• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امیر یزید اور (حديث الخلافة ثلاثون عاما)

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
شمولیت
نومبر 27، 2014
پیغامات
221
ری ایکشن اسکور
63
پوائنٹ
49
اگر اپ کی بات برائے بحث مان لی جائے کہ یہ روایت صحیح ہے تو اس میں سے ان سب کا لاڈلہ یزید بھی نکل جائے گا اور اس کی حکومت ظالم ہو جائے گی اور یہ ان میں سے کوئی بھی برداشت نہیں کر سکتا ہے کہ یزید ظالم ہو جائے۔
میری نظر سے یہ روایت گزری تو بیان کر دی ۔۔میں اس بحث میں بالکل شریک بھی نہیں ہونا چاہتا۔۔۔
مجھے صرف حضرت معاویہؓ کے اوپر تنقید سے تکلیف پہنچتی ہے ۔۔۔اس لئے یہ بات کی ۔۔۔
اور میرا کہنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ ۔۔۔کسی مجمل کے پیچھے نہ جائیں ۔۔۔
اور آپ نے حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کا بھی ذکر نہیں کیا۔۔۔۔جو اس حدیث کے ذکر کے بغیر بھی ۔۔۔بالاجماع عضوض میں شامل نہیں۔۔۔
اور میں نے جو حدیث پیش کی ۔۔جس کو آپ کسی دوسری حدیث سے ٹکرا رہے ہیں ۔۔۔جب جمع ممکن ہے تو ٹکراؤ کیوں۔۔۔میں خود بھی اس میں یزید کو شامل نہیں سمجھتا ۔۔۔اس کے دوسرے دلائل ہیں۔۔۔لیکن اس پر بھی بحث کو ناپسند ہی کرتا ہوں۔۔۔سکوت بہتر ہے ۔
اور میں اس بحث میں نہیں پڑتا ۔۔۔(ماہ رمضان میں تو بالکل نہیں )
بس آپ سے درخواست ہے کہ ۔۔۔۔حضرت معاویہؓ کے ذکر سے پرہیز کریں ۔۔۔۔۔۔جیسا کہ حضرت عمربن عبد العزیزؒ کے ذکر سے کر رہے ہیں۔۔۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
ابهی تو انهوں نے شروع بهی نہیں کیا ۔ آپ دیکہیں گے یہ کہاں کا قصد رکهتے ہیں ۔ متخصصین انکی احادیث اور اہل سنت کی روایات پر خاص نظر رکهیں ۔ نیز ادارہ سے گذارش ہیکہ ان سارے تهریڈ پر نظر رکہے ۔
متخصصین جو انکی ہر نبض سے واقف ہوں اس میں ضرور حصہ لیں ۔
والسلام
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
میری نظر سے یہ روایت گزری تو بیان کر دی ۔۔میں اس بحث میں بالکل شریک بھی نہیں ہونا چاہتا۔۔۔
مجھے صرف حضرت معاویہؓ کے اوپر تنقید سے تکلیف پہنچتی ہے ۔۔۔اس لئے یہ بات کی ۔۔۔
اور میرا کہنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ ۔۔۔کسی مجمل کے پیچھے نہ جائیں ۔۔۔
اور آپ نے حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کا بھی ذکر نہیں کیا۔۔۔۔جو اس حدیث کے ذکر کے بغیر بھی ۔۔۔بالاجماع عضوض میں شامل نہیں۔۔۔
اور میں نے جو حدیث پیش کی ۔۔جس کو آپ کسی دوسری حدیث سے ٹکرا رہے ہیں ۔۔۔جب جمع ممکن ہے تو ٹکراؤ کیوں۔۔۔میں خود بھی اس میں یزید کو شامل نہیں سمجھتا ۔۔۔اس کے دوسرے دلائل ہیں۔۔۔لیکن اس پر بھی بحث کو ناپسند ہی کرتا ہوں۔۔۔سکوت بہتر ہے ۔
اور میں اس بحث میں نہیں پڑتا ۔۔۔(ماہ رمضان میں تو بالکل نہیں )
بس آپ سے درخواست ہے کہ ۔۔۔۔حضرت معاویہؓ کے ذکر سے پرہیز کریں ۔۔۔۔۔۔جیسا کہ حضرت عمربن عبد العزیزؒ کے ذکر سے کر رہے ہیں۔۔۔
رمضان میں تو اجر کئی گنا زیادہ ملنا ہے تو اجر لینے میں ضرور شامل رہیں ۔ نظر بهی رکہیں ۔ جزاک اللہ خیرا بهائی
 

غازی

رکن
شمولیت
فروری 24، 2013
پیغامات
117
ری ایکشن اسکور
183
پوائنٹ
90
فرمان نبوی موجود ہے کہ 30 سال بعد ملک عضوض ہے

میری تلاش کی حد تک ذخیرہ احادیث میں ایسی ایک بھی حدیث نہیں ملی جس میں یہ فرمان رسول موجود ہو کہ’’30 سال بعد ملک عضوض ہے‘‘!
آپ مہربانی فرماکر وہ حدیث نقل کریں جس میں یہ فرمان رسول موجود ہے۔
 

غازی

رکن
شمولیت
فروری 24، 2013
پیغامات
117
ری ایکشن اسکور
183
پوائنٹ
90
آپ نے ایک اورجگہ لکھا ہے :
اور جہاں تک یزید کے ظالم ہونے کی بات ہے تو اس پر فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہے 30 سال خلافت پھر ملک عضوض ہے
جگہ جگہ فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے آپ اسے پیش کررہے ہیں ۔
اب آپ کو بتانا پڑے گا کہ یہ واقعی فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے ؟یا آپ ہی کافرمان ذی شان ہے؟
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
سب سے پہلے یہ بتلائیں کہ فطر کو مدلس کس امام نے کہاہے؟
اس کے بعد یہ بتلائیں کہ اسے تیسرے طبقہ کامدلس کس امام نے کہا ہے؟
عصرحاضر کے علماء کاحوالہ دینے کی زحمت نہ کریں !



ابن شہاب یہ طباعت کی غلطی ہے اصل مخطوطہ میں ابوشہاب ہے اوریہ بخاری ومسلم کے راوی ہیں اورثقہ ہیں۔
دوسری بات یہ کہ کیا کتب تراجم کے مؤلفین نے یہ دعوی کیا ہے کہ وہ ہرراوی کے اساتذہ اور تلامذہ کے فہرست بتلائیں گے؟


امام احمد رحمہ اللہ کے منکرالحدیث کی یہ تشریح ابن حجر رحمہ اللہ نے کہیں پر نہیں کی ہے ۔
آپ معلوم نہیں کیونکہ ہرجگہ جھوٹ اورخیانت سے کام لیتے نظر آرہے ہیں ۔
ابن حجر رحمہ اللہ کے اصل الفاظ دیکھیں
وروى أبو عبيد الآجري عن أبي داود عن أحمد أنه قال منكر الحديث قلت هذه اللفظة يطلقها أحمد على من يغرب على أقرانه بالحديث عرف ذلك بالاستقراء من حاله(ھدی الساری لابن حجرص: 453)
یہاں ابن حجررحمہ اللہ نے یہ کہاہے کہ امام احمدایسے راوی کو بھی منکرالحدیث بولتے ہیں جو اپنے ساتھیوں میں منفرد روایت بیان کرے ۔
لیکن ایسی منفرد روایت میں کمزوری کی بات ابن حجررحمہ اللہ نے امام احمد کی طرف منسوب نہیں کیا ہے۔جیساکہ آپ نے بڑی بے باکی سے لکھا ہے۔
اورامام احمد نے اس راوی کو صرف منکر الحدیث کہنے پراکتفاء نہیں کیا ہے بکہ اس کی توثیق بھی کی ہے۔
امام ابوداؤد کہتے ہیں:
امام احمد نے ابوشہاب کو ’’ ما أرى به بأسا أو قال ليس به بأس‘‘ کہاہے (سؤالات أبي داود ص: 313)



اخیر میں تغیر کی بات صرف ابوعروبہ الحرانی نے کہی ہے ابن حجر ان کے الفاظ نقل کرتے ہیں:
وقال أبو عروبة الحراني كان قد كبر ولزم البيت وتغير (تهذيب التهذيب 4/ 17)
اس قول سے تو یہ پتہ چلتاہے کہ تغیر ان کی زندگی کے بالکل آخری مرحلہ میں لاحق ہوا تھا اوراس کے بعدانہوں نے اپنے گھر کو لازم پکڑلیا تھا۔
یعنی اس تغیر کے بعد ان کا حدیث روایت کرنا ثابت نہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ابوعروبہ الحرانی کے علاوہ کسی بھی دوسرے محدث نے ان کے تعلق سے تغیر کی بات نہیں کی ہے۔
اس لئے اس بات کوبنیاد بنانا ہی حماقت ہے۔
آپ تحریر التقریب کا حوالہ بڑے شوق سے دیا کرتے ہیں اسی تحریر کے مؤلفین فرماتے ہیں:
ثقة ، وقوله تغير في آخر عمره ، لم يقله غير أبي عروبة الحراني ، ونصه : كبر ولزم البيت وتغير في آخر عمره ، وهذا لا يدل على أنه حدث في حال تغيره(تحرير رقم2285)
جناب،
معصرین میں اگر کوئی یزید کو نیک کہے تو وہ قبول مگر کوئی بد بخت کہے تو وہ ناقابل قبول برحال میں اپ کو فطر بن خلیفہ کے مدلس ہونے کے دلائل پیش کرتا ہوں۔
ولذا قال علي بن المديني: قلت ليحيى بن سعيد القطان يعتمد على قول فطرثنا، ويكون موصولاً فقال: لا فقلت: أكان ذلك منه شجبه؟ قال: نعم، وكذا قال الفلاس: أن القطان قال [ص 183] له: وما ينتفع بقوله فطرثنا عطا، ولم يسمع منه.(فتح المخیث جلد ا ص 318 باب بحث التدلیس)
یحیی بن القطان نے اس کو مدلس کہا ہے اور یہاں تک لکھا کے کہ جب یہ سماع کی تصریح یعنی ثناء فلان بھی کہے تو بھی اس کا اعتبار نہیں ہے
اور اسی لئے اس کو شیخ الدمینی نے اپ کتاب التدلیس الحدیث میں تیسرے درجہ کا مدلس نقل کیا ہے کہ یہ کبھی سماع کی تصریح بھی کر دیتا ہے مگر اس سے اس کا سماع ثابت بھی نہیں ہوتا ہے( التدلیس الحدیث ص 325)
تو یہ عصر حاضر کے علماء نہیں بلکہ امام سخاوی امام المدینی اور ابن القطان نے مدلس کہا ہے۔
دوسری بات اپ نے لکھا ہے کہ ابو شھاب ثقہ ہے بہت سے ایسے بخاری کے ثقہ روای ہے جن سے دوسری کتب میں روایت بیان کرنے میں غلطی لگی ہے جیسا ابن وھب کو ہی لیں سنابلی صاحب نے اس سے ایک روایت نقل کی کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا میں ابن عمر رضی اللہ عنہ کو قتل کر دوں گا(الفاظ میں کمی بیشی ہو سکتی ہے) مگر انہوں نے دیگر رواۃ سے موجود روایات سے ثابت کیا کہ ان سے اس روایت میں غلطی لگی ہے اور یہ الفاظ معاویہ رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں ہیں ( یزید پر اعتراضات کا جواب)
اسی طرح ابو شھاب ثقہ ہے مگر یہ روایت اس کی منفرد ہے اور خاص طور پر یہ الفاظ ملک رحمہ جو کہ دیگر روایات سے ملک عضوض ثابت ہوتا ہے اورالبانی صاحب نے اس روایت کو سلسلہ احادیث صحیحہ میں 3270 پر نقل کر کے لکھا ہے کہ اس کی شاہد وہ حدیث ہے جو حذیفہ رضی اللہ عنہ سے بیان ہوئی ہے۔

اس کا مطلب کہ البانی صاحب کے نزدیک یہ روایت اس لیے صحیح ہے کہ اس کی شاہد روایت حذیفہ رضی اللہ عنہ والی ہے جس میں ملک عضوض کے الفاظ ہے۔
دوسری بات اپ نے لکھا کہ"
کتب تراجم کے مؤلفین نے یہ دعوی کیا ہے کہ وہ ہرراوی کے اساتذہ اور تلامذہ کے فہرست بتلائیں گے؟
اس بارے میں یہی عرض ہے کہ سنابلی صاحب نے بھی اپنی کتاب یزید پر اعتراضات کا جواب میں اسی قسم کی بات نقل کی ہے مگر جب الذماری کی وہ روایت جس پر کعبہ پر حملہ کرنے کا ثبوت موجودہے اس کے ایک راوی کو مجھول ثابت کرنے کے لئے اس راوی کے حوالے سے یہی لکھتے ہیں کہ اس کے اساتذہ میں الذماری کا نام موجود نہیں ہے تو یہ کہنا کہ اس بات کی رواۃ کے تلامذہ اور اساتذہ کی یہ فہرست ہی بے کار ہے ایسا نہیں ہے اس سے کم از کم یہ ضرور ثابت ہوتا ہے کہ معروف اور مشہور اساتذہ اور تلامذہ نقل کیے جاتے ہیں مجھول وغیرہ نقل کرنا ذیادہ نہیں ہوتے ہیں اور میرے خیال سے فطر بن خیلفۃ معروف راوی ہے۔
سعید بن حفص النفیلی کا تغیر کے زمانے میں کوئی روایت نہیں ہوئی ہے کیونکہ انہوں نے اپنے اپ کو گھر میں بند کر لیا تھا جناب ابن صلاح نے بھی بخاری کے حوالے سے یہ بات لکھی ہے کہ جن رواۃ کو تغیر ہوا تھا امام بخاری نے ان کے تغیر سے قبل روایت لی ہے مگر ایسا ہے نہیں سنابلی صاحب نے اپنی کتاب میں اس کا رد کیا ہے(یزید پر اعتراضات کا جواب) تو کسی کا یہ کہنا کہ تغیر کے بعد روایت نہیں کی ہے ایسا ضروری یا لازم نہیں جبکہ ثبوت موجود ہے کہ اس روایت میں ملک عضوض جیسی صحیح روایت کے الفاظ میں ایک راوی جس کے حافظہ پر کلام ہے اس نے ان صحیح الفاظ کو بدل دیا ہے تو صواب بات یہی ہو گی کہ یہ الفاظ اس کے تغیر کا نتیجہ ہے اور جیسا البانی صاحب نے بھی اس کی جانب اشارہ کیا ہے چنانچہ فرماتے ہیں کہ والعسقلانی فقال تغیرہ فی آخر عمرہ"
پھر آگے فرماتے ہیں
وللحدیث شاہد بنحوہ من حدیث حذیفہ رضی اللہ عنہ وقد مضی فی اول المجلد الاول رقم 5( سلسلہ احادیث صحیحۃ رقم 3270) تو البانی صاحب نے بھی اس کو تغیر مانا ہے اور اس لیے اس کی شواہد کے طور پر وہ حذیفہ رضی اللہ عنہ والی روایت پیش کی ہے جس میں ملک عضوض کا لفظ ہے اور جو صحیح ترین روایت ہے اور الطبرانی کی روایت کی سند بالکل صحیح ہے جس میں ملک عضوض کے الفاظ ہے ان کے راوی بھی اچھی طرح چیک کر لیجیئے گا۔
حدثنا محمد بن جعفر بن أعين ثنا أبو بكر بن ابي شيبة ثنا زيد بن الحباب ثنا العلاء بن المنهال الغنوي حدثني مهند القيسي وكان ثقة عن قيس بن مسلم عن طارق بن شهاب ع
(6/345)
ن حذيفة بن اليمان قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم إنكم في نبوة ورحمة وستكون خلافة ورحمة ثم يكون كذا وكذا ثم يكون ملكا عضوضا يشربون الخمور ويلبسون الحرير وفي ذلك ينصرون إلى أن تقوم الساعة (الطبرانی الاوسط رقم 6581)
تو یہ ملک رحمہ والی روایت ضعیف ہے جو دیگر صحیح روایت میں موجود ملک عضوض کے الفاظ کے مخالف ہے
اللہ سب کو ہدایت دے
 

غازی

رکن
شمولیت
فروری 24، 2013
پیغامات
117
ری ایکشن اسکور
183
پوائنٹ
90
معصرین میں اگر کوئی یزید کو نیک کہے تو وہ قبول مگر کوئی بد بخت کہ
معاصرین میں سے بھی کوئی بات بادلیل کہے تو قبول ہے ۔ خواہی وہ یزید کے نیک ہونے سے متعلق ہو یابرا ہونے سے لیکن یہاں یزید کے نیک یا براہونے کا مسئلہ موضوع بحث نہیں ہے بلکہ ایک خاص روایت پر بحث ہے اس لئے موضوع سے نہ ہٹیں۔

برحال میں اپ کو فطر بن خلیفہ کے مدلس ہونے کے دلائل پیش کرتا ہوں۔
ولذا قال علي بن المديني: قلت ليحيى بن سعيد القطان يعتمد على قول فطرثنا، ويكون موصولاً فقال: لا فقلت: أكان ذلك منه شجبه؟ قال: نعم، وكذا قال الفلاس: أن القطان قال [ص 183] له: وما ينتفع بقوله فطرثنا عطا، ولم يسمع منه.(فتح المخیث جلد ا ص 318 باب بحث التدلیس)
یحیی بن القطان نے اس کو مدلس کہا ہے اور یہاں تک لکھا کے کہ جب یہ سماع کی تصریح یعنی ثناء فلان بھی کہے تو بھی اس کا اعتبار نہیں ہے
اور اسی لئے اس کو شیخ الدمینی نے اپ کتاب التدلیس الحدیث میں تیسرے درجہ کا مدلس نقل کیا ہے کہ یہ کبھی سماع کی تصریح بھی کر دیتا ہے مگر اس سے اس کا سماع ثابت بھی نہیں ہوتا ہے( التدلیس الحدیث ص 325)
تو یہ عصر حاضر کے علماء نہیں بلکہ امام سخاوی امام المدینی اور ابن القطان نے مدلس کہا ہے۔
یہاں صرف امام القطان کا قول ہے جسے آپ ابن المدینی اور سخاوی کاقول بناکرپیش کررہے ہیں۔اوراسے دلائل کانام دے رہے ہیں ۔
بہرحال ابن القطان کا یہ قول بھی فطر کے مدلس ہونے کی دلیل نہیں ہے ۔اورتیسرے طبقہ کے مدلس ہونے کا توسوال ہی پیدانہیں ہوتا ۔لیکن اس پر بحث سے پہلے آپ سے مطالبہ ہے کہ آپ ابن القطان کے قول کوصحیح سند سے پیش کریں اس کے بعد اس پر بات ہوگی کہ اس سےفطر کامدلس ہونا کیوں ثابت نہیں ہوتا۔

دوسری بات اپ نے لکھا ہے کہ ابو شھاب ثقہ ہے بہت سے ایسے بخاری کے ثقہ روای ہے جن سے دوسری کتب میں روایت بیان کرنے میں غلطی لگی ہے جیسا ابن وھب کو ہی لیں سنابلی صاحب نے اس سے ایک روایت نقل کی کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا میں ابن عمر رضی اللہ عنہ کو قتل کر دوں گا(الفاظ میں کمی بیشی ہو سکتی ہے) مگر انہوں نے دیگر رواۃ سے موجود روایات سے ثابت کیا کہ ان سے اس روایت میں غلطی لگی ہے اور یہ الفاظ معاویہ رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں ہیں ( یزید پر اعتراضات کا جواب)
سنابلی صاحب کوئی دلیل ہیں کہ آپ ان کا حوالہ دلیل کے طور پر دے رہے ہیں ؟
اگران کی بات دلیل کے ساتھ ہے تو آپ بھی اپنی بات کو مدلل کریں اور ان کی بات بے دلیل ہے تو ان کاحوالہ دینا بے کارہے؟

اسی طرح ابو شھاب ثقہ ہے مگر یہ روایت اس کی منفرد ہے اور خاص طور پر یہ الفاظ ملک رحمہ جو کہ دیگر روایات سے ملک عضوض ثابت ہوتا ہے
اول تو ملک رحمہ کی روایت میں ابوشہاب منفرد نہیں ہے۔
دوم بالفرض منفرد ہے تو محض انفراد ہی سے کسی کی روایت رد نہیں ہوتی بلکہ انفراد کے ساتھ مزید دلائل درکا رہوتے ہیں اور یہاں ان کے انفراد کے رد پر کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔

آپ نے جو یہ کہا کہ دیگر روایات سے ملک عضوض ثابت ہوتا ہے تو:
اول کیا ملک عضوض والی روایت اس سے زیادہ قوی ہے یاقوت میں اس سے کم تر ہے ؟ اگرزیادہ قوی ہے تو اس کو دلیل کے ساتھ ثابت کریں اور اگر اس سے قوت میں کم تر ہے تو ملک عضوض والی روایت سے یہ روایت رد نہیں ہوگی بلکہ اس روایت سے ملک عضوض والی روایت رد ہوگی ؟
دوم:ملک عضوض والی روایت سے مراد آپ کی حذیفہ رضی اللہ عنہ والی روایت ہے جیساکہ آگے آپ نے کہا ہے:
اس کی شاہد روایت حذیفہ رضی اللہ عنہ والی ہے جس میں ملک عضوض کے الفاظ ہے۔
تویہ حذیفہ رضی اللہ عنہ والی روایت فطر کی روایت کے خلاف ہے ہی نہیں ۔کیونکہ خود حذیفہ رضی اللہ عنہ کی روایت کے محفوظ الفاظ میں ملک رحمہ کا تذکرہ اجمالی طورپر ہے اورفطر کی روایت میں اس کی صراحت ہے ۔اس لئے عدم تذکرہ والی روایت کو بھی اسی پر محمول کیا جائے گا اس طرح حذیفہ رضی اللہ عنہ کی روایت تو فطر والی روایت کی مؤید ہے نہ کہ مخالف ۔

اورالبانی صاحب نے اس روایت کو سلسلہ احادیث صحیحہ میں 3270 پر نقل کر کے لکھا ہے کہ اس کی شاہد وہ حدیث ہے جو حذیفہ رضی اللہ عنہ سے بیان ہوئی ہے۔اس کا مطلب کہ البانی صاحب کے نزدیک یہ روایت اس لیے صحیح ہے کہ اس کی شاہد روایت حذیفہ رضی اللہ عنہ والی ہے جس میں ملک عضوض کے الفاظ ہے۔
جب علامہ البانی رحمہ اللہ دونوں روایت کو حسن کہہ رہے تو اس کا مطلب یہی ہوا کہ علامہ البانی رحمہ اللہ بھی معنوی طور پر دونوں روایات کو ایک مفہوم میں لے رہے ہیں جس کی وضاحت اوپر کی گئی ہے اس لئے یہ دونوں روایات علامہ البانی کے نزدیک حسن ہیں ۔
اورعلامہ البانی رحمہ اللہ نے شاہد کا تذکرہ اس لئے نہیں کیا کہ پہلی روایت ضعیف ہے ۔بلکہ پہلی روایت کی مزید تائید کے لئے شاہد کا تذکرہ کیا ہے۔کیونکہ پہلے علامہ البانی رحمہ اللہ ابن عباس والی روایت کی سند کے بارے میں کہا:
هذا إسناد جيد، رجاله كلهم ثقات؛ غير سعيد بن حفص النفيلي،ففيه كلام يسير، وقد وثقه ابن حبان (8/268) ، وأخرج له في "صحيحه "ثلاثة أحاديث، والذهبي، والعسقلاني فقال:"صدوق تغير في آخر عمره ".
سلسلة الأحاديث الصحيحة وشيء من فقهها وفوائدها (7/ 803)
یعنی علامہ البانی رحمہ اللہ اس کی سند کو جید یعنی حسن کہا ہے۔
اس لئے شاہد کے ذکر کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پہلی اصل روایت ضعیف ہے ۔
اگراصل روایت کی تحسین کرنے کے بعد شاہد کے ذکر کرنے کا مطلب آپ یہ سمجھتے ہیں کہ پہلی یعنی ابن عباس رضی اللہ عنہ والی اصل روایت ضعیف ہے ۔تو آپ کومعلوم ہونا چاہئے کہ حذیفہ رضی اللہ عنہ کی روایت جہاں ذکر کی ہے وہاں کوئی شاہد بھی پیش نہیں کیا ہے اوروہاں بھی اصل حذیفہ رضی اللہ عنہ کی روایت کی سند کے ایک راوی کے بارے میں بھی جرح پیش کی ہے بلکہ فطر سے بڑی جرح پیش کی اورکہا:
لكن حبيبا هذا قال البخاري: فيه نظر.وقال ابن عدي: ليس في متون أحاديثه حديث منكر، بل قد اضطرب في أسانيد مايروي عنه، إلا أن أبا حاتم وأبا داود وابن حبان وثقوه، فحديثه حسن على أقل الأحوال إن شاء الله تعالى. سلسلة الأحاديث الصحيحة وشيء من فقهها وفوائدها (1/ 35)
دیکھیں یہا ں ایک راوی کے بارے میں فیہ نظر جیسی شدید جرح پیش کی ہے؟اس کے بعد اصل روایت پر حسن کا حکم صیغہ تمریض ان شاء اللہ کے ساتھ لگایا ہے؟اورکوئی شاہد بھی پیش نہیں کیا
تو کیا حذیفہ رضی اللہ عنہ والی روایت بھی علامہ البانی کی نظر میں ضعیف ہے ؟

کتب تراجم کے مؤلفین نے یہ دعوی کیا ہے کہ وہ ہرراوی کے اساتذہ اور تلامذہ کے فہرست بتلائیں گے؟
اس بارے میں یہی عرض ہے کہ سنابلی صاحب نے بھی اپنی کتاب یزید پر اعتراضات کا جواب میں اسی قسم کی بات نقل کی ہے مگر جب الذماری کی وہ روایت جس پر کعبہ پر حملہ کرنے کا ثبوت موجودہے اس کے ایک راوی کو مجھول ثابت کرنے کے لئے اس راوی کے حوالے سے یہی لکھتے ہیں کہ اس کے اساتذہ میں الذماری کا نام موجود نہیں ہے تو یہ کہنا کہ اس بات کی رواۃ کے تلامذہ اور اساتذہ کی یہ فہرست ہی بے کار ہے ایسا نہیں ہے اس سے کم از کم یہ ضرور ثابت ہوتا ہے کہ معروف اور مشہور اساتذہ اور تلامذہ نقل کیے جاتے ہیں مجھول وغیرہ نقل کرنا ذیادہ نہیں ہوتے ہیں اور میرے خیال سے فطر بن خیلفۃ معروف راوی ہے۔
جب آپ نے یہ تسلیم کرلیا ہے کہ اس مقام پر ابوشہاب نام کا ایک خاص راوی ہی ہے تو پھر یہ بحث ہی فضول ہے۔
ورنہ آپ بتلائیں کہ آپ اساتذہ اورتلامذہ کی فہرست سے کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں ؟


سعید بن حفص النفیلی کا تغیر کے زمانے میں کوئی روایت نہیں ہوئی ہے کیونکہ انہوں نے اپنے اپ کو گھر میں بند کر لیا تھا جناب ابن صلاح نے بھی بخاری کے حوالے سے یہ بات لکھی ہے کہ جن رواۃ کو تغیر ہوا تھا امام بخاری نے ان کے تغیر سے قبل روایت لی ہے مگر ایسا ہے نہیں سنابلی صاحب نے اپنی کتاب میں اس کا رد کیا ہے(یزید پر اعتراضات کا جواب) تو کسی کا یہ کہنا کہ تغیر کے بعد روایت نہیں کی ہے ایسا ضروری یا لازم نہیں ۔
جس راوی کا تغیر کے بعد روایت کرناثابت ہے اس سے امام بخاری کا تغیر کے بعدوالی روایت انتقاء کی بنیاد پر لینا ۔
اورجس راوی کا تغیرکے بعد حدیث روایت کرنا ہی ثابت نہیں ہے ۔
ان دونوں باتوں میں بہت بڑا فرق ہے۔
آپ کچھ تو سوجھ بوجھ سے کام لیں کہا ں کی بات کو کہاں جوڑرہےہیں ۔
یہاں بات یہ نہیں ہو رہی کہ سعیدبن حفص کا تغیرکے بعد روایات کرنا مسلم ہے او رامام بخاری نے تغیر کے بعدان کی بیان کردہ روایت لی ہے یا نہیں ۔
بلکہ بات یہ ہوری ہے کہ سعید بن حفص نے تغیر کے بعد کچھ روایت کیا ہے یانہیں ؟آپ اس بات کی دلیل دیں کہ سعید بن حفص نے تغیر کے بعد روایت کیا ہے؟

جبکہ ثبوت موجود ہے کہ اس روایت میں ملک عضوض جیسی صحیح روایت کے الفاظ میں ایک راوی جس کے حافظہ پر کلام ہے اس نے ان صحیح الفاظ کو بدل دیا ہے تو صواب بات یہی ہو گی کہ یہ الفاظ اس کے تغیر کا نتیجہ ہے
بدلنے والی بات تو بالکل غلط ہے اس کا کوئی ثبوت ہی موجود نہیں ۔
بالفرض مان لین کہ اس راوی نے اس روایت میں غلطی کی ہے توکیا اس کا یہ مطلب ہو گاکہ اس نے یہ روایت زندگی کے اخیر میں حالت تغیرمیں بیا ن کی ہے؟
دوسرے الفاظ میں آپ کی بات کا مطلب یہ ہوگاکہ اس روایت میں جس شاگرد ( أحمد بن النضر العسكري)نے ان سے روایت کیا ہے ا ن کاسماع (سعید بن حفص) سے ان کے تغیر کے بعد ہے!
کیا آپ بتائیں گے کہ کس محدث نے یہ صراحت کی ہے کہ (أحمد بن النضر العسكري) نے (سعید بن حفص ) سے ان کے تغیر کے بعد روایت کیا ہے اورکس محدث نے اس بنیاد پر کسی روایت کو ضعیف کہا ہے۔
جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ حافظ ضیاء نے (سعید بن حفص )سے (أحمد بن النضر العسكري) کی روایت کو صحیح کہا ہے دیکھئے:(الأحاديث المختارة 8/ 312)
بہرحال آپ اس بات کی کوئی دلیل نہیں پیش کرسکے کہ سعید بن حفص نے تغیر کے بعد کوئی روایت بیان کی ہے۔

اورملک عضوض والی جس روایت کو آپ سعید بن حفص کی روایت کے خلاف بتلارہے ہیں اس ملک عضوض والی روایت میں تو ایسا راوی بھی ہے جس پر سخت جرح موجود ہے۔ اس لئے آپ کے اصول کے مطابق ملک عضوض والی روایت ہی ضعیف ہے ۔آپ مہربانی فرماکر اپنی ملک عضوض والی روایت کی سند بھی پیش کردیں پھر آپ کو بتلایاجائے گا کہ اس میں کس کس راوی پر کتنا کتنا کلام ہے!
آپ ابن عباس رضی اللہ عنہ والی روایت کے ایک راوی کے سلسلے میں بے مطلب کے تغیر کے پیچھےپڑے ہیں لیکن ذرا یہ بھی تو دیکھ لیں کہ آپ کی ملک عضوض والی روایت کے راویوں پر کیا کیا جرح ہے؟

اور جیسا البانی صاحب نے بھی اس کی جانب اشارہ کیا ہے چنانچہ فرماتے ہیں کہ والعسقلانی فقال تغیرہ فی آخر عمرہ"
پھر آگے فرماتے ہیں
وللحدیث شاہد بنحوہ من حدیث حذیفہ رضی اللہ عنہ وقد مضی فی اول المجلد الاول رقم 5( سلسلہ احادیث صحیحۃ رقم 3270) تو البانی صاحب نے بھی اس کو تغیر مانا ہے اور اس لیے اس کی شواہد کے طور پر وہ حذیفہ رضی اللہ عنہ والی روایت پیش کی ہے جس میں ملک عضوض کا لفظ ہے اور جو صحیح ترین روایت ہے اور الطبرانی کی روایت کی سند بالکل صحیح ہے جس میں ملک عضوض کے الفاظ ہے ان کے راوی بھی اچھی طرح چیک کر لیجیئے گا۔
حدثنا محمد بن جعفر بن أعين ثنا أبو بكر بن ابي شيبة ثنا زيد بن الحباب ثنا العلاء بن المنهال الغنوي حدثني مهند القيسي وكان ثقة عن قيس بن مسلم عن طارق بن شهاب ع
(6/345)
ن حذيفة بن اليمان قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم إنكم في نبوة ورحمة وستكون خلافة ورحمة ثم يكون كذا وكذا ثم يكون ملكا عضوضا يشربون الخمور ويلبسون الحرير وفي ذلك ينصرون إلى أن تقوم الساعة (الطبرانی الاوسط رقم 6581)
تو یہ ملک رحمہ والی روایت ضعیف ہے جو دیگر صحیح روایت میں موجود ملک عضوض کے الفاظ کے مخالف ہے
اللہ سب کو ہدایت دے
تغیر کے سلسلے میں علامہ البانی رحمہ اللہ نے ابن حجر رحمہ اللہ کے قول پراعتماد کیا ہے اور ابن حجررحمہ اللہ کے قول کی بنیاد جس قول پر ہے اس کے مطابق سعید بن حفص نے تغیر کے بعد کوئی روایت بیان ہی نہیں کی ہے۔جیساکہ تحریر التقریب کے مصنفین نے بھی کہا ہے۔
اورعلامہ البانی رحمہ اللہ نے تغیر کاقول نقل کرنے کے بعد بھی ابن عباس رضی اللہ عنہ کی سند کی تحسین کی ہے۔
یعنی انہوں نے تغیر کے سبب حدیث کو حسن کہا لیکن ضعیف نہیں کہا ہے۔اورنہ اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے جو آپ سمجھ بیٹھے ہیں ۔

اورطبرانی کی جس روایت کو آپ بالکل صحیح کہہ رہے ہیں وہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت کے خلاف کہاں ہے بلکہ معنوی طورپر ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت کے عین موافق ہی ہے ۔
کیونکہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی رویات میں دور خلافت کے فورا بعد ملک عضوض کا ذکر نہیں ہے بلکہ دور خلافت کے بعد ملک رحمہ کا ذکر ہے اس کے بعد ملک عضوض کاذکرہے۔یعنی دور خلافت اور ملک عضوض کے بیچ ایک اوردور کاذکرہے۔
اوریہی بات طبرانی کی اس روایت میں بھی ہے جسے آپ بالکل صحیح کہہ رہے کیونکہ اس میں بھی دورخلافت کے فورابعد ملک عضوض کاذکر نہیں بلکہ اس کے بعد ( ثم يكون كذا وكذا ) کہہ کراجمالی طور پر ایک اور دور کا ذکر ہے پھر اس کے بعد چوتھے نمبر پرملک عضوض کاذکر ہے۔اوراس اجمال کی تفصیل ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت میں آگئی ہے کہ خلافت اور ملک عضوض کے بیچ کا یہ دور ملک رحمہ کادور ہے ۔
یعنی ابن عباس رضی اللہ عنہ اورآپ کی صحیح قراردی گئی طبرانی کی روایت، دونوں میں ملک عضوض کو چوتھے دور میں ذکر کیا گیاہے۔پھرتو یہ دونوں روایت آپ کی اس روایت کے خلاف ہوگئی جس میں ملک عضوض کا ذکر دورخلافت کے بعد ہی یعنی تیسرے نمبر پرہے۔یعنی صحیح روایات کی بنیادپر ادوارحکومت کی ترتیب اس طرح ہوگی :
پہلا دور : ۔دورنبوت
دوسرا دور: ۔دورخلافت
تیسرادور:۔دورملک رحمہ
چوتھا دور: ۔دورملک عضوض

اس اعتبار سے آپ ہی کے اصولوں سے وہ روایت باطل ثابت ہوتی ہے جس میں دورخلافت کے بعد فورا یعنی تیسرے نمبرپرملک عضوض کا ذکر ہے۔
اب آپ اپنے ہی اصولو ں کی روشنی میں یہ تسلیم کرلیں کہ دورخلافت کے بعد والا دور ملک عضوض کا دور نہیں ہے ۔
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
جب آپ نے یہ تسلیم کرلیا ہے کہ اس مقام پر ابوشہاب نام کا ایک خاص راوی ہی ہے تو پھر یہ بحث ہی فضول ہے۔
ورنہ آپ بتلائیں کہ آپ اساتذہ اورتلامذہ کی فہرست سے کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں

جناب ،
اس سے وہی بات ثابت ہے کہ فطر سے روایت کرنے والوں میں ابو شھاب شامل نہیں کیونکہ فطر کوئی غیر معروف راوی نہیں ہے اور ابو شھاب کا اس سے روایت کرنے والوں میں نام بھی نہیں ہے اگر فہرست کا نقل کرنا فضول ہے تو ان کی نقل کی کیا وجہ ہے وہ یہی ہے کہ ان میں بتایا جاتا کہ رواۃ کا تعین اور ان کا اساتذہ اور رواۃ کے حوالے سے تعلق موجود تھا وگرنہ اسی روایت میں اپ ابو شھاب اکبر لیں گے یا ابو شھاب اصغر لیں گے اس کا تعین ہی مشکل ہے کیونکہ فطر نے کس سے روایت کی ہے دوںوں ابوشھاب کا اس کے تلامذہ کی فہرست میں نہ ہونا ہی اس تعین میں مشکل پیدا کرتا مگر چوں کہ البانی صاحب نے اس کو ابو شھاب اکبر کہا ہے مگر اس کی کوئی دلیل انہوں نے بھی پیش نہیں کی ہے اس لیے میں یہی عرض کر رہا ہے کہ فطربن خلیفہ کے روایت کرنے والوں میں ابوشھاب نہیں ہے ہاں ابو شھاب اکبر کے رواۃ میں مجاہد ضرور شامل ہیں کہ ابو شھاب نے مجاہد سے روایات نقل کی ہے اور بلواسطہ سمع کیا ہے اور درمیان میں فطر موجود نہیں ہے۔ اس لیے میرے نذدیک یہ ایک علت ہی گنی جائے گی وگرنہ ان فہرست پیش کرنے کا کوئی فائدہ ہی نہیں جو جس سے چاہے روایت کر دے چاہے اساتذہ میں شامل ہو نہ تلامزہ میں۔
دوسری بات میں نے اپ کو طبرانی الاوسط سے صحیح سند سے روایت پیش کی تھی جس سے ملک عضوضا کا تعین ہوتا ہے اور جس سے اس روایت کہ ملک رحمہ کے تغیر ہونے کی دلیل ہے اب اس کے رواۃ بمع سند پیش کر دیتا ہوں تاکہ اپ کو معلوم ہو کہ ملل عضوض والی روایت ہی صحیح ہے ملک رحمہ سے کسی بھی ائمہ اور محدث نہیں لیا ہے۔فلحال سند مع رواۃ کی تحقیق کے پیش ہے۔

حدثنا محمد بن جعفر بن أعين ثنا أبو بكر بن ابي شيبة ثنا زيد بن الحباب ثنا العلاء بن المنهال الغنوي حدثني مهند القيسي وكان ثقة عن قيس بن مسلم عن طارق بن شهاب ع
(6/345)
ن حذيفة بن اليمان قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم إنكم في نبوة ورحمة وستكون خلافة ورحمة ثم يكون كذا وكذا ثم يكون ملكا عضوضا يشربون الخمور ويلبسون الحرير وفي ذلك ينصرون إلى أن تقوم الساعة (الطبرانی الاوسط رقم 6581)
محمد بن جعفر بن أعين

خطیب بغدادی نے اس کو ثقہ کہا ہے (تاریخ بغداد)
أبو بكر بن ابي شيبة
وقال الْعَجَلِيّ، وأَبُو حَاتِم، وابن خراش 1: 2 ثقة، زاد الْعَجَلِيّ: وكَانَ حافظا للحديث

زَيْد بن الحباب بن الريان

وقال 1 عُثْمَان بْن سَعِيد الدارمي، عَنْ يَحْيَى بْن معين 1: 2 ثقة وكذلك، قال علي بْن الْمَدِينِيّ، وأَحْمَد بْن عَبْد اللَّهِ العجلي
حْيَى بْن معين 1: 2 كَانَ يقلب حديث الثوري ولم يكن بِهِ بأس
بُو دَاوُد: سمعت أَحْمَد 1 قال: 2 زَيْد بْن حباب كَانَ صدوقا وكان يضبط الألفاظ عَنْ معاوية بْن صَالِح ولكن كَانَ كثير الخطأ
أَبُو حاتم 1: 2 صدوق صَالِح

العلاء بن المنهال الغنوي
ابو زرعہ الرازی ثقہ ( الضعفاء ابو زرعہ الرازی)
امام العجلی قال ثقہ الثقات الجرح التعدیل ابن ابی حاتم ترجمۃ 1287)
مهند القيسي وكان ثقة

و القاسم الطبرانيثقة
2أبو حاتم بن حبان البستيذكره في الثقات وقال: يروى عن الكوفيين قيس بن مسلم وغيره، روى عنه زيد بن الحباب
3ابن حجر العسقلانيثقة
4العلاء بن المنهالثقة


قيس بن مسلم

صَالِح بْن أَحْمَد، عَنْ أَبِيهِ 1: 2 ثقة في الحديث

طارق بن شهاب البجلي
له رؤية

اس کی سند ملک رحمہ والی سند سے بہتر اور اصح ہے اور اس میں "
ثم يكون كذا وكذا" اس کے معنی جو اپ نے کیے ہیں کہ ملک رحمہ ہے کسی طرح بھی نہیں ہو سکتے ہیں اس کے معنی وہ دور ہے جس میں حسن رضی اللہ عنہ اور معاویہ رضی اللہ عنہ کے صلح کا دور ہے جس کے بعد ملک عضوض آئی ہے اور میری بات کی تائید مسند احمد والی روایت اور اکابرین آئمہ سے ہوتی ہے اس میں سے چند حوالے پیش کے جنہوں نے معاویہ رضی اللہ عنہ کی حکومت کو اس حدیث کے تحت ملک عضوض ہی مانا ہے۔
چنانچہ مسند احمد کی روایت میں موجود ہے کہ
تكون النبوة فيكم ما شاء الله أن تكون , ثم يرفعها الله إذا شاء أن يرفعها
ثم تكون خلافة على منهاج النبوة , فتكون ما شاء الله أن تكون , ثم يرفعها إذا
شاء أن يرفعها , ثم تكون ملكا عاضا(سلسلہ احادیث الصحیحۃ رقم 5)
اور خلافت کب تک رہے گی اس کی دلیل سفینہ رضی اللہ عنہ والی روایت ہے
الخلافة ثلاثون سنة , ثم تكون بعد ذلك ملكا(سلسلہ احادیث الصحیحۃ رقم 459)
اور آئمہ نے ان دونوں احادیث کو جمع کر کے جو نتیجہ نکالا ہے وہ اپ کے سامنے ہے
(1) ابن کثیر فرماتے ہیں

قُلْتُ: وَالسُّنَّةُ أَنْ يُقَالَ لِمُعَاوِيَةَ مَلِكٌ، وَلَا يُقَالُ لَهُ خليفة لحديث «سفينة الْخِلَافَةُ بَعْدِي ثَلَاثُونَ سَنَةً ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا عَضُوضًا» .( البدایہ الالنھایہ ترجمہ معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ)

(2) حافظ ابن حجر فرماتے ہیں۔
أخبر به عن الحسن حيث قال: «إنّ ابني هذا سيّد وسيصلح اللَّه به بين فئتين عظيمتين من المسلمين» [ (1) ] .
وهكذا أصبحت الخلافة ملكا عضوضا على يد معاوية الّذي ورثها لابنه اليزيد، وأجبر الناس على بيعته في حياته حتى لا ينازعه في ملكه منازع من بعده.
ولسنا نقول بأن الخبر الّذي قاله النّبي صلّى اللَّه عليه وسلم عن الملك العضوض حين يفيد انتقاصا من قدر الملوك فإنه غالبا ما يكون فيهم الحزم والكياسة إلى جانب الشّدة والعنف۔(الاصحابہ فی التمیز الصحابہ جلد 1 ص 64 جھود الخلفائ راشدین نشر)
اب کیا کہیں گے یہ اہل سنت کے اکابرین میں سے ہیں جو معاویہ رضی اللہ عنہ کی حکومت کو ملک عضوض فرما رہے ہیں مگر اور یہ چند حوالے ہیں میرے پاس پوری فہرست موجود ہے جن کو اگر یہاں لکھ دوں تو اہل سنت کہ پاس کم ہی ایسے آئم ہوں گے جنہوں نے ملک عضوض نہ کہا ہو

میرے خیال سے اپ اوپر یہ سب پڑھ ہی آئے ہوں گے یہ چند اقوال ہیں
اب اپ نے کہا کہ فطر کے حوالے سے ابن القطان کا قول صحیح سند سے پیش کریں
ابن القطان کا قول علی ابن المدینی سے امام سخاوی نے نقل کیا ہے اور وہ ان کی کسی کتاب سے نقل کیا ہو گا اس لیے اس کی سند پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے ورنہ تو اپ کو اپنی سند البانی صاحب تک پیش کرنی پڑے گی۔
آپ نے کہا کہ اس سے بھی فطر کا مدلس ہونا ثابت نہیں ہوتا تو میں عرض کروں کہ تیسرے درجے کے مدلس کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے سماع کی تصریح کرے جبکہ فطر کے بارے میں یہ لکھا ہے کہ اس کا قول ثناء کا بھی اعتبار نہیں ہے اس لیے امام سخاوی نے فطر کے بحث تدلیس تسویہ کے تحت نقل کیا ہے اور مسفر الدمینی نے بھی اس کو تدلیس تسویہ میں لیا ہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں۔
و اذن فتدلیسہ شدید، بل ربما صرح بالتحدیث فیما لم یسمعہ، و کانہ خص ما سمعہ بقول سمعت، واراہ من اھل المرتبہ الثالثہ

اب اخر میں البانی صاحب کے حوالے سے جو اپ نے لکھا ہے اس پر یہ عرض ہے کہ ہماری بحث اس پوری روایت کے صحیح ہونے پر نہیں چل رہی بلکہ اس خاص لفظ پر محیط ہے اس روایت میں ایک روای ابو شھاب جس نے یہ روایت منفرد کی ہے کہ ملک رحمہ کے لفظ ان قسم کی کسی صحیح روایت میں نہیں ہے اور النفیلی کے بارے میں تغیر کی بات موجود ہے اور اس روایت سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ اس سے اس روایت کے ان الفاظ میں غلطی لگی ہے کیونکہ تغیر کا امکان موجود ہے اور یہ اصول ہے کہ دو روایات میں سے اصح کے الفاظ لیے جاتے ہیں اور صواب یہی ہے کے ملک عضوض کے الفاظ ذیادہ صحیح ہیں کیونکہ محدثین اور آئمہ نے بھی ملک عضوض کے الفاظ کو ہی ترجیح دی ہے واللہ اعلم۔
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
محترم -

اگر آپ میں ذرا بھی ایمان کی رمق ہو تو صحابہ کرام رضوان الله اجمعین خوصو صاً صحابی و مہدی رسول حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کے متعلق اس قسم کی نا زیبا زبان استمعال نہ کریں جو آپ ایک ہفتہ سے مسلسل کررہے ہیں - مزید یہ کہ آپ اس زمن میں خلافت سے متعلق یا تو ضعیف پہ ضعیف روایات پیش کررہے ہیں یا جو صحیح روایات ہیں اس کے غلط معنی اخذ کرکے ان سے لوگوں میں صحابہ رسول و مغفورسالار قسطنطنیہ امیر معاویہ رضی الله عنہ کی شخصیت ان کی حکومت اور ان کی آل اولاد سے متعلق لوگوں میں بد گمانی پیدا کرہے ہیں-

آپ نے ایک ساتھ بہت ساری پوسٹ کردی ہیں اس لئے فرداً فرداً ان کا جواب دینا آسان نہیں کہ اس میں کافی وقت درکار ہے - فلحال آپ کی سفینہ رضی الله عنہ والی تیس سالہ خلافت پر تبصرہ پیش کررہ ہوں -

سفينة الْخِلَافَةُ بَعْدِي ثَلَاثُونَ سَنَةً ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا عَضُوضًا» .
پہلی بات اس روایت کے حوالے سے ابن ابی حاتم نے لا يحتج به کے الفاظ استمعال کیے ہیں - اگرچہ اکثر مجتحدین کے نزدیک ابن ابی حاتم رحم الله احادیث تعدیل و جرح میں متشدد ہیں لیکن یہ کوئی بری بات نہیں- امام بخاری رحم الله کو اسی بنا پر پر دوسرے محدثین پرفوقیت ہے کہ احدیث نبوی کی پرکھ میں وہ باقی آئمہ و محدثین کے نسبت متشدد واقع ہوے تھے-

دوسرے یہ کہ حضرت سفینہ رضی اﷲ عنہ کا اپنا عمل یہ تھا کہ انہوں نے نہ صرف سیدنا معاویہؓ رضی الله عنہ کے ہاتھ پر بھی بیعت کی۔ (تاریخ طبری جلد ٧ ، مقدمہ ابن خلدون ، اخبار اطول) -اگر یہ خلافت نہیں ظلم کی بادشاہت تھی تو حضرت سفینہ رضی اﷲ عنہ نے حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کی حکومت کو تسلیم ہی کیوں کیا ؟؟ محدثین کے اصول کے مطابق جب کسی حدیث کا راوی اپنی روایت کردہ حدیث کے خلاف عمل کرے تو وہ روایت اپنا اعتبار کھو دیتی ھے چاہے سند کتنی بھی قوی ھو،،قابلِ عمل نہیں رھتی -

تیسرے یہ کہ :
بخاری نے اپنی سند کے ساتھ جابر بن سمره سے نقل کیا ہے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا: ""یکون اثنا عشر امیرا، فقال کلمه لم اسمعھافقال ابی : انہ قال : کلھم من قریش "" ۔ میرے بعد امیر ہوں گے ، اس کے بعد آپ نے ایک بات کہی جو میں نے نہیں سنی، میرے والد نے کہا کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا : وہ سب قریش سے ہوں گے (١)

امام بدر الدین عینی ان بارہ کی تفصیل کچھ یوں بتاتے ھیں، 1 ابوبکرؓ 2 عمرؓ 3 عثمانؓ 4 علیؓ 5 حسن بن علیؓ 6 معاویہ بن سفیانؓ 7 یزید بن معاویہ 8 عبداللہ بن زبیرؓ 9 عبدالملک 10ولید بن عبالملک 11 سلیمان بن عبدالمک 12 عمر بن عبدالعزیز ( عمدۃ القاری شرح بخاری )- اس بارہ خلفاء والی حدیث کی فہرست میں نہ صرف حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ موجود ہے بلھے ان کے فرزند یزید بن معاویہ راضی الله عنہ کا نام بھی بنفس نفیس بوجود ہے-

چوتھے یہ کہ :
آپ بار بار ایک ہی راگ الاپ رہے ہے کہ خلافت تیس سال ہے اس کا بعد " ملک عضوضا کا لفظ جمع کیا گیا ہے" - تو اکثر مفسرین جن کے نزدیک یہ روایت صحیح تسلیم کی گئی ہے - تو پھر بھی اس روایت سے وہ مطلب اخذ کرنا جو آپ کررہے ہیں سراسر گمراہی ہے- تیس سال بعد "ملک " کا مطلب حکومت وقت ہے اور یہ کہ "ملک" کی خواہش کرنا کوئی ایسا خلاف دین بھی نہیں- قرآن میں الله رب العزت خود فرماتا ہے کہ:

قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَن تَشَاءُ وَتَنزِعُ الْمُلْكَ مِمَّن تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَن تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَن تَشَاءُ بِيَدِكَ الْخَيْرُ إِنَّكَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ سوره آ ل عمران ٢٦
کہو کہ اے الله! حاکموں کے حکم ہے- تو جیسے چاہے حکومت عطا کرے اور جس سے چاہے حکومت چھین لے -اور جس کو چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلیل کرے ہر طرح کی بھلائی تیرے ہی ہاتھ ہے اور بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے-

ظاہر ہے جب یہاں الله رب العزت خود "ملک" حاصل کرنے کے لئے دعا بیان فرما رہے ہیں - تو اس "ملک" سے غلط مطلب اخذ کرنا جو صحابہ کرام کی عظمت و منزلت کے منافی ہے کہاں کی عقلمندی ہے -

پھر یہ کہ اس لفظ "ملک" کے ساتھ عضوضا" کا اضافہ بھی کردیں تو اس کا مطلب بنتا ہے "مضبوطی سے پکڑی ہوئی حکومت یا مضبوط حکومت" - مثال کے طور پر ملاحظه ہو نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کی ایک اور حدیث مبارکہ جس میں یہ لفظ " عَضُّوا کا مطلب دانتوں سے مضبوطی پکڑنا بیان کیا گیا ہے :

"فَمَنْ أَدْرَكَ ذَلِكَ مِنْكُمْ فَعَلَيْهِ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ عَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ"۔ ((ترمذی، صحیح)
سو جو تم میں سے یہ (فتنوں کا) زمانہ پائے اسے لازم ہے کہ میری سنت اور خلفائے راشدین کی سنت کو دانتوں کے زور سے لازم پکڑے۔

یہاں واضح ہے کہ عَضُّوا سے مراد "مضبوطی سے پکڑنا" ہی لیا گیا ہے- نہ کہ "کاٹ کھانا یا ظلم و ستم " مراد ہے -

تو پھر رافضیوں کی اقتداء اور صحابہ دشمنی میں "ملک عضوضا" سے کاٹ کھانے والی بادشاہت مراد لینا کہاں کی دانشمندی ہے - یہ ٹھیک ہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کے دور میں کچھ خارجی و داخلی انتشار کے با عث ان کی خلافت "خلافت راشدہ " کے نہج سے ہٹ گئی تھی لیکن ان کی حکومت کا ظلم و ستم اور فسق و فجور سے دور دور کا بھی واسطہ نہیں تھا -

آخر میں آپ سے یہی درخواست ہے کہ :-
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ ۖ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَىٰ أَلَّا تَعْدِلُوا ۚ اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَىٰ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ سوره المائدہ ٨

اے ایمان والو! الله کے واسطے انصاف کی گواہی دینے کے لیے کھڑے ہو جاؤ اور کسی قوم کی دشمنی کے باعث انصاف کو ہر گز نہ چھوڑو انصاف کرو یہی بات تقویٰ کے زیادہ نزدیک ہے اور الله سے ڈرتے رہو جو کچھ تم کرتے ہو بے شک الله اس سے خبردارہے-
جناب، میرے غلط تراجم کی اصلاح تو کردیں۔
 

غازی

رکن
شمولیت
فروری 24، 2013
پیغامات
117
ری ایکشن اسکور
183
پوائنٹ
90
اس سے وہی بات ثابت ہے کہ فطر سے روایت کرنے والوں میں ابو شھاب شامل نہیں کیونکہ فطر کوئی غیر معروف راوی نہیں ہے اور ابو شھاب کا اس سے روایت کرنے والوں میں نام بھی نہیں ہے اگر فہرست کا نقل کرنا فضول ہے تو ان کی نقل کی کیا وجہ ہے وہ یہی ہے کہ ان میں بتایا جاتا کہ رواۃ کا تعین اور ان کا اساتذہ اور رواۃ کے حوالے سے تعلق موجود تھا وگرنہ اسی روایت میں اپ ابو شھاب اکبر لیں گے یا ابو شھاب اصغر لیں گے اس کا تعین ہی مشکل ہے کیونکہ فطر نے کس سے روایت کی ہے دوںوں ابوشھاب کا اس کے تلامذہ کی فہرست میں نہ ہونا ہی اس تعین میں مشکل پیدا کرتا مگر چوں کہ البانی صاحب نے اس کو ابو شھاب اکبر کہا ہے مگر اس کی کوئی دلیل انہوں نے بھی پیش نہیں کی ہے اس لیے میں یہی عرض کر رہا ہے کہ فطربن خلیفہ کے روایت کرنے والوں میں ابوشھاب نہیں ہے ہاں ابو شھاب اکبر کے رواۃ میں مجاہد ضرور شامل ہیں کہ ابو شھاب نے مجاہد سے روایات نقل کی ہے اور بلواسطہ سمع کیا ہے اور درمیان میں فطر موجود نہیں ہے۔ اس لیے میرے نذدیک یہ ایک علت ہی گنی جائے گی وگرنہ ان فہرست پیش کرنے کا کوئی فائدہ ہی نہیں جو جس سے چاہے روایت کر دے چاہے اساتذہ میں شامل ہو نہ تلامزہ میں۔
آپ کی بات واضح نہیں ہے۔ کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ یہاں پرابوشہاب کوئی مجہول راوی ہے؟
یا یہ کہنا چاہتے ہیں یہاں ابوشہاب اصغرہے یااکبر اس کی تعیین کی دلیل نہیں ہے؟
آپ اپنی رائے واضح کریں تاکہ آپ کوجواب دیاجاسکے۔

دوسری بات یہ کہ راوی کے تعین میں صرف استاذوں اور شاگردوں کی فہرست ہی نہیں دیکھی جاتی ہے۔بلکہ اوربھی بہت ساری چیزیں دیکھی جاتی ہیں۔اس لئے استاذ اورشاگرد ہونے کا کسی نے ذکرنہیں کیا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ استاذاورشاگرد نہیں ۔
اوراگر استاذی اورشاگردی کے عدم ذکر سے آپ استاذی اورشاگردی کی نفی کررہے ہیں تو کیا آپ کا یہ اصول صرف اسی روایت میں ہے یا ہرروایت میں جہاں دوراوی کے بیچ استاذی اورشاگردی کاتذکرہ نہ ملے وہاں آپ اس چیزکوروایت میں علت سمجھیں گے ؟اگرآپ کا یہ نرالااصول ہے تو اس کی ہی وضاحت کردیں۔اورپھرائمہ حدیث سے اس کے دلائل ذکرکردیں۔


دوسری بات میں نے اپ کو طبرانی الاوسط سے صحیح سند سے روایت پیش کی تھی جس سے ملک عضوضا کا تعین ہوتا ہے اور جس سے اس روایت کہ ملک رحمہ کے تغیر ہونے کی دلیل ہے اب اس کے رواۃ بمع سند پیش کر دیتا ہوں تاکہ اپ کو معلوم ہو کہ ملل عضوض والی روایت ہی صحیح ہے ملک رحمہ سے کسی بھی ائمہ اور محدث نہیں لیا ہے۔فلحال سند مع رواۃ کی تحقیق کے پیش ہے۔
حدثنا محمد بن جعفر بن أعين ثنا أبو بكر بن ابي شيبة ثنا زيد بن الحباب ثنا العلاء بن المنهال الغنوي حدثني مهند القيسي وكان ثقة عن قيس بن مسلم عن طارق بن شهاب ع
(6/345)
ن حذيفة بن اليمان قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم إنكم في نبوة ورحمة وستكون خلافة ورحمة ثم يكون كذا وكذا ثم يكون ملكا عضوضا يشربون الخمور ويلبسون الحرير وفي ذلك ينصرون إلى أن تقوم الساعة (الطبرانی الاوسط رقم 6581)
محمد بن جعفر بن أعين

خطیب بغدادی نے اس کو ثقہ کہا ہے (تاریخ بغداد)
أبو بكر بن ابي شيبة
وقال الْعَجَلِيّ، وأَبُو حَاتِم، وابن خراش 1: 2 ثقة، زاد الْعَجَلِيّ: وكَانَ حافظا للحديث

زَيْد بن الحباب بن الريان

وقال 1 عُثْمَان بْن سَعِيد الدارمي، عَنْ يَحْيَى بْن معين 1: 2 ثقة وكذلك، قال علي بْن الْمَدِينِيّ، وأَحْمَد بْن عَبْد اللَّهِ العجلي
حْيَى بْن معين 1: 2 كَانَ يقلب حديث الثوري ولم يكن بِهِ بأس
بُو دَاوُد: سمعت أَحْمَد 1 قال: 2 زَيْد بْن حباب كَانَ صدوقا وكان يضبط الألفاظ عَنْ معاوية بْن صَالِح ولكن كَانَ كثير الخطأ
أَبُو حاتم 1: 2 صدوق صَالِح


العلاء بن المنهال الغنوي
ابو زرعہ الرازی ثقہ ( الضعفاء ابو زرعہ الرازی)
امام العجلی قال ثقہ الثقات الجرح التعدیل ابن ابی حاتم ترجمۃ 1287)
مهند القيسي وكان ثقة

و القاسم الطبرانيثقة
2أبو حاتم بن حبان البستيذكره في الثقات وقال: يروى عن الكوفيين قيس بن مسلم وغيره، روى عنه زيد بن الحباب
3ابن حجر العسقلانيثقة
4العلاء بن المنهالثقة


قيس بن مسلم

صَالِح بْن أَحْمَد، عَنْ أَبِيهِ 1: 2 ثقة في الحديث

طارق بن شهاب البجلي
له رؤية

اس کی سند ملک رحمہ والی سند سے بہتر اور اصح ہے "
ماشاء اللہ !
کیا زودار تحقیق ہے!
جناب ! اس روایت کی صحت سے کس کو انکار ہے؟ پھرکیوںآپ اس کے راویوں کی توثیق پیش کرکے خواہ مخواہ اپنا وقت بربادکررہے ہیں۔
اس روایت میں چوتھے دورمیں ملک عضوض کا ذکر ہے۔نہ کہ تیسرے دور میں اوراس سے کسی کو انکار نہیں ۔

ثم يكون كذا وكذا" اس کے معنی جو اپ نے کیے ہیں کہ ملک رحمہ ہے کسی طرح بھی نہیں ہو سکتے ہیں اس کے معنی وہ دور ہے جس میں حسن رضی اللہ عنہ اور معاویہ رضی اللہ عنہ کے صلح کا دور ہے جس کے بعد ملک عضوض آئی ہے
یعنی آپ کے حساب سے حسن رضی اللہ عنہ کادور خلافت کادور نہیں ہے؟بلکہ یہ( ثم کذاوکذا )والادورہے؟
آپ کی بات کا کوئی سرپرہے یا ایسے ہی جومن میں آیا بولتے چلے گئے؟
آپ کی اس بھونڈی تشریح سے تو حسن رضی اللہ عنہ کا دوربھی خلافت کےدور میں شمار نہیں ہوتا۔
آل سباء کے ساتھ یہی مصیبت ہوتی ہے کہ وہ بنوامیہ پربھونکتے بھونکتے اہل بیت پربھی شروع ہوجاتے ہیں؟

اچھا اگر یہ مان بھی لین کہ (ثم کذاوکذا)والادور حسن رضی اللہ عنہ کا دورہے تو اس بات کی کیادلیل ہے کہ صلح کے بعدیہ دور ختم ہوگیاِ؟
اگردورنبوت کے بعددوسرے دور یعنی دورخلافت میں ایک سے زائد صحابہ کی حکومت شامل ہوسکتی توپھر تیسرے دور(ثم کذاوکذا)میں ایس سے زائد لوگوں کی حکومت کیوں شامل نہیں ہوسکتی ؟

اور میری بات کی تائید مسند احمد والی روایت اور اکابرین آئمہ سے ہوتی ہے اس میں سے چند حوالے پیش کے جنہوں نے معاویہ رضی اللہ عنہ کی حکومت کو اس حدیث کے تحت ملک عضوض ہی مانا ہے۔
چنانچہ مسند احمد کی روایت میں موجود ہے کہ
تكون النبوة فيكم ما شاء الله أن تكون , ثم يرفعها الله إذا شاء أن يرفعها
ثم تكون خلافة على منهاج النبوة , فتكون ما شاء الله أن تكون , ثم يرفعها إذا
شاء أن يرفعها , ثم تكون ملكا عاضا(سلسلہ احادیث الصحیحۃ رقم 5)
اور خلافت کب تک رہے گی اس کی دلیل سفینہ رضی اللہ عنہ والی روایت ہے
الخلافة ثلاثون سنة , ثم تكون بعد ذلك ملكا(سلسلہ احادیث الصحیحۃ رقم 459)
ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت اور مسند احمد کی حذیفہ رضی اللہ عنہ والی اس روایت میں معنوی طورپر کوئی تضاد نہیں ہے کیونکہ حذیفہ رضی اللہ عنہ کی یہ روایت طبرانی میں جسے آپ صحیح کہہ رہے اس میں ملک عضوض سے قبل (ثم یکون کذاوکذا)کا دور اجمالی طور پر مذکور ہے ۔اوراسی کی صراحت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت میں ملک رحمۃ سے ہے ۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ حذیفہ رضی اللہ عنہ کے ایک طریق میں راوی نے اختصارکرتے ہوئے تیسرے دور یعنی ملک رحمہ اللہ کا تذکرہ نہیں کیا ہے ۔
ان طرح ان روایات میں تیسرے دور سے متعلق کوئی تضاد نہیں ہے۔

اوراگرآپ تضاد مانتے ہیں تو ابن عباس رضی اللہ عنہ ہی کی روایت راجح ہوگی کیونکہ اس کی سند حذیفہ رضی اللہ عنہ کی روایت کے اس طریق سے بہتر ہے جس میں ملک رحمہ اللہ کاذکر نہیں ۔نیز خود حذیفہ رضی اللہ عنہ ہی کی روایت کے دوسرے طریق میں تیسرے دور کا مجملا ذکرموجود ہے۔

اور خلافت کب تک رہے گی اس کی دلیل سفینہ رضی اللہ عنہ والی روایت ہے
الخلافة ثلاثون سنة , ثم تكون بعد ذلك ملكا(سلسلہ احادیث الصحیحۃ رقم 459)
سفینہ رضی اللہ عنہ کی اس روایت میں خلافت کے بعد ملک عضوض کاذکر کہاں ہے؟
اس میں توصرف مطلق ملک کاذکر ہے ۔اورابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت میں صراحتااسی طرح حذیفہ رضی اللہ عنہ کی روایت کے ایک طریق اجمالا یہ ذکرہے خلافت کے بعد والا یہ دور ملک رحمہ کا دور ہوگا اس لئے سفینہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں بھی خلافت کے بعد مذکور ملک سے ملک رحمہ کومراد لیا جائے گا۔


(1) ابن کثیر فرماتے ہیں

قُلْتُ: وَالسُّنَّةُ أَنْ يُقَالَ لِمُعَاوِيَةَ مَلِكٌ، وَلَا يُقَالُ لَهُ خليفة لحديث «سفينة الْخِلَافَةُ بَعْدِي ثَلَاثُونَ سَنَةً ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا عَضُوضًا» .( البدایہ الالنھایہ ترجمہ معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ)

(2) حافظ ابن حجر فرماتے ہیں۔
أخبر به عن الحسن حيث قال: «إنّ ابني هذا سيّد وسيصلح اللَّه به بين فئتين عظيمتين من المسلمين» [ (1) ] .
وهكذا أصبحت الخلافة ملكا عضوضا على يد معاوية الّذي ورثها لابنه اليزيد، وأجبر الناس على بيعته في حياته حتى لا ينازعه في ملكه منازع من بعده.
ولسنا نقول بأن الخبر الّذي قاله النّبي صلّى اللَّه عليه وسلم عن الملك العضوض حين يفيد انتقاصا من قدر الملوك فإنه غالبا ما يكون فيهم الحزم والكياسة إلى جانب الشّدة والعنف۔(الاصحابہ فی التمیز الصحابہ جلد 1 ص 64 جھود الخلفائ راشدین نشر)
اب کیا کہیں گے یہ اہل سنت کے اکابرین میں سے ہیں جو معاویہ رضی اللہ عنہ کی حکومت کو ملک عضوض فرما رہے ہیں مگر اور یہ چند حوالے ہیں میرے پاس پوری فہرست موجود ہے جن کو اگر یہاں لکھ دوں تو اہل سنت کہ پاس کم ہی ایسے آئم ہوں گے جنہوں نے ملک عضوض نہ کہا ہو

میرے خیال سے اپ اوپر یہ سب پڑھ ہی آئے ہوں گے یہ چند اقوال ہیں
ان ائمہ نے تمام روایات کو ایک ساتھ رکھ کرتبصرہ نہیں کیا ہے ۔اس لئے صحیح اور صریح روایات کے خلاف ان کا تبصرہ بے دلیل ہے۔
آپ نے ابن کثیر اورابن حجررحمہ اللہ کے نام پیش کئے ہیں ۔
یہ دونوں ائمہ یزید کو جیش مغفور والی حدیث کا مصداق بتلاتے ہیں کیا آپ کوان ائمہ کی یہ بات بھی قبول ہے؟

اب اپ نے کہا کہ فطر کے حوالے سے ابن القطان کا قول صحیح سند سے پیش کریں
ابن القطان کا قول علی ابن المدینی سے امام سخاوی نے نقل کیا ہے اور وہ ان کی کسی کتاب سے نقل کیا ہو گا اس لیے اس کی سند پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے ورنہ تو اپ کو اپنی سند البانی صاحب تک پیش کرنی پڑے گی۔
آپ اسی بات کودلائل اورقرائین سے ثابت کردیں کہ سخاوی نے یہ بات ابن المدینی کی کتاب سے نقل کی ہے۔


آپ نے کہا کہ اس سے بھی فطر کا مدلس ہونا ثابت نہیں ہوتا تو میں عرض کروں کہ تیسرے درجے کے مدلس کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے سماع کی تصریح کرے جبکہ فطر کے بارے میں یہ لکھا ہے کہ اس کا قول ثناء کا بھی اعتبار نہیں ہے اس لیے امام سخاوی نے فطر کے بحث تدلیس تسویہ کے تحت نقل کیا ہے اور مسفر الدمینی نے بھی اس کو تدلیس تسویہ میں لیا ہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں۔
و اذن فتدلیسہ شدید، بل ربما صرح بالتحدیث فیما لم یسمعہ، و کانہ خص ما سمعہ بقول سمعت، واراہ من اھل المرتبہ الثالثہ
تدلیس تسویہ کاالزام کسی نے نہیں لگایا ہے آپ کو عربی سمجھنے میں دشواری ہے۔
تدلیس کاالزام جس نے لگایاہے وہ بھی ثابت نہیں۔گرچہ ابن القطان کا قول ثابت مان لیں۔کیونکہ ابن القطان نے بھی تدلیس کاالزام نہیں لگایاہے۔

اب اخر میں البانی صاحب کے حوالے سے جو اپ نے لکھا ہے اس پر یہ عرض ہے کہ ہماری بحث اس پوری روایت کے صحیح ہونے پر نہیں چل رہی بلکہ اس خاص لفظ پر محیط ہے
اس خاص لفظ کوبھی علامہ البانی نے ضعیف نہیں کیا ہے ۔صرف آپ کہہ رہے جو بے دلیل ہے۔

س روایت میں ایک روای ابو شھاب جس نے یہ روایت منفرد کی ہے کہ ملک رحمہ کے لفظ ان قسم کی کسی صحیح روایت میں نہیں ہے
اولا یہ منفرد نہیں ہے معنوی طور پردوسری روایات میں بھی اس کاذکرہے۔
اوراگرمنفرد ہے تو بھی اس کاانفراد قبول ہے آپ کے پاس اس انفراد کے رد کرنے کی کوئی دلیل نہین ہے۔


اور النفیلی کے بارے میں تغیر کی بات موجود ہے
تغیر کے بعدروایت کرنا ثابت نہیں اس لئے یہ حوالہ بے کار ہے۔


اور اس روایت سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ اس سے اس روایت کے ان الفاظ میں غلطی لگی ہے کیونکہ تغیر کا امکان موجود ہے
غلطی کا کوئی ثبوت نہیں صرف آپ کا بے دلیل دعوی ہے۔


اور یہ اصول ہے کہ دو روایات میں سے اصح کے الفاظ لیے جاتے ہیں اور صواب یہی ہے کے ملک عضوض کے الفاظ ذیادہ صحیح ہیں
اصح روایت تو ملک رحمہ والی ہے ۔اس لئے آپ ہی کے اصول سے ملک رحمہ کے ذکر سے خالی ملک عضوض والی روایت ضعیف ہے۔

کیونکہ محدثین اور آئمہ نے بھی ملک عضوض کے الفاظ کو ہی ترجیح دی ہے واللہ اعلم۔
ملک عضوض کے ثبوت سے کسی کو انکارنہیں لیکن ملک عضوض کادور ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت اور حذیفہ رضی اللہ عنہ کی روایت کے بھی ایک طریق سے ملک رحمہ کے بعد کادور ہے۔
اب آپ یہ بتائیں کہ ملک رحمہ والی روایت کو کس محدث نے ضعیف کہاہے؟
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top