ميرے بھائی نا آشنائی کا ایسا اظہار!!!!!
یہ واقعہ بخاری نے اپنی صحیح میں صراحتا لکھا ہے۔۔۔
اس میں کسی جگہ بھی ذکر نہیں ہے کہ سعد بن عبادہ کو صحابہ نے قتل کیا تھا ۔ مجھے لگتا ہے آپ کو دلیل ڈھونڈنے میں غلطی لگی ہے کوئی اور دلیل تلاش کرکے لائیں البتہ اس میں جو لفظ قتل ہے اس سے آپ کا استدلال باطل ہے جس کی چند وجوہ ہیں :
١۔ عربی زبان کا یہ عام اسلوب ہے کہ لفظ قتل کو قتل کے بغیر ویسے کسی پر غلبہ پانے کے معنی میں بھی استعمال کر لیا جاتا ہے ( اردو یا عربی کی کسی بھی لغت میں لفظ قتل کے معانی دیکھ لیں ) اور یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ اگر آپ کسی جامعہ کے طالب علم ہیں تو اس سے غافل نہیں ہوں گے بلکہ صحابہ کی دشمنی نے آپ کا یوں دماغ خراب کیا ہے ۔
٢۔ حضرت سعد بن عبادۃ اس واقعہ کے بعد بھی زندہ رہے ہیں حافظ ابن حجر نے ان کی تاریخ وفات میں دو قول ذکر کیے ہیں پندرہ یا سولہ ہجری گویا یہ حضرت ابو بکر کی خلافت گزرنے کے بعد فوت ہوئے ہیں ۔
٣۔ کسی مورخ نے بھی ان کی وفات کے سلسلے میں یہ واقعہ (بیعت ابی بکر ) ذکر نہیں کیا ۔اور نہ کسی نے یہ تاریخ ذکر کی ہے ۔
٤۔ جس عبارت سےآپ استدلال کر رہے ہیں اس کے دو حصے ہیں قتلتم سعد بن عبادۃ اور دوسرا حصہ قتل اللہ سعدا ایک ہی جگہ ایک ہی روایت ایک ہی کتاب میں آپ ایک جملہ کو مان رہے ہیں اوردوسرے کا انکار کر رہے ہیں اس سے ہم کیا سمجھیں ؟
اور بھی بہت سے قرائن ہیں جو آپ کی اس سعی نا مشکور کو آشکار کرنے کے لیے ذکر کیے جا سکتے ہیں لیکن فی الوقت اتنا کچھ ہی کافی ہے ۔
اور میں آپ سے سنجیدگی سے گزارش کر رہا ہوں آپ بحث کریں بڑے شوق سےکریں لیکن میرے ساتھ بچوں والے کھیل نہ کھیلیں آپ کی بہت مہربانی ہوگی ۔
یہ آپ نے بجا کہا ہے مگر مگر جب گواہی دینے کے لیے کسی عادل کی ضرورت ہو اور یہان پر عدالت صحابہ کا مسئلہ ہو یا ان سے روایت لینے کا مسئلہ تو لازم لازم لازم ہے کہ گناھ کے بعد توبہ کا بھی پتہ ہو
ورنہ
آپ کو کیا پتہ عبد اللہ بن ابی نے بھی توبہ کرلی ہو ؟!
آپ کو کیا پتہ دوسرے منافقوں نےبھی توبہ کرلی ہو؟
پہلی بات :
اس کا مطلب ہے کہ جن صحابہ سے گناہ ثابت نہیں ہے ان کے حوالے سے توبہ وغیرہ کی بات کرنا فضول ہے ۔
جن سے کوئی ایسا گناہ ثابت ہے ( و ہم قلۃ قلیلۃ ) ان سے توبہ بھی ثابت ہے ۔ مثلا حضرت ماعز بن مالک الأسلمی وغیرہ ۔
دوسری بات :
آپ نے کہا ہے کہ روایت وغیرہ لینے کے لیے ضروری ہے کہ گناہ کے بعد توبہ کا بھی پتہ ہو گویا جن جن صحابہ سے اہل بیت کی روایات ثابت ہیں ان کی عدالت میں تو آپ کو کوئی شک نہیں ہے نا ؟
ومما ينبغى أن يعلم أن الذين قارفوا إثماً ثم حدوا - كان ذلك كفارة لهم - وتابوا وحسنت توبتهم ، وهم فى نفس الوقت قلة نادرة جداً ؛ لا ينبغى أن يغلب شأنهم وحالهم على حال الألوف المؤلفة من الصحابة الذين ثبتوا على الجادة والصراط المستقيم ، وجانبوا المآثم ، والمعاصى ما كبر منها وما صغر، وما ظهر منها وما بطن ، والتاريخ الصادق أكبر شاهد على هذا "
اس اقتباس کو میں نے تو الحمد للہ خوب دیکھا تھا لیکن آپ کو کچھ دکھانا چاہا تھا جس سے آپ تجاہل عارفانہ کر رہے ہیں ۔ ملون عبارت کو پڑھیں اور بار بار پڑھیں اور ہر بار پڑھ کر اس کو سمجھنے کی کوشش کریں ۔
لاکھ کے قریب صحابہ کرام میں سے کتنے ہیں جن پر حدیں جاری ہوئی ہیں ؟
بفرض محال محال محال جن پر حد جاری ہوئی ان کی عدالت ساقط ہے ( نعوذ باللہ ) وجہ یہ ہے کہ انہوں نے ایسا کام کیا جس کی وجہ سے وہ عدالت سے محروم ہو گئے ۔ سوال یہ ہے کہ ان گنتی کے چند افراد کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں جو صحابہ کرام ہیں ان پر طعن و تشنیع کرنے کی کیا وجہ ہے ؟
ولا یحقیق المکر السئی إلا بأہلہ
ہم اسلام پر آئی ہوئی کس کس مصیبت پر روئیں
بس نا چھیڑو ہم کو۔۔۔۔
آپ کایہ انداز دیکھ کر ذاکروں کی ڈرامے بازیاں ذہن میں گھومنے لگی ہیں ۔ اللہ کرے آپ ان جیسے نہ ہوں اور واقعتا اسلام کا درد رکھتے ہوں ۔
بہر صورت اگر آپ کے بڑوں کو اس چیز کا احساس ہوتا تو عبد اللہ بن سبا کی پیروی کبھی نہ کرتے ؟
پڑھ کے مچھلی کے احوال غم
مگر مچھ بھی آنسو بہانے لگا
بہر صورت اب بھی توبہ کر لیں ان شاء اللہ آپ عادل بن جائیں گے ۔ بإذن اللہ
ایک بات ذہن میں رکھیں :
جس اشکال کی وجہ سے آپ نے موضوع شروع کیا تھا میرے خیال سے بہت پہلے اس کا جواب بھی گزر چکا ہے آپ نے اس کے حوالے سے کوئی لب کشائی نہیں فرمائی ۔
آپ کا مطالبہ تھا کہ حد جاری ہونے والا عادل رہتا ہے ہے کہ نہیں ۔ ہاں یا نہ میں آپ نے جواب کا مطالبہ کیا تھا
اوپر آپ کو بالدلیل ’’ ہاں ‘‘ میں جواب دیا جا چکا ہے ۔ اس پر بھی کوئی روشنی ڈالیں ۔