lovelyalltime
سینئر رکن
- شمولیت
- مارچ 28، 2012
- پیغامات
- 3,735
- ری ایکشن اسکور
- 2,899
- پوائنٹ
- 436
یہ عجیب بات ہے کہ دواختلافی مسائل ذکر کرکے دعوی کیاجارہاہے دوتہائی کا۔
سبحان اللہ عقل ہوتوایسی
پڑھتا جا شرماتا جا
یہ عجیب بات ہے کہ دواختلافی مسائل ذکر کرکے دعوی کیاجارہاہے دوتہائی کا۔
سبحان اللہ عقل ہوتوایسی
المنخول امام غزالی کی ابتدائے شباب کی تصنیف ہے جس کی بہت سی باتوں سے انہوں نے بعد میں رجوع کرلیاتھا جیساکہ انہوں نے اس کتاب میں امام ابوحنیفہ پر سخت تنقید کی ہے حتی کہ مجتہد تک ماننے سے انکاری ہیں لیکن بعد میں ان کانقطہ نظر بدل گیا۔المنخول امام غزالی کی ابتدائے شباب کی تصنیف ہے جس کی بہت سی باتوں سے انہوں نے بعد میں رجوع کرلیاتھا جیساکہ انہوں نے اس کتاب میں امام ابوحنیفہ پر سخت تنقید کی ہے حتی کہ مجتہد تک ماننے سے انکاری ہیں لیکن بعد میں ان کانقطہ نظر بدل گیا۔یہ بات سب سے پہلے امام الحرمین نے کہی،امام الحرمین سے امام غزالی نے لی اوراس کے بعد جس نے بھی یہ بات کہی ہے کہ صاحبین نے دوتہائی مسائل میں امام ابوحنیفہ سے اختلاف کیاہے اس نے امام غزالی کی اسی بات پراندھااعتماد کیاہے۔
ابن ابی العز کا معاملہ ذرادلچسپ ہے۔ حنفی ان کے نام کاٹائٹل ضرور ہے لیکن کسی بھی حنفی فقیہہ نے ان کی کتابوں کی جانب توجہ نہیں دیا۔ طبقات احناف پر لکھی گئی کسی کتاب میں ان کا کوئی تعارف نہیں ملتا۔ اس سے واضح ہے کہ اس دور کے احناف سے لے کر تاحال علماء احناف نے ان کو خود سے الگ سمجھاہے۔ اس کے علاوہ خود کی زندگی میں ان پر داروگیر ہوئی ہے۔ جس کے حالات کتابوں میں مذکور ہیں۔ اتنے اہم مسئلہ میں ان کی بات قابل اعتماد نہیں ہوسکتی۔علاوہ ازیں لاتکاد تحصی مبالغہ کاجملہ ہے جس کو دوسو مسائل میں اختلاف پر بھی بولاجاسکتاہے، دوہزار پر بھی اوردولاکھ پر بھی۔
ان چیزوں سے قطع نظر لاتکادتحصی اوردوتہائی مسائل میں واضح فرق ہے۔
دوتہائی مسائل ایک واضح اورمعین عدد ہے جب کہ شمار سے باہر کالفظ غیرمعین ہے لہذا ابن ابی العز حنفی کی اس عبارت کو دوتہائی مسائل میں اختلاف کی دلیل میں نہیں پیش کیاجاسکتا۔
آخری بات رہ جاتی ہے کہ ارشاد النقاد کے مصنف کون ہیں۔ ارشاد النقاد کے مصنف نے اپنی کوئی بات نہیں کہی ہے بلکہ امام الحرمین کی بات کاہی حوالہ دیاہے سوال یہ ہے کہ فقہ حنفی کے تعلق سےکسی حنفی فقیہہ کی بات کا اعتبار ہوگا یاپھر کسی اورکا۔
اگرآپ کی نظروسیع ہوتی تودرمختار میں ابن عابدین شامی نے بھی غزالی کے حوالہ سے دوتہائی مسائل میں اختلاف کی بات نقل کی ہے۔لیکن وہ اپنی بات نہیں کہہ رہے ہیں صرف امام غزالی کا حوالہ دے رہے ہیں اور واضح رہے کہ کسی نے بھی اس موضوع پر تحقیق نہیں کیاہے جس نے بھی کہاہے ظن وتخمین سے کام لیاہے علاوہ ازیں امام الحرمین کا بھی نظریہ احناف کے تعلق سے صاف نہیں تھا لہذا امام الحرمین کے اس اقتباس میں واضح طورپر بھی مبالغہ ہے اوربعد کے لوگوں نے ان کی علمی بلندی کو مدنظررکھتے ہوئے بغیر تحقیق اسی بات کی جگالی کی ہے۔
سمجھنے کی بات یہ ہے کہ کیادوتہائی مسائل میں اختلاف کے بعد بھی صاحبین کو احناف میں شمار کیاجاسکتاہے۔ فقہ حنفی کے دائرے میں رکھاجاسکتاہے۔ قطعانہیں۔
امام شافعی اورامام احمد بن حنبل کےاختلافات کتنے ہیں۔ ایک تہائی سے بھی کم ہوں گے لیکن ان کو مستقل مذہب کابانی سمجھاگیا۔ امام ابوحنیفہ اورسفیان ثوری کے اختلافات کتنے ہیں بہت کم ہیں لیکن دونوں کو دومستقل دبستان فقہ کا بانی سمجھاگیا۔ امام شافعی اورامام مالک کے اختلاف دوتہائی سے کم ہیں لیکن اس کے باوجود دونوں الگ منہج فقہ پرعمل پیراہیں۔ امام شافعی اورابن جریر طبری کے اختلافات کتنے ہیں لیکن ان کو الگ مستقل فقہ کابانی سمجھاگیا۔ حقیقت یہ ہے کہ دوتہائی مسائل میں اختلاف صرف ایک مبالغہ کا بیان تھا لیکن جس کو بعد کےلوگوں نے بلاتحقیق حقیقت سمجھ لیا۔
کمال یہ ہے کہ جولوگ رات دن تحقیق کا دعوی کرتے ہیں بھی وہ بقول خود ’’اندھے مقلدوں‘‘کی طرح اس قول کی جگالی کرتے رہے۔ کبھی اس کی توفیق نہیں ہوئی کہ اس قول کو تحقیق کے ترازو میں تول کردیکھیں کہ واقعیت کیاہے،حقیقت کیاہے اورصداقت کیاہے ۔
اور ان كا يہ بھى كہنا ہے:" جب حديث صحيح ہو تو وہى ميرا مذہب ہے "
" كسى شخص كے ليے حلال نہيں كہ وہ ہمارے قول كو لے اور اسے علم ہى نہ ہو كہ ہم نے وہ قول كہاں سے ليا ہے "
ايك دوسرى روايت ميں اضافہ ہے:" جو شخص ميرى دليل كا علم نہ ركھتا ہو اس كے ليے ميرى كلام كا فتوى دينا حرام ہے "
اور ايك روايت ميں ہے:" يقينا ہم بشر ہيں "
اور رحمہ اللہ كا قول ہے:" آج ہم ايك قول كہتے ہيں، اور كل اس سے رجوع كر لينگے "
" اگر ميں كوئى ايسا قول كہوں جو كتاب اللہ اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى حديث كے مخالف ہو تو ميرا قول چھوڑ دو "
" ميں تو ايك انسان اور بشر ہوں، غلطى بھى كر سكتا ہوں اور نہيں بھى، ميرى رائے كو ديكھو جو بھى كتاب و سنت كے موافق ہو اسے لے لو، اور جو كتاب و سنت كے موافق نہ ہو اسے چھوڑ دو "
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے بعد ہر ايك شخص كا قول رد بھى كيا جا سكتا ہے، اور قبول بھى كيا جا سكتا ہے، صرف نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا قول رد نہيں ہو سكتا صرف قبول ہو گا "
" ميں نے جو كوئى بھى قول كہا ہے، يا كوئى اصول بنايا ہے اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ميرے قول كے خلاف حديث ہو تو جو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا قول ہے وہى ميرا قول ہے "
" نہ تو ميرى تقليد كرو، اور نہ مالك اور شافعى اور اوزاعى اور ثورى كى، تم وہاں سے لے جہاں سے انہوں نے ليا ہے "
" امام مالك، اور امام اوزاعى اور ابو حنيفہ كى رائے يہ سب رائے ہى ہے، اور يہ ميرے نزديك برابر ہے، صرف حجت اور دليل آثار ـ يعنى شرعى دلائل ـ ہيں "
المنخول امام غزالی کی ابتدائے شباب کی تصنیف ہے جس کی بہت سی باتوں سے انہوں نے بعد میں رجوع کرلیاتھا جیساکہ انہوں نے اس کتاب میں امام ابوحنیفہ پر سخت تنقید کی ہے حتی کہ مجتہد تک ماننے سے انکاری ہیں لیکن بعد میں ان کانقطہ نظر بدل گیا۔المنخول امام غزالی کی ابتدائے شباب کی تصنیف ہے جس کی بہت سی باتوں سے انہوں نے بعد میں رجوع کرلیاتھا جیساکہ انہوں نے اس کتاب میں امام ابوحنیفہ پر سخت تنقید کی ہے حتی کہ مجتہد تک ماننے سے انکاری ہیں لیکن بعد میں ان کانقطہ نظر بدل گیا۔
اس کے بعد امام غزالی نے اپنی اس رائے سے کلی یا جزوی رجوع کر لیا تھا اس کی لکھی ہوئی دلیل دیں
جولوگ شک کرتے ہیں ثبوت بھی انہی کو دیناچاہئے۔ ذمہ داری انہی کی بنتی ہے۔ انداز تحریر کاملنا کوئی ثبوت نہیں ہوتا ویسے آپ یاباذوق بھائی میں وہ لیاقت نہیں ہے کہ جس کی بنیاد پر اسلوب اورانداز تحریر کا فیصلہ کرسکیں۔ یہ کام بڑی جگرکاوی کا متقاضی ہے۔ اندازے سے کچھ کہہ دینااورچیز ہے اوراسلوب کو سمجھنا،پہچاننااوراس کی بنیاد پر فیصلہ کرنا بہت مشکل کام ہے۔ غالب کا شعر ذوق کے نام سے اورذوق کا شعر غالب کے نام سے آپ شناخت نہیں کرپائیں گے ۔اس کا مجھے بھی یقین ہے اورآپ کوبھی ۔لہذا یہ بات ہی چھوڑدیجئے۔کیا وہ سب کے سب غلط ہیں ؟ ٹھیک ہے سب کے سب غلط ہو سکتے ہیں لیکن اگر آپ کوئی مقنع ثبوت پیش کردیں تو ۔
اس موضوع پر ماضی میں بہت بحث ہوچکی ہے جس میں امام غزالی کی کتاب المنخول پر بھی کافی بحث ہے اوران کے رجوعات پر بھی بحث ہے۔اس کے بعد امام غزالی نے اپنی اس رائے سے کلی یا جزوی رجوع کر لیا تھا اس کی لکھی ہوئی دلیل دیں
سفید جھوٹ بھی کہہ رہے ہو اوردلیل بھی مانگ رہو ۔یہ کیاطرفہ تضاد ہے۔ یاتوآپ کومعلوم ہے دلیل سے کہ یہ بات سفید جھوٹ ہے تواس کی دلیل خود آپ دیں اوراگرمعلوم نہیں ہے توپھر مجھ سے سوال کریں لیکن اسکو سفید جھوٹ کہہ کر اپناعلمی بھرم نہ کھوئیں۔والسلامیہ جھوٹ سفیدجھوٹ ہے اس کی دلیل دو
یعنی تمھارا مقصد ہے کہ بات تم کرو اور ثبوت میں دوں ؟ واہ کیا بات ہے !چونکہ میں کہہ چکاہوں کہ یہ اس موضوع پر آخری مشارکت ہوگی ۔لہذا اس کو یہیں پر ختم کرتاہوں۔
اورجس عبارت کوملون کیاہے وہ میں نے دانستہ طورپر کیاتھاتاکہ دیکھاجائے کہ بدگمانی کی پرواز کہاں تک پہنچی ہےاورآپ نے اپنی صلاحیت کا ثبوت بہم پہنچادیا۔
جولوگ شک کرتے ہیں ثبوت بھی انہی کو دیناچاہئے۔ ذمہ داری انہی کی بنتی ہے۔ انداز تحریر کاملنا کوئی ثبوت نہیں ہوتا ویسے آپ یاباذوق بھائی میں وہ لیاقت نہیں ہے کہ جس کی بنیاد پر اسلوب اورانداز تحریر کا فیصلہ کرسکیں۔ یہ کام بڑی جگرکاوی کا متقاضی ہے۔ اندازے سے کچھ کہہ دینااورچیز ہے اوراسلوب کو سمجھنا،پہچاننااوراس کی بنیاد پر فیصلہ کرنا بہت مشکل کام ہے۔ غالب کا شعر ذوق کے نام سے اورذوق کا شعر غالب کے نام سے آپ شناخت نہیں کرپائیں گے ۔اس کا مجھے بھی یقین ہے اورآپ کوبھی ۔لہذا یہ بات ہی چھوڑدیجئے۔
سفید جھوٹ کی دلیل مین کہا ں سےلاؤں؟یعنی تمھارا مقصد ہے کہ بات تم کرو اور ثبوت میں دوں ؟ واہ کیا بات ہے !