• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

[انتظامیہ] -- صاحبین کا امام ابو حنیفہ سے اختلاف

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
یہ عجیب بات ہے کہ دواختلافی مسائل ذکر کرکے دعوی کیاجارہاہے دوتہائی کا۔
سبحان اللہ عقل ہوتوایسی

پڑھتا جا شرماتا جا
sahibeeeeeeeeeeeeeeeeeeeeeeeeeeeeeen.jpg
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
المنخول امام غزالی کی ابتدائے شباب کی تصنیف ہے جس کی بہت سی باتوں سے انہوں نے بعد میں رجوع کرلیاتھا جیساکہ انہوں نے اس کتاب میں امام ابوحنیفہ پر سخت تنقید کی ہے حتی کہ مجتہد تک ماننے سے انکاری ہیں لیکن بعد میں ان کانقطہ نظر بدل گیا۔یہ بات سب سے پہلے امام الحرمین نے کہی،امام الحرمین سے امام غزالی نے لی اوراس کے بعد جس نے بھی یہ بات کہی ہے کہ صاحبین نے دوتہائی مسائل میں امام ابوحنیفہ سے اختلاف کیاہے اس نے امام غزالی کی اسی بات پراندھااعتماد کیاہے۔

ابن ابی العز کا معاملہ ذرادلچسپ ہے۔ حنفی ان کے نام کاٹائٹل ضرور ہے لیکن کسی بھی حنفی فقیہہ نے ان کی کتابوں کی جانب توجہ نہیں دیا۔ طبقات احناف پر لکھی گئی کسی کتاب میں ان کا کوئی تعارف نہیں ملتا۔ اس سے واضح ہے کہ اس دور کے احناف سے لے کر تاحال علماء احناف نے ان کو خود سے الگ سمجھاہے۔ اس کے علاوہ خود کی زندگی میں ان پر داروگیر ہوئی ہے۔ جس کے حالات کتابوں میں مذکور ہیں۔ اتنے اہم مسئلہ میں ان کی بات قابل اعتماد نہیں ہوسکتی۔علاوہ ازیں لاتکاد تحصی مبالغہ کاجملہ ہے جس کو دوسو مسائل میں اختلاف پر بھی بولاجاسکتاہے، دوہزار پر بھی اوردولاکھ پر بھی۔
ان چیزوں سے قطع نظر لاتکادتحصی اوردوتہائی مسائل میں واضح فرق ہے۔
دوتہائی مسائل ایک واضح اورمعین عدد ہے جب کہ شمار سے باہر کالفظ غیرمعین ہے لہذا ابن ابی العز حنفی کی اس عبارت کو دوتہائی مسائل میں اختلاف کی دلیل میں نہیں پیش کیاجاسکتا۔
آخری بات رہ جاتی ہے کہ ارشاد النقاد کے مصنف کون ہیں۔ ارشاد النقاد کے مصنف نے اپنی کوئی بات نہیں کہی ہے بلکہ امام الحرمین کی بات کاہی حوالہ دیاہے سوال یہ ہے کہ فقہ حنفی کے تعلق سےکسی حنفی فقیہہ کی بات کا اعتبار ہوگا یاپھر کسی اورکا۔
اگرآپ کی نظروسیع ہوتی تودرمختار میں ابن عابدین شامی نے بھی غزالی کے حوالہ سے دوتہائی مسائل میں اختلاف کی بات نقل کی ہے۔لیکن وہ اپنی بات نہیں کہہ رہے ہیں صرف امام غزالی کا حوالہ دے رہے ہیں اور واضح رہے کہ کسی نے بھی اس موضوع پر تحقیق نہیں کیاہے جس نے بھی کہاہے ظن وتخمین سے کام لیاہے علاوہ ازیں امام الحرمین کا بھی نظریہ احناف کے تعلق سے صاف نہیں تھا لہذا امام الحرمین کے اس اقتباس میں واضح طورپر بھی مبالغہ ہے اوربعد کے لوگوں نے ان کی علمی بلندی کو مدنظررکھتے ہوئے بغیر تحقیق اسی بات کی جگالی کی ہے۔
سمجھنے کی بات یہ ہے کہ کیادوتہائی مسائل میں اختلاف کے بعد بھی صاحبین کو احناف میں شمار کیاجاسکتاہے۔ فقہ حنفی کے دائرے میں رکھاجاسکتاہے۔ قطعانہیں۔
امام شافعی اورامام احمد بن حنبل کےاختلافات کتنے ہیں۔ ایک تہائی سے بھی کم ہوں گے لیکن ان کو مستقل مذہب کابانی سمجھاگیا۔ امام ابوحنیفہ اورسفیان ثوری کے اختلافات کتنے ہیں بہت کم ہیں لیکن دونوں کو دومستقل دبستان فقہ کا بانی سمجھاگیا۔ امام شافعی اورامام مالک کے اختلاف دوتہائی سے کم ہیں لیکن اس کے باوجود دونوں الگ منہج فقہ پرعمل پیراہیں۔ امام شافعی اورابن جریر طبری کے اختلافات کتنے ہیں لیکن ان کو الگ مستقل فقہ کابانی سمجھاگیا۔ حقیقت یہ ہے کہ دوتہائی مسائل میں اختلاف صرف ایک مبالغہ کا بیان تھا لیکن جس کو بعد کےلوگوں نے بلاتحقیق حقیقت سمجھ لیا۔
کمال یہ ہے کہ جولوگ رات دن تحقیق کا دعوی کرتے ہیں بھی وہ بقول خود ’’اندھے مقلدوں‘‘کی طرح اس قول کی جگالی کرتے رہے۔ کبھی اس کی توفیق نہیں ہوئی کہ اس قول کو تحقیق کے ترازو میں تول کردیکھیں کہ واقعیت کیاہے،حقیقت کیاہے اورصداقت کیاہے ۔
المنخول امام غزالی کی ابتدائے شباب کی تصنیف ہے جس کی بہت سی باتوں سے انہوں نے بعد میں رجوع کرلیاتھا جیساکہ انہوں نے اس کتاب میں امام ابوحنیفہ پر سخت تنقید کی ہے حتی کہ مجتہد تک ماننے سے انکاری ہیں لیکن بعد میں ان کانقطہ نظر بدل گیا۔
اس کے بعد امام غزالی نے اپنی اس رائے سے کلی یا جزوی رجوع کر لیا تھا اس کی لکھی ہوئی دلیل دیں
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
عمران صاحب کی بات وزنی ہے۔ جمشید صاحب کے نزدیک اگر امام غزالی نے اپنے موقف سے رجوع کر لیا تھا تو انہیں اس کا ریفرنس دینا چاہئے۔
بالفرض اگر امام غزالی کا یہ موقف صحیح نہیں ہے تو احناف نے اس کی تردید کیوں نہیں کی؟؟؟
اگر جدلاً یہ تسلیم کر بھی لیا جائے کہ صاحبین نے دو تہائی مسئلوں میں امام ابو حنیفہ کی مخالفت نہیں کی تو پھر یہ بہت اہم سوال ہے کہ پھر کتنے مسئلوں میں کی؟؟ کیا مقلد کیلئے جائز ہے کہ وہ اپنے امام سے مثلاً ایک تہائی مسئلوں (یا کم وبیش) میں مخالفت کرے؟؟؟
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ كے متعلق معلومات

برائے مہربانى گزارش ہے كہ امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ اور ان كے مذہب كے متعلق ہميں معلومات فراہم كريں، كيونكہ ميں نے بعض افراد كو ان كى تنقيص اور تنقيد كرتے ہوئے سنا ہے، كيونكہ اكثر طور پر وہ قياس اور رائے پر اعتماد كرتے ہيں.

الحمد للہ:

امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ فقيہ ملت اور عراق كے عالم دين تھے، ان كا نام نعمان بن ثابت التيمى الكوفى اور كنيت ابو حنيفہ تھى، صغار صحابہ كى زندگى ( 80 ) ہجرى ميں پيدا ہوئے اور انہوں نے انس بن مالك رضى اللہ تعالى عنہ جب كوفہ آئے تو انہيں ديكھا تھا، اور انہوں نے عطاء بن ابى رباح سے روايت كى ہے اور يہ ان كے سب سے بڑے شيخ اوراستاد تھے، اور شعبى وغيرہ بہت ساروں سے روايت كرتے ہيں.

امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ نے طلب آثار كا بہت اہتمام كيا اور اس كے ليے سفر بھى كيے، رہا فقہ اور رائے كى تدقيق اور اس كى گہرائى كا مسئلہ تو اس ميں ان كا كوئى ثانى نہيں جيسا كہ امام ذہبى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" ان كى سيرت كے ليے دو جلديں دركار ہيں "

ابو حنيفہ فصيح اللسان تھے اور بڑى ميٹھى زبان ركھتے تھے، حتى كہ ان كے شاگرد ابو يوسف رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" سب لوگوں سے زيادہ بہتر بات كرنے والے اور سب سے ميٹھى زبان كے مالك تھے "

ورع و تقوى كےمالك، اور اللہ تعالى كى محرمات كا سب سے زيادہ خيال ركھنے والے تھے، ان كے سامنے دنيا كا مال و متاع پيش كيا گيا تو انہوں نے اس كىطرف توجہ ہى نہ دى، حتى كہ قضاء كا منصب قبول كرنے كے ليے انہيں كوڑے بھى مارے گئے يا بيت المال كا منصب لينے كے ليے ليكن انہوں نے انكار كر ديا "

بہت سارے لوگوں نے آپ سے بيان كيا ہے، آپ كى وفات ايك سو پچاس ہجرى ميں ہوئى اس وقت آپ كى عمر ستر برس تھى.

ديكھيں: سير اعلام النبلاء ( 16 / 390 - 403 ) اور اصول الدين عند ابى حنيفۃ ( 63 ).

رہا حنفى مسلك تو يہ مشہور مذاہب اربعہ ميں شامل ہوتا ہے، جو كہ سب سے پہلا فقہى مذہب ہے، حتى كہ يہ كہا جاتا ہے: " فقہ ميں لوگ ابو حنيفہ كے محتاج ہيں "

حنفى اور باقى مسلك كے يہ امام ـ ميرى مراد ابو حنيفہ مالك، شافعى اور احمد رحمہم اللہ ـ يہ سب قرآن و سنت كے دلائل سمجھنے كے ليے جتھاد كرتے، اور لوگوں كو اس دليل كے مطابق فتوى ديتے جو ان تك پہنچى تھى، پھر ان كے پيروكاروں نے اماموں كے فتاوى جات لے كر پھيلا ديے اور ان پر قياس كيا، اور ان كے ليے اصول و قواعد اور ضوابط وضع كيے، حتى كہ مذہب فقھى كى تكوين ہوئى، تو اس طرح حنفى، شافعى، مالكى اور حنبلى اور دوسرے مسلك بن گئے مثلا مذہب اوزاعى اور سفيان ليكن ان كا مسلك تواتر كےساتھ لكھا نہ گيا.

جيسا كہ آپ ديكھتے ہيں كہ ان فقھى مذاہب كى اساس كتاب و سنت كى اتباع پر مبنى تھى.

رہا رائے اور قياس كا مسئلہ جس سے امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ اخذ كرتے ہيں تو اس سے خواہشات و ھوى مراد نہيں، بلكہ يہ وہ رائے ہے جو دليل يا قرائن يا عام شريعت كے اصولوں كى متابعت پر مبنى ہے، سلف رحمہ اللہ مشكل مسائل ميں اجتھاد پر " رائے " كا اطلاق كرتے تھے، جيسا كہ اوپر بيان ہوا ہے اس سے مراد خواہش نہيں.

امام ابو حنيفہ نے حدود اور كفارات اور تقديرات شرعيۃ كے علاوہ ميں رائے اور قياس سے اخذ كرنے ميں وسعت اختيار كى اس كا سبب يہ تھا كہ امام ابو حنيفہ حديث كى روايت ميں دوسرے آئمہ كرام سے بہت كم ہيں ان سے احاديث مروى نہيں كيونكہ ان كا دور باقى آئمہ كے ادوار سے بہت پہلے كا ہے، ابو حنيفہ كے دور ميں عراق ميں فتنہ اور جھوٹ بكثرت تھا اس كے ساتھ روايت حديث ميں تشدد كى بنا پر احاديث كى روايت بہت كم كى.

يہاں ايك چيز كى طرف متنبہ رہنا چاہيے كہ جو حنفى مذہب امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ كى طرف منسوب ہے وہ سارے اقوال اور آراء نہيں ہيں جو ابو حنيفہ كے كلام ميں سے ہيں، يا پھر ان كا امام ابو حنيفہ كى طرف منسوب كرنا صحيح ہے.

ان اقوال ميں سے بہت سارے ايسے ہيں جو امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ كى نص كے خلاف ہيں، انہيں اس ليے ان كا مذہب بنا ديا گيا ہے كہ امام كى دوسرى نصوص سے استنباط كيا گيا ہے، اسى طرح حنفى مسلك بعض اوقات ان كے شاگردوں مثلا ابو يوسف اور محمد كى رائے پر اعتماد كرتا ہے، اس كے ساتھ شاگردوں كے بعض اجتھادات پر بھى، جو بعد ميں مسلك اور مذہب بن گيا، اور يہ صرف امام ابو حنيفہ كے مسلك كے ساتھ خاص نہيں، بلكہ آپ سارے مشہور مسلكوں ميں يہى بات كہہ سكتے ہيں.

اگر كوئى يہ كہے:

اگر مذاہب اربعہ كا مرجع اصل ميں كتاب و سنت ہے، تو پھر فقھى آراء ميں ان كا ايك دوسرے سے اختلاف كيوں پاتے ہيں ؟

اس كا جواب يہ ہے:

ہر امام اس كے مطابق فتوى ديتا تھا جو اس كے پاس دليل پہنچى ہوتى، ہو سكتا ہے امام مالك رحمہ اللہ كے پاس ايك حديث پہنچى ہو وہ اس كے مطابق فتوى ديں، اور وہ حديث امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ كے پاس نہ پہنچى تو وہ اس كے خلاف فتوى ديں، اور اس كے برعكس بھى صحيح ہے.

اسى طرح ہو سكتا ہے امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ كے پاس كوئى صحيح سند سے حديث پہنچے تو وہ اس كے مطابق فتوى دے ديں، ليكن وہى حديث امام شافعى رحمہ اللہ كے پاس كسى دوسرى سند سے پہنچے جو ضعيف ہو تو اس كا فتوى نہ ديں، بلكہ وہ حديث كے مخالف اپنے اجتھاد كى بنا پر دوسرا فتوى ديں، اس وجہ سے آئمہ كرام كے مابين اختلاف ہوا ہے ـ يہ اختصار كے ساتھ بيان كيا گيا ہے ـ ليكن ان سب كے ليے آخرى مرجع و ماخذ كتاب و سنت ہے.

پھر امام ابو حنيفہ اور دوسرے اماموں نے حقيقت ميں كتاب و سنت كى نصوص سے اخذ كيا ہے، اگرچہ انہوں نے اس كا فتوى نہيں ديا، اس كى وضاحت اور بيان اس طرح ہے كہ چاروں اماموں نے يہ بات واضح طور پر بيان كى ہے كہ اگر كوئى بھى حديث صحيح ہو تو ان كا مذہب وہى ہے، اور وہ اسى صحيح حديث كو لينگے، اور اس كا فتوى دينگے، اور وہ اس پر عمل كرينگے.

امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ كا قول ہے:


" جب حديث صحيح ہو تو وہى ميرا مذہب ہے "
اور ان كا يہ بھى كہنا ہے:

" كسى شخص كے ليے حلال نہيں كہ وہ ہمارے قول كو لے اور اسے علم ہى نہ ہو كہ ہم نے وہ قول كہاں سے ليا ہے "

اور ايك روايت ميں ان كا قول ہے:
" جو شخص ميرى دليل كا علم نہ ركھتا ہو اس كے ليے ميرى كلام كا فتوى دينا حرام ہے "
ايك دوسرى روايت ميں اضافہ ہے:


" يقينا ہم بشر ہيں "
اور ايك روايت ميں ہے:


" آج ہم ايك قول كہتے ہيں، اور كل اس سے رجوع كر لينگے "
اور رحمہ اللہ كا قول ہے:

" اگر ميں كوئى ايسا قول كہوں جو كتاب اللہ اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى حديث كے مخالف ہو تو ميرا قول چھوڑ دو "

اور امام مالك رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" ميں تو ايك انسان اور بشر ہوں، غلطى بھى كر سكتا ہوں اور نہيں بھى، ميرى رائے كو ديكھو جو بھى كتاب و سنت كے موافق ہو اسے لے لو، اور جو كتاب و سنت كے موافق نہ ہو اسے چھوڑ دو "

اور ان كا يہ بھى قول ہے:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے بعد ہر ايك شخص كا قول رد بھى كيا جا سكتا ہے، اور قبول بھى كيا جا سكتا ہے، صرف نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا قول رد نہيں ہو سكتا صرف قبول ہو گا "

اور امام شافعى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" ميں نے جو كوئى بھى قول كہا ہے، يا كوئى اصول بنايا ہے اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ميرے قول كے خلاف حديث ہو تو جو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا قول ہے وہى ميرا قول ہے "

اور امام احمد رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" نہ تو ميرى تقليد كرو، اور نہ مالك اور شافعى اور اوزاعى اور ثورى كى، تم وہاں سے لے جہاں سے انہوں نے ليا ہے "

اور ان كا يہ بھى قول ہے:

" امام مالك، اور امام اوزاعى اور ابو حنيفہ كى رائے يہ سب رائے ہى ہے، اور يہ ميرے نزديك برابر ہے، صرف حجت اور دليل آثار ـ يعنى شرعى دلائل ـ ہيں "

امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ كى سيرت اور ان كے مسلك كے متعلق يہ مختصر سا نوٹ تھا، آخر ميں ہم يہ كہتے ہيں كہ:

ہر مسلمان شخص كو چاہيے كہ وہ ان اماموں كى فضيلت اور مقام و مرتبہ كو پہچانے، كہ ان لوگوں نے اس كى دعوت نہيں دى كہ ان كے قول كو كتاب اور صحيح حديث سے بھى مقدم ركھا جائے، كيونكہ اصل ميں تو كتاب اللہ اور سنت رسول اللہ كى اتباع ہے نہ كہ لوگوں كے اقوال.

اس ليے كہ ہر ايك شخص كا قول ليا بھى جا سكتا ہے، اور اسے رد بھى كيا جا سكتا ہے، ليكن رسول صلى اللہ عليہ وسلم اكيلے ايسے ہيں جن كا قول رد نہيں كيا جا سكتا، ان كے قول كو قبول كيے بغير كوئى چارہ نہيں، جيسا كہ امام مالك رحمہ اللہ كہا كرتے تھے.

مزيد استفادہ كے ليے عمر الاشقر كى كتاب: المدخل الى دراسۃ المدارس و المذھب الفقھيۃ كا مطالعہ بھى كريں.

واللہ اعلم .
الاسلام سوال و جواب
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
المنخول امام غزالی کی ابتدائے شباب کی تصنیف ہے جس کی بہت سی باتوں سے انہوں نے بعد میں رجوع کرلیاتھا جیساکہ انہوں نے اس کتاب میں امام ابوحنیفہ پر سخت تنقید کی ہے حتی کہ مجتہد تک ماننے سے انکاری ہیں لیکن بعد میں ان کانقطہ نظر بدل گیا۔
اس کے بعد امام غزالی نے اپنی اس رائے سے کلی یا جزوی رجوع کر لیا تھا اس کی لکھی ہوئی دلیل دیں
المنخول امام غزالی کی ابتدائے شباب کی تصنیف ہے جس کی بہت سی باتوں سے انہوں نے بعد میں رجوع کرلیاتھا جیساکہ انہوں نے اس کتاب میں امام ابوحنیفہ پر سخت تنقید کی ہے حتی کہ مجتہد تک ماننے سے انکاری ہیں لیکن بعد میں ان کانقطہ نظر بدل گیا۔
یہ جھوٹ سفیدجھوٹ ہے اس کی دلیل دو
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
چونکہ میں کہہ چکاہوں کہ یہ اس موضوع پر آخری مشارکت ہوگی ۔لہذا اس کو یہیں پر ختم کرتاہوں۔
اورجس عبارت کوملون کیاہے وہ میں نے دانستہ طورپر کیاتھاتاکہ دیکھاجائے کہ بدگمانی کی پرواز کہاں تک پہنچی ہےاورآپ نے اپنی صلاحیت کا ثبوت بہم پہنچادیا۔
کیا وہ سب کے سب غلط ہیں ؟ ٹھیک ہے سب کے سب غلط ہو سکتے ہیں لیکن اگر آپ کوئی مقنع ثبوت پیش کردیں تو ۔
جولوگ شک کرتے ہیں ثبوت بھی انہی کو دیناچاہئے۔ ذمہ داری انہی کی بنتی ہے۔ انداز تحریر کاملنا کوئی ثبوت نہیں ہوتا ویسے آپ یاباذوق بھائی میں وہ لیاقت نہیں ہے کہ جس کی بنیاد پر اسلوب اورانداز تحریر کا فیصلہ کرسکیں۔ یہ کام بڑی جگرکاوی کا متقاضی ہے۔ اندازے سے کچھ کہہ دینااورچیز ہے اوراسلوب کو سمجھنا،پہچاننااوراس کی بنیاد پر فیصلہ کرنا بہت مشکل کام ہے۔ غالب کا شعر ذوق کے نام سے اورذوق کا شعر غالب کے نام سے آپ شناخت نہیں کرپائیں گے ۔اس کا مجھے بھی یقین ہے اورآپ کوبھی ۔لہذا یہ بات ہی چھوڑدیجئے۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
اس کے بعد امام غزالی نے اپنی اس رائے سے کلی یا جزوی رجوع کر لیا تھا اس کی لکھی ہوئی دلیل دیں
اس موضوع پر ماضی میں بہت بحث ہوچکی ہے جس میں امام غزالی کی کتاب المنخول پر بھی کافی بحث ہے اوران کے رجوعات پر بھی بحث ہے۔
یہ جھوٹ سفیدجھوٹ ہے اس کی دلیل دو
سفید جھوٹ بھی کہہ رہے ہو اوردلیل بھی مانگ رہو ۔یہ کیاطرفہ تضاد ہے۔ یاتوآپ کومعلوم ہے دلیل سے کہ یہ بات سفید جھوٹ ہے تواس کی دلیل خود آپ دیں اوراگرمعلوم نہیں ہے توپھر مجھ سے سوال کریں لیکن اسکو سفید جھوٹ کہہ کر اپناعلمی بھرم نہ کھوئیں۔والسلام
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
چونکہ میں کہہ چکاہوں کہ یہ اس موضوع پر آخری مشارکت ہوگی ۔لہذا اس کو یہیں پر ختم کرتاہوں۔
اورجس عبارت کوملون کیاہے وہ میں نے دانستہ طورپر کیاتھاتاکہ دیکھاجائے کہ بدگمانی کی پرواز کہاں تک پہنچی ہےاورآپ نے اپنی صلاحیت کا ثبوت بہم پہنچادیا۔

جولوگ شک کرتے ہیں ثبوت بھی انہی کو دیناچاہئے۔ ذمہ داری انہی کی بنتی ہے۔ انداز تحریر کاملنا کوئی ثبوت نہیں ہوتا ویسے آپ یاباذوق بھائی میں وہ لیاقت نہیں ہے کہ جس کی بنیاد پر اسلوب اورانداز تحریر کا فیصلہ کرسکیں۔ یہ کام بڑی جگرکاوی کا متقاضی ہے۔ اندازے سے کچھ کہہ دینااورچیز ہے اوراسلوب کو سمجھنا،پہچاننااوراس کی بنیاد پر فیصلہ کرنا بہت مشکل کام ہے۔ غالب کا شعر ذوق کے نام سے اورذوق کا شعر غالب کے نام سے آپ شناخت نہیں کرپائیں گے ۔اس کا مجھے بھی یقین ہے اورآپ کوبھی ۔لہذا یہ بات ہی چھوڑدیجئے۔
یعنی تمھارا مقصد ہے کہ بات تم کرو اور ثبوت میں دوں ؟ واہ کیا بات ہے !
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
اورتمہارامقصد ہے کہ شک تم کرو اورثبوت میں دوں کہ تمہاراشک صحیح یاغلط ہے۔ وہ کیاعقل وفہم ہے۔
 
Top