• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اگر نفل ادا كرتے ہوئے نماز كى اقامت ہو جائے ؟

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

جی! تاویل کی نوعیت کیا ہے، کہ آیا اس تاویل کی بنیاد کیا ہے اور آیا اس سے کسی حکم کا انکار تو لازم نہیں آتا!
اس بنا پر تاویل مقبول یا مردود قرار پائے گی!

جی ! یہ تاویل یعنی تفسیر یعنی کہ اس آیت کے معنی و حکم کا یہ تعین اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کی بنیاد پر ہے، کہ یہ تخصیص اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے؛

قَالَ أَبُو عُمَرَ قَدْ ثَبَتَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ إِذَا أُقِيمَتِ الصَّلَاةُ فَلَا صَلَاةَ إِلَّا الْمَكْتُوبَةُ الَّتِي أُقِيمَتْ رَوَاهُ أَبُو سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَعَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَالْحُجَّةُ عِنْدَ التَّنَازُعِ السُّنَّةُ فَمَنْ أَدْلَى بِهَا فَقَدْ أَفْلَحَ وَمَنِ اسْتَعْمَلَهَا فقد نجا وما توفيقي إلا بالله.
اختلاف کے وقت دلیل سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہوتی ہے۔ جو شخص سنت کی تعمیل کرے وہ کامیاب اور جو اس پر عمل کرے وہ نجات مند ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 74 جلد 22 التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد - أبو عمر يوسف بن عبد الله بن محمد بن عبد البر بن عاصم النمري القرطبي (المتوفى: 463هـ) - وزارة عموم الأوقاف والشؤون الإسلامية – المغرب

حَدَّثَنَا عَبْدُ العَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَالِكٍ ابْنِ بُحَيْنَةَ، قَالَ: مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِرَجُلٍ قَالَ: ح وَحَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ يَعْنِي ابْنَ بِشْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا بَهْزُ بْنُ أَسَدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَعْدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: سَمِعْتُ حَفْصَ بْنَ عَاصِمٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَجُلًا مِنَ الأَزْدِ يُقَالُ لَهُ: مَالِكُ ابْنُ بُحَيْنَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَجُلًا وَقَدْ أُقِيمَتِ الصَّلاَةُ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ، فَلَمَّا انْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لاَثَ بِهِ النَّاسُ، وَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الصُّبْحَ أَرْبَعًا، الصُّبْحَ أَرْبَعًا» تَابَعَهُ غُنْدَرٌ، وَمُعَاذٌ، عَنْ شُعْبَةَ فِي مَالِكٍ، وَقَالَ ابْنُ إِسْحَاقَ: عَنْ سَعْدٍ، عَنْ حَفْصٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ابْنِ بُحَيْنَةَ، وَقَالَ حَمَّادٌ: أَخْبَرَنَا سَعْدٌ، عَنْ حَفْصٍ، عَنْ مَالِكٍ.

ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابراہیم بن سعد نے اپنے باپ سعد بن ابراہیم سے بیان کیا، انھوں نے حفص بن عاصم سے، انھوں نے عبداللہ بن مالک بن بحینہ سے، کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک شخص پر ہوا ( دوسری سند ) امام بخاری نے کہا کہ مجھ سے عبدالرحمن بن بشر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے بہز بن اسد نے بیان کیا۔ کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھے سعد بن ابراہیم نے خبر دی، کہا کہ میں نے حفص بن عاصم سے سنا، کہا کہ میں نے قبیلہ ازد کے ایک صاحب سے جن کا نام مالک بن بحینہ رضی اللہ عنہ تھا، سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر ایک ایسے نمازی پر پڑی جو تکبیر کے بعد دو رکعت نماز پڑھ رہا تھا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز سے فارغ ہو گئے تو لوگ اس شخص کے ارد گرد جمع ہو گئے اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا صبح کی چار رکعتیں پڑھتا ہے؟ کیا صبح کی چار رکعتیں ہو گئیں؟ اس حدیث کی متابعت غندر اور معاذ نے شعبہ سے کی ہے جو مالک سے روایت کرتے ہیں۔ ابن اسحاق نے سعد سے، انھوں نے حفص سے، وہ عبداللہ بن بحینہ سے اور حماد نے کہا کہ ہمیں سعد نے حفص کے واسطہ سے خبر دی اور وہ مالک کے واسطہ سے۔
‌صحيح البخاري: كِتَابُ الأَذَانِ (بابٌ إِذَا أُقِيمَتِ الصَّلاَةُ فَلاَ صَلاَةَ إِلَّا المَكْتُوبَةَ)
صحیح بخاری: کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں (باب: جب نماز کی تکبیر ہونے لگے)

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ الْقَعْنَبِيُّ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَالِكٍ ابْنِ بُحَيْنَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِرَجُلٍ يُصَلِّي وَقَدْ أُقِيمَتْ صَلَاةُ الصُّبْحِ فَكَلَّمَهُ بِشَيْءٍ لَا نَدْرِي مَا هُوَ فَلَمَّا انْصَرَفْنَا أَحَطْنَا نَقُولُ مَاذَا قَالَ لَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ قَالَ لِي يُوشِكُ أَنْ يُصَلِّيَ أَحَدُكُمْ الصُّبْحَ أَرْبَعًا قَالَ الْقَعْنَبِيُّ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَالِكٍ ابْنُ بُحَيْنَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ أَبُو الْحُسَيْنِ مُسْلِمٌ وَقَوْلُهُ عَنْ أَبِيهِ فِي هَذَا الْحَدِيثِ خَطَأٌ.

عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے ہمیں حدیث بیان کی ،کہا ہمیں ابراہیم بن سعد نے اپنے والد سے حدیث سنائی۔انھوں نے حفص بن عاصم سے اور ا نھوں نے عبداللہ بن مالک ابن بحینہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک شخص کے پاس سے گزرے جو نماز پڑھ رہاتھا جب صبح کی نماز کے لئے اقامت کہی جاچکی تھی آپ نے کسی چیز کے بارے میں اس سے گفتگو فرمائی ہم نہ جان سکے کہ وہ کیا تھی جب ہم نماز سے فارغ ہوئے تو ہم نے اسے گھیرلیا ہم پوچھ رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تم سے کیا کہا؟اس نے بتایا:آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا:" لگتا ہے کہ تم میں سے کوئی صبح کی چار رکعات پڑھنے لگے گا۔" قعنبی نے کہا:عبداللہ بن مالک ابن بحینہ نے رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے والد سے روایت کی۔ ابو الحسین مسلم ؒ (مولف کتاب) نے کہا:قعنبی کا اس حدیث میں " عَنْ أَبِيهِ"(والد سے روایت کی) کہنا درست نہیں۔(عبداللہ کے والد صحابی مالک صحابی تو ہیں لیکن ان سے کوئی حدیث مروی نہیں)-
صحيح مسلم: كِتَابُ صَلَاةِ الْمُسَافِرِينَ وَقَصْرِهَا (بَابُ كَرَاهَةِ الشُّرُوعِ فِي نَافِلَةٍ بَعْدَ شُرُوعِ الْمُؤَذِّنِ)
صحیح مسلم: کتاب: مسافرو ں کی نماز قصر کا بیان (باب: مؤذن کے اقامت شروع کر لینے کے بعد نفل کا آغاز کرنا ناپسندیدہ)

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ عَنْ ابْنِ بُحَيْنَةَ قَالَ أُقِيمَتْ صَلَاةُ الصُّبْحِ فَرَأَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا يُصَلِّي وَالْمُؤَذِّنُ يُقِيمُ فَقَالَ أَتُصَلِّي الصُّبْحَ أَرْبَعًا.

ابو عوانہ نے سعد بن ابراہیم سے،انہوں نے حفص بن عاصم سے،اورانہوں نے حضرت (عبداللہ) ابن بحینہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی،کہا:صبح کی نماز کی اقامت(شروع) ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو نماز پڑھتے دیکھا جبکہ موذن اقامت کہہ رہا ہے تو آپ نے فرمایا:" کیا تم صبح کی چار رکعتیں پڑھو گے؟"
صحيح مسلم: كِتَابُ صَلَاةِ الْمُسَافِرِينَ وَقَصْرِهَا (بَابُ كَرَاهَةِ الشُّرُوعِ فِي نَافِلَةٍ بَعْدَ شُرُوعِ الْمُؤَذِّنِ)
صحیح مسلم: کتاب: مسافرو ں کی نماز قصر کا بیان (باب: مؤذن کے اقامت شروع کر لینے کے بعد نفل کا آغاز کرنا ناپسندیدہ)

قَالَ أَبُو عُمَرَ قَوْلُهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَصَلَاتَانِ مَعًا وَقَوْلُهُ لِهَذَا الرَّجُلِ أَيَّتُهُمَا صَلَاتُكَ وَقَوْلُهُ فِي حَدِيثِ ابْنِ بُحَيْنَةَ أَتُصَلِّيهِمَا أَرْبَعًا كُلُّ ذَلِكَ إِنْكَارٌ مِنْهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِذَلِكَ الْفِعْلِ فَلَا يَجُوزُ لِأَحَدٍ أَنْ يُصَلِّيَ فِي الْمَسْجِدِ ركعتي الفجر ولا شيئا من النَّوَافِلِ إِذَا كَانَتِ الْمَكْتُوبَةُ قَدْ قَامَتْ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کیا دو نمازیں اکھٹی پڑھنا چاہتے ہو، اور اس آدمی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ ان دونوں میں سے تیری ( فجر کی فرض ) نماز کون سی ہے ؟ نیز سیدنا بحینہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ کیا فجر کی نماز چار رکعتیں پڑھنا چاہتے ہو ؟ یہ سب باتیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اس کام پر انکار ہے۔ کسی شخص کے لیے جائز نہیں کہ فرض نماز کی اقامت کے بعد مسجد میں فجر کی دو رکعتیں یا کوئی اور نفلی نماز ادا کرے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 68 – 69 جلد 22 التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد - أبو عمر يوسف بن عبد الله بن محمد بن عبد البر بن عاصم النمري القرطبي (المتوفى: 463هـ) - وزارة عموم الأوقاف والشؤون الإسلامية – المغرب

وقوله ـ صلى الله عليه وسلم: (( أتصلي الصبح أربعًا ؟ )): إنكار على الرجل الذي فعل ذلك، وهذا الإنكار حجة على من ذهب إلى جواز صلاة ركعتي الفجر في المسجد والإمام يصلي

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ کیا تم صبح کی (فرض) نماز چار رکعت ادا کر رہے ہو ؟ یہ اس کام کرنے والے پر انکار ہے اور اس انکار میں اس شخص کا رد ہے جو امام کے نماز پڑھاتے ہوئے فجر کی دو رکعتوں کی ادائیگی کو جائز قرار دیتا ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 350 – 351 جلد 02 المفهم لما أشكل من كتاب تلخيص مسلم - أبو العباس أحمد بن عمر بن إبراهيم القرطبي (المتوفى: 656هـ) – دار ابن كثير، بيروت ودار الكلم الطيب، بيروت


قوله ﷺ أَتُصَلِّي الصُّبْحَ أَرْبَعًا هُوَ اسْتِفْهَامُ إِنْكَارٍ وَمَعْنَاهُ أَنَّهُ لَا يُشْرَعُ بَعْدَ الْإِقَامَةِ لِلصُّبْحِ إِلَّا الْفَرِيضَةُ فَإِذَا صَلَّى رَكْعَتَيْنِ نَافِلَةً بَعْدَ الْإِقَامَةِ ثُمَّ صَلَّى مَعَهُمُ الْفَرِيضَةَ صَارَ فِي مَعْنَى مَنْ صَلَّى الصُّبْحَ أَرْبَعًا لِأَنَّهُ صَلَّى بَعْدَ الْإِقَامَةِ أَرْبَعًا

فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم : کیا تم صبح کی ( فرض ) نماز چار رکعت ادا کرتے ہو ؟ یہ استفہام انکاری ہے۔ اس کا معنیٰ یہ ہے کہ صبح کی نماز کی اقامت کے بعد صرف فرضی نماز ہی ادا کی جا سکتی ہے۔ جب آدمی اقامت کے بعد دو رکعتیں نفل ادا کرے گا پھر نمازیوں کے ساتھ فرض پڑھے گا تو گویا صبح کی چار رکعت ادا کر رہا ہے کیونکہ اس نے اقامت کے بعد چار رکعتیں ادا کی ہیں۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 312 جلد 05 المنهاج شرح صحيح مسلم بن الحجاج - أبو زكريا محيي الدين يحيى بن شرف النووي (المتوفى: 676هـ) - مؤسسة قرطبة

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 495 المنهاج شرح صحيح مسلم بن الحجاج - أبو زكريا محيي الدين يحيى بن شرف النووي (المتوفى: 676هـ) - بيت الأفكار الدولية، بيروت

أَن رَسُول الله - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم َ - رأى رجلا وَقد أُقِيمَت الصَّلَاة يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ فَلَمَّا انْصَرف رَسُول الله - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم َ - لاث بِهِ النَّاس فَقَالَ لَهُ رَسُول الله - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم َ - آلصبح أَرْبعا آلصبح أَرْبعا) مطابقته للتَّرْجَمَة فِي قَوْله " آلصبح أَرْبعا " حَيْثُ أنكر - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم َ - على الرجل الَّذِي كَانَ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ بعد أَن أُقِيمَت صَلَاة الصُّبْح فَقَالَ " آلصبح أَرْبعا " أَي الصُّبْح تصلى أَرْبعا لِأَنَّهُ إِذا صلى رَكْعَتَيْنِ بعد أَن أُقِيمَت الصَّلَاة ثمَّ يُصَلِّي مَعَ الإِمَام رَكْعَتَيْنِ صَلَاة الصُّبْح فَيكون فِي معنى من صلى الصُّبْح أَرْبعا فَدلَّ هَذَا على أَن لَا صَلَاة بعد الْإِقَامَة إِلَّا الصَّلَاة الْمَكْتُوبَة.

فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم : کیا صبح کی نماز چار رکعت پڑھ رہے ہو ؟ اس قول کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص پر انکار کیا جو صبح کی نماز کھڑی ہونے کے بعد دو رکعتیں ادا کر رہا تھا۔ یعنی نماز کھڑی ہونے کے بعد جب وہ دو رکعتیں سنت ادا کر کے امام کے ساتھ صبح کی دو رکعت نماز پڑھے گا تو گویا اس نے صبح کی چار رکعتیں ادا کی ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اقامت ہو جانے کے بعد کوئی نماز سوائے فرضی نماز کے نہیں ہوتی۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 266 - 267 جلد 05 - عمدة القاري شرح صحيح البخاري - بدر الدين العينى الحنفي (المتوفى: 855هـ) - دار الكتب العلمية – بيروت

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 182 جلد 05 - عمدة القاري شرح صحيح البخاري - بدر الدين العينى الحنفي (المتوفى: 855هـ) - دار الفكر – بيروت

اس تاویل کی بنیاد و دلیل کیا ہے؟ وہ دلیل مطلوب ہے!
(جبکہ اللہ ے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی نفی اوپر بیان کی جا چکی ہے!)

قرطبی رحمہ اللہ کا حوالہ اگر پیش کردیں تو نوازش ہو گی!

امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا مسلک اس دوسری تاویل کے مطابق بھی نہیں، فقہ حنفیہ میں فجر کی فرض نماز شروع ہوجانے کے بعد بھی فجر کی سنتیں پڑھنے کا حکم دیا جاتا ہے:

سوال # 41937
فجر کی سنت موٴکدہ پڑھنے کے سلسلے میں صحیح رائے کیا ہے؟کیا ہم فرض نماز کے بعد دو رکعت سنت موٴکدہ پڑھ سکتے ہیں؟میرا ایک دوست سعودی عرب میں رہتاہے ، اس نے کہا کہ اگرتمہارے پاس وقت کم ہو اورایسا لگے کہ جماعت چھوٹ جائے گی تو تم کو مسجد میں فرض نماز میں شامل ہوجانا چاہئے ، اس کے ثبوت میں اس نے دو سے زیادہ احادیث پیش کئے ہیں۔ میں تذبذب کا شکار ہوگیا ہوں ۔ براہ کرم، اس بارے میں میری رہنمائی فرمائیں۔

جواب # 41937

بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 1446-1446/M=1/1435-U

فجر کی فرض سے پہلے دو رکعت سنت تمام سنتوں میں سب سے زیادہ موٴکد ہے، حدیث میں اس کی بڑی فضیلت اور تاکید آئی ہے، ایک حدیث میں ہے: ”رکعتا الفجر خیر من الدنیا وما فیہا“ ترجمہ: فجر کی دو رکعت سنت دنیا ومافیہا سے بہتر ہے۔ (اخرجہ احمد فی المسند ومسلم فی صحیحہ والترمذی فی جامعہ) اور ایک روایت میں ہے کہ ”فجر کی دو سنت پڑھا کرو اگرچہ تمھیں گھوڑے روند ڈالیں“ (مسند احمد: ۴/۴۰۵، ابوداوٴد، برقم: ۱۲۵۸) اس لیے اگر فجر کی جماعت شروع ہوجانے کے بعد کوئی شخص مسجد میں حاضر ہوا اور توقع یہ ہے کہ وہ سنت پڑھ کر امام کو ردوسری رکعت کے قیام یا قعدہ میں پالے گا تو اسے سنت فجر ترک نہ کرنا چاہیے بلکہ اس کو چاہیے کہ سنت ادا کرکے پھر جماعت میں شریک ہوجائے، لیکن یہ سنت کسی دیوار یا ستون کی آڑ میں صفوں سے باہر ہوکر ادا کرنی چاہیے، صفوں کے بیچ میں یا صف سے بالکل لگ کر ادا نہ کرے اور اگر ایسے وقت میں پہنچا کہ جماعت کی نماز آخری مرحلے میں تھی اور اتنا وقت نہیں کہ سنت پڑھ کر امام کے ساتھ نماز میں شریک ہوجائے بلکہ اندیشہ یہ ہے کہ اگر سنت پڑھنے میں لگا تو جماعت بالکلیہ فوت ہوجائے گی، ایسی صورت میں اس کو چاہیے کہ سنت کو چھوڑکر جماعت میں شامل ہوجائے، پھر اگر سنت فجر بعد میں پڑھنا چاہے تو فجر کے بعد طلوعِ شمس سے پہلے نہ پڑھے کیونکہ اس وقت نفل نماز مکروہ ہے، بلکہ طلوعِ شمس کے بعد مکروہ وقت ختم ہوجانے کے بعد پڑھ لے۔

واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،

دارالعلوم دیوبند
حوالہ
بات فجر کی سنتوں کی نہیں بلکہ نفل کی ہو رہی ہے۔
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
يا ایہا الذین آمنوا اطیعوا اللہ و اطیعوا الرسول و لا تبطلوا اعمالکم۔
اس آیت میں "و لا تبطلوا اعمالکم" مطلق ہے۔ اب دو میں سے کسی ایک چیز میں تاویل کی جائے گی۔
تاویل فی الآیۃ: لا تبطلوا اعمالکم سے مراد ہے فرض اعمال کے ثواب کو باطل کرنا۔ یعنی فرض کو باطل کرنے والا کوئی کام نہ کرو۔ نفل کو توڑنا اس میں داخل نہیں ہے۔ لہذا فرض نماز کی اقامت کے وقت نفل توڑنا حدیث مبارکہ کی وجہ سے لازم ہے۔
تاویل فی الحدیث: لا صلاۃ الا المکتوبۃ کا مطلب ہے کہ جب فرض نماز شروع ہو جائے تو پھر نفل کی ابتداء نہ کی جائے بلکہ فرض میں ہی شامل ہوا جائے۔ باقی اگر نفل پہلے سے شروع کیے ہوں تو آیت کی وجہ سے ان کو پورا کرنا لازم ہو جاتا ہے اور توڑنا جائز نہیں رہتا۔ لہذا نفل پورے کر کے فرض میں شامل ہونا چاہیے۔
(پہلی تاویل قرطبیؒ نے اور دوسری جصاص اور قرطبی رحمہما اللہ نے ذکر کی ہے۔)

اسی اعتبار سے یہ دو مسلک ہیں۔ امام شافعیؒ کا مسلک پہلی تاویل کے مطابق ہے اور امام مالک اور ابو حنیفہ رحمہما اللہ کا مسلک دوسری تاویل کے مطابق ہے۔ و الکل مصیب ان شاء اللہ۔
محترم بھائی پہلی بات تو یہ کہ واقعی بعض فقہاء نے ایسی تاویل کی ہے اور نیک نیتی سے ہی کی ہے اور اس پہ انکو ثواب ملے گا البتہ کیا وہ تاویل یا بات درست ہے یا اجتہادی غلطی ہے اس پہ کوئی بحث کر سکتا ہے اور اپنا موقف رکھ سکتا ہے
اوپر آپ نے آیت ولا تبطلوا کا ذکر کیا اس میں کچھ اشکالات ہیں
آپ نے آیت کے مطلق ہونے کا ذکر کیا تو پہلی بات یہ ہے کہ یہاں مطلق اور معین کو دو پہلووں سے دیکھتے ہیں
ایک پہلو تو اعمال کا ہے یعنی فرضی اعمال کا باطل کرنا یا نفی اعمال کا باطل کرنا یا دونوں کا باطل کرنا
اور ایک دوسرا پہلو باطل ہونے کی علت ہے یعنی کس وجہ سے فرضی یا نفلی یا دونوں اعمال کو باطل کرنا

یہاں یاد رکھیں کہ ان دونوں پہلووں کا اکٹھا دیکھنا لازمی ہے کیونکہ اسی سے پتا چلے گا کہ باطل سے مراد کیا ہے
میرے خیال میں پہلے پہلو کو متعین کرنے کے لئے تاویل کی ضرورت ہی نہیں رہتی جب آپ دوسرے پہلو کو متعین کر دیں اور دوسرا پہلو کا تعین سیاق سے قاضح ہے اور تفاسیر سے بھی واضح ہے اور صحابہ کے دور میں جب یہ آیت نازل ہوئی تو انہوں نے جو سمجھا اس سے بھی واضح ہے
میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ان نفلی اعمال کے باطل ہونے کی علت یا وجہ کو دیکھیں تو وہ کچھ بھی ہو سکتی ہے مثلا نفل کا توڑ دینا بھی ہو سکتی ہے اور ان نوافل کا شریعت کے حکم کے خلاف ہونا بھی ہو سکتی ہے پس جب ہم سیاق کو دیکھتے ہیں اور آیت کی تفاسیر کو دیکھتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ یہاں باطل ہونے سے مراد نماز کو توڑنا نہیں بلکہ اطیعوا اللہ و اطیعوا الرسول کے خلاف ہونا ہے
پس پوری آیت کا مفہوم یہ ہو گا کہ کوئی بھی نفلی یا فرضی عمل جب اطیعوا اللہ یا اطیعوا الرسول کے خلاف ہو تو وہ باطل ہو گا
پس اس سے تو واضح ہو رہا ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ کا حکم ہے کہ اقامت کے بعد کوئی نفلی نماز نہیں ہے تو پھر یہ سمجھ آتی ہے کہ اسکو جاری رکھنا چونکہ اطیعوا اللہ وطیعوا الرسول کے خلاف ہے پس جاری رکھنا ہی تبطلوا اعمالکم ہو گا اسکو توڑنا تو تبطلوا اعمالکم نہیں ہو گا
اسکی مثلا بالکل ویسے ہے کہ ویسے تو روزے میں کھانا تبطلوا اعمالکم یعنی روزہ کے عمل کو ضائع کرنا ہے مگر جب رسول اللہ ﷺ نے پہلے روزہ افطار کروایا تھا تو اس وقت پہلے روزہ افطار کرنا تبطلوا اعمالکم نہیں تھا بلکہ جو افطار نہیں کرتا وہ تبطلوا اعمالکم ہوتا واللہ اعلم
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
کیا کسی صحابی کا ایسا عمل کتب احادیث میں موجود ہے کہ وہ نماز پڑھ رہا تھا اور اقامت شروع ہو گئی تو اس نے نماز توڑ دی؟
کتب احادیث میں یہ روایت موجود ہے کہ عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فجر کی سنتیں جماعت کے ہوتے ہوئے پڑھیں۔
جی بھائی جان ایسی حدیث میرے علم میں تو نہیں کسی ور بھائی کا مجھے علم نہیں ویسے ذخیرہ احادیث میں کسی حکم پہ عمل نہ ملنا اس حکم کو باطل نہیں کرتا ایسے تو اور بھی احکامات ہیں کہ جن کا عملی نمونہ احادیث میں نہیں ملتا لیکن واضح حکم ہونے کی وجہ سے انکو قابل حجت منا جاتا ہے
البتہ بالکل اسی جیسی مکمل مماثلت رکھنے والی مختلف باتیں تو میرے علم میں ذخیرہ احادیث میں تواتر سے موجود ہے مثلا
۱۔ دن کے وقت چاند دیکھنے پہ روزہ افطار کر لینا ۔ اس میں بھی لوگوں کے سامنے پہلے روزہ کو شام تک مکمل کرنے کا ایک مطلق حکم قرآن میں موجود تھا مگر جب آپ نے روزہ توڑنے اور اگلے دن عید پڑھنے کا کہا تو سب نے توڑ دیا
۲۔اسی طرح صلح حدیبیہ کا واقعہ آتا ہے کہ وہاں جب آپ نے احرام خٹم کرنے ور سر منڈانے کا حکم دیا تو صحابہ نے پہلے گریز کیا مگر جب آپ نے عمل کر کے دیکھا دیا تو انہوں نے بھی عمل کر لیا
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
محترم @اشماریہ بھائی ایک سوال ذہن میں آیا ہے کہ ولا تبطلوا اعمالکم میں جو باطل ہے اس باطل سے کیا مراد ہے کیونکہ میرے علم کے مطابق احناف کے ہاں باطل وہ چیز ہوتی ہے جو اصل اور وصف دونوں میں منع ہو یعنی خلاف شریعت ہو جبکہ جو چیز اصل میں تو منع نہ ہو مگر وصف میں منع ہو وہ باطل کی بجائے فاسد ہوتی ہے اس اصول کے لحاظ سے یہ نفل توڑنا باطل کیسے بنے گا؟
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
محترم @اشماریہ بھائی ایک سوال ذہن میں آیا ہے کہ ولا تبطلوا اعمالکم میں جو باطل ہے اس باطل سے کیا مراد ہے کیونکہ میرے علم کے مطابق احناف کے ہاں باطل وہ چیز ہوتی ہے جو اصل اور وصف دونوں میں منع ہو یعنی خلاف شریعت ہو جبکہ جو چیز اصل میں تو منع نہ ہو مگر وصف میں منع ہو وہ باطل کی بجائے فاسد ہوتی ہے اس اصول کے لحاظ سے یہ نفل توڑنا باطل کیسے بنے گا؟
بھائی یہ جو آپ نے تعریف کی ہے یہ بیع باطل اور بیع فاسد کی ہے۔ یہ الگ چیز ہے اور اصطلاحی چیز ہے۔
یہاں باطل کرنے کا مطلب توڑنا لے لیں کہ ایک چیز شروع کر کے پھر اسے توڑ دیا جائے۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
محترم بھائی پہلی بات تو یہ کہ واقعی بعض فقہاء نے ایسی تاویل کی ہے اور نیک نیتی سے ہی کی ہے اور اس پہ انکو ثواب ملے گا البتہ کیا وہ تاویل یا بات درست ہے یا اجتہادی غلطی ہے اس پہ کوئی بحث کر سکتا ہے اور اپنا موقف رکھ سکتا ہے
اوپر آپ نے آیت ولا تبطلوا کا ذکر کیا اس میں کچھ اشکالات ہیں
آپ نے آیت کے مطلق ہونے کا ذکر کیا تو پہلی بات یہ ہے کہ یہاں مطلق اور معین کو دو پہلووں سے دیکھتے ہیں
ایک پہلو تو اعمال کا ہے یعنی فرضی اعمال کا باطل کرنا یا نفی اعمال کا باطل کرنا یا دونوں کا باطل کرنا
اور ایک دوسرا پہلو باطل ہونے کی علت ہے یعنی کس وجہ سے فرضی یا نفلی یا دونوں اعمال کو باطل کرنا

یہاں یاد رکھیں کہ ان دونوں پہلووں کا اکٹھا دیکھنا لازمی ہے کیونکہ اسی سے پتا چلے گا کہ باطل سے مراد کیا ہے
میرے خیال میں پہلے پہلو کو متعین کرنے کے لئے تاویل کی ضرورت ہی نہیں رہتی جب آپ دوسرے پہلو کو متعین کر دیں اور دوسرا پہلو کا تعین سیاق سے قاضح ہے اور تفاسیر سے بھی واضح ہے اور صحابہ کے دور میں جب یہ آیت نازل ہوئی تو انہوں نے جو سمجھا اس سے بھی واضح ہے
میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ان نفلی اعمال کے باطل ہونے کی علت یا وجہ کو دیکھیں تو وہ کچھ بھی ہو سکتی ہے مثلا نفل کا توڑ دینا بھی ہو سکتی ہے اور ان نوافل کا شریعت کے حکم کے خلاف ہونا بھی ہو سکتی ہے پس جب ہم سیاق کو دیکھتے ہیں اور آیت کی تفاسیر کو دیکھتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ یہاں باطل ہونے سے مراد نماز کو توڑنا نہیں بلکہ اطیعوا اللہ و اطیعوا الرسول کے خلاف ہونا ہے
پس پوری آیت کا مفہوم یہ ہو گا کہ کوئی بھی نفلی یا فرضی عمل جب اطیعوا اللہ یا اطیعوا الرسول کے خلاف ہو تو وہ باطل ہو گا
پس اس سے تو واضح ہو رہا ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ کا حکم ہے کہ اقامت کے بعد کوئی نفلی نماز نہیں ہے تو پھر یہ سمجھ آتی ہے کہ اسکو جاری رکھنا چونکہ اطیعوا اللہ وطیعوا الرسول کے خلاف ہے پس جاری رکھنا ہی تبطلوا اعمالکم ہو گا اسکو توڑنا تو تبطلوا اعمالکم نہیں ہو گا
اسکی مثلا بالکل ویسے ہے کہ ویسے تو روزے میں کھانا تبطلوا اعمالکم یعنی روزہ کے عمل کو ضائع کرنا ہے مگر جب رسول اللہ ﷺ نے پہلے روزہ افطار کروایا تھا تو اس وقت پہلے روزہ افطار کرنا تبطلوا اعمالکم نہیں تھا بلکہ جو افطار نہیں کرتا وہ تبطلوا اعمالکم ہوتا واللہ اعلم
محترم بھائی اسی لیے تو اجتہاد پر ثواب ملتا ہے کہ ہر کوئی اپنی کوشش کے مطابق نصوص کو سمجھنے اور تطبیق دینے کی کوشش کرتا ہے۔
میں نے اوپر صرف اسی لیے دونوں موقف لکھے تھے کہ ایک زاویے سے دیکھا جائے تو ایک موقف صحیح ہے اور دوسرے زاویے سے دیکھا جائے تو دوسرا صحیح ہے۔ اب یہ ہر ایک کے اجتہاد کی بات ہے کہ وہ کس کو ترجیح دیتا ہے۔ اس میں حد سے آگے نہیں جانا چاہیے۔
آپ نے اپنے اجتہاد کے مطابق ایک موقف کو ترجیح دی ہے اور اس موقف کے حامی علماء انہی دلائل کے ساتھ اس موقف کو ترجیح دیتے آئے ہیں۔ آپ کے طریقے کے مطابق آیت اور حدیث دونوں پر عمل ہوجاتا ہے اور یہ اجتہاد کی عمدگی ہوتی ہے کہ مجتہدکے پاس تعارض کا عمدہ حل موجود ہوتا ہے۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,410
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃا للہ وبرکاتہ!
بات فجر کی سنتوں کی نہیں بلکہ نفل کی ہو رہی ہے۔
حدیث میں وہ بھی صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی متفق علیہ حدیث میں خاص فجر کی سنت کو بھی نفل ہی کہا گیا ہے:

حَدَّثَنَا بَيَانُ بْنُ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: «لَمْ يَكُنِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى شَيْءٍ مِنَ النَّوَافِلِ أَشَدَّ مِنْهُ تَعَاهُدًا عَلَى رَكْعَتَيِ الفَجْرِ.
ہم سے بیان بن عمرو نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے یحیٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ا بن جریج نے بیان کیا، ان سے عطاءنے بیان کیا، ان سے عبید بن عمیر نے، ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی نفل نماز کی فجر کی دو رکعتوں سے زیادہ پا بندی نہیں کرتے تھے۔
‌صحيح البخاري: كِتَابُ التَّهَجُّدِ (بَابُ تَعَاهُدِرَكعَتِي الفَجرِ وَمَن سَمَّاهُمَا تَطَوُّعًا)
صحیح بخاری: کتاب: تہجد کا بیان (باب: فجر کی سنت کی دو رکعتیں ہمیشہ لازم کر لینا)

وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ قَالَ حَدَّثَنِي عَطَاءٌ عَنْ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَكُنْ عَلَى شَيْءٍ
مِنْ النَّوَافِلِ أَشَدَّ مُعَاهَدَةً مِنْهُ عَلَى رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ الصُّبْحِ.

حییٰ بن سعید نے ابن جریج سے روایت کی،انھوں نے کہا:مجھے عطاء بن عبید بن عمیر سے حدیث سنائی اور ا نھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سےروایت کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نوافل میں سے کسی اور (نماز) کی اتنی زیادہ پاسداری نہیں کرتے تھے جتنی آپ صبح سے پہلے کی دو رکعتوں کی کرتے تھے۔
صحيح مسلم: كِتَابُ صَلَاةِ الْمُسَافِرِينَ وَقَصْرِهَا (بَابُ اسْتِحْبَابِ رَكْعَتَيْ سُنَّةِ الْفَجْرِ، وَالْحَثِّ عَلَيْهِمَا وَتَخْفِيفِهِمَا، وَالْمُحَافَظَةِ عَلَيْهِمَا، وَبَيَانِ مَا يُسْتَحَبُّ أَنْ يُقْرَأَ فِيهِمَا)
صحیح مسلم: کتاب: مسافرو ں کی نماز قصر کا بیان (باب: فجر کی دو سنتوں کا مستحب ہونا ‘ان کی ترغیب‘ان کو مختصر پڑھنا ‘ہمیشہ ان کی پابندی کرنا اور اس بات کا بیان کہ ان میں کون سی (سورتوں کی )قراءت مستحب ہے)

اور یہ حدیث کتب فقہ حنفیہ میں بھی منقول ہے:
(قَوْلُهُ وَالسُّنَّةُ قَبْلَ الْفَجْرِ وَبَعْدَ الظُّهْرِ وَالْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ رَكْعَتَانِ وَقَبْلَ الظُّهْرِ وَالْجُمُعَةِ وَبَعْدَهَا أَرْبَعٌ) شَرَعَ فِي بَيَانِ النَّوَافِلِ بَعْدَ ذِكْرِ الْوَاجِبِ فَذَكَرَ أَنَّهَا نَوْعَانِ سُنَّةٌ وَمَنْدُوبٌ فَالْأَوَّلُ فِي كُلِّ يَوْمٍ مَا عَدَا الْجُمُعَةِ ثَنَتَا عَشْرَةَ رَكْعَةً وَفِي يَوْمِ الْجُمُعَةِ أَرْبَعَ عَشْرَةَ رَكْعَةً وَالْأَصْلُ فِيهِ مَا رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَغَيْرُهُ عَنْ عَائِشَةَ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا - قَالَتْ «قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - مَنْ ثَابَرَ عَلَى ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً مِنْ السُّنَّةِ بَنَى اللَّهُ لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ» وَذَكَرَهَا كَمَا فِي الْكِتَابِ وَرَوَى مُسْلِمٌ أَنَّهُ - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ - كَانَ يُصَلِّيهَا وَبَدَأَ الْمُصَنِّفُ بِسُنَّةِ الْفَجْرِ لِأَنَّهَا أَقْوَى السُّنَنِ بِاتِّفَاقِ الرِّوَايَاتِ لِمَا فِي الصَّحِيحَيْنِ عَنْ عَائِشَةَ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا - قَالَتْ «لَمْ يَكُنْ النَّبِيُّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - عَلَى شَيْءٍ مِنْ النَّوَافِلِ أَشَدَّ تَعَاهُدًا مِنْهُ عَلَى رَكْعَتَيْ الْفَجْرِ» وَفِي لَفْظٍ لِمُسْلِمٍ «رَكْعَتَا الْفَجْرِ خَيْرٌ مِنْ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا» وَفِي أَوْسَطِ الطَّبَرَانِيِّ عَنْهَا أَيْضًا «لَمْ أَرَهُ تَرَكَ الرَّكْعَتَيْنِ قَبْلَ صَلَاةِ الْفَجْرِ فِي سَفَرٍ وَلَا حَضَرٍ وَلَا صِحَّةٍ وَلَا سَقَمٍ» وَقَدْ ذَكَرُوا مَا يَدُلُّ عَلَى وُجُوبِهَا قَالَ فِي الْخُلَاصَةِ أَجْمَعُوا أَنَّ رَكْعَتَيْ الْفَجْرِ قَاعِدًا مِنْ غَيْرِ عُذْرٍ لَا يَجُوزُ كَذَا رَوَى الْحَسَنُ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ اهـ.
وَفِي النِّهَايَةِ قَالَ مَشَايِخُنَا الْعَالِمُ إذَا صَارَ مَرْجِعًا فِي الْفَتَاوَى يَجُوزُ لَهُ تَرْكُ سَائِرِ السُّنَنِ لِحَاجَةِ النَّاسِ إلَى فَتْوَاهُ إلَّا سُنَّةَ الْفَجْرِ اهـ.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 83 جلد 02 - البحر الرائق شرح كنز الدقائق - زين الدين بن إبراهيم بن محمد، المعروف بابن نجيم المصري (المتوفى: 970هـ) - دار الكتب العلمية

باب النوافل
السنة في الصلاة أن يصلي ركعتين بعد طلوع الفجر وأربعا قبل الظهر وركعتين بعدها وأربعا قبل العصر وإن شاء ركعتين وركعتين بعد المغرب وأربعا قبل العشاء وأربعا بعدها وإن شاء ركعتين

ونوافل النهار إن شاء صلى ركعتين بتسليمة واحدة وإن شاء أربعا وتكره الزيادة على ذلك
فأما نافلة الليل

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 33 مختصر القدوري في الفقه الحنفي - أحمد بن محمد بن أحمد بن جعفر بن حمدان أبو الحسين القدوري (المتوفى: 428هـ) - دار الكتب العلمية

بَاب صَلَاة التَّطَوُّع
التَّطَوُّع نَوْعَانِ تطوع مُطلق وتطوع بِسَبَب
أماالمطلق فَيُسْتَحَب أَدَاؤُهُ فِي كل وَقت لم يكره فِيهِ التَّطَوُّع
وَيجوز أَدَاؤُهُ مَعَ الْكَرَاهَة فِي الْأَوْقَات الْمَكْرُوهَة
وَأما التَّطَوُّع بِسَبَب فوقته مَا ورد الشَّرْع بِهِ كالسنن الْمَعْهُودَة للصلوات الْمَكْتُوبَة

وَذكر أَبُو الْحسن الْكَرْخِي هَهُنَا وَقَالَ التَّطَوُّع قبل الْفجْر رَكْعَتَانِ أَي التَّطَوُّع الْمسنون قبل صَلَاة الْفجْر رَكْعَتَانِ وَأَرْبع قبل الظّهْر لَا يسلم إِلَّا فِي آخرهَا وركعتان بعد الظّهْر وَأَرْبع قبل الْعَصْر وركعتان بعد الْمغرب وَأَرْبع قبل الْعشَاء الْأَخِيرَة إِن أحب ذَلِك وَأَرْبع بعْدهَا

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 195 جلد 01 تحفة الفقهاء - محمد بن أحمد بن أبي أحمد، أبو بكر علاء الدين السمرقندي (المتوفى: نحو 540هـ) - دار الكتب العلمية، بيروت

[فَصْلٌ صِفَةُ الْقِرَاءَةِ فِي التطوع]
(فَصْلٌ):
وَأَمَّا صِفَةُ الْقِرَاءَةِ فِيهَا فَالْقِرَاءَةُ فِي السُّنَنِ فِي الرَّكَعَاتِ كُلِّهَا فَرْضٌ؛
لِأَنَّ السُّنَّةَ تَطَوُّعٌ وَكُلُّ شَفْعٍ مِنْ التَّطَوُّعِ صَلَاةٌ عَلَى حِدَةٍ؛ لِمَا نَذْكُرُ فِي صَلَاةِ التَّطَوُّعِ فَكَانَ كُلُّ شَفْعٍ مِنْهَا بِمَنْزِلَةِ الشَّفْعِ الْأَوَّلِ مِنْ الْفَرَائِضِ، وَقَدْ رَوَيْنَا فِي حَدِيثِ أَبِي أَيُّوبَ أَنَّهُ «سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - عَنْ الْأَرْبَعِ قَبْلَ الظُّهْرِ أَفِي كُلِّهِنَّ قِرَاءَةٌ؟ قَالَ: نَعَمْ» وَاَللَّهُ أَعْلَمُ.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 285 جلد 02 - بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع - علاء الدين، أبو بكر بن مسعود بن أحمد الكاساني الحنفي (المتوفى: 587هـ) - دار الكتب العلمية

(وَالسُّنَّةُ قَبْلَ) فَرْضِ (الْفَجْرِ) لَمَّا بَيَّنَ أَحْكَامَ الْوِتْرِ شَرَعَ فِي النَّوَافِلِ وَالنَّفَلُ أَعَمُّ مِنْ السُّنَّةِ مُؤَكَّدَةٍ وَغَيْرِ مُؤَكَّدَةٍ وَابْتَدَأَ بِسُنَّةِ الْفَجْرِ لِأَنَّهَا أَقْوَى السُّنَنِ حَتَّى رَوَى الْحَسَنُ عَنْ الْإِمَامِ لَوْ صَلَّاهَا قَاعِدًا مِنْ غَيْرِ عُذْرٍ لَا تَجُوزُ.
وَفِي لَفْظِ مُسْلِمٍ «رَكْعَتَا الْفَجْرِ خَيْرٌ مِنْ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا» قَالُوا الْعَالِمُ إذَا صَارَ مَرْجِعًا لِلْفَتْوَى يَجُوزُ لَهُ تَرْكُ سَائِرِ السُّنَنِ لِحَاجَةِ النَّاسِ إلَّا سُنَّةَ الْفَجْرِ وَتُقْضَى إذَا فَاتَتْ مَعَهُ بِخِلَافِ سَائِرِ السُّنَنِ وَفِي الْبَحْرِ مَنْ أَنْكَرَ سُنَّةَ الْفَجْرِ يُخْشَى عَلَيْهِ الْكُفْرُ.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 193 - 194 جلد 01 مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر - عبد الرحمن بن محمد بن سليمان المدعو بشيخي زاده, يعرف بداماد أفندي (المتوفى: 1078هـ) - دار الكتب العلمية
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 130 جلد 01 مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر - عبد الرحمن بن محمد بن سليمان المدعو بشيخي زاده, يعرف بداماد أفندي (المتوفى: 1078هـ) - دار إحياء التراث العربي


[بَابُ النَّوَافِلِ]
ابْتَدَأَ بِسُنَّةِ الْفَجْرِ
لِأَنَّهَا أَقْوَى السُّنَنِ حَتَّى رَوَى الْحَسَنُ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ لَوْ صَلَّاهَا قَاعِدًا مِنْ غَيْرِ عُذْرٍ لَا يَجُوزُ، وَقَالُوا: الْعَالِمُ إذَا صَارَ مَرْجِعًا لِلْفَتْوَى جَازَ لَهُ تَرْكُ سَائِرِ السُّنَنِ لِحَاجَةِ النَّاسِ إلَّا سُنَّةَ الْفَجْرِ.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 455 جلد 01 - شرح فتح القدير شرح كتاب الهداية في شرح البداية - كمال الدين محمد بن عبد الواحد السيواسي المعروف بابن الهمام (المتوفى: 861هـ) - دار الكتب العلمية

بَابُ النَّوَافِلِ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: «مَنْ ثَابَرَ عَلَى ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً فِي الْيَوْمِ وَاللَّيْلَةِ بَنَى اللَّهُ لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ: رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ الْفَجْرِ، وَأَرْبَعًا قَبْلَ الظُّهْرِ، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَهَا، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْمَغْرِبِ، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعِشَاءَ». وَيُسْتَحَبُّ أَنْ يُصَلِّيَ بَعْدَ الظُّهْرِ أَرْبَعًا،
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 65 جلد 01 - الاختيار لتعليل المختار - عبد الله بن محمود بن مودود الموصلي البلدحي، مجد الدين أبو الفضل الحنفي (المتوفى: 683هـ) - دار الكتب العلمية، بيروت

تو جناب! ہمارا مراسلہ بلکل بھی غیر متعلق نہیں!
کیونکہ مکتوبہ یعنی فرض نمازوں کے علاوہ تمام نمازیں غیر مکتوبہ یعنی صلاۃ التطوع یعنی نوافل ہی ہیں! اور سنت مؤکدہ وغیر مؤکدہ بھی اسی کی اقسام میں سے ہیں!
اور ویسے بھی جس حدیث کے حوالہ سے بحث کی گئی ہے، اس میں لا صلاة الا مکتوبہ کے االفاظ ہیں۔
بالفرض محال اب بھی کوئی بضد ہو تو معلوم ہونا چاہئے کہ سنت نماز بھی الا مکتوبہ میں شامل ہے، یعنی کہ سنت نماز بھی فرض و مکتوبہ نماز نہیں! اور یہ حدیث اس کے متعلق بھی ہے!
 
شمولیت
دسمبر 01، 2016
پیغامات
141
ری ایکشن اسکور
26
پوائنٹ
71
اگر نفل ادا كرتے ہوئے نماز كى اقامت ہو جائے ؟

اگر ميں سنتيں ادا كر رہا ہوں اور نماز كى اقامت ہو جائے تو كيا ميں سلام پھير كر جماعت كے ساتھ مل جاؤں، يا سنتيں مكمل كروں ؟

Published Date: 2011-05-05

الحمد للہ:

امام مسلم رحمہ اللہ تعالى نے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جب نماز كى اقامت ہو جائے تو فرضى نماز كے علاوہ كوئى نماز نہيں ہوتى "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 710 ).

يہ حديث اس كى دليل ہے كہ جب نماز كى اقامت ہو جائے تو كسى بھى شخص كے ليے نفل ادا كرنے جائز نہيں.

ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

( جب نماز كى اقامت ہو جائے تو اسے چھوڑ كر نفل ادا نہيں كيے جا سكتے، چاہے پہلى ركعت جانے كا خدشہ ہو يا نہ ہو، ابو ہريرہ، ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہم، اور عروہ، ابن سيرين، سعيد بن جبير، امام شافعى، اسحاق، اور ابو ثور رحمہم اللہ كا يہى قول ہے ) اھـ

ديكھيں: المغنى ( 1 / 272 ).

اور بعض علماء كرام نے اس حديث سے يہ استدلال كيا ہے كہ جو شخص نفل اور سنت ادا كر رہا ہو اور نماز كى اقامت ہو جائے تو وہ نفل توڑ دے.

حافظ عراقى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

( نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ قول: " كوئى نماز نہيں "

احتمال ہے كہ اس سے يہ مراد ہو كہ جب نماز كى اقامت ہو جائے تو وہ شروع نہ كرے.

اور يہ بھى احتمال ہے كہ اس سے مراد يہ ہو كہ وہ نماز ميں مشغول نہ ہو اور اگر اس نے اقامت ہونے سے قبل نماز شروع كر لى تو وہ تكبير تحريمہ كى فضيلت حاصل كرنے كے ليے نماز توڑ دے.

يا پھر اگر نمازى نماز نہيں توڑتا تو وہ خود ہى باطل ہو جائيگى، دونوں كا ہى احتمال ہے ).

شافعيہ ميں سے ابو حامد سے منقول ہے كہ: اگر نفلى نماز مكمل كرنے ميں تكبير تحريمہ كى فضيلت فوت ہونے كا خدشہ ہو تو نفلى نماز ختم كرنا افضل ہے.

عراقى رحمہ اللہ تعالى كى كلام شوكانى رحمہ اللہ تعالى نے نيل الاوطار ( 3 / 91 ) ميں نقل كى ہے.

جب مستقل فتوى كميٹى سے اس كے متعلق دريافت كيا گيا تو اس كا بھى فتوى يہى تھا:

سوال يہ تھا:

كيا ميں سنتيں ختم كر كے تكبير تحريمہ ميں امام كے ساتھ ملوں يا كہ سنتيں مكمل كروں ؟

كميٹى كا جواب تھا:

جى ہاں جب فرضى نماز كى اقامت ہو جائے تو جو نفل اور سنتيں آپ ادا كر رہے ہيں اسے توڑ ديں تا كہ امام كے ساتھ تكبير تحريمہ ميں مل سكيں، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جب نماز كى اقامت ہو جائے تو فرضى نماز كے علاوہ كوئى نماز نہيں "

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 7 / 312 ).

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى نے اسے راجح قرار ديا ہے كہ جب نماز كى اقامت ہو اور وہ سنتوں يا نفل كى پہلى ركعت ميں ہو تو نماز توڑ دے، اور جب اقامت ہو جائے اور وہ دوسرى ركعت ميں ہو تو اسے ہلكى اور تخفيف كے ساتھ ادا كرلينى چاہيے وہ توڑے نہيں.

شيخ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

اس مسئلہ ميں ہمارى رائے يہ ہے كہ:

اگر آپ دوسرى ركعت ميں ہوں تو اسے ہلكى كر كے ادا كر ليں، اور اگر پہلى ركعت ميں ہوں تو نماز توڑ ديں، اس ميں ہمارى دليل نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ فرمان ہے:

" جس نے نماز كى ايك ركعت پا لى تو اس نے نماز پا لى "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 580 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 607 ).

اور يہ شخص جس نے اقامت ہونے سے قبل ايك ركعت ادا كر لى تو اس نے معارض جو كہ نماز كى اقامت ہے سے سالم نماز پا لى، تو اس طرح ممانعت سے قبل ايك ركعت ادا كر لينے كى بنا پر نماز پالى لھذا اسے تخفيف كر كے اسے مكمل كر لينا چاہيے...

پھر شيخ كہتے ہيں: اور اس سے دليل ميں جمع ہوجاتا ہے. اھـ

ديكھيں: الشرح الممتع ( 4 / 238 ).

اور اگر وہ نفل يا سنت كو توڑے تو وہ بغير سلام كے توڑ دے.

مستقل فتوى كميٹى سے درج ذيل سوال كيا گيا:

جب نماز كے ليے اقامت ہو جائے اور كوئى شخص سنتيں يا تحيۃ المسجد ادا كر رہا ہو تو كيا وہ فرضى نماز كے ساتھ ملنے كے ليے اپنى نماز توڑ دے؟

اگر جواب اثبات ميں ہو تو كيا وہ نماز توڑتے وقت دونوں طرف سلام پھيرے يا كہ بغير سلام كے نماز توڑ دے ؟

كميٹى كا جواب تھا:

" علماء كرام كا صحيح قول يہى ہے كہ وہ اس نماز كو توڑ دے، اور اس كے ليے اسے نماز سے نكلنے كے ليے سلام پھيرنے كى ضرورت نہيں، نماز توڑ كر وہ امام كے ساتھ شامل ہو جائے " اھـ

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 7 / 312 ).

واللہ اعلم .

الاسلام سوال وجواب

https://islamqa.info/ur/33582
جزاک اللہ خیرا
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
السلام علیکم ورحمۃا للہ وبرکاتہ!


حدیث میں وہ بھی صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی متفق علیہ حدیث میں خاص فجر کی سنت کو بھی نفل ہی کہا گیا ہے:

حَدَّثَنَا بَيَانُ بْنُ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: «لَمْ يَكُنِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى شَيْءٍ مِنَ النَّوَافِلِ أَشَدَّ مِنْهُ تَعَاهُدًا عَلَى رَكْعَتَيِ الفَجْرِ.
ہم سے بیان بن عمرو نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے یحیٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ا بن جریج نے بیان کیا، ان سے عطاءنے بیان کیا، ان سے عبید بن عمیر نے، ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی نفل نماز کی فجر کی دو رکعتوں سے زیادہ پا بندی نہیں کرتے تھے۔
‌صحيح البخاري: كِتَابُ التَّهَجُّدِ (بَابُ تَعَاهُدِرَكعَتِي الفَجرِ وَمَن سَمَّاهُمَا تَطَوُّعًا)
صحیح بخاری: کتاب: تہجد کا بیان (باب: فجر کی سنت کی دو رکعتیں ہمیشہ لازم کر لینا)

وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ قَالَ حَدَّثَنِي عَطَاءٌ عَنْ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَكُنْ عَلَى شَيْءٍ
مِنْ النَّوَافِلِ أَشَدَّ مُعَاهَدَةً مِنْهُ عَلَى رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ الصُّبْحِ.

حییٰ بن سعید نے ابن جریج سے روایت کی،انھوں نے کہا:مجھے عطاء بن عبید بن عمیر سے حدیث سنائی اور ا نھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سےروایت کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نوافل میں سے کسی اور (نماز) کی اتنی زیادہ پاسداری نہیں کرتے تھے جتنی آپ صبح سے پہلے کی دو رکعتوں کی کرتے تھے۔
صحيح مسلم: كِتَابُ صَلَاةِ الْمُسَافِرِينَ وَقَصْرِهَا (بَابُ اسْتِحْبَابِ رَكْعَتَيْ سُنَّةِ الْفَجْرِ، وَالْحَثِّ عَلَيْهِمَا وَتَخْفِيفِهِمَا، وَالْمُحَافَظَةِ عَلَيْهِمَا، وَبَيَانِ مَا يُسْتَحَبُّ أَنْ يُقْرَأَ فِيهِمَا)
صحیح مسلم: کتاب: مسافرو ں کی نماز قصر کا بیان (باب: فجر کی دو سنتوں کا مستحب ہونا ‘ان کی ترغیب‘ان کو مختصر پڑھنا ‘ہمیشہ ان کی پابندی کرنا اور اس بات کا بیان کہ ان میں کون سی (سورتوں کی )قراءت مستحب ہے)

اور یہ حدیث کتب فقہ حنفیہ میں بھی منقول ہے:
(قَوْلُهُ وَالسُّنَّةُ قَبْلَ الْفَجْرِ وَبَعْدَ الظُّهْرِ وَالْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ رَكْعَتَانِ وَقَبْلَ الظُّهْرِ وَالْجُمُعَةِ وَبَعْدَهَا أَرْبَعٌ) شَرَعَ فِي بَيَانِ النَّوَافِلِ بَعْدَ ذِكْرِ الْوَاجِبِ فَذَكَرَ أَنَّهَا نَوْعَانِ سُنَّةٌ وَمَنْدُوبٌ فَالْأَوَّلُ فِي كُلِّ يَوْمٍ مَا عَدَا الْجُمُعَةِ ثَنَتَا عَشْرَةَ رَكْعَةً وَفِي يَوْمِ الْجُمُعَةِ أَرْبَعَ عَشْرَةَ رَكْعَةً وَالْأَصْلُ فِيهِ مَا رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَغَيْرُهُ عَنْ عَائِشَةَ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا - قَالَتْ «قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - مَنْ ثَابَرَ عَلَى ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً مِنْ السُّنَّةِ بَنَى اللَّهُ لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ» وَذَكَرَهَا كَمَا فِي الْكِتَابِ وَرَوَى مُسْلِمٌ أَنَّهُ - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ - كَانَ يُصَلِّيهَا وَبَدَأَ الْمُصَنِّفُ بِسُنَّةِ الْفَجْرِ لِأَنَّهَا أَقْوَى السُّنَنِ بِاتِّفَاقِ الرِّوَايَاتِ لِمَا فِي الصَّحِيحَيْنِ عَنْ عَائِشَةَ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا - قَالَتْ «لَمْ يَكُنْ النَّبِيُّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - عَلَى شَيْءٍ مِنْ النَّوَافِلِ أَشَدَّ تَعَاهُدًا مِنْهُ عَلَى رَكْعَتَيْ الْفَجْرِ» وَفِي لَفْظٍ لِمُسْلِمٍ «رَكْعَتَا الْفَجْرِ خَيْرٌ مِنْ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا» وَفِي أَوْسَطِ الطَّبَرَانِيِّ عَنْهَا أَيْضًا «لَمْ أَرَهُ تَرَكَ الرَّكْعَتَيْنِ قَبْلَ صَلَاةِ الْفَجْرِ فِي سَفَرٍ وَلَا حَضَرٍ وَلَا صِحَّةٍ وَلَا سَقَمٍ» وَقَدْ ذَكَرُوا مَا يَدُلُّ عَلَى وُجُوبِهَا قَالَ فِي الْخُلَاصَةِ أَجْمَعُوا أَنَّ رَكْعَتَيْ الْفَجْرِ قَاعِدًا مِنْ غَيْرِ عُذْرٍ لَا يَجُوزُ كَذَا رَوَى الْحَسَنُ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ اهـ.
وَفِي النِّهَايَةِ قَالَ مَشَايِخُنَا الْعَالِمُ إذَا صَارَ مَرْجِعًا فِي الْفَتَاوَى يَجُوزُ لَهُ تَرْكُ سَائِرِ السُّنَنِ لِحَاجَةِ النَّاسِ إلَى فَتْوَاهُ إلَّا سُنَّةَ الْفَجْرِ اهـ.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 83 جلد 02 - البحر الرائق شرح كنز الدقائق - زين الدين بن إبراهيم بن محمد، المعروف بابن نجيم المصري (المتوفى: 970هـ) - دار الكتب العلمية

باب النوافل
السنة في الصلاة أن يصلي ركعتين بعد طلوع الفجر وأربعا قبل الظهر وركعتين بعدها وأربعا قبل العصر وإن شاء ركعتين وركعتين بعد المغرب وأربعا قبل العشاء وأربعا بعدها وإن شاء ركعتين

ونوافل النهار إن شاء صلى ركعتين بتسليمة واحدة وإن شاء أربعا وتكره الزيادة على ذلك
فأما نافلة الليل

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 33 مختصر القدوري في الفقه الحنفي - أحمد بن محمد بن أحمد بن جعفر بن حمدان أبو الحسين القدوري (المتوفى: 428هـ) - دار الكتب العلمية

بَاب صَلَاة التَّطَوُّع
التَّطَوُّع نَوْعَانِ تطوع مُطلق وتطوع بِسَبَب
أماالمطلق فَيُسْتَحَب أَدَاؤُهُ فِي كل وَقت لم يكره فِيهِ التَّطَوُّع
وَيجوز أَدَاؤُهُ مَعَ الْكَرَاهَة فِي الْأَوْقَات الْمَكْرُوهَة
وَأما التَّطَوُّع بِسَبَب فوقته مَا ورد الشَّرْع بِهِ كالسنن الْمَعْهُودَة للصلوات الْمَكْتُوبَة

وَذكر أَبُو الْحسن الْكَرْخِي هَهُنَا وَقَالَ التَّطَوُّع قبل الْفجْر رَكْعَتَانِ أَي التَّطَوُّع الْمسنون قبل صَلَاة الْفجْر رَكْعَتَانِ وَأَرْبع قبل الظّهْر لَا يسلم إِلَّا فِي آخرهَا وركعتان بعد الظّهْر وَأَرْبع قبل الْعَصْر وركعتان بعد الْمغرب وَأَرْبع قبل الْعشَاء الْأَخِيرَة إِن أحب ذَلِك وَأَرْبع بعْدهَا

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 195 جلد 01 تحفة الفقهاء - محمد بن أحمد بن أبي أحمد، أبو بكر علاء الدين السمرقندي (المتوفى: نحو 540هـ) - دار الكتب العلمية، بيروت

[فَصْلٌ صِفَةُ الْقِرَاءَةِ فِي التطوع]
(فَصْلٌ):
وَأَمَّا صِفَةُ الْقِرَاءَةِ فِيهَا فَالْقِرَاءَةُ فِي السُّنَنِ فِي الرَّكَعَاتِ كُلِّهَا فَرْضٌ؛
لِأَنَّ السُّنَّةَ تَطَوُّعٌ وَكُلُّ شَفْعٍ مِنْ التَّطَوُّعِ صَلَاةٌ عَلَى حِدَةٍ؛ لِمَا نَذْكُرُ فِي صَلَاةِ التَّطَوُّعِ فَكَانَ كُلُّ شَفْعٍ مِنْهَا بِمَنْزِلَةِ الشَّفْعِ الْأَوَّلِ مِنْ الْفَرَائِضِ، وَقَدْ رَوَيْنَا فِي حَدِيثِ أَبِي أَيُّوبَ أَنَّهُ «سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - عَنْ الْأَرْبَعِ قَبْلَ الظُّهْرِ أَفِي كُلِّهِنَّ قِرَاءَةٌ؟ قَالَ: نَعَمْ» وَاَللَّهُ أَعْلَمُ.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 285 جلد 02 - بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع - علاء الدين، أبو بكر بن مسعود بن أحمد الكاساني الحنفي (المتوفى: 587هـ) - دار الكتب العلمية

(وَالسُّنَّةُ قَبْلَ) فَرْضِ (الْفَجْرِ) لَمَّا بَيَّنَ أَحْكَامَ الْوِتْرِ شَرَعَ فِي النَّوَافِلِ وَالنَّفَلُ أَعَمُّ مِنْ السُّنَّةِ مُؤَكَّدَةٍ وَغَيْرِ مُؤَكَّدَةٍ وَابْتَدَأَ بِسُنَّةِ الْفَجْرِ لِأَنَّهَا أَقْوَى السُّنَنِ حَتَّى رَوَى الْحَسَنُ عَنْ الْإِمَامِ لَوْ صَلَّاهَا قَاعِدًا مِنْ غَيْرِ عُذْرٍ لَا تَجُوزُ.
وَفِي لَفْظِ مُسْلِمٍ «رَكْعَتَا الْفَجْرِ خَيْرٌ مِنْ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا» قَالُوا الْعَالِمُ إذَا صَارَ مَرْجِعًا لِلْفَتْوَى يَجُوزُ لَهُ تَرْكُ سَائِرِ السُّنَنِ لِحَاجَةِ النَّاسِ إلَّا سُنَّةَ الْفَجْرِ وَتُقْضَى إذَا فَاتَتْ مَعَهُ بِخِلَافِ سَائِرِ السُّنَنِ وَفِي الْبَحْرِ مَنْ أَنْكَرَ سُنَّةَ الْفَجْرِ يُخْشَى عَلَيْهِ الْكُفْرُ.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 193 - 194 جلد 01 مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر - عبد الرحمن بن محمد بن سليمان المدعو بشيخي زاده, يعرف بداماد أفندي (المتوفى: 1078هـ) - دار الكتب العلمية
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 130 جلد 01 مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر - عبد الرحمن بن محمد بن سليمان المدعو بشيخي زاده, يعرف بداماد أفندي (المتوفى: 1078هـ) - دار إحياء التراث العربي


[بَابُ النَّوَافِلِ]
ابْتَدَأَ بِسُنَّةِ الْفَجْرِ
لِأَنَّهَا أَقْوَى السُّنَنِ حَتَّى رَوَى الْحَسَنُ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ لَوْ صَلَّاهَا قَاعِدًا مِنْ غَيْرِ عُذْرٍ لَا يَجُوزُ، وَقَالُوا: الْعَالِمُ إذَا صَارَ مَرْجِعًا لِلْفَتْوَى جَازَ لَهُ تَرْكُ سَائِرِ السُّنَنِ لِحَاجَةِ النَّاسِ إلَّا سُنَّةَ الْفَجْرِ.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 455 جلد 01 - شرح فتح القدير شرح كتاب الهداية في شرح البداية - كمال الدين محمد بن عبد الواحد السيواسي المعروف بابن الهمام (المتوفى: 861هـ) - دار الكتب العلمية

بَابُ النَّوَافِلِ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: «مَنْ ثَابَرَ عَلَى ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً فِي الْيَوْمِ وَاللَّيْلَةِ بَنَى اللَّهُ لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ: رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ الْفَجْرِ، وَأَرْبَعًا قَبْلَ الظُّهْرِ، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَهَا، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْمَغْرِبِ، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعِشَاءَ». وَيُسْتَحَبُّ أَنْ يُصَلِّيَ بَعْدَ الظُّهْرِ أَرْبَعًا،
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 65 جلد 01 - الاختيار لتعليل المختار - عبد الله بن محمود بن مودود الموصلي البلدحي، مجد الدين أبو الفضل الحنفي (المتوفى: 683هـ) - دار الكتب العلمية، بيروت

تو جناب! ہمارا مراسلہ بلکل بھی غیر متعلق نہیں!
کیونکہ مکتوبہ یعنی فرض نمازوں کے علاوہ تمام نمازیں غیر مکتوبہ یعنی صلاۃ التطوع یعنی نوافل ہی ہیں! اور سنت مؤکدہ وغیر مؤکدہ بھی اسی کی اقسام میں سے ہیں!
اور ویسے بھی جس حدیث کے حوالہ سے بحث کی گئی ہے، اس میں لا صلاة الا مکتوبہ کے االفاظ ہیں۔
بالفرض محال اب بھی کوئی بضد ہو تو معلوم ہونا چاہئے کہ سنت نماز بھی الا مکتوبہ میں شامل ہے، یعنی کہ سنت نماز بھی فرض و مکتوبہ نماز نہیں! اور یہ حدیث اس کے متعلق بھی ہے!
فجر کی سنتوں کو نفل کہنے سے کیا فجر کی سنتوں کے ساتھ خاص واقعات کو تمام سنتوں یا تمام نوافل پر چسپاں کیا جا سکتا ہے؟
 
Last edited:

ابو عبدالله

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 28، 2011
پیغامات
723
ری ایکشن اسکور
448
پوائنٹ
135
فجر کی سنتوں کو نفل کہنے سے کیا فجر کی سنتوں کے ساتھ خاص واقعات کو تمام سنتوں یا تمام نوافل پر چسپاں کیا جا سکتا ہے؟
میرا خیال ہے کہ جب ہیں ہی وہ واقعات فجر کی سنتوں کے ساتھ خاص تو دوسروں پر چسپاں کیسے کیے جاسکتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب بھی ہرگز نہیں کہ اب فجر کی سنتیں "نوافل" نہیں رہیں۔
 
Top