• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

انٹرویو مولانا رحمت اللہ ارشد رحمہ اللہ

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
رشد:
فقہ اور اصول فقہ بارے اہل حدیث مدارس کو کیا پیغام دیں گے؟
مولانا:
طلبہ کو جس حد تک اس کا علم ہونا چاہیے تھا اس قدر نہیں ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
رشد:
حدیث کی تدریس بارے احناف کو کیا طریق کاراوراسلوب اختیار کرنا چاہیے؟
مولانا:
یہ بات درست ہے کہ حدیث میں دلائل اور راجح و ترجیح کی باتیں ہیں جنہیں ابتدا میں سمجھنا مشکل ہوتا ہے،لیکن جہاں تک اخلاقیات،محض احکام اور مستدلات بننے والی احادیث ہیں ان کا ترجمہ شروع سالوں میں ہونا چاہیے۔ جب ہم نے پڑھا تھا تب یہ بات نہیں تھی،لیکن اب وفاق کے سلیبس میں اس کمی کو دور کر دیا گیا ہے۔زاد الطالبین اور ریاض الصالحین کی طرح کی کتابیں عامہ اور خاصہ کے نصاب میں شامل ہیں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
رشد:
’’حنفیت اور اہل حدیثیت‘‘ میں کس رویہ کی عکاسی ہو تو فرقہ واریت اور انتہا پسندی کا خاتمہ ہو سکتا ہے؟
مولانا:
اگر اس کا مطلب یہ ہے کہ سارے ایک ذہن اور ایک لائن پر آ جائیں تو یہ ممکن نہیں۔اجتہاد اس بات کا متقاضی ہے کہ اس میں اختلاف ہو،یہ صفت حسن ہے اسی لیے اس میں خطا بھی قابل مواخذہ نہیں بلکہ ثواب کی نوید ہے۔ اجتہاد میں خطاء اور ثواب ہر دو حال میں حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔ظاہر ہے کہ اگر اناڑی ڈاکٹر علاج کرتے ہوئے مریض کو قبر میں پہنچا دے اس پر مواخذہ ہو گا،لیکن اگر مستند ڈاکٹر کے علاج پر مریض قبر میں پہنچ جائے تو مواخذہ نہیں ہوتا۔یہی حال اجتہاد کا ہے۔تقلید بھی انہیں مجتہد فیہ مسائل میں ہوتی ہے صریح مسائل میں نہیں ہوتی۔ شاہ صاحب اسی بارے فرماتے ہیں کہ
’’لو لا الظنون لما قلد أحد بمجتہد‘‘ ’’مجتہد ظنوں کے وقت ایک طرف کو ترجیح دیتا ہے‘‘
اور اسی کو لینا تقلید کہلاتا ہے،لیکن اجتہاد اس وقت کیا جاتا ہے جب نئے مسائل پیدا ہو جائیں یانصوص نئے آ جائیں یعنی علم پہلے سے مختلف ہو جائے جو مسائل پچھلوں میں موجود تھے ان میں اجتہاد بے معنی ہے۔سلف مجتہدین میں اس قدر اختلاف ہے کہ راجح مرجوح کے سوا چارہ ہی نہیں اس طرح کے اختلاف پر اپنوں کو خارج نہیں کیا جا سکتا۔جب مل بیٹھیں گے تو ان شاء اللہ ایک دوسرے کو سمجھنے کاموقع ملے گا اور دلوں میں وسعت پیدا ہو گی۔شاید اس اختلاف میں بھی کمی آ جائے جو سطحی نظر رکھنے والی عوام میں پایا جاتا ہے۔اگرچہ صاحب علم ابھی بھی اس قدر متشدد نہیں ہر دو طرف یہی صورت ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
رشد:
آپ حنفی مدارس اور سعودی سلفی جامعات میں زیر تعلیم رہے نصاب تعلیم خصوصا نحو،صرف،عقائد،فقہ وحدیث کے بارے میں آپ کی کیا سفارشات ہیں؟
مولانا:
حنفی مدارس میں گرامر کو جس طرح پڑھایا جاتاہے خصوصا عجمیوں میں وہ کافی حد تک گہرا ہے اور اچھا طریقہ ہے۔ خود حیران ہوں کہ حنفی کتاب جو مجھے یہاں پڑھانے کا موقع ملا اس طرح کی کتاب سے میرے علم میں اضافہ ہوا ہے۔شرح عقیدہ طحاویہ عقائد بارے بہترین کتاب ہے۔گرامر کی کتابوں کے پڑھانے سے خاص اثر نہیں پڑتا بلکہ مشق کرنے سے اثر پڑتا ہے ۔جن بچوں کو اچھی مشق کروائی جائے تو اچھے بچے سامنے آتے ہیں۔ ابتدا کا زیادہ تعلق تمرینسے ہے کتاب جونسی مرضی ہو حدیث کے بارے میں یہ کہوں گا کہ جب تک اُصول کا علم نہیں ہوگااس وقت تک راجح مرجوح اور قرائن کا پتہ نہیں چل سکتا۔یہ باتیں آخری کلاسوں میں ہوتی ہیں۔ حنفی مکتبہ فکر کے مدارس میں وہ حنفی فقہ پڑھائیں گے خاص طور پر ابتدائی سالوں کے بچوں کو۔فقہ کی شروع کی پڑھائی جانے والی کتابوں میں دلائل ذکر نہیں ہوتے اور ظاہر ہے طالب علم کو صرف احکام یادکروائے جاتے ہیں ۔ دلائل کی پرکھ اور منطبق کرنا مشکل کام ہے ۔آخر میں پڑھائی جانے والی کتب میں دیگر کے مسالک اور دلائل ہوتے ہیں اسی طرح حدیث میں موازنہ دلائل ترجیح سب ہوتے ہیں۔ جس طرح ہم نے پڑھا ہے کہ چاہے سامنے اپنی ہی کتاب ہوتی ہے لنا لہم آہی جاتا ہے ۔آخری کلاسوں کی کتب نام کے اعتبار سے اگرچہ حنفی فقہ کی ہوتی ہیں، لیکن پڑھانے کا طریقہ بدایۃ المجتہد کا تھا۔سعودی عرب میں یہ دونوں باتیں ہیں ہمیں روض الربع (فقہ حنبلی کی کتاب) پڑھائی گئی لیکن جن کا فقہ کا تخصص ہے ظاہر ہے انہیں ہدایۃ وغیرہ پڑھائی جاتی ہوں گی جو فقہ المقارن میں آتی ہیں یعنی سب مذاہب نقل کرتی ہیں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
رشد:
دورانِ تعلیم شادی کے بارے کبھی سوچا ؟
مولانا:
کبھی اس مسئلہ پر نہیں سوچا تھا ،لیکن ظاہر ہے انسانی حاجت ہے اور ۲۰ سے۲۲ سال عمر کا وہ حصہ ہے جس میں ذہن اس طرف جاتا ہے کہ کاش شادی ہو، اگرچہ یہ خواہش کم ہی پوری ہوتی ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
رشد:
آپ کی شادی کب اور کس طرح ہوئی؟
مولانا:
شادی1980ء سگے چچا کے گھر میں ہوئی غالباً نومبر کامہینہ تھا۔ شاید پہلے ہی بھائیوں نے آپس میں طے کررکھا تھا۔ ہمارے علم میں عین وقت پر لایا گیا۔ میں انکاری تھااور بھاگ جاناچاہتا تھا وجہ صرف نفسیاتی دباؤ تھا کہ اس اشتہاری مہم سے متاثر نہ ہوں، لیکن الحمدﷲ اللہ نے جو لکھا تھا شادی ہوگئی بہت اچھا وقت گزرا۔ پہلی بیوی کے ساتھ14سال گزارے۔ اب اس کی بہن ہے اس کے ساتھ12سال ہوگئے۔بچے جوان ہیں اب ان کی فکر ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
رشد:
آپ کی اولاد کتنی ہے؟
مولانا:
پہلی بیوی سے دو بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں۔ دوسری سے صرف دو بچیاں ہیں۔ ابھی تک کسی کی شادی نہیں ہوئی۔ بڑا بیٹا اس سال عالمیہ کا امتحان دے گا اس کے بارے میں خیال ہے کہ اس سال کے اتمام پر اس کی شادی کے بارے طے کروں گا۔ بڑی بیٹی نے میٹرک کیا ہوا ہے اور اس سال عالمیہ کا امتحان دے گی۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
رشد:
اُم القراء میں آپ کا داخلہ کس طرح ہوا؟
مولانا:
الحمدﷲ اُم القریٰ میں داخلہ بڑی سعادت تھی ۔ ظاہری اسباب بالکل نہیں تھے۔ میرا داخلہ حکومتی ادارے کی سفار ش مدرسے کی طرف سے یا کسی شخصیت کے تعاون سے نہیں ہوا۔ میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا بلکہ اس نام کی یونیورسٹی کو جانتا ہی نہیں تھا میں نے کاغذات مدینہ یونیورسٹی کے لئے تیار کئے۔ایک دوست میرے ساتھ جارہا تھا اس نے کہا خرچہ تو ہوگیا ہے اب صرف فوٹو کاپی کروانی پڑے گی۔لہٰذا اس نے خود فوٹو کاپی کروائی کوئی آٹھ روپے مزید خرچ ہوئے۔ اسی نے ایڈریس لکھا اور فارم بھیج دیئے جب واپس خط آیا تو مجھے اس یونیورسٹی کا علم ہوا۔ یہ 1982ء کا واقعہ ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
رشد:
آپ کی تعلیم کیا ہے؟
مولانا:
پرائمری کے بعد مدرسہ میں داخلہ لیا۔ ۱۹۶۹ء میںحفظ مکمل کیا۔ جب تک مدرسہ میں تھا ان اساتذہ سے لگاؤ تھا جوبورڈ کے امتحان سے دور رکھتے تھے۔ اس لئے اس دوران کوئی امتحان نہیں دیا۔ جامعہ اشرفیہ سے سند فراغت حاصل کرنے کے بعد علماء اکیڈمی میںداخلہ کے لئے امتحان دیا، پاس ہونے پر داخل ہوگیا۔ یہ اکیڈمی محکمہ اوقاف کے تحت تھی اور یوسف گورایہ صاحب اس کے ڈائریکٹر تھے۔ اب فوت ہوگئے ہیںوہی اس کام کے محرک تھے۔ پہلے صرف امام اور مؤذن کے لئے کورس ہوتاتھا انہوں نے کہا کہ ہمیں اچھا علماء کوبھی تیار کرنا چاہئے، جنہیں آج کی زبان میں جدید سکالر کہہ سکتے ہیں۔سکول کے امتحان کی ترغیب انہوں نے دلائی شام کے وقت انگریزی کا استاد رکھا۔ اسی دوران میٹرک پاس کیا۔ ایف اے کا امتحان دیا لیکن گندم کا کٹائی کے باعث پورا وقت نہیں ملا۔ امتحان کے لئے آتا جاتاتھا۔لہٰذا انگلش میں رہ گیا۔اس کے بعد اُم القریٰ داخلہ ہوگیا۔لہٰذا دوبارہ ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی۔ اس طرح اُم القریٰ سے بی اے کی ڈگری کے علاوہ معہد سے اتمام الدراسۃ کی سند لی۔ ایک موقع پر مفتی محمودؒ نے دورۂ تفسیر کروایا تھا جب کہ وہ اس وقت بھٹو کے خلاف اپوزیشن لیڈر تھے۔ ان سے دورۂ تفسیر کی سند لی۔ عربی فاضل کی سند بھی میرے پاس ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
رشد:
آپ نے اپنے اَساتذہ کوکیسا پایا؟
مولانا:
پرائمری کے دوران پہلے استاد حاجی علی محمد تھے۔انتہائی قابل اور مخلص استاد تھے۔ علماء اکیڈمی میں رہتے ہوئے جہاںپنجاب یونیورسٹی کے ڈاکٹر حضرات سے استفادہ کاموقع ملا وہاںمدرسہ کے علماء اہل حدیث مثلاً عبدالرحمن مدنی، عبدالسلام کیلانی سے شاگردی کا تعلق قائم ہوا اور استفادہ کا موقع ملا اس دوران علما ء اکیڈمی کے لئے لکھے گئے مقالے میں عبدالسلام کیلانی کا نام اب بھی موجود ہوگا انہوں نے کئی مسئلوں میں میری اچھی رہنمائی کی۔ مولاناعبدالرحمن مدنی وہاں فلسفۃ التشریع الإسلامی پر لیکچر دیتے تھے۔
علماء دیوبند میں چوٹی کے علماء سے استفادہ کا موقع ملا۔مولانا عبداللہ، جن کو ساہیوال میں ہم بڑے مولاناکہا کرتے تھے ان کے علاوہ مولانا مختار اور مولانا یوسف لدھیانوی، جو کہ اقراء روضۃ الاطفال کے بانی تھے، سے شرف تلمذ حاصل کیا۔ مولانا یوسف لدھیانوی جو خود کئی اعلیٰ کتب کے مصنف تھے۔ مولانا عبداللہ کے بارے یہ رائے رکھتے تھے کہ میری نظر میں ان سے بڑھ کر کوئی عالم نہیں۔ مولانا سرور صاحب جو اس وقت بھی جامعہ اشرفیہ میںشیخ الحدیث ہیں میرے استاد ہیں، مولانا مالک کاندھلوی سے میںنے بخاری شریف پڑھی۔ مولانا ظفراحمد صاحب سے صرف پڑھی اب وہ اپنے ہی ایک ادارہ خالد بن ولید کے مہتمم ہیں۔ یہ ادارہ وہاڑی کے قریب ہے۔
اساتذہ کثرت کے ساتھ مکہ مکرمہ کے تھے۔ دوسرے ملکوں سے اسلامی خدمات کے باعث جلاوطنی کئے ہوئے تھے۔ ان میں سے سید سابق، سید محمد قطب، مصطفی کامل، شیخ عبدالعزیز حلاف شامل ہیں۔ مصطفی کامل علم نفسیات پڑھاتے تھے اس پر لکھی گئی کتاب سید محمد قطب کی تھی۔ فقہ شیخ عبدالعزیز حلاف پڑھاتے تھے۔بڑے صاحب ورع و تقویٰ تھے۔ سعودی راستے میں جب بھی ملتے مسکراتے ہوئے ملتے اور یہ فرماتے ’’من الموفقین إن شاء اﷲ‘‘
 
Top