• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اپنے لیے اور غیروں کیلئے اور فتویٰ ۔۔تقلید کے کرشمے

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
اسلام وعلیکم -

کتنی عجیب سی بات ہے کہ اگر کوئی شخص غصّے میں کسی کو قتل کردے اور پھر اگر اس مقتول کے ورثاء دیت کے بدلے قاتل کو معاف کر دیں تو وہ اپنی زندگی پھر سے اچھے طریقے سے شروع کر سکتا ہے -

لیکن اگر کوئی غصّے میں آ کر یا کسی غلط فہمی کی بنا پر اپنی بیوی کو تین طلاق دے دے تو فقہ حنفی کے مطابق اسی وقت اس کی طلاق واقع ہو جائے گی - اور واپسی کی صورت یا تو حلالہ ہے یا پھر اگر دوسرا شوہر اپنی مرضی سے طلاق دے تو دے یا اپنی موت آپ پر جائے تو ہی پہلا شوہر دوبارہ اپنی زندگی اچھے طریقے سے شرع کر سکتا ہے – ورنہ دوسری صورت میں ساری عمر شوہر بھی روتا رہے اور بیوی بھی روتی رہے اور بچے بیچارے ان کا مسقبل تباہ ہو جائے -
یہ ہیں تقلید کے کرشمے -
 

ideal_man

رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
258
ری ایکشن اسکور
498
پوائنٹ
79
اسلام وعلیکم -

کتنی عجیب سی بات ہے کہ اگر کوئی شخص غصّے میں کسی کو قتل کردے اور پھر اگر اس مقتول کے ورثاء دیت کے بدلے قاتل کو معاف کر دیں تو وہ اپنی زندگی پھر سے اچھے طریقے سے شروع کر سکتا ہے -

لیکن اگر کوئی غصّے میں آ کر یا کسی غلط فہمی کی بنا پر اپنی بیوی کو تین طلاق دے دے تو فقہ حنفی کے مطابق اسی وقت اس کی طلاق واقع ہو جائے گی - اور واپسی کی صورت یا تو حلالہ ہے یا پھر اگر دوسرا شوہر اپنی مرضی سے طلاق دے تو دے یا اپنی موت آپ پر جائے تو ہی پہلا شوہر دوبارہ اپنی زندگی اچھے طریقے سے شرع کر سکتا ہے – ورنہ دوسری صورت میں ساری عمر شوہر بھی روتا رہے اور بیوی بھی روتی رہے اور بچے بیچارے ان کا مسقبل تباہ ہو جائے -
یہ ہیں تقلید کے کرشمے -

محترم علی جواد صاحب !
فی الحال اس دھاگہ میں جمشید بھائی اور ابو مالک بھائی کے درمیان بات ترتیب سے شروع ہوئی ہے، میرا خیال ہے انہیں ڈسٹرب نہ کیا جائے۔
دوسری بات جن شرعی مسائل میں علمی اختلاف واقع ہوا ہے وہاں قرآن و سنت اور صلف صالحین کے فہم کی حد تک بات ہونی چاہئے، اپنی عقل کو ان مسائل میں گھسیٹ کر نہ لایا جائے۔ ان مسائل کا حل قرآن و سنت اور سلف و صالحین کے فہم کے بجائے ہر انسان کے عقل سے ممکن نہیں۔ ایسی غیر ضروری منطق سے احتیاط کریں۔
آپ نے جو مثال پیش کی ہے اس میں آپ ہی کے موقف کا رد ہے ۔ اس مثال کے دوسرے رخ پر غور کیجئے گا۔ فی الحال میں ڈسٹرب کرنا نہیں چاہتا۔ خواہش ہے موضوع کی مناسبت سے ابو مالک اور جمشید بھائی بات کریں۔
شکریہ
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
محترم علی جواد صاحب !
فی الحال اس دھاگہ میں جمشید بھائی اور ابو مالک بھائی کے درمیان بات ترتیب سے شروع ہوئی ہے، میرا خیال ہے انہیں ڈسٹرب نہ کیا جائے۔
دوسری بات جن شرعی مسائل میں علمی اختلاف واقع ہوا ہے وہاں قرآن و سنت اور صلف صالحین کے فہم کی حد تک بات ہونی چاہئے، اپنی عقل کو ان مسائل میں گھسیٹ کر نہ لایا جائے۔ ان مسائل کا حل قرآن و سنت اور سلف و صالحین کے فہم کے بجائے ہر انسان کے عقل سے ممکن نہیں۔ ایسی غیر ضروری منطق سے احتیاط کریں۔
آپ نے جو مثال پیش کی ہے اس میں آپ ہی کے موقف کا رد ہے ۔ اس مثال کے دوسرے رخ پر غور کیجئے گا۔ فی الحال میں ڈسٹرب کرنا نہیں چاہتا۔ خواہش ہے موضوع کی مناسبت سے ابو مالک اور جمشید بھائی بات کریں۔
شکریہ

بھائی مداخلت کے لئے ایک بار پھر معزرت -
بھائی میں بھی تو یہی بات کر رہا ہوں - کے مسائل میں ہمیں قرآن و سنّت کی طرف رجو ع کرنا چاہیے نہ کہ ایک اجتہادی را ے کو اپنا مذہب بنا لیا جائے- قرآن میں الله نے جو احکامات نازل کیے ہیں وہ انسانی نفسیات کو مد نظر رکھ کر ہی نازل کیے ہیں -
مثال کے طور پرنا حق قتل ایک بڑا گناہ ہے الله نے سختی سے اس سے منا فرما یا ہے لیکن اگر کوئی جذبات میں آ کر کسی کو قتل کر دیتا ہے تو اس کے بچنےکا الله نے ایک راستہ یہ رکھا ہے کہ مقتول کے ورثاء کو یہ اختیار دیا ہے کہ دیت کے بدلے اس کو معاف کردیں تو قاتل کو زندگی مل سکتی ہے - اور ساتھ ہی اللہ نے ورثاء سے بھی یہ فرمایا کہ معاف کرنا بدلہ لینے سے بہتر ہے -
جب کہ اگر کوئی مسلمان جذبات میں آ کر یا شک کی بنا پر اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہے تو الله نے اس کے لئے یہ سہولت رکھی ہے کہ ایک وقت میں ایک طلاق دے اور انتظار کرے اور پھر اگلے طھر میں طلاق دے یا رجوع کی سہولت سے دوبارہ اپنی زندگی کی شروعات کر سکتا ہے اور اپنے فیصلے پر نظر ثانی کر سکتا ہے - جب کہ اکٹھی تین طلاقیں دینے پر اگر وہ واقع ہو جاتی ہیں تو اس سے پورے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہونے کے امکانات پیدا ہوجا تے ہیں- حلالہ جیسے لعنتی فعل ایک کاروبار کی حثیت اختیار کر جاتا ہے - جیسا کہ ہم اپنے معاشرے میں تقلید کی برکت سے اس کا بخوبی مشاہدہ کر سکتے ہیں- شوہر بیوی بچوں سمیت پورا گھرانا شدید ازیت میں مبتلاہ ہو جاتا ہے -
جب کہ قرآن کے احکامات کے مطابق اگر طلاق دی جائے یعنی ایک طھر میں ایک طلاق دی جائے تو ایک آدمی کو اتنا ٹائم مل جاتا ہے کہ وہ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کر لے اور باقی افراد کے لئے بھی یہ سہولت ہو جاتی ہے کہ وہ شوہر کو اس کے اس فیصلے پر سمجھائیں بجھائیں -اور ممکن ہے وہ سمجھ جائے -

اور آخری صورت یعنی جب تین طلاق ہو جاے تو دوبار ملاپ کی یہی صورت الله نے رکھی ہے کہ وہ عورت کسی اور سے شادی کرے اور اگر دوسرا شوہر اپنی مرضی سے (کسی معاہدے کے بغیر ) اس کو طلاق دے یا اپنی موت مر جائے تو وہ اپنے پہلے شوہر سے دوبارہ شادی کر سکتی ہے - یہ بات ذ ہن میں رہے کہ جس طر ح الله نے مقتول کے ورثاء کو معاف کرنے کی تلقین کی ہے کہ اس کی وجہ سے قاتل کی زندگی بچ جائے- اس طر ح دوسرے شوہر کو اس بات کی تلقین ہرگز نہیں کی کہ تم چاہو تو اپنی اس بیوی کو جو طلاق کے بعد تمھارے نکاح میں آئ ہے اس کو کچھ عرصے بعد طلاق دے دو تا کہ وہ دوبارہ اپنے پہلے شوہر کے ساتھ گھر بسا سکے -

لہٰذا اس یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ فقہ حنفی کے مطابق اکٹھی تین طلاق کی صورت میں شوہر اور بیوی کا ایک دوسرے سے جدا ہونے سے معاشرہ ایک بڑے بگاڑ کا سبب بن سکتا ہے-

اور ویسے بھی اگر ایک عورت عمر رسیدہ ہو اور اس کا شوہر جذبات میں آ کر اس کو اکٹھی تین طلاق دے دیتا ہے اور وہ موثر بھی ہو جاتی ہیں - تو اس بات کا مشکل ہی امکان ہے کہ کوئی دوبارہ اس سے شادی کرے اور پھر اسے طلاق دے صرف اس بنا پر کہ وہ دوبارہ اپنے پہلے شوہر سے جا ملے -تو ایسی عورت کہاں جائے گی ؟؟

جب کہ قرآن و سنّت کے مطابق طلاق دینے والا اگر بل فرض طلاق دے بھی دیتا ہے تو اس کو اتنا وقت مل جاتا ہے کہ وہ اپنے فیصلے پر دوبارہ نظر ثانی کر سکے -

اگر کسی بھائی کومیرے نظریات سے اختلاف ہے - تو وہ اپنے دلائل پیش کر سکتا ہے -

وسلام -
 
Top