• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

انبیاء اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور نماز پڑھتے ہیں روایت کی تحقیق

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
محترم دوستو پہلے تو بالعموم سب سے یہ گذارش ہے کہ جب ہم اس پر متفق ہیں کہ انبیا کو حیات حاصل ہے تو اس سے آگے بڑھنے کی ضرورت نہیں کہ حیات دنیاوی ہے یا کہ برزخی۔۔۔ دونوں صورتوں میں رہنمائی تو ہم نے قرآن و سنت سے ہی لینی ہے ۔۔۔
دوسری بات ارسلان صاحب اور رضا میاں سے ہے کہ جناب حدیث کے نام پر حدیث کا انکار مت کیجئے جب آپ موسٰی علیہ السلام کا قبر میں نماز پڑھنا تسلیم کرتے ہیں تو کیا اس حدیث سے (الأنبياء أحياء في قبورهم يصلون) والی حدیث ثابت نہیں ہوجاتی چاہے آپ کے بقول راوی ضعیف ہوں۔۔۔ کمال ہے کہ شیخ البانی جب صحاحِ ستہ کی احادیث کو ضعیف کہیں تب تو آپ لوگ مان لیں مگر جب آپ کے نظریہ کے خلاف ہوں تو پھر کیا شیخ البانی ، کیا شیخ محمد بن عبد الوھاب، کیا شیخ شاہ ولی اللہ ، کیا شیخ ابن قیم، کیا ابن جوزی اور کیا شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمھم اللہ علیہم اجمعین اور خیرالقرون کے سلف سبھی چھوٹے اور غلط ہوجاتے ہیں اور توصیف الرحمان اور زبیر علی زئی وغیرہ جیسے لوگ علم حدیث کے ابطال بن جاتے ہے ۔۔ سبحان اللہ ۔۔۔ جو چاہے تیرا حسنِ کرشمہ ساز کرے۔۔۔۔۔
سلفی ہونے کا دعوٰی بھی ہے اور سلف پر اعتماد بھی نہیں ۔۔۔
اللهمّ أرِنا الحقّ حقاً وارزُقنا اتّباعه, وأرِنا الباطِل باطِلاً وارزُقنا اجتنابَه, ولا تَجعله مُلتَبساً عَلينا فنضلّ, واجعَلنا للمتّقين إماما
@اسحاق سلفی بھائی کیا کہیں گے آپ یہاں -
 
شمولیت
ستمبر 15، 2018
پیغامات
164
ری ایکشن اسکور
43
پوائنٹ
54
انبیاء اپنی قبور میں زندہ ہیں اور نمازیں پڑھتے ہیں یہ روایت جمہور محدثین کی تعدیل کی وجہ سے صحیح ہے ۔ اس پر جس کسی کو اعتراض ہے تو میرے ساتھ بات کر سکتا ہے ۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
اس سے تو کہیں بہتر هے کہ جو آپ نے سمجها هے اسے پیش کر دیتے ۔ یہاں همارے عزیز ساتهی محترم اشماریہ بهایئی کا مراسلہ هے اور اس مراسلہ پر محترم باقر صاحب سوالات سے پر جوابی مراسلہ هے ، غالبا آپ نے فریقین کے مراسلات کو اول صفحہ سے آخری صفحہ تک ضرور پڑها هوگا ۔ آپ بهی اپنا نقطہ نظر سامنے رکهیں ۔ اب کسی کو اعتراض هوگا یا اختلاف هوگا یہ تو هر معاملہ میں هے اور رهیگا ۔
 
شمولیت
ستمبر 15، 2018
پیغامات
164
ری ایکشن اسکور
43
پوائنٹ
54
میں صرف اس روایت کی سند پر تحقیقی بحث کرنے کا کہا ہے ۔۔ کیونکہ اس روایت کا متن سے کیا مراد ہے اس سے غرض نہیں ۔ ہمارے سامنے نبی کی حدیث ہے کہ انبیاء اپنی قبور میں زندہ ہیں اور نماز ادا کرتے ہیں ۔۔ یہ روایت بالکل صحیح ہے ۔ اس روایت کی سند پر کسی کو اعتراض ہے تو پیش کرے ۔ ان شاءاللہ اسکا جواب دیا جائے گا ۔۔۔۔ کیونکہ اس ٹاپک کا نام اس حدیث کی تحقیق ہے اور اندر بحث الجھی ہوئی ہے ۔۔۔ اس سند پر جو اعتراض ہیں کسی بھی غیر مقلد صاحب کی نظر میں تو پیش کریں اور اپنا فیصلہ بھی بتائیں کہ انکی نظر میں یہ روایت کیا ہے ؟
 

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
71
انبیاء اپنی قبور میں زندہ ہیں اور نمازیں پڑھتے ہیں یہ روایت جمہور محدثین کی تعدیل کی وجہ سے صحیح ہے ۔ اس پر جس کسی کو اعتراض ہے تو میرے ساتھ بات کر سکتا ہے ۔
اس حوالے سے ایک تحریر اپ کی نظر کر رہا ہوں

الانبیاء احیاء فی قبر وھم یصلون '' ''انبیاء اپنی قبروں حیات ہیں اور نماز پڑھتے ہیں ''(مسند ابی یعلی رقم
مسند البزار 6888،حیاۃ الانبیاءللبیہقی رقم 1) ,٣٤١٢
یہ روایت صحیح ہے مگر اس میں ہماری بحث کا محور وہ لفظ "احیاء" ہے جو صرف مسند ابی یعلی میں صحیح سند سے نقل ہوئے ہیں اس کے تمام رواۃ ثقہ ہیں صرف ابو جھم الارزق بن علی ہے جس کے بارے میں حافظ ابن حجر فرماتے ہیں صدوق یغرب سچا ہے مگر غریب روایات نقل کرتا ہے اور اس کی متابعت میں جو روایت ملتی ہے ہے جس کو ابو نعیم نے تاریخ اصبہان میں نقل کیا ہے اس میں احیاء کے الفاظ موجود نہیں ہیں اور اس کے علاوہ جن روایات میں احیاء کے الفاظ موجود ہیں وہ سب ضعیف سند سے نقل ہوئی ہیں اس لئے میرے نذدیک لفظ "احیاء" غریب ہے جو الارزق بن علی سے نقل ہوا ہے جو کہ تاریخ اصبہان میں موجود نہیں ہے اس کے الفاظ یہ ہیں "الانبیاء فی قبورھم یصلون " میرے اس موقف کی تائید ذیل میں دی گئی حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روح کو سلام کے لئے لوٹائے جانے کا ذکر ہے (یہ روایت اس کے بعد نقل کی گئی ہے) چنانچہ یہ احیاء کا لفظ صحیح حدیث کے بھی متضاد ہے اور روایت کی تائید میں موجود حدیث بھی اس کی نفی کرتی ہے بعض یہ اعتراض بھی کر سکتے ہیں کہ نماز زندگی کے بغیر کیسے ممکن ہے تو عرض یہی ہے کہ جس طرح برزخی حیات کو دونیاوی حیات پر قیاس نہیں کیا جاسکتا ہے بالکل اسی طرح اس نماز کو بھی عام نماز کی طرح نہ سمجھا جائے وہ کیا نماز ہے جو الانبیاء پڑہتے ہیں اس کا ادراک عقل نہیں کرسکتی ہے یہ تمام برزخی معاملات ہیں اس میں قیاس اور اندازے نہیں ہوتے صرف ایمان لانا ہوتا ہے واللہ اعلم

 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
نماز زندگی کے بغیر کیسے ممکن ہے تو عرض یہی ہے کہ جس طرح برزخی حیات کو دونیاوی حیات پر قیاس نہیں کیا جاسکتا ہے بالکل اسی طرح اس نماز کو بھی عام نماز کی طرح نہ سمجھا جائے وہ کیا نماز ہے جو الانبیاء پڑہتے ہیں اس کا ادراک عقل نہیں کرسکتی ہے یہ تمام برزخی معاملات ہیں اس میں قیاس اور اندازے نہیں ہوتے صرف ایمان لانا ہوتا ہے
محترم
اس بارے میں وضاحت فرمائیے گا کہ دنیا دارلعمل ہے اور آخرت دارلجزاء ۔ آپ نے کہا کہ برزخ کی نماز کو عام نماز نہ سمجھا جائےاور دنیا کی نماز پر قیاس نہ کیا جائے لیکن اس کا شمار تو عبادت میں یہ ہوگا اوریہ تو اللہ کے بنائے ہوئے قانون کے خلاف ہے ۔ اور اگر اس کا فائدہ ہے تو یہ فائدہ صرف انبیاء کے لئے مخصوص ہے یا امتی بھی اس سے فیض حاصل کرسکتے ہیں ۔کیونکہ ایک عام امتی کو اس کی زیادہ ضرورت ہے ۔پھر اس کو کس زمرے میں رکھیں گے۔
 

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
71
محترم
اس بارے میں وضاحت فرمائیے گا کہ دنیا دارلعمل ہے اور آخرت دارلجزاء ۔ آپ نے کہا کہ برزخ کی نماز کو عام نماز نہ سمجھا جائےاور دنیا کی نماز پر قیاس نہ کیا جائے لیکن اس کا شمار تو عبادت میں یہ ہوگا اوریہ تو اللہ کے بنائے ہوئے قانون کے خلاف ہے ۔ اور اگر اس کا فائدہ ہے تو یہ فائدہ صرف انبیاء کے لئے مخصوص ہے یا امتی بھی اس سے فیض حاصل کرسکتے ہیں ۔کیونکہ ایک عام امتی کو اس کی زیادہ ضرورت ہے ۔پھر اس کو کس زمرے میں رکھیں گے۔
محترم،
آپ دوبارہ آخروی معاملات کو دنیاوی معاملات پر قیاس کر رہے ہیں عبادات پر اجر و ثواب دنیاوی معاملات ہیں اورآخرت کے معاملات اس سے الگ ہیں ان کا اس عقل سے ادرک ناممکن سی بات ہے اس کی چھوٹی سی مثال ہے کہ جنت میں جنتی شراب سے لطف اندوز ہوں گے مگر کیا جنت کی شراب کو ہم دنیا کی اس شراب پر قیاس کر سکتے ہیں جوکہ حرام ہے ۔
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
محترم
جہاں تک میرا علم ہے برزخ دنیا اور آخرت کے درمیان کی جگہ ہے ۔اور میرا سوال لاجک کے حساب سے ہے ۔کیا مرنے کے بعدعالم برزخ میں کوئی عمل درجات بلند کرسکتا ہے اور کوئی عمل گناہ بڑھا سکتا ہے ۔؟
کیا نماز عبادت نہیں ہے ۔؟اللہ رب العزت نے اپنے پاک کلام میں کہا ہے کہ
"دنیا میں اپنے کو بڑا سمجھنے کی وجہ سے، اور ان کی بری تدبیروں کی وجہ سے اور بری تدبیروں کا وبال ان تدبیر والوں ہی پر پڑتا ہے، سو کیا یہ اسی دستور کے منتظر ہیں جو اگلے لوگوں کے ساتھ ہوتا رہا ہے۔ سو آپ اللہ کے دستور کو کبھی بدلتا ہوا نہ پائیں گے، اور آپ اللہ کے دستور کو کبھی منتقل ہوتا ہوا نہ پائیں گے۔"
میری گفتگو کا دارومدار یہی ہے کہ اللہ نے جو ضابطے بنائے ہیں ان کے تحت دنیا ہی دارلعمل ہے ۔لہذا مرنے کے بعد کسی کا کوئی عمل کرنے کا جواز اس ضابطے کے تحت تو نہیں ملتا ہے ۔
 
شمولیت
اگست 16، 2017
پیغامات
112
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
55
قبر میں حیات النبی کے قائلین کچھ روایات پیش کرتے ہیں
امام ابویعلی فرماتے ہیں کہ ہم سے ابو الجہم الا زرق بن علی نے بیان کیا ۔ وہ فرماتے ہیں ہم سے یحییٰ بن ابی بکیر نے بیان کیا۔ وہ فرماتے ہیں کہ ہم سے مستلم بن سعید نے بیان کیا۔ وہ حجاج سے اور وہ ثابت بنانی سے اور وہ حضرت انس بن مالک سے روایت کرتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا الانبیاء قبروں میں زندہ ہیں نماز پڑھتے ہیں

( شفاالسقام ص134) حیات الانبیاء للبیہقی، خصائص الکبری جلد 2ص281، فتح الباری جلد6ص352، فتح الملہم جلد1ص349،۔ ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں و صححہ البیہقی امام بیہقی نے اس کی تصدیق کی ہے۔ فتح الباری جلد ۶ ص352علامہ ہیثمی فرماتے ہیں ابویعلی کی سند کے سب راوی ثقہ ہیں۔ علامہ عزیزی لکھتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے۔ ملا علی قاری لکھتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے۔ شیخ عبد الحق محدث دہلوی کہتے ہیں امام ابو یعلی ثقہ راویوں سے انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں۔ مدراج النبوة جلد2ص440، جذب القلوب ص180۔
اصلا روایت ضعیف ہے کیونکہ اس کا راوی حجاج غیر واضح ہے انہی میں سے بعض لوگوں نے جن کے نام اوپر لکھے ہیں اس کو اپنی کتابوں میں بیان کیا ہے مثلا لسان المیزان از ابن حجر میں راوی کا نام الگ ہے اور فتح الباری میں الگ ان سب کے نزدیک اس راوی کا نام الگ الگ ہے اور اس کا سماع واقعی ثابت البنانی سے ہے ثابت نہیں ہے- سب سے پہلے اسکی تصحیح امام البیہقی نے کی ہے اس پر تفصیلا بحث سوالات کے سیکشن میں ہے
 
Top