محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
باب ہفتم:
کسی شخص کے امیرِ شرعی ’’ نبی اور خلیفہ‘‘ قرار پانے کی بناء
گزشتہ صفحات میں پڑھا جا چکا ہے کہ اہل ایمان کا شرعی قائد ’’ نبی‘‘ اور نبی کے بعد ’’خلیفہ‘‘ ہوتا ہے۔ اس باب میں کتاب و سنت سے پہلے یہ دیکھا گیا ہے کہ کسی شخص کے ’’نبی‘‘ قرار پانے کی بناء کیا ہے اور پھر یہ دیکھا گیا ہے کہ کسی غیر نبی شخص کے ’’خلیفہ‘‘ قرار پانے کی بناء کیا ہے؟۔کسی شخص کے ’’نبی ہونے کی بناء‘‘ ﷲ کی مقرر کردہ نشانیاں ہوتی تھیں نہ کہ لوگوں کی مطلوب نشانیاں
ﷲ تعالیٰ کے ارشادات ہیں کہ:
’’ وَقَالُوْا مَالَ ھٰذَا الرَّسُوْلِ یَاْکُلُ الطَّعَامَ وَیَمْشِیْ فِی الْاَسْوَاقِ لَوْلَآ اُنْزِلَ اِلَیْہِ مَلَکٌ فَیَکُوْنَ مَعَہٗ نَذِیْرًاo اَوْ یُلْقٰی اِلَیْہِ کَنْزٌ اَوْتَکُوْنُ لَہٗ جَنَّۃٌ یَآ کُلُ مِنْھَا وَقَالَ الظّٰلِمُوْنَ اِنْ تَتَّبَعُوْنَ اِلَّا رَجُلاً مَسْحُوْرًاo اُنْظُرْ کَیْفَ ضَرَبُوْا لَکَ الْاَمْثَالَ فَضَلُّوْا فَلَا یَسْتَطِیْعُوْنَ سَبِیْلاًo تَبٰرَکَ الَّذِیْ اِنْ شَآئَ جَعَلَ لَکَ خَیْرًا مِّنْ ذٰلِکَ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ وَیَجْعَلْ لَّکَ قُصُوْرًا‘‘
’’ کہتے ہیں یہ کیسا رسول ہے جو کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے؟ کیوں نہ اس کے پاس کوئی فرشتہ بھیجا گیا جو اس کے ساتھ رہتا اور (نہ ماننے والوں کو ) دھمکاتا؟ یا اور کچھ نہیں تو اس کیلئے کوئی خزانہ ہی اتار دیا جاتا‘ یا اس کے پاس کوئی باغ ہی ہوتا جس سے یہ روزی حاصل کرتا اور یہ ظالم کہتے ہیں تم لوگ تو ایک سحر زدہ آدمی کے پیچھے لگ گئے ہو۔ دیکھو کیسی کیسی حجتیں یہ لوگ تمہارے آگے پیش کر رہے ہیں‘ ایسے بہکے ہیں کہ کوئی ٹھکانے کی بات ان کو نہیں سوجھتی۔ بڑا بابرکت ہے وہ جو اگر چاہے تو ان کی تجویز کردہ چیزوں سے بھی زیادہ بڑھ چڑھ کر تم کو دے سکتا ہے (ایک نہیں) بہت سے باغ جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں اور بڑے بڑے محل‘‘۔
(الفرقان: 7‘ 10)
’’ وَقَالُوْا لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَیْہِ اٰیٰتٌ مِّنْ رَّبِّہٖ قُلْ اِنَّمَا الْاٰیٰتُ عِنْدَ اللہِ وَاِنَّمَآ اَنَا نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌo اَوَلَمْ یَکْفِھِمْ اَنَّآ اَنْزَلْنَا عَلَیْکَ الْکِتٰبَ یُتْلٰی عَلْیْھِمْ اِنَّ فِی ذٰلِکَ لِرَحْمَۃً وَّذِکْرٰی لِقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَo قُلْ کَفٰی بِاللہِ بَیْنِی وَبَیْنَکُمْ شَھِیْدًا یَعْلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِالْبَاطِلِ وَکَفَرُوْا بِاللہِ اُوْلٰئِکَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ‘‘۔
(العنکبوت: 50‘ 52)
’’ یہ لوگ کہتے ہیں کہ کیوں نہ اتاری گئیں اس شخص پر نشانیاں اس کے رب کی طرف سے؟ کہو! نشانیاں تو ﷲ کے پاس ہیں اور میں تو صرف خبردار کرنے والا ہوں کھول کھول کر اور کیا ان لوگوں کیلئے یہ (نشانی) کافی نہیں ہے کہ ہم نے تم پر کتاب نازل کی جو انہیں پڑھ پڑھ کر سنائی جاتی ہے؟ درحقیقت اس میں رحمت ہے اور نصیحت ان لوگوں کیلئے جو ایمان لاتے ہیں۔ (اے نبیﷺ ) کہو کہ میرے اور تمہارے درمیان ﷲ گواہی کیلئے کافی ہے ‘ وہ آسمانوں اور زمین میں سب کچھ جانتا ہے۔ جو لوگ باطل کو مانتے ہیں اور ﷲ سے کفر کرتے ہیں وہی خسارے میں رہنے والے ہیں‘‘۔
آیاتِ بالا میں کسی شخص کے ’’نبی ہونے کی نشانیوں‘‘ کا ذکر آیا ہے مثلاً نبی ﷺ کے ﷲ کے نبی ہونے کی ایک نشانی قرآن مجید بتائی گئی ہے۔ ذیل میں نبی کی طرف سے مقرر کئے گئے شرعی امیر کا ذکر ہے۔ نبی کی طرح اس کے تقرر کی شرط و نشانی بھی ﷲ کی طرف سے مقرر کردہ ہوتی تھی نہ کہ لوگوں کی طرف سے پیش کردہ شرط و نشانی۔
ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:
’’وَقَالَ لَھُمْ نَبِیُّھُمْ اِنَّ اللہَ قَدْ بَعَثْ لَکُمْ طَالُوْتَ مَلِکًا قَالُوْا اَنّٰی یَکُوْنُ لَہٗ الْمُلْکُ عَلَیْنَا وَنَحْنُ اَحَقُّ بِالْمُلْکِ مِنْہُ وَلَمْ یُؤْتَ سَعَۃً مِّنَ الْمَالِ قَالَ اِنَّ اللہَ اصْطَفٰہُ عَلَیْکُمْ وَزَادَہٗ بَسْطَۃً فِی الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ وَاللہُ یُؤْتِی مُلْکَہٗ مَنْ یَّشَآئُ وَاللہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ‘‘۔
’’ ان کے نبی نے ان سے کہا کہ ﷲ نے طالوت کو تمہارے لئے بادشاہ مقرر کیا ہے۔ یہ سن کر وہ بولے: ہم پر بادشاہ بننے کا وہ کیسے حقدار ہو گیا؟ اس کے مقابلے میں بادشاہی کے ہم زیادہ مستحق ہیں‘ وہ تو کوئی بڑا مالدار آدمی نہیں ہے۔ نبی نے جواب دیا: ﷲ نے تمہارے مقابلے میں اسی کو منتخب کیا ہے اور اس کی دماغی و جسمانی دونوں قسم کی اہلیتیں فراوانی کے ساتھ عطا فرمائی ہیں اور ﷲ کو اختیار ہے کہ اپنا ملک جسے چاہے دے ‘ ﷲ بڑی وسعت رکھتا ہے اور سب کچھ اس کے علم میں ہے‘‘۔
۔