• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اپنے آپکو خود کش حملے میں اُڑانے کا حکم ؟؟؟

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74
قدرتی آفات کے متاثرہ علاقوں سے جن معصوم بچوں کو ”اینجیوز“ اپنی کفالت میں لے لیتی ہیں ان کا ڈیٹا کسی کو معلوم ہے؟ وہ کہاں ہیں اور کس حال میں ہیں اور ان کو کہاں کہاں استعمال کیا جا چکا ہے؟

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

آّپ کی راۓ سے يہ تاثر ملتا ہے کہ يہ دہشت گرد تنظيميں نہيں بلکہ کوئ پراسرار اين جی اوز ہيں جو کم سن خودکش بمباروں کے ليے ذمہ دار ہيں۔

آّپ کی دليل ميں وزن ہوتا اگر دہشت گرد تنظيميں عوامی سطح پر بيانات کے ذريعے بچوں کو خود کش حملہ آور بنانے کے عمل کی مذمت بھی کرتيں اور اس سے لاتعلقی کا اعلان بھی کرتيں۔

بدقستمی سے حقيقت اس کے منافی ہے۔

حقيقت يہ ہے کہ داعش اور ٹی ٹی پی جيسی دہشت گرد تنظيميں دانستہ اور جانتے بوجھتے ہوۓ کم سن خودکش بمباروں کی تصاوير اور اس ضمن ميں بصری مناظر کو اپنے تشہيری مواد ميں بڑھا چڑھا کر استعمال کرتی ہيں۔ يہ گروہ اس "عمل" کی تعريف بھی کرتے ہيں اور مزید کم سن دہشت گردوں کی بھرتی کے ليے بھی اسی تشہيری مواد کو استعمال کرتے ہيں۔

چاہے طالبان کے ليڈر جيسے مولوی نذير کے انٹرويو ہوں، ان کے ترجمان مسلم خان کے بيانات ہوں يا پھر ان کی پراپيگنڈہ ويڈيوز ہوں جن ميں کم سن خود کش حملہ آوروں کے غير انسانی مناظر موجود ہیں۔ ان کا پيغام واضح اور صاف ہے۔

پاکستان ميں دہشت گردی کا يہ عفريت محض ايک دو واقعات کی بنياد پر سامنے نہيں آيا جس کا ذمہ دار چند افراد کو قرار ديا جا سکے۔ يہ ايک باقاعدہ مہم ہے جسے ايک تنظيم اور اس کی ليڈرشپ کی حمايت اور سپورٹ حاصل ہے۔

علاوہ ازيں اگر آپ گزشتہ چند برسوں کے دوران ايسی خبروں پر نظر ڈاليں جن ميں ان خود کش حملہ آوروں کی تفصيل بيان کی گئ ہے جنھيں حملے سے قبل ہی گرفتار کر ليا گيا تو آپ پر يہ واضح ہو گا کہ ان ميں سے کبھی بھی کسی نے کوئ ايسا بيان نہيں ديا جس سے اس راۓ کو تقويت مل سکے جس کی جانب آّپ نے اشارہ کيا ہے۔

يہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ پاک فوج اور عسکری قيادت جو پاکستان ميں دہشت گردی سے نبرد آزما ہونے کے ليے کی جانے والی کوششوں ميں سب سے کليدی کردار ادا کر رہے ہيں، ان کی جانب سے بھی بارہا دہشت گرد تنطيموں کی اس حکمت عملی کے بارے ميں واضح بيانات آۓ ہیں جس کے تحت دہشت گرد معصوم بچوں کی برين واشنگ کر کے انھيں مذموم مقاصد کے ليے استعمال کرتے ہيں۔ بلکہ حقيقت تو يہ ہے کہ پاک فوج ايسی کئ اين جی اوز کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے جو ايسے بچوں کی بحالی اور تربيت کے ليے کام کر رہی ہيں جنھيں دہشت گردوں کے چنگل سے آزاد کرا ليا گيا ہے۔

اس ضمن ميں کی جانے والی کوششوں کے حوالے سے ايک رپورٹ

http://www.dawn.com/news/1208602

ان سينکڑوں بچوں کی جانب سے جو حقائق حاصل ہو‎ۓ ہيں ان کی روشنی ميں بھی يہ واضح ہے کہ ان کو دہشت گرد بنانے ميں کن عناصر کا عمل دخل رہا ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

digitaloutreach@state.gov

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,497
پوائنٹ
964
@فواد صاحب ! اس میں ایک مسئلے کے شرعی حکم کے بارے میں گفتگو ہورہی ہے ، اس لیے یہاں امریکی موقف یا رائے کو گھسیڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
294
پوائنٹ
165
آّپ کی دليل ميں وزن ہوتا اگر دہشت گرد تنظيميں عوامی سطح پر بيانات کے ذريعے بچوں کو خود کش حملہ آور بنانے کے عمل کی مذمت بھی کرتيں اور اس سے لاتعلقی کا اعلان بھی کرتيں۔
جن تنظیموں کا یہاں وجود ہی نہیں وہ کیا تردید کریں گی اور جو ان کاروائیوں کو قبول کرتی ہیں ان کے قبول کرنے والے کو کوئی جانتا نہیں۔
 

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
142
پوائنٹ
118
کاش جسطرح فواد صاحب امریکہ کے وفادار ہیں ایسی وفا وہ اللہ عزوجل اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی دکھاتے

Sent from my SM-G360H using Tapatalk
 

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74
جن تنظیموں کا یہاں وجود ہی نہیں وہ کیا تردید کریں گی اور جو ان کاروائیوں کو قبول کرتی ہیں ان کے قبول کرنے والے کو کوئی جانتا نہیں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

يہ غير منطقی سوچ اور حقائق کی واضح نفی کرتی دليل کہ دہشت گرد تنظيموں کا سرے سے کوئ وجود ہی نہيں ہے نہ صرف يہ کہ ہزاروں کی تعداد ميں پاکستانی فوجيوں، شہريوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کی بے مثال قربانيوں کو نظرانداز کرنے کے مترادف ہے بلکہ يہ پوری مہذب دنيا کے اجتماعی شعور کو بھی جھٹلاتا ہے۔

ميں يہ بھی واضح کر دوں کہ ہزاروں کی تعداد ميں امريکی فوجی بھی انھی دہشت گردوں سے مقابلہ کرتے ہوۓ ہلاک ہوۓ ہيں جو مسلم ممالک سميت پوری عالمی برادری کے مشترکہ دشمن ہيں۔

اگر يہ مفروضہ درست مان ليا جاۓ کہ دہشت گرد تنظيموں کا سرے سے کوئ وجود ہی نہيں ہے تو حقائق کچھ اس طرح سے بنتے ہيں۔

ستمبر 2001 کو امريکہ نے اپنے ہی شہر نيويارک پر حملے کيے اور اس کے نتيجے ميں اپنے 3 ہزار شہری ہلاک کروا ديے۔

يہی نہيں بلکہ واشنگٹن ميں اپنے دفاعی اور عسکری مرکز پينٹاگان پر امريکی شہريوں سے بھرے ہوۓ جہاز سے حملہ کروا کے 300 سے زيادہ اہم دفاعی اور حکومتی اہلکار ہلاک کروا ديے۔ اس کے علاوہ ايک اور جہاز امريکی صدر کی رہائش گاہ وائٹ ہاؤس پر حملے کے ليے روانہ کر ديا۔

اس کے بعد القائدہ کے نام سے ايک تنطيم کا قيام عمل ميں لايا گيا جس ميں عرب ممالک سے ہزاروں کی تعداد ميں دہشت گرد بھرتی کيے گۓ اور انھيں افغانستان ميں آباد کيا گيا تاکہ وہ دنيا بھر ميں ہمارے شہريوں سميت املاک کو نقصان پہنچا سکیں۔۔

القائدہ کے وجود کا ثبوت دينے کے ليے امريکہ ان "تربيت يافتہ مسلم دہشت گردوں" سے مسلسل خودکش حملے کروا رہا ہے اور اس کے نتيجے ميں نہ صرف دنيا بھر ميں اپنی املاک کو نقصان پہنچا رہا ہے بلکہ درجنوں کی تعداد ميں اپنے اور اپنے اتحاديوں اور شراکت داروں کے شہری بھی مروا رہا ہے تاکہ دنيا کو يہ يقين دلايا جا سکے کہ دہشت گرد تنظيموں کا واقعی کوئ وجود ہے۔

امريکی سفارت خانے پر حملہ (1998)، اکتوبر 2002 ميں بالی کے مقام پر 200 افراد کی ہلاکت، 2005 ميں برطانيہ ميں ہونے والی دہشت گردی اور اسی طرح دنيا بھر کے مختلف ممالک ميں ہونے والے دہشت گردی کے بے شمار واقعات اور ان کے نتيجے ميں ہلاک ہونے والے ہزاروں افراد امريکہ کے کھاتے ميں ڈال دينے چاہيے کيونکہ امريکہ يہ تمام واقعات خود کروا رہا ہے تاکہ دنيا کو يہ يقين دلايا جا سکے کہ دہشت گردی ايک حقيقت ہے۔

اسامہ بن لادن کی جانب سے سينکڑوں کی تعداد ميں نشر کيے جانے والے پيغامات جس ميں اس نے نا صرف 11 ستمبر 2001 کے واقعے کی تمام ذمہ داری بارہا تسليم کی ہے بلکہ اپنے چاہنے والوں کو مستقبل ميں بھی ايسے ہی "کارنامے" جاری رکھنے کی تلقين کی ہے يقينآ امريکی سازش کا ہی حصہ ہے۔

انٹرنيٹ پرالقائدہ، داعش، ٹی ٹی پی اور ديگر دہشت گرد تنظيموں سے وابستہ ہزاروں کی تعداد ميں ويب سائٹس جن بر چوبيس گھنٹے امريکہ سے نفرت اور امريکہ کے خلاف دہشت گردی کی ترغيب دی جاتی ہے، اس کا قصورواربھی امريکہ ہے۔

دہشت گردی کی تربيت کے حوالے سے ہزاروں کی تعداد ميں فلميں جو دہشت گرد تنظيموں کے ٹھکانوں سے حاصل ہوئ ہيں اور انٹرنيٹ پر بھی موجود ہیں، اس کا قصوروار بھی امريکہ ہے جو کہ ايک پوری نسل کو اپنے خلاف بھڑکا کر انہيں اپنے خلاف خودکشی کے ليے تيار کر رہا ہے تاکہ يہ "تاثر" برقرار رکھا جا سکے کہ دہشت گرد تنظيميں اپنا وجود رکھتی ہيں۔

يہ يقينی طور پر انسانی تاريخ کی انوکھی ترين سازش ہے جس ميں سازش کرنے والا مسلسل اپنا اور اپنے ہی اتحاديوں کا جانی اور مالی نقصان کرتا چلا جا رہا ہے۔ اور پھر اپنے ہی خلاف پروپيگنڈا کر کے ايسے خودکش حملہ واروں کی فوج تيار کر رہا ہے جو سينکڑوں معصوم لوگوں کی جان لينے ميں فخر محسوس کرتے ہيں۔

کس دنيا ميں ايسی کہانی کا تصور بھی کيا جا سکتا ہے؟

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

digitaloutreach@state.gov

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

 

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
142
پوائنٹ
118
میرے بھائی اس تھریڈ کا مقصد خود کش حملے کا شرعی حکم جاننا ہے. یہ سیاسی بحث آپ الگ تھریڈ شروع کرکے بھی کرسکتے ہیں

Sent from my SM-G360H using Tapatalk
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
294
پوائنٹ
165
يہ غير منطقی سوچ اور حقائق کی واضح نفی کرتی دليل کہ دہشت گرد تنظيموں کا سرے سے کوئ وجود ہی نہيں ہے نہ صرف يہ کہ ہزاروں کی تعداد ميں پاکستانی فوجيوں، شہريوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کی بے مثال قربانيوں کو نظرانداز کرنے کے مترادف ہے بلکہ يہ پوری مہذب دنيا کے اجتماعی شعور کو بھی جھٹلاتا ہے۔
آپ کو منطق پر یقیناً عبور حاصل ہے (اسی بنیاد پر تو آپ کو ملازمت ملی ہے) جس کی بنیاد پر آپ حقائق کو مسخ کرکے پیش کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ مگر دھوکہ صرف اسی کو ہوتا ہے جو تحاریر کو سرسری طور پر پڑھنے کا عادی ہو۔ میرے جس مراسلے کا اقتباس لے کر آپ نے جو ”حقائق“ پیش کیئے ہیں ان کی ایک پائی کے برابر حیثیت نہیں رہتی جب میرے مراسلہ کو بغور پڑھیں تب۔ ،لاحظہ فرمائیں میرا مراسلہ اہم پوائنٹس کے ساتھ۔
جن تنظیموں کا یہاں وجود ہی نہیں وہ کیا تردید کریں گی اور جو ان کاروائیوں کو قبول کرتی ہیں ان کے قبول کرنے والے کو کوئی جانتا نہیں۔
میں نے ایک مخصوص ملک میں ان تنظیموں کی غیر موجودگی کی بات لکھی جسے آپ نے دوسروں کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے پوری دنیا کے حوالہ سے لکھ دیا۔
لطف کی بات یہ کہ کاروائی وہاں کی یا کروائی جا رہی جہاں ان کا وجود ہی نہیں۔ اس کا جواز مہیا کرنے کے لئے جو کچھ کیا کروایا جارہا وہ بھی اچھی طرح معلوم۔
والسلام
 
شمولیت
مئی 27، 2016
پیغامات
256
ری ایکشن اسکور
75
پوائنٹ
85
یہ ایک غدار تھا جس نے ایک اسلامی مملکت ہے غداری کی۔ جب بنگلادیش وجود میں آیا تو بھی وہ سیکولر ملک تھا اسلامی ملک نہیں تھا۔
آپ کا غدار مسلمان انڈیا جانا چاہتا تھا۔
اور آپ تو جانتے ہی ہونگے کہ موجودہ دور کے اہل خوارج جنگ میں مسلمان کے خلاف مشرک کا ساتھ دینے والے کو کیا سمجھتے ہیں؟
موجودہ دور کے خوارج جو کہتے ہیں ان کو کہنے دیں ۔
مگر ذرا یہ تو بتائیں کے آپ کیا فرماتے ہیں؟


جب مخالف پر حکم لگانا ہو تو خوارج کا حکم لگائیں، اور جب اپنے اوپر یا اپنے وطن پر کوئی ہلکی سی آنچ بھی آئے تو انہی خوارج کو برا بھلا کہیں اور ان کی رائے کو غلط کرنے کی کوشش کریں۔۔۔

اچھا مذاق ہے!!
 

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
142
پوائنٹ
118
ویسے اس بات سے ایک خیال آیا کہ تکفیر میں جتنی احتیاط کی جاتی ہے اتنی خوارج کا فتوی لگانے میں کیوں نہی کی جاتی
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
ویسے مسلمان تو بنگالی پائیلٹ بھی تھا وہ بھی اپنے مسلمان وطن کے لیے کام کر رہا تھا۔
تو ایسا کرتے ہوے وہ دونوں چل بسے تو ایک شہید اور دوسرا غدار کی موت کیسے مرا؟
20 اگست 1971 ءکی بات ہے کہ راشد منہاس مسرور ایئر بیس سے اپنی تیسری تنہا پرواز کے لئے T-33جیٹ سے روانہ ہونے لگے تو اچانک ان کے بنگالی انسٹرکٹرمطیع الرحمان نے انہیں رکنے کا اشارہ دیا اور طیارے میں سوار ہو گئے، حالانکہ ایسی پروازیں تنہا کی جاتی ہیں۔ نہ صرف مطیع الرحمن طیارے میں سوار ہوئے بلکہ انہوں نے طیارہ خود کنٹرول کرنا شروع کر دیا۔

خیر جب راشد منہاس نے محسوس کیا کہ مطیع الرحمان طیارے کو اڑا کر بھارت لے جانا چاہتے ہیں یعنی طیارہ اغواء کر لیا گیا ہے۔ راشد منہاس نے اس موقع پر پی اے ایف مسرور بیس میں صبح ساڑھے گیارہ بجے کے قریب رابطہ کیا اور طیارے کے اغواء ہونے سے متعلق آگاہ کیا۔ کنٹرول ٹاور پر نشر ہونے والے راشد منہاس شہید کے آخری پیغام ۔ان کی چیختی ہوئی آواز یں۔ اس چیز کی گواہ ہے کہ ان پیغامات کو نشر کرتے وقت وہ کسی سے دست و گریبان تھے۔ وہ کہہ رہے تھے۔

”میں ۔۔ میں طیارے کو دشمن کے ہاتھوں میں نہیں جانے دوں گا۔۔ آپ انسٹرکٹر کے ۔۔ ساتھیوں کا پتا چلوائیں۔۔“ یہ آخری الفاظ تھے۔ اس وقت طیارہ بھارت کی سرحد سے 64 کلو میٹر دور تھا۔ جب راشد منہاس شہید کو اس بات کا یقین ہو گیا کہ اب طیارے پر قابو پانا اس کے بس میں نہیں رہا۔ تو اس کے سامنے دو راستے تھے ۔

  1. اوّل یہ کہ طیارہ اغوا ہونے دیا جائے۔ اس سے ایک تو وہ قیدی بن جاتا۔ ایک طیارے کا ملک کو نقصان ہوتا۔ اور مطیع الرحمن جو پاکستان کے راز اپنے ساتھ لے جا رہا تھا وہ بھی دشمن کے ہاتھ لگ جاتے ۔
  2. دوسرا راستہ میں طیارہ، پاکستان کے قیمتی راز کو دشمن کے ہاتھوں لگنے سے بچایا جا سکتا تھا اور یہ راستہ شہادت کا تھا۔

شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن
نہ مالِ غنیمت نہ کشور کشائی

”میں جنگی قیدی بننے سے مر جانا بہتر سمجھتا ہوں۔“ راشد منہاس نے اپنی شہادت سے چند دن پہلے اپنی چھوٹی بہن سے کہا تھا۔ ان سب باتوں پر خوب صورت آنکھوں والے، دبلا پتلے، چست بدن کے بیس سالہ نوجوان نے سوچا تو ہو گا۔ پھر اس نے طیارے کا رخ زمین کی طرف کر دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے طیارہ گر کر تباہ ہو گیا۔ اس وقت انڈین بارڈر سے 32 میل کے فاصلے پر طیارہ گر کر تباہ ہوا تھا۔


(اختر سردار چوھدری)
 
Top