• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اولاد کو جنسی تعلیم دینے کا حکم

کیا اولاد کو جنسی تعلیم دینی چاہیے

  • نہیں دینی چاہیے

    ووٹ: 0 0.0%

  • Total voters
    12

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
احباب ووٹنگ میں بھی حصہ لیں۔ ابھی تک صرف دو ووٹ ڈالے گئے ہیں۔
 

ام حماد

رکن
شمولیت
ستمبر 09، 2014
پیغامات
96
ری ایکشن اسکور
66
پوائنٹ
42
اصل سوال تو یہی ہے کہ کس عمر میں کیا بتایا جایے اور کس حد تک بتایا جایے
محض علم سے موضوع کا حق ادا نہیں ہو سکتا جب تک اس کے ساتھ تجربہ نہ ہو
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
بچوں کو کس عمر میں کیا بتایا جائے، اس کا کوئی کلیہ قانون نہیں بنایا جاسکتا۔ یہ تو والدین کی اپنی ججمنٹ ہوتی ہے جو انہیں یہ بتلاتی ہے کہ اب میرے فلاں بچے کو فلاں ”علم“ کی ضرورت ہے۔ جیسے سات آٹھ بچوں کی ماں بھی نانی بننے پر اپنی بیٹی کو ایسا کوئی ”فارمولہ“ نہیں بتلا سکتی کہ تمہارا نومولود جب اتنے بجے روئے تو اسے دودھ پلانا، اتنے بجے روئے تو اس کے کپرے تبدیل کرنا وغیرہ وغیرہ۔ البتہ وہ یہ ضرور بتلاسکتی ہے کہ کہ ایک نومولود کی یہ یہ ضروریات ہوتی ہیں، جن کی ”طلب“ پر وہ رو کر ماں کو متوجہ کرتا ہے۔ تجربہ سے تمہیں از خود معلوم ہوتا جائے گا کہ ”اس مرتبہ رونے“ کا کیا مطلب ہوگا۔ ۔ ۔ ۔ یہی حال گھر سے باہر نکلنے، اسکول جانے والے بچوں کی حرکات و سکنات سے اندازہ لگایا جائے گا کہ اسے ”جنسی تعلیم“ کا کب اور کتنا ”ڈوز“ دیا جائے ۔ جن والدین کے پاس اس علم کا ”وسیع ذخیرہ“ موجود ہوگا، وہ اپنے بچوں کی اٹھان، بات چیت، ملنے جلنے والے دوست احباب، کزنز، انکل آنٹیز سے روابط کو دیکھتے ہوئے اسے بتلاسکتے ہیں کہ بیٹا فلان فلاں سے دور دور سے ملا کرو۔ بیٹی فلاں فلاں سے محتاط رہو ۔ بچو اگر کوئی تم سے فلاں فلاں قسم کی بات کرے تو فوراً ہمیں اس سے آگاہ کرو۔ تمہارے دوست اور خیرخواہ ہم ہی ہیں، کوئی اور نہیں۔ نہ استاد، نہ اسکول کے دوست سہیلی، نہ کزنز اور نہ انکل آنٹیز ۔۔۔ ان سب کی ہر بات ہمیں ضرور بتلایا کرو ۔ پھر جب بچے از خود اردو روانی سے پڑھنے کے قابل ہوجائیں تو انہیں ایسی معلومات تحریری طور پر پڑھنے کو دی جائیں۔ انہیں پڑھنے کے بعد ان کے تاثرات نوٹ کئے جائیں۔ اور ان کے انہیں تاثرات کی بنیاد پر اندازہ لگایا جائے کہ کتنا مزید علم فراہم کرنا ہے۔ مثلاً میں چلتے پھرتے اپنی ڈاکٹر بیٹی کو بھی خواتین کے مخصوص ایام کے دینی مسائل بتلانے کی کوشش کرتا ہوں ۔ اس سے اسے مزید پوچھنے کا حوصلہ ہوتا ہے۔ اصل میں جب تک ہم والدین اپنے بچوں سے کمیونی کیشن لنکس نہیں بڑھائیں گے، بچے بہت سی باتیں پوچھنے سے ہچکچائیں گے۔ انہیں حوصلہ دیں گے تو وہ اپنی ضرورت کی ہر بات دائریکٹ یا ان ڈائریکٹ ضرور پوچھیں گے۔
 

اخت ولید

سینئر رکن
شمولیت
اگست 26، 2013
پیغامات
1,792
ری ایکشن اسکور
1,297
پوائنٹ
326
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
تربیت اولاد کے لیے مفید دھاگہ ہے۔سب سے اہم بات والدین کی بچوں سے ہم ذہنیت اور بے تکلفانہ انداز ہے۔ہمارے یہاں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ماں بیٹی کو تو کچھ نہ کچھ سمجھا دیتی ہے(لیکن کچھ اس بد احتیاطی سے کہ بات گھر کے چھوٹے بچوں میں بھی پھیل جاتی ہے۔برائے مہربانی اس سے احتیاط برتیے) لیکن بیٹے کے لیے باپ میسر نہیں۔باپ اسے ضروری نہیں سمجھتا۔باپ بسلسلہ روزگار ملک سے باہر ہے وغیرہ وغیرہ۔اولاد سے تعلقات بے تکلف رکھیے تا کہ وہ کھل کر آپ سے ہر مسئلہ میں بات کر سکیں۔اگر جھجھک محسوس کریں تو بہن بھائیوں سے ڈسکس کر لیں یعنی گھر کی بات گھر میں رہے۔جو تربیت والدین کر سکتے ہیں وہ کوئی دوسرا نہیں اور جو تربیت گھر میں ہو سکتی ہے وہ باہر کبھی نہیں۔
1)یوسف بھائی نے عمدگی سے درجہ بندی کی ہے۔پہلے درجے کے لیے والدین یا بڑے بہن بھائیوں کا سمجھانا ضروری ہے۔دوسرے درجے کے لیے کتب بہت بہترین ذریعہ ہیں۔کیونکہ اس عمر میں بچہ یا بچی بغاوت کی طرف بھی جھکاؤ رکھتے ہیں تو یہ باتیں انہیں نصیحت نہیں محسوس ہوں گی بلکہ وہ آہستہ آہستہ انہیں اپنے اندر جذب کر لیں گے۔اس کے لیے بچپن سے مطالعہ کی عادت پختہ کرنا ضروری ہے۔
2)آج کل انٹرنیٹ پر فحاشی جس قدر عروج پر ہے اسی قدر تسلی سے ہم بچوں کو انٹرنیٹ کے استعمال کی کھلی چھوٹ دیتے ہیں۔انٹرنیت یا کمپیوٹر ہمیشہ گھر کی گزرگاہ میں رکھیں۔سوشل سائٹس کو استعمال کرتے وقت ماں یا باپ اپنی خود ساختہ مصروفیات چھوڑ کر خود پاس بیٹھ کر دیکھیں اور ہوش و حواس سے کام لیں۔بسا اوقات والدین کو انٹرنیٹ سے واقفیت نہیں ہوتی یا صرف شغل میلے یا بچے کی خوشی کی خاطر بہت کچھ برداشت کرتے رہتے ہیں۔
3)خصوصا خواتین ایک بہت بڑی غلطی کرتی ہیں کہ بچوں کی موجودگی میں ہر قسم کا مسئلہ کھلے عام ذکر کرتی ہیں اور بچے لا شعور میں ان باتوں کو دہراتے رہتے ہیں۔خصوصا کھیلتے وقت یا مہمانوں سے بات چیت کرتے وقت انہیں معلومات کو دہرا کر آپ کو شرمندہ کرتے ہیں۔کبھی بھی کسی حساس مسئلے پر بات کرنے کے لیے بچوں کو نہ اٹھائیے کیونکہ وہ تجسس میں منتلا ہو جاتے ہیں اور اگر کوئی بات کررہا ہے تو اسے منع کر دیں کہ وہ ابھی بات نہ کریں۔
ذیل میں چند تحاریر کے ربط ہیں اور بہت مفید ہیں۔

http://daleel.pk/2016/08/11/4300
http://daleel.pk/2016/07/22/2100
http://daleel.pk/2016/07/21/2028
http://daleel.pk/2016/09/26/8645
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
تربیت اولاد کے لیے مفید دھاگہ ہے۔سب سے اہم بات والدین کی بچوں سے ہم ذہنیت اور بے تکلفانہ انداز ہے۔ہمارے یہاں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ماں بیٹی کو تو کچھ نہ کچھ سمجھا دیتی ہے(لیکن کچھ اس بد احتیاطی سے کہ بات گھر کے چھوٹے بچوں میں بھی پھیل جاتی ہے۔برائے مہربانی اس سے احتیاط برتیے) لیکن بیٹے کے لیے باپ میسر نہیں۔باپ اسے ضروری نہیں سمجھتا۔باپ بسلسلہ روزگار ملک سے باہر ہے وغیرہ وغیرہ۔اولاد سے تعلقات بے تکلف رکھیے تا کہ وہ کھل کر آپ سے ہر مسئلہ میں بات کر سکیں۔اگر جھجھک محسوس کریں تو بہن بھائیوں سے ڈسکس کر لیں یعنی گھر کی بات گھر میں رہے۔جو تربیت والدین کر سکتے ہیں وہ کوئی دوسرا نہیں اور جو تربیت گھر میں ہو سکتی ہے وہ باہر کبھی نہیں۔
1)یوسف بھائی نے عمدگی سے درجہ بندی کی ہے۔پہلے درجے کے لیے والدین یا بڑے بہن بھائیوں کا سمجھانا ضروری ہے۔دوسرے درجے کے لیے کتب بہت بہترین ذریعہ ہیں۔کیونکہ اس عمر میں بچہ یا بچی بغاوت کی طرف بھی جھکاؤ رکھتے ہیں تو یہ باتیں انہیں نصیحت نہیں محسوس ہوں گی بلکہ وہ آہستہ آہستہ انہیں اپنے اندر جذب کر لیں گے۔اس کے لیے بچپن سے مطالعہ کی عادت پختہ کرنا ضروری ہے۔
2)آج کل انٹرنیٹ پر فحاشی جس قدر عروج پر ہے اسی قدر تسلی سے ہم بچوں کو انٹرنیٹ کے استعمال کی کھلی چھوٹ دیتے ہیں۔انٹرنیت یا کمپیوٹر ہمیشہ گھر کی گزرگاہ میں رکھیں۔سوشل سائٹس کو استعمال کرتے وقت ماں یا باپ اپنی خود ساختہ مصروفیات چھوڑ کر خود پاس بیٹھ کر دیکھیں اور ہوش و حواس سے کام لیں۔بسا اوقات والدین کو انٹرنیٹ سے واقفیت نہیں ہوتی یا صرف شغل میلے یا بچے کی خوشی کی خاطر بہت کچھ برداشت کرتے رہتے ہیں۔
3)خصوصا خواتین ایک بہت بڑی غلطی کرتی ہیں کہ بچوں کی موجودگی میں ہر قسم کا مسئلہ کھلے عام ذکر کرتی ہیں اور بچے لا شعور میں ان باتوں کو دہراتے رہتے ہیں۔خصوصا کھیلتے وقت یا مہمانوں سے بات چیت کرتے وقت انہیں معلومات کو دہرا کر آپ کو شرمندہ کرتے ہیں۔کبھی بھی کسی حساس مسئلے پر بات کرنے کے لیے بچوں کو نہ اٹھائیے کیونکہ وہ تجسس میں منتلا ہو جاتے ہیں اور اگر کوئی بات کررہا ہے تو اسے منع کر دیں کہ وہ ابھی بات نہ کریں۔
ذیل میں چند تحاریر کے ربط ہیں اور بہت مفید ہیں۔

http://daleel.pk/2016/08/11/4300
http://daleel.pk/2016/07/22/2100
http://daleel.pk/2016/07/21/2028
http://daleel.pk/2016/09/26/8645
آخر میں جو لنک دیے گئے ہیں کمال کی فکر ایک پیغام کی صورت میں دی گئی ہے
جہاں تک میں سمجھا ہوں ماں اور باپ کو اپنی اولاد کا بہترین دوست ہونا چاہیے
اس میں کل ایک کتاب بہت عرصہ بعد ایک مرتبہ پھر پڑھنے کا اتفاق ہوا پہلی مرتبہ جب پڑھی تھی تو میٹرک میں تھا لہذا صرف پڑھ لی تھی لیکن اب دوبارہ پڑھی تو بہت فائدہ ہوا
کتاب کا نام سننے کے بعد ہو سکتا ہے کچھ احباب اسے ناپسند بھی کریں لیکن کچھ باتیں اس کتاب میں بہت مفید پیرائے میں بیان کی گئی ہیں
ممتاز مفتی کی تلاش
اس میں ایک پیغام یہ ہے کہ عمومی طور پر ہمارے معاشرے کی ماں اپنے بچوں کو ان کی شرارتوں پر ڈراتی ہے کہ آنے دو تمہارے باپ کو بتاتی ہوں
ممتاز مفتی نے تو اس سے بہت سے نتائج برآمد کیے ہیں لیکن ایک بہت اہم ہے
بچے یہ سمجھتے ہیں کہ اس شرارت کے کرنے میں کوئی حرج نہیں بس ابا جی کے علم میں نہ آئے
یہ پہلا ظلم ہوتا ہے
نمبر دو باپ گھر میں آتا ہے تو اس کے خود ساختہ رعب و دبدبہ کی وجہ سے بچے اس سے دور ہی رہتے ہیں باپ اپنی حکومت پر خوش لیکن سب سے بڑا نقصان بچوں سے دوری کا ہے جس میں بچوں کا نقصان فوری طور پر ہوتا ہے کہ جو کچھ باپ نے دینا ہوتا ہے وہ ماں کبھی بھی نہیں دے سکتی اور باپ کا نقصان تو بہت زیادہ ہوتا ہے کہ جب باپ کو بچوں کی ضرورت ہوتی ہے اس وقت تک بچوں اور اس کے درمیان ایک بہت بڑی خلیج پیدا ہو چکی ہوتی ہے ۔ تجربات کی روشنی میں کمی و بیشی ممکن ہے لیکن ہوتا ایسا ہی ہے
تو اب تک مجھے جو سمجھ میں آئی ہے وہ یہ کہ والدین اپنی اولاد کو روزانہ کی بنیاد پر وقت دیں
میں نے اپنے ابی جی رحمہ اللہ سے ایک مرتبہ پوچھا تھا کہ اچھا باپ کو ہوتا ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ جو اپنی اولاد کو بہترین دوست ہو
ہم نے اورنگی ٹاؤن میں ہوش اس وقت سنبھالا تھا جب ایم کیو ایم کا طوفان اٹھ رہا تھا اور میرے زیادہ تر دوست ایم کیو ایم کے کارکنان ہی تھے جن میں سے اکثر بعد میں
انا للہ و انا الیہ راجعون
تو جو کچھ میرے والد صاحب نے میرے ساتھ اس وقت کیا نتیجہ میں اس وقت کی معاشرتی برائیوں سے عمومی طور پر محفوظ رہا الحمدللہ
تو اخت ولید اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے اچھا نکتہ کی طرف توجہ دلائی
 

اخت ولید

سینئر رکن
شمولیت
اگست 26، 2013
پیغامات
1,792
ری ایکشن اسکور
1,297
پوائنٹ
326
آخر میں جو لنک دیے گئے ہیں کمال کی فکر ایک پیغام کی صورت میں دی گئی ہے
جہاں تک میں سمجھا ہوں ماں اور باپ کو اپنی اولاد کا بہترین دوست ہونا چاہیے
تو اخت ولید اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے اچھا نکتہ کی طرف توجہ دلائی
فیض بھائی!پہلی تحریر سمجھ لیجیے کہ ہمارے گھر کی کہانی اور والدہ محترمہ کا کردار ہے۔ان کی بے تکلفی کی بنا پر آج تک ہم اپنے تمام مسائل انہیں سے ذکر کرتے ہیں حتی کہ وہ مسائل بھی جنہیں عموما بہت عام سمجھا جاتا ہے۔بالخصوص زندگی کے بڑے فیصلے کرتے وقت کبھی نہتا نہیں کیا بلکہ ہر ایک کی رائے اہمیت رکھتی جس کی وجہ سے والدین پر اعتماد از خود بڑھتا چلا گیا۔والدہ محترمہ نے اس سلسلے میں کبھی بھی اپنے آپ کو گھر داری میں بے جا مگن نہیں کیا کہ ہمیں دیکھ نہ سکیں یا اپ ٹو دیٹ نہ رہ سکیں حالانکہ ہمارے گھر میں مہمان داری بھی بہت تھی۔مجھے ابھی بھی یاد ہے کہ کس طرح امی جان اپنے ہی بچوں کی "جاسوسی" کرتی تھیں کہ وہ گھر سے نکل کر کہاں گئے اور کہاں ہیں؟ایک پردہ دار خاتون کے لیے گھر میں رہتے ہوئے اکیلے سب سنبھالنا بہت مشکل تھا۔لیکن انہوں نے ماں اور باپ کا بیک وقت کردار نبھایا۔آج جب نئی نسل کی تربیت کی بات آتی ہے تو امی جان کی ہمت حوصلہ بہت یاد آتا ہے اور حیرانی ہوتی ہے کہ کس طرح اکیلے سب کچھ اس بہترین انداز میں سنبھالا اور اپنی ان کوتاہیوں پر ندامت ہوتی ہے جو نئی نسل کے ضمن میں ہم سے سرزد ہو رہی ہیں۔آج ماں بیٹی میں بات چیت تو نہ ہونے کے برابر ہے۔جب کبھی کوئی ماں گلہ اپنی نو عمر بیٹی کی بد تمیزی کا گلہ کرتی ہے تو سب سے پہلے ماں اپنے رویے پر نظر ثانی کرے۔اسے خود بخود سبب معلوم ہو جائے گا۔بہرحال معاملہ کوئی بھی ہو،والدین اولاد کی بے تکلفی(ادب کے دائرے میں) از حد ضروری ہے۔
 

ام حماد

رکن
شمولیت
ستمبر 09، 2014
پیغامات
96
ری ایکشن اسکور
66
پوائنٹ
42
فیض بھائی!پہلی تحریر سمجھ لیجیے کہ ہمارے گھر کی کہانی اور والدہ محترمہ کا کردار ہے۔ان کی بے تکلفی کی بنا پر آج تک ہم اپنے تمام مسائل انہیں سے ذکر کرتے ہیں حتی کہ وہ مسائل بھی جنہیں عموما بہت عام سمجھا جاتا ہے۔بالخصوص زندگی کے بڑے فیصلے کرتے وقت کبھی نہتا نہیں کیا بلکہ ہر ایک کی رائے اہمیت رکھتی جس کی وجہ سے والدین پر اعتماد از خود بڑھتا چلا گیا۔والدہ محترمہ نے اس سلسلے میں کبھی بھی اپنے آپ کو گھر داری میں بے جا مگن نہیں کیا کہ ہمیں دیکھ نہ سکیں یا اپ ٹو دیٹ نہ رہ سکیں حالانکہ ہمارے گھر میں مہمان داری بھی بہت تھی۔مجھے ابھی بھی یاد ہے کہ کس طرح امی جان اپنے ہی بچوں کی "جاسوسی" کرتی تھیں کہ وہ گھر سے نکل کر کہاں گئے اور کہاں ہیں؟ایک پردہ دار خاتون کے لیے گھر میں رہتے ہوئے اکیلے سب سنبھالنا بہت مشکل تھا۔لیکن انہوں نے ماں اور باپ کا بیک وقت کردار نبھایا۔آج جب نئی نسل کی تربیت کی بات آتی ہے تو امی جان کی ہمت حوصلہ بہت یاد آتا ہے اور حیرانی ہوتی ہے کہ کس طرح اکیلے سب کچھ اس بہترین انداز میں سنبھالا اور اپنی ان کوتاہیوں پر ندامت ہوتی ہے جو نئی نسل کے ضمن میں ہم سے سرزد ہو رہی ہیں۔آج ماں بیٹی میں بات چیت تو نہ ہونے کے برابر ہے۔جب کبھی کوئی ماں گلہ اپنی نو عمر بیٹی کی بد تمیزی کا گلہ کرتی ہے تو سب سے پہلے ماں اپنے رویے پر نظر ثانی کرے۔اسے خود بخود سبب معلوم ہو جائے گا۔بہرحال معاملہ کوئی بھی ہو،والدین اولاد کی بے تکلفی(ادب کے دائرے میں) از حد ضروری ہے۔
بہت خوش نصیب ہیں آپ کو ایسی ماں ملی
 
Top