آپ فرق کریں۔ ٹینک کوئی معمولی چیز نہیں ہوتا جو عام بندوق کی گولی سے رُک سکے۔ اس کے لیے خصوصی ھتیار ہوتے ہیں۔ اگر ایسے ہتیار نہیں ہیں تو کون سا طریقہ ہے جس کے ذریعے ٹینک کو روکا جاسکتا ہے۔ اور دشمن کو شکست کی جاسکے۔ دوسری گزارش ہے کہ یہ حملہ ایک اسٹیٹ کا دوسری اسٹیٹ پر تھا یعنی یہ معملہ کو ملکوں کے درمیان کا ہے کسی گروہ کا دوسرے گروہ ہے نہیں یعنی یہ باقاعدہ جنگ ہے۔
علمی نگراں صاحب انہوں نے جہاز بچانے کے لیے ایسا نہیں کیا تھا بلکہ انہوں نے باقاعدہ لڑائی کی تھی۔ بنگالی غدار کی لاش بھی جہاز سے دور تھی اور جہاز بہت نیچی پرواز کر رہا تھا۔ یہ بنگالی بنگلاشیش میں جاری لڑائی کا حصہ بنا چاہتا تھا۔ اگر راشد منہاس ر ھ کے پاس کوئی دوسرا راستہ تھا تو بتائیں؟
پیمانہ ایک ہی ہے لیکن آپ دونوں معملات کو سمجھ نہیں رہے۔ دونوں صورتوں میں کوئی دوسرا راستہ ہی نہیں تھا۔
درء المفاسد یا جلب المنافع کی آر لی جانے لگے تو
تو جتنے مسلمان اتنے ہی اسلام والی بات ہوجائے گی۔
پہلے تو نمایاں الفاظ کو اپنے سابقہ اقتباس سے ملا کر دیکھیں :
راشد منہاس رح نے خود کشی نہیں کی بلکہ وہ اپنے جہاز کو دشمن کے علاقے میں جانے سے بچاتے ہوئے شہید ہوئے۔
دوسری بات ، آپ کی گفتگو سے یہ سمجھ آئی ہے کہ آپ کے نزدیک ’ خود کش حملہ ‘ مطلقا ناجائز نہیں ، بلکہ آپ بھی اس کو جائز سمجھتے ہیں ، لیکن جہاں ضرورت ہو ، یا اس کے علاوہ کوئی اور چارہ کار ہی نہ ہو ؟
ایک مثال شامل کرلیں ، تاکہ افہام و تفہیم آسان ہو ، بندوق کا استعمال یا اس کے ذریعے فائر کرنے کا جواز عدم جواز ایک معاملہ ہے ، جبکہ وہ گولی کہاں چلانی ہے ، اور بندوق کا استعمال کہاں کرنا ہے ، یہ الگ معاملہ ہے ۔
اگر کسی شخص کے نزدیک بندوق کا استعمال ہی سرے ناجائز ہے ، تو پھر دوسری بحث کی نوبت ہی نہیں آئے گی ۔ اس کے نزدیک آپ بندوق سے کسی مجرم کو کیفر کردار تک پہنچائیں ، یا کسی بے گناہ کا ناحق خون بہائیں ، دونوں ایک برابر ہیں ۔
ہاں البتہ جو بندوق کے استعمال کو جائز سمجھتا ہے ، اس کے ہاں یہ بحث ہوگی کہ اگر اس سے کسی کو ناحق قتل کیا تو وہ حرام ہے ، اور اگر کسی کو بحق قتل کیا تو جائز ہے ۔
اس لیے آپ ذرا اپنا موقف واضح کردیں کہ آپ ’ خود کش حملہ ‘ پر کس اعتبار سے بحث کرنا چاہتے ہیں ؟