السلام علیکم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اولاد کو زکوۃ دی جا سکتی ہے؟
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
درج ذیل فتوی ملاحظہ فرمائیں :
سوال :
کیا کم آمدن والے بیٹے کو اپنی زکاۃ دے سکتا ہے؟
سوال: کیا والد اپنی بکریوں کی زکاۃ اپنے شادی شدہ بیٹے کو دے سکتا ہے؟ یہ بیٹا والد کے ساتھ رہتا ہے اور نہ ہی والد کا خرچہ برداشت کرتا ہے، یہ واضح رہے کہ بیٹے کی تنخواہ ہے لیکن بہت معمولی ہے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جواب ::
الحمد للہ:
باپ اپنے بیٹے کو زکاۃ نہیں دے سکتا، کیونکہ اگر بیٹا غریب ہے، اور باپ صاحب حیثیت ہے تو باپ کیلئے یہ لازمی ہے کہ وہ اپنے بیٹے پر خرچ کرے، کیونکہ اگر باپ اپنے بیٹے کو زکاۃ دیگا تو یہ ایسے ہی ہے جیسے کہ اس نے زکاۃ خود ہی رکھ لی ہے۔
چنانچہ اس بارے میں ابن قدامہ رحمہ اللہ "المغنی" (2/269) میں کہتے ہیں:
"فرض زکاۃ میں سے والدین، اور اولاد کو نہیں دیا جا سکتا، ابن منذر کہتے ہیں کہ: اہل علم کا اس بارے میں اجماع ہے کہ اولاد والدین کو ایسی صورت میں زکاۃ نہیں دے سکتی جب اولاد پر والدین کا خرچہ واجب ہوتا ہو، کیونکہ اگر اولاد والدین کو زکاۃ دے گی تو اس طرح اولاد کو والدین پر خرچ کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی، گویا کہ انہوں نے زکاۃ دے کر اپنے ذمہ واجب خرچہ کو بچا لیا ہے، یا دوسرے لفظوں میں زکاۃ خود ہی رکھ لی ہے۔
اسی طرح اپنی اولاد کو بھی زکاۃ نہیں دے سکتے، امام احمد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ: "والدین ، اولاد، پوتے ، دادا، دادی، اور نواسے کو اپنی زکاۃ نہ دے" کچھ اختصار اور تبدیلی کیساتھ اقتباس مکمل ہوا
یہاں سے کچھ اہل علم کے ہاں دو صورتوں کو مستثنی کیا جائے گا:
1- اصل یا فرع پر قرض ہو، تو ایسی صورت میں ان کے قرض کی ادائیگی کیلئے زکاۃ دی جا سکتی ہے؛ کیونکہ اولاد کا قرضہ والد کے یا والد کا قرضہ اولاد کے ذمہ واجب الادا نہیں ہے۔
2- زکاۃ دینے والے کے پاس اتنا مال نہیں ہے کہ اصل یا فرع کا خرچہ برداشت کر سکے، ایسی صورت میں زکاۃ دینے والے پر اصل یا فرع کا خرچہ واجب نہیں ہوگا، تو اس صورت میں وہ زکاۃ دے سکتا ہے۔
چنانچہ اس بارے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا موقف "الاختيارات" (ص 104)میں ہے کہ:
"والدین اور آباؤ اجداد کو اسی طرح اپنی نسل یعنی پوتے پوتیوں کو زکاۃ دینا جائز ہے، بشرطیکہ یہ لوگ زکاۃ کے مستحق ہوں اور زکاۃ دینے والے کے پاس اتنا مال نہ ہو جس سے ان کا خرچہ برداشت کر سکے، یا ان میں سے کوئی مقروض ہو یا ،مکاتب ہو یا مسافر ہو تب بھی ان پر خرچ کر سکتا ہے، اسی طرح اگر ماں غریب ہو، اور اس کے بچوں کے پاس مال ہو، تو ماں کو بچوں کے مال کی زکاۃ دی جا سکتی ہے" اختصار کیساتھ اقتباس مکمل ہوا
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے استفسار کیا گیا:
"کیا انسان اپنی اولاد کو زکاۃ دے سکتا ہے؟"
تو انہوں نے جواب دیا:
"اس میں تفصیل ہے، چنانچہ اگر والد اپنی اولاد کو زکاۃ اس لیے دینا چاہتا ہے کہ اسے اولاد کا خرچہ نہ دینا پڑے تو یہ جائز نہیں ہے، لیکن اگر والد اپنے بیٹے کی طرف سے قرض اتارنا چاہے تو قرض اتار سکتا ہے، مثلاً: بیٹے نے کسی کی گاڑی کو ٹکر ماری اور حادثہ ہو گیا، اور دوسری گاڑی کا خرچہ 10000 ہزار ریال بنا تو والد اس حادثے کی وجہ سے 10000 ریال اپنی زکاۃ سے دے سکتا ہے" انتہی
"مجموع فتاوى الشیخ ابن عثیمین" (18/508) نیز دیکھیں: (18/415)
واللہ اعلم.
اسلام سوال و جواب
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور شیخ ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں
السؤال :: رجل عنده مال من أغنام وغيرها، ويخرج زكاته، هل يجوز أن يعطي تلك الزكاة لابنه أو ابنته وأخيه وأخته؟
الجواب :
ليس له أن يعطي الزكاة لابنه أو بنته أو أبيه أو أمه أو أجداده، أما إعطاؤها إخوته الفقراء أو أخواله أو أعمامه فلا حرج
.