محمدسمیرخان
مبتدی
- شمولیت
- فروری 07، 2013
- پیغامات
- 453
- ری ایکشن اسکور
- 924
- پوائنٹ
- 26
فتاویٰ:
اُس شخص کا حکم جو خدائی قانون کے علاوہ سے فیصلے کرتاہو
مفتی امین اللہ پشاوری حفظہ اللہ
نوٹ… فتویٰ کی اصل عبارت عربی زبان میں ہے۔
سوال:…
جواب:…مولانا سے پوچھا گیا، اُن لوگوں کا شریعت اسلامی میں کیا حکم ہے جو کلی اختیارات کے باوجود خدا کے نازل کردہ قوانین کی بجائے (ملکی و عدالتی) فیصلے اُن قوانین کے تحت کرتے ہیں جسے وہ خود بناتے ہیں۔اُنہیں شریعت اسلامی کے بنیادی اصولوں کا تو کوئی پاس لحاظ نہیں ہوتا لیکن جب اُن کے خود ساختہ قوانین کی کوئی خلاف ورزی کرے تو اُسے جیل میں ڈال دیتے ہیں اور ان کی پابندی کرانے کے لیے خون ریزی سے بھی نہیں چوکتے۔کیا یہ لوگ اُس طرح کے کافر ہیں جو کلی طور پردائرہ اسلام سے خارج ہو جاتے ہیں، یا صرف گنہگار ہیں دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوتے؟
مسئلے کے تمام پہلو سامنے رکھتے ہوئے قرآن و حدیث کی روشنی میں پوری وضاحت سے رہنمائی فرمائیں، حضرت ابن عباس کے اس قول کی وضاحت بھی فرمائیں ''ھذا کُفردون کفر'' (یہ دائرہ اسلام سے خارج کرنے والا کفر نہیں ہے) اکثر لوگ اسی اثر کو بنیاد مان کر اُن کی تکفیر نہیں کرتے۔
الحمد للہ رب العالمین والصلاة والسلام علی رسولہ محمد وآلہ واصحابہ الی یوم الدین امابعد…
مکمل شریعت کے نفاذ کے لیے اسلامی خلافت کا قیام ہر مسلمان پربقدراستطاعت فرض ہے۔یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام نے رسول اللہﷺکی تدفین کو خلیفہ کے چناؤ تک موخر رکھا تھا۔
جاننا چاہیے کہ خدا کے اترے ہوئے قانون کے مطابق فیصلے نہ کرنے کی دو صورتیں بنتی ہیں:
پہلی صورت:…
دوسری صورت: …ایسا منصف جو اسلام کا اقراری ہے، شریعت اسلامی کو برحق اور دوسرے نظاموں سے برتر سمجھتا ہے لیکن کسی مقدمے میں خواہش نفسی یا اقربا پروری کی وجہ سے خلاف شریعت فیصلہ کرتا ہے۔وہ اس کام کو گناہ بھی سمجھتا ہے اور دل میں ندامت بھی محسوس کرتاہے۔ایسے شخص کو خوارج کے علاوہ کوئی مسلمان کافر نہیں کہتا۔
''ومن لم یحکم بما أنزل اللہ فاولئک ھم الکافرون'' کی مذکورہ بالا تفسیر کا اطلاق مفسرین اسی شخص پر کرتے ہیں۔اور ابن عباس کے اثر سے بھی یہی مراد ہے۔
اس سلسلے میں قرآن و حدیث میں بہت زیادہ دلائل موجود ہیں جن میں سے چند ملاحظہ فرمائیں:ایسا شخص جو اختیارات کا مالک ہو، خدا نے اُسے اقتدار سے بھی نوازا ہو، وہ اپنے ماتحتوں کو معزول کرسکتا ہو، ان اختیارات کے باوجود وہ نہ صرف خدا کے نازل کردہ نظام کو رائج نہیں کرتا بلکہ اُسے یہ خیال تک نہیں آتا، نہ وہ اس کے لیے کوئی تگ ودو کرتاہے۔ وہ بدستور لوگوں پر انسان ساختہ قوانین کو نافذ رہنے دیتا ہے جو یا تو تمام تر یا بیشتر اسلام کے خلاف ہوتے ہیں۔ہاں اگر کسی اسلامی قانون سے خود اُس کے اپنے اغراض ومقاصد پورے ہوتے ہوں تو اُنہیں نافذ کردیتا ہو جیسے زکوة، عشر اور لگان سے حکومتی سرمائے میں اضافہ ہوتا ہے۔کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ (انسان ساختہ) قانون اور اسلامی قانون میں مطابقت ہوتی ہے، اس قسم کی چیدہ چیدہ مثالیں مل جانا حکمرانوں کی خدا خوفی پر دلالت نہیں کیا کرتی ہیں اور نہ ہی شریعت کو ماخذ مان کر انہیں اختیار کیا جاتا ہے۔ایسے شخص کے کافر ہونے میں کوئی شک نہیں کرتا، اور یہ کفر دائرہ اسلام سے خارج کرنے والا ہوتا ہے۔حدیث رسول ''حتی تروا منہ کفرا بواحًا''(جب تک تم اسے صریح کفر پر نہ پالو) کا اطلاق اسی پر ہوتا ہے۔ ایسا شخص کفر بواح کا مرتکب ہوتا ہے اُس سے توبہ کروائی جائے گی بصورت دیگر وہ واجب القتل قرار دیا جائے گا۔حکمران کا کفر اُس کے ملک میں بسنے والے عام کافروں سے بھی بڑھ کر ہوتا ہے۔ عوام اور حکمران کی معصیت میں اپنے منصب کے لحاظ سے فرق ہوتا ہے کیونکہ ایک عام آدمی کا خدائی نظام کے بغیر فیصلہ کرنا اپنے اندر وہ اثرات نہیں رکھتا جو حکمران کے ایسا کا م کرنے سے مرتب ہوتے ہیں۔حکمران کا جرم اُس ملک کے تمام باسیوں کے جرم کے مساوی ہوتا ہے جو ہزاروں میں ہوتے ہیں۔ دوسرا جب حکمران حدود اللہ میں سے کسی حدکو ترک کرتے ہوئے کسی انسان ساختہ قانون پر فیصلہ کرے تو وہ بے شمار مسلمانوں کو دین سے آزادی دلانے کا باعث بنتا ہے۔ یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ انسان ساختہ قوانین کو الٰہی قوانین پرترجیح دیتے ہوئے فیصلے ایمان کے ساتھ نہیں ہوسکتے۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
((لکل غادر لواء بیوم القیامة یرفع لہ بقدر غدرہ الا ولا غادر اعظم عذرًا من امیر عامہ.)) 1
''ہر دغا باز کے لیے روز قیامت ایک جھنڈا بلند کیا جائے گاجس کی بلندی اس کی دغا بازی کے بہ قدر ہوگی، خبردار! کوئی دغاباز اُس سے بڑھ کر نہیں جو خلقِ خدا کا حاکم ہو کر دغابازی کرے۔''
پہلی دلیل:
دوسری دلیل:( اِنَّ الَّذِیْنَ ارْتَدُّوا عَلَی اَدْبَارِہِم مِّن بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُمُ الْہُدَی الشَّیْْطَانُ سَوَّلَ لَہُمْ وَاَمْلَی لَہُمْ ٭ ذَلِکَ بِاَنَّہُمْ قَالُوا لِلَّذِیْنَ کَرِہُوا مَا نَزَّلَ اللّٰہُ سَنُطِیْعُکُمْ فِیْ بَعْضِ الْاَمْرِ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ اِسْرَارَہُم) (محمد:٢٤، ٢٥)
'' جو لوگ ہدایت واضح ہو جانے کے بعد اُس سے پھر گئے اُن کے لیے شیطان نے اس روش کو سہل بنا دیا ہے۔اور جھوٹی توقعات کا سلسلہ اُن کے لیے دراز کررکھا ہے۔ اسی لیے انہوں نے اللہ کے نازل کردہ دین کو ناپسندکرنے والوں سے کہہ دیا ہے کہ بعض معاملات میں ہم تمہاری مانیں گے۔اللہ اُن کی خفیہ باتیں خوب جانتا ہے۔''
یہ آیت اُس شخص کے مرتد ہونے پر دلالت کرتی ہے جو کافروں کی اطاعت بعض چیزوں میں کرے تو اُس شخص کے متعلق کیا خیال ہے جس کی مملکت کے بیشتر قوانین کافروں سے ماخوذہوں جو شریعت اسلامی سے شدید ترین بغض و عنادرکھتا ہو۔ بھلا قرآن کے فتوے کے بعدکسی اور کے فتوے کی گنجائش باقی رہ جاتی ہے۔
تیسری دلیل:(اِنَّ الَّذِیْنَ یُحَادُّونَ اللّٰہَ وَرَسُولَہُ کُبِتُوا کَمَا کُبِتَ الَّذِیْنَ مِن قَبْلِہِمْ وَقَدْ اَنزَلْنَا آیَاتٍ بَیِّنَاتٍ وَلِلْکَافِرِیْنَ عَذَاب مُّہِیْن) (المجادلہ:٥)
''جو لوگ اللہ اور رسولﷺکی مخالفت کرتے ہیں وہ اُسی طرح ذلیل و خوار کر دئیے جائیں گے جس طرح اُن سے پہلے کے لوگ ذلیل و خوار کیے جا چکے ہیں۔ ہم نے صاف صاف آیات نازل کر دی ہیں، اور کافروں کے لیے ذلت کا عذاب ہے۔''
لفظ ''یحادون'' کی تفسیر میں امام بیضاوی لکھتے ہیں:
''یحادون''سے مراد اللہ اور اُس کے رسولﷺکے حکم کے برخلاف متعین سزا(حدود) مقرر کرناہے۔ اس آیت مبارکہ میں اُس شخص کے متعلق بدترین کافر ہونے کا کہا گیا ہے جو اللہ اور اُس کے رسول کے بنائے ہوئے احکام کے مدمقابل اپنا قانون بناتا ہے۔نیز اُس کے لیے درد ناک عذاب ہے۔''
چوتھی دلیل:(اَفَحُکْمَ الْجَاہِلِیَّةِ یَبْغُونَ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰہِ حُکْمًا لِّقَوْمٍ یُوقِنُونَ) (المائدہ:٥٠)
''تو کیا پھر جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں؟! حالانکہ جو اللہ پر یقین رکھتے ہیں اُن کے نزدیک اللہ سے بہتر فیصلہ کرنے والا اور کوئی ہوسکتا ہے؟''
یہاں جاہلیت سے کوئی مخصوص زمانہ مراد نہیں ہے۔بلکہ جو کوئی شریعت اسلامی کی مخالفت کرتا ہے وہ جاہلیت کا مرتکب ہے۔ لہٰذا جو جاہلیت سے اپنے فیصلے کرانے کا خواہش مند ہے وہ اللہ پر یقین کرنے والا، مومن کہلانے کا مستحق نہیں ہے۔بلکہ وہ شریعت مطہرہ سے بغض و عناد رکھنے کی وجہ سے کافر ہے۔
پانچویں دلیل:(وَمَن یَبْتَغِ غَیْْرَ الْاِ سْلَامِ دِیْنًا فَلَن یُقْبَلَ مِنْہُ وَہُوَ فِی الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِیْن) (آل عمران:٨٥)
''اسلام کے سوا جو شخص کوئی طریقہ اختیار کرنا چاہے اُس کا وہ طریقہ ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور آخرت میں وہ ناکام و نامراد رہے گا۔''
یہ آیت دراصل اہل کتاب سے متعلق ہے جو اگرچہ آسمانی صحیفوں کے پیروکار تھے لیکن ان صحیفوں میں ردوبدل ہوگیا تھاجس کی وجہ سے ان کے طریقے کوآخرت میں ناکام اور نامراد کہا گیا ہے۔ اس آیت میں پرانی منسوخ شدہ آسمانی کتابوں کے ماننے والوں کے متعلق کہا گیا ہے کہ وہ خسارے میں پڑنے والے ہیں۔ تو ایسا شخص کہ جس کا اوڑھنا بچھونا انسان ساختہ گندے اور پلید قوانین کا پرچار کرنا ہے، وہ اُن کا علم بردار بنا ہوا ہے بھلا وہ پکے ہمیشگی کے دوزخیوں کے ساتھ خسارہ پانے والا نہیں ہوگا؟
آیت مبارکہ کی صحیح تفسیر:(وَمَن لَّمْ یَحْکُم بِمَا اَنزَلَ اللّٰہُ فَأُوْلَئِکَ ہُمُ الْکَافِرُون) (المائدہ: ٤٤)
''جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں۔''
اس آیت مبارکہ میں لفظ من (کوئی) میں عموم پایا جاتا ہے اور دوسرا جملہ فاولئک ھم الکافرون عربی زبان کے قواعد کی رو سے استمرار اور دوام کا معنی دیتا ہے نیز اس ترکیب میں زور بیان بھی ہوتا ہے اس پر مستزاد 'ھم' کی ضمیرہے جو اگر دو اسمائے تعریف کے درمیان آئے تو نفی و اثبات کا معنی دیتی ہے۔گویا معنے کے لحاظ سے جملہ یوں بنے گا: لا کافر الا من لا یحکم بما انزل اللہ اور یہ ایک مسلمہ قاعدہ ہے کہ لفظ کفر بغیر اضافت کے جہاںآئے وہاں دائرہ اسلام سے خارج کردینے والا کفر مراد ہوتا ہے۔خدائی قانون کے بغیر فیصلہ کرنے والا اس قرآنی نص کی رو سے کافر ہوتا ہے۔ جو ایسے شخص کو کافر نہیں سمجھتا وہ اللہ اور اس کی شریعت اور اُس کی کتاب کے برعکس عقیدہ رکھتا ہے۔
جو یہ کہے کہ یہاں کفر سے مراد وہ کفر ہے جس سے بندہ دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوتا تو وہ قرآن کے صاف حکم کے خلاف تفسیر کرتا ہے جو معتبر نہیں ہے خواہ کہنے والا کوئی ہو۔
جہاں تک ابن عباس کے اثر کا تعلق ہے اسے امام حاکمl نے جلد دوم ص ٣١٣ میں بیان کیا ہے، اس کی سند میں ہشام بن حجیر ہے جسے ابن معین نے ضعیف کہاہے اور یحییٰ بن قطان کہتے ہیں اُس سے بے چون چراں روایت نہیں لی جاتی تھی اور اُسے ضعیف راویوں میں شمار کیا ہے۔ بعض دوسرے ائمہ نے اسے ثقہ کہا ہے۔ امام بخاری اور امام مسلم دونوں اُس سے روایت کرتے ہیں۔ اسی لیے امام حاکم اور امام ذہبی محولہ بالا اثر کی نسبت ابن عباس کی طرف درست سمجھتے ہیں۔
اگر یہ اثر صحیح بھی ہو تو پھر بھی موجودہ حکمرانوں کے طرز عمل کے لیے اس اثر میں کوئی گنجائش نہیں ہے جنہوں نے شریعت اسلامی سے صرف نظر کرتے ہوئے اُسے کھیل سمجھ لیا ہے۔ ابن عباس محض اپنے زمانے کے مسلمان حکمرانوں کے طرز عمل کی تفسیر کررہے ہیں۔ مستقبل میں حکمران کیا گل کھلائیں گے ابن عباس اُس سے آگاہ نہ تھے۔ ابن عباس جیسے متقی اور صاحب بصیرت انسان سے یہ توقع رکھنا کہ وہ خودساختہ قوانین کو نظام مملکت بنا کر فیصلہ کرنے والے حکمرانوں کو ایمان پر سمجھیں گے بہتان عظیم ہے۔ وہ لوگ کہ جن کا جینا مرنا اور مقصد حیات خود ساختہ قوانین کو نافذ کرنا ہے، جس کا دفاع اُن کا اولین فرض ہے، ملک کا تمام تر نظام و انصرام جس قانون سے چلتا ہو، ایک کوتاہ بیں ہی ان احادیث اور اقوال کو اُن پر چسپاں کرسکتا ہے۔ جو لوگ اپنے گردو پیش سے آگاہ نہیں ہوتے اُن لکیر کے فقیروں کے لیے حضرت عائشہ کی فراست سمجھنا یقینا دشوار ہوگا وہ فرماتی ہیں:'' عورتوں کے یہی لچھن اگر رسولﷺاللہ کے زمانے میں ہوتے تو آپۖ انہیں مساجد میں مسلمانوں کے ساتھ نماز پڑھنے سے منع فرمادیتے جس طرح بنی اسرائیل کی عورتوں کو مساجد میں جانے سے روک لیاگیا تھا۔''جو شخص ابن عباس کے قول کو بنیاد بنا کر خدائی قانون کے بغیر فیصلہ کرنے والوں کی تکفیر نہیں کرتا وہ دراصل کافروںکو تحفظ فراہم کرتا ہے اور اللہ کے دین کو معطل کرنے کا باعث بنتاہے، خواہ وہ جان بوجھ کریا جہالت کی وجہ سے ایسا کرے۔
روح المعانی(جلد ٦ ص ١٤٥)میں علامہ آلوسی لکھتے ہیں:
اس تفسیر پر مزید غور کریں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگر کسی ایک امر میں نفی کا اطلاق ہوتا ہے تو جوشخص تمام امور میں شریعت اسلامی کے بغیر فیصلے کرے، وہ اجماع مسلمین کی رو سے بالاولیٰ کافر ہے۔ اس مغالطے میں نہیں رہنا چاہیے کہ ایسے انسان ساختہ قوانین میں چند اسلامی دفعات بھی ہوتی ہیں۔دراصل یہ اسلامی دفعات قرآن و حدیث کو پہلا اور آخری ماخذ مان کر نہیں شامل کی جاتی بلکہ ان میں اور یورپی کافرانہ قوانین میں ایک طرح کی یکسانیت ہوتی ہے۔''مذکورہ بالا آیت مبارکہ میں لفظ ما(کوئی چیز) استعمال ہوا ہے جس سے اس جنس کے تحت آنے والی تمام چیزوں کی نفی ہو جاتی ہے لہٰذا جو شخص کسی چیز میں اللہ تعالیٰ کے اتارے ہوئے قانون کے بغیر فیصلہ کرتاہے وہ دراصل تصدیق کرنے والا نہیں، اور ایسے شخص کے کافر ہونے میں کوئی اختلاف نہیں۔ ''
فتح البیان (جلد٣ ص ٣٢٨) میں صدیق حسن خان، حسن بصریlکی تفسیر (جلد ١ ص٣٢٩) سے نقل کرتے ہیں:
بنا بریں یہودیوں سے ان آیات کو مخصوص سمجھنا غلط ہے اور صدیق حسن خان نے مندرجہ بالا تفسیراسی بات کے رد کے لیے پیش کی ہے۔''حضرت ابن مسعود، حضرت حسن اور نخعی کہتے ہیں کہ ان آیتوں کا اطلاق یہودیوں کے علاوہ اس امت پر بھی ہوتا ہے۔وہ رشوت خور جو اللہ کے نازل کردہ قانون کے بغیر فیصلہ کرے وہ کافر، ظالم اورفاسق ہے۔ اِن آیات کی یہ تفسیر اس قاعدے کی بنیاد پر ہے کہ تفسیر میں اسباب نزول کا اعتبار نہیں ہوتا لفظ کے عموم کا اعتبار ہوتا ہے۔''
بحر محیط(جلد٣ص٤٩٣)میںابوحیان لکھتے ہیں :
ابو مسعود اپنی تفسیر(جلد٣ص٤٢)میں لکھتے ہیں:مسدی کہتے ہیں کہ جس نے اللہ کے احکام کی مخالفت کی اور اسے جانتے ہوئے ترک کیا اور کسی دوسرے قانون کے تحت فیصلہ کیا تو دراصل وہی پکا کافر ہے۔
ابو مسعود کی تفسیر میں یہ اشارہ پنہاں ہے کہ اللہ کے حکم کا تارک تو محض ادنی کافر ہوتا ہے۔ انسان ساختہ قانون کو اللہ کے قانون میں گڈمڈکرنے والا بدترین کافر ہوتاہے۔''ایک مضمون کے لیے پے درپے تین جملے، حکم کو دو ٹوک انداز میں بیان کرنے کے لیے لائے گئے ہیں اور اس سے انحراف کے لیے سخت وعید جتلانا مقصود ہوتا ہے۔ محض اللہ کے کسی حکم کے ترک کرنے پر مکرر جملے لائے گئے ہیں، جس نے اللہ کے حکم کو محض ترک ہی نہیں کیا بلکہ بندوں کے بنائے ہوئے قانون کے مطابق فیصلہ بھی کیا اس کا کفر تو پہلے شخص سے کہیں زیادہ بڑا کفر ہے۔''
فی ظلال القرآن(جلد٢:٨٩٨) میں سید قطب لکھتے ہیں :
اس دوٹوک اور واضح بیان میں ابہام پیدا کرنا کج بحثی اور حقیقت کا سامنا کرنے سے نظریں چرانا ہے۔ ایسی محکم آیت کی تاویل کرنا تحریف کہلاتا ہے۔ وہ بھلے تحریف کرتے جائیں، اس حکم کی زد جن جن شخصیات پر پڑنی ہے پڑ کر رہے گی۔''ومن لم یحکم بما أنزل اللہ فاولئک ھم الکافرون پورے زور بیان کے ساتھ، اس قطعی انداز میں، مَن کے لفظ میں سب اعیان شامل ہو جاتے ہیں پھر یہ جملہ شرطیہ ہے اور جواب شرط پہلے فعل کا حتمی نتیجہ ہوا کرتاہے۔ یہ اسلوب آیت کے حکم کو زمان و مکان سے خاص رکھنے کو یکسر نظر انداز کردیتا ہے اور اس حکم کا اطلاق ہر زمانے کے لیے جاوداں ہو جاتا ہے، نسل در نسل، جہاں اللہ کے قانون کے بغیر فیصلہ کرنے کی علت جائے گی وہاں اس حکم کا اطلاق ہوگا، وہ اللہ کی الوہیت کو للکارتا ہے کیونکہ حاکمیت بھی الوہیت کی ایک لازمی صفت ہے۔ الٰہی نظام کے بغیر فیصلے کرنے والا اللہ تعالیٰ کے لیے الوہیت کا پوری شدت سے انکار کرتاہے اور اپنے حق میں الوہیت اور اس کی صفات کا اقرار کرتا ہے۔اگر یہ کفر نہیں تو پھر کفر کہتے کس کو ہیں۔زبان سے اسلام اور ایمان کے اقرار کی کیا حقیقت رہ جاتی ہے جب عملی کفر چیخ چیخ کر اپنی حقیقت منوارہاہو۔ ''
ان آیات کا مصداق یہودیوں کو ٹھہرانا یوں بھی درست نہیں ہے کہ وہ تو کب کے مر کھپ گئے، پھر قرآن خطاب بھی ہمیں کو کرتا ہے لہٰذا یہودیوں پر ان آیات کو چسپاں کرنا غلط ہے۔ اس طرح یہ کہنا بھی غلط ہے کہ ان آیات کا حکم جھٹلانے والے کے لیے ہے۔ اس سلسلے میں اسلاف کے اقوال کو نظیر بنانا کسی طرح صحیح نہیں ہے کیونکہ انہوں نے وہ تفسیر اُس دور میں کی تھی جب انسان ساختہ قوانین کا نظام اسلامی معاشرے میں سرے سے تھا ہی نہیں بلکہ امر واقع یہ تھا کہ کچھ فاسق لوگ چند تنازعات میں شریعت کی بجائے اپنی ہوائے نفس سے فیصلے کرتے تھے، اسلامی معاشرے کا اصل نظام اسلام تھا دوسری بات یہ ہے کہ کسی ایک آیت یا آدھی آیت کا جھٹلانا ویسے ہی کفر ہے خاص ان تین آیتوں کے لیے الگ سے حکم آنا بے معنی ہے۔قاضی اسماعیل ان آیات کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ہر وہ شخص جو یہودیوں کی روش پر چلتے ہوئے اللہ کے نازل کردہ قانون کے بغیر دوسرے قوانین ساخت کرے اور انہیں خلق خدا کے لیے قانون بنا دے تو آیت میں مذکور وعید اُس پر بھی صادق آئے گی خواہ حاکم ہو یا منصف (جج) کیونکہ حضرت حذیفہ نے اس خدشے کو یہ فرما کر ختم کردیا تھا جسے ابن جریرنے (جلد ٤ ص ١٦٨) اور ابن کثیرنے (جلد ٢ ص ٦١) بیان کیا ہے (ترجمہ) ''واہ ! کتنے اچھے بھائی ہیں تمہارے لیے یہ بنی اسرائیل کہ کڑوا کسیلا سب اُن کے لیے ہے اور میٹھا رسیلا سب تمہارے لیے !آگاہ رہو بخدا تم ان کی روش پر قدم بقدم چلو گے۔''
اسی لیے احمد شاکر اس کی وضاحت میں لکھتے ہیں،
مفسر قرآن احمد شاکر نے اس جرم عظیم کرنے والے کی تین اقسام بیان کی ہیں:''ہم دیکھتے ہیں کہ بعض اسلامی ممالک میں کچھ قوانین ایسے ہیں جنہیں انگریز کافر ملکوں سے درآمد کیا گیا ہے۔ یہ قوانین جزیات سے لے کر کلیات تک سراسر اسلامی روح کے منافی ہیں بلکہ ان میں کچھ تو اسلام کی عمارت کو نیست و نابود کرنے والے ہیں۔ ان قوانین کا خلاف اسلام ہونا سوائے جہلاء کے سب پر بالکل واضح ہے، ان میں سے بعض قوانین ظاہری شکل میں شریعت کے مطابق ہیں یا کم از کم متصادم نہیں ہیں اس کے باوجود ان قوانین کا مسلمانوں کے ملکوں میں نفاذ جائز نہیں ہے حتی کہ وہ قوانین بھی جو شریعت کے بظاہر مطابق ہیںکیونکہ قانون سازوں نے یہ قوانین بناتے ہوئے اسلام کی موافقت یا مخالفت کو پیش نظر نہیں رکھا بلکہ یورپی قوانین کو ماخذ مانا گیاتھا اورانہی کے حوالے کو معتبر مانا گیا تھا۔ ان قوانین پر فیصلے کرنے والا فاسق اور مرتد ہے خواہ خود ساختہ قانون شریعت کے مطابق ہو یا مخالف۔''
ابن عباس اور دوسرے متقدمین کے اقوال کو بنیاد بنا کر جس طرح ہمارے زمانے میں کوتاہ بیں حضرات، جن کی طرف علم کی نسبت کی جاتی ہے، انسان ساختہ قوانین کے لیے جواز فراہم کرتے ہیں، علامہ احمد شاکر عمدہ التفسیر (امام ابن کثیر) میں اس کا جواب یوں دیتے ہیں :''(اوّل)…قانون سازی کرنے والا، اس سے وہ ادارہ مراد ہے جو قانون سازی کا مجاز ہو، سب سے بڑا قانون ساز خود سربراہ مملکت ہوتا ہے یا وہ جسے مقننہ بنانے اور اس کے فرائض متعین کرنے کے اختیارات ہوں اور جو قوانین وضع کر لیے جائیں انہیں سندِ قبولیت عطا کرتا ہو۔''
ایسے بااختیار (فرد یا گروہ ) کی بابت وہ فرماتے ہیں: وہ قانون سازی کرتا ہے، اُس کے بنانے اور اُس پر عمل پیرا ہونے کو صحیح سمجھتا ہے۔ایسے اختیارات کا مالک کافر ہے خواہ صوم و صلاة کا پابند ہو اور اپنے تئیں مسلمان کہلاتاہو۔
(دوم)…قانون سازی کرنے والے کا دفاع کرنے والا، اس میں وہ ادارے آتے ہیں جو انہیں تحفظ فراہم کرتے ہیں اور وہ انتظامیہ آتی ہے جو ان قوانین کی پابندی کرواتی ہے۔ وہ فرماتے ہیں :'' یہ ادارے انسان ساختہ قوانین کے لیے تحفظ کی ضمانت ہوتے ہیں اور یہی اُن کے فرائض منصبی ہوتے ہیں قطع نظر اس کے کہ وہ حق ہیں یا باطل، بنا بریں وہ قوانین جو باطل ہیںاور شریعت کے مخالف ہیں انہیں صحیح سمجھتے ہوئے، تحفظ فراہم کرنے والا، قانون سازی کرنے والے کی طرح ہے دوسری صورت میں تحفظ فراہم کرنے والا پکا منافق ہے خواہ اپنی نوکری کو عذر ہی کیوں نہ بناتا ہو۔
(سوم) …منصف(قاضی) جو لوگوں کے تنازعات ان قوانین کے تحت نبٹاتاہو، اُس کی بابت احمد شاکر فرماتے ہیں:ایسا منصف جس کے (تمام ) فیصلے اسلام کے مطابق ہوں اس کے لیے شاید معافی کی گنجائش نکل سکتی ہو، اگر غور کیا جائے تو یہ گنجائش بھی نہیں نکلتی، البتہ جب فیصلہ شریعت کے مخالف ہو اور کتاب اللہ و سنت رسول اللہۖ میں ایک فیصلہ موجود ہو تو بلا شبہ اس پر اس حدیث کا اطلاق ہوگا۔
رسول اللہﷺنے فرمایا: ''ہر شخص پر سمع وطاعت فرض ہے خوشی خوشی یا رنجیدگی سے۔ہاں معصیت کا کہا جائے تو اس میں سمع و طاعت نہیں ہے۔''
جب ایک منصف کو معصیت زدہ قانون کے تحت فیصلے کرنے کا کہا جاتا ہے تو وہ اُسے اپنے فرائض منصبی سمجھ کر بجا لاتا ہے۔ اللہ کی ناراضی میں سمع وطاعت نہیں ہوتی۔ ماتحت اگر یہ حکم مانتا ہے تو اس کا حکم قانون سازی کرنے والے افسر کی طرح ہے۔ اُس کا اصل فریضہ یہ تھا کہ وہ ان قوانین کے تحت فریقین میں فیصلے نہ کرے البتہ اگر اُسے بزور مجبور کیا جائے تو پھر بامر مجبوری اس قدر قابل قبول ہوگی جس قدر جبر ہوگا۔ دمیجی نے ''امامة العظمی'' میں ایسی مجبوریوں کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔(ص١٠٩)
اس مناظرے کو طبری نے بیان کیا ہے:''ابو مجلز اور خوارج کے اباضیہ فرقے میں اُس وقت کے حکمرانوں کے طرز عمل پر مناظرہ ہوا جو بعض مقدمات میں ہوائے نفس یا شرعی حکم سے عدم واقفیت کی بنیادپر شریعت اسلامی کے مخالف فیصلہ دیتے تھے۔ خوارج کے نزدیک گناہ کبیرہ کا مرتکب کافر سمجھا جاتا تھا اور یہی فتویٰ وہ ابو مجلز سے لے کر اُسے حکمرانوں پر چسپاں کرنا چاہتے تھے اور اُسے بنیاد بنا کر وہ حکمرانوں کے خلاف مسلح بغاوت کی راہ ہموار کرنا چاہتے تھے۔''
احمد شاکر کہتے ہیں کہ اس واقع کی سند صحیح ہے اور میرے بھائی محمود احمد شاکر نے اس واقعے کی بڑی اچھی توجیہ کی ہے جسے میں یہاں نقل کرتا ہوں:''عمران بن حدیر کہتے ہیں، ابو مجلز کے پاس بنی عمرو بن سدوس سے ایک وفد آیا اور اُن سے مخاطب ہوا، کیا اللہ تعالیٰ کا یہ کلام حق نہیں ہے ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الکافرون… الظالمون… الفاسقون.''
انہوں نے فرمایا بے شک اس کے بعد وہ پوچھتے ہیں، کیا یہ حکمران اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلے کررہے ہیں ؟ابو مجلز نے جواب میں کہا :یہی ان کا دین ہے جسے انہوں نے قبول کیا ہے، اسی کی وہ دعوت دیتے ہیں اور اسی کو پھیلاتے ہیں۔اگر وہ کسی دینی فریضے کو ترک کرتے ہیں تو وہ گناہ کا کا م ہے۔
اس پر وہ سیخ پاہوئے اور کہنے لگے:بخدا ایسا نہیں ہے۔بلکہ آپ زیادتی کررہے ہیں۔ فرمایا، میں نے جو کہنا تھا کہہ چکا، تمہیں جو چیز سوجھی ہے میں اس کا حامی نہیں ہو سکتا، یہ آیات یہود و نصاریٰ، مشرکین اور ان جیسوں کے لیے مخصوص ہیں۔''
علامہ محمود شاکر کی یہ تعلیق اپنے جچے تلے انداز میں مسئلے کو واضح کردیتی ہے اور جس کے دل میں کھوٹ نہ ہو اُس کے لیے اس میں بصیرت ہے۔''اللہم انی ابرأ الیک من الضلالٰہ وبعد فتنہ پرداز اس واقعے کو دلیل بنا کر موجودہ حکمرانوں کے لیے سند جواز فراہم کرنا چاہتے ہیں جو اپنے فیصلوں میں، فوج داری ہوں یا دیوانی، ہتک عزت کے مقدمات ہوں یا مالی معاملات، شریعت اسلامی کے بغیر فیصلے کرتے ہیں۔ وہ مسلمانوں کے ملکوں میں کافروں کے قوانین لاگو کرتے ہیں۔ ایسے حکمران فوج داری اور دیوانی مقدموں میں اپنے غیر اسلامی فیصلوں کے لیے جواز اس واقعے سے لیتے ہیں۔ ''
واقعہ یہ ہے کہ جب کسی ملک کا اصل رائج قانون اسلام ہو اور پھر کوئی شخص کسی جزوی مقدمے میں خلاف اسلام فیصلہ کرے تو وہ کافر نہیں ہوتا۔ خوارج کے ساتھ ابو مجلز کا مناظرہ موجودہ حکمرانوں کے لیے نہیں تھا اور نہ ہی موجودہ حکمران سائل اور مفتی کے زیربحث تھے لہٰذا ابو مجلز کا فتویٰ ان حکمرانوں کے متعلق ہے ہی نہیں۔
ابو مجلز ثقہ تابعی ہیں حضرت علی سے والہانہ محبت رکھنے کی وجہ سے شیعان علی میں شمار ہوتے تھے۔ سوال کرنے والے فرقہ اباضیہ کے چند سرکش لوگ تھے اور وہ حضرت علی کی خلافت کا تختہ الٹنا چاہتے تھے۔ وہ ابو مجلز کے فتوے کو بغاوت کے لیے استعمال کرتے۔ ہو سکتا ہے کہ بعض صوبوں کے والی ظالمانہ فیصلے بھی کرتے ہوں، لیکن ایسا تو نہیں تھا کہ اُس وقت کے حکمرانوں نے عوام پر غیر اسلامی قوانین نافذ کر رکھے تھے۔
امر واقع یہ ہے کہ اوپر والا سوال ہمارے زمانے کے حکمرانوں کے متعلق نہیں پو چھا گیا تھا۔ موجودہ حکمرانوں نے تو فوج داری اور دیوانی مقدمات میں شریعت کی مخالفت کا بیڑا اٹھا رکھا ہے، ہمارے زمانے میں جو کچھ ہورہاہے وہ اللہ سے مکمل اعراض ہے اور کافروں کے قوانین برتر ہیں جو واضح ترین کفر ہے اہل قبلہ کے بیچ کوئی اس کے کفر ہونے میں شک نہیں کرتا۔ہمارے زمانے میں شرعی احکام معطل ہیں اور اللہ کے احکام کے علاوہ دوسرے انسان ساختہ قوانین کو ان پر فوقیت حاصل ہے۔
رہے وہ حضرات جو شریعت اسلامی کو کسی خاص زمانے کے لیے مفید سمجھتے ہیں اور ہمارے زمانے کے حالات اُس سے میل نہیں رکھتے لہٰذا شریعت کی اب ضرورت نہیں ہے، ابومجلز اور اباضیہ کی بحث ملاحظہ فرمائیں اور شریعت سے کلی اعراض کرنے والے اس بحث سے جو نتیجہ نکالنا چاہتے ہیں وہ ملاحظہ فرمائیں!
ابو مجلز کا واقعہ بس یہ ہے کہ خوارج بعض غیر اسلامی فیصلوں کو جواز بنا کر حاکم وقت کے خلاف بغاوت کرنا چاہتے تھے۔ ایسا تو کبھی نہیں ہوا تھا کہ حاکم وقت نے اپنے تئیں کوئی قانون بناکر اُسے پوری امت پر نافذ کردیا ہو۔ یہ تو رہا واقعہ کا ایک پہلو، دوسری توجیہ یہ ہے کہ اگر کسی مقدمے میں قاضی نے خلاف شریعت فیصلہ دے دیا تھا تو اس کی متعدد صورتیں ہو سکتی ہیں مثلًا قاضی اُس خاص مقدمے میں شریعت کے حکم سے لاعلم تھااور اپنے اجتہاد سے فیصلہ دے دیا تھا۔ ایسے قاضی کا حکم وہی ہے جو کسی جاہل کا ہوتا ہے۔ دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ قاضی نے ہوائے نفس سے فیصلہ کیا ہوگا جو ایک سنگین گناہ ہے توبہ استغفار سے بخشش ہو سکتی ہے۔تیسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ وہ اُس مقدمے میں شرعی حکم کا علم رکھتا تھا۔لیکن دوسرے علماء کی نسبت الگ سے اپنی تاویل کرتا تھا، اس کا حکم متاول کا حکم ہے کتاب اللہ اور سنت رسولۖ ہی اس کے نزدیک اصل ماخذتھے۔ چوتھی صورت یہ ہو سکتی ہے کہ ابو مجلز کے زمانے یا اس سے کچھ عرصہ پہلے کسی قاضی یا والی نے ایک مخصوص مقدمے میں شریعت کے حکم کا انکار کیا ہو گا اور کافروں کے فیصلے کو نظیر بنا کر فیصلہ دیا ہوگا۔ایسا تو نہیں ہوا تھا کہ پورا نظام مملکت ہی کفریہ قوانین پر چل رہا تھا۔ ابی مجلز اور فرقہ اباضیہ کی بحث سے، موجودہ رائج کفریہ قوانین کے لیے جواز تلاش کرنا بالکل لغو ہے۔ اس قسم کے اقوال کو مثال بنا کر حکمرانوں کے لیے سند جواز فراہم کرنا واقعے سے صرف نظر کرنا ہے۔ ایسے حکمران دراصل شریعت کو جھٹلاتے ہیں، اُن سے توبہ کروائی جائے اگر وہ اڑے رہیں اور اللہ کے اتارے ہوئے قانون کی بجائے بندوں کے بنائے ہوئے قوانین پر فیصلے کریں تو وہ پکے کافر ہیں، کفر پر مُصر ہیں اور اُن کا کافر ہونا اس دین کے پیروکاروں پر عیاں ہے۔'' (عمدة التفسیر: 684/1)
یہ میرا فتویٰ ہے جسے میں نے اختصار کے ساتھ دیا ہے اور اسے قرآن وسنت اور ائمہ کرام کے دلائل سے مرتب کیا ہے۔
وصلی اللّٰہ علی محمد وآلہ وصحبہ اجمعین
(فتاویٰ الدین الخالص)
١۔رواہ مسلم :٢/١٢١.