• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آپ ﷺ کیسے تھے؟

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,451
پوائنٹ
306
آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کیسے تھے ؟

تالیف :
عرفان خلیلی صفی پوری
(مرکزی درسگاہ اسلامی رامپور ، انڈیا)

ناشر :
مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز ، جامعہ نگر ، نئی دہلی۔ انڈیا
اشاعت : جنوری 2008ء
آئی ایس بی این : isbn 81-8088-202-0


{جملہ حقوق بحق ناشر محفوظ ہیں}[SUP]
جس ویب سے کاپی کیا گیا[/SUP]
آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کیسے تھے ؟
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,451
پوائنٹ
306
فہرست مضامین

.1 ہے آج دماغ آسماں پر
2. آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) گفتگو کیسے کرتے تھے؟
3. آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) ہمیشہ سچ بولتے تھے
4. آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) وعدے کے پکے تھے
5. آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) بدزبانی سے پرہیز کرتے تھے
6. آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو غیبت سے نفرت تھی
7. آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) میٹھے بول بولتے تھے
8. آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) مذاق بھی کرتے تھے
9. آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کس طرح کھاتے پیتے تھے؟
10. آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) بہت شرمیلے تھے
11. آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) بہت رحم دل تھے
12. آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) بہت تیز چلتے تھے
13. آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) بالوں کا خیال رکھتے تھے
14. آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کا لباس کیسا تھا؟
15. آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے کپڑے کیسے پہنیں؟
16. آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) چھینک اور جمائی کیسے لیتے تھے؟
17. آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) سلام کرنے میں پہل کرتے تھے
18. آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو صفائی و سادگی پسند تھی
19. آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نفاست پسند تھے
20. آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) دوستوں کا خیال رکھتے تھے
21. آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) حسنِ سلوک کے عادی تھے
22. آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) دوسروں کے کام آتے
23. آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) معاملے کے کھرے تھے
24. آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) بہت سخی تھے
25. آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) بہت انکسار پسند تھے
26. آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو غرور پسند نہ تھا
27. آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) بہت مہماں نواز تھے
28. آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) بہت خوددار تھے
29. آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) برابری کا برتاؤ کرتے
30. آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) ایثار کے عادی تھے
31. آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) بڑے بہادر تھے
32. آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) معاف کر دیا کرتے تھے
33. آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) بیماروں کی عیادت کرتے
34. آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) غیرمسلموں کی بھی عیادت کرتے
35. آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) بہت عبادت گزار تھے
36. آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو تلاوت کا بہت شوق تھا
37. آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کیسے سوتے تھے؟
38. آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) ایسے تھے
39. آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی دعائیں
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,451
پوائنٹ
306
١:ہے آج دماغ آسماں پر


لقد كان لكم في رسول الله أسوةٌ حسنةٌ
ترجمہ: "درحقیقت تم لوگوں کے لئے اللہ کے رسول میں ایک بہترین نمونہ تھا۔"
(الاحزاب : 21)

کہہ رہا ہے ایک اک بابِ حیاتِ مصطفےٰ
دیکھ انساں! سیرتِ انساں کا یہ معیار ہے
(اقبال صفی پوری)

اللہ تعالیٰ کے آخری رسول حضرت محمد مصطفیٰ صلی علیہ وسلم (فداہ ابی و امی) کے اسوۂ حسنہ پر بے شمار کتابیں لکھی گئی ہیں اور لکھی جا رہی ہیں ، لیکن ان سے صاحبِ علم حضرات ہی استفادہ کر سکتے ہیں۔ ہمارے کم پڑھے لکھے بھائی یا آج کل کے نوجوان اُن سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے وہ اس نعمت سے محروم رہتے ہیں۔
یہ خواہش بہت دنوں سے تھی کہ اسوۂ حسنہ کا کوئی ایسا مجموعہ مرتب ہوجائے جس سے ہر کس و ناکس فائدہ اٹھا سکے اور اپنے امتی ہونے کا حق کسی نہ کسی حد تک ادا کر سکے۔
لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے لئے مشکل یہ تھی کہ میں فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا کہ کس واقعہ کو نظر انداز کروں اور کس کو منتخب کروں ۔ اس گلدستہ کا ہر پھول بے مثال ، ہر ایک کی خوشبو میرا دامنِ دل کھینچ رہی تھی کہ"میں یہاں ہوں"۔ میں عجیب کشمکش میں مبتلا تھا ۔ نہ چھوڑتے بن رہا تھا نہ پکڑتے بن رہا تھا۔

میرے اللہ نے میری مدد فرمائی۔ ذہن میں ایک خیال ابھرا " کیوں نہ سیرت کے ان واقعات کو مرتب کر دوں جو ہماری روزمرّہ کی زندگی سے براہ راست تعلق رکھتے ہوں۔" اس خیال کے آتے ہی میری آنکھیں جگمگا اٹھیں ، دل خوشی سے لبریز ہوگیا ، منہ مانگی مراد مل گئی ۔ اسی بہانہ سے ایک بار پھر اپنے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کا موقع نصیب ہوگیا۔ دماغ آسمان پر اُڑنے لگا۔ قلم نے اپنا کام شروع کردیا۔
اللہ کی مدد مجھ کم مایہ کے شاملِ حال رہی۔ یہ مختصر سا مجموعہ مرتب ہوگیا جو حجم میں چھوٹا ضرور ہے مگر ہے بہت قیمتی۔ اس کی خصوصیت یہ ہے کہ ہر عنوان ایک ہی صفحہ پر ختم ہو جاتا ہے۔ اور زبان آسان ہے۔
ناظرین سے گزارش ہے کہ اس کا بغور مطالعہ فرمائیں اور اپنی زندگیوں میں اسے سمونے کی کوشش کریں۔
اس مجموعہ کو مرتب کرنے میں مندرجہ ذیل کتب سے استفادہ کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے مرتبین کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ آمین!
1 ۔ اسوۂ حسنہ از امام ابن قیم رحمہ اللہ ، مطبوعہ مکتبہ الحسنات دہلی
2 ۔ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم از شبلی نعمانی رحمہ اللہ ، مطبوعہ دارالمصنفین ، اعظم گڑھ
3 ۔ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم از علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ ، مطبوعہ دارالمصنفین ، اعظم گڑھ
4 ۔ آدابِ زندگی از مولانا یوسف اصلاحی ، مطبوعہ مرکزی مکتبہ اسلامی ، دہلی


عرفان خلیلی (صفی پوری)
مرکزی درسگاہ اسلامی۔ رامپور
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,451
پوائنٹ
306
2: آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) گفتگو کیسے کرتے تھے؟


2: آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) گفتگو کیسے کرتے تھے؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا وقت فالتو باتوں میں برباد نہیں کرتے تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) زیادہ تر خاموش رہتے۔ ایسا معلوم ہوتا جیسے کچھ سوچ رہے ہوں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) اسی وقت گفتگو فرماتے جب بولنے کی ضرورت ہوتی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) جلدی جلدی اور کٹے کٹے لفظ نہیں بولتے تھے۔ آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) کی گفتگو بہت صاف اور واضح ہوتی۔ نہ آپ ضرورت سے زیادہ لمبی بات کرتے اور نہ اتنی مختصر ہوتی کہ سمجھ میں نہ آتی۔ آپ کے جملے بہت نپے تلے ہوتے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ " آپ ٹھیر ٹھیر کر بولتے۔ ایک ایک فقرہ اس طرح واضح ہوتا کہ سننے والے کو پوری تقریر یاد ہوجاتی۔" آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی آواز بلند تھی اور اچھی طرح سنی جا سکتی تھی۔
آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) کسی کی بات بیچ سے کاٹتے نہ تھے بلکہ پوری بات کہنے کا موقع دیتے اور توجہ سے سنتے تھے۔

آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) مسکراتے ہوئے نرم لہجہ میں بات کرتے تھے۔ کسی کو خوش کرنے کے لئے جھوٹی یا چاپلوسی کی باتیں زبان سے نہیں نکالتے تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) ہمیشہ انصاف کی بات کہتے تھے اور منہ دیکھی بات پسند نہیں کرتے تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) کٹ حجتی سے پرہیز کرتے تھے۔

دشمن کو بھی نہ تلخ جواب آپ ﷺ نے دیا
اللہ رے حلاوتِ گفتارِ مصطفےٰ

(ابوالمجاہدزاہد)​
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,451
پوائنٹ
306
3: آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) ہمیشہ سچ بولتے تھے

3: آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) ہمیشہ سچ بولتے تھے​


رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ سچ بولتے تھے اور جھوٹ کے پاس بھی کبھی نہ پھٹکتے تھے۔ آپ کی زبانِ مبارک سے کبھی کوئی غلط بات سننے میں نہیں آئی یہاں تک کہ مذاق میں بھی کوئی جھوٹی بات آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی زبان سے نہیں نکلتی تھی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے دشمنوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) پر طرح طرح کے الزامات لگائے مگر آپ کو جھوٹا کہنے کی ہمت نہ کر سکے۔ یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ ابو جہل آپ کا کتنا بڑا دشمن تھا۔ وہ بھی کہا کرتا تھا:
"محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ! میں تم کو جھوٹا نہیں کہہ سکتا کیوں کہ تم نے کبھی جھوٹ بولا ہی نہیں ، البتہ جو باتیں تم کہتے ہو ان کو میں ٹھیک نہیں سمجھتا۔"

یاد کیجئے اُس واقعہ کو جب حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) نے کوہِ صفا پر چڑھ کر قریش والوں سے یہ سوال کیا تھا:
"اگر میں کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے ایک لشکر آ رہا ہے تو کیا تم یقین کرو گے؟"
سب نے ایک زبان ہوکر جو جواب دیا تھا وہ آپ کے صادق القول ہونے کی دلیل ہے۔
بولے " ہاں! ہم ضرور یقین کریں گے کیوں کہ تم کو ہمیشہ سے ہم نے سچ ہی بولتے دیکھا ہے۔


جانِ حیات ہے ترے اخلاق کی جھلک
خود زندگی ہے موت کا ساماں ترے بغیر

(ماہرالقادری)

 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,451
پوائنٹ
306
4: آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) وعدے کے پکے تھے

4: آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) وعدے کے پکے تھے

پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بات کے دھنی تھے۔ جو وعدہ فرما لیتے تھے اسے پورا کر کے رہتے تھے۔ آپ کی پوری زندگی سے کوئی ایک واقعہ بھی ایسا نہیں پیش کیا جا سکتا جس سے عہد شکنی ثابت کی جا سکے۔ دوست تو دوست دشمن بھی آپ کے اس وصف کا اعتراف کرتے تھے۔

تاریخ کو دیکھیے۔ قیصرِ روم ابو سفیان سے دریافت کرتا ہے" کیا محمد نے کبھی بد عہدی بھی کی ہے؟" ابو سفیان کا جواب نفی میں سن کر وہ کسی خیال میں کھو جاتاہے۔

صلح نامۂ حُدیبیہ کی ایک شرط تھی "کوئی مکہ والا مسلمان ہوکر مدینہ جائے گا تو واپس کردیا جائے گا۔" ٹھیک اسی وقت جب یہ عہد نامہ تحریر کیا جا رہا تھا ابو جندل رضی اللہ عنہ زنجیروں میں جکڑے ہوئے اہل مکہ کی قید سے بھاگ کر مدینہ آجاتے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی حالتِ زار دکھا کر فریادی ہوتے ہیں۔ یہ منظر بہت ہی درد انگیز اور جذباتی تھا۔ تمام مسلمان تڑپ اٹھتے ہیں اور سفارش کرتے ہیں ، لیکن حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) نہایت اطمینان اور پُر وقار انداز میں مخاطب ہوتے ہیں ______ "ابو جندل ! تم کو واپس جانا ہوگا ، میں بد عہدی نہیں کرسکتا۔" الفاظ کرب و الم میں ڈوبے ہوئے تھے۔ ابو جندل رضی اللہ عنہ آپ کو حسرت بھری نظر سے دیکھتے ہوئے واپس چلے جاتے ہیں۔
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,451
پوائنٹ
306
5:آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) بدزبانی سے پرہیز کرتے تھے

5: آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) بدزبانی سے پرہیز کرتے تھے

بد زبانی ایسی بری عادت ہے کہ جس میں یہ عادت پائی جاتی ہے لوگ اس سے دور بھاگتے ہیں ، وہ شخص دوسروں کی نظر سے گر جاتا ہے ، سب اُس سے نفرت کرنے لگتے ہیں۔ بد زبان آدمی سے لوگ ملنا پسند نہیں کرتے۔ ایسے شخص کے بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ "خدا کے نزدیک قیامت کے دن سب سے بُرا شخص وہ ہوگا جس کی بد زبانی کے ڈر سے لوگ اس کو چھوڑ دیں۔"

بد زبانی کی وجہ سے لوگوں کے دلوں کو تکلیف پہنچتی ہے حالانکہ "مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں۔"

بد زبانی ہی کی وجہ سے آپس کے تعلقات خراب ہوجاتے ہیں اور نوبت لڑائی جھگڑے تک پہنچ جاتی ہے جبکہ حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) نے صاف صاف فرمایا ہے کہ (مسلمان کا) مسلمان کو برا بھلا کہنا فِسق ہے اور اس کے ساتھ لڑنا کفر ہے۔"

ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ "سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ آدمی اپنے ماں باپ پر لعنت بھیجے۔" صحابہ رضی نے حیرت سے پوچھا ، یہ کیسے ممکن ہے؟ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا 'اس طرح کہ جب کوئی کسی کے باپ کو برا کہے گا تو جواب میں وہ اُن کے ماں باپ کو برا کہے گا۔"
اللہ تعالیٰ ہمیں بد زبانی سے بچنے کی تو فیق عطا فرمائے۔ آمین

لہجۂ لب سے ہوئے سنگ بھی موم
کتنا پیار آپ کی گفتار میں ہے
(اقبال صفی پوری)​
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,451
پوائنٹ
306
6: آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو غیبت سے نفرت تھی

6: آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو غیبت سے نفرت تھی

غیبت سے آپس کے تعلقات خراب ہوتے ہیں ، اچھے دل برے ہوجاتے ہیں۔ عزت و آبرو خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ اس سے نفرت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ اسی لیے تو قرآن کریم میں غیبت کرنے والے کی مثال ایسے شخص سے دی گئی ہے جو اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھاتا ہے۔
___ توبہ! توبہ _____ کتنی گھناؤنی عادت ہے کسی کے پیٹھ پیچھے برائی کرنا۔

غیبت کے بارے میں پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ "یا رسول اللہ ! غیبت کس کو کہتے ہیں؟"
آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا " تمہارا اپنے بھائی کی اُن باتوں کا ذکر کرنا جن کو وہ سنے تو اُسے ناگوار گزرے۔"
پھر پوچھا گیا کہ "اگر میرے بھائی میں وہ عیب موجود ہو جس کو بیان کیا گیا ہے؟"
آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے جواب دیا کہ ___ "اگر وہ عیب اس میں موجود ہے تو تم نے اس کی غیبت کی اور اگر وہ عیب اس میں نہیں ہے تو تم نے اس پر بہتان (جھوٹا الزام) لگایا۔"

اللہ تعالیٰ اس بری عادت سے ہم کو بچائے۔ آمین!

ترے کردار پر دشمن بھی انگلی رکھ نہیں سکتا
ترے اخلاق تو قرآن ہی قرآن ہے ساقی
ماہر القادری
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,451
پوائنٹ
306
7: آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) میٹھے بول بولتے تھے

7: آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) میٹھے بول بولتے تھے

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی کسی سے بات کرتے تو اس کے منصب اور ادب و احترام کا خیال رکھتے تھے۔ اس سے آپس کے تعلقات اچھے رہتے ہیں اور میل جول بڑھتا ہے۔ اچھی عادتوں میں سلام کرنا ، شکریہ ادا کرنا ، مزاج پوچھنا ، نصیحت کرنا اور نیکی کی تعلیم دینا بھی شامل ہے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر یقین رکھتا ہے اس کو چاہیے کہ زبان سے اچھی بات نکالے ورنہ چپ رہے۔" اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہم سچے مسلمان بننا چاہتے ہیں تو ہمیں بد کلامی اور ایسی باتوں سے بچنا چاہیے جس سے دوسروں کا دل دُکھے۔
ایک بار آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ " اچھی بات صدقہ ہے یعنی میٹھی زبان استعمال کر کے دوسروں کے دل جیت لینا بہت بڑی نعمت ہے۔

ایک صحابی نے دریافت کیا کہ "یا رسول اللہ ! نجات کیسے حاصل ہوسکتی ہے؟"۔۔۔۔۔
آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا اپنی زبان پر قابو رکھو۔ "یعنی پہلے تولو پھر بولو۔ تاکہ تمہاری باتوں سے کسی کا دل نہ دکھنے پائے اور تمہاری زبان سے ایسے کلمے نہ ادا ہوں جن سے دوسروں کو تکلیف پہنچے۔

ایک دفعہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے جنت کی خوبیاں بیان فرمائیں۔ ایک صحابی بے تاب ہوکر بولے:
یا رسول اللہ ! یہ جنت کس کو ملے گی؟" حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا "جس نے اپنی زبان سے بری باتیں نہیں نکالی ہوں گی۔"

دیکھیے جنت حاصل کرنے کا کتنا آسان نسخہ ہے۔ آئیے ہم عہد کریں کہ اپنی زبان سے کوئی بری بات نہ نکالیں۔
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,451
پوائنٹ
306
٨: آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) مذاق بھی کرتے تھے

٨: آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) مذاق بھی کرتے تھے

پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مذاق بھی فرمایا کرتے تھے لیکن اس میں بھی آپ (صلی اللہ ولیہ وسلم) کبھی غلط بات زبان سے نہیں نکالتے تھے۔
ایک بار ایک بوڑھی عورت آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس آئی اور عرض کیا کہ آپ میرے لیے دعا کیجئے اللہ مجھے جنت عطا فرمائے۔ "حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ارشاد فرمایا "مائی مجھے افسوس ہے کہ بوڑھی عورتیں جنت میں نہیں جائیں گی۔" یہ سن کر وہ بڑھیا زار و قطار رونے لگی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے مسکراتے ہوئے فرمایا " بے شک کوئی بڑھیا جنت میں نہیں جانے پائے گی البتہ اللہ تعالیٰ ان کو جوان بنا دے گا پھر وہ جنت میں جائیں گی۔" یہ سنتے ہی بڑھیا کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑ گئی۔

ایک شخص نے حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) سے سواری کے لیے اونٹ مانگا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے مسکراتے ہوئے فرمایا:
"ہم تمہیں اونٹنی کا ایک بچہ دیں گے۔" اس نے حیرت سے کہا "میں اونٹنی کا بچہ لے کر کیا کروں گا؟ مجھے تو سواری کے لئے ایک اونٹ چاہئے۔" آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے مسکراتے ہوئے فرمایا "ہر اونٹ کسی اونٹنی کا بچہ ہی ہوتا ہے۔" سب ہنس پڑے۔

ایک دفعہ کھجوریں کھائی جا رہی تھیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) مذاق کے طور پر اپنی گٹھیاں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سامنے ڈالتے رہے۔ آخر میں فرمایا کہ "علی نے سب سے زیادہ کھجوریں کھائی ہیں۔" انھوں نے جواب دیا کہ "آپ نے تو گٹھلیوں سمیت کھائی ہیں۔"
 
Top