محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
۔
’’ہر حال میں مجتمع رہنے‘‘ اور ’’صرف امام شرعی کی قیادت میں مجتمع رہنے‘‘ کی شرعی ضرورت اس نتیجے پر پہنچاتی ہے کہ حالتِ مغلوبیت میں بھی خلیفہ ہو سکتا ہے اور کتاب و سنت سے اس کی تصدیق ہوتی ہے مثلاً نبی ﷺ کا ارشاد ہے کہ:۔
’’ وَاَنَا اٰمُرُکُمْ بِخَمْسٍ اللہُ اَمَرْنِیْ بِھِنَّ بِالْجَمَاعَۃِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ وَالْھِجْرَۃِ وَالْجِھَادِ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ‘‘۔
(احمد‘ مسند الشامیین‘ حارث الاشعری رضی اللہ عنہ )
’’ میں تمہیں پانچ باتوں کا حکم دیتا ہوں جن کا مجھے ﷲ نے حکم دیا ہے‘ جماعت کے ساتھ ہونے کا‘ حکم سننے کا‘ اطاعت کرنے کا ‘ ہجرت کا اور جہاد فی سبیل ﷲ کا‘‘۔
حدیث میں ہجرت اور جہاد سے پہلے سمع و اطاعت کا حکم دیا جا رہا ہے اور کتاب و سنت سے یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ رسول ﷲ ﷺ کے بعد سیاسی سمع و اطاعت صرف خلیفہ کی ہے‘ اس کے علاوہ کسی کی سمع و اطاعت نہیں۔ ہجرت سے پہلے کی حالت بغیر سلطنت و اقتدار کی یعنی کمزوری و مغلوبیت کی ہوتی ہے اور اس حالت میں بھی اگر سمع و اطاعت ہے تو وہ نبی کے بعد خلیفہ کی نہیں تو پھر اور کس کی ہے ؟ یہ چیز اس بات کو واضح کرتی ہے کہ حالت مغلوبیت میں بھی خلیفہ موجود ہو گا جس کی سمع و اطاعت میںہجرت کی جائے گی پھر جہاد کیا جائے گا اور پھر غلبہ حاصل کیا جائے گا۔ انشاء اللہ۔
اصل بات جس کی وجہ سے بعض لوگ خلیفہ کے حوالے سے غلط فہمی کا شکار ہیں وہ یہی ہے کہ وہ اسے سلطنت و اقتدار کے حامل کے طور پر ہی پہچانتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ خلیفہ سیاستِ امہ کے سب سے بڑے عہدے اور عہدیدار کا نام ہے‘ اب کسی شخص کے اس عہدے پر فائز ہونے کی بناء و شرائط الگ ہیں‘ اس عہدے کے حقوق الگ ہیں جو اس عہدے کے حامل ہونے کے بعد عہدیدار کو دئیے جانے لازم ہیں اور اس عہدے کے فرائض الگ ہیں جنہیں اس عہدیدار کیلئے‘ اس عہدے پر فائز ہونے کے بعد ادا کرنا لازم ہے۔
٭ کسی شخص کے خلیفہ کے عہدے پر فائز ہونے کی بنا ’’ﷲ کا حکم‘ اس کا فیصلہ اور اس کی مقرر کردہ شرائط ہیں‘‘ (جن کا تفصیلی ذکر آئے گا اور ) جن کے حامل ہونے کی بنا پر ایک شخص خلیفہ کے عہدے پر فائز ہو جاتا ہے اور خلیفہ قرا ر پا جاتا ہے۔
٭ کسی شخص کے خلیفہ کے عہدے پر فائز ہونے کے بعد اس کے حقوق کی تفویض کا مرحلہ آتا ہے۔ اس کے بنیادی حقوق میں مومنین کی بیعت‘ اطاعت اور نصرت شامل ہے جس کے ذریعے سے اس کے دیگر حقوق یعنی مومنین کی امامت‘ امارت اور سلطنت و اقتدار اس کو تفویض کئے جاتے ہیں۔
٭ تفویض حقوقِ کے بعد خلیفہ کے فرائض کی ادائیگی کا مرحلہ شروع ہوتا ہے۔ خلیفہ کا بنیادی فرض اقامتِ دین ہے اور نماز قائم کرنا‘ معروف کے ساتھ حکم کرنا‘ منکر سے روکنا اور ﷲ کے نازل کردہ قوانین کے مطابق لوگوں کے معاملات کے فیصلے کرنا اس بنیادی فرض کے اہم ترین تقاضے ہیں۔ خلیفہ مومنین کی امات کرتے ہوئے ان کی امارت چلاتے ہوئے اور اگر مومنین سلطنت کے حامل ہوں تو ان کی سلطنت کی تدبیر کرتے ہوئے اپنے بنیادی فرض ’’اقامتِ دین‘‘ کی ادائیگی کی کوشش کرتا ہے۔
۔
’’ہر حال میں مجتمع رہنے‘‘ اور ’’صرف امام شرعی کی قیادت میں مجتمع رہنے‘‘ کی شرعی ضرورت اس نتیجے پر پہنچاتی ہے کہ حالتِ مغلوبیت میں بھی خلیفہ ہو سکتا ہے اور کتاب و سنت سے اس کی تصدیق ہوتی ہے مثلاً نبی ﷺ کا ارشاد ہے کہ:۔
’’ وَاَنَا اٰمُرُکُمْ بِخَمْسٍ اللہُ اَمَرْنِیْ بِھِنَّ بِالْجَمَاعَۃِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ وَالْھِجْرَۃِ وَالْجِھَادِ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ‘‘۔
(احمد‘ مسند الشامیین‘ حارث الاشعری رضی اللہ عنہ )
’’ میں تمہیں پانچ باتوں کا حکم دیتا ہوں جن کا مجھے ﷲ نے حکم دیا ہے‘ جماعت کے ساتھ ہونے کا‘ حکم سننے کا‘ اطاعت کرنے کا ‘ ہجرت کا اور جہاد فی سبیل ﷲ کا‘‘۔
حدیث میں ہجرت اور جہاد سے پہلے سمع و اطاعت کا حکم دیا جا رہا ہے اور کتاب و سنت سے یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ رسول ﷲ ﷺ کے بعد سیاسی سمع و اطاعت صرف خلیفہ کی ہے‘ اس کے علاوہ کسی کی سمع و اطاعت نہیں۔ ہجرت سے پہلے کی حالت بغیر سلطنت و اقتدار کی یعنی کمزوری و مغلوبیت کی ہوتی ہے اور اس حالت میں بھی اگر سمع و اطاعت ہے تو وہ نبی کے بعد خلیفہ کی نہیں تو پھر اور کس کی ہے ؟ یہ چیز اس بات کو واضح کرتی ہے کہ حالت مغلوبیت میں بھی خلیفہ موجود ہو گا جس کی سمع و اطاعت میںہجرت کی جائے گی پھر جہاد کیا جائے گا اور پھر غلبہ حاصل کیا جائے گا۔ انشاء اللہ۔
اصل بات جس کی وجہ سے بعض لوگ خلیفہ کے حوالے سے غلط فہمی کا شکار ہیں وہ یہی ہے کہ وہ اسے سلطنت و اقتدار کے حامل کے طور پر ہی پہچانتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ خلیفہ سیاستِ امہ کے سب سے بڑے عہدے اور عہدیدار کا نام ہے‘ اب کسی شخص کے اس عہدے پر فائز ہونے کی بناء و شرائط الگ ہیں‘ اس عہدے کے حقوق الگ ہیں جو اس عہدے کے حامل ہونے کے بعد عہدیدار کو دئیے جانے لازم ہیں اور اس عہدے کے فرائض الگ ہیں جنہیں اس عہدیدار کیلئے‘ اس عہدے پر فائز ہونے کے بعد ادا کرنا لازم ہے۔
٭ کسی شخص کے خلیفہ کے عہدے پر فائز ہونے کی بنا ’’ﷲ کا حکم‘ اس کا فیصلہ اور اس کی مقرر کردہ شرائط ہیں‘‘ (جن کا تفصیلی ذکر آئے گا اور ) جن کے حامل ہونے کی بنا پر ایک شخص خلیفہ کے عہدے پر فائز ہو جاتا ہے اور خلیفہ قرا ر پا جاتا ہے۔
٭ کسی شخص کے خلیفہ کے عہدے پر فائز ہونے کے بعد اس کے حقوق کی تفویض کا مرحلہ آتا ہے۔ اس کے بنیادی حقوق میں مومنین کی بیعت‘ اطاعت اور نصرت شامل ہے جس کے ذریعے سے اس کے دیگر حقوق یعنی مومنین کی امامت‘ امارت اور سلطنت و اقتدار اس کو تفویض کئے جاتے ہیں۔
٭ تفویض حقوقِ کے بعد خلیفہ کے فرائض کی ادائیگی کا مرحلہ شروع ہوتا ہے۔ خلیفہ کا بنیادی فرض اقامتِ دین ہے اور نماز قائم کرنا‘ معروف کے ساتھ حکم کرنا‘ منکر سے روکنا اور ﷲ کے نازل کردہ قوانین کے مطابق لوگوں کے معاملات کے فیصلے کرنا اس بنیادی فرض کے اہم ترین تقاضے ہیں۔ خلیفہ مومنین کی امات کرتے ہوئے ان کی امارت چلاتے ہوئے اور اگر مومنین سلطنت کے حامل ہوں تو ان کی سلطنت کی تدبیر کرتے ہوئے اپنے بنیادی فرض ’’اقامتِ دین‘‘ کی ادائیگی کی کوشش کرتا ہے۔
۔