• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اگر امام ابو حنیفہ رحم اللہ نے ایسا کیا ہے تو وہ اسلام سے خارج ہیں

makki pakistani

سینئر رکن
شمولیت
مئی 25، 2011
پیغامات
1,323
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
282
امام صاحب کو مافوق الفطرت بنا کر کوئی شرف نھیں دیا جا رہا،

امام محترم اول آخر انسان ھیں اور شرف انسانی ہی عزت و تکریم کی نشانی ھے۔
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
آپ بحث کو جس رخ لے کر جارہے ہیں اس سے امام صاحب کی ’’ کرامت ‘‘ خود بخود ختم ہوجائے گی ۔ بہرصورت یہ پھر بعد میں سہی فی الوقت اس عبارت پر غور فرمائیں :
مخصوص دنوں میں مہینوں میں یا حالات میں پوری رات کا جاگنے کا جواز احادیث کے اندر ہی موجود ہے جیساکہ رمضان کے آخری دس دن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی جاگتے تھے اپنے اہل وعیال کو بھی جگاتے تھے ۔ اسی طرح پہریدار بھی ساری رات جاگ سکتا ہے ۔ یہ سب چیزیں احادیث سے ثابت ہیں جیساکہ پہلے بھائیوں نے وضاحت کردی ہے ۔ لہذا تمام احادیث کو ملا کر مفہوم یہ ہوگا کہ کہ مخصوص راتوں میں یا بوقت ضرورت ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن مسلسل عادت ہی بنا لینا یہ خلاف سنت ہے ۔

ویسے آپ کے نزدیک ’’ کرامت ‘‘ کا تصور کیا ہے ذرا واضح کرنا پسند فرمائیں گے ؟
یہاں آپ کیسے کہ سکتے ہیں امام ابو حنیفہ رحہم اللہ نے بطور ضرورت نہیں بلکہ عادتا شب بیداری کی
دوم کرامت کا مفہوم باکل واضح ہے کسی بھی نیک انسان کے ہاتھوں کوئی بھی خرق العادہ واقعہ ہونا جو عموما نہیں واقع ہوتا ۔
اس واقعہ میں صاحب کرامت کا کوئی اختیار نہیں ہوتا اور نہ وہ خرق العادہ واقعہ غیر شرعی ہوتا ہے
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
امام صاحب کو مافوق الفطرت بنا کر کوئی شرف نھیں دیا جا رہا،

امام محترم اول آخر انسان ھیں اور شرف انسانی ہی عزت و تکریم کی نشانی ھے۔
صحیح مسلم کی حدیث میں ایک بچہ نے بطور کرامت اپنی ماں کو بتایا کہ جس عورت پر زنا کی تہمت لگی ہے وہ گناھگار نہیں تو کیا احادیث بھی بعض انسانوں کو مافوق الفطرت سمجھتی ہیں ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
یہاں آپ کیسے کہ سکتے ہیں امام ابو حنیفہ رحہم اللہ نے بطور ضرورت نہیں بلکہ عادتا شب بیداری کی
دوم کرامت کا مفہوم باکل واضح ہے کسی بھی نیک انسان کے ہاتھوں کوئی بھی خرق العادہ واقعہ ہونا جو عموما نہیں واقع ہوتا ۔
اس واقعہ میں صاحب کرامت کا کوئی اختیار نہیں ہوتا اور نہ وہ خرق العادہ واقعہ غیر شرعی ہوتا ہے
بطور کرامت شب بیداری کرنا کیا ایمان کا حصّہ ہے ؟؟؟ اس طرح تو اکثر ہندو جوگی بغیر کھاے پیے کافی مہینے زندہ رہ لیتے ہیں -ظاہر ہے کہ یہ طاقت بھی ان کو الله کی طرف سے ہی ملتی ہے جس کے ذریے وہ زندہ رہتے ہیں - ان کے ایمان کے بارے میں آپ کیا کہیں گے ؟؟؟

کیا امام صاحب کو قران کی اس آیت کے متعلق علم نہیں تھا جس میں الله رب العزت نے فرمایا ؛


ھوالذی جعل لکم اللیل لتسکنوا (یونس: ۶۸)
وہی ذات پاک (الله) ہے جس نے تمہارے لئے رات بنائی تاکہ تم سکون حاصل کرو-
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
صحیح مسلم کی حدیث میں ایک بچہ نے بطور کرامت اپنی ماں کو بتایا کہ جس عورت پر زنا کی تہمت لگی ہے وہ گناھگار نہیں تو کیا احادیث بھی بعض انسانوں کو مافوق الفطرت سمجھتی ہیں ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
کیا ایسے غیر مصدّق واقعات کو صحیح احادیث پر قیاس کیا جا سکتا ہے؟
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
بلا شبہ کرامت سنت کے خلاف نہیں ہوسکتی ، اگر یہ عمل (چالیس سال تک رات کو جاگنا ) خلاف سنت نہ ہو تو پھر بطور کرامت ممکن ہے پھر ہم اس کو اپنی عقل کی کسوٹی پر نہیں پرکھیں گے
دوسری بات جس طرح پہرے دار مسلسل شب بیداری کرسکتا ہے اور اس کا عمل ضرورت کی وجہ سے خلاف حدیث نہیں کہلائے گا تو اگر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ضرورت کی پیش نظر جاگے تو ان کا عمل خلاف سنت نہ ہوگا
میرے خیال میں یہاں تک آپ کو کوئی اعتراض نہ ہو گا
کیا اس عمل کو لازمی ہے کہ ہم جھوٹا قرار دیں ، امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ بلا شک و شبہ ایک امام و مجتھد تھے اور ایک مسلک جس کو جمھور امت نے اپنایا ہے اس کے امام تھے ، انہوں نے راتوں کو سو کر مسائل استنباط نہیں کیے اس کے لغيے ان کو مسلسل جاگنا پڑا ہوگا تو کیا امت کی آسانی کے لئیے جو اجتھادات کئیے کیا اس کے لئیے جاگنا ضرورت میں نہیں آسکتا
تلمیذ بھائی اس کی سند تو بیا ن کر دیں کیا یہ واقعہ مستند ہے یا کہ بس؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
یہاں آپ کیسے کہ سکتے ہیں امام ابو حنیفہ رحہم اللہ نے بطور ضرورت نہیں بلکہ عادتا شب بیداری کی
میں ان دونوں میں کوئی بات بھی نہیں کہہ سکتا ۔ البتہ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ دین میں ایسی کوئی ضرورت نہیں جس کے لیے چالیس سال تک مسلسل راتوں کو جاگنا پڑے ۔
امام صاحب رحمہ اللہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ امت کی فکر نہیں ہوسکتی ۔ امت کے فکر میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا کرنا ثابت ہے؟
صحابہ کرام علیہم الرضوان سے ثابت ہے ؟
دوم کرامت کا مفہوم باکل واضح ہے کسی بھی نیک انسان کے ہاتھوں کوئی بھی خرق العادہ واقعہ ہونا جو عموما نہیں واقع ہوتا ۔
اس واقعہ میں صاحب کرامت کا کوئی اختیار نہیں ہوتا اور نہ وہ خرق العادہ واقعہ غیر شرعی ہوتا ہے
امام صاحب کا یہ واقعہ غیر شرعی ہے کیونکہ خلاف سنت ہے ۔ آپ اس کو ’’ کرامت ‘‘ کا سہارا لے کر ’’ شریعت ‘‘ ثابت کرنا چاہ رہے ہیں ۔
مجھے آپ یہ بتائیں اس طرح تو کسی بھی کام کو ’’ کرامت ‘‘کا لقب دے کر ’’ شریعت ‘‘ کے غلاف میں بند کیا جاسکتا ہے ۔
’’ کرامت ‘‘ کا ظہور کسی ولی سے اس لیے کروایا جاتا ہے کہ تاکہ لوگ ’’ حق کو قبول کریں اور اگر بذات خود وہ فعل جس کو ’’ کرامت ‘‘ کہا جارہا ہے ہی ناحق ہو تو ایسی کرامتوں سے قبول حق کی امید کیا ہوئی ؟
جیسا کہ پہلے گزر چکا کہ ہمیں اس واقعے پر بنیادی دو اعتراض ہیں 1۔ خلاف سنت 2 عدم امکان
آپ خلاف سنت والا اعتراض ختم کردیں یہ کرامت بھی بن جائے گی اور عدم امکان والا اعتراض بھی رفع ہوجائے گا ۔
 

makki pakistani

سینئر رکن
شمولیت
مئی 25، 2011
پیغامات
1,323
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
282
عزیزم تلمیذ۔(بمعنی)

اس سب بحث کے بعد بھی اگر آپ اسی پر مصر ھیں

تو کوئی کچھ نھیں کہہ سکتا۔ سوائے اسکے

تیری زلف میں پہنچی تو حسن کی پری کہلائی۔
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
کیا ایسے غیر مصدّق واقعات کو صحیح احادیث پر قیاس کیا جا سکتا ہے؟
السلام علیکم
انس بھائی ،میں خود چاہ رہا تھا کہ اس طرح کا کوئی اعتراض اہل حدیث عالم کریں تاکہ میں اپنے موقف کی وضاحت کروں ، اگر میرا موقف غلط ہو تو رجوع کرلوں
اللہ تبارک و تعالی ہم سب کو حق بات کہنے اور اس پر عمل کی توفیق دے ، آمیں
امام ابو حنیفہ کے واقعہ کا اگر کوئی اس بنا انکار کرتا ہے کہ یہ واقعہ سندا ثابت نہیں یا اس کی سند مشکوک ہے تو میں بات کو آگے نہیں بڑھائوں گا اور اس انکار پر کوئی اعتراض نہیں کروں گا اعتراض جب ہوتا ہے جب اس کو خلاف شریعت عمل کہا جاتا ہے
حدیث میں ذکر واقعہ کرامت اور احناف کی کتب میں واقعہ شرک
احادیث مبارکہ میں کئی واقعات بطور کرامت ذکر ہیں مثال کے طور پر صحیح مسلم کی وہ حدیث لے لیتے جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بچوں کی گود میں بولنے کے متعلق بتایا تھا جن میں سے ایک حضرت عیسی علیہ السلام ہیں ۔ آپ تو اس حدیث سے واقف ہوں گے لیکن قارئین کے لئے لنک دے دیتا ہوں
لنک
اس میں ایک بچہ نے اپنی ماں کو بتایا ہے کہ فلاں باندی جس کو لوگ زانیہ سمجھ رہے ہیں زانیہ نہیں ہے
اب یہاں کوئی اس بچہ کو مافوق الفطرت مخلوق نہیں کہتا
اب یہاں اس بچہ کو عالم الغیب نہیں کہتا اگر چہ اس نے امر غیب میں سے ایک خبر دی ہے
جب احناف کی کتب میں کوئی خرق العادہ واقعہ تحریر ملتا ہے تو دیوبندیوں پر اس واقعہ کی بنا پر کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے اسلاف کو عالم الغیب سمجتھے ہیں اور کہا جاتا ہے ان کے اسلاف مافوق الفطرت مخلوق تھے
حدیث بھی ایک واقعہ بطور کرامت ذکر ہوا اور احناف کی کتب میں بھی ایک واقعہ بطور کرامت ذکر ہوا تو دو دو الگ نتائج کیوں اخذ کیے جارہے ہیں ، جب کہ دونوں واقعات بطور کرامت ذکر ہوئے ہیں

کیا احناف کا قول نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر قول ہے (معاذاللہ )

اب اعتراض آئے گا کہ میں احناف کے ان بیان کیے واقعات کو احادیث پر کیوں قیاس کر رہا ہوں ، یہاں انس صاحب آپ بھی شدید غلط فہمی کا شکار ہوگئے
قرآن و صحیح حدیث کا بیان کیے گیئے کرامات والے پر ایمان لانا ہم پر لازم ہے ، لیکن احناف علماء کے بیان کردہ واقعات کی تصدیق کوئی شریعت کا حصہ نہیں اور نہ میں ان واقعات پر آپ حضرات کو یقین دلانا چاہتا ہوں ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا قول سو فیصد درست ہے اور ان کا بیان کیا واقعہ میں غلطی کا کوئي احتمال نہیں ، لیکن ایک امتی کے بیان کیے واقعے میں غلطی کا احتمال رہتا ہے اس لئیے کہاں سوفیصد درست نبی کا قول اور کہاں امتی کا قول ، دونوں برابر نہیں ہوسکتے
اگر آپ حضرات احناف کی کتب میں مذکور مثلا تبلیغی نصاب میں مذکور کرامت والے واقعات کو اس بنیاد پر انکار کرتے ہیں کہ ان کی سند پر آپ کو یقین نہیں یا یہ بغیر سند کے ہیں تو میں آپ حضرات سے کوئی بحث نہیں کروں گا ، اصل اختلاف تب ہوتا ہے جب آپ ان واقعات سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ احناف اپنے اسلاف کے متعلق یہ عقیدہ رکتھے ہیںکہ وہ عالم الغیب تھے جیسا کہ طالب الرحمن صاحب (اللہ مجھے بھی حق راہ پر چلائے اور طالب الرحمن صاحب کو بھی ) نے اپنی کتب میں دعوی کیا ہے
میں تو احادیث سے کرامت والے واقعات پیش کرکے بس یہ کہتا ہوں کہ جب بطور کرامت حدیث ایک واقعہ موجود ہے جیسا کہ جریج والی حدیث میں ایک بچہ نے امور غیب میں سے ایک امر کی اطلاع کی اور کسی نے یہ نہیں کہا کہ بنی اسرائیل میں بچے عالم الغیب ہوتے تھے لیکن جب ایسا ہی کوئی واقعہ جس میں کوئي حنفی یا کوئی اور عالم بطور کرامت غیب کی خبر دیتا ہے تو وہاں کیوں یہ نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے کہ کیا وہ بزرگ غیب کا علم رکتھے تھے ؟؟؟
یہاں بھی یہی صورت الحال ہے
اگر آپ حضرات امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے 40 سال تک شب بیداری کو سند بحث کرکے مشکوک قرار دیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں لیکن اگر آپ اس کو خلاف شریعت قرار دیں تو پھر مجھے سخت احتلاف ہے ، کیوں کہ مسلسل شب بیداری حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بھی ثابت ہے (کما سبق ) او اس کے خلاف شریعت نہ ہونے کہ مذید شواہد بھی ہیں

جزاک اللہ خیرا
 
Top