- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,763
- پوائنٹ
- 1,207
ماشاء اللہ!!وہ ہندوستان سے ہیں. ان شاء اللہ میں ہی سمجھانے کی کوشش کروں گا
زبردست!!
جزاک اللہ خیرا یا اخی الکریم
ماشاء اللہ!!وہ ہندوستان سے ہیں. ان شاء اللہ میں ہی سمجھانے کی کوشش کروں گا
آخر میں جو لنک دیے گئے ہیں کمال کی فکر ایک پیغام کی صورت میں دی گئی ہےالسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
تربیت اولاد کے لیے مفید دھاگہ ہے۔سب سے اہم بات والدین کی بچوں سے ہم ذہنیت اور بے تکلفانہ انداز ہے۔ہمارے یہاں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ماں بیٹی کو تو کچھ نہ کچھ سمجھا دیتی ہے(لیکن کچھ اس بد احتیاطی سے کہ بات گھر کے چھوٹے بچوں میں بھی پھیل جاتی ہے۔برائے مہربانی اس سے احتیاط برتیے) لیکن بیٹے کے لیے باپ میسر نہیں۔باپ اسے ضروری نہیں سمجھتا۔باپ بسلسلہ روزگار ملک سے باہر ہے وغیرہ وغیرہ۔اولاد سے تعلقات بے تکلف رکھیے تا کہ وہ کھل کر آپ سے ہر مسئلہ میں بات کر سکیں۔اگر جھجھک محسوس کریں تو بہن بھائیوں سے ڈسکس کر لیں یعنی گھر کی بات گھر میں رہے۔جو تربیت والدین کر سکتے ہیں وہ کوئی دوسرا نہیں اور جو تربیت گھر میں ہو سکتی ہے وہ باہر کبھی نہیں۔
1)یوسف بھائی نے عمدگی سے درجہ بندی کی ہے۔پہلے درجے کے لیے والدین یا بڑے بہن بھائیوں کا سمجھانا ضروری ہے۔دوسرے درجے کے لیے کتب بہت بہترین ذریعہ ہیں۔کیونکہ اس عمر میں بچہ یا بچی بغاوت کی طرف بھی جھکاؤ رکھتے ہیں تو یہ باتیں انہیں نصیحت نہیں محسوس ہوں گی بلکہ وہ آہستہ آہستہ انہیں اپنے اندر جذب کر لیں گے۔اس کے لیے بچپن سے مطالعہ کی عادت پختہ کرنا ضروری ہے۔
2)آج کل انٹرنیٹ پر فحاشی جس قدر عروج پر ہے اسی قدر تسلی سے ہم بچوں کو انٹرنیٹ کے استعمال کی کھلی چھوٹ دیتے ہیں۔انٹرنیت یا کمپیوٹر ہمیشہ گھر کی گزرگاہ میں رکھیں۔سوشل سائٹس کو استعمال کرتے وقت ماں یا باپ اپنی خود ساختہ مصروفیات چھوڑ کر خود پاس بیٹھ کر دیکھیں اور ہوش و حواس سے کام لیں۔بسا اوقات والدین کو انٹرنیٹ سے واقفیت نہیں ہوتی یا صرف شغل میلے یا بچے کی خوشی کی خاطر بہت کچھ برداشت کرتے رہتے ہیں۔
3)خصوصا خواتین ایک بہت بڑی غلطی کرتی ہیں کہ بچوں کی موجودگی میں ہر قسم کا مسئلہ کھلے عام ذکر کرتی ہیں اور بچے لا شعور میں ان باتوں کو دہراتے رہتے ہیں۔خصوصا کھیلتے وقت یا مہمانوں سے بات چیت کرتے وقت انہیں معلومات کو دہرا کر آپ کو شرمندہ کرتے ہیں۔کبھی بھی کسی حساس مسئلے پر بات کرنے کے لیے بچوں کو نہ اٹھائیے کیونکہ وہ تجسس میں منتلا ہو جاتے ہیں اور اگر کوئی بات کررہا ہے تو اسے منع کر دیں کہ وہ ابھی بات نہ کریں۔
ذیل میں چند تحاریر کے ربط ہیں اور بہت مفید ہیں۔
http://daleel.pk/2016/08/11/4300
http://daleel.pk/2016/07/22/2100
http://daleel.pk/2016/07/21/2028
http://daleel.pk/2016/09/26/8645
محترم شیخ!ووٹنگ سے ہی احباب اپنی رایے بیان کر سکتے ہیں
فیض بھائی!پہلی تحریر سمجھ لیجیے کہ ہمارے گھر کی کہانی اور والدہ محترمہ کا کردار ہے۔ان کی بے تکلفی کی بنا پر آج تک ہم اپنے تمام مسائل انہیں سے ذکر کرتے ہیں حتی کہ وہ مسائل بھی جنہیں عموما بہت عام سمجھا جاتا ہے۔بالخصوص زندگی کے بڑے فیصلے کرتے وقت کبھی نہتا نہیں کیا بلکہ ہر ایک کی رائے اہمیت رکھتی جس کی وجہ سے والدین پر اعتماد از خود بڑھتا چلا گیا۔والدہ محترمہ نے اس سلسلے میں کبھی بھی اپنے آپ کو گھر داری میں بے جا مگن نہیں کیا کہ ہمیں دیکھ نہ سکیں یا اپ ٹو دیٹ نہ رہ سکیں حالانکہ ہمارے گھر میں مہمان داری بھی بہت تھی۔مجھے ابھی بھی یاد ہے کہ کس طرح امی جان اپنے ہی بچوں کی "جاسوسی" کرتی تھیں کہ وہ گھر سے نکل کر کہاں گئے اور کہاں ہیں؟ایک پردہ دار خاتون کے لیے گھر میں رہتے ہوئے اکیلے سب سنبھالنا بہت مشکل تھا۔لیکن انہوں نے ماں اور باپ کا بیک وقت کردار نبھایا۔آج جب نئی نسل کی تربیت کی بات آتی ہے تو امی جان کی ہمت حوصلہ بہت یاد آتا ہے اور حیرانی ہوتی ہے کہ کس طرح اکیلے سب کچھ اس بہترین انداز میں سنبھالا اور اپنی ان کوتاہیوں پر ندامت ہوتی ہے جو نئی نسل کے ضمن میں ہم سے سرزد ہو رہی ہیں۔آج ماں بیٹی میں بات چیت تو نہ ہونے کے برابر ہے۔جب کبھی کوئی ماں گلہ اپنی نو عمر بیٹی کی بد تمیزی کا گلہ کرتی ہے تو سب سے پہلے ماں اپنے رویے پر نظر ثانی کرے۔اسے خود بخود سبب معلوم ہو جائے گا۔بہرحال معاملہ کوئی بھی ہو،والدین اولاد کی بے تکلفی(ادب کے دائرے میں) از حد ضروری ہے۔آخر میں جو لنک دیے گئے ہیں کمال کی فکر ایک پیغام کی صورت میں دی گئی ہے
جہاں تک میں سمجھا ہوں ماں اور باپ کو اپنی اولاد کا بہترین دوست ہونا چاہیے
تو اخت ولید اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے اچھا نکتہ کی طرف توجہ دلائی
بہت خوش نصیب ہیں آپ کو ایسی ماں ملیفیض بھائی!پہلی تحریر سمجھ لیجیے کہ ہمارے گھر کی کہانی اور والدہ محترمہ کا کردار ہے۔ان کی بے تکلفی کی بنا پر آج تک ہم اپنے تمام مسائل انہیں سے ذکر کرتے ہیں حتی کہ وہ مسائل بھی جنہیں عموما بہت عام سمجھا جاتا ہے۔بالخصوص زندگی کے بڑے فیصلے کرتے وقت کبھی نہتا نہیں کیا بلکہ ہر ایک کی رائے اہمیت رکھتی جس کی وجہ سے والدین پر اعتماد از خود بڑھتا چلا گیا۔والدہ محترمہ نے اس سلسلے میں کبھی بھی اپنے آپ کو گھر داری میں بے جا مگن نہیں کیا کہ ہمیں دیکھ نہ سکیں یا اپ ٹو دیٹ نہ رہ سکیں حالانکہ ہمارے گھر میں مہمان داری بھی بہت تھی۔مجھے ابھی بھی یاد ہے کہ کس طرح امی جان اپنے ہی بچوں کی "جاسوسی" کرتی تھیں کہ وہ گھر سے نکل کر کہاں گئے اور کہاں ہیں؟ایک پردہ دار خاتون کے لیے گھر میں رہتے ہوئے اکیلے سب سنبھالنا بہت مشکل تھا۔لیکن انہوں نے ماں اور باپ کا بیک وقت کردار نبھایا۔آج جب نئی نسل کی تربیت کی بات آتی ہے تو امی جان کی ہمت حوصلہ بہت یاد آتا ہے اور حیرانی ہوتی ہے کہ کس طرح اکیلے سب کچھ اس بہترین انداز میں سنبھالا اور اپنی ان کوتاہیوں پر ندامت ہوتی ہے جو نئی نسل کے ضمن میں ہم سے سرزد ہو رہی ہیں۔آج ماں بیٹی میں بات چیت تو نہ ہونے کے برابر ہے۔جب کبھی کوئی ماں گلہ اپنی نو عمر بیٹی کی بد تمیزی کا گلہ کرتی ہے تو سب سے پہلے ماں اپنے رویے پر نظر ثانی کرے۔اسے خود بخود سبب معلوم ہو جائے گا۔بہرحال معاملہ کوئی بھی ہو،والدین اولاد کی بے تکلفی(ادب کے دائرے میں) از حد ضروری ہے۔