ذکر موجود ہے۔
اپ نے ایک آیت پیش کی کے سب سے اللہ کا اچھا وعدہ ہے تو اپ بتاؤ کیا صحابہ کرام کی غزوہ احد میں اللہ نے تنبیہ نہیں کی سورہ جمعہ ہر جمعہ پڑھی جاتی ہے اس میں کیا لکھا ہے اس میں اللہ نے تنبیہ نہیں کی کیا اس سے اپ یہ اخذ کر لیں گے کہ نعوذ باللہ قرآن نے صحابہ کی شان میں گستاخی کر رہا ہے اور اپ کو بالکل واضح آیت پیش کرتا ہوں۔
سورہ التوبہ میں ارشاد ہے
وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (100)
وَمِمَّنْ حَوْلَكُمْ مِنَ الْأَعْرَابِ مُنَافِقُونَ وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مَرَدُوا عَلَى النِّفَاقِ لَا تَعْلَمُهُمْ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ سَنُعَذِّبُهُمْ مَرَّتَيْنِ ثُمَّ يُرَدُّونَ إِلَى عَذَابٍ عَظِيمٍ (101)
وَآخَرُونَ اعْتَرَفُوا بِذُنُوبِهِمْ خَلَطُوا عَمَلًا صَالِحًا وَآخَرَ سَيِّئًا عَسَى اللَّهُ أَنْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ (102)

یہ آیات سورہ التوبہ کی ہیں ان کو غور سے پڑھو اس میں صحابہ کرام کے تین درجے ہیں اور یہ میں نہیں کہہ رہا قران فرما رہا ہے اور تفاسیر میں بیان ہوا کہ وہ درجے کون سے ہیں پڑھ لو
وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ
(1) مہاجرین اور انصار میں سے سبقت لے جانے والے۔
(2)
اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ
اور جنہوں نے ان کی اتبع کی ان کے لئے جنت ہے جس کے نیچھے نہریں بہتی ہیں۔
یہ دو درجے ہیں جن کے لئے دنیا میں بتا دیے کہ اللہ ان سے راضی ہو گیا اس کے بعد اخری درجہ
(3) وَآخَرُونَ اعْتَرَفُوا بِذُنُوبِهِمْ خَلَطُوا عَمَلًا صَالِحًا وَآخَرَ سَيِّئًا عَسَى اللَّهُ أَنْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ (102)
اور ایسے بھی ہیں جن کے اعمال میں اچھائی بھی ہے اور خطا بھی ہیں اور اللہ معاف کرنے والا ہے۔
ان آیات کی تشریح دیکھ لینا اس آیت 102 کے تحت بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ہی ذکر ہے اب اس سے کیا یہ سمجھا جائے کہ چون کہ ان سے خطائیں ہوئی ہیں اب یہ نعوذ باللہ جنت میں نہ جائیں گے تو وہ اپنے ایمان کی خیر منا لے تو جناب جنتی ہونے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اس سے خطا کا پہلو بھی ختم ہو گیا اس لیے امام ذہبی نے معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ لکھا ہے پڑھ لو۔
مُعَاوِيَةُ: مِنْ خِيَارِ المُلُوْكِ الَّذِيْنَ غَلَبَ عَدْلُهُم عَلَى ظُلْمِهِم، وَمَا هُوَ بِبَرِيْءٍ مِنَ الهَنَاتِ - وَاللهُ يَعْفُو عَنْه(سیر اعلام النبلاء ترجمہ معاویہ بن ابی سفیان)
اور دوسری جگہ فرماتے ہیں۔
کان خلیقا للامارہ شریفا مھیبا شجاعا حلیما جوادا کثیر المحسن علی ھنات لہ فاللہ یسامحہ و یعفو عنہ۔(المقدمۃ الزھراء فی ایضاح الامامۃ الکبرٰی بحوالہ یزید پر اعتراضات کا جواب از کفایت اللہ سنابلی ص 819)
اس میں امام ذہبی نے معاویہ رضی اللہ عنہ ک خطاوں سے در گزر کی دعا کی ہے
تو کسی کی خطا کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ اس کو جنت سے محروم کردے گا۔
تو اج کے دور میں جو یہ سوچ پھیل رہی ہے کہ جس جس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا وہ معصوم عن الخطا ہے یہ سوچ 14 سال میں کسی کی نہیں ہے چنانچہ علامہ البانی اسی سوچ کے رد میں لکھتے ہیں۔
جوابنا على ذلك أنه ليس كل ما يقع من الكمل يكون لائقا بهم , إذ لا عصمة إلا
لله وحده .
و السني لا ينبغي له أن يغالي فيمن يحترمه حتى يرفعه إلى مصاف الأئمة الشيعة
المعصومين
جناب میرا مدعا جنت اورجہھم نہیں نہ میں اس پر بات کررہا میرا مدعا صرف خلافت ہے جو ملوکیت میں بدل گئی اور اس خلافت کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی محنت سے قائم کیا اور اس کو قائم رکھنے میں دو خلفاء راشدین کی شھادت ہوئی حسین رضی اللہ عنہ کی شھادت اس نظام کو بچانے کے لئے ہوئی علی رضی اللہ عنہ زندگی بھر اس کو بچانے کے لیے جنگ کرتے رہے اور اس کو برباد کرنے والے (مروان یزید ابن زیاد ) ان کا دفاع کیا جاتا ہے اور بنو امیہ کے ملوک کو خلیفہ ثابت کیا جاتا ہے جنت اللہ کی ہے وہ ان سب کو اس میں داخل کرے یہ اس کا اختیار مگر انہوں نے دین کی کوئی خدمت نہیں کی صرف دین برباد ہوا اور اج تک اس ملوکیت کے اثرات موجود ہیں کہ مسلمانوں نے وہ خلافت دوبارہ نہیں دیکھی جس میں خلیفہ کو ٹوک دیا جاتا تھا اسلام کی یہ آزادی چھن گئی میرا رونا اس پر ہے۔ اللہ سب کو ہدایت دے
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
عبد اللہ صاحب آپ کی جماعت کوئی ایک آدمی بھی عربی نہیں جانتا جس آپ صحیح ترجمہ کرواسکیں ،
یہاں ملا علی قاری کی عبارت کے پہلے جملے کے ترجمہ میں عجیب گل فشانی کی ہے :
أي الحقيقة الحقية (بعده ثلاثون سنة ثمّ تكون) أي تصير الخلافة الخ
اس کا ترجمہ آپ لکھتے ہیں :

باقی ترجمہ بھی عجیب ہے ، کہاں تک نمایاں کروں ؟
جناب،
اپ نے ترجمہ کی درستگی نہیں کی؟
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
میں اس تھریڈ کی تمام مراسلے تو نہ پڑھ سکا ،
لیکن یہ آخری پوسٹ پڑھ کر عبد اللہ صاحب کے دیئے گئے حوالہ جات کی حقیقت سامنے آگئی ،
اس پوسٹ میں ایک عبارت حافظ ابن حجر ؒ کے نام سے بیان کی گئی ،جو قطعا حافظ صاحب کی عبارت نہیں ، بلکہ ان پر جھوٹ گھڑا گیا ہے



یہ عبارت پہلی جلد کےصفحہ (64 ) سے لی گئی ہے ، اور کتاب کا اصل متن پہلی جلد کے صفحہ (153 ) سے شروع ہو رہا ہے ،
پہلی جلد کے صفحہ (153 ) تک اس کتاب الاصابہ پر تعلیق لکھنے والوں کے تقدمہ اور مقدمات ہیں ،یعنی یہ عبارت کتاب شائع کرنے والوں کی ہے ،
اس کتاب پر تعلیق و تحقیق کا کام کرنے والے درج ذیل ہیں :
تحقيق: عادل أحمد عبد الموجود۔۔ و۔۔على محمد معوض

اور تعلیق لکھنے والوں کی اس عربی عبارت کا ترجمہ بھی بالکل غلط کیا گیا ہے،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جزاک اللہ ،
اپ نے صحیح کہا ہے میں اپنی غلطی مانتا ہوں یہ واقعی ابن حجر کا قول نہیں ہے۔ مجھ سے اس کو دیکھنے میں غلطی ہوئی ہے۔ جزا ک اللہ
 
شمولیت
اکتوبر 24، 2016
پیغامات
216
ری ایکشن اسکور
22
پوائنٹ
35
بسم الله الرحمن الرحیم
سب طرح کی تعریفیں الله رب العالمین کے لئے ہیں !
اما بعد !
"بیعت وخلافتِ یزیدؒ "
صحیح روایات کے مقابلے میں تاریخ کے بے بنیاد اورغیرمحفوظ افسانوں کو ہی لوگوں نے سچ مان لیا اورتحقیق کی زحمت گوارہ نہیں کی، اورعلماء مذاہب نے بھی جھوٹی روایات کو پیش کرکے اپنی کم علمی کا ثبوت دیا اوراپنے ہی اسلاف کے خلاف زہرافشانی کرتے رہے ہیں ۔
یزیدؒ کے بارے میں انتہائی غلط تاثر قائم کر دیا گیا ہے اوران پر بے بنیاد اور قبیح الزام لگائے گئے ہیں ۔ جبکہ صحیح احادیث میں ان کو جنت کی بشارت دی گئی ہے ۔
صحیح روایات میں ان کا کردار بالکل بے داغ ہے بلکہ اُن کی فضیلت بیان کی گئی ہے ۔
ملاحظہ فرمائیں :
عبداللہ بن زبیرؓ نے اپنے خلیفہ ہونے کا اعلان کیا اہل مدینہ میں سے (بعض لوگوں نے) یزیدؒ کی بیعت توڑ دی (اورعبداللہ بن زبیرؓ کو خلیفہ بنانا چاہا)، جب ابن حنظلہ نے (یزیدؒ کے خلاف) بیعت لینی شروع کی ، وہ موت پر بیعت لے رہے تھے (اکابرِ امت یزیدؒ کی بیعت توڑنے کے خلاف تھے) عبداللہ بن زید ؓ نے (ابن حنظلہ کی بیعت کرنے سے صاف انکار کر دیا انہوں نے) فرمایا ،،میں رسول ﷺ کے بعد موت پر کسی سےبیعت نہ کروں گا ۔
(صحیح بخاری کتاب الجہاد بیعت فی الحرب عن عباد بن تمیمؓ وکتاب الفتن)
عبداللہ بن عمرؓ بھی اس بغاوت میں شامل نہیں تھے ،انہوں نے یزیدؒ کی بیعت نہیں توڑی بلکہ انہوں نے اس سازش کی سخت مخالفت کی ،انہوں نے اپنے تمام رشتہ داروں اور اولاد کو جمع کیا اور فرمایا میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے ۔، آپ ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن ہر بد عہد کے لیے ایک جھنڈا نصب کیا جائے گا ، ہم نے یزیدؒ کے ہاتھ پر اللہ اوررسول ﷺ کی سنت پر بیعت کی تھی اور اب اس سے قتال شروع کر دیا ہے ، اگر مجھے معلوم ہوا کہ تم میں سے کسی نے یزیدؒ کی بیعت توڑی تو میرے اور اس کے درمیان کوئی تعلق باقی نہیں رہے گا ۔
( صحیح بخاری کتاب الفتن باب اذا قال عند قوم شیئا ثم خرج )
محمد بن عبدالرحمٰن ابوالاسودؓ کہتے ہیں کہ مدینہ میں ایک لشکر تیار کیا گیا ( تاکہ یزیدؒ کے خلاف بغاوت کی جائے اوران کی فوج کا مقابلہ کیا جائے) میرا نام بھی اس میں لکھ لیا گیا (اگرچہ میری مرضی نہیں تھی) میں عکرمہؓ کے پاس گیا اور اُن سے اس بات کا تذکرہ کیا ۔ عکرمہؓ نے مجھے اس لشکر میں شامل ہونے سے سختی کے ساتھ ممانعت کی اور فرمایا کہ مجھے ابنِ عباسؓ نے خبردی کہ بعض مسلم (مجبوراً) کافروں کے ساتھ صحابہؓ کے خلاف میدانِ جنگ میں آگئے تھے اور (اگرچہ وہ لڑنے نہیں آئے تھے لیکن)مشرکین کی تعداد میں اضافہ کا موجب بنے ہوئے تھے ۔ (وہ مسلم اگرچہ لڑے نہیں لیکن پھر بھی ان میں سے) بہت سے تیروں کی ضرب سے قتل ہوتے رہے (جو تیر کافروں پر مارے جاتے تھے وہ ان پر بھی لگ جایا کرتے تھے) اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے متعلق یہ آ یت نازل فرمائی :
ترجمہ !!! بے شک جن لوگوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا (اور کفار کی فوج میں شامل رہے) جب فرشتوں نے ان کی جان نکالی تو اُن سے پوچھا کہ تم کس حال میں تھے ( کیوں کفار کے ساتھ رہے) انہوں نے جواب دیا ہم ملک میں بے بس و مجبور تھے (مجبوراً ہمیں کفار ساتھ دینا پڑا) فرشتوں نے کہا کیا اللہ کی زمین فراخ نہیں تھی کہ اس میں ہجرت کر کے چلے جاتے ۔ ایسے لوگوں کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور وہ بہت بُری جگہ ہے ۔
(سورۃ النسآء: 97) ۔(صحیح بخاری کتاب التفسیر سورۃ النسآء )
تبصرہ : یعنی عبداللہ بن زبیرؓ کےمقابلے میں بھی اس وقت عبداللہ بن عمرؓ ،و عبداللہ بن زید ؓ،و انسؓ اور دوسرے صحابہؓو تا بعیین نے نہ تو بیعت توڑی اور نہ اس بغاوت کو اچھا سمجھا بلکہ انہوں نے باقیوں کو بھی منع کردیا کہ نہ تو یزیدؒ کی بیعت توڑیں اور نہ ہی اس سازش میں شریک ہوں ۔ جس سے یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ یزیدؒ ایک اچھے انسان تھے اور خلافت کا اہل بھی تھے اگر ایسا نہ ہوتا تو پھر اس وقت موجود اصحابؓ رسولﷺ ان کو کبھی بھی برداشت نہ کرتے ۔ عبداللہ بن عمرؓ کا یہ کہنا کہ ،،ہم نے یزیدؒ کے ہاتھ پر اللہ اوررسول ﷺ کی سنت پر بیعت کی تھی ،، اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ یزیدؒ امارت کے اہل تھے کیونکہ سنت کے مطابق جن امور پر بیعت کی جاتی ہے وہ یہ ہیں ۔ : 1 ؛ شرک نہ کرنا ۔ 2 ؛ چوری نہ کرنا ۔ 3 ؛ زنا نہ کرنا ۔ 4 ؛ اولاد کو قتل نہ کرنا ۔ 5 ؛ کسی پر بہتان نہ لگانا ۔ 6 ؛ معروف باتوں میں نافرمانی نہ کرنا ۔ (صحیح بخاری کتاب الایمان ) 7؛ کسی کو ناحق قتل نہ کرنا ۔ (طبرانی اوسط ۱؍۵۰۴ ۔سندہ صحیح) 8 ؛ نوحہ و ماتم نہ کرنا ۔ (صحیح مسلم کتاب الجنائز و روٰی نحوہ البخاری فی کتاب الاحکام ) یہ ہے وہ سنت کے مطابق بیعت جس کا ذکر عبداللہ بن عمرؓ نے کیا اس سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ اس وقت موجود تمام صحابہؓ نے بیعت کی تو وہ یزید ؒ کو امارت کا اہل و حق دار سمجھتے تھے اسی لیئے انہوں نے یزید ؒ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی ۔
وہ جانتے تھے کہ یزیدؒ امارت کے اہل ہیں ان کی بیعت کو توڑ کر ہم حدیث کی لپیٹ میں آجائیں گے یعنی ،،،
قیامت کے دن ہر بد عہد کے لیے ایک جھنڈا نصب کیا جائے گا ، ہم نے یزیدؒ کے ہاتھ پر اللہ اوررسول ﷺ کی سنت پر بیعت کی تھی اور اب اس سے قتال شروع کر دیا ،،، اگر یزیدؒ کے ایمان، اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور رسول اللہ ﷺ کی اطاعت میں اور ان کے کردار میں خامی ہوتی تو پھر بیعت توڑنے کا جواز ہوتا مگر ایسا نہیں تھا اسی لیئے صحابہؓ نے یزیدؒ کی بیعت نہیں توڑی جس کا واضح مطلب ہے کہ وہ حق پر قائم تھے ۔
تب ہی تو عبداللہ بن عمرؓ نے اپنے تمام رشتہ داروں اور اولاد کو جمع کیا اور ان کو بیعت یزیدؒ توڑنے سے سختی سے منع کیا ۔
الله تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حق بات کو پڑھنے ، سمجھنے ، اسے دل سے قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے !
آمین یا رب العالمین
والحمد للہ رب العالمین
 
شمولیت
اکتوبر 24، 2016
پیغامات
216
ری ایکشن اسکور
22
پوائنٹ
35
بسم الله الرحمن الرحیم
سب طرح کی تعریفیں الله رب العالمین کے لئے ہیں !
اما بعد !
"یزیدؒ بن معاویہ کے لیے جنت کی بشارت "
ام حرام بنت ملحانؓ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریمﷺ سے سنا ہے ۔پھر رسول ﷺ کچھ دیر بعد نیند سے مسکراتے ہوئے بیدار ہوئے ۔( صحیح بخاری کتاب الجہاد باب الدعاء بالجہاد عن انسؓ ) ۔۔۔۔۔ رسول ﷺ نے فرمایا کہ میری اُمت کاسب سے پہلا لشکر جو سمندر میں سفر کر کے جہاد کے لیئے جائے گا، ان کے لیے (جنت) واجب ہو گئی ۔ ام حرامؓ بیان کیا کہ میں نے کہا تھا اے اللہ کے رسولﷺ کیا میں بھی ان میں شامل ہوں گی؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہاں تم بھی ان کے ساتھ ہو گی ، پھر رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ میری اُمت کا سب سے پہلا لشکر ہے جوقیصر ( رومیوں کے بادشاہ ) کے شہر ( قسطنطنیہ ) پر یلغار کرے گا ۔ ان سب کی مغفرت ہو گئی ۔ میں نے کہا اے اللہ کے رسولﷺ میں بھی ان کے ساتھ ہوں گی ، آپ ﷺ نے فرمایا کہ نہیں ۔
( صحیح بخاری کتاب الجہاد باب ماقیل فی قتال الروم عن امِ حرامؓ ،و، باب الدعاء بالجہادعن انسؓ،و،باب من یصرع فی سبیل اللہ،و،باب رکوب البحر،و،کتاب التعبیرباب رؤیا النہار،وکتاب الاستئذان۔ وصحیح مسلم کتاب الامارۃ باب فضل الغزو فی البحرعن انسؓ)
محمودؓ بن ربیع بیان کرتے ہیں ۔۔ رسول اللہ ﷺ کے مشہور صحابی ابو ایوب انصاریؓ بھی موجود تھے ۔
یہ روم کے اس جہاد کا ذکر ہے جس میں ابوایوب انصاریؓ کی وفات ہوئی تھی ۔ فوج کے سپاہ سالار یزیدؒ بن معاویہؓ تھے ۔
(صحیح بخاری کتاب التہجد باب صلوٰۃ النوافل جماعۃ )
اس جہاد میں ابوایوب انصاریؓ شامل ہیں ۔ کیا ایک جلیل القدر صحابی یہ گوارہ کر سکتے ہیں کہ ان کا امیر کوئی خراب ، فاسق ،فاجر شخص ہو؟؟؟
تبصرہ : یہ بات تو سب ہی جانتے ہیں کہ ا نبیآء کے خواب اللہ ﷻ کی طرف سے سچے اور حق پر مبنی ہوتے ہیں ۔ یعنی رسول اللہ ﷺ کا خواب اللہ ﷻ کی طرف سے ان کو دیکھایا گیا تاکہ لوگوں کو بتا ئیں اور ان کورغبت دلائیں۔ انبیآء کے خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی کی ایک قسم ہے ۔ جن لوگوں نے یزیدؒ بن معاویہؓ پر طرح طرح کے الزام لگائے ہیں ۔
اب یہاں ہم ان لوگوں سے یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا اللہ ﷻ کو اس بات کی خبر نہیں تھی کہ بعد میں یزیدؒ گمراہ ہو جا ئے گا ؟؟؟
کیا اللہ ﷻ کسی ایسے شخص کے بارے میں بشارت دے سکتا ہے جو بعد میں گمراہ ہو جائے ؟؟؟
جبکہ وہ قادرِ مطلق ہے اور علم غیب اس کی صفات میں سے ہے ۔ ملاحظہ فرمائیں :
جب اللہ تعالیٰ نے آدم کی پیٹھ پرمسح کیا تو قیامت تک پیدا ہونے والی ہر روح نکل پڑی ۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کی آنکھوں کے درمیان ایک نُور پیدا کیا، پھر ان کو آدمؑ کے سامنے پیش کیا ۔ انہوں نے عرض کیا کہ اے میرے ربّ ، یہ کون لوگ ہیں ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ! یہ تمہاری اولاد ہے ۔ آدمؑ کو ان میں سے ایک شخص کی آنکھوں کے درمیان جو نور تھا بہت پسند آیا ۔ انہوں نے کہا ، اے میرے ربّ ! یہ کون ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ! یہ تمہاری اولاد کی آخری جماعتوں میں سے ایک شخص ہے جس کانام داؤدؑ ہے ۔
انہوں نے پوچھا اے میرے ربّ ! تو نے اس کی عمر کتنی رکھی ہے ؟
اللہ ﷻ نے فرمایا ! ساٹھ سال ۔ آدمؑ نے عرض کیا ! اے میرے ربّ ! میری عمر سے اس کی عمر میں چالیس سال بڑھا دے ۔
( رواہ الترمذی و صححہ فی تفسیر سورۃ الاعراف عن ابوہریرہؓ )
تبصرہ : اللہ تعالیٰ کو ہر بات پہلے سے معلوم ہوتی ہے کیونکہ وہ خالق ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے جس طرح آدمؑ کی پیٹھ سے قیامت تک پیدا ہونے والے تمام انسانو ں کی روحیں نکال کر آدم ؑ کے سامنے پیش کر دیں اور ان کو داؤدؑ کے بارے میں بتا دیا ۔اللہ ربّ العالمین قیامت تک پیدا ہونے والے انسانوں کے بارے میں خوب جانتا ہے کہ اس نے اپنی زندگی میں کیا کرنا ہے اللہ تعالیٰ کا علم ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے اگر بشارت دی کہ قسطنطنیہ پر جہاد کرنے والےسب جنتی ہیں تو پھر یزیدؒ کیسے جہنمی ہو سکتے ہیں ؟؟؟
اگر کوئی شخص اس بشارت کے ہوتے ہوئے یزیدؒ پر الزام تراشی کرتا ہے اور ان کو برا بھلا کہتا ہے تو وہ اپنے ایمان کی خیر منائے ۔ دوسرے لفظوں میں یہ اللہ تعالیٰ اور رسول ﷺ کو جھٹلانا ہو گا ۔

الله تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حق بات کو پڑھنے ، سمجھنے ، اسے دل سے قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے !
آمین یا رب العالمین
والحمد للہ رب العالمین
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top