• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

انوار المصابیح انوار المصابیح

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
اہل علم سمجھ سکتے ہیں کہ نیموی مرحوم نے ''شہرت'' کی نفی نہیں کی ہے بلکہ ''معرفتہ'' (علم) کی نفی کی ہے ۔ اس لئے اس کا صحیح ترجمہ یہ ہے کہ ''وہ نامعلوم ہے'' اور ''علم'' کی یہ نفی اپنے عموم و اطلاق کے اعتبار سے ابوالحسناء کی ذات اور اس کے احوال دونوں کو شامل ہے لہذا مولانا نیموی کی مراد یہ ہے کہ نہ اس کی ذات معلوم ہے اور نہ اس کے احوال معلوم ہیں اور واقعہ بھی یہی ہے جیسا کہ ہم نے بتایا کہ کتب رجال اس کے ذکر سے بالکل خالی ہیں ۔
اس کے بعد آپ سے آپ ثابت ہو جاتا ہے کہ جن دو شخصوں کو مولانا مئوی ابوالحسناء کا ''شاگرد'' قرار دے رہے ہیں یہ محض ان کا وہم ہے ۔ کتب رجال سے اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے ۔ لہذا اس بنیاد پر جو عمارت کھڑی کی گئی ہے ، اس کا حال بھی معلوم ۔ مولانا شوق نیموی نے جو روایتیں نقل کی ہیں وہ لفظ ''عن'' کے ساتھ ہیں اور یہ معلوم ہو چکا کہ اس سے لقاء و سماع تو کیا معاصرت کا ثبوت بھی نہیں ہوتا ۔ لہذا ''شاگردی'' اور ''روایت'' کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا ۔
مولانا مئوی کی یہ بات بھی یکسر نا واقفیت پر مبنی ہے کہ ''اصطلاح محدثین میں وہ مستور ہے'' ۔ سنیے حافظ ابن الصلاح لکھتے ہیں :
الثامنة فی روایة المجہول وھو فی غرضنا ھھنا اقسام حدھا المجھول العدالة من حیث الظاہر والباطن جمیعاً و روایتہ غیر مقبولة عن الجماہیر علی ما نبھنا علیہ اولا الثانی المجہول الذی جھلت عدالتہ الباطنة وھو عدل فی الظاہر وھو المستور فقد قال بعض امتنا المستور من یکون عدلا فی الظاہر ولا نعرف عدالة باطنہ فھذا المجہول یحتج بروایتہ بعض من رد روایة الاول الثالث المجہول العین (مقدمہ النوع الثالث و العشرون ص ٤٢) ۔
تقریب اور اس کی شرح تدریب میں ہے۔
(السادسة روایة مجہول العدالة ظاہر او باطنا ) مع کو نہ معرف العین بروایة عدلین عنہ (لا تقبل عند الجماہیر ) ... (روایة المستور وھو عدل الظاہر خفی الباطن) ای مجہول العدالة باطنا (یحتج بھا بعض من رد الاول وھو قول بعض المثافعیین) ... (واما مجہول العین) وھو القسم الثالث من اقسام المجہول فقد بقبلہ بعض من یقبل مجہول العدالة) و ردہ ھو الصحیح الذی علیہ اکثر العلماء من اھل الحدیث وغیرہم انتھی (تدریب الراوی ص ١٥) ۔
حافظ زین الدین عراقی لکھتے ہیں :
اختلف العلماء فی قبول روایة المجہول وھو علی ثلاثہ اقسام العین ومجہول الحال ظاہر او باطنا و مجہول الحال باطنا ۔ القسم الاول مجہول العین وھو من لم یرو عنہ الا راو الواحد و فیہ اقوال الصحیح الذی علیہ اکثر العلماء من اھل الحدیث وغیرھم انہ لا یقبل والثانی یقبل مطلقا ... والقسم الثانی مجھول الحال فی العدالة فی الظاہر والباطن مع کونہ معروف العین بروایة عدلین عنہ و فیہ اقوال احدھا وھو قول الجماہیر کما مکا ابن الصلاح ان روایتہ مقبولة والثانی تقبل مطلقا ... والقسم الثالث مجھول العدالة الباطنة وھو عدل فی الظاہر فھذا یحتج بہ بعض من رد القسمین الاولین ... ولما ذکر ابن الصلاح ھذا القسم الا خیر قالا ھو المستور فقد قال بعض ائمتنا المستور من یکون عدلا فی الظاہر ولا تعرف عدلتہ باطنا انتھی کلامہ وھذالذی نقل کلامہ اخر ولم یسمہ ھو البغوی انتھی ۔ (فتح المغیث للعراقی از ص ٢٢ تا ٢٥ من الجز الثانی) ۔
حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں :
مجھولة العدالة ظاہر او باطنا لا تقبل روایتہ عند الجماہیر ومن جھلت عدالتہ باطنا ولکنہ عد فی الظاہر وھو المستور فقد قال بقبولہ بعض الشافعیین و رجح ذلک سلیم بن ایوب الفقیہ و وانقہ ابن الصلاح انتھی (الباعث الحثیث ص ٣٠) ۔
ان سب عبارتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ مجہول کی تین قسمیں ہیں ایک مجہول العین جس سے صرف ایک شخص نے روایت کیا ہو ۔ اکثر علماء اہلحدیث اور غیر اہلحدیث کے نزدیک اس کی روایت غیر مقببول ہے ۔ دوسرا وہ جس کی عدالت و ثقاہت ظاہر اور باطن دونوں اعتبار سے نا معلوم ہو ۔ ہاں اس کی ذات دوعا دلوں کی روایت کی وجہ سے معلوم ہو ۔ اس کی روایت بھی جماہیر محدثین کے نزدیک مردود ہے ۔ تیسرا وہ ہے جو باطنی حالات کے اعتبار سے تو مجہول العدالة ہے مگر جہاں تک اس کے ظاہر حالات کا علم ہے ان کے اعتبار سے وہ عادل ہے اسی کو ''مستور'' کہتے ہیں اس کی روایت بھی بعض کے نزدیک مقبول ہے ۔ جمہور کے نزدیک نہیں ۔
محدثین کی ان تصریحات کے بموجب ابو الحسناء کو ''مستور'' تو کسی حال میں بھی قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ اس لئے کہ نہ اس کے ظاہری حالات معلوم ہیں اور نہ باطنی ۔ ہاں اگر بفرض محال یہ مان لیا جائے کہ اس سے دو عالموں نے روایت لی ہے تو اس تقدیر پر وہ ''مجہول العدالة ظاہر او باطنا'' قرار پائے گا اور ایسے راوی کی روایت بھی جمہور محدثین کے قول کی بنا پر مردود اور نا مقبول ہے ۔
مولانا مئوی کو ''نخبہ'' کی مختصر عبارت سے یا تو دھوکہ ہوا ہے یا تجاہل سے کام لیتے ہوئے انہوں نے اس کے اختصار سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے ۔ حافظ لکھتے ہیں :
وانفرد راوا واحد بالروایة عنہ فھو مجھول العین او ان روی عنہ اثنان فصاعد او لم یوثق فھو مجہول الحال وھو المستور (شرح نخبہ ص ٧٠) ۔
حافظ نے اختصار سے کام لیتے ہوئے مجہول الحال کی دونوں قسموں کو اکٹھا ہی بیان کیا اور دونوں کا نام مستور رکھ دیا ۔ حالانکہ درحقیقت یہاں دو قسمیں ہیں اور ان دونوں کا نام مستور نہیں ہے جیسا کہ ابن الصلاح وغیرہ کی عبارتوں میں اس کی صراحت موجود ہے شرح نخبہ کے محشی نے بھی اس پر متنبہ کر دیا ہے ۔ چنانچہ حاشیہ میں ہے :
الظاہر انہ ادرج فیہ قسمی المجہول الحال و سمی کلا منھما مستور او ان کان ابن الصلاح وغیرہ سہی الاخیر مستور الوجود المستر فی کل منھما وھما مجہول العدالة الظاھرة والباطنة ومجہول العدالة الباطنة دون الظاہرة والمراد بالباطنة ما فی نفس الامر وھی التی ترجیع الی اقوال المزکین وبالظاہرة ما یعلم من ظاہر الحال انتھی (شرح نخبہ ص ٧١ حاشیہ ص ٢)
یہ حاشیہ چونکہ مولانا مئوی کے مقصد کے خلاف تھا اس لئے انہوں نے جان بوجھ کر اس سے آنکھیں بند کر لیں ۔ یہ حاشیہ ملا علی قاری کی شرح سے ماخوذ ہے ۔ دیکھو شرح للقاری ص ١٥٤ ۔ خیر یہ معاملہ تو پھر بھی اہون ہے ۔ اس کے بعد تو مولانا مئوی نے تحریف و خیانت کا وہ افسوس ناک مظاہرہ کیا ہے کہ ''قادیانی'' بھی منہ تکتے رہ جائیں ۔ لکھتے ہیں :
''اور مستور کی روایت کو رد کرنے پر ائمہ کا اتفاق نہیں ہے بلکہ اس میں اختلاف ہے ۔ حافظ ابن حجر نے فرمایا ہے قد قبلہ جماعة بغیر قید یعنی ایک جماعت نے اس کو بغیر کسی قید کے قبول کیا ہے اس کے بعد جمہور کامذہب یہ بتاتا ہے کہ مستور کی روایت نہ مقبول ہے نہ مردود ، بلکہ حال ظاہر ہونے تک اس میں توقف کیا جائے گا ... (کعات ص ٨١) ۔
حافظ کے کلام میں صریح تحریف اور خیانت: مولانا نے اس موقع پرحافظ ابن حجرکے کلام میں کیا کیا تصرفات کیے ہیں اورکس طرح امانت ودیانت کاخون کیا ہے۔اس کی پوری حقیقت اسی وقت معلوم ہو سکتی ہے جب حافظ کا پورا کلام سامنے ہو۔اس لیے ہم پوری عبارت یہاں نقل کرتے ہیں ۔حافظ لکھتے ہیں :
وقدقبل روایتہ جماعةبغیرقیدوردھاالجمہوروالتحقیق ان روایتةالمستورونحوہ ممافیہ الاحتمال لایطلق القول بردھاولابقبولہابل ہی موقوفةالیٰ استبانةحالہ کماجزم بہ امام الحرمین انتھی(شرح نخبہ ص٧١)
''یعنی مستور کی روایت کو ایک جماعت نے بغیر کسی قید کے قبول کیا ہے اورجمہورنے اس روایت کو رد کر دیا ہے۔ اور تحقیق یہ ہے کہ مستور اور اس قسم کے راوی جن کی عدالت محتمل ہو۔ان کی روایت نہ مطلقاًمقبول ہے اور نہ مطلقاً مردود،بلکہ راوی کا حال ظاہرہونے تک اس کے ردّوقبول کے معاملہ میں توقف کیا جاے گا۔جیسا کہ امام الحرمین نے اس پر جزم کیا ہے۔''
حنفی مذہب کے طالب علمو!شرح نخبہ کوئی نایاب کتاب نہیں ہے۔ اگر تمہارے پاس نہیں تو کم از کم تمہارے مدرسہ میں تو ضرور موجود ہو گی۔اس میں یہ مقام نکال کر دیکھو کہ حافظ ابن حجرنے مستورکی روایت کی بابت جمہورکا مذہب یہ بتایا ے کہہ'ردھاالجمہر،، ' و (جمہور نے اس کو رد کر دیاہے)یا یہ بتایا ہے کہ نہ مقبول ہے نہ مردود،بلکہ حال ظاہر ہونے تک اس میں توقف کیا جائے گا۔توقف کو تو حافظنے صرف امام الحرمین (ابوالمعالی شافعی)کا مذہب بتایا ہے اور یہی ان کی ذاتی تحقیق میں بھی راحج ہے،لیکن اس کو جمہور کا مذہب انہوں نے ہرگزنہیں بتایاہے۔تو پھر حافظ کے کلام کو بالکل ادھورانقل کرنا اور''ردھاالجمہور''کی صراحت کو اڑا دینا اور اس کے بجائے حافظ کی ذاتی تحقیق اور امام الحرمین کی شخصی رائے کو جمہور کا مذہب بتانا اور اس کو حافظ ابن حجرکی طرف منسوب کردینا کہ انہوں نے ایسا کہا ہے............کیا یہ سب حرکتیں حافظ کے کلام میں تحریف اور کھلی ہوئی خیانت نہیں ہیں ؟
جی چاہتا ہے کہ اس موقع پر ہم مولانا مئوی کو ان کی یہ بات یاددلائیں کہ آپ نے اپنی کتاب کے صفحہ٣٢ پر اسی شرح نخبہ کی ایک عبارت اور انہی حافظ ابن حجرکے ایک کلام کے متعلق محدث مبارک پوری قدس سرہ پربالکل غلط الزام لگاتے ہوئے لکھ مارا کہ
اس سے بڑھ کر تعجب کی بات جو مولاناکی شانِ تقدس اور عالمانہ احتیاط کے بالکل منافی ہے۔یہ ہے کہ انہوں نے ابن حجر کا کلام بالکل ادھورا نقل کیا لیکن اب فرمایئے کہ ہم آپ کے دامن تقدس کی نسبت کیا رائے قائم کریں ؟

جامی ! چہ لاف می زنی ازپاک دامنی
بر دامنِ تو ایں ہمہ داغ شراب چیست​

اس کے بعد ہم آپ کو اصل بحث کے سلسلے میں یہ بھی بتا دینا چاہتے ہیں کہ حافظ نے مستور کی روایت کی بابت جو توقف کا مسلک اختیار کیا ہے تو حافظ ہی کے بیان کے مطابق یہ بھی ردہی کے حکم میں ہے۔ چناچہ نخبہ کے محشی مولانا عبداللہ ٹوٹکی (جنہوں نے کتاب کے آخر میں خود اپنا تعارف ان لفظوں میں کرایا ہے وانا العبد الاثیم محمد المدعوبعبداللہ التونکی توطنا والاحمدی تلمذاوالحنفی مذہبا)حافظ ابن حجر کی اس تحقیق کی شرح میں لکھتے ہیں :
اقول حاصل ھذا التحقیق انماہو التوقف عن قبول خبر المستور و التوقف عن القبول ھو الرد بالمعنی الا عم کما سبق من المصنف فی اوائل الکتاب فالحق مع الجمہور وان اخذبالمعنے الاخص وھووجودصفة الردفالحق مع امام الحرمین انتھی۔ (شرح نخیہ ص ٧١حاشیہ ص٥)
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ حنفیہ کے نزدیک صیحح مذہب یہ ہے کہ مستور راوی کی حدیث اسی طرح مردود اور نا قابل حجت ہے جس طرح فاسق راویت۔علامہ ابن الہام کی التحریر اور اس کی شرح ابن امیر الحاج میں ہے: (ومثلہ) ای الفاسق (المستور) وھو من لم تعرف عدالة ولا فسقہ (فی الصیحہح) فلایکون خبرہ حجة حتی تظھر( عدالةص٢٤٧/٢) حسام الدین الاخسیکثی لکھتے ہیں : والمستور کالفاسق لا یکون خبرہ حجة فی باب الحدیث مالم یظھر عدالتہ الا فی الصدر الاول (حسامی ص٧٣)
پس ابو الحسناء بالفرض اگر مستور بھی ہو تو حنفیہ کے اصول کی رو سے اس کی روایت ہرگز حجت کے قابل نہیں ہے بلکہ اس کا حکم وہی ہے جو فاسق راوی کا ہے۔
خیر یہ تو ضمنی باتیں تھیں ، اصل مقصد یہ ہے کہ حافظ ابن الصلاح، امام نووی ،علامہ سیوطی،حافظ ابن کثیر جیسے اکابر کی تفصیل وبیان کے بموجب جب ابوالحسناء محدثین کی اصطلاح مین مستور نہیں ہے تو جس طرح بجائے خود اس کی روایت قابل قبول نہیں ہو سکتی ۔ لہذا مولانا مئوی کا زعم باطل ہے کہ ابو عبدالرحمٰن سلمی کی متابعت کی وجہ سے یہ روایت مقبول ہے۔
قولہ: حافظ صاحب نے ابو الحسناء کی روایت کے منقطع ہونے کا بھی شبہ ظاہر کیا ہے...... رجال میں پوری مہارت نہ ہونے کی وجہ سے یا کامل غور وفکر نہ کرنے سے حافظ صاحب کو یہ شبہ ہو گیاہے ورنہ یہ دونوں دوابوالحسناء ہیں .......... رکعات ص ٧٩و٨٠
ج: مولانا مئوی نے رجال میں اپنی پوری مہارت دکھانے کے لیے،یا یہ کہیے کہ کامل غوروفکر کرنے کا ثبوت دینے کے کیے اس بات پر بڑا زور لگایا ہے کہ تقریب وغیرہ رجال کی کتابوں میں جس ابوالحسناء کا ذکر ہے اور جس کے حق میں حافظ ابن حجر نے مجہول اور حافظ ذہبی نے لا یعرف کی تصریح کر دی ہے۔وہ اور یہ ابوالحسناء جو حضرت علی کے زیر بحث اثر کا راوی ہے اور جس میں ہم گفتگو کر رہے ہیں ۔یہ دونوں دوابوالحسناء ہیں اور ان دونوں کو دو الگ الگ راوی ثابت کرنے کا منشا دراصل یہ ہے کہ کسی طرح حا فظ ابن حجر اور حافظ ذہبی کی جرحوں سے جان چھوٹ جائے۔لیکن یہاں تو اِدھر ٹانکا ادھر اُدھڑا والا معاملہ ہے۔ مولانا کی جان جس ضیق میں پھنس گئی ہے۔اب اس سے نکلنا مشکل ہے۔ اگر بالفرض ہم یہ مان بھی لیں کہ یہ دو ابوالحسناء ہیں تب بھی حافظ صاحب کا اصل شبہ اپنی جگہ جون کا توں قائم رہے گا۔اس لیے کہ جب حضرت علی کے اثر کے راوی ابوالحسناء کی روایت لفظ عن اور ان کے ساتھ ہے تو جب تک ابو سعد بقال اور عمروبن قیس کے ساتھ اور اسی طرح حضرت علیکے ساتھ اس ملاقات وسماع یا کم ازکم معاصرت کتب رجال سے آپ اپنی پوری مہارت کے زور سے یا کامل غوروفکر کرکے ثابت نہ کر دیں گے اس وقت تک اس اثر کے منقطع ہونے کا شبہ قطعاً باقی رہے گا اور اس کا کوئی جواب آپ کے پاس نہیں ہے۔ولو کان بعضکم لبعض ظھیرا۔
رہا اس ابوالحسناء کا مجہول ہونا ،چونکہ لفظ عن اور ان کی صورت میں روایت میں انقطاع کا احتمال موجود ہے ۔اس لیے نہیں کہا جا سکتا کہ یہ روایت بالواسطہ ہے یا بلاواسطہ ہے۔اگر بالواسطہ ہے تو معلوم نہیں کتنے راویوں کا واسطہ ہے۔جب یہ معلوم نہیں تو اس روایت کی بنا پر نہ ابوالحسناء کا کوئی طبقہ متعین کیا جا سکتا ہے اور نہ راوی و مروی عنہ کے مابین سماع ولقاء کا زمانہ بتایا جا سکتا ہے اور نہ بلاواسطہ استادوں اور شاگردوں کی تعیین کی جا سکتی ہے اور کتب رجال سے اس کی عدالت و ثقاہت کا حال بھی نا معلوم ہی ہے۔تو اب اس کے مجہول اور نا معلوم ہونے میں کیا شک رہ جاتا ہے۔ لہذا اگر تقریب والے ابوالحسناء سے آپ کی جان چھوٹ بھی گئی تو بتائیے اس سے آپ کو فائدہ ہی کیا پہونچا؟ جب کہ اس ابوالحسناء کی جہالت تقریب والے سے کم نہیں ،بلکہ بڑھکر ہی ہے۔
الغرض حافظ صاحب کے دونوں اعتراض (ابوالحسناء کا مجہول ہونا اوراس کی روایت کا منقطع ہونا ) اپنی جگہ بالکل اٹل ہیں اور آپ رجال میں اپنی پوری مہارت یا کامل غوروفکر کرنے کے باوصف ان اعتراضوں کو نہیں اٹھا سکے۔ اسی سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ رجال میں پوری مہارت آپ کو ہے یا حافظ صاحب کو۔اور کامل غوروفکر آپ نے نہیں کیایا حافظ صاحب نے؟۔
قرائن کا جواب اس کے بعد مولانا مئوی نے حضرت علی کے اثر کے صحیح ہونے کے ثبوت میں ان کے شاگردوں کے عمل کو قرینہ بنا کر پیش کیا ہے لکھتے ہیں :
علاوہ بریں حضرت علی کے اثر کے صحیح ہونے کا ایک زبردست قرینہ یہ ہے کہ جو لوگ حضرت علی کے خاص صحبت یافتہ اور شاگرد اور ان کے مستقر خلافت کوفہ میں رہتے تھے۔وہ بیس رکعتیں پڑھا کرتے تھے۔(رکعات ص٨٢)
ج : جی نہیں یہ ہرگز ضروری نہیں ہے کہ شاگرد کا جو مسلک ہو۔وہی استاد کا بھی ہو ۔دور کیوں جائیے۔ائمہ اربعہ رحمہم اللہ ہی کو لے لیجیے۔کیا ان کے درمیان استادی شاگردی کے تعلقات نہیں ہیں ۔امام مالک امام ابوحنیفہ اور امام شافعی دونوں کے استاد (١) ہیں ، لیکن کیا ان میں سے کسی ایک کے مسلک کو بھی دوسرے
(١) اس کی تفصیل سید سلیمان ندوی مرحوم کی کتاب ''حیات امام مالک'' ضرور دیکھئے
کے مسلک وعمل کے لیے قرینہ اور دلیل بنایا جا سکتا ہے؟ ان کے اختلافات تواتنے وسیع اور مستحکم ہیں کہ اب مستقل چار مذہب بن گئے ہیں ۔اور ان چاروں کو حق ہونے کی سند بھی دی گئی ہے۔اسی طرح ائمہ حنفیہ میں امام ابو یوسف اور امام محمد دونون امام ابو حنیفہ کے شاگرد ہیں ،مگر کون کہ سکتا ہے کہ ان دونوں کا کوئی عمل زبردست قرینہ ہے اس کا کہ امام ابو حنیفہ کا بھی یہی عمل تھا؟ایسی مثالوں کا استقصاء کیا جائے تو ایک طویل فہرست مرتب ہو سکتی ہے مگر میں یہ سمجھتا ہوں کہ اہل عمل کے نزدیک یہ ایسی بدیہی بات ہے کہ اس کے بارے میں دو رائیں ہو ہی نہیں سکتیں ۔اس لیے بالفرض اگر حضرت علیکے بعض شاگردوں نے بیس رکعتیں پڑھی بھی ہوں تو اس سے ہرگز یہ لازم نہیں آتا کہ حضرت علی کا یہ حکم تھا یاان کا عمل اور طریقہ بھی یہی تھا۔
اس اجمالی جواب کے بعد اب مولانا مئوی کی ہر دلیل ا ور اس کا جواب الگ الگ بھی عرض کیا جا سکتا ہے۔
قولہ: چنانچہ شتیربن شکل جن کی نسبت بیہقی میں ہے کہ وہ حضرت علی کے اصحاب خاص میں تھے۔بیس رکعتیں پڑھاتے تھے ... (رکعات ص٨٢)
ج : مولانا مئوی کو آثار السنن میں یہ روایت تو نظر آ گئی ، لیکن یہ نظر نہ آیا کہ اس روایت پر مولانا شوق نیموی مرحوم نے ساتھ ہی جرح اور کلام بھی کر دیا ہے ۔ نیموی مرحوم نے تو اپنی دیانت کا ثبوت دیا کہ اس جرح کو چھپانے کی کوشش نہیں اور نہ جواب میں کوئی دھاندلی دکھائی ، مگر فاضل مئوی جو ''رجال میں پوری مہارت'' رکھتے ہیں انہوں نے تو وہ حرکت کی ہے کہ دیانت سر پیٹ کر رہ گئی ہے ۔ نہ اس جرح کا کوئی جواب دیں جس کے صاف معنی یہ ہیں کہ یہ جرح ان کو تسلیم ہے یہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی ایسی روایت کو حجت بنا کر پیش کرنا اندھیر نہیں تو کیا ہے ؟
مولانا نیموی نے ابن ابی شیبہ کے حوالے سے جو سند اس روایت کی نقل کی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شتیر بن شکل سے اس کو عبداللہ بن قیس نے روایت کیا ہے اور عبداللہ بن قیس سے ابواسحق نے روایت کیا ہے ۔ ان دونوں کے متعلق مولانا نیموی لکھتے ہیں : قلت عبداللہ بن قیس لا یدری من ھو تفرد عنہ ابو اسحق انتھی تعلیق آثار( السنن ص ٧٥ جلد ٢) یعنی اس عبداللہ بن قیس کے متعلق معلوم نہیں کہ یہ کون ہے اور اس سے روایت کرنے میں ابواسحق متفرد ہے (کوئی دوسرا راوی اس کا متابع اور مؤید نہیں ہے)
جب بقول مولانا نیموی اس اثر کے راوی عبداللہ بن قیس کا کچھ پتہ ہی نہیں ہے کہ کون ہے اور صرف ابواسحق نے اس سے روایت لیا ہے تو محدثین کی اصطلاح میں یہ مجہول العین ہوا اور مجہول العین کی روایت کا ناقابل احتجاج ہونا مولانا مئوی کو بھی تسلیم ہے اور جمہور محدثین کے نزدیک بھی اس کا مردود ہونا پہلے معلوم ہو چکا ۔
دوسری بات یہ ہے کہ یہ اثر شتیر بن شکل سے عبداللہ بن قیس نے لفظ عن کے ساتھ روایت کیا ہے ۔ اس لئے جب تک ان دونوں کی ملاقات و سماع یا کم از کم معاصرت کتب رجال سے ثابت نہ ہو جائے یہ روایت مقبول نہیں ہو سکتی جیسا کہ پہلے گذر چکا ۔
یہ اثر بیہقی میں بلا سند مذکور ہے ۔ اس کی بابت مولانا نیموی لکھتے ہیں :
قلت البیہقی لم یذکر اسنادہ ولعلہ من طریق عبداﷲ بن قیس المذکور واللہ اعلم (تعلیق آثار السنن)
یعنی بیہقی نے اس کی سند ذکر نہیں کی ہے شاید یہ اسی عبداللہ بن قیس کے طریق سے مروی ہے جس کی بابت معلوم ہو چکا کہ پتہ نہیں یہ کون ہے۔
اگر کہا جائے کہاامام بیہقی نے اس اثر کو نقل کر کے فرمایا ہے وفی ذلک قوة (یعنی اس میں قوت ہے) اور اس کی قوت کے ثبوت میں انہوں نے عبدالرحمن سلمی کی روایت پیش کی ہے (جس کا ذکر پہلے آ چکا ہے) ۔
تو اس کے جواب مں پہلی گذارش تو یہ ہے کہ شتیر بن شکل کا یہ اثر مولانا شوق نیموی نے بھی تعلیق آثار السنن میں بیہقی کے حوالے سے نقل کیا ہے مگر اس کے آخر میں امام بیہقی کا یہ فقرہ (وفی ذلک قوة) انہوں نے نقل نہیں کیا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام بیہقی کی یہ بات مولانا نیموی کے نزدیک اتنی کمزور ہے کہ انہوں نے اس کو قابل ذکر بھی نہیں سمجھا ۔ اتنا ہی نہیں بلکہ اس کے ثبوت میں امام بیہقی نے ابوعبدالرحمن سلمی کی جو روایت پیش کی ہے اس کے ایک راوی حماد بن شعیب کو انہوں نے خود بھی ضعیف قرار دیا اور دوسرے بہت سے محدثین کے اقوال اس کی جرح کی بابت نقل کر دیئے اور نقل کرنے کے بعد ان جرحوں پر کوئی رد و انکار نہیں کیا ۔ لہذا مولانا مئوی کے اصول کے مطابق یہ دلیل ہے اس بات کی کہ مولانا نیموی کو ان جرحوں پر کوئی اعتراض نہیں ہے اور یہ روایت ان کے نزدیک ضعیف ہے ۔
پس مولانا مئوی پہلے خود اپنے علامہ نیموی سے نپٹ لیں اس کے بعد بیہقی کی یہ بات ہمارے سامنے پیش کریں گے ۔
دوسری گذارش یہ ہے کہ امام بیہقی نے خود یہ اصول پیش کیا ہے کہ جب تک حدیث کے راویوں کے نام نہ معلوم ہوں اور ان کی عدالت نہ ثابت ہو وہ روایت مقبول نہیں ہو سکتی ۔ نہ مجہولین کی روایت معتبر ہے اور نہ مجروحین کی ۔ چنانچہ لکھتے ہیں :
واھل العلم مختلفون فیما یجرح بہ الراوی فلا بد مین تسمیتہ لیوقف علی حالہ فتستبین عدالتہ او جرحہ عند من بلغہ خبرہ من اھل العلم (کتاب القرن ص ١٠٦)
یعنی محدثین اسباب جرح کے بارے میں مختلف نظریہ رکھتے ہیں ۔ اس لئے راوی کا نام بتانا ضروری ہے تاکہ اس کے حال سے واقفیت ہو جائے اور اس کا عادل یا مجروح ہونا دوسرے اہل علم پر بھی واضح ہو جائے ۔ یہی امام بیہقی اسی کتاب القراة کے ص ١٠٤ پر لکھتے ہیں :
واصل مذھبنا انا لا نقبل خبر المجہولین حتی یعرفوا بالشرائط التی توجب قبول خبرھم قال الشافعی رحمہ اﷲ لم یکلف اللہ احدا ان باخذ دینہ عن من لا یعرفہ فان جھل منھم واحد وقت عن روایتہ حتی یعرف بما وصفت فیقبل خبرہ او بخلافہ فیرد خبرہ انتھی
یعنی ہمارے مذہب کا قاعدہ یہ ہے کہ ہم مجہول راویوں کی خبر قبول نہیں کرتے تاوقت یہ کہ ان شرائط کے ساتھ ان کا حال معلوم نہ ہو جائے جن کی بنا پر ان کی روایت قابل قبول ہو سکے ۔ امام شافعی نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالی نے کسی کو اس کا حکم نہیں دیا ہے کہ وہ دین کی بات ایسے شخص سے حاصل کرے جس کو وہ جانتا نہ ہو ۔ اگر کوئی راوی مجہول ہو تو اس کی روایت کے بارے مںس توقف کیا جائے گا تحقیق کے بعد اگر اس کے اوصاف قابل قبول ثابت ہوئے تو اس کی روایت مقبول ہو گی ورنہ رد کر دی جائے گی ۔
امام بیہقی کے اس اصول کے بموجب شتیر بن شکل کا وہ اثر جس کو انہوں نے سنن کبری میں بلا سند ذکر کیا ہے (ان کے نزدیک اس میں قوت ہو توہو مگر) دوسرے اہل علم کے نزدیک وہ قابل قبول اسی وقت ہو گا جب کہ اس کی سند معلوم ہو جائے اور اس کے سب راویوں کی عدالت ثابت ہو جائے جس طریق سے اس کی سند کا علم ہوا ہے اس میں عبداللہ بن قیس کی بابت دوسرے اہل علم نے صراحت کر دی ہے کہ معلوم نہیں یہ کون ہے اس لئے جب تک اس کے اوصاف موجبہ للقبول کا پتہ نہیں چلے گا یہ روایت ہم پر حجت نہیں ہو سکتی اور نہ اس پر عمل کیا جائے گا ۔
رہی ابو عبدالرحمن سلمی کی روایت جو بطریق حماد بن شعیب عن عطاء بن السائب منقول ہے تو یہ بھی امام بیہقی ہی کے بتائے ہوئے اصول کی بنا پر مقبول نہیں کیونکہ اس کے دو دو راوی مجروح ہیں اور امام بیہقی نے بصراحت لکھا ہے کہ مجروحین کی روایت مقبول نہیں ہے چنانچہ لکھتے ہیں :
واذاکنا لا تقبل روایة المجھولین فکیف نقبل روایة المجروحین لا نقبل من الحدیث الامارواہ من ثبتت عدالتہ وعرف بالصدق رواتہ ۔(کتاب القراء ةص١٠٧)
یعنی جب ہم مجہول راویوں کی روایت نقل نہیں کرتے(حالانکہ ان کے عادل و ضابطہ ہونے کا بھی احتمال ہے) تو ایسے راویوں کی روایت کیسے قبول کر لیں گے جن کا مجروح ہونا معلوم ہے ۔ ہم وہی حدیث قبول کریں گے جس کے راویوں کی عدالت ثابت اور صداقت معروف ہو ۔
قولہ : اسی طرح عبدالرحمن بن ابی بکر ہ اور سعید بن ابوالحسن حضرت علی کے شاگرد تھے اور یہ حضرات بھی پانچ تر ویحے یعنی بیس رکعتیں پڑھاتے تھے ... (رکعات ص ٨٢) ۔
ج : یہی روایت مولانا مئوی نے اپنی کتاب (رکعات تراو یح) کے ص ٥ پربھی پیش کی ہے وہاں اس روایت کے ذکر کرنے میں انہوں نے اختصار کے بجائے کسی قدر تطویل سے کام لیا ہے ۔ چنانچہ لکھتے ہیں :
''اور عبدالرحمن بن ابی بکرہ و سعید بن ابی الحسن و عمران عبد ی ٨٣ ھ سے قبل بصرہ کی جامع مسجد میں پانچ ترویحے یعنی بیس رکعتیں پڑھایا کرتے تھے اور آخری عشرہ میں ایک ترویحہ کا اضافہ کر دیتے تھے '' ۔ (قیام اللیل ص ٩٢)
یہ نہ سمجھئے کہ ''اختصار'' اور ''تطویل'' کا یہ عمل مولانا سے محض اتفاقاً وقوع میں آ گیا ہے بلکہ مولانا مئوی نے قصداً ایسا کیا ہے اور اس عمل کے پیچھے ایک خاص مصلحت اور جذبہ کارفرما ہے ۔ بات یہ ہے کہ جہاں یہ دعوی کیا ہے کہ بیس یا بیس سے زائد رکعتوں پر مسلمانوں کا عمل رہا ہے وہاں اس روایت کے پیش کرنے میں تطویل سے کام لیا اور اس موقع پر اس بات کو چھپانے کی ضرورت نہیں سمجھی کہ ''آخری عشرہ میں ایک ترویحہ (یعنی چار رکعتوں ) کا اضافہ کر دیتے تھے '' ۔ لیکن جہاں یہ دعوی کیا کہ حضرت علی کے شاگرد بیس رکعتیں حضرت علی کے حکم سے پڑھتے تھے ، وہاں اختصار سے کام لیا ہے ۔ یعنی ایک ترویحہ کے اضافہ والا ٹکڑا وہاں سے حذف کر دیا کیونکہ اس ٹکڑے سے اس دعوے کی تردید ہو جاتی ہے کہ حضرت علی کے شاگردوں کا عمل حضرت علی کے حکم کے مطابق تھا ۔ اس لئے کہ حضرت علی کا ''حکم'' تو صرف بیس رکعتوں کا تھا اور یہاں آخری عشرہ میں عمل چوبیس رکعتوں پر ہو رہا تھا ۔
اسی ''دور اندیشی'' کی بنا پر مولانا مئوی نے اس روایت کے بعض حصوں کو تو ''اختصار'' اور ''تطویل'' کے ان دونوں موقعوں میں سے کہیں بھی ذکر نہیں کیا ہے ۔ کیونکہ اس روایت کا وہ حصہ حنفی مذہب کے خلاف ہے ۔ قیام اللیل ص ٩٢ میں یہ روایت نکال کر دیکھئے ۔ اس میں یہ الفاظ بھی موجود ہیں ۔ و یقنتون فی النصف الاخر و یختمون القرآن مرتین انتھی (یعنی وتر میں دعاء قنوت رمضان کے صرف نصف آخر میں پڑھتے تھے اور قرآن پاک دو مرتبہ ختم کر دیتے تھے) یہ دونوں باتیں حنفی مذہب کے خلاف ہیں ۔ چنانچہ ہدایہ میں ہے ویقنت فی جمیع السنة خلافا للشافعی فی غیر النصف الاخیر من رمضان (باب الصلوة الوتر) ''یعنی تراویح میں قرات قرآن کی کوئی خاص مقدار مذکور نہیں ، لیکن اکثر مشائخ کے نزدیک قرآن کو ایک مرتبہ ختم کرنا سنت ہے۔''
مولانا مئوی کی ان چھپی ہوئی ''چالاکیوں '' کے چہرے سے نقاب اٹھا دینے کے بعد اب ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ حضرت علی کے اصحاب خاص اور شاگردوں کا بیس رکعتیں پڑھنا بقول آپکے''زبردست دلیل ہے اس بات کی کہ انہوں نے یقینا بیس کا حکم دیا تھا''۔ (رکعات ص٨٣)تو اسی روایت میں جن دوسرے عملوں کا ذکر ہے ان کے متعلق بھی تو یہ زبردست دلیل ہے اس بات کی کہ حضرت علینے انکا بھی یقینا حکم دیا تھا؟ مثلاً (الف) آخری عشرہ میں بیس سے زیادہ رکعتیں جماعت سے ادا کرنا (مگر حنفی مذہب میں یہ مکروہ ہے بلکہ بعض کے قول کے مطابق تو بدعت ضلالت ہے۔ جس کا حوالہ اس کتاب کے شروع میں ہم بتا چکے ہیں )
(ب)رمضان کے صرف نصف آخر میں قنوت پڑھنا (مگر احناف رمضان بھر بلکہ رمضان کے علاوہ بھی ہمیشہ قنوت پڑھنے کے قائل ہیں )
(ج)تراویح میں دو مرتبہ قرآن مجید ختم کرنا (مگر مشائخ حنفیہ صرف ایک مرتبہ ختم کرنے کو سنت کہتے ہیں )
ان باتوں کا جو جواب آپ دیں گے وہی جواب ہمارا بھی سمجھیے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
قولہ : نیز سوبن غفلہ (جو حضرت علی وابن مسعودکے اصحاب خاص میں تھے )اور حارث اعور اور علی بن ربیعہ (یہ دونوں بھی حضرت علی کے شاگرد تھے) بھی بیس رکعتیں پڑھاتے تھے۔ (ص =)
ج : اس روایت کے لیے مولانا نے بہیقیاور آثار السنن مع تعلیق کا حوالہ دیا ہے لیکن حارث اعور کے بیس پڑ ھنے کی روایت نہ تو بہیقی میں ہے اور نہ آثار السنن میں ہے۔ اور نہ اس کی تعلیق میں ہے اور رکعات تراویح ص٥ پر آپ نے اثر کے لیے ''مصنف''کا حوالہ دیا ہے۔ یہ حوالہ بھی محض رنگ محفل جمانے کے لیے ہے۔مصنف کا نسخہ مولانا نے کبھی خواب میں بھی نہ دیکھا ہوگا۔اسی لیے نہ صفحے کا ذکر ہے نہ جلد کا۔ہاں یہی حارث اعور ہیں جن کے متعلق قیام اللیل للمروزی میں منقول ہے کہ ''وہ اپنی قوم کی امامت کرتے تھے تب وتر میں دعقنوت پڑھتے تھے ''(شروع کے پندرہ دنوں میں نہیں پڑھتے تھے)روایت کے الفاظ یہ ہیں :
وعن الحرث انہ کان یؤم قومہ وکان لایقنت الا فی خمس عشرةیبقین من رمضان انتھی۔ (ص١٢٢)
حضرت علی کے متعلق امام مروزی نے اس بابن میں دو روایتیں ذکر کی ہیں ۔پہلی روایت تو یہ بیان کی ہے کہ وہ وتر میں دعقنوت پورے رمضان میں پڑھتے تھے اور غیر رمضان میں بھی پڑھتے تھے۔اس کے بعد دوسری روایت یہ ذکرکی ہے:
وعن علی انہ کان یقنت فی النصف الاخر من رمضان انتھی۔(قیام الیل ص١٣٢)
حضرت علی رمضان کے نصف آخر میں قنوت پڑھتے تھے(یعنی شروع کے پندرہ دنوں میں وتر میں دعقنوت نہیں پڑھتے تھے)اگر یہ اصول صحیح ہے کہ شاگردوں کا عمل حضرت علیکے عمل کے لیے زبردست دلیل اور قرینہ ہے تو اس اصول کی بنا پر دوسری ہی روایت صحیح ہوگی،کیونکہ ان کے شاگردوں کا عمل اسی پر ہے۔
پس اگر سچ مچ حضرت علی کی سنت پر عمل کرنے کا داعیہ دل میں موجود ہے تو اعلان کردو کہ وتر میں دعا قنوت پورے سال نہیں بلکہ صرف رمضان کے نصف آخر میں پڑھنا چاہیے۔
قولہ : اور ابوالبختری المتوفی ٨٣ھ جو حضرت علی کے مستقر خلافت کوفہ کے باشندہ اور ان کے شاگردوں (ابو عبدالرحمٰن سلمی وحارث وغیرہما) کے شاگرد اور صحبت یافتہ ہیں ، وہ بھی بیس تراویح اور تین وتر پڑھتے تھے۔ (رکعات ص٨٣)
ج : اس روایت کے لیے حوالہ مولانا مئوی نے تعلیق آثار السنن کا دیا ہے،مگر''دیا نتداری ''دیکھیے کہ اس روایت کو پیش کر کے مولانا مئوی نے اس پر جو جرح کی ہے اسکو مئوی صاحب نے بالکل حذف کردیا ۔ گویا جتنا حصہ اپنے مطلب کے موافق تھا اس کو لے لیا اور جتنا حصہ اپنے مطلب کے خلاف تھا اس کو چھوڑ دیا۔انصاف سے کہیے ! کیا ''محدثانہ ''شان تقدس کو یہ بات زیب دیتی ہے؟

تفو بر تو اے چرخ گرداں تفو​

اس روایت کے متعلق مولانا نیموی لکھتے ہیں : قلت فیہ خلف لااعرف من ھو انتھی (تعلیق آثارالسنن ص٥٧ج٢)یعنی اس کی سند میں ایک راوی کا نام خلف ہے۔ اس کو میں نہیں جانتا کہ کون ہے۔
مولانا مئوی کا حق تھا کہ وہ پہلے ا س شبہ کا جواب دیتے اور رجال میں اپنی ''پوری مہارت ''اور ''کامل غوروفکر '' کے زور سے بتا دیتے کہ یہاں ''خلف '' سے فلاں شخص مراد ہے اور فلاں فلاں کتابوں میں اس کے حالات واوصاف مقبولہ کا بیان موجود ہے اسکے بعد اس روایت کو حجت میں پیش کرتے،لیکن ان کا مقصد تو محض ''دلیلوں '' کی گنتی بڑھاکر عوام کو مغالطہ دینا ہے۔اس لیے وہ اس معقول طریقہ کو کیوں اختیار کرتے۔
قولہ : علاوہ بریں حضرت علی نیز حضرت عمر کے ان آثار کے صحیح ہونے کی اور اس بات کی کہ ان حضرات سے بیس رکعت کا حکم بے شک وشبہ ثابت ہے۔ایک پُر زور شہادت یہ بھی ہے کہ فنِ حدیث کے مسلم الثبوت امام ابو عیسیٰ ترمذی میں فرمایا ہے کہ واکثر اہل العلم علی ما روی عن علی وعمرو وغیرہما من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم عشرین رکعة....... دیکھیے امام ترمذی بھی حضرات مذکورہ بالا سے بیس رکعت کے ثبوت کو بے تامل تسلیم کرتے ہیں ۔ کیا ان حضرات سے بیس رکعت کی روایتیں نا قابل اعتبار ہوتیں توامام ترمذی ان کا اس طرح ذکر نہ کرتے؟ہرگزنہیں ۔سوچنے کی بات ہے کہ روایت کے صحت وسقم کا علم یا ان کے نقدکا سلیقہ امام ترمذی کو زیادہ حاصل ہے۔ یا حافظ عبداللہ صاحب اور مولانا عبدالرحمٰن کو۔؟ (رکعات ص ٨٣ )
ج : شاید مولانا مئوی کو یا د نہیں رہا کہ انہوں نے بیس رکعت پر عمل کی سب سے پہلی دلیل حضرت ابن عباس کی مرفوع روایت کو قرار دیا ہے جو ابو شیبہ کی طریق سے مر وی ہے اور ابو شیبہ پر محدثین نے جو جرحیں کی ہیں ۔ ان سب کا اپنے زعم میں جواب دیا ہے یہ نہ سوچا کہ اس روایت کے صحیح نہ ہونے کی اور اس بات کی کہ یہ روایت بے شک وشبہ ناقابل اعتبار اور استدلال کے موقعہ پر نا قابل ذکر ہے۔ ایک پر زور شہادت یہ بھی ہے کہ فنِ حدیث کے مسلم الثبوت امام ابو عیسیٰ ترمذی نے ترمذی مین بیس کے عمل کے لیے اس روایت کا حوالہ ''رادی'' کے لفظ کی ساتھ بھی نہیں دیا ہے۔ کیا یہ روایت کسی درجہ میں بھی قابل ذکرہوتی تو امام ترمذی اس کو اس طرح نظر انداز کر دیتے؟ سوچنے کی بات ہے کہ روایات کے صحت وسقم کا علم یا ان کے نقد کا سلیقہ امام ترمذی کو زیادہ حاصل ہے یا مولانا حبیب الرحمٰن اعظمی مئوی کو؟
نیز مولانا اس حقیقت سے بے خبر نہیں ہوں گے کہ جامع ترمذی میں پچاسوں مسئلے ایسے موجود ہیں کہ امام ترمذی صحابہ کرام سے ان کاثبوت بے تامل تسلیم کرتے ہیں مگر حضراتِ حنفیہ ان میں سے ایک کو بھی نہیں مانتے۔ہم ذیل میں مثال کے طور پر صرف چند وہ مسئلے ذکر کرتے ہیں جو حضرت عمر اور حضرت علی سے ترمذی میں منقول ہیں اور امام ترمذی ان حضرات سے ان کا ثبوت بے تامل تسلیم کرتے ہیں لیکن احناف کا مذہب ان کے خلاف ہے۔مثلاً
(١) امام ترمذی باب ما جاء فی زکوٰة مال الیتیم کے ذیل میں حدیث پیش کرکے لکھتے ہیں :
وقد اختلف اھل العلم فی ھذا الباب فرای غیر واحد من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی مال الیتم زکوٰة منھم عمر و علی وعائشہ وابن عمر (ترمذی ص٩٣/١)
یعنی حضرت عمرو حضرت علی وحضرت عائشہ وحضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہم یتیم کے مال میں زکوة کے وجوب کے قائل ہیں ۔
(٢) امام ترمذی باب ما جاء لا نکاح الا بولی کے ذیل میں حدیث پیش کرنے کے بعد آخر میں لکھتے ہیں :
والعمل فی ہذاالباب علی حدیث النبی صلی اللہ علیہ وسلم لا نکاح الا بولی عند اھل العلم من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم منھم عمر بن الخطاب وعلی بن ابی طالب وعبداللہ بن عباس وابو ھریرة وغیرھم (ترمذی ص١٤١و ١٤٢/١)
یعنی حضرت عمر اور حضرت علی اور حضرت عباس اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنھم اور دوسرے صحابہ فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم لا نکاح الا بولی(کوئی نکاح بغیر ولی کے درست نہیں ) کی بنا پر اس بات کے قائل ہیں کہ کسی عورت کا نکاح ولی کے بغیر جائزنہیں ہے۔
(٣) امام ترمذی باب ماجاء فی التغلیس بالفجر کے ذیل میں حدیث ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
وہو الذی اختارہ غیر واحد من اھل العلم من اصحاب النبی صلی اللہ وسلم منھم ابوبکر وعمر ومن بعدھم من التابعین (تر مذی ص٢٨/١)
یعنی طلوع فجر کے بعد اندھیرے ہی میں صبح کی نماز پڑھنے کو بہت سے صحابہ نے اختیار کیاہے۔ انہی میں حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما بھی ہیں ۔
(٤)امام ترمذی باب ما جاء فی المسح علی الجوربین والعمامة کے ذیل میں حدیث روایت کرنے کے بعد لکھتے ہیں
وھو قول غیر واحد من اھل العلم من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم منھم ابوبکر وعمروانس وبہ یقول الاوزای واحمد واسحاق قالو یمسح علی العمامة۔ (ترمذی ص٢٠/١)
یعنی متعدد صحابہ اس بات کی قائل ہیں کہ عمامہ پر مسح کرنا جائز ہے۔ انہی میں سے حضرت ابو بکر اور حضرت عمر اور حضرت انس رضی اللہ عنہم بھی ہیں ۔
(٥) امام ترمذی باب ما جاء فی النفی کے ذیل میں حدیثیں روایت کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
والعمل علی ھذا عند اھل العلم من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم منھم ابو بکر وعمر وعلی وابی بن کعب وعبداللہ بن مسعود و ابو ذر وغیرھم (ترمذی ص١٨٥وص١٨٦/١)
یعنی حضرت ابوبکر اور حضرت عمر اور حضرت علی اور حضرت ابی بن کعب اور حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت ابوذر وغیرہم بہت سے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنھم کا عمل اس بات پر ہے کہ زانی غیر محصن کو حد لگانے کے بعد ایک سال کے لئے شہر بدر بھی کر دیا جائے ۔
اب ہم مولانا مئوی سے پوچھتے ہیں کہ مذکورہ بالا مسائل کے بارے میں فنِ حدیث کے مسلم الثبوت امام ابو عیسیٰ ترمذی کی پرزور شہادت کیوں رد کر دی گئی ہے اور خلفاء راشدین حضرت ابوبکر اور حضرت عمر اور حضرت علی رضی اللہ عنہم کی یہ سنتیں احناف کے نزدیک کیوں قابلِ عمل نہیں ہیں ؟ کیا یہ روایتیں ناقابل اعتبار ہوتیں تو امام ترمذی ان کو اس طرح ذکر کرتے ہرگز نہیں ۔ کیا ان مسائل کی بابت یہ بات سوچنے کی نہیں ہے کہ روایات کے صحت و سقم کا علم یا ان کے نقد کا سلیقہ امام ترمذی کو زیادہ حاصل ہے یا مولانا حبیب الرحمن اعظمی مئوی اور ان کے جیسے دوسرے حنفیوں کو ؟
ہم یہ نہیں کہتے کہ بات وہ ہے جو علامہ ابن حزم نے محلی جلد خامس کے ص ٢٧٧ ، ٢٧٨ پر کہی ہے کہ :
ان احتجاجھم یعمر انما ھو حیث وافق شھواتھم لا حیث صح عن عمر من قول او عمل وھذا عظیم فی الدین جدا انتھی ۔
یعنی ان مقلدین جامدین کا حال یہ ہے کہ یہ حضرت عمر کے ہر اس قول و عمل کو حجت نہیں مانتے جو ان سے صحیح طور پر ثابت ہیں بلکہ صرف ان باتوں کو تسلیم کرتے ہیں جو ان کی خواہش اور مرضی کے موافق ہوں ۔ دین کے معاملے میں یہ طریقہ بہت برا ہے ۔ بلکہ بربنائے حسن ظن یہ سمجھتے ہیں کہ ان روایات سے اختلاف کرنے کے کچھ قوی وجوہ اور دلائل آپ اپنے زعم میں رکھتے ہوں گے ۔ (خواہ فی الواقع وہ ضعیف اور نا قابل اعتبار ہی ہوں ) ۔ تو بس اہلِ حدیث بھی تو یہی کرتے ہیں ۔ پھر ان کی باتوں میں آپ کو کیڑے کیوں نظر آتے ہیں ؟ اور ان کے مقابلے میں ''فن حدیث کے مسلم الثبوت امام کی پرزور شہادت'' پیش کرکے ذہنوں کو مرعوب کرنے اور ناواقفوں کو مغالطہ دینے کی فضول اور غلط کوشش کیوں کی جاتی ہے ؟
رہا امام ترمذی کا علی ما روی عن علی وعمر الخ فرمانا تو یہ صرف ان حضرات سے بیس رکعت کی بابت کسی قول یا عمل کے ''مروی ہونے'' کی شہادت ہے ، لیکن ظاہر ہے کہ محض ''مروی'' ہونے سے اس کا ''صحیح '' اور ''ثابت'' ہونا لازم نہیں آتا ۔ یہ آپ کی خوش فہمی ہے کہ ''روی'' کے معنی ''ثبت'' اور ''صَحَّ '' سمجھ رہے ہیں اگر یہ خیال ہے کہ اس ''مروی'' پر امام ترمذی کا سکوت فرمانا اس کی صحت کی دلیل ہے تو عرض یہ ہے کہ یہ تو آپ کا دعوی ہوا کیا اس دعوے پر آپ کے پاس کوئی دلیل بھی ہے ؟ امام ترمذی نے خود یا کسی حاذق فن محدث نے یہ لکھا ہے کہ امام ترمذی کا سکوت بھی روایت کی صحت کی دلیل ہے ؟
ہم کو تو اس کے بر خلاف محدثین کے کلام میں یہ ملتا ہے کہ امام ترمذی روایات کی تصحیح اور تحسین کے بارے میں متساہل ہیں ۔ اس لئے علماء ان کی تصحیح پر اعتماد نہیں کرتے اور نہ ان کی تحسین سے دھوکہ کھاتے ہیں ۔ چنانچہ حافظ ذہبی کثیر بن عبداللہ المزی کے ترجمہ میں لکھتے ہیں :
واما الترمذی فروی من حدیثہ الصلح جائز بین المسلمین و صححہ فلھذا لا یعتمد العلماء علی تصحیح الترمذی انتھی (میزان الاعتدال ص ٣٥٤ ج ٢)
اور یح بن یمان کے ترجمہ میں ایک حدیث نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
حسنہ الترمذی مع ضعف ثلاثة فیہ فلا یغتر تحسین الترمذی (میزان ص ٢٠٧ ج ٣)
غور کیجئے محدثین کا فیصلہ تو یہ ہے کہ امام ترمذی اگر کسی روایت کی صحت کی تصریح بھی فرما دیں تو یہ قابل اعتماد نہیں ہے (تاوقتیکہ دوسرے محدثین اور نقاد فن اس کی تائید نہ کریں ) مگر مولانا مئوی کی مہارت فن کی داد دیجئے جو فرماتے ہیں کہ امام ترمذی کا تو ''سکوت'' بھی روایت کی صحت کی دلیل ہے ، بلکہ اس کے بے شک و شبہ ثابت ہونے کی پر زور شہادت ہے ۔
بہ بین تفاوتِ راہ از کجا ست تا بکجا ۔

حافظ عماد الدین ابن کثیر المتوفی ٧٧٤ ھ لکھتے ہیں :
وکان الحاکم ابوعبداﷲ والخطیب البغدادی یسمیان کتاب الترمذی الجامع الصحیح وھذا تساھل منھما فان فیہ احادیث کثیرة منکرة انتھی ۔ (الباعث الحثیث ص ٦)
''یعنی امام حاکم اور خطیب بغدادی امام ترمذی کی کتاب کو ''الجامع الصحیح'' کہتے تھے لیکن یہ ان دونوں کا تساہل ہے ، کیونکہ اس میں بہت سی ضعیف حدیثیں بھی ہیں ''
دیکھئے یہ فیصلہ ایک مسلم الثبوت اور ماہر فن محدث کا ترمذی کی ان روایتوں کی بابت ہے جو اس میں سند کے ساتھ مروی ہیں اور جن میں سے بعض کی نسبت امام ترمذی نے صحیح یا حسن ہونے کی تصریح بھی کر دی ہے تو بھلا کسی ایسی روایت کا کیا مقام ہو سکتا ہے جس کو امام ترمذی نے سنداً ذکر کیا ہو اور نہ اس کے صحیح یا حسن ہونے کی صراحت فرمائی ہو ؟ بلکہ صرف نقل مذاہب کے سلسلے میں اس کی طرف اشارہ کر دیا ہو اور اشارہ بھی ایسے لفظ ''روی'' کے ساتھ کیا ہو جو بجائے خود تضعیف و تمریض کا موہم ہو سکتا ہے ۔ سوچنے کی بات ہے کہ روایات کے صحت و سقم کا علم یا ان کے نقد کا سلیقہ حافظ شمس الدین ذہبی اور حافظ عماد الدین ابن کثیر کو زیادہ حاصل ہے یا مولانا حبیب الرحمن اعظمی کو ؟
ایک بات اور سنیئے ! اگر ''ما روی عن علی و عمر'' کہہ کر اس پر جرح نہ کرنا اس روایت کے صحیح اور بے شک و شبہ ثابت ہونے کی پرزور شہادت ہے تو کیا یہ بات آپ ان تمام روایات کے متعلق بھی کہیں گے جن کی طرف امام ترمذی فی الباب عن فلان و فلان کہہ کر اشارہ کرتے ہیں اور ان پر کوئی جرح نہیں کرتے کیونکہ اس کا مطلب بھی تو آخر یہی ہے کہ فی الباب ''روی'' عن فلان و فلان ؟ ۔
ظاہر ہے کہ فی الباب ''روی'' عن فلان و فلان کا یہ منشا ہر گز نہیں ہے ۔ بلکہ ''مروی'' ہیں ۔ رہا یہ کہ یہ ''مروی'' حدیثیں صحیح ہیں یا ضعیف ، ثابت ہیں یا غیر ثابت ؟ تو اس کی بابت اس میں کوئی ادنی اشارہ بھی نہیں ہوتا ۔ پس یہی مطلب ''ماروی عن علی و عمر'' کا بھی ہے یعنی صرف ''مروی'' ہونے کی شہادت ہے اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ یہ روایت صحیح اور بے شک و شبہ ثابت بھی ہے ۔
علامہ سیوطی تدریب الراوی ص ٢٤ میں لکھتے ہیں :
الثالثة مما ینا سب ھذہ المسئلة اصح الاحادیث المقیدة کتولھم اصح شٔ فی الباب کذا وھذا یوجد فی جامع الترمذی کثیر او فی تاریخ البخاری وغیرھما و قال المصنف (یعنی مصنف التقریب وھو الامام النووی) فی الاذکار لا یلزم من ھذہ العبارة صحة الحدیث فانھم یقولون ھذا اصح ما جا فی الباب وان کان ضعیفا و مرادھم ارجحہ او اقلہ ضعفا انتھی
یعنی امام ترمذی وغیرہ جب کسی حدیث کی نسبت کہتے ہیں کہ یہ اس باب میں سب سے ''اصح'' ہے تو امام نووی نے لکھا ہے کہ اس عبارت سے یہ لازم نہیں آتا کہ یہ حدیث صحیح ہو ۔ اس لئے کہ ایسی عبارت تو محدثین ضعیف حدیث کی نسبت بھی بولتے ہیں ۔ لہذا ان کی مراد یہ ہوتی ہے کہ یہ حدیث سب سے راجح ہے یا اس میں نسبتاً ضعف کم ہے '' ۔
مطلب یہ ہوا کہ اس باب کی سب حدیثیں اگر صحیح ہیں تو اس کو ''اصح'' کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ حدیث ان سب میں راجح ہے اور اگر اس باب کی سب حدیثیں ضعیف ہیں تو اس کو ''اصح'' کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اس میں اس باب کی دوسری حدیثوں کی بہ نسبت ضعف کم ہے ، اگر چہ ضعیف یہ بھی ہے ۔
بتائیے جب '' اصح کا جاء (روی) فی الباب'' کہنے سے حدیث کی صحت لازم نہیں آتی تو صرف ''روی فی الباب عن فلان یا روی عن علی و عمر'' کہنے سے اس کی صحت کیسے لازم آجائے گی ؟
ان تمام دلائل کی روشنی میں اب یہ بات بالکل صاف ہو جاتی ہے کہ امام ترمذی کے اس قول کو روایت کی صحت کے لئے ''پرزور شہادت'' قرار دینا محض ایک سفسطہ ہے اور کچھ نہیں ۔
ختم شد
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
جزاک الله خیر ارسلان بھائی
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
جزاکم اللہ خیرا ارسلان بھائی!

اللہ تعالیٰ ہمارے علم وعمل میں اضافہ فرمائیں اور نیک اعمال قبول فرما لیں!
 
Top