اشماریہ
سینئر رکن
- شمولیت
- دسمبر 15، 2013
- پیغامات
- 2,682
- ری ایکشن اسکور
- 752
- پوائنٹ
- 290
بات فجر کی سنتوں کی نہیں بلکہ نفل کی ہو رہی ہے۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
جی! تاویل کی نوعیت کیا ہے، کہ آیا اس تاویل کی بنیاد کیا ہے اور آیا اس سے کسی حکم کا انکار تو لازم نہیں آتا!
اس بنا پر تاویل مقبول یا مردود قرار پائے گی!
جی ! یہ تاویل یعنی تفسیر یعنی کہ اس آیت کے معنی و حکم کا یہ تعین اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کی بنیاد پر ہے، کہ یہ تخصیص اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے؛
قَالَ أَبُو عُمَرَ قَدْ ثَبَتَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ إِذَا أُقِيمَتِ الصَّلَاةُ فَلَا صَلَاةَ إِلَّا الْمَكْتُوبَةُ الَّتِي أُقِيمَتْ رَوَاهُ أَبُو سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَعَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَالْحُجَّةُ عِنْدَ التَّنَازُعِ السُّنَّةُ فَمَنْ أَدْلَى بِهَا فَقَدْ أَفْلَحَ وَمَنِ اسْتَعْمَلَهَا فقد نجا وما توفيقي إلا بالله.
اختلاف کے وقت دلیل سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہوتی ہے۔ جو شخص سنت کی تعمیل کرے وہ کامیاب اور جو اس پر عمل کرے وہ نجات مند ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 74 جلد 22 التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد - أبو عمر يوسف بن عبد الله بن محمد بن عبد البر بن عاصم النمري القرطبي (المتوفى: 463هـ) - وزارة عموم الأوقاف والشؤون الإسلامية – المغرب
حَدَّثَنَا عَبْدُ العَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَالِكٍ ابْنِ بُحَيْنَةَ، قَالَ: مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِرَجُلٍ قَالَ: ح وَحَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ يَعْنِي ابْنَ بِشْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا بَهْزُ بْنُ أَسَدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَعْدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: سَمِعْتُ حَفْصَ بْنَ عَاصِمٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَجُلًا مِنَ الأَزْدِ يُقَالُ لَهُ: مَالِكُ ابْنُ بُحَيْنَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَجُلًا وَقَدْ أُقِيمَتِ الصَّلاَةُ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ، فَلَمَّا انْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لاَثَ بِهِ النَّاسُ، وَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الصُّبْحَ أَرْبَعًا، الصُّبْحَ أَرْبَعًا» تَابَعَهُ غُنْدَرٌ، وَمُعَاذٌ، عَنْ شُعْبَةَ فِي مَالِكٍ، وَقَالَ ابْنُ إِسْحَاقَ: عَنْ سَعْدٍ، عَنْ حَفْصٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ابْنِ بُحَيْنَةَ، وَقَالَ حَمَّادٌ: أَخْبَرَنَا سَعْدٌ، عَنْ حَفْصٍ، عَنْ مَالِكٍ.
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابراہیم بن سعد نے اپنے باپ سعد بن ابراہیم سے بیان کیا، انھوں نے حفص بن عاصم سے، انھوں نے عبداللہ بن مالک بن بحینہ سے، کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک شخص پر ہوا ( دوسری سند ) امام بخاری نے کہا کہ مجھ سے عبدالرحمن بن بشر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے بہز بن اسد نے بیان کیا۔ کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھے سعد بن ابراہیم نے خبر دی، کہا کہ میں نے حفص بن عاصم سے سنا، کہا کہ میں نے قبیلہ ازد کے ایک صاحب سے جن کا نام مالک بن بحینہ رضی اللہ عنہ تھا، سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر ایک ایسے نمازی پر پڑی جو تکبیر کے بعد دو رکعت نماز پڑھ رہا تھا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز سے فارغ ہو گئے تو لوگ اس شخص کے ارد گرد جمع ہو گئے اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا صبح کی چار رکعتیں پڑھتا ہے؟ کیا صبح کی چار رکعتیں ہو گئیں؟ اس حدیث کی متابعت غندر اور معاذ نے شعبہ سے کی ہے جو مالک سے روایت کرتے ہیں۔ ابن اسحاق نے سعد سے، انھوں نے حفص سے، وہ عبداللہ بن بحینہ سے اور حماد نے کہا کہ ہمیں سعد نے حفص کے واسطہ سے خبر دی اور وہ مالک کے واسطہ سے۔
صحيح البخاري: كِتَابُ الأَذَانِ (بابٌ إِذَا أُقِيمَتِ الصَّلاَةُ فَلاَ صَلاَةَ إِلَّا المَكْتُوبَةَ)
صحیح بخاری: کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں (باب: جب نماز کی تکبیر ہونے لگے)
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ الْقَعْنَبِيُّ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَالِكٍ ابْنِ بُحَيْنَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِرَجُلٍ يُصَلِّي وَقَدْ أُقِيمَتْ صَلَاةُ الصُّبْحِ فَكَلَّمَهُ بِشَيْءٍ لَا نَدْرِي مَا هُوَ فَلَمَّا انْصَرَفْنَا أَحَطْنَا نَقُولُ مَاذَا قَالَ لَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ قَالَ لِي يُوشِكُ أَنْ يُصَلِّيَ أَحَدُكُمْ الصُّبْحَ أَرْبَعًا قَالَ الْقَعْنَبِيُّ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَالِكٍ ابْنُ بُحَيْنَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ أَبُو الْحُسَيْنِ مُسْلِمٌ وَقَوْلُهُ عَنْ أَبِيهِ فِي هَذَا الْحَدِيثِ خَطَأٌ.
عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے ہمیں حدیث بیان کی ،کہا ہمیں ابراہیم بن سعد نے اپنے والد سے حدیث سنائی۔انھوں نے حفص بن عاصم سے اور ا نھوں نے عبداللہ بن مالک ابن بحینہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک شخص کے پاس سے گزرے جو نماز پڑھ رہاتھا جب صبح کی نماز کے لئے اقامت کہی جاچکی تھی آپ نے کسی چیز کے بارے میں اس سے گفتگو فرمائی ہم نہ جان سکے کہ وہ کیا تھی جب ہم نماز سے فارغ ہوئے تو ہم نے اسے گھیرلیا ہم پوچھ رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تم سے کیا کہا؟اس نے بتایا:آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا:" لگتا ہے کہ تم میں سے کوئی صبح کی چار رکعات پڑھنے لگے گا۔" قعنبی نے کہا:عبداللہ بن مالک ابن بحینہ نے رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے والد سے روایت کی۔ ابو الحسین مسلم ؒ (مولف کتاب) نے کہا:قعنبی کا اس حدیث میں " عَنْ أَبِيهِ"(والد سے روایت کی) کہنا درست نہیں۔(عبداللہ کے والد صحابی مالک صحابی تو ہیں لیکن ان سے کوئی حدیث مروی نہیں)-
صحيح مسلم: كِتَابُ صَلَاةِ الْمُسَافِرِينَ وَقَصْرِهَا (بَابُ كَرَاهَةِ الشُّرُوعِ فِي نَافِلَةٍ بَعْدَ شُرُوعِ الْمُؤَذِّنِ)
صحیح مسلم: کتاب: مسافرو ں کی نماز قصر کا بیان (باب: مؤذن کے اقامت شروع کر لینے کے بعد نفل کا آغاز کرنا ناپسندیدہ)
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ عَنْ ابْنِ بُحَيْنَةَ قَالَ أُقِيمَتْ صَلَاةُ الصُّبْحِ فَرَأَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا يُصَلِّي وَالْمُؤَذِّنُ يُقِيمُ فَقَالَ أَتُصَلِّي الصُّبْحَ أَرْبَعًا.
ابو عوانہ نے سعد بن ابراہیم سے،انہوں نے حفص بن عاصم سے،اورانہوں نے حضرت (عبداللہ) ابن بحینہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی،کہا:صبح کی نماز کی اقامت(شروع) ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو نماز پڑھتے دیکھا جبکہ موذن اقامت کہہ رہا ہے تو آپ نے فرمایا:" کیا تم صبح کی چار رکعتیں پڑھو گے؟"
صحيح مسلم: كِتَابُ صَلَاةِ الْمُسَافِرِينَ وَقَصْرِهَا (بَابُ كَرَاهَةِ الشُّرُوعِ فِي نَافِلَةٍ بَعْدَ شُرُوعِ الْمُؤَذِّنِ)
صحیح مسلم: کتاب: مسافرو ں کی نماز قصر کا بیان (باب: مؤذن کے اقامت شروع کر لینے کے بعد نفل کا آغاز کرنا ناپسندیدہ)
قَالَ أَبُو عُمَرَ قَوْلُهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَصَلَاتَانِ مَعًا وَقَوْلُهُ لِهَذَا الرَّجُلِ أَيَّتُهُمَا صَلَاتُكَ وَقَوْلُهُ فِي حَدِيثِ ابْنِ بُحَيْنَةَ أَتُصَلِّيهِمَا أَرْبَعًا كُلُّ ذَلِكَ إِنْكَارٌ مِنْهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِذَلِكَ الْفِعْلِ فَلَا يَجُوزُ لِأَحَدٍ أَنْ يُصَلِّيَ فِي الْمَسْجِدِ ركعتي الفجر ولا شيئا من النَّوَافِلِ إِذَا كَانَتِ الْمَكْتُوبَةُ قَدْ قَامَتْ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کیا دو نمازیں اکھٹی پڑھنا چاہتے ہو، اور اس آدمی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ ان دونوں میں سے تیری ( فجر کی فرض ) نماز کون سی ہے ؟ نیز سیدنا بحینہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ کیا فجر کی نماز چار رکعتیں پڑھنا چاہتے ہو ؟ یہ سب باتیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اس کام پر انکار ہے۔ کسی شخص کے لیے جائز نہیں کہ فرض نماز کی اقامت کے بعد مسجد میں فجر کی دو رکعتیں یا کوئی اور نفلی نماز ادا کرے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 68 – 69 جلد 22 التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد - أبو عمر يوسف بن عبد الله بن محمد بن عبد البر بن عاصم النمري القرطبي (المتوفى: 463هـ) - وزارة عموم الأوقاف والشؤون الإسلامية – المغرب
وقوله ـ صلى الله عليه وسلم: (( أتصلي الصبح أربعًا ؟ )): إنكار على الرجل الذي فعل ذلك، وهذا الإنكار حجة على من ذهب إلى جواز صلاة ركعتي الفجر في المسجد والإمام يصلي
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ کیا تم صبح کی (فرض) نماز چار رکعت ادا کر رہے ہو ؟ یہ اس کام کرنے والے پر انکار ہے اور اس انکار میں اس شخص کا رد ہے جو امام کے نماز پڑھاتے ہوئے فجر کی دو رکعتوں کی ادائیگی کو جائز قرار دیتا ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 350 – 351 جلد 02 المفهم لما أشكل من كتاب تلخيص مسلم - أبو العباس أحمد بن عمر بن إبراهيم القرطبي (المتوفى: 656هـ) – دار ابن كثير، بيروت ودار الكلم الطيب، بيروت
قوله ﷺ أَتُصَلِّي الصُّبْحَ أَرْبَعًا هُوَ اسْتِفْهَامُ إِنْكَارٍ وَمَعْنَاهُ أَنَّهُ لَا يُشْرَعُ بَعْدَ الْإِقَامَةِ لِلصُّبْحِ إِلَّا الْفَرِيضَةُ فَإِذَا صَلَّى رَكْعَتَيْنِ نَافِلَةً بَعْدَ الْإِقَامَةِ ثُمَّ صَلَّى مَعَهُمُ الْفَرِيضَةَ صَارَ فِي مَعْنَى مَنْ صَلَّى الصُّبْحَ أَرْبَعًا لِأَنَّهُ صَلَّى بَعْدَ الْإِقَامَةِ أَرْبَعًا
فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم : کیا تم صبح کی ( فرض ) نماز چار رکعت ادا کرتے ہو ؟ یہ استفہام انکاری ہے۔ اس کا معنیٰ یہ ہے کہ صبح کی نماز کی اقامت کے بعد صرف فرضی نماز ہی ادا کی جا سکتی ہے۔ جب آدمی اقامت کے بعد دو رکعتیں نفل ادا کرے گا پھر نمازیوں کے ساتھ فرض پڑھے گا تو گویا صبح کی چار رکعت ادا کر رہا ہے کیونکہ اس نے اقامت کے بعد چار رکعتیں ادا کی ہیں۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 312 جلد 05 المنهاج شرح صحيح مسلم بن الحجاج - أبو زكريا محيي الدين يحيى بن شرف النووي (المتوفى: 676هـ) - مؤسسة قرطبة
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 495 المنهاج شرح صحيح مسلم بن الحجاج - أبو زكريا محيي الدين يحيى بن شرف النووي (المتوفى: 676هـ) - بيت الأفكار الدولية، بيروت
أَن رَسُول الله - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم َ - رأى رجلا وَقد أُقِيمَت الصَّلَاة يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ فَلَمَّا انْصَرف رَسُول الله - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم َ - لاث بِهِ النَّاس فَقَالَ لَهُ رَسُول الله - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم َ - آلصبح أَرْبعا آلصبح أَرْبعا) مطابقته للتَّرْجَمَة فِي قَوْله " آلصبح أَرْبعا " حَيْثُ أنكر - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم َ - على الرجل الَّذِي كَانَ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ بعد أَن أُقِيمَت صَلَاة الصُّبْح فَقَالَ " آلصبح أَرْبعا " أَي الصُّبْح تصلى أَرْبعا لِأَنَّهُ إِذا صلى رَكْعَتَيْنِ بعد أَن أُقِيمَت الصَّلَاة ثمَّ يُصَلِّي مَعَ الإِمَام رَكْعَتَيْنِ صَلَاة الصُّبْح فَيكون فِي معنى من صلى الصُّبْح أَرْبعا فَدلَّ هَذَا على أَن لَا صَلَاة بعد الْإِقَامَة إِلَّا الصَّلَاة الْمَكْتُوبَة.
فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم : کیا صبح کی نماز چار رکعت پڑھ رہے ہو ؟ اس قول کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص پر انکار کیا جو صبح کی نماز کھڑی ہونے کے بعد دو رکعتیں ادا کر رہا تھا۔ یعنی نماز کھڑی ہونے کے بعد جب وہ دو رکعتیں سنت ادا کر کے امام کے ساتھ صبح کی دو رکعت نماز پڑھے گا تو گویا اس نے صبح کی چار رکعتیں ادا کی ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اقامت ہو جانے کے بعد کوئی نماز سوائے فرضی نماز کے نہیں ہوتی۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 266 - 267 جلد 05 - عمدة القاري شرح صحيح البخاري - بدر الدين العينى الحنفي (المتوفى: 855هـ) - دار الكتب العلمية – بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 182 جلد 05 - عمدة القاري شرح صحيح البخاري - بدر الدين العينى الحنفي (المتوفى: 855هـ) - دار الفكر – بيروت
اس تاویل کی بنیاد و دلیل کیا ہے؟ وہ دلیل مطلوب ہے!
(جبکہ اللہ ے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی نفی اوپر بیان کی جا چکی ہے!)
قرطبی رحمہ اللہ کا حوالہ اگر پیش کردیں تو نوازش ہو گی!
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا مسلک اس دوسری تاویل کے مطابق بھی نہیں، فقہ حنفیہ میں فجر کی فرض نماز شروع ہوجانے کے بعد بھی فجر کی سنتیں پڑھنے کا حکم دیا جاتا ہے:
سوال # 41937
فجر کی سنت موٴکدہ پڑھنے کے سلسلے میں صحیح رائے کیا ہے؟کیا ہم فرض نماز کے بعد دو رکعت سنت موٴکدہ پڑھ سکتے ہیں؟میرا ایک دوست سعودی عرب میں رہتاہے ، اس نے کہا کہ اگرتمہارے پاس وقت کم ہو اورایسا لگے کہ جماعت چھوٹ جائے گی تو تم کو مسجد میں فرض نماز میں شامل ہوجانا چاہئے ، اس کے ثبوت میں اس نے دو سے زیادہ احادیث پیش کئے ہیں۔ میں تذبذب کا شکار ہوگیا ہوں ۔ براہ کرم، اس بارے میں میری رہنمائی فرمائیں۔
جواب # 41937
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 1446-1446/M=1/1435-U
فجر کی فرض سے پہلے دو رکعت سنت تمام سنتوں میں سب سے زیادہ موٴکد ہے، حدیث میں اس کی بڑی فضیلت اور تاکید آئی ہے، ایک حدیث میں ہے: ”رکعتا الفجر خیر من الدنیا وما فیہا“ ترجمہ: فجر کی دو رکعت سنت دنیا ومافیہا سے بہتر ہے۔ (اخرجہ احمد فی المسند ومسلم فی صحیحہ والترمذی فی جامعہ) اور ایک روایت میں ہے کہ ”فجر کی دو سنت پڑھا کرو اگرچہ تمھیں گھوڑے روند ڈالیں“ (مسند احمد: ۴/۴۰۵، ابوداوٴد، برقم: ۱۲۵۸) اس لیے اگر فجر کی جماعت شروع ہوجانے کے بعد کوئی شخص مسجد میں حاضر ہوا اور توقع یہ ہے کہ وہ سنت پڑھ کر امام کو ردوسری رکعت کے قیام یا قعدہ میں پالے گا تو اسے سنت فجر ترک نہ کرنا چاہیے بلکہ اس کو چاہیے کہ سنت ادا کرکے پھر جماعت میں شریک ہوجائے، لیکن یہ سنت کسی دیوار یا ستون کی آڑ میں صفوں سے باہر ہوکر ادا کرنی چاہیے، صفوں کے بیچ میں یا صف سے بالکل لگ کر ادا نہ کرے اور اگر ایسے وقت میں پہنچا کہ جماعت کی نماز آخری مرحلے میں تھی اور اتنا وقت نہیں کہ سنت پڑھ کر امام کے ساتھ نماز میں شریک ہوجائے بلکہ اندیشہ یہ ہے کہ اگر سنت پڑھنے میں لگا تو جماعت بالکلیہ فوت ہوجائے گی، ایسی صورت میں اس کو چاہیے کہ سنت کو چھوڑکر جماعت میں شامل ہوجائے، پھر اگر سنت فجر بعد میں پڑھنا چاہے تو فجر کے بعد طلوعِ شمس سے پہلے نہ پڑھے کیونکہ اس وقت نفل نماز مکروہ ہے، بلکہ طلوعِ شمس کے بعد مکروہ وقت ختم ہوجانے کے بعد پڑھ لے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
حوالہ