پرائمری کے دوران پہلے استاد حاجی علی محمد تھے۔انتہائی قابل اور مخلص استاد تھے۔ علماء اکیڈمی میں رہتے ہوئے جہاںپنجاب یونیورسٹی کے ڈاکٹر حضرات سے استفادہ کاموقع ملا وہاںمدرسہ کے علماء اہل حدیث مثلاً عبدالرحمن مدنی، عبدالسلام کیلانی سے شاگردی کا تعلق قائم ہوا اور استفادہ کا موقع ملا اس دوران علما ء اکیڈمی کے لئے لکھے گئے مقالے میں عبدالسلام کیلانی کا نام اب بھی موجود ہوگا انہوں نے کئی مسئلوں میں میری اچھی رہنمائی کی۔ مولاناعبدالرحمن مدنی وہاں فلسفۃ التشریع الإسلامی پر لیکچر دیتے تھے۔
علماء دیوبند میں چوٹی کے علماء سے استفادہ کا موقع ملا۔مولانا عبداللہ، جن کو ساہیوال میں ہم بڑے مولاناکہا کرتے تھے ان کے علاوہ مولانا مختار اور مولانا یوسف لدھیانوی، جو کہ اقراء روضۃ الاطفال کے بانی تھے، سے شرف تلمذ حاصل کیا۔ مولانا یوسف لدھیانوی جو خود کئی اعلیٰ کتب کے مصنف تھے۔ مولانا عبداللہ کے بارے یہ رائے رکھتے تھے کہ میری نظر میں ان سے بڑھ کر کوئی عالم نہیں۔ مولانا سرور صاحب جو اس وقت بھی جامعہ اشرفیہ میںشیخ الحدیث ہیں میرے استاد ہیں، مولانا مالک کاندھلوی سے میںنے بخاری شریف پڑھی۔ مولانا ظفراحمد صاحب سے صرف پڑھی اب وہ اپنے ہی ایک ادارہ خالد بن ولید کے مہتمم ہیں۔ یہ ادارہ وہاڑی کے قریب ہے۔
اساتذہ کثرت کے ساتھ مکہ مکرمہ کے تھے۔ دوسرے ملکوں سے اسلامی خدمات کے باعث جلاوطنی کئے ہوئے تھے۔ ان میں سے سید سابق، سید محمد قطب، مصطفی کامل، شیخ عبدالعزیز حلاف شامل ہیں۔ مصطفی کامل علم نفسیات پڑھاتے تھے اس پر لکھی گئی کتاب سید محمد قطب کی تھی۔ فقہ شیخ عبدالعزیز حلاف پڑھاتے تھے۔بڑے صاحب ورع و تقویٰ تھے۔ سعودی راستے میں جب بھی ملتے مسکراتے ہوئے ملتے اور یہ فرماتے
’’من الموفقین إن شاء اﷲ‘‘