حافظ طاہر بھائی۔ میرے پاس شاید یہاں مستقل حاضری اور بحث کا وقت نہ ہو۔
ایک نکتہ عرض کر کے چلا جاتا ہوں۔
1: حیات میں اصل اس جسم کو حیات حاصل ہونا ہے جو کہ ہمارے پاس ہے۔ کیوں کہ یہ کم از کم دنیا میں مشاہدہ سے ثابت ہے۔ اس لیے جب قبر میں حیات کا کہتے ہیں تو متبادر فی الذہن یہی جسم آتا ہے۔
دلیل خلاف ظاہر پر ہوتی ہے۔ چناں چہ دلیل اس پر ہونی چاہیے کہ حیات تو ہے لیکن جسم سے اس حیات کا کوئی تعلق نہیں۔ اور اس کے لیے الگ سے جسد مثالی دیا جاتا ہے۔
یعنی سوال قائلین ممات النبی ﷺ سے ہونا چاہیے دلیل کا نہ کہ قائلین حیات سے۔
2: حیات انبیاء حیات شہداء کی آیت سے بطریق دلالۃ النص ثابت ہے۔
ولا تقولو لمن یقتل فی سبیل اﷲ اموات بل احیاء ولکن لا تشعرون
یہاں قتل جسم کو کیا جا رہا ہے، اموات جسم کو کہا جا رہا ہے تو ظاہر ہے کہ احیاء بھی جسم کو ہی کہا جا رہا ہے۔
اگر احیاء صرف روح کو کہا جا رہا ہے اور اس روح کا جسم سے کوئی تعلق نہیں تو ارواح تو کفار کی بھی زندہ ہوتی ہیں۔ پھر شہداء کی تخصیص کا آخر کیا فائدہ ہے؟؟؟
یہاں ایک اہم چیز کی وضاحت کر دوں کہ حیات انبیاء یا شہداء سے عموما یہ مراد ہوتا ہے کہ ارواح اپنے مقام پر ہیں جیسی کیفیت میں انہیں اللہ تعالی نے رکھا ہے اور جسم سے ان کا تعلق اور ربط ہے۔
اس صورت میں وہ روایات بھی منطبق ہو جاتی ہیں جن میں ارواح کو رزق دیے جانے کا ذکر ہے اور وہ آیات بھی جن سے جسم کی زندگی معلوم ہوتی ہے۔ اس حیات کو روح کے لحاظ سے دیکھیں تو یہ حیات برزخی ہے اور جسم کے لحاظ سے دیکھیں تو حیات دنیوی یا حسی ہے۔
کچھ ایسا ہی مفہوم حسنؒ سے مروی اس روایت سے بھی حاصل ہوتا ہے جو علامہ نسفیؒ نے روایت کی ہے:۔
عن الحسن رضى الله عنه أن الشهداء أحياء عند الله تعرض أرزاقهم على أرواحهم فيصل إليهم الروح والفرح كما تعرض النار على أرواح آل فرعون غدواً وعشيا فيصل اليهم الوجع
یعنی رزق ان کی ارواح پر پیش کیا جاتا اور اس کی فرحت ان تک (یعنی اجساد تک) پہنچتی ہے۔
میری اس موضوع پر زیادہ تحقیق نہیں ہے۔ واللہ اعلم
محترم اشماریہ شاہ صاحب :
محترم اپنی آخری بات پر توجہ کریں"
میری اس موضوع پر زیادہ تحقیق نہیں ہے" محترم جس موضوع پر تحقیق نہ ہو اس پر گفتگو نہیں کرنی چاہئیے؟ جو کچھ جناب نے لکھا اس پر چند باتیں عرض کرتا ہوں آپ کی تھوڑی توجہ درکار ہوگی ۔
جناب نے لکھا کہ
"حیات میں اصل اس جسم کو حیات حاصل ہونا ہے جو کہ ہمارے پاس ہے۔ کیوں کہ یہ کم از کم دنیا میں مشاہدہ سے ثابت ہے۔ اس لیے جب قبر میں حیات کا کہتے ہیں تو متبادر فی الذہن یہی جسم آتا ہے۔"
یہ فرمائیں کہ "قبر" کی جس حیات کے آپ قائل ہیں یہ مشاہدہ والی حیات ہے یا "غیبی پردہ "والی؟اگر"غیبی پردہ والی" ہے تو اسے "مشاہدہ دنیا والی حیات پر قیاس کیوں کرتے ہیں؟انبیا ء کرام علیہم السلام کے علاوہ کسی فرد بشر کے جسم کے محفوظ رہنے کی گارنٹی شریعت نہیں دیتی تو باقی مومنین کی حیات کس جسم کے ساتھ ہوگی؟
دوسری بات جناب ِ محترم نے یہ لکھی کہ
دلیل خلاف ظاہر پر ہوتی ہے۔ چناں چہ دلیل اس پر ہونی چاہیے کہ حیات تو ہے لیکن جسم سے اس حیات کا کوئی تعلق نہیں۔ اور اس کے لیے الگ سے جسد مثالی دیا جاتا ہے۔
یعنی سوال قائلین ممات النبی ﷺ سے ہونا چاہیے دلیل کا نہ کہ قائلین حیات سے۔
محترم : آپ جس حیات کے قائل ہیں پہلے اُس حیات کے بارے اپنا عقیدہ لکھتے کہ آپ کس حیات کے قائل ہیں ؟ جس حیات کے آپ قائل ہونگے اُس کی دلیل تو جناب کے ذمہ ہو گی نہ کے منکر کے ذمہ؟اپنا عقیدہ مکمل حیات فی القبر اور سماع فی القبر کا لکھ دیں!
یہاں ایک بات جناب نے یہ بھی لکھی کہ(سوال قائلین ممات النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہونا چاہئیے) محترم یہ فرمائیں کیا آپ نبی اکرمﷺ کی "موت" کے قائل نہیں ؟ اگر ہیں تو ممات النبیﷺ کے قائل تو آپ بھی ہوئے ؟تو پھر سوال قائلین ممات النبی ﷺ سے ہی کیوں؟
اب آپ بھی ممات النبیﷺ کے(یعنی موت) قائل اور ہم بھی ۔اختلاف ہے موت کے بعد کی حیات کا ،اس پر میرے چند سوال ہیں ان کے جواب مرحمت فرمائیں تو بعد از وفات والی حیات خود بخود طے ہو جائے گی۔
(1) آپ ﷺ پر "موت" کا ورُود "خروج"ِ روح سےہوا یا "حبسِ" روح سے؟
(2) روحِ مبارک جسمِ اقدس سے نکل جانے کے بعد کہاں قیام پزیر ہے(یعنی روح کا مستقر کہاں ہے)
(3)بعد از وفات آپ ﷺ کا جسدِ اقدس دو دن حجرہ مبارکہ میں رہا ،اس وقت جسدِ اقدس "میت" تھا ،یا زندہ؟(یعنی اس وقت جسدِ اقدس روح سے خالی تھا یا روح جسدِ اقدس میں موجود تھی؟)
(4) کیا صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو "میت" سمجھ کر دفنایا تھا؟
(5) بعد از دفن آپ ﷺ کی روحِ مبارک کس وقت جسم اقدس میں واپس آئی؟یا روح تو اپنے مُستقر میں رہی لیکن اُسکا تعلق جسمِ منور سے قائم کر دیا گیا؟اور اس تعلق کی نوعیت کیا تھی؟
(6) قرآن مجید میں بیسیوں آیات میں فرمایا گیا ہے کہ" قیامت میں ہم مردوں کو زندہ کریں گے" اگر سب قبروں والوں کی روحیں ان کے جسموں میں واپس کے کے انہیں زندہ کر دیا گیا ہے توکیا اللہ تعالیٰ قیامت میں "زندوں " کو زندہ کریں گے؟
(7) کیا جسدِ مثالی کی شریعت میں کوئی حثیت نہیں؟ کیا جناب جسدِ مثالی کے قائل نہیں؟ اور جو علماء کبار اس کے قائل ہیں اُن کیا فتویٰ صادر ہوتا ہے؟
جناب َ محترم نے یہ آیت کریمہ لکھی اور اس پر اپنا قیاس ظاہر کیا کہ جب قتل جسم کو کیا جارہا ہے تو زندہ بھی جسم ہوگا؟
: حیات انبیاء حیات شہداء کی آیت سے بطریق دلالۃ النص ثابت ہے۔
ولا تقولو لمن یقتل فی سبیل اﷲ اموات بل احیاء ولکن لا تشعرون
یہاں قتل جسم کو کیا جا رہا ہے، اموات جسم کو کہا جا رہا ہے تو ظاہر ہے کہ احیاء بھی جسم کو ہی کہا جا رہا ہے۔
اگر احیاء صرف روح کو کہا جا رہا ہے اور اس روح کا جسم سے کوئی تعلق نہیں تو ارواح تو کفار کی بھی زندہ ہوتی ہیں۔ پھر شہداء کی تخصیص کا آخر کیا فائدہ ہے؟؟؟
محترم اپنے اس قیاس پر کوئی کوئی دلیل پیش کریں ؟ یا اس آیت کریمہ کی جو تفسیر رسول اللہ ﷺ نے فرمائی ہے وہ کسی مستند تفسیر میں پڑھ لیں تو ائندہ ایسا قیاس نہیں کریں گے ۔اس آیت کریمہ کی تفسیر سے جو حیات شہداء کی ثابت ہوتی ہے وہی رسول اللہ ﷺ کی مان لیں؟
جناب نے یہ بھی لکھا کہ
یہاں ایک اہم چیز کی وضاحت کر دوں کہ حیات انبیاء یا شہداء سے عموما یہ مراد ہوتا ہے کہ ارواح اپنے مقام پر ہیں جیسی کیفیت میں انہیں اللہ تعالی نے رکھا ہے اور جسم سے ان کا تعلق اور ربط ہے۔
خیر القرون میں ایک صحابی رضی اللہ عنہ یا ایک تابعی یا تبع تابعی رحمہ اللہ تعالیٰ یا صرف ایک فقیہ،ایک مفسر،ایک محدث سے صحیح سند کے ساتھ نقل کر دیں کہ انہوں نے فرمایا ہو کہ " انبیاء کرام یا شھدائے عظام کی اروح اپنے مقام پرہیں اور ان کا تعلق جسم کے قائم کر دیا جاتا ہے؟۔
امید ہے کہ آپ میری ان معروضات پر غور کریں گے اور جواب بھی مرحمت فرمائیں گے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی ناصر ہو