• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

انٹرویو مولانا رحمت اللہ ارشد رحمہ اللہ

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
انٹرویو مولانا رحمت اللہ ارشد رحمہ اللہ

ارشد کاشمیری،محمد عباس​
اُستاد محترم مولانا رحمت اللہ ارشدؔصاحب بے شمار اَوصاف کے حامل ایک ماہر استاد ہیں۔ ابتدائی تعلیم جامعہ اشرفیہ سے حاصل کی۔ بعداَزاں اُم القریٰ یونیورسٹی سعودی عرب داخلہ ہوگیا وہاں سے فراغت پر پاکستان آئے اور جامعہ لاہور الاسلامیہ میں تدریس کے فرائض سرانجام دینا شروع کردیئے۔21سال سے یہیں پڑھا رہے ہیں۔ مسلکاً دیوبندی ہیں۔ انتہائی معتدل نظریات کے حامل اور طلبہ کی ہردلعزیز شخصیت ہیں۔ پچھلے دِنوں ماہنامہ ’رُشد‘ کے انٹرویو پینل نے آپ سے ملاقات کی جو قارئین ’رُشد‘ کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
رشد:
اپنا نام، تاریخ پیدائش اور جائے ولادت بتائیں؟
مولانا:
میرا پیدائشی نام رحمت علی ہے، مدرسہ میں آیا تو اساتذہ نے تبدیل کرکے رحمت اللہ رکھ دیا۔ اب اسی نام سے جانا اور پکارا جاتا ہوں۔شایدکوئی سکول کا پراناساتھی رحمت علی کہہ دے تو کہہ دے ورنہ باقی رحمت اللہ ہی کہتے ہیں۔ نام کے ساتھ ارشد کا لاحقہ بھی ہے جو استاذ محترم مولانا ظفر احمد صاحب نے لگایا تھا۔
سعودی عرب میں عام طور پر کاغذات میں رباعی نام استعمال ہوتا ہے جب میرا داخلہ معہد سے کلیہ میں ہوا تو رباعی نام ضروری تھا میں نے پورا نام رحمت اللہ ارشدؔ بن رحیم بخش لکھا جسے وہ رباعی نام ہی سمجھتے اور پڑھتے تھے جس کی رو سے رحمت اللہ نام ارشد باپ کا نام رحیم داد کا نام اور بخش قبیلہ کا نام تھا، لیکن دراصل میرا نام رحمت اللہ ارشد اور باب کا نام رحیم بخش تھا۔والد صاحب کو تاریخ پیدائش لکھنے کی عادت نہیں تھی ہم سات بہن بھائیوں میں سے کسی کی بھی تاریخ پیدائش نہیں لکھی گئی شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ پڑھے لکھے نہیں تھے۔ اندازہ ہے کہ میری تاریخ پیدائش1953ء ہوگی کیونکہ میرے بڑے بھائی قیام پاکستان کے ڈیڑھ سال بعد پیداہوئے اور میں ان سے چار سال چھوٹا ہوں۔ کاغذات میں میری سن پیدائش بعض ساتھیوں کے مشورہ سے1959ء لکھی گئی ہے۔
مولانا رمضان سلفی صاحب (شیخ الحدیث جامعہ رحمانیہ) کے علاقہ کے قریب ہی میاں چنوں ہے، ساتھ ہی میرا پیدائشی گاؤں ہے جس کا نام36/14-L ہے۔ اگرچہ اب نئی سڑک بننے سے راستے علیحدہ ہوگئے ہیں، لیکن پہلے جس اڈے سے شیخ رمضان صاحب اپنے گاؤں کو مغرب کی طرف جاتے تھے اسی اڈہ سے ہم مشرق کی طرف جاتے تھے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
ُُرشد:
آپ کے بہن بھائی کل کتنے ہیں اور ان کی مصروفیات کیاہیں؟
مولانا:
ہم کل9 بہن بھائی ہیں۔ جن میں سے سات حیات ہیں۔ ایک بھائی اور ایک بہن بچپن میں ہی اللہ تعالیٰ کو پیارے ہوگئے تھے۔ اب چھوٹے سے چھوٹا بھی 40 سال کی عمر کو پہنچا ہوا ہے۔ ہم میں سے پانچ حافظ قرآن ہیں اور اسی دینی شعبہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایک عربی ٹیچر ہے۔ بڑے بھائی دارالقراء کے ناظم رہے ہیں۔ اب فارغ ہیں اور گھر پر ہی رہتے ہیں۔ مجھ سے چھوٹا گاؤں کی مسجد میں امامت کے فرائض سرانجام دیتاہے ساتھ ہی اس کا کپڑے کااچھا خاصا کاروبار بھی ہے۔ اپنی ضروریات اسی کاروبار سے پوری کرتا ہے۔ مسجد پر بوجھ نہیں ہے۔ ایک ٹیلر ماسٹر ہے اور غیر حافظ ہے۔ ایک ٹورزم میں ملازم ہے یہ بھی غیر حافظ ہے۔ سب سے چھوٹا نابینا ہے ، حافظ ہے اور تحفیظ القرآن کے شعبہ میں خدمات انجام دے رہا ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
رشد:
بچپن سے متعلق کچھ یادیں ؟
مولانا:
گاؤں میں دین کا علم کلمہ سننے کی حد تک تھا۔ پردہ کے متعلق میں نے یہ سن رکھا تھا کہ یہ کان کاہوتا ہے اونچی آواز نکالنے پر کہتے ہیں، یار کیا کان کے پردے پھاڑ رہے ہو۔ چنانچہ ایک دفعہ شادی پر گیا نلکے کے ارد گرد سیمنٹ کی کوئی چیز لگی ہوئی تھی۔ ساتھ ہی میرا ہم عمر انور نامی لڑکا کھیل رہا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا یہ کیا چیز ہے کہنے لگا پردہ ہے۔ اس کا یہ کلمہ سنتے ہی میں اپنی جگہ حیران و پریشان ہوگیا کہ کان میں اتنا بڑا پردہ ہوتا ہے۔ اسی شادی کے دوران کا واقعہ ہے۔
کمالیہ سے چیچہ وطنی کی طرف آتے ہوئے راستہ میں راوی پڑتا ہے جن پرکشتیوں کا پل تھا۔سفر کے دوران جب اس پل کو طے کرنے کی باری آئی تو سب سواریاں اتر گئیں تاکہ کشتیوں کے پل پر سے گاڑی گزر جائے۔مجھے یاد ہے کہ میں کھڑکی کے راستے نیچے نہیں آیا بلکہ والد صاحب نے شیشے سے باہر نکالا۔ ظاہر ہے عمر زیادہ نہیں تھی۔1968ء ،1967ء میں حفظ شروع کیا۔1969ء میں مکمل ہوگیا،
اسی دوران کی بات ہے کہ راوی میں سیلاب آیا ہوا تھا۔سیلابی کیفیت دیکھنے گئے ہمیں اس بارے زیادہ علم نہیں تھا۔ ہم کنارے تک چلے گئے۔ دور سے ایک آدمی نے آواز دی ’’اوے دریا ڈھا لائی پیا‘‘ میں تو اس آدمی کی زبان نہ سمجھ سکا لیکن میرے ساتھی سمجھ گئے، ہمیں وہ آدمی وہاں سے دور لے گیا۔ تھوڑا دور ہونا تھا کہ کنارے کا ایک بڑا حصہ یک دم دریا میں چلا گیا۔ بس اللہ جس کوباقی رکھے اسے کون مار سکتا ہے۔
اسی طرح کا ایک واقعہ مدرسہ ماڈل ٹاؤن، جی بلاک میں اس وقت پیش آیا جب میں کمرے میں پنکھے کے نیچے ہوا لے رہا تھا۔ باہر سے ساتھی آیا اور پنکھے کے بٹن کو چھیڑتے ہوئے میری توجہ پنکھے کی طرف کرنے لگا کہ اس کو کیا ہورہا ہے۔ میں نے پنکھے کی طرف ایک نظر دیکھا ہی تھاکہ پنکھا نیچے آرہا تھا ایک سیکنڈ کے لئے درمیان میں رُکا میں نے ایک طرف چھلانگ لگادی اور پنکھا میری پہلی جگہ آن پڑا۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
رشد :
والدین یااساتذہ سے کبھی سزا ملی؟
مولانا:
حفظ میں تو تلفظ پر پٹائی بھی ہوتی ہے اور مجھے بھی تلفظ پربہت چھڑیاں پڑیں۔ حتیٰ کہ بعض دفعہ یہ ذہن میں آتا تھاکہ قاریوں کو کہوں مجھے قاری بنانے کو رہنے دو سیدھا سادھا قرآن سکھا دو۔ علمی گھرانہ نہ ہونے کے باعث تلفظ مشکل تھا، لیکن جب میں نے کتابیں پڑھنی شروع کیں صرف ایک دفعہ تھپڑ پڑا تھا وہ اس لئے کہ میں استاذ کے پاس کسی اور پیریڈ کی کتاب لے گیا میں کلاس میں اکیلا تھا انہیں غصہ تھا کہ میں ذہنی طو ر تیار کیوں نہیں تھا۔ کبھی کبھار غیرحاضری پر بھی سزا مل جاتی تھی۔
والد صاحب سائیکل پر کپڑا فروخت کرتے تھے ایک دفعہ باہر سے سائیکل پر آئے ظاہر ہے کہ اس طرح محنت کرکے آنے پر دماغ گرم ہوتاہے۔میں چھوٹے بھائیوں کے ساتھ کھیل رہاتھا کسی بھائی کے پاؤں آگے ٹانگ کی وہ اُلجھ کر گر پڑا۔ اس وقت والد صاحب کا تھپڑ جومجھے پڑا آج بھی یاد ہے، ورنہ والد صاحب کی یہ رائے تھی کہ اس نے مجھ سے مار نہیں کھائی۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
رشد :
گھر کا ماحول کیسا تھا؟
مولانا:
والد صاحب نے ابتداء بکریاں چرائیں۔ ہمارا تعلق انصاری برادری سے ہے۔ جن کا پیشہ کا کپڑا بننا ہے لیکن یہ پیشہ اختیار کرنے کے بجائے والد صاحب سائیکل پرکپڑا بیچتے تھے۔ چچا وغیرہ کاشت کاری کرتے تھے۔والد صاحب بالکل اَن پڑھ تھے ہاں ناظرہ قرآن مجید ضرور پڑھا تھا۔ الحمدﷲ پابند صوم و صلوٰۃ ہیں اور میرا خیال ہے کہ تہجد بھی کبھی نہیں چھوڑی شاید انہی کے عمل اور دعا کانتیجہ ہے کہ اللہ ہم سب سے دین کا کام لے رہا ہے۔
کیوں کہ حدیث نبویﷺ ہے :
’’جو کوئی آدمی اپنا آئیڈیل اللہ کو بنا لیتا ہے اللہ اس کی تمام ضرورتیں اسی طرح پوری کرتا ہے کہ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا۔ اور جس نے اپنے آئیڈیل الگ بنالئے اللہ کو کوئی واسطہ نہیں کہ وہ کس وادی میںجاگرے۔‘‘
بڑے بھائی کی شادی کی فکرانہیں تھی باقیوں کے بارے کچھ نہیں سوچا۔ اللہ نے خود ہی اسباب پیدا کردیئے۔ اس کے بعد ایسے اسباب پیدا کئے کہ جائیداد نہ ہونے کے باوجود سب کے گھر اچھی طرح چل رہے ہیں انہیں اب بچوں اور بچیوں کی طرف سے کوئی فکر نہیں۔انہیں بریلویت، دیوبندیت اور اہل حدیث بارے کوئی خبر نہیں۔ البتہ نانے کا بڑا بیٹا سب سے پہلے مدرسہ میں آیا تو اس کے واسطے سے کچھ پتہ چلا۔ اب سب گھر والے توحید پر ہیں۔ پہلے بھی پابند صوم و صلوٰۃ تھے اب بھی ہیں۔ میرے ماموں کہتے ہیں کہ ہم نے ایک جلسہ کروایا۔ میری ڈیوٹی لگی کہ مولانا امیرالدین کو بھٹنڈا اسٹیشن سے لانا ہے۔ میں اسٹیشن پراِدھر اُدھر بھاگ رہا تھا مجھے بھاگتا دیکھ کر مولانا نے پہچان لیا اور کہامولوی کو تلاش کررہے ہو، کہا ہاں۔ کہنے لگے میں ہی ہوں لے چلو۔ باہر اونٹ کھڑا تھا مولوی صاحب کو ساتھ لے کر چل پڑا۔ مولوی صاحب نے پوچھا کون کون آیا ہے؟ کہتے ہیں جب انہیں مہمانوں بارے علم ہوا تو فرمانے لگے: ’’ہمیں ایک جگہ نہ رکھنا ‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
رشد:
کس ایما پر مدرسہ آنا ہوا؟
مولانا:
تایا کا بیٹا مدرسے آیا۔ جس سے گھروالوں کا رجحان مذہب کی طرف بڑھا۔ سکول کے اساتذہ بہت اچھے ملے۔حاجی علی محمد صاحب نمازی تھے اور ہماری نماز کی حاضری لگواتے تھے۔ اپنی قسمیں دے کر پوچھتے تھے کہ جھوٹ کی گنجائش ختم ہوجاتی اور جواب نفی کی صورت میں ہوتا تو ڈنڈے بھی پڑتے۔ انہوں نے والد صاحب کو مشورہ دیا کہ اوّل تو سکول پڑھا نہیں سکو گے اگر پڑھا لیا تو کہاں سے سفارش لاؤ گے کہ بچے ملازمت کریں۔ بہتر ہے دین پر لگا دو۔ اللہ کسی کو دین کی خدمت کے لئے منتخب کرلے تو اسباب پیدا ہوجاتے ہیں۔ حفظ کے بعد والد صاحب بیمار ہوگئے۔ میں نے سوچا کوئی کام سیکھ کر والد کا ہاتھ بٹاؤں اس طرح پورا سال ضائع ہوگیا پھر انہی کی حوصلہ افزائی سے تعلیم کاسلسلہ بحال ہوا۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
رشد:
اہل حدیث کی خوبیوں اور خامیوں کی نشاندہی فرمائیں؟
مولانا:
اہل حدیث کی خوبی یہ ہے کہ وہ صرف قرآن وسنت ہی کی اتباع کرتے ہیں۔کوئی شک نہیں کہ نجات کا دارومدار اسی بات پر ہے۔خامی یہ ہے کہ مجتہد فیہ مسائل میں اپنے اجتہاد کو قرآن وسنت کا نام دے کر اسے اس طرح امت کے ہر فرد پر لازم کر دینا کہ دوسری سائیڈ پر اس فرد کے لیے کوئی گنجائش ہی نہیں۔نتیجتاً افراط وتفریط کا شکار ہوتے ہیں اور سخت قسم کے فتوے سرزد ہوتے ہیں جن کی زد میں عظیم ہستیاں بھی آ جاتی ہیں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
رشد:
مدرسہ کی انتظامیہ اور طلبہ کا آپ کے ساتھ بطورِ حنفی کیا رویہ رہا؟
مولانا:
پہلے بھی ذکر کر چکا ہوں کہ طلبا اور اساتذہ کا بہت اچھا رویہ ہے۔انتہائی محبت ملی ہے، استاد جن کی اکثریت کے ساتھ میرا استادی شاگردی کا بھی رشتہ ہے۔ ہم عصر اساتذہ سب انتہائی محبت کرنے والے ہیں کبھی ہمارے درمیان توں تگار یا چپقلش نہیں ہوئی مجھے کسی استاد سے شکوہ نہیں ہے اور امید ہے اساتذہ کو بھی مجھ سے کوئی شکوہ نہیں ہو گا۔ باقی اللہ زیادہ علم رکھتا ہے۔انتظامیہ کا رویہ بھی بہت اچھا ہے میں یہی سمجھتا ہوں کہ اگر چھوٹی موٹی شکایت آتی بھی ہے تو اسباق کی تقسیم کا مسئلہ میں،علاوہ ازیں مجھے انتظامیہ سے کوئی شکوہ نہیں رہا۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
رشد:
اس ادارہ میں جہاں اہل حدیث اساتذہ ہیں وہیں حنفی اساتذہ تدریس کے فرائض سرانجام دیتے ہیں، اس حوالے سے ادارے کو کیا منہج اختیار کرنا چاہیے؟
مولانا:
الحمد للہ ثم الحمد للہ آزاد فضا والا ماحول پیدا کرنے کے لیے یہ ابتدا ہوئی ہے،لیکن یہ ماحول پیدا کرنے کے لیے کافی محنت کی ضرورت ہے،اس بات کو مثال سے واضح کروں گا۔مسلمانوںکا کہنا ہے بلکہ کئی کتب میں یہ بات لکھی ہوئی ہے کہ تقابل ادیان کے موجد وہ لوگ ہیں کہ جن میں سرے سے برداشت نہیں تھی حتی کہ ایک عیسائی فرقہ دورسے فرقہ پر غلبہ حاصل کر لیتا تو خون کی ندیاں بہا دیتا یہی حالت یہودیوں کی تھی۔مسلمان پہلی قوم ہے جس میں اقلیت اور ذمی کے حقوق رکھے گئے ان کو ان کی جان کا تحفظ دیا گیا اور جب اکٹھے رہے تو بین المذاہب بحث مباحثے بھی ہوئے ایک دوسرے کو سمجھانے کی کوشش بھی کہ کون حق اور کون باطل پر ہے۔اب ہمارے مدارس میں اسی ایک مدرسہ میں نہیں بلکہ سب مدارس میں اس طرح کاماحول پیدا ہونا چاہیے کہ یکطرفہ ٹریفک چلنے کے بجائے آزاد فضا میں ایک دوسرے کو سنا اور سنایا جا سکے تو ان شاء اللہ شاید یہی بات امت کے درمیان فرقہ واریت کو ختم کرنے کا سبب بن جائے اور ہمارے اندر برداشت کا مادہ پیدا ہو جائے۔ ایک دوسرے کے نقطہ نظر سے واقفیت حاصل ہو جائے۔ اس کی ابتدا اس مدرسہ کی حد تک دیکھ رہا ہوں ،لیکن ظاہر ہے اس کو ابتدائی گٹھلی ہی کہیں گے۔بڑی بڑی عظیم ہستیاں اس خواہش میں کہ یہ عدم برداشت کا رویہ جس نے امت کو کھوکھلا کر کے رکھ دیا ہے، ختم ہو جائے،لیکن سب کے آخری کلمے مایوسی کی طرف ہی جاتے ہیں۔اللہ تعالیٰ اس مدرسہ سے اس مسئلہ میں امامت کا کام لے لے تو بری خوش نصیبی ہو گی۔
 
Top