• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اگر تم مومن ھو

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۔
’’ہر حال میں مجتمع رہنے‘‘ اور ’’صرف امام شرعی کی قیادت میں مجتمع رہنے‘‘ کی شرعی ضرورت اس نتیجے پر پہنچاتی ہے کہ حالتِ مغلوبیت میں بھی خلیفہ ہو سکتا ہے اور کتاب و سنت سے اس کی تصدیق ہوتی ہے مثلاً نبی ﷺ کا ارشاد ہے کہ:۔

’’ وَاَنَا اٰمُرُکُمْ بِخَمْسٍ اللہُ اَمَرْنِیْ بِھِنَّ بِالْجَمَاعَۃِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ وَالْھِجْرَۃِ وَالْجِھَادِ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ‘‘۔
(احمد‘ مسند الشامیین‘ حارث الاشعری رضی اللہ عنہ )
’’ میں تمہیں پانچ باتوں کا حکم دیتا ہوں جن کا مجھے ﷲ نے حکم دیا ہے‘ جماعت کے ساتھ ہونے کا‘ حکم سننے کا‘ اطاعت کرنے کا ‘ ہجرت کا اور جہاد فی سبیل ﷲ کا‘‘۔

حدیث میں ہجرت اور جہاد سے پہلے سمع و اطاعت کا حکم دیا جا رہا ہے اور کتاب و سنت سے یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ رسول ﷲ ﷺ کے بعد سیاسی سمع و اطاعت صرف خلیفہ کی ہے‘ اس کے علاوہ کسی کی سمع و اطاعت نہیں۔ ہجرت سے پہلے کی حالت بغیر سلطنت و اقتدار کی یعنی کمزوری و مغلوبیت کی ہوتی ہے اور اس حالت میں بھی اگر سمع و اطاعت ہے تو وہ نبی کے بعد خلیفہ کی نہیں تو پھر اور کس کی ہے ؟ یہ چیز اس بات کو واضح کرتی ہے کہ حالت مغلوبیت میں بھی خلیفہ موجود ہو گا جس کی سمع و اطاعت میںہجرت کی جائے گی پھر جہاد کیا جائے گا اور پھر غلبہ حاصل کیا جائے گا۔ انشاء اللہ۔

اصل بات جس کی وجہ سے بعض لوگ خلیفہ کے حوالے سے غلط فہمی کا شکار ہیں وہ یہی ہے کہ وہ اسے سلطنت و اقتدار کے حامل کے طور پر ہی پہچانتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ خلیفہ سیاستِ امہ کے سب سے بڑے عہدے اور عہدیدار کا نام ہے‘ اب کسی شخص کے اس عہدے پر فائز ہونے کی بناء و شرائط الگ ہیں‘ اس عہدے کے حقوق الگ ہیں جو اس عہدے کے حامل ہونے کے بعد عہدیدار کو دئیے جانے لازم ہیں اور اس عہدے کے فرائض الگ ہیں جنہیں اس عہدیدار کیلئے‘ اس عہدے پر فائز ہونے کے بعد ادا کرنا لازم ہے۔

٭ کسی شخص کے خلیفہ کے عہدے پر فائز ہونے کی بنا ’’ﷲ کا حکم‘ اس کا فیصلہ اور اس کی مقرر کردہ شرائط ہیں‘‘ (جن کا تفصیلی ذکر آئے گا اور ) جن کے حامل ہونے کی بنا پر ایک شخص خلیفہ کے عہدے پر فائز ہو جاتا ہے اور خلیفہ قرا ر پا جاتا ہے۔

٭ کسی شخص کے خلیفہ کے عہدے پر فائز ہونے کے بعد اس کے حقوق کی تفویض کا مرحلہ آتا ہے۔ اس کے بنیادی حقوق میں مومنین کی بیعت‘ اطاعت اور نصرت شامل ہے جس کے ذریعے سے اس کے دیگر حقوق یعنی مومنین کی امامت‘ امارت اور سلطنت و اقتدار اس کو تفویض کئے جاتے ہیں۔

٭ تفویض حقوقِ کے بعد خلیفہ کے فرائض کی ادائیگی کا مرحلہ شروع ہوتا ہے۔ خلیفہ کا بنیادی فرض اقامتِ دین ہے اور نماز قائم کرنا‘ معروف کے ساتھ حکم کرنا‘ منکر سے روکنا اور ﷲ کے نازل کردہ قوانین کے مطابق لوگوں کے معاملات کے فیصلے کرنا اس بنیادی فرض کے اہم ترین تقاضے ہیں۔ خلیفہ مومنین کی امات کرتے ہوئے ان کی امارت چلاتے ہوئے اور اگر مومنین سلطنت کے حامل ہوں تو ان کی سلطنت کی تدبیر کرتے ہوئے اپنے بنیادی فرض ’’اقامتِ دین‘‘ کی ادائیگی کی کوشش کرتا ہے۔
۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۔
جو لوگ کسی شخص کے خلیفہ ہونے کی بنیاد اس کے سلطنت و اقتدار کے حامل ہونے کو اور اس کے ﷲ کے قوانین کے مطابق لوگوں کے مابین فیصلے کر سکنے کی صلاحیت کو بناتے ہیں وہ دراصل خلیفہ ہونے کی بنیاد اس کے حقوق کے حامل ہونے کو اور اس کے فرائض کے ادا کر سکنے کی صلاحیت کو بنا رہے ہوتے ہیں جبکہ کسی شخص کے خلیفہ ہونے کی بنیاد ’’ﷲ کی مقرر کردہ شرائط کا حامل ہونا‘‘ ہوتی ہے۔ وہ ﷲ کی مقرر کردہ شرائط کے پورا کرنے کی بنا پر خلیفہ کے عہدے کا حامل ہو جاتا ہے اور خلیفہ قرار پا جاتا ہے‘ اس بنا پر مؤمنین کی امامت‘ امارت اور سلطنت و اقتدار کا حقدار ہو جاتا ہے اور اہل ایمان پر اس کے یہ حقوق اس کے سپرد کرنا لازم ہو جاتا ہے‘ اہل ایمان اگر ﷲ کی شرائط کی بنا پر خلیفہ قرار پائے گئے شخص کو اس کے یہ حقوق سپرد نہیں کرتے تو اس سے اس کا خلیفہ ہونا موقوف نہیں ہو جاتا البتہ اہل ایمان جاہلیت کی موت مرنے کے خطرے سے ضرور دوچار ہو جاتے ہیں جیسا کہ ’’نبی ‘‘ ﷲ کی طرف سے لوگوں کا امیر‘ امام‘ سلطان و مقتدر بنا کر بھیجا گیا ہوتا ہے لیکن کسی شخص کے نبی ہونے کی بنا اس کا سلطنت و اقتدار کا حامل ہونا نہیں ہوتی بلکہ ﷲ کی مقرر کردہ نشانیاں ہوتی ہیں۔ ﷲ کی مقرر کردہ نشانیوں کے حامل ہونے کی بنا پر نبی قرار پایا ہوا شخص لوگوں کے ایمان و اطاعت اور ان کی سلطنت و اقتدار وغیرہ کا حقدار ٹھہرتا ہے اور لوگوں پر نبی کے یہ حقوق دینا فرض ہو جات اہے‘ لوگ اگر نبی کے یہ حقوق اسے نہیں دیتے تو اس سے نبی کا نہیں ہونا موقوف نہیں ہو جاتا البتہ لوگ ضرور کافر قرار پا جاتے ہیں۔

کسی شخص کے خلیفہ ہونے کی بنیاد اس کے سلطنت و اقتدار کے حامل ہونے کو اور اس کے ﷲ کے قوانین کے مطابق لوگوں کے مابین فیصلے کر سکنے کی صلاحیت کو بنانے والے اس غلطی کا شکار اصل میں درج ذیل آیت سے غلط استدلال لینے کی بنا پر ہوتے ہیں۔

’’یٰدَاؤْدُ اِنَّا جَعَلْنٰکَ خَلِیْفَۃً فِی الْاَرْضِ فَاحْکُمْ بَیْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعْ الْھَوٰی فَیُضِلَّکَ عَنْ سَبِیْلِ اللہِ‘‘۔
(ص:26)
’’ اے داؤد ہم نے تمہیں زمین میں خلیفہ بنایا ہے پس تم حق کے مطابق لوگوں کے مابین حاکمیت کرو اور اھواء کی پیروی مت کرو کہ وہ تمہیں ﷲ کی راہ سے بھٹکا دے گی‘‘۔

لوگ کہتے ہیں کہ ﷲ تعالیٰ داؤد علیہ السلام کو زمین میں خلیفہ قرر دے دیا ہے ‘ وہ زمین (سلطنت) کے حامل تھے تو ان کو خلیفہ قرار دے رہا ہے اور اسی زمین کی بنا پر وہ لوگوں کے مابین حق کے مطابق فیصلے کرنے کے قابل ہو سکے تھے۔
۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۔
خلیفہ! سلطنت کی بنا پر؟

ان کی اس بات کہ ’’داؤد علیہ السلام زمین کی بنا پر وہ لوگوں کے مابین حق کے مطابق فیصلے کرنے کے قابل ہو سکے تھے‘‘ کو صحیح مان لیا جائے تو دیگر تمام انبیاء علیہم السلام جو اﷲکے نازل کردہ کے مطابق فیصلے کرتے رہے ہیں کو بھی زمین کا حامل ہونا چاہئے جبکہ ایسا نہیں ہے۔ کتاب و سنت سے یہ بات واضح ہے کہ بنی اسرائیل کے زیادہ تر انبیاء اقتدار کے بغیر ہی دنیا سے چلے گئے تھے لیکن اس کے باوجود وہ تورات کے مطابق ان لوگوں کے معاملات کیفیصلے کرتے رہے تھے جو یہودی کہلائے۔ جیسا کہ ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:۔

’’ اِنَّا اَنْزَلْنَا التَّوْرَۃَ فِیْھَا ھُدًی وَّنُوْرٌ یَحْکُمُ بِھَا النَّبِیُّوْنَ الَّذِیْنَ اَسْلَمُوْا لِلَّذِیْنَ ھَادُوْا وَالرَّبّٰنِیُّوْنَ وَالْاَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوْا مِنْ کِتٰبِ اللہِ وَکَانُوْا عَلَیْہِ شُھَدَآئَ فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ وَلَا تَشْتَرُوْا بِاٰیٰتِیْ ثَمَنًا قَلِیْلاً وَمَنْ لَمْ یَہْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فَاُوْلٰئِکَ ھُمُ الْکٰفِرُوْنَ‘‘۔
(المائدہ:44)
’’ بیشک ہم نے تورات نازل کی جس میں ہدایت اور نور ہے ‘ انبیاء جو کہ ﷲ کے فرمانبردار تھے اسی کے مطابق ان لوگوں کے معاملات کے فیصلے کیا کرتے تھے جو یہودی کہلائے اور درویش اور علماء بھی (اسی کے مطابق فیصلے کیا کرتے تھے) کیونکہ وہ کتاب ﷲ کے محافظ ٹھہرائے گئے تھے اور وہ اس پر گواہ تھے‘ سو تم لوگوں سے مت ڈرو اور صرف مجھ ہی سے ڈرو اور میری آیات کو حقیر معاوضے پر مت بیچو اور جو لوگ ﷲ کے نازل کردہ کے مطابق فیصلے نہ کریں تو ایسے ہی لوگ کافر ہیں‘‘۔

ان کی اس بات کی ’’خلیفہ زمین کے حامل ہو جانے کی بنا پر ہوتا ہے‘‘ کو صحیح مان لیا جائے تو بادشاہ (ان کی سمجھ میں حقیقی خلیفہ) بھی سلطنت کے حامل ہو جانے کی بنا پر ہی ہونا چاہئے اور وارث (خلیفہ سے ایک اور مراد) بھی وراثت کے حامل ہو جانے کی بنا پر ہی ہونا چاہئے لیکن ﷲ تعالیٰ ان چیزوں کے بغیر ہی لوگوں کو خلیفہ‘ بادشاہ اور وارث قرار دے رہا ہے مثلاً:

1۔ ﷲ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو زمین میں خلیفہ مقرر کیا جبکہ ابھی آدم علیہ السلام زمین پہ پہنچے ہی نہیں بلکہ اپنی تخلیق سے ایک عرصہ بعد تک جنت ہی میں مقیم رہے۔
۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۔
ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:۔

’’ وَاِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰئِکَۃِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً قَالُوْا اَتَجْعَلُ فِیْھَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْھَا ‘‘۔
(البقرہ: 30)
’’ اور یاد کرو جب کہا تیرے رب نے فرشتوں سے یقینا میں بنانے والا ہوں زمین میں ایک خلیفہ انہوں نے کہا کیا تو مقرر کرے گا اس میں اس کو جو فساد برپا کرے گا اس میں اور خون ریزیاں کرے گا‘‘۔

2۔ ﷲ تعالیٰ کی طرف سے طالوت کو ایسی حالت میں بنی اسرائیل کا بادشاہ قرار دیا گیا جب نبی اسرائیل سے ان کی سلطنت چھن چکی تھی اور انہیں ان کے گھرون اور بیٹیوں سے محروم کر دیا گیا تھا۔

ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:

’’ اَلَمْ تَرَ اِلَی الْمَلَاِ مِنْ بَنِیْ اِسْرَائِ یْلَ مِنْ بَعْدِ مُوْسٰی اِذْ قَالُوْا لِنَبِّیٍّ لَّھُمْ ابْعَثْ لَنَا مَلِکًا نُّقَلاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ قَالَ ھَلْ عَسَیْتُمْ اِنْ کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِتَالُ اَلَّا تُقَاتِلُوْا قَالُوْا وَمَا لَنَآ اَلَّا نُقَاتِلَ فِی سَبِیْلِ اللہِ وَقَدْ اُخْرِجْنَا مِنْ دِیَارِنَا وَاَبْنَآئِنَا فَلَمَّا کُتِبَ عَلَیْھِمُ الْقِتَالُ تَوَلَّوْا اِلَّا قَلِیْلاً مِّنْھُمْ وَاللہُ عَلِیْمٌ بِالظّٰلِمِیْنَ o وَقَالَ لَھُمْ نَبِیُّھُمْ اِنَّ اللہَ قَدْ بَعَثَ لَکُمْ طَالُوْتَ مَلِکًا قَالُوْآ اَنّٰی یَکُوْنُ لَہُ الْمُلْکُ عَلَیْنَا وَنَحْنُ اَحَقُّ بِالْمُلْکِ مِنْہُ وَلَمْ یُؤْتَ سَعَۃً مِنَ الْمَالِ قَالَ اِنَّ اللہَ اصْطَفٰہُ عَلَیْکُمْ وَزَادَہٗ بَسْطَۃً فِی الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ وَاللہُ یُؤْتِیْ مُلْکَہٗ مَنْ یَّشَآئُ وَاللہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ‘‘۔
(البقرہ: 246‘ 247)
’’پھر تم نے اس معاملے پر بھی غور کیا جو موسیٰ علیہ السلام کے بعد سردارانِ بنی اسرائیل کو پیش آیا تھا؟ انہوں نے اپنے نبی سے کہا: ہمارے لئے ایک بادشاہ مقرر کر دو تا کہ ہم ﷲ کی راہ میں قتال کریں۔ نبی نے پوچھا: کہیں ایسا تو نہ ہو گا کہ تم کو قتال کا حکم دیا جائے اور پھر تم قتال نہ کرو؟ وہ کہنے لگے: بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم ﷲ کی راہ میں قتال نہ کریں جبکہ ہمیں اپنے گھروں سے نکال دیا گیا ہے اور ہمارے بال بچے ہم سے جدا کر دئیے گئے ہیں مگر جب ان کو جنگ کا حکم دیا گیا تو ایک قلیل تعداد کے سوا وہ سب پیٹھ موڑ گئے اور ﷲ ان میں سے ایک ایک ظالم کو جانتا ہے۔ ان کے نبی نے ان سے کہا کہ ﷲ نے طالوت کو تمہارے لئے بادشاہ مقرر کیا ہے۔ یہ سُن کر وہ بولے: ہم پر بادشاہ بننے کا وہ کیسے حقدار ہو گیا؟ اس کے مقابلے میں بادشاہی کے ہم زیادہ مستحق ہیں۔ وہ تو کوئی بڑا مالدار آدمی نہیں ہے۔ نبی نے جواب دیا: ﷲ نے تمہارے مقابلے میں اسی کو منتخب کیا ہے اور اس کو دماغی و جسمانی دونوں قسم کی اہلیتین فراوانی کے ساتھ عطا فرمائی ہیں اور ﷲ کو اختیار ہے کہ اپنا ملک جسے چاہے دے ‘ ﷲ بڑی وسعت رکھتا ہے اور سب کچھ اس کے علم میں ہے‘‘۔
۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۔
3۔ ذیل کی آیات میں ﷲ تعالیٰ لوگوں کو جنت کا وارث قرار دے رہا ہے جبکہ ابھی انہیں جنت کی وراثت ملی ہی نہیں بلکہ ابھی وہ یہ وراثت دئیے جائیں گے۔

ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:

’’وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِاَمٰنٰتِھِمْ وَعَھْدِھِمْ رَاعُوْنَ o وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَلٰی صَلَوْتِھِمْ یُحَافِظُوْنَ o اُوْلٰئِکَ ھُمُ الْوَارِثُوْنَo الَّذِیْنَ یَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَ ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ‘‘۔
(المؤمنون: 8‘ 11)
’’ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہدوپیمان کا پاس رکھتے ہیں اور اپنی نمازوں کی محافظت کرتے ہیں‘ یہی لوگ وارث ہیں جو فردوس کی وراثت دئیے جائیں گے اور اس میں ہمیشہ رہیں گے‘‘۔

آدم علیہ السلام زمین پر پہنچنے سے پہلے ہی زمین کیلئے خلیفہ قرار پا گئے‘ طالوت غریب الوطنی میں بادشاہ (خلیفہ) قرار پا گئے اور اپنی امانتوں ‘ عہدوپیمان اور نمازوں کی محافظت کرنے والے جنت کی وراثت ملنے سے پہلے ہی جنت کے وارث (خلیفہ) قرار پا گئے! یہ لوگ آخر کسی بنا پر اس چیز کے خلیفہ قرار پا گئے جو ابھی انہیں ملی ہی نہیں ؟ ظاہر ہے ’’ﷲ کے حکم‘ اس کے فیصلے اور اس کی مقرر کردہ شرائط کے حامل ہونے کی بنا پر ! اور داؤد علیہ السلام بھی زمین میں خلیفہ مقرر کئے گئے تھے تو ﷲ کے مقرر کرنے کی بنا پر ہوئے تھے نہ کہ سلطنت کے حامل ہونے کی بنا پر جیسا کہ ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:

’’ یٰدَاؤٗدُ اِنَّا جَعَلْنٰکَ خَلِیْفَۃً فِی الْاَرْضِ‘‘۔
’’ اے داؤد! ہم نے بنایا ہے تمہیں زمین میں خلیفہ‘‘۔

خلیفہ قرار پانے کی حقیقی بنا سلطنت کی حاملیت ہے یا ﷲ کی مقرر کردہ شرائط کی حاملیت؟ اس کی سمجھ شوہر اور بیوی کے معاملے سے بخوبی آ سکتی ہے۔ انشاء ﷲ۔

ایک مرد شرعًا کس بنا پر ایک عورت کا شوہر قرار پاتا ہے؟ نکاح کی بنا پر یا عورت سے متمتع ہو لینے کی بنا پر؟ ظاہر ہے نکاح کی بنا پر! بلکہ نکاح ہی کی بنا پر تو اسے تمتع کا حق حاصل ہوتا ہے۔ وہ نکاح کے فوراً بعد شوہر قرار پا جاتا ہے بیشک اس نے ابھی عورت کو ہاتھ نہ لگایا ہو اور اس حالت میں اس کا عورت کو چھوڑنا طلاق ہی کہلاتا جو ظاہر ہے شوہر کے بیوی کو چھوڑنے کے واقعہ کا نام ہے نہ کہ کسی عام آدمی کے کسی عورت کو چھوڑنے کے واقعہ کا نام۔
۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:

’’ وَاِنْ طَلَّقْتُمُوْھُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْھُنَّ وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَھُنَّ فَرِیْضَتَۃً فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ‘‘۔
(البقرہ:237)
’’ اور اگر طلاق دو تم عورتوں کو قبل اس کے کہ تم نے انہیں ہاتھ لگایا ہو جبکہ مقرر کر چکے ہو تم ان کیلئے مہر (نکاح کر چکے ہو) تو (دینا ہو گا) آدھا مہر‘‘۔

جس طرح ﷲ کی مقرر کردہ شرط ’’نکاح‘‘ پوری کرنے پر ایک مرد عورت کا شوہر قرار پا جاتا ہے اور اس کی زوجیت کا حقدار ٹھہر جاتا ہے‘ اسی طرح ﷲ کی مقرر کردہ شرائط پوری کرنے پر ایک شخص خلیفہ قرار پا جاتا ہے اور سلطنت کا حقدار قرار پا جاتا ہے نہ کہ سلطنت کا حامل ہونے کی بنا پر خلیفہ قرار پاتا ہے۔

یہاں لوگ ایک اور بات کہتے ہیں کہ نکاح تو عورت سے کیا جاتا ہے اور وہ تب ہی ہو گا جب نکاح کیلئے عورت موجود ہو گی جب عورت ہی موجود نہیں ہو گی تو نکاح کیا ہوا اسے ہو گا اسی طرح خلیفہ تو سلطنت پر مقرر کیا جاتا ہے یوں وہ تب مقرر کیا جائے گا جب اس کیلئے سلطنت موجود ہو گی جب سلطنت ہی موجود نہیں تو خلیفہ کیا ہوا کیلئے مقرر ہو گا؟

جہاں تک سلطنت کے ہونے اور نہ ہونے کا تعلق ہے تو جس سلطنت کیلئے خلیفہ مقرر کرنا ہے وہ سلطنت تو آج تک موجود ہے وہی سلطنت جو نبی ﷺ امت کے پاس چھوڑ کر گئے تھے اور جسے امت بیعت کے ذریعے خلفاء کو منتقل کرتی رہی پھر ﷲ نے خلفاء کے ہاتھوں جس کی سرحدیں دور دور تک وسیع کرا دی تھیں۔ وہ سلطنت آج بھی اسلام کے نام سے منسوب ہے مگر اب اس پر طواغیت نے قبضہ کر لیا ہے۔ اب اس سلطنت کو واپس لینا ہے مگر کیسے لینا ہے؟ کیا اَن گنت غیر شرعی اماموں کی قیادت میں منقسم اور باہم متحارب جدو جہد کرتے ہوئے؟ … نہیں … جو چیز سلطنت و اقتدار سے ذلت میں پہنچانے والی ہو وہ ذلت سے اقتدار میں نہیں پہنچا سکتی … کتاب و سنت سے اس کا ایک ہی طریقہ سامنے آتا ہے۔ ’’ایمان و عمل صالح کے تحت صرف ایک ﷲ کی بندگی اور صرف ایک امام کی قیادت میں منظم وجدوجہد!‘‘ اب سوچیں کہ مغلوبیت کی حالت سے اپنی سلطنت واپس لینے کی اس ’’منظم جدوجہد‘‘ کیلئے امام شرعی پہلے مقرر کرنا ہو گا یا بعد میں؟ اور اس سلطنت کیلئے بادشاہ پہلے مقرر کرنا ہو گا یا بعد میں … حقیقت یہ ہے کہ جدوجہد کو اگر آج سے منظم کرنا ہے تو وہ امام آج مقرر کرنا ہو گا جس کے نیچے جدوجہد کرنے والے منظم ہو سکتے ہیں یعنی امام شرعی (خلیفہ) اور سلطنت کیلئے بادشاہ (خلیفہ) بھی پہلے مقرر کرنا پڑے گا جو سلطنت کا چارج لے گا جیسے طالوت کو مقرر کیا گیا تھا ۔ اگر خلیفہ آج مقرر کر لیا جائے گا تو ﷲ کا ہاتھ جماعت کے ساتھ ہو گا‘ جدوجہد آج سے منظم ہونا شروع ہو جائے گی اور سلطنت ملنے پر اقتدار کیلئے جھگڑا بھی نہ ہو گا اور اگر پہلے مقرر نہ کیا جائے گا تو وحی حشر ہو گا جو افغانستان میں سات جہادی پارٹیوں کے ساتھ ہوا۔

اہم بات جو اس کتاب کا ایک خاص موضوع ہے اور جس کی طرف دھیان نہ دینے کا نتیجہ ہے کہ اہل حق اپنی حالتِ مغلوبیت میں ایک قیادت میں مجتمع ہونے کی ضرورت کے باوجود ایسا نہیں کر پا رہے ‘ وہ ہے:۔

1۔ ’’اہل ایمان کے سلطنت و اقتدار کے حامل ہونے کا اصول و طریقہ کار ‘‘ (جس میں ایک امیر اور ایک امام کی قیادت میں مجتمع ہو کر جدوجہد کرنا ایک اہم ترین عنصر ہے)۔

2۔ کسی شخص کے ’’امت کے امیرِ شرعی (نبی اور خلیفہ) ‘‘ قرار پانے کی بناء۔

3۔ امت کے امیر شرعی (نبی و خلیفہ) کے سلطنت و اقتدار کے حامل ہونے کا طریقہ کار۔

کتاب و سنت سے درج بالا تینوں معاملے الگ الگ نظر آتے ہیں لیکن لوگ عام طور پر تینوں معاملات کو غلط ملط کر دیتے ہیں جس کی بنا پر ان کیلئے مسئلہ الجھا رہت اہے۔ اسے واضح کرنے کیلئے آئندہ ابواب میں ان معاملات کا الگ الگ جائزہ لیا گیا ہے۔
۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436

باب ششم:​
اہل ایمان کے ’’سلطنت و اقتدار‘‘ کے حامل ہونے کا اصول و طریقہ کار

ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:

’’وَعَدَ اللہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ ص وَلَیُمَکِّنَنَّ لَھُمْ دِیْنَھُمُ الَّذِیْ ارْتَضٰی لَھُمْ وَلَیُبَدِّلَنَّھُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِھِمْ اَمْنًا یَعْبُدُوْنَنِیْ لَا یُشْرِکُوْنَ بِیْ شَیْئًا وَمَنْ کَفَرَ بَعْدَ ذٰلِکَ فَاُوْلٰئِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ‘‘۔
(النور:55)
’’ وعدہ فرمایا ہے ﷲ نے ان لوگوں سے جو ایمان لائے تم میں سے اور عمل کرتے رہے صالح کہ ضرور عطا فرمائے گا انہیں زمین میں خلافت جس طرح عطا فرمائی تھی ان لوگوں کو جو ان سے پہلے تھے اور ضرور قائم کر دے گا مضبوط بنیادوں پر ان کیلئے اس دین کو جسے پسند کر لیا ہے ﷲ نے اور ضرور بدل دے گا ان کی حالتِ خوف کو امن سے بس وہ میری عبادت کرتے رہیں اور نہ شریک بنائیں میرے ساتھ کسی کو تو جو اس کے بعد کفر کرے تو ایسے ہی لوگ فاسق ہیں‘‘۔

آیتِ بالا میں خلافت ملنے‘ دین کے مضبوط بنیادوں پر قائم ہونے اور حالتِ خوف کے امن میں بدل دینے کیلئے ﷲ تعالیٰ کی طرف سے انبیاء ’’ایمان اور عملِ صالح‘‘ کو قرار دیا گیا ہے اور وہ بھی اس شرط کے ساتھ کہ شرک سے اجتناب کیا جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ شرک سے اجتناب عمل صالح کی بنیادی شرط ہے جیسا کہ ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:۔

’’ فَمَنْ کَانَ یَرْجُوْا لِقَآء رَبِّہٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلاً صَالِحًا وَّلَا یُشْرِکْ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖ اَحَدًا‘‘۔
(الکہف: 110)
’’ جو کوئی اپنے رب کی ملاقات کا امیدوار ہو اسے چاہئے کہ عمل صالح کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرے‘‘۔

سورہ نور کی آیت میں ایمان کے ساتھ عملِ صالح کا ذکر ایمان کے ساتھ ساتھ عمل صالح کے بھی لازم ہونے کو ظاہر کرتا ہے۔ کتاب و سنت میں اعمالِ صالح کی پوری تفصیل ملتی ہے جن میں سے اقامتِ صلوٰۃ‘ ایتائے زکوٰۃ ہجرت ‘ جہاد فی سبیل ﷲ اور حج‘ امت کی اجتماعیت قائم رکھنے کے حوالے سے اور غلبے کی جدوجہد کے حوالے سے مشہور ترین ہیں‘ اس کے ساتھ ساتھ ان کے حوالے سے یہ بات اہم ترین ہے کہ ایک تو ان کا ’’امام ‘‘ کی اقتداء و قیادت اور نگرانی میں ادا کیا جانا لازم ہے پھر امت کی اجتماعیت قائم رکھنے کیلئے ان کا ’‘صرف ایک امام‘‘ کی اقتداء و قیادت اور نگرانی میں ادا کیا جانا لازم ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ اہل ایمان ایک امام اختیار کرنے کے سلسلے میں صرف اسی شخص پر مجتمع ہو سکتے ہیں جو ﷲ کی مقرر کردہ نشانیوں اور شرائط کا حامل ہواس بنا پر امام شرعی کہلا سکتا ہو نہ کہ ان اماموں پر مجتمع ہو سکتے ہیں جو اپنی امامت کے حوالے سے شرعی دلیل بھی نہ رکھتے ہوں بلکہ الٹا اہل ایمان کو جن سے وابستگی سے قطعاً منع بھی کیا گیا ہو۔

غلبے کیلئے اہل ایمان کی ہزارہا اماموں کی قیادت میں مختلف طریقوں سے متفرق اور اکثر اوقات باہم متحارب جدوجہد کے مقابل ان کی ایک طریقے پر یعنی صرف ﷺ کے طریقے پر ایک امام شرعی (خلیفہ) کی قیادت میں مجتمع اور منظم جدوجہد جو اثرات لا سکتی ہے وہ سب پر عیاں ہے۔
۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436

بنی اسرائیل کو شرعی امراء کی قیادت میں جدوجہد کر کے مغلوبیت سے غلبہ حاصل ہوا کرتا تھا​
کتاب و سنت سے معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل جب مغلوب ہو جاتے تو ﷲ ان کیلئے نبی (شرعی امیر) بھیج دیتا جو ان کے اندر سے تفرقات دور کرتا‘ ان کو مجتمع و منظم کرتا‘ اپنی یا اپنے مقرر کردہ امراء کی قیادت میں جہاد کراتا اور مغلوبیت سے انہیں پھر غلبے کی طرف لے آتا مثلاً موسیٰ علیہ السلام کے حوالے سے ﷲ تعالیٰ کے ارشادات ہیں کہ:

’’ اِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِی الْاَرْضِ وَجَعَلَ اَھْلَھَا شِیَعًا یَّسْتَضْعِفْ طَآئِفَۃً مِّنْھُمْ یُذَبِّحُ اَبْنَآئَ ھُمْ وَیَسْتَحْیِ نِسَآئَ ھُمْ اِنَّہٗ کَانَ مِنَ الْمُفْسِدِیْنَ o وَنُرِیْدُ اَنْ نَّمُنَّ عَلَی الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِی الْاَرْضِ وَنَجْعَلَھُمْ اَئِمَّۃً وَّنَجْعَلَھُمُ الْوٰرِثِیْنَ o وَنُمَکِّنَ لَھُمْ فِی الْاَرْضِ وَنُرِیَ فِرْعَوْنَ وَ ھَامٰنَ وَجَنُوْدَھُمَا مِنْھُمْ مَاکَانُوْا یَحْذَرُوْنَ o وَاَوْحَیْنَآ اِلٰی اُمِّ مُوْسٰی اَنْ اَرْضِعِیْہِ فَاِذَا خِفْتِ فَاَلْقِیْہِ فِی الْیَمِّ وَلَا تَخَافِیْ وَلَا تَحْزَنِی اِنَّا رَآدُّوْہُ اِلَیْکَ وَجَاعِلُوْہُ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ‘‘۔
(القصص: 4‘ 7)
’’ واقعہ یہ ہے کہ فرعون نے زمین میں سرکشی کی اور اس کے باشندوں کو گروہوں میں تقسیم کر دیا۔ وہ ان میں سے ایک گروہ کو ذلیل کرتا تھا‘ اس کے لڑکوں کو قتل کرتا اور اس کی لڑکیوں کو جیتا رہنے دیتا تھا۔ فی الواقع وہ مفسد لوگوں میں سے تھا اور ہم یہ ارادہ رکھتے تھے کہ مہربانی کریں ان لوگوں پر جو زمین میں ذلیل کر کے رکھے گئے تھے اور انہیں امام بنا دیں اور انہی کو وارث بنائیں اور زمین میں ان کو اقتدار بخشیں اور ان سے فرعون و ہامان اور ان کے لشکروں کو ہی کچھ دکھلا دیں جس کا انہیں ڈر تھا۔ ہم نے موسیٰ علیہ السلام کی ماں کو اشارہ کیا کہ اس کو دودھ پلا‘ پھر جب تجھے اس کی جان کا خطرہ ہو تو اسے دریا میں ڈال دے اور کچھ خوف اور غم نہ کر‘ ہم اسے تیرے ہی پاس لے آئیں گے اور اس کے پیغمبروں میں شامل کریں گے‘‘۔

’’وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰی بِاٰیٰتِنَآ اَنْ اَخْرِجْ قَوْمَکَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ وَذَکِّرْھُمْ بِاَیّٰمِ اللہِ اِنَّ فِی ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّکُلِّ صَبَّارٍ شَکُوْرٍ‘‘۔
(ابراہیم: 5)
’’ اور یقینا بھیجا ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو اپنی نشانیاں دے کر کہ نکالو اپنی قوم کو تاریکیوں سے روشنی کی طرف اور یاد دلائو انہیں ﷲ کی تاریخ کے سبق آموز واقعات۔ بیشک اس میں بڑی نشانیاں ہیں ہر اس شخص کیلئے جو صبر کرنے والا اور شکر کرنے والا ہے‘‘۔
۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۔
’’ فَمَا اٰمَنَ لِمُوْسٰی اِلَّا ذُرِّیَّۃٌ مِّنْ قَوْمِہٖ عَلٰی خَوْفٍ مِّنْ فِرْعَوْنَ وَمَلَائِھِمْ اَنْ یَّفْتِنَھُمْ وَاِنَّ فِرْعَوْنَ لَعَالٍ فِی الْاَرْضِ وَاِنَّہٗ لَمِنَ الْمُسْرِفِیْنَ o وَقَالَ مُوْسٰی یٰقَوْمِ اِنْ کُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاللہِ فَعَلَیْہِ تَوَکَّلُوْا اِنْ کُنْتُمْ مُسْلِمِیْنَ o فَقَالُوْا عَلَی اللہِ تَوَکَّلْنَا رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَۃً لِقَوْمِ الظّٰلِمِیْنِ o وَنَجِّیْنَا بِرَحْمَتِکَ مِنَ الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ o وَاَوْحَیْنَا اِلٰی مُوْسٰی وَاَخِیْہِ تَبَوَّا لِقَوْمِکُمَا بِمِصْرَ بُیُوْتًا وَّاجْعَلُوْا بُیُوْتَکُمْ قِبْلَۃً وَاقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَ بَشَّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ‘‘۔
’’ موسیٰ علیہ السلام (کی بات) کو اس کی قوم میں سے چند نوجوانوں کے سوا کسی نے نہ مانا‘ فرعون کے ڈر سے اور خود اپنی قوم کے سربر آوردہ لوگوں کے ڈر سے (جنہیں خوف تھا کہ) فرعون ان کو عذاب میں مبتلا کرے گا اور واقعہ یہ ہے کہ فرعون زمین میں غلبہ رکھتا تھا اور وہ ان لوگوں میں سے تھا جو کسی حد پر رکتے نہیں ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا کہ لوگو! اگر تم واقعی ﷲ پر ایمان رکھتے ہو تو اس پر بھروسہ کرو اگر تم مسلمان ہو۔ انہوں نے جواب دیا ہم نے ﷲ ہی پر بھروسہ کیا‘ اے ہمارے رب ہمیں ظالم لوگوں کیلئے فتنہ نہ بنا اور اپنی رحمت سے ہم کو کافرون سے نجات دے اور ہم نے موسیٰ علیہ السلام اور اس کے بھائی کو اشارہ کیا کہ مصر میں چند مکان اپنی قوم کیلئے مہیا کرو اور اپنے ان مکانوں کو قبلہ ٹھہرا لو اور نماز قائم کرو اور اہل ایمان کو بشارت دے دو‘‘۔
(یونس:83‘ 87)

’’ وَاَوْحَیْنَآ اِلٰی مُوْسٰی اَنْ اَسْرِ بِعَبَادِیْ اِنَّکُمْ مُتَّبِعُوْنَ o فَاَرْسَلَ فِرْعَوْنَ فِی الْمَدَآئِنِ حٰشِرِیْنَ o اِنَّ ھٰؤُلَآئِ لَشِرْذِمَۃٌ قَلِیْلُوْنَ o وَاَنَّھُمْ لَنَا لَغَآئِظُوْنَ o وَاِنَّا لَجَمِیْعٌ حٰذِرُوْنَ o فَاَخْرَجْنٰھُمْ مِنْ جَنّٰتٍ وَّعُیُوْنٍ o وَّکُنُوْزٍ وَّمَقَامٍ کَرِیْمِo کَذٰلِکَ وَاَوْرَثْنٰھَا بَنِیْ اِسْرَآ ئِ یْلَo فَاتَّبِعُْوھُمْ مُشْرِقِیْنَ o فَلَمَّا تَرَآئَ الْجَمْعٰنِ قَالَ اَصْحٰبُ مُوْسُی اِنَّا لَمُدْرَکُوْنَ o قَالَ کَلَّا اِنَّ مَعِیَ رَبِّیْ سَیَھْدِیْنَ o فَاَوْحَیْنَا اِلٰی مُوْسٰی اَنِ اضْرِبُ بِّعَصَاکَ الْبَحْرَ فَانْفَلَقَ فَکَانَ کُلُّ فِرْقٍ کَالطَّوْدِ الْعَظِیْمِo وَاَزْلَفْنَا ثَمَّ الْاٰخَرِیْنَ o وَاَنْجَیْنَا مُوْسٰی وَمَنْ مَّعَہٗ اَجْمَعِیْنَ o ثُمَّ اَغْرَقْنَا الْاٰخَرِیْنَ o اِنَّ فِی ذٰلِکَ لَاٰیَۃً وَمَا کَانَ اَکْثَرُھُمْ مُؤْمِنِیْنَ o وَاِنَّ رَبَّکَ لَھُوَ الْعَزِیْزُ الرَّحِیْمُ‘‘۔
(الشعراء: 52‘ 68)
’’ ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو وحی بھیجی کہ راتوں رات میرے بندوں کو لے کر نکل جائو‘ تمہارا پیچھا کیا جائے گا۔ اس پر فرعون نے (فوجیں جمع کرنے کیلئے) شہروں میں نقیب بھیج دئیے (اور کہلا بھیجا) کہ یہ کچھ مٹھ بھر لوگ ہیں اور انہوں نے ہمیں بہت ناراض کیا ہے اور ہم ایک ایسی جماعت ہیں جس کا شیوہ ہر وقت چوکنا رہنا ہے۔ اس طرح ہم انہیں ان کے باغوں اور چشموں اور خزانوں اور ان کی بہترین قیام گاہوں سے نکال لائے یہ تو ہوا ان کے ساتھ اور (دوسری طرف) بنی اسرائیل کو ہم نے ان سب چیزوں کا وارث کر دیا۔ صبح ہوتے ہی یہ لوگ ان کے تعاقب میں چل پڑے۔ جب دونون کا آمنا سامنا ہوا تو موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی چیخ اٹھے کہ ہم تو پکڑے گئے۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا ہر گز نہیں میرے ساتھ میرا رب ہے۔ وہ ضرور میری رہنمائی فرمائے گا۔ ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو وحی کے ذریعہ سے حکم دیا کہ مار اپنا عصا سمندر پر ۔ یکایک سمندر پھٹ گیا اور اس کا ہر ٹکڑا ایک عظیم الشان پہاڑ کی طرح ہو گیا۔ اسی جگہ ہم دوسرے گروہ کو بھی قریب لے آئے۔ موسیٰ علیہ السلام اور ان سب لوگوں کو جو اس کے ساتھ تھے‘ ہم نے بچا لیا اور دوسروں کو غرق کر دیا۔ اس واقعہ میں ایک نشانی ہے مگر ان لوگوں میں سے اکثر ماننے والے نہیں ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ تیرا رب زبردست بھی ہے اور رحیم بھی‘‘۔

’’فَانْتَقَمْنَامِنْھُمْ فَاَغْرَقْنٰھُمْ فِی الْیَمِّ بِاَنَّھُمْ کَذَّبُوْابِاٰیٰتِنَا وَکَانُوْاعَنْھَاغٰفِلِیْنَo وَاَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِیْنَ کَانُوْا یُسْتَضْعَفُوْنَ مَشَارِقَ الْاَرْضِ وَ مَغَارِبَھَا الَّتِیْ بٰرَکْنَافِیْھَا تَمَّتْ کَلِمَتُ رَبِّکَ الْحُسْنٰی عَلٰی بَنِیْ اِسْرَآئِ یْلَ بِمَاصَبَرُوْا وَ دَمَّرْنَامَاکَانَ یَصْنَعُ فِرْعَوْنُ وَقَوْمُہٗ وَمَاکَانُوْا یَعْرِشُوْنَ‘‘
(الاعراف: 136‘ 137)
’’ تب ہم نے ان (فرعونیوں) سے انتقام لیا اور انہیں سمندر میں غرق کر دیا کیونکہ انہوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا تھا اور ان سے بے پرواہ ہو گئے تھے اور ان کی جگہ ہم نے ان لوگوں کو جو کمزور بنا کر رکھے گئے تھے‘ اس سرزمین کے مشرق و مغرب کا وارث بنا دیا جسے ہم نے برکتوں سے مالا مال کیا تھا۔ اس طرح بنی اسرائیل کے حق میں تیرے رب کا وعدہ خیرپورا ہوا کیونکہ انہوں نے صبر سے کام لیا تھا اور ہم نے فرعون اور اس کی قوم کا وہ سب کچھ برباد کر دیا جو وہ بناتے اور چڑھاتے تھے‘‘۔
۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۔
درج بالا آیات میں بنی اسرائیل کے ایک مشہور و معروف شرعی امیر موسیٰ علیہ السلام کی قیادت میں مغلوبیت سے غلبہ میں آنے کا واقعہ درج ہے۔ ذیل کی آیات میں موسیٰ علیہ السلام کے بعد ایک اور نبی اور اس کے مقرر کردہ امیر کی قیادت میں مغلوبیت سے غلبہ میں آنے کا ایک واقعہ درج ہے:

’’ اَلَمْ تَرَ اِلَی الْمَلَاِ مِنْ بَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ مِنْ بَعْدِ مُوْسٰی اِذْ قَالُوْا لِنَبِیٍّ لَّہُمُ ابْعَثْ لَنَا مَلِکًا نُّقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ ﷲِ قَالَ ہَلْ عَسَیْتُمْ اِنْ کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِتَالُ اَلاَّ تُقَاتِلُوْا قَالُوْا وَ مَا لَنَآ اَلاَّ نُقَاتِلَ فِیْ سَبِیْلِ ﷲِ وَ قَدْ اُخْرِجْنَا مِنْ دِیَارِنَا وَ اَبْنَآئِنَا فَلَمَّا کُتِبَ عَلَیْہِمُ الْقِتَالُ تَوَلَّوْا اِلَّا قَلِیْلًا مِّنْہُمْ وَ ﷲُ عَلِیْمٌم بِالظّٰلِمِیْنَ وَ قَالَ لَہُمْ نَبِیُّہُمْ اِنَّ ﷲَ قَدْ بَعَثَ لَکُمْ طَالُوْتَ مَلِکًا قَالُوْآ اَنّٰی یَکُوْنُ لَہُ الْمُلْکُ عَلَیْنَا وَ نَحْنُ اَحَقُّ بِالْمُلْکِ مِنْہُ وَ لَمْ یُؤْتَ سَعَۃً مِّنَ الْمَالِ قَالَ اِنَّ ﷲَ اصْطَفٰہُ عَلَیْکُمْ وَزَادَہٗ بَسْطَۃً فِی الْعِلْمِ وَ الْجِسْمِ وَ ﷲُ یُؤْتِیْ مُلْکَہٗ مَنْ یَّشَآئُ وَ ﷲُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ وَ قَالَ لَہُمْ نَبِیُّہُمْ اِنَّ اٰیَۃَ مُلْکِہٖٓ اَنْ یَّاْتِیَکُمُ التَّابُوْتُ فِیْہِ سَکِیْنَۃٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ بَقِیَّۃٌ مِّمَّا تَرَکَ ٰالُ مُوْسٰی وَ ٰالُ ھٰرُوْنَ تَحْمِلُہُ الْمَلٰٓئِکَۃُ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ فَلَمَّا فَصَلَ طَالُوْتُ بِالْجُنُودِ قَالَ اِنَّ ﷲَ مُبْتَلِیْکُمْ بِنَہَرٍ فَمَنْ شَرِبَ مِنْہُ فَلَیْسَ مِنِّیْ وَ مَنْ لَّمْ یَطْعَمْہُ فَاِنَّہٗ مِنِّیْٓ اِلَّا مَنِ اغْتَرَفَ غُرْفَۃً بِیَدِہٖ فَشَرِبُوْا مِنْہُ اِلَّا قَلِیْلًا مِّنْہُمْ فَلَمَّا جَاوَزَہٗ ہُوَ وَ الَّذِیْنَ ٰامَنُوْامَعَہٗ قَالُوْا لَا طَاقَۃَ لَنَا الْیَوْمَ بِجَالُوْتَ وَجُنُودِہٖ قَالَ الَّذِیْنَ یَظُنُّوْنَ اَنَّہُمْ مُّلٰقُوا ﷲِ کَمْ مِّنْ فِئَۃٍ قَلِیْلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃً کَثِیْرَۃً بِاِذْنِ ﷲِ وَ ﷲُ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ وَ لَمَّا بَرَزُوْا لِجَالُوْتَ وَجُنُودِہٖ قَالُوْا رَبَّنَآ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّ ثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَ انْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ فَہَزَمُوْہُمْ بِاِذْنِ ﷲِ وَ قَتَلَ دَاوٗدُ جَالُوْتَ وَاٰتَاہُ ﷲُ الْمُلْکَ وَ الْحِکْمَۃَ وَ عَلَّمَہٗ مِمَّا یَشَآئُ وَ لَوْ لَا دَفْعُ اﷲِ النَّاسَ بَعْضَہُمْ بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ وَ ٰلکِنَّ ﷲَ ذُوْ فَضْلٍ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ

’’پھر تم نے: اس معاملے پر بھی غور کیا جو موسیٰ علیہ السلام کے بعد سردارانِ بنی اسرائیل کو پیش آیا تھا؟

انہوں نے اپنے نبی سے کہا: ہمارے لئے ایک بادشاہ مقرر کر دو تا کہ ہم ﷲ کی راہ میں جنگ کریں۔

نبی نے پوچھا: کہیں ایسا تو نہ ہو گا کہ تمہیں لڑائی کا حکم دیا جائے اور پھر تم نہ لڑو؟

وہ کہنے لگے: بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم ﷲ کی راہ میں نہ لڑیں جبکہ ہمیں اپنے گھروں سے نکال دیا گیا ہے اور ہمارے بال بچے ہم سے جد اکر دئیے گئے ہیں مگر جب ان کو جنگ کا حکم دیا گیا تو ایک قلیل تعداد کے سوا وہ سب پیٹھ موڑ گئے اور ﷲ ان میں سے ایک ایک ظالم کو جانتا ہے۔ ان کے نبی نے ان سے کہا کہ ﷲ نے طالوت کو تمہارے لئے بادشاہ مقرر کیا ہے۔

یہ سُن کر وہ بولے: ہم پر بادشاہ بننے کا وہ کیسے حقدار ہو گیا؟ اس کے مقابلے میں بادشاہی کے ہم زیادہ مستحق ہیں۔ وہ تو کوئی بڑا مالدار آدمی نہیں ہے‘

نبی نے جواب دیا: ﷲ نے تمہارے مقابلے میں اسی کو منتخب کیا ہے اور اس کو دماغی و جسمانی دونون قسم کی اہلیتیں فراوانی کے ساتھ عطا فرمائی ہیں اور ﷲ کو اختیار ہے کہ اپنا ملک جسے چاہے دے ‘ ﷲ بڑی وسعت رکھتا ہے اور سب کچھ اس کے علم میں ہے‘ اس کے ساتھ ان کے نبی نے ان کو یہ بھی بتایا کہ ﷲ کی طرف سے اس کے بادشاہ مقرر ہونے کی علامت یہ ہے کہ اس کے عہد میں وہ صندوق تمہیں واپس مل جائے گا جس میں تمہارے رب کی طرف سے تمہارے لئے سکون قلب کا سامان ہے جس میں آلِ موسیٰ علیہ السلام اور آلِ ہارون علیہ السلام کے چھوڑے ہوئے تبرکات ہیں اور جس کو اس وقت فرشتے سنبھالے ہوئے ہیں‘ اگر تم مومن ہو تو یہ تمہارے لئے بہت بڑی نشانی ہے۔

پھر جب طالوت لشکر لے کر چلا تو اس نے کہا: ایک دریا پر ﷲ کی طرف سے تمہاری آزمائش ہونے والی ہے جو اس کا پانی پئے گا وہ میرا ساتھی نہیں‘ میرا ساتھی صرف وہ ہے جو اس سے پیاس نہ بجھائے‘ ہاں ایک آدھ چلو کوئی پی لے تو پی لے۔ مگر ایک گروہ قلیل کے سوا وہ سب اس دریا سے سیراب ہوئے۔

پھر جب طالوت سے کہہ دیا: کہ آج ہم میں جالوت اور اس کے لشکروں کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں ہے۔ لیکن جو لوگ یہ سمجھتے تھے کہ انہیں ایک دن ﷲ سے ملنا ہے

انہوں نے کہا: بارہا ایسا ہوا ہے کہ ایک قلیل گروہ ﷲ کے اذن سے ایک بڑے گروہ پر غالب آ گیا ہے۔ ﷲ صبر کرنے والوں کا ساتھی ہے اور جب وہ جالوت اور اس کے لشکروں کے مقابلہ پر نکلے

تو انہوں نے دعا کی: اے ہمارے رب ہم پر صبر کا فیضان کر‘ ہمارے قدم جماد ے اور اس کافر گروہ پر ہمیں فتح نصیب کر۔ آخر کار ﷲ کے اذن سے انہوں نے کافروں کو مار بھگایا اور داؤد نے جالوت کو قتل کر دیا اور ﷲ نے اسے سلطنت اور حکمت سے نوازا اور جن جن چیزوں کا چاہا اس کو علم دیا۔ اگر اس طرح ﷲ انسانوں کے ایک گروہ کو دوسرے گروہ کے ذریعے سے ہٹاتا نہ رہتا تو زمین کا نظام بگڑ جاتا لیکن دنیا کے لوگوں پر ﷲ کا بڑا فضل ہے‘‘۔
(البقرۃ ۲۴۶۔ ۲۵۱)
۔
 
Top