بہت ہی بہترین بات کی میرے بھایئوں اور مجاہد اسلام اور خادم حدیث شاکر،گڈمسلم،انس نضر نے۔۔۔
اور شاکر بھائی یہ بات صحی ہے کے الیاس ستار صاحب نے یہ کہا تھا کے 1.5 سال سے محدث کے فارم پر ڈالا ہوا ہے ہے تب تمھارے عالموں کو یاد نہیں آ رہاتھا۔اور اسکے گواہ خد مفتی عبدللہ،محمد کوئ اور دیگر لوگ جو واہاں موجود تھے۔اگر سچے
ہونگے تو یہ دونوں اشخاص اس بات کی تصدیق کریں گے۔
اور محمد حسین میمن کا جواب خد پرھیں اور فیصلہ کریں کون حق اور کون باطل۔۔
MUTARIZ KAY ATIRAZAT OR UNKAY JAWABAT | Facebook
جی ہاں یہ سوال توغالبا تین سال پرانا ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ میمن صاحب کو ایک خط لکھا گیا تھااور اس خط میں الیاس ستار صاحب نے مسلم شریف میں ربا والی احادیث میں کھلے تضاد کی نشاندہی کی تھی۔
میمن صاحب نے کہا تھا کہ یہ کھلا تضاد نہیں
بلکہ ظاہری تضاد ہے اور ظاہری تضاد کو ثابت کرنے کیلئے انہوں نے ایک کتابچہ لکھا تھا جس میں انہوں نے ثابت کرنے کی کوشش کی کہ یہ کھلا تضاد نہیں ہے ۔
اس ضمن میں انہوں نے صفحہ نمبر ٢٧۔٢٨۔٢٩ میں کچھ بچکانہ دلائل دیے ہیں۔ جس کے جواب میں ہم نے یہ چیلنج دیا ہے جو
اب آپ کے سامنے دوبارہ پیش کررہا ہوں۔
یہ چیلنج پورے دنیا کے اہل حدیث بہن بھائی کو دیا ہے۔
اگر غلطی سمجھ میں آجائے تو فورا رجوع کرلیں ورنہ دنیا آپ کی غلطی تسلیم کرے گی۔
یہ ہمارا چیلنج ہے۔
یہ مباہلہ کی برکت ہے کہ ایک فریق کی کتاب ہی سے
اس کو حتمی طور پر غلط ثابت کردیا ۔
محمد حسین میمن کے اس نقطہ کو کوئی بھی اہل حدیث علمی نقطہ ثابت کردے اس کو ایک کروڑ (10,000,000) روپے کا نقد انعام
ہم جب بھی محمد حسین میمن کے حامیوں سے کوئی بھی سوال کرتے ہیں تو وہ جواب دینے کے بجائے ہمیں مونٹیسری اسکول کے بچے قرار دیتے ہیں یا کبھی نفسیاتی ہسپتال جانے کا مشورہ دیتے ہیں۔
ان کی ایک حیرت انگیز تحریر ہے۔
جس کا اب وہ لوگ خود بھی جواب نہیں دے رہے ہیں اور نہ ہی اپنی غلطی تسلیم کر رہے ہیں۔
اب ہم لوگ اس غلطی کو پورے دنیا کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔ تاکہ ہر اہل حدیث کو پتا چل جائے کہ محمد حسین میمن کی دلائل کتنی غلط ہوتے ہیں۔
حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ انہوں نے دو صاع گھٹیا کجھور دے کر ایک صاع عمدہ کجھور لے لی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بتایا کہ "یہ تو عین سود ہے۔"
اس حدیث پر محمد حسین میمن نے اپنی تطبیق والی کتابچہ میں
ایک حیرت انگیز تبصرہ لکھا ہے۔
اور وہ یہ کہ انہوں نے صفحہ ۲۷ پر لکھا ہے۔ ’’یہ حدیث بھی الحمداللہ قرآن مجید کے بعین مطابق ہے۔‘‘
اس کے بعد انہوں نے یہ آیات ذکر کی ہیں۔
أَوْفُوا الْكَيْلَ وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُخْسِرِينَ وَزِنُوا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِيمِ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْيَاءَهُمْ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ (١٨١-١٨٣) سورۃ الشعراء
ترجمہ: "ناپ پورا بھرا کرو کم دینے والوں میں شمولیت نہ کرو۔"
اس کے آگے صفحہ ۲۸ پر لکھتا ہے:
"یاد رکھا جائے حضرت بلال رضی اللہ عنہ والی حدیث واضح ناپ تول کا فقدان تھا۔"
پھر انہوں نے دوسری آیت ذکر کی ہے۔
وَيَا قَوْمِ أَوْفُوا الْمِكْيَالَ وَالْمِيزَانَ بِالْقِسْطِ ۖ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْيَاءَهُمْ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ (سورة ہود آیت نمبر ۸۵)
ترجمہ : "اے میری قوم!ناپ تول انصاف کے ساتھ پوری پوری کرو۔ لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دو اور زمین میں فساد اورخرابی نہ مچاؤ۔"
آگے لکھتے ہیں: "اس سودے میں ناپ تول کی کمی واضح ہے۔ "
اسی علت سے بچنے کے لیے رسول اللہ نے فرمایا تھا اپنے کجھوریں آپ بیچ ڈالتے پھر اسکے پیسوں سے اچھی کجھور خریدتے تاکہ ناپ اور تول میں کمی واقع نہ ہو ۔
پھر انہوں نے ایک آیت ذکر کی ہے۔
وَيْلٌ لِّلْمُطَفِّفِينَ الَّذِينَ إِذَا اكْتَالُوا عَلَى النَّاسِ يَسْتَوْفُونَ وَإِذَا كَالُوهُمْ أَو وَّزَنُوهُمْ يُخْسِرُونَ
ترجمہ : "بڑی خرابی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کی جب لوگوں سے ناپ کر لیتے ہیں تو پورا پورا لیتے ہیں اور جب انہیں نا پ کر یا تول کر دیتے ہیں تو کم دیتے ہیں۔" (سورۃ المطففین آیت ١-٣)
پھر آگے لکھتے ہیں کہ ’’حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے بیع میں ناپ تول میں واضح طور پر کمی کر دی گئی دو صاع کی جگہ ایک صاع‘‘
محمد حسین میمن کی اوپر والی تحریر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بہتان ہے
محمد حسین میمن صاحب نےقرآن سے جن آیات کا حوالہ دیا ہے۔ اور یہ دعویٰ کیا ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی حدیث ان آیات کے مطابق ہے۔
افسوس۔ قرآن کی ان آیتوں میں جو ذکر ہے کہ وہ یہ ہے کہ
دو کلو بیچا لیکن پونے دو کلو تولا۔ یا دو کلو کے پیسے لیئے اور پونے دو کلو تول کر دیا۔
یعنی ایک پاؤ کی چوری کی۔
لیکن حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی حدیث میں دونوں فریقین نے وزن میں کوئی چوری نہيں کی۔
یعنی بلال رضی اللہ عنہ نے دو صاع بول کر دو صاع دیا اور دوسرے فریق نے ایک صاع بول کر ایک صاع دیا۔ یعنی ددنوں فریقین میں سے کسی نے بھی چوری نہیں کی۔
لٰہذا قرآن کی ان آیات کی روشنی میں جس میں وزن کا گھپلا ہے۔ ان حدیثوں کو صحیح ثابت کرنا جس میں وزن کا کوئی دھوکا نہیں ہے۔ ان کی یہ مثال عقل کی روشنی میں بے وقوفانہ مثال ہے۔
محمد حسین میمن کو اپنی بے وقوفانہ سوچ کو ان کو اپنی ذات تک محدود رکھنا تھا۔لیکن انہوں نے جوش میں آکر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ہم خیال بنا لیا۔ محمد حسین میمن نے اپنی اوپر کی تحریر میں یہ لکھا ہے:
اسی علت سے بچنے کے لیے رسول اللہ نے فرمایا تھا اپنے کجھوریں آپ بیچ ڈالتے پھر اسکے پیسوں سے اچھی کجھور خریدتے تاکہ ناپ اور تول میں کمی واقع نہ ہو ۔
یہ بات حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر سراسر بہتان ہے۔ ہم سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی علم اور حکمت سے محبت کرنے والے ہیں۔ محمد حسین میمن نے اپنی بے وقوفانہ سوچ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کیا ہے۔ ضروری ہے کہ وہ اس بہتان سے فوری رجوع کریں۔
اگر پوری دنیا میں کوئی بھی اہل حدیث بھائی یا بہن دنیا کی کسی بھی سپریم کورٹ میں یہ ثابت کردے کہ محمد حسین میمننے مندرجہ بالا قرآن شریف کی آیات کا استعمال جو کیا ہے وہ بالکل صحیح ہے اور یہ ایک بے وقوفانہ حرکت نہیں ہے۔ تو اس شخص کو پاکستانی ایک کروڑ روپے نقد انعام دیا جائے گا۔
سپریم کورٹ کہیں کا بھی ہوسکتا ہے۔ پاکستان، سعودی عرب وغیرہ
بینک گارنٹی بھی فراہم ہوسکتا ہے۔
از عابد قائم خانی
آخری ادارت منجانب عابد قائم خانی : 23-07-2012 وقت 18:17