الیاسی صاحب!
احادیث پر غور کریں اور سمجھنے کی کوشش کریں اور اللہ سے مدد طلب کریں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو صحیح راستے کی ہدایت سے نواز دے۔
حدیث نمبر ایک میں ہے کہ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے دو صاع کے بدلے ایک صاع لے لیا اور اس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سود قرار دیا۔
حدیث نمبر دو میں ہے کہ نقد میں سود نہیں ہے۔
اور حدیث نمبر تین میں ہے کہ سود ادھار میں ہے۔
اب اگر کوئی شخص صرف ان تینوں احادیث کو دیکھے تو اس کو پہلی اور تیسری حدیث میں تضاد نظر آئے گا۔ لیکن جب آپ حدیث نمبر چار کا مطالعہ کریں اور غور کریں تو بات واضح ہو جائے گی۔
حدیث نمبر چار میں ہے کہ سیم جنس کے بدلے زیادہ لینا سود ہے اگرچہ نقد ہو یا ادھار۔ حدیث میں حکم عمومی ہے تخصیص نہیں ہے کہ نقد میں یا ادھار میں اس لیے عموم کو دیکھتے ہوئے یہی لیا جائے گا کہ نقد ہو یا ادھار سیم جنس کے بدلے زیادہ لینا سود ہے۔ اور پھر پہلی حدیث کو پڑھیں گے تو پتہ چلے گا کہ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے سیم جنس کے بدلے زیادہ دے کر کم لیا تھا۔ اس لیے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو سود قرار دیا۔
اگر آپ اللہ سے صدق دل سے مدد طلب کر کے ان احادیث کا مطالعہ کریں تو ان شاء اللہ آپ کو یہ بات سمجھ آجائے گی۔
اللہ تعالیٰ الیاس ستار صاحب کو یہ بات سمجھا دے۔ آمین جزاک اللہ خیرا
احادیث پر غور کریں اور سمجھنے کی کوشش کریں اور اللہ سے مدد طلب کریں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو صحیح راستے کی ہدایت سے نواز دے۔
حدیث نمبر ایک میں ہے کہ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے دو صاع کے بدلے ایک صاع لے لیا اور اس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سود قرار دیا۔
حدیث نمبر دو میں ہے کہ نقد میں سود نہیں ہے۔
اور حدیث نمبر تین میں ہے کہ سود ادھار میں ہے۔
اب اگر کوئی شخص صرف ان تینوں احادیث کو دیکھے تو اس کو پہلی اور تیسری حدیث میں تضاد نظر آئے گا۔ لیکن جب آپ حدیث نمبر چار کا مطالعہ کریں اور غور کریں تو بات واضح ہو جائے گی۔
حدیث نمبر چار میں ہے کہ سیم جنس کے بدلے زیادہ لینا سود ہے اگرچہ نقد ہو یا ادھار۔ حدیث میں حکم عمومی ہے تخصیص نہیں ہے کہ نقد میں یا ادھار میں اس لیے عموم کو دیکھتے ہوئے یہی لیا جائے گا کہ نقد ہو یا ادھار سیم جنس کے بدلے زیادہ لینا سود ہے۔ اور پھر پہلی حدیث کو پڑھیں گے تو پتہ چلے گا کہ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے سیم جنس کے بدلے زیادہ دے کر کم لیا تھا۔ اس لیے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو سود قرار دیا۔
اگر آپ اللہ سے صدق دل سے مدد طلب کر کے ان احادیث کا مطالعہ کریں تو ان شاء اللہ آپ کو یہ بات سمجھ آجائے گی۔
اللہ تعالیٰ الیاس ستار صاحب کو یہ بات سمجھا دے۔ آمین جزاک اللہ خیرا