بسم الله الرحمن الرحیم
امابعد !
غلط فہمی : "اس حدیث کے الفاظ ہی اس مفہوم سے اباحت کرتے ہیں جو بعض لوگ پیش کرتے ہیں اس میں دو گروہ کا ذکر ہے ایک کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس پر جنت واجب ہے جبکہ دوسرے گروہ کے بارے میں فرمایا کہ وہ مغفور لھم ہوں گے اگر دونوں گروہ پر جنت واجب ہے جیسا اس سے سمجھا گیا ہے تو پھر دونوں کے بارے میں " قَدْ أَوْجَبُوا" کے الفاظ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان اقدس سے جاری ہوتے کیونکہ دونوں کو جنت کی بشارت دی گئی مگر ایک میں قَدْ أَوْجَبُوا اور دوسرے میں مَغْفُورٌ لَهُمْ کہا گیا ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دونوں میں فرق ہے اور اس میں فرق یہی ہے کہ ایک پر جنت واجب قرار دی گئی ہے کہ یہ جنتی گروہ ہے اور دوسرے کے پچھلے گناہوں کی معافی کا اعلان ہے "
ازالہ : جناب یہ آپ کی اپنی سوچ کی پیدا وار ہے ۔
کیونکہ جو بخش دیئے گئے ہیں وہ کہاں جائیں گے ؟؟؟
جن کی مغفرت ہو تو وہ جنت میں ہی جائیں گے ۔
اگر آپ کی سوچ کو سامنے رکھ کر غور کیا جائے تو پھر (((قَدْ أَوْجَبُوا ))) سے پہلے اور بعد میں جنت کا لفظ نہیں ہے تو پھر ان پر کیا واجب ہوئی ؟؟؟
یہ آپ کی کم علمی ہے کہ (((مَغْفُورٌ لَهُمْ ))) کو جنت سے باہر نکال رہے ہیں ۔
اللہ ربّ العالمین جس کو بخشش عطاء فرمائے تو اس کا ٹھکانہ سوائے جنت کے اور کیا ہو سکتا ہے ۔
باقی آپ کا دوسری روایت کے ان الفاظ(((نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو ثنیہ المرار کی گھاٹی پر چڑھے گااس کے گناہ اس طرح ختم ہو جائیں گے جس طرح بن اسرائیل سے ان کے گناہ ختم ہوئے تھے ))) سے یہ قیاس کرنا کہ بنی اسرائیل سے مراد سارے زمانوں کے بنی اسرائیل ہیں تو یہ کسی صورت بھی صحیح نہیں ۔
یہ اس وقت کے ان لوگوں کے بارے میں ہے جو ایمان لائے نہ کہ تمام زمانوں کے بنی اسرائیل کے لیئے ہے ۔
بنی اسرائیل نے بہت ہی زیادہ گناہ کیئے تھے بہت تاویلیں اور اپنی پسند سے اللہ تعالیٰ کے احکام بدل دینا ، حیلہ سازی سے حرام کو حلال کر دینا ، جیسے شرکیہ کام کا بھی بخش دیا جانا ، اللہ تعالیٰ کی بے حد مہربانی اور رحم ہے ۔
تو جناب یہ مبالغہ کا فقرہ ہے یعنی بنی اسرائیل کے بہت زیادہ اور بڑے گناہ بخش دیئے گئے تھے ۔
جب وہ ایمان لے آئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو معاف کر دیا ۔
اللہ تعالیٰ کی بخشش کے بعد وہ کہاں جائیں گے ؟ ؟؟
ظاہر ہے کہ جس سے اللہ تعالیٰ راضی ہو تو وہ جنت میں ہی جائے گا ۔
لہذا یزیدؒ بن معاویہ رحمۃ اللہ علیہ کے لیے جنت کی بشارت صحیح ہے
اسحاق ، بن یزیدد مشقی، یحیی بن حمزہ، ثور بن یزید، خالد بن معدان، عمیر بن اسود، عنسی سے روایت کرتے ہیں کہ وہ عبادہ ؓبن صامت کے پاس گئے جب کہ وہ ساحل حمص میں اپنے ایک محل میں تھے، اور ان کے ہمراہ ان کی بی بی ام حرامؓ بھی تھیں۔ عمیر کہتے ہیں کہ ہم سے ام حرام ؓ نے بیان کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری اُمت کاسب سے پہلا لشکر جو سمندر میں سفر کر کے جہاد کے لیئے جائے گا ، ان کے لیے (جنت ) واجب ہو گئی ۔ ام حرام ؓ کہتی تھیں، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں انہیں میں سے ہو جاؤں تو فرمایا تم انہیں میں ہو، ام حرام ؓ کہتی تھیں، کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت میں سب سے پہلے جو لوگ قیصر(رومیوں کے بادشاہ) کے شہر (قسطنطنیہ )میں جہادکریں گے، وہ مغفور ہیں(یعنی ان سب کی مغفرت ہو چکی ) میں نے عرض کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا میں ان لوگوں میں سے ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں۔
(صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 193)
محمودؓ بن ربیع بیان کرتے ہیں ۔۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے مشہور صحابی ابوایوب انصاریؓ بھی موجود تھے ۔
یہ روم کے اس جہاد کا ذکر ہے جس میں ابوایوب انصاریؓ کی وفات ہوئی تھی ۔ فوج کے سپاہ سالار یزیدؒ بن
معاویہؓ تھے ۔
(صحیح بخاری کتاب التہجد باب صلوٰۃ النوافل جماعۃ )
یہ دونوں رویتیں صحیح بخاری کی ہیں جن کی حیثیت گھٹانے کے لیئے ایسے اعتراض کیئے جاتے ہیں ۔
(نوٹ : آپ نے جو صحیح مسلم کا حوالہ دیا ، تو آپ کی درج کردہ حدیث اس نمبر پر نہیں ہے بلکہ وہاں کوئی اور ہے ، اس کی تصحیح بھی کر لیجیے )
الله تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حق بات کو پڑھنے ، سمجھنے ، اسے دل سے قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے !
آمین یا رب العالمین
والحمدللہ ربّ العالمین