• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اگر تم مومن ھو

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۔۔۔
4۔ صرف ’’امام شرعی کی قیادت میں قتال‘‘ کی پابندی کی بنا پر:

نبی ﷺ کے ارشادات ہیں کہ:۔

’’ مَنْ قَاتَلَ تَحْتَ رَایَۃٍ عِمِّیَّۃٍ یَغْضَبُ لِعَصَبَۃٍ اَوْ یَدْعُوْا اِلٰی عَصَبَۃٍ اَوْ یَنْصُرُ عَصَبَۃً فَقُتِلَ فَقِتْلَۃٌ جَاھِلِیَّـۃٌ‘‘۔
(مسلم‘ باب الامارۃ‘ ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ )
’’ جو شخص اندھا دھند (اندھی تقلید میں) کسی کے جھنڈے تلے جنگ کرے یا کسی عصبیت کی بنا پر غضب ناک ہو یا عصبیت کی طرف دعوے دے یا عصبیت کی خاطر جنگ کرے اور قتل ہو جائے اس کا قتل جاہلیت کا قتل ہے‘‘۔

’’ مَنْ اَطَاعَنِیْ فَقَدْ اَطَاعَ اللہَ وَمَنْ عَصَانِیْ فَقَدْ عَصَی اللہُ وَمَنْ یُّطِعِ الْاَمِیْرَ فَقَدْ اَطَاعَنِیْ وَمَنْ یَّعْصِ الْاَمِیْرَ فَقَدْ عَصَانِیْ وَاِنَّمَا الْاَمَامُ جُنَۃٌ یُقَاتَلُ مِنْ وَّرَائِہٖ وَیُتَّقٰی بِہٖ فَاِنْ اَمَرَ بِتَقْوَی اللہِ وَعَدَلَ فَاِنَّ لَہٗ بِذَالِکَ اَجْرًوَاِنْ قَالَ بِغَیْرِہٖ فَاِنَّ عَلَیْہِ مِنْہُ‘‘۔
(بخاری‘ باب الجہاد والسیر‘ ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ )
’’ جس نے میری اطاعت کی پس اس نے ﷲ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی پس اس نے ﷲ کی نافرمانی کی‘ جس نے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی جس نے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی اور امام ڈھال ہے اسی کی قیادت میں قتال کیا جاتا ہے اور اسی کے ساتھ دفاع کیا جاتا ہے۔ اگر وہ ﷲ کے ڈر کے ساتھ حکم کرتا ہے اور انصاف کرتا ہے تو اس کیلئے اس کا اجر ہے اور اگر وہ اس کے علاوہ کرتا ہے تو اس کا وبال اسی پر ہے‘‘۔

نبی ﷺ کے درجِ بالا ارشادات کی اطاعت میں جب تمام مسلمان غیر شرعی اماموں کی قیادت میں قتال کرنا چھوڑتے ہیں اور صرف امام شرعی کی قیادت میں قتال کرنے کے پابند ہوتے ہیں تو یہ چیز بھی ان کی وحدت کی صورت پیدا کرتی ہے۔
۔

۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۔​
۔
5۔ امامِ شرعی کی طرف سے مسلمانوں کے تنازعات کے فیصلے کتاب و سنت سے کرنے کی بنا پر:
ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:

’’ یٰدَاؤْدَ اِنَّا جَعَلْنٰکَ خَلِیْفَۃً فِی الْاَرْضِ فَاحْکُمْ بَیْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعْ الْھَوٰی فَیُضِلَّکَ عَنْ سَبِیْلِ اللہِ اِنَّ الَّذِیْنَ یُضِلُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللہِ لَھُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌ بِمَا نَسُوْا یَوْمَ الْحِسَابِ‘‘۔
(ص:26)
’’ اے داؤد! ہم نے تمہیں زمین کا حکمران بنایا ہے پس تم حق کے مطابق لوگوں کے مابین حاکمیت کرو اور اھواء کی پیروی مت کرو کہ وہ تمہیں ﷲ کی راہ سے بھٹکا دے گی جو لوگ ﷲ کی راہ سے بھٹکتے ہیں یقینا ان کیلئے شدید عذاب ہے وہ یومِ حساب کو بھول گئے ہیں‘‘۔

آپس کے تنازعات کے باعث مسلمانوں کے اندر کمزوری پیدا ہو جاتی ہے اور ان کی ہوا اُکھڑ جاتی ہے‘ اس کا واحد حل کتاب و سنت کے مطابق ان کے تنازعات کا فیصلہ ہے اور خلیفہ کے تقرر کا ایک بڑا مقصد بھی کتاب و سنت کے مطابق لوگوں کے تنازعات کے فیصلے کرنا ہوتا ہے جیسا کہ ﷲ تعالیٰ کے درج بالا ارشاد سے ظاہر ہوتا ہے ۔ خلیفہ جب کتاب و سنت کے مطابق لوگوں کے مابین فیصلے کرتا ہے اور لوگ ﷲ کے حکم پر اکٹھے ہوتے ہیں تو اس سے ان کی وحدت کی صورت پیدا ہوتی ہے۔
۔​
۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۔۔
امام شرعی مسلمانوں کیلئے ڈھال اور ان کیلئے ﷲ کی مدد کا حامل ہوتا ہے
امام شرعی کے ‘ مسلمانوں کیلئے ڈھال ہونے کے حوالے سے نبی ﷺ کا ارشاد اوپر بیان ہو چکا ہے اور یہ بات بھی سامنے آ چکی ہے کہ ﷲ کا ہاتھ جماعت کے ساتھ ہے اور چونکہ خلیفہ بذاتِ خود جماعت کی صورت ہوتا ہے اس بنا پر ﷲ کا ہاتھ خلیفہ کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ چونکہ مسلمان خلیفہ کی ذات پر جماعت بنتے (مجتمع ہوتے) اور وحدت میں ڈھلتے ہیں اس بنا پر خود بھی ﷲ کی مدد کے حامل ہوتے ہیں۔

خلیفہ اس بنا پر بھی ﷲ کی مدد کا حامل ہوتا ہے کہ چونکہ وہ اس حال میں خلیفہ بنایا جاتا ہے کہ خلافت کو اپنے لئے مانگنے والا نہیں ہوتا (تقرر خلیفہ کیلئے ایک شرط جس کا تفصیلی ذکر آگے آئے گا) اور جسے بن مانگے خلاف ملے اس کے حوالے سے نبی ﷺ کا ارشاد ہے کہ:

’’ لَاتَسْأَلِ الْاِمَارَۃَ فَاِنَّکَ اِنْ اُعْطِیْتَھَا عَنْ مَسْئَلَۃٍ وُّکِلْتَ اِلِیْھَا وَاِنْ اُعْطِیْتَھَا عَنْ غَیْرِ مَسْئَلَۃٍ اُعِنْتَ عَلَیْھَا‘‘۔
(مسلم ‘ کتاب الامارۃ‘ عبد الرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ )
’’ امارت مت مانگو کیونکہ اگر یہ تجھے مانگنے پر ملی تو تم (بے یارو مددگار) اسی کے حوالے کر دئیے جائو گے اور اگر بغیر مانگے ملی تو اس میں تمہاری مدد کی جائے گی‘‘۔
۔​
۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۔۔
مسلمانوں کی جماعت اور امام کے نہ ملنے پر ان فرقوں سے اعتزال سے جماعت و امام کے ظہور کی صورت پیدا ہوتی ہے
مسلمانوں کی وحدت کی بنیاد حبل ﷲ ہے اور اس کا ایک ذریعہ اور مرکز مسلمانوں کی جماعت اور امام شرعی ہے۔ اگر ان کی جماعت اور امام نظر نہ آ رہے ہوں تو ان اھواء پر مبنی ملتوں اور جہنم کے دروازوں کی دعوت دینے والے ان فرقوں سے الگ ہونا لازم ہے اور اسی علیحدگی سے مسلمانوں کی جماعت اور ان کے امام کے سامنے آنے کی صورت پیدا ہو جائے گی۔

جب کوئی مسلمان ﷲ تعالیٰ اور نبی ﷺ کے احکامات کی اطاعت میں تفرق اور اہل تفرق سے الگ ہو گا اور کتاب و سنت قائم پر ہو گا تو اپنی اس اقامت سے مسلمانوں کی جماعت بن جائے گا اور جب تک اکیلا ہو گا تو ’’اپنی ذات میں مسلمانوں کی جماعت ہو گا‘‘۔

مسلمانوں کا یہ جماعت فرد اہل تفرق سے الگ تو ہو گا مگر ﷲ کے حکم کی اطاعت میں انہیں خیر کی طرف بلانے‘ معروف کے ساتھ حکم کرنے اور منکر سے منع کرنے کا پابند ہو گا جیسا کہ ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:

’’ وَذَرِ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا دِیْنَھُمْ لَعِبًا وَّلَھْوًا وَغَرَّتْھُمُ الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا وَذَکِّرْ بِہِ اَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِمَا کَسَبَتْ لَیْسَ لَھَا مِنْ دُوْنِ اللہِ وَلِیٌّ وَّلَا شَفِیْعٌ وَاِنْ تَعْدِلْ کُلَّ عَدْلٍ لَّا یُؤْخَذْ مِنْھَا اُوْلٰئِکَ الَّذِیْنَ اُبْسِلُوْا بِمَا کَسَبُوْا لَھُمْ شَرَابٌ مِنْ حَمِیْمٍ وَّعَذَابٌ اَلِیْمٌ م بِمَا کَانُوْا یَکْفُرُوْنَ‘‘۔
’’ چھوڑ دو ان لوگوں کو جنہوں نے اپنے دین کو کھیل اور تماشا بنا رکھا ہے اور جنہیں دنیا کی زندگی فریب میں مبتلا کئے ہوئے ہے ہان مگر یہ قرآن سُنا ہے کہ ان کو نصیحت کرتے رہو کہ کہیں کوئی شخص اپنے کئے کرتوتوں کے وبال میں گرفتار نہ ہو جائے اور گرفتار بھی اس حال میں ہو کہ ﷲ سے بچانے والا کوئی حامی و مددگار اس کیلئے نہ ہو‘‘۔
(الانعام: 70)

جماعت فرد کی اس دعوت سے مزید جماعت افراد کے سامنے آنے کی صورت پیدا ہو گی پھر ایسا بھی ممکن ہے کہ اس کی دعوت سے سامنے آنے والی جماعت افراد کے علاوہ دیگر جماعت افراد بھی اس کے علم میں آئیں اور یہی معاملہ دیگر جماعت فراد کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔ ایسی حالت میں ہر جماعت فرد کیلئے ‘ لزوم جماعت کے حکم کی اطاعت میں دوسرے جماعت فرد سے وابستہ و مجتمع ہونا لازم ہو گا‘ اس سے مسلمانوں کی جماعت کی دوسری صورت ’’مسلمانوں کے کتاب و سنت پہ قائم افرار کی اجتماعیت‘‘ وجود میں آجائے گی۔
۔​
۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۔​
۔
مسلمانوں کے جماعت افراد کی اس اجتماعیت کیلئے ایک اور لازمی چیز امام کو اختیار کرنا ہو گا کیونکہ جماعت سے وابستگی کے ساتھ ساتھ امام سے وابستگی بھی لازم ہے ‘ اس کے بغیر نہ ان کی اجتماعیت مکمل ہو سکتی اور نہ ہی کارآمد ہو سکتی ہے۔ امام کو اختیار کرنے کی مجبوری کے ساتھ ساتھ انہیں ایک اور مجبوری درپیش ہو گی کہ وہ صرف امام شرعی (خلیفہ) ہی کو اختیار کر سکتے ہیں۔ یہ مجبوری انہیں امام شرعی کی تلاش کرنے پر مجبور کرے گی اور امام شرعی کو نہ پانے پر وہ امام بنانے پہ مجبور ہوں گے‘ ایسی حالت میں وہ غیر شرعی امام تو نہیں بنا سکیں گے لا محالہ وہ امام شرعی (خلیفہ) ہی بنائیں گے جس سے مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ ساتھ ان کا امام شرعی بھی سامنے آ جائے گا۔

اہل تفرق سے الگ ہونے اور مسلمانوں کی جماعت اور امام شرعی کے وجود میں آنے کا واقعہ ضروری نہیں کہ زمین پہ کسی ایک جگہ پیش آئے جس جس جگہ بھی مسلمانوں کو اپنے تفرق فی الدین میں مبتلا ہونے اور اہل تفرق میں شامل ہونے کا احساس ہو گا اور وہ یہ سب کچھ چھوڑ کر کتاب و سنت پہ قائم ہوں گے‘ پھر کتاب و سنت پہ قائم دیگر مسلمانوں سے وابستہ ہو کر اجتماعیت میں ڈھلیں گے اور امام شرعی اختیار کریں گے ‘ اس اس جگہ مسلمانوں کی جماعت اور ان کا امام وجود میں آ جائے گا۔

دنیا میں مختلف مقامات پہ مسلمانوں کی جماعت اور ان کے امام کے وجود میں آنے کے ساتھ ان کے باہم مجتمع ہونے کا سلسلہ بھی جاری رہے گا‘ مسلمانوں کے جماعت افراد اور گروہ تو لزوم جماعت کے حکم کے تحت ایک دوسرے کی موجودگی کی خبر پاتے ہی باہم مجتمع ہونے کو لازم کریں گے اور ان کے بہت سے امام نبی ﷺ کے ذیل کے حکم کے مطابق اپنے سے پہلی بیعت کے حامل کی بیعت اختیار کر کے اس کے حق میں دستبردار ہوتے جائیں گے۔

نبی ﷺ کا ارشاد ہے کہ:۔

’’ وَاِنَّہٗ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ وَسَیَکُوْنُ خُلَفَائُ فَیَکْثُرُوْنَ قَالُوْ فَمَا تَأمُرُنَا قَالَ فُوْابِبَیْعَۃِ الْاَوَّلِ فَالْاَوَّلِ اَعْطُوْھُمْ حَقَّھُمْ فَاِنَّ اللہَ سَائِلُھُمْ عَنْ مَّا اسْتَرْعَاھُمْ‘‘۔
(بخاری‘ باب احادیث الانبیاء‘ ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ)
’’ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا البتہ خلفاء ہوں گے اور بہت سے ہوں گے‘ لوگوں نے عرض کیا پھر آپ ہم کو کیا حکم فرماتے ہیں ‘ آپ ﷺ نے فرمایا: وفاداری کرو پہلی بیعت (کے حامل) کے ساتھ اور پھر پہلی بیعت کے ساتھ تم انہیں ان کا حق دو‘ ان سے ان کی رعیت کے بارے میں ﷲ پوچھے گا‘‘۔

اگر کوئی امام اپنے سے پہلی بیعت کے حامل کے حق میں دستبردار نہیں بھی ہوتا تو نبی ﷺ کے حکم کی اطاعت میں اس کی بیعت کرنے والے مسلمان اس کی بیعت چھوڑ کر پہلی بیعت کے حامل کی بیعت کر لیں گے اور اگر بعد کی بیعت والا امام بغیر شرعی دلیل کے اپنی امامت پہ قائم رہتا ہے تو نبی ﷺ کے ذیل کے حکم کی اطاعت میں اسے قتل کر دیں گے۔ آپ ﷺ کا ارشاد ہے کہ:۔

’’ اِذَا بُوْیِعَ لِخَلِیْفَتَیْنِ فَاقْتُلُوا الْاٰخَرَ مِنْھُمَا‘‘۔
(مسلم ‘ کتاب الامارۃ۔ ابو سعید رضی اللہ عنہ)
’’ جب دو خلیفوں کے ہاتھ پہ بیعت ہو جائے تو ان دونوں میں سے بعد والے کو قتل کر دو‘‘۔
۔​
۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436

باب پنجم:​
سیاستِ خلفاء
نبی ﷺ سے معلوم ہو چکا ہے کہ بنی اسرائیل کی سیاست انبیاء کیا کرتے تھے اور ایک نبی کے فوت ہونے کے بعد نبی ہی آ کر بنی اسرائیل کی سیاست کی ذمہ داری سنبھالتا تھا۔ اپنی موجودگی میں نبی ﷺ بھی سیاستِ امہ کے ذمہ دار تھے مگر آپ ﷺ کے بعد سیاست امہ کی ذمہ داری سنبھالنے کوئی نبی نہیں آئے گا بلکہ اب خلفاء ہوں گے جو امت کی سیاست کی ذمہ داری سنبھالیں گے۔

خلفاء چونکہ طریقِ نبوی پہ امت کی سیاست کریں گے‘ اس بنا پر ان کی سیاست کے حوالے سے درج ذیل باتیں خاص ہوں گی۔

1۔ انبیاء کا بنیادی فرض اقامتِ دین تھا اس لئے خلفاء کا بنیادی فرض بھی اقامتِ دین ہو گا جیسا کہ انبیاء کے حوالے سے ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:

’’ شَرَعَ لَکُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَاوَصّٰی بِہٖ نُوْحًا وَّالَّذِیْ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ وَمَا وَصَّیْنَا بِہٖ اِبْرٰاہِیْمَ وَمُوْسٰی وَعِیْسٰی اَنْ اَقِیْمُوْا الدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ‘‘
’’ہم نے تمہارے لئے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے جس کی وصیت ہم نے نوح کو کی تھی اور جو ہم نے آپ کی طرف وحی کیا ہے اور جس کی نصیحت ہم نے ابراہیم ‘ موسیٰ اور عیسیٰ کو کی تھی کہ دین قائم کرو اور اس میں تفرقے میں مت پڑو‘
(شوری: 13)

2۔ انبیاء ﷲ کے نازل کردہ کے مطابق سیاست کیا کرتے تھے اس لئے خلفاء بھی ﷲ کے نازل کردہ کے مطابق سیاست کے پابند ہوں گے جیسا کہ ﷲ تعالیٰ انبیاء بنی اسرائیل اور نبی ﷺ کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے کہ:۔

’’اِنَّآ اَنْزَلْنَآ التَّوْرٰۃَ فِیْھَا ھُدًی وَّنُوْرٌ یَحْکُمُ بِھَا النَّبِیُّوْنَ الَّذِیْنَ اَسْلَمُوْا‘‘۔
’’ بیشک ہم نے تورات نازل کی جس میں ہدایت اور نور ہے ‘ انبیاء جو کہ ﷲ کے فرمانبردار تھے اسی کے مطابق معاملات کے فیصلے کیا کرتے تھے‘‘۔
(المائدہ: 44)

’’اِنَّآ اَنْزَلْنَآ اِلِیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِمَآ اَرٰکَ اللہُ‘‘
’’ بیشک ہم ہی نے تمہاری طرف یہ کتاب حق کے ساتھ نازل کی ہے تا کہ تم لوگوں کے درمیان اس کے مطابق فیصلے کرو جو ﷲ نے تم کو دکھایا ہے‘‘۔
(النساء:105)

3۔ انبیاء بنی اسرائیل (میں سے موسیٰ‘ داؤد اور سلیمان علیہم السلام) اور بنی اسرائیل کے بعد نبی ﷺ اپنی اپنی امت کی حالتِ غلبہ میں بھی سیاست کے ذمہ دار تھے چنانچہ انبیاء کے بعد امت کی حالتِ غلبہ میں بھی سیاست کے ذمہ دار خلفاء ہوں گے۔

4۔ انبیاء بنی اسرائیل (میں سے موسیٰ اور دیگر زیادہ تر انبیاء علیہم السلام) اور بنی سرائیل کے بعد نبی ﷺ اپنی اپنی امت کی حالتِ مغلوبیت میں بھی سیاست کے ذمہ دار تھے اور (بعض) امت کو حالتِ مغلوبیت سے نکال کر غلبہ میں لائے تھے‘ چنانچہ امت جب کبھی حالتِ مغلوبیت کا شکار ہو گی تب بھی اس کی سیاست کے ذمہ دار خلفاء ہی ہوں گے اور اسے مغلوبیت سے نکال کر غلبہ میں لانے کی کوشش کریں گے۔
۔​
۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۔۔
خلیفہ و خلافت
کتاب و سنت میں اس حوالے سے درج ذیل چیزیں ملتی ہیں۔

خلیفہ: ایک کے پیچھے یا بعد دوسرا آنے والا۔

خلافت: ایک کے پیچھے یا بعد دوسرے کا آنا۔

ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے :۔

’’ وَھُوَ الَّذِیْ جَعَلَ الَّیْلَ وَالنَّھَارَ خِلْفَۃً ‘‘۔
(الفرقان:63)
’’ اور وہی ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے آنے والا بنایا‘‘۔


خلیفہ: نائب و جانشین ۔ خلافت: نیابت و جانشینی
ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:

’’ وَقَالَ مُوْسٰی لِاَخِیْہِ ھٰرُوْنَ اخْلُفْنِیْ فِیْ قَوْمِیْ‘‘۔
(الاعراف:142)
’’ اور کہا موسیٰ نے اپنے بھائی ہارون سے کہ میری جانشینی کرنا تم میری قوم میں


خلیفہ: وارث۔ خلافت: وراثت:
جیسا کہ ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:

’’ وَاذْکُرُوْا اِذْ جَعَلَکُمْ خُلَفَآئَ مِنْ م بَعْدِ قُوْمِ نُوْحِ وَّزَادَکُمْ فِیْ الْخَلْقِ بَصْطَۃً ج‘‘۔
(الاعراف:69)
’’ اور یاد کرو جب اس نے قوم نوح کے بعد تم کو وارث بنایا اور تمہیں تخلیق میں وسعت دی‘‘۔

خلافت: سلطان و مقتدر:

خلافت: سُلطہ واقتدار:

ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:۔

’’یٰدَاؤْدُ اِنَّا جَعَلْنٰکَ خَلِیْفَۃً فِی الْاَرْضِ فَاحْکُمْ بَیْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ‘‘۔
’’ اے داؤد! ہم نے تمہیں زمین کا حکمران بنایا ہے پس تم حق کے مطابق لوگوں کے مابین حاکمیت کرو‘‘۔
(ص:26)
۔​
۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
خلیفہ: ’’نبی‘‘ کے بعد سیاستِ اُمّہ کے ذمہ دار کا ’’نامِ عہدہ‘‘ اور ’’انبیاء کے بعد سیاستِ امہ کا ذمہ دار عہدیدار‘‘
خلافت: انبیاء علیہ السلام کے بعد سیاستِ اُمہ کی ذمہ داری و عہدیداری
نبی ﷺ کا ارشاد ہے کہ:

’’ کَانَتْ بَنُوْا اِسْرَائِیْلَ تَسُوْسُھُمُ الْاَنْبِیَائُ کُلَّمَا ھَلَکَ نَبْیٌّ خَلَفَہٗ نَبِیٌّ وَاِنَّہٗ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ وَسَیَکُوْنُ خُلُفَائُ فَیَکْثُرُوْنَ قَالُوْ فَمَا تَأْمُرُنَا قَالَ فُوْا بِبَیْعَۃِ الْاَوَّلِ فَالْاَوَّلِ اَعْطُوْھُمْ حَقَّھُمْ فَاِنَّ اِللہَ سَائِلُھُمْ عَنْ مَّا اسْتَرْعَاھُمْ‘‘۔
(بخاری‘ باب احادیث الانبیاء: ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ)
’’ تھے بنی اسرائیل ان کی سیاست انبیاء کیا کرتے تھے جب بھی کوئی نبی فوت ہو جاتا تو اس کے بعد نبی ہی آتا تھا‘ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا البتہ خلفاء ہوں گے اور بہت سے ہوں گے۔ لوگوں نے عرض کیا پھر آپ ہم کو کیا حکم فرماتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا: وفاداری کرو پہلی بیعت (کے حامل) کے ساتھ اور پھر پہلی بیعت کے ساتھ تم انہیں ان کا حق دو‘ ان سے ان کی رعیت کے بارے میں ﷲ پوچھے گا‘‘۔


امیر، امام اور سلطان ذمہ دارِ سیاستِ اُمہ کے ’’خلیفہ‘‘ کے علاوہ دیگر نامِ عہدہ
نبی ﷺ کے ارشادات ہیں کہ:

’’ وَمَنْ یَّعْصِ الْاَمِیْرَ فَقَدْ عَصَانِیْ وَاِنَّمَا الْاَمَامُ جُنَّـۃٌ یُقَاتَلُ مِنْ وَّرَائِہٖ وَیُتَقِی بِہٖ‘‘۔
(بخاری‘ باب الجہاد والسیر‘ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ )
’’ جس نے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی اور امام ڈھال ہے اسی کی قیادت میں قتال کیا جاتا ہے اور اسی کے ساتھ دفاع کیا جاتا ہے‘‘۔

’’ مَنْ کَرِہَ مِنْ اَمِیْرِہِ شَیْئًا فَلْیَصْبِرُ فَاِنَّہٗ مَنْ خَرَجَ مِنَ السُّلْطَانِ شِبْرًا مَاتَ مِیْتَۃً جَاھِلِیَّۃً ‘‘۔
(بخاری‘ باب الفتن‘ عبدﷲ بن عباس رضی اللہ عنہ )

’’ جس کو اپنے امیر میں کوئی بات بری لگے پس وہ صبر کرے حقیقت یہ ہے جس نے سلطان سے بالشت بھر خروج کیا وہ جاہلیت کی موت مر گیا‘‘۔

احادیثِ بالا سے امیر‘ امام اور سلطان کی اطاعت اور ان سے وابستگی کے حوالے سے احکامات سامنے آرہے ہیں۔ نبی ﷺ کے بعد سیاستِ امہ کا ذمہ دار چونکہ ’’خلیفہ‘‘ کو قرار دیا گیا ہے اس لئے سیاسی اطاعت ووابستگی کے مذکورہ احکامات یقینا خلیفہ ہی کی طرف جاتے ہیں‘ اس سے خلیفہ کے دیگر نام عہدہ سامنے آتے ہیں یعنی امیر‘ امام اور سلطان۔
۔

۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۔​
۔
امارتِ امہ‘ امامت امہ اور تدبیر سلطنتِ امہ
سیاست امہ (خلافت) میں شامل تین چیزیں

احادیث بالا سے جہاں خلیفہ کے دیگر نام عہدہ سامنے آتے ہیں یعنی امیر‘ امام اور سلطان وہیں ان نامون سے خلفاء کی سیاست (خلافت) کی نوعیت واضح ہوتی ہے یعنی امت کی امارت‘ امامت اور تدبیر سلطنت وغیرہ۔ اس سے ان چیزوں کی بھی وضاحت ہو جاتی ہے جو خلفاء کی خلافت (سیاست امہ) میں شامل ہیں یعنی امت کی امارت‘ امت کی امامت اور امت کی سلطنت کی تدبیر وغیرہ۔
۔​
۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۔۔
خلیفہ و خلافت اور سلطنت و اقتدار
قرآن مجید میں چونکہ خلیفہ کے سلطنت و اقتدا کے حامل ہونے کی بھی تصریح ملتی ہے پھر انبیاء کے بعد امت کی سیاست کا سب سے پہلا ’’غیر نبی خلیفہ‘‘ اور پھر بعد کے خلفاء بھی سلطنت و اقتدار کے حامل نظر آتے ہیں اس بناء پر اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ خلیفہ لازماً وہی ہوتا ہے جو سلطنت و اقتدار کا حامل ہو اور وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ مغلوبیت اور کمزوری کی حالت میں خلیفہ مقرر نہیں کیا جاسکتا جب تک کہ امت یا اہل حق کو غلبہ و سلطنت و اقتدر حاصل نہ ہو جائے‘ مگر وہ ان باتوں کا جواب نہیں دیتے کہ سیاست امہ میں ’’مسلمانوںکی سلطنت کی تدبیر کے علاوہ‘‘ مسلمانوں کی امارت اور ان کی امامت بھی شامل ہے اور مسلمانوں یا اہل حق جب تک مغلوبیت اور کمزوری کی حالت میںہیں اور سلطنت و اقتدار کے حامل نہیں ہو جاتے یا انہیں ایسا اہل حق قائد نہیں مل جاتا جو سلطنت وا قتدار کا حامل ہو تب تک:۔

1۔ کیا وہ ایک امیر اور امام کے بغیر رہیں گے؟

2۔ کیا وہ ہزار رہا غیر شرعی امیروں اور اماموں کی قیادتوں میں بٹ کر مغلوب‘ منتشر‘ متفرق اور باہم متحارب رہیں گے؟ اور کیا ان کا رب ان کی مغلوبیت اور کمزوری کی حالت میں انہیں اس چیز (تفرقات و تنازعات وغیرہ) میں مبتلا رہنے کی اجازت دیتا ہے جس کی بنا پر وہ قوت سے کمزوری میں مبتلا ہوتے ہیں اور جس سے ان کی ہوا اکھڑ جاتی ہے جیسا کہ ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:۔

’’وَاَطِیْعُوا اللہَ وَرَسُوْلَہٗ وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْھَبَ رِیْحُکُمْ وَاصْبِرُوْا اِنَّ اللہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ‘‘۔
(انفال:46)
’’ اور اطاعت کرو ﷲ کی اور اس کے رسول کی اور جھگڑو نہیں ورنہ تمہارے اندر کمزوری پیدا ہو جائے گی اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی صبر سے کام لو بیشک ﷲ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘۔

حقیقت یہ ہے کہ کمزوری کی حالت میں بھی تفرقات و تنازعات کی اجازت نہیں ہے۔ حالتِ مغلوبیت میں تفرقات وغیرہ میں نہ پڑنے اور جماعت اور امام کو لازم کرنے والی آیات اور احادیث منسوخ نہیں ہو جاتیں۔ حالت‘ مغلوبیت کی ہو یا غلبے کی‘ مسلمانوں پر ہر حال میں مجتمع رہنا اور وحدت میں ڈھلے رہنا لازم ہے‘ اب اگر وہ حالتِ مغلوبیت میں مجتمع ہونا چاہیں تو بتائیں کہ کتاب و سنت میں امام شرعی ’’خلیفہ‘‘ کے علاوہ اور کون سی قیادت ہے جس پہ انہیں مجتمع ہونے کی اجازت ہے اور جس کی قیادت میں انہیں ہجرت اور جہاد کے مراحل طے کر کے غلبہ و اقتدار تک پہنچنا ہے؟
۔​
۔
 
Top