السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
یہا ں اور کیا کیا ہے!
مزید کہ دار العلوم دیوبند نے بھی سنت کو نوافل میں شمار کیا ہے، جسے
@ابو عبدالله بھائی نے مارک کرکے پیش بھی کیا،، ایک بار پھر پیش خدمت ہے:
سوال # 41937
فجر کی سنت موٴکدہ پڑھنے کے سلسلے میں صحیح رائے کیا ہے؟کیا ہم فرض نماز کے بعد دو رکعت سنت موٴکدہ پڑھ سکتے ہیں؟میرا ایک دوست سعودی عرب میں رہتاہے ، اس نے کہا کہ اگرتمہارے پاس وقت کم ہو اورایسا لگے کہ جماعت چھوٹ جائے گی تو تم کو مسجد میں فرض نماز میں شامل ہوجانا چاہئے ، اس کے ثبوت میں اس نے دو سے زیادہ احادیث پیش کئے ہیں۔ میں تذبذب کا شکار ہوگیا ہوں ۔ براہ کرم، اس بارے میں میری رہنمائی فرمائیں۔
جواب # 41937
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 1446-1446/M=1/1435-U
فجر کی فرض سے پہلے دو رکعت سنت تمام سنتوں میں سب سے زیادہ موٴکد ہے، حدیث میں اس کی بڑی فضیلت اور تاکید آئی ہے، ایک حدیث میں ہے: ”رکعتا الفجر خیر من الدنیا وما فیہا“ ترجمہ: فجر کی دو رکعت سنت دنیا ومافیہا سے بہتر ہے۔ (اخرجہ احمد فی المسند ومسلم فی صحیحہ والترمذی فی جامعہ) اور ایک روایت میں ہے کہ ”فجر کی دو سنت پڑھا کرو اگرچہ تمھیں گھوڑے روند ڈالیں“ (مسند احمد: ۴/۴۰۵، ابوداوٴد، برقم: ۱۲۵۸) اس لیے اگر فجر کی جماعت شروع ہوجانے کے بعد کوئی شخص مسجد میں حاضر ہوا اور توقع یہ ہے کہ وہ سنت پڑھ کر امام کو ردوسری رکعت کے قیام یا قعدہ میں پالے گا تو اسے سنت فجر ترک نہ کرنا چاہیے بلکہ اس کو چاہیے کہ سنت ادا کرکے پھر جماعت میں شریک ہوجائے، لیکن یہ سنت کسی دیوار یا ستون کی آڑ میں صفوں سے باہر ہوکر ادا کرنی چاہیے، صفوں کے بیچ میں یا صف سے بالکل لگ کر ادا نہ کرے اور اگر ایسے وقت میں پہنچا کہ جماعت کی نماز آخری مرحلے میں تھی اور اتنا وقت نہیں کہ سنت پڑھ کر امام کے ساتھ نماز میں شریک ہوجائے بلکہ اندیشہ یہ ہے کہ اگر سنت پڑھنے میں لگا تو جماعت بالکلیہ فوت ہوجائے گی، ایسی صورت میں اس کو چاہیے کہ سنت کو چھوڑکر جماعت میں شامل ہوجائے، پھر اگر سنت فجر بعد میں پڑھنا چاہے تو فجر کے بعد طلوعِ شمس سے پہلے نہ پڑھے کیونکہ اس وقت نفل نماز مکروہ ہے، بلکہ طلوعِ شمس کے بعد مکروہ وقت ختم ہوجانے کے بعد پڑھ لے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
حوالہ