• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اگر نفل ادا كرتے ہوئے نماز كى اقامت ہو جائے ؟

ابو عبدالله

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 28، 2011
پیغامات
723
ری ایکشن اسکور
448
پوائنٹ
135
فجر کی سنتوں کو نفل کہنے سے کیا فجر کی سنتوں کے ساتھ خاص واقعات کو تمام سنتوں یا تمام نوافل پر چسپاں کیا جا سکتا ہے؟
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا مسلک اس دوسری تاویل کے مطابق بھی نہیں، فقہ حنفیہ میں فجر کی فرض نماز شروع ہوجانے کے بعد بھی فجر کی سنتیں پڑھنے کا حکم دیا جاتا ہے:

سوال # 41937
فجر کی سنت موٴکدہ پڑھنے کے سلسلے میں صحیح رائے کیا ہے؟کیا ہم فرض نماز کے بعد دو رکعت سنت موٴکدہ پڑھ سکتے ہیں؟میرا ایک دوست سعودی عرب میں رہتاہے ، اس نے کہا کہ اگرتمہارے پاس وقت کم ہو اورایسا لگے کہ جماعت چھوٹ جائے گی تو تم کو مسجد میں فرض نماز میں شامل ہوجانا چاہئے ، اس کے ثبوت میں اس نے دو سے زیادہ احادیث پیش کئے ہیں۔ میں تذبذب کا شکار ہوگیا ہوں ۔ براہ کرم، اس بارے میں میری رہنمائی فرمائیں۔

جواب # 41937

بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 1446-1446/M=1/1435-U

فجر کی فرض سے پہلے دو رکعت سنت تمام سنتوں میں سب سے زیادہ موٴکد ہے، حدیث میں اس کی بڑی فضیلت اور تاکید آئی ہے، ایک حدیث میں ہے: ”رکعتا الفجر خیر من الدنیا وما فیہا“ ترجمہ: فجر کی دو رکعت سنت دنیا ومافیہا سے بہتر ہے۔ (اخرجہ احمد فی المسند ومسلم فی صحیحہ والترمذی فی جامعہ) اور ایک روایت میں ہے کہ ”فجر کی دو سنت پڑھا کرو اگرچہ تمھیں گھوڑے روند ڈالیں“ (مسند احمد: ۴/۴۰۵، ابوداوٴد، برقم: ۱۲۵۸) اس لیے اگر فجر کی جماعت شروع ہوجانے کے بعد کوئی شخص مسجد میں حاضر ہوا اور توقع یہ ہے کہ وہ سنت پڑھ کر امام کو ردوسری رکعت کے قیام یا قعدہ میں پالے گا تو اسے سنت فجر ترک نہ کرنا چاہیے بلکہ اس کو چاہیے کہ سنت ادا کرکے پھر جماعت میں شریک ہوجائے، لیکن یہ سنت کسی دیوار یا ستون کی آڑ میں صفوں سے باہر ہوکر ادا کرنی چاہیے، صفوں کے بیچ میں یا صف سے بالکل لگ کر ادا نہ کرے اور اگر ایسے وقت میں پہنچا کہ جماعت کی نماز آخری مرحلے میں تھی اور اتنا وقت نہیں کہ سنت پڑھ کر امام کے ساتھ نماز میں شریک ہوجائے بلکہ اندیشہ یہ ہے کہ اگر سنت پڑھنے میں لگا تو جماعت بالکلیہ فوت ہوجائے گی، ایسی صورت میں اس کو چاہیے کہ سنت کو چھوڑکر جماعت میں شامل ہوجائے، پھر اگر سنت فجر بعد میں پڑھنا چاہے تو فجر کے بعد طلوعِ شمس سے پہلے نہ پڑھے کیونکہ اس وقت نفل نماز مکروہ ہے، بلکہ طلوعِ شمس کے بعد مکروہ وقت ختم ہوجانے کے بعد پڑھ لے۔

واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،

دارالعلوم دیوبند
حوالہ
بلا تبصرہ
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,410
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
فجر کی سنتوں کو نفل کہنے سے کیا فجر کی سنتوں کے ساتھ خاص واقعات کو تمام سنتوں یا تمام نوافل پر چسپاں کیا جا سکتا ہے؟
مراقبہ سے باہر نکل کر مراسلہ پڑھیں!
یہاں ثابت کیا گیا ہے کہ سنت نماز نفل نماز میں شامل ہیں، یعنی سنت نماز صلاۃ التطوع یعنی نوافل نماز کی ایک قسم ہے!
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

مراقبہ سے باہر نکل کر مراسلہ پڑھیں!
یہاں ثابت کیا گیا ہے کہ سنت نماز نفل نماز میں شامل ہیں، یعنی سنت نماز صلاۃ التطوع یعنی نوافل نماز کی ایک قسم ہے!
آدھی بات نہیں کیا کریں۔ آگے ثابت کیجیے!
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,410
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
آدھی بات نہیں کیا کریں۔ آگے ثابت کیجیے!
یہا ں اور کیا کیا ہے!
السلام علیکم ورحمۃا للہ وبرکاتہ!

حدیث میں وہ بھی صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی متفق علیہ حدیث میں خاص فجر کی سنت کو بھی نفل ہی کہا گیا ہے:

حَدَّثَنَا بَيَانُ بْنُ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: «لَمْ يَكُنِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى شَيْءٍ مِنَ النَّوَافِلِ أَشَدَّ مِنْهُ تَعَاهُدًا عَلَى رَكْعَتَيِ الفَجْرِ.
ہم سے بیان بن عمرو نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے یحیٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ا بن جریج نے بیان کیا، ان سے عطاءنے بیان کیا، ان سے عبید بن عمیر نے، ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی نفل نماز کی فجر کی دو رکعتوں سے زیادہ پا بندی نہیں کرتے تھے۔
‌صحيح البخاري: كِتَابُ التَّهَجُّدِ (بَابُ تَعَاهُدِرَكعَتِي الفَجرِ وَمَن سَمَّاهُمَا تَطَوُّعًا)
صحیح بخاری: کتاب: تہجد کا بیان (باب: فجر کی سنت کی دو رکعتیں ہمیشہ لازم کر لینا)

وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ قَالَ حَدَّثَنِي عَطَاءٌ عَنْ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَكُنْ عَلَى شَيْءٍ
مِنْ النَّوَافِلِ أَشَدَّ مُعَاهَدَةً مِنْهُ عَلَى رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ الصُّبْحِ.

حییٰ بن سعید نے ابن جریج سے روایت کی،انھوں نے کہا:مجھے عطاء بن عبید بن عمیر سے حدیث سنائی اور ا نھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سےروایت کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نوافل میں سے کسی اور (نماز) کی اتنی زیادہ پاسداری نہیں کرتے تھے جتنی آپ صبح سے پہلے کی دو رکعتوں کی کرتے تھے۔
صحيح مسلم: كِتَابُ صَلَاةِ الْمُسَافِرِينَ وَقَصْرِهَا (بَابُ اسْتِحْبَابِ رَكْعَتَيْ سُنَّةِ الْفَجْرِ، وَالْحَثِّ عَلَيْهِمَا وَتَخْفِيفِهِمَا، وَالْمُحَافَظَةِ عَلَيْهِمَا، وَبَيَانِ مَا يُسْتَحَبُّ أَنْ يُقْرَأَ فِيهِمَا)
صحیح مسلم: کتاب: مسافرو ں کی نماز قصر کا بیان (باب: فجر کی دو سنتوں کا مستحب ہونا ‘ان کی ترغیب‘ان کو مختصر پڑھنا ‘ہمیشہ ان کی پابندی کرنا اور اس بات کا بیان کہ ان میں کون سی (سورتوں کی )قراءت مستحب ہے)

اور یہ حدیث کتب فقہ حنفیہ میں بھی منقول ہے:
(قَوْلُهُ وَالسُّنَّةُ قَبْلَ الْفَجْرِ وَبَعْدَ الظُّهْرِ وَالْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ رَكْعَتَانِ وَقَبْلَ الظُّهْرِ وَالْجُمُعَةِ وَبَعْدَهَا أَرْبَعٌ) شَرَعَ فِي بَيَانِ النَّوَافِلِ بَعْدَ ذِكْرِ الْوَاجِبِ فَذَكَرَ أَنَّهَا نَوْعَانِ سُنَّةٌ وَمَنْدُوبٌ فَالْأَوَّلُ فِي كُلِّ يَوْمٍ مَا عَدَا الْجُمُعَةِ ثَنَتَا عَشْرَةَ رَكْعَةً وَفِي يَوْمِ الْجُمُعَةِ أَرْبَعَ عَشْرَةَ رَكْعَةً وَالْأَصْلُ فِيهِ مَا رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَغَيْرُهُ عَنْ عَائِشَةَ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا - قَالَتْ «قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - مَنْ ثَابَرَ عَلَى ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً مِنْ السُّنَّةِ بَنَى اللَّهُ لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ» وَذَكَرَهَا كَمَا فِي الْكِتَابِ وَرَوَى مُسْلِمٌ أَنَّهُ - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ - كَانَ يُصَلِّيهَا وَبَدَأَ الْمُصَنِّفُ بِسُنَّةِ الْفَجْرِ لِأَنَّهَا أَقْوَى السُّنَنِ بِاتِّفَاقِ الرِّوَايَاتِ لِمَا فِي الصَّحِيحَيْنِ عَنْ عَائِشَةَ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا - قَالَتْ «لَمْ يَكُنْ النَّبِيُّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - عَلَى شَيْءٍ مِنْ النَّوَافِلِ أَشَدَّ تَعَاهُدًا مِنْهُ عَلَى رَكْعَتَيْ الْفَجْرِ» وَفِي لَفْظٍ لِمُسْلِمٍ «رَكْعَتَا الْفَجْرِ خَيْرٌ مِنْ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا» وَفِي أَوْسَطِ الطَّبَرَانِيِّ عَنْهَا أَيْضًا «لَمْ أَرَهُ تَرَكَ الرَّكْعَتَيْنِ قَبْلَ صَلَاةِ الْفَجْرِ فِي سَفَرٍ وَلَا حَضَرٍ وَلَا صِحَّةٍ وَلَا سَقَمٍ» وَقَدْ ذَكَرُوا مَا يَدُلُّ عَلَى وُجُوبِهَا قَالَ فِي الْخُلَاصَةِ أَجْمَعُوا أَنَّ رَكْعَتَيْ الْفَجْرِ قَاعِدًا مِنْ غَيْرِ عُذْرٍ لَا يَجُوزُ كَذَا رَوَى الْحَسَنُ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ اهـ.
وَفِي النِّهَايَةِ قَالَ مَشَايِخُنَا الْعَالِمُ إذَا صَارَ مَرْجِعًا فِي الْفَتَاوَى يَجُوزُ لَهُ تَرْكُ سَائِرِ السُّنَنِ لِحَاجَةِ النَّاسِ إلَى فَتْوَاهُ إلَّا سُنَّةَ الْفَجْرِ اهـ.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 83 جلد 02 - البحر الرائق شرح كنز الدقائق - زين الدين بن إبراهيم بن محمد، المعروف بابن نجيم المصري (المتوفى: 970هـ) - دار الكتب العلمية

باب النوافل
السنة في الصلاة أن يصلي ركعتين بعد طلوع الفجر وأربعا قبل الظهر وركعتين بعدها وأربعا قبل العصر وإن شاء ركعتين وركعتين بعد المغرب وأربعا قبل العشاء وأربعا بعدها وإن شاء ركعتين

ونوافل النهار إن شاء صلى ركعتين بتسليمة واحدة وإن شاء أربعا وتكره الزيادة على ذلك
فأما نافلة الليل

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 33 مختصر القدوري في الفقه الحنفي - أحمد بن محمد بن أحمد بن جعفر بن حمدان أبو الحسين القدوري (المتوفى: 428هـ) - دار الكتب العلمية

بَاب صَلَاة التَّطَوُّع
التَّطَوُّع نَوْعَانِ تطوع مُطلق وتطوع بِسَبَب
أماالمطلق فَيُسْتَحَب أَدَاؤُهُ فِي كل وَقت لم يكره فِيهِ التَّطَوُّع
وَيجوز أَدَاؤُهُ مَعَ الْكَرَاهَة فِي الْأَوْقَات الْمَكْرُوهَة
وَأما التَّطَوُّع بِسَبَب فوقته مَا ورد الشَّرْع بِهِ كالسنن الْمَعْهُودَة للصلوات الْمَكْتُوبَة

وَذكر أَبُو الْحسن الْكَرْخِي هَهُنَا وَقَالَ التَّطَوُّع قبل الْفجْر رَكْعَتَانِ أَي التَّطَوُّع الْمسنون قبل صَلَاة الْفجْر رَكْعَتَانِ وَأَرْبع قبل الظّهْر لَا يسلم إِلَّا فِي آخرهَا وركعتان بعد الظّهْر وَأَرْبع قبل الْعَصْر وركعتان بعد الْمغرب وَأَرْبع قبل الْعشَاء الْأَخِيرَة إِن أحب ذَلِك وَأَرْبع بعْدهَا

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 195 جلد 01 تحفة الفقهاء - محمد بن أحمد بن أبي أحمد، أبو بكر علاء الدين السمرقندي (المتوفى: نحو 540هـ) - دار الكتب العلمية، بيروت

[فَصْلٌ صِفَةُ الْقِرَاءَةِ فِي التطوع]
(فَصْلٌ):
وَأَمَّا صِفَةُ الْقِرَاءَةِ فِيهَا فَالْقِرَاءَةُ فِي السُّنَنِ فِي الرَّكَعَاتِ كُلِّهَا فَرْضٌ؛
لِأَنَّ السُّنَّةَ تَطَوُّعٌ وَكُلُّ شَفْعٍ مِنْ التَّطَوُّعِ صَلَاةٌ عَلَى حِدَةٍ؛ لِمَا نَذْكُرُ فِي صَلَاةِ التَّطَوُّعِ فَكَانَ كُلُّ شَفْعٍ مِنْهَا بِمَنْزِلَةِ الشَّفْعِ الْأَوَّلِ مِنْ الْفَرَائِضِ، وَقَدْ رَوَيْنَا فِي حَدِيثِ أَبِي أَيُّوبَ أَنَّهُ «سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - عَنْ الْأَرْبَعِ قَبْلَ الظُّهْرِ أَفِي كُلِّهِنَّ قِرَاءَةٌ؟ قَالَ: نَعَمْ» وَاَللَّهُ أَعْلَمُ.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 285 جلد 02 - بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع - علاء الدين، أبو بكر بن مسعود بن أحمد الكاساني الحنفي (المتوفى: 587هـ) - دار الكتب العلمية

(وَالسُّنَّةُ قَبْلَ) فَرْضِ (الْفَجْرِ) لَمَّا بَيَّنَ أَحْكَامَ الْوِتْرِ شَرَعَ فِي النَّوَافِلِ وَالنَّفَلُ أَعَمُّ مِنْ السُّنَّةِ مُؤَكَّدَةٍ وَغَيْرِ مُؤَكَّدَةٍ وَابْتَدَأَ بِسُنَّةِ الْفَجْرِ لِأَنَّهَا أَقْوَى السُّنَنِ حَتَّى رَوَى الْحَسَنُ عَنْ الْإِمَامِ لَوْ صَلَّاهَا قَاعِدًا مِنْ غَيْرِ عُذْرٍ لَا تَجُوزُ.
وَفِي لَفْظِ مُسْلِمٍ «رَكْعَتَا الْفَجْرِ خَيْرٌ مِنْ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا» قَالُوا الْعَالِمُ إذَا صَارَ مَرْجِعًا لِلْفَتْوَى يَجُوزُ لَهُ تَرْكُ سَائِرِ السُّنَنِ لِحَاجَةِ النَّاسِ إلَّا سُنَّةَ الْفَجْرِ وَتُقْضَى إذَا فَاتَتْ مَعَهُ بِخِلَافِ سَائِرِ السُّنَنِ وَفِي الْبَحْرِ مَنْ أَنْكَرَ سُنَّةَ الْفَجْرِ يُخْشَى عَلَيْهِ الْكُفْرُ.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 193 - 194 جلد 01 مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر - عبد الرحمن بن محمد بن سليمان المدعو بشيخي زاده, يعرف بداماد أفندي (المتوفى: 1078هـ) - دار الكتب العلمية
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 130 جلد 01 مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر - عبد الرحمن بن محمد بن سليمان المدعو بشيخي زاده, يعرف بداماد أفندي (المتوفى: 1078هـ) - دار إحياء التراث العربي


[بَابُ النَّوَافِلِ]
ابْتَدَأَ بِسُنَّةِ الْفَجْرِ
لِأَنَّهَا أَقْوَى السُّنَنِ حَتَّى رَوَى الْحَسَنُ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ لَوْ صَلَّاهَا قَاعِدًا مِنْ غَيْرِ عُذْرٍ لَا يَجُوزُ، وَقَالُوا: الْعَالِمُ إذَا صَارَ مَرْجِعًا لِلْفَتْوَى جَازَ لَهُ تَرْكُ سَائِرِ السُّنَنِ لِحَاجَةِ النَّاسِ إلَّا سُنَّةَ الْفَجْرِ.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 455 جلد 01 - شرح فتح القدير شرح كتاب الهداية في شرح البداية - كمال الدين محمد بن عبد الواحد السيواسي المعروف بابن الهمام (المتوفى: 861هـ) - دار الكتب العلمية

بَابُ النَّوَافِلِ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: «مَنْ ثَابَرَ عَلَى ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً فِي الْيَوْمِ وَاللَّيْلَةِ بَنَى اللَّهُ لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ: رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ الْفَجْرِ، وَأَرْبَعًا قَبْلَ الظُّهْرِ، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَهَا، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْمَغْرِبِ، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعِشَاءَ». وَيُسْتَحَبُّ أَنْ يُصَلِّيَ بَعْدَ الظُّهْرِ أَرْبَعًا،
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 65 جلد 01 - الاختيار لتعليل المختار - عبد الله بن محمود بن مودود الموصلي البلدحي، مجد الدين أبو الفضل الحنفي (المتوفى: 683هـ) - دار الكتب العلمية، بيروت

تو جناب! ہمارا مراسلہ بلکل بھی غیر متعلق نہیں!
کیونکہ مکتوبہ یعنی فرض نمازوں کے علاوہ تمام نمازیں غیر مکتوبہ یعنی صلاۃ التطوع یعنی نوافل ہی ہیں! اور سنت مؤکدہ وغیر مؤکدہ بھی اسی کی اقسام میں سے ہیں!
اور ویسے بھی جس حدیث کے حوالہ سے بحث کی گئی ہے، اس میں لا صلاة الا مکتوبہ کے االفاظ ہیں۔
بالفرض محال اب بھی کوئی بضد ہو تو معلوم ہونا چاہئے کہ سنت نماز بھی الا مکتوبہ میں شامل ہے، یعنی کہ سنت نماز بھی فرض و مکتوبہ نماز نہیں! اور یہ حدیث اس کے متعلق بھی ہے!
مزید کہ دار العلوم دیوبند نے بھی سنت کو نوافل میں شمار کیا ہے، جسے @ابو عبدالله بھائی نے مارک کرکے پیش بھی کیا،، ایک بار پھر پیش خدمت ہے:
سوال # 41937
فجر کی سنت موٴکدہ پڑھنے کے سلسلے میں صحیح رائے کیا ہے؟کیا ہم فرض نماز کے بعد دو رکعت سنت موٴکدہ پڑھ سکتے ہیں؟میرا ایک دوست سعودی عرب میں رہتاہے ، اس نے کہا کہ اگرتمہارے پاس وقت کم ہو اورایسا لگے کہ جماعت چھوٹ جائے گی تو تم کو مسجد میں فرض نماز میں شامل ہوجانا چاہئے ، اس کے ثبوت میں اس نے دو سے زیادہ احادیث پیش کئے ہیں۔ میں تذبذب کا شکار ہوگیا ہوں ۔ براہ کرم، اس بارے میں میری رہنمائی فرمائیں۔

جواب # 41937

بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 1446-1446/M=1/1435-U

فجر کی فرض سے پہلے دو رکعت سنت تمام سنتوں میں سب سے زیادہ موٴکد ہے، حدیث میں اس کی بڑی فضیلت اور تاکید آئی ہے، ایک حدیث میں ہے: ”رکعتا الفجر خیر من الدنیا وما فیہا“ ترجمہ: فجر کی دو رکعت سنت دنیا ومافیہا سے بہتر ہے۔ (اخرجہ احمد فی المسند ومسلم فی صحیحہ والترمذی فی جامعہ) اور ایک روایت میں ہے کہ ”فجر کی دو سنت پڑھا کرو اگرچہ تمھیں گھوڑے روند ڈالیں“ (مسند احمد: ۴/۴۰۵، ابوداوٴد، برقم: ۱۲۵۸) اس لیے اگر فجر کی جماعت شروع ہوجانے کے بعد کوئی شخص مسجد میں حاضر ہوا اور توقع یہ ہے کہ وہ سنت پڑھ کر امام کو ردوسری رکعت کے قیام یا قعدہ میں پالے گا تو اسے سنت فجر ترک نہ کرنا چاہیے بلکہ اس کو چاہیے کہ سنت ادا کرکے پھر جماعت میں شریک ہوجائے، لیکن یہ سنت کسی دیوار یا ستون کی آڑ میں صفوں سے باہر ہوکر ادا کرنی چاہیے، صفوں کے بیچ میں یا صف سے بالکل لگ کر ادا نہ کرے اور اگر ایسے وقت میں پہنچا کہ جماعت کی نماز آخری مرحلے میں تھی اور اتنا وقت نہیں کہ سنت پڑھ کر امام کے ساتھ نماز میں شریک ہوجائے بلکہ اندیشہ یہ ہے کہ اگر سنت پڑھنے میں لگا تو جماعت بالکلیہ فوت ہوجائے گی، ایسی صورت میں اس کو چاہیے کہ سنت کو چھوڑکر جماعت میں شامل ہوجائے، پھر اگر سنت فجر بعد میں پڑھنا چاہے تو فجر کے بعد طلوعِ شمس سے پہلے نہ پڑھے کیونکہ اس وقت نفل نماز مکروہ ہے، بلکہ طلوعِ شمس کے بعد مکروہ وقت ختم ہوجانے کے بعد پڑھ لے۔

واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،

دارالعلوم دیوبند
حوالہ
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

یہا ں اور کیا کیا ہے!

مزید کہ دار العلوم دیوبند نے بھی سنت کو نوافل میں شمار کیا ہے، جسے @ابو عبدالله بھائی نے مارک کرکے پیش بھی کیا،، ایک بار پھر پیش خدمت ہے:
سوال # 41937
فجر کی سنت موٴکدہ پڑھنے کے سلسلے میں صحیح رائے کیا ہے؟کیا ہم فرض نماز کے بعد دو رکعت سنت موٴکدہ پڑھ سکتے ہیں؟میرا ایک دوست سعودی عرب میں رہتاہے ، اس نے کہا کہ اگرتمہارے پاس وقت کم ہو اورایسا لگے کہ جماعت چھوٹ جائے گی تو تم کو مسجد میں فرض نماز میں شامل ہوجانا چاہئے ، اس کے ثبوت میں اس نے دو سے زیادہ احادیث پیش کئے ہیں۔ میں تذبذب کا شکار ہوگیا ہوں ۔ براہ کرم، اس بارے میں میری رہنمائی فرمائیں۔

جواب # 41937

بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 1446-1446/M=1/1435-U

فجر کی فرض سے پہلے دو رکعت سنت تمام سنتوں میں سب سے زیادہ موٴکد ہے، حدیث میں اس کی بڑی فضیلت اور تاکید آئی ہے، ایک حدیث میں ہے: ”رکعتا الفجر خیر من الدنیا وما فیہا“ ترجمہ: فجر کی دو رکعت سنت دنیا ومافیہا سے بہتر ہے۔ (اخرجہ احمد فی المسند ومسلم فی صحیحہ والترمذی فی جامعہ) اور ایک روایت میں ہے کہ ”فجر کی دو سنت پڑھا کرو اگرچہ تمھیں گھوڑے روند ڈالیں“ (مسند احمد: ۴/۴۰۵، ابوداوٴد، برقم: ۱۲۵۸) اس لیے اگر فجر کی جماعت شروع ہوجانے کے بعد کوئی شخص مسجد میں حاضر ہوا اور توقع یہ ہے کہ وہ سنت پڑھ کر امام کو ردوسری رکعت کے قیام یا قعدہ میں پالے گا تو اسے سنت فجر ترک نہ کرنا چاہیے بلکہ اس کو چاہیے کہ سنت ادا کرکے پھر جماعت میں شریک ہوجائے، لیکن یہ سنت کسی دیوار یا ستون کی آڑ میں صفوں سے باہر ہوکر ادا کرنی چاہیے، صفوں کے بیچ میں یا صف سے بالکل لگ کر ادا نہ کرے اور اگر ایسے وقت میں پہنچا کہ جماعت کی نماز آخری مرحلے میں تھی اور اتنا وقت نہیں کہ سنت پڑھ کر امام کے ساتھ نماز میں شریک ہوجائے بلکہ اندیشہ یہ ہے کہ اگر سنت پڑھنے میں لگا تو جماعت بالکلیہ فوت ہوجائے گی، ایسی صورت میں اس کو چاہیے کہ سنت کو چھوڑکر جماعت میں شامل ہوجائے، پھر اگر سنت فجر بعد میں پڑھنا چاہے تو فجر کے بعد طلوعِ شمس سے پہلے نہ پڑھے کیونکہ اس وقت نفل نماز مکروہ ہے، بلکہ طلوعِ شمس کے بعد مکروہ وقت ختم ہوجانے کے بعد پڑھ لے۔

واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،

دارالعلوم دیوبند
حوالہ
فجر کی سنت کو نوافل میں شمار کرنے سے کیا ان کے بارے میں وارد خصوصی احکامات آپ تمام نوافل پر فٹ کریں گے؟
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,410
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
فجر کی سنت کو نوافل میں شمار کرنے سے کیا ان کے بارے میں وارد خصوصی احکامات آپ تمام نوافل پر فٹ کریں گے؟
بھائی جان! صرف فجر کی سنت ہی نوافل میں شامل نہیں!
بلکہ تمام سنت نمازیں نوافل مین شمار ہیں!
اور خاص جس کے سے ساتھ خاص ہوتا ہے ، اس کا حکم اسی کے لئے رہتا ہے!
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

بھائی جان! صرف فجر کی سنت ہی نوافل میں شامل نہیں!
بلکہ تمام سنت نمازیں نوافل مین شمار ہیں!
اور خاص جس کے سے ساتھ خاص ہوتا ہے ، اس کا حکم اسی کے لئے رہتا ہے!
یہ احادیث کس نماز کے بارے میں ہیں؟ اس نماز کا ذکر بھی ان احادیث میں موجود ہے۔ بس ذرا سا آنکھوں کا استعمال مطلوب ہے۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ العَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَالِكٍ ابْنِ بُحَيْنَةَ، قَالَ: مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِرَجُلٍ قَالَ: ح وَحَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ يَعْنِي ابْنَ بِشْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا بَهْزُ بْنُ أَسَدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَعْدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: سَمِعْتُ حَفْصَ بْنَ عَاصِمٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَجُلًا مِنَ الأَزْدِ يُقَالُ لَهُ: مَالِكُ ابْنُ بُحَيْنَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَجُلًا وَقَدْ أُقِيمَتِ الصَّلاَةُ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ، فَلَمَّا انْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لاَثَ بِهِ النَّاسُ، وَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الصُّبْحَ أَرْبَعًا، الصُّبْحَ أَرْبَعًا» تَابَعَهُ غُنْدَرٌ، وَمُعَاذٌ، عَنْ شُعْبَةَ فِي مَالِكٍ، وَقَالَ ابْنُ إِسْحَاقَ: عَنْ سَعْدٍ، عَنْ حَفْصٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ابْنِ بُحَيْنَةَ، وَقَالَ حَمَّادٌ: أَخْبَرَنَا سَعْدٌ، عَنْ حَفْصٍ، عَنْ مَالِكٍ.
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابراہیم بن سعد نے اپنے باپ سعد بن ابراہیم سے بیان کیا، انھوں نے حفص بن عاصم سے، انھوں نے عبداللہ بن مالک بن بحینہ سے، کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک شخص پر ہوا ( دوسری سند ) امام بخاری نے کہا کہ مجھ سے عبدالرحمن بن بشر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے بہز بن اسد نے بیان کیا۔ کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھے سعد بن ابراہیم نے خبر دی، کہا کہ میں نے حفص بن عاصم سے سنا، کہا کہ میں نے قبیلہ ازد کے ایک صاحب سے جن کا نام مالک بن بحینہ رضی اللہ عنہ تھا، سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر ایک ایسے نمازی پر پڑی جو تکبیر کے بعد دو رکعت نماز پڑھ رہا تھا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز سے فارغ ہو گئے تو لوگ اس شخص کے ارد گرد جمع ہو گئے اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا صبح کی چار رکعتیں پڑھتا ہے؟ کیا صبح کی چار رکعتیں ہو گئیں؟ اس حدیث کی متابعت غندر اور معاذ نے شعبہ سے کی ہے جو مالک سے روایت کرتے ہیں۔ ابن اسحاق نے سعد سے، انھوں نے حفص سے، وہ عبداللہ بن بحینہ سے اور حماد نے کہا کہ ہمیں سعد نے حفص کے واسطہ سے خبر دی اور وہ مالک کے واسطہ سے۔
‌صحيح البخاري: كِتَابُ الأَذَانِ (بابٌ إِذَا أُقِيمَتِ الصَّلاَةُ فَلاَ صَلاَةَ إِلَّا المَكْتُوبَةَ)
صحیح بخاری: کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں (باب: جب نماز کی تکبیر ہونے لگے)
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ الْقَعْنَبِيُّ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَالِكٍ ابْنِ بُحَيْنَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِرَجُلٍ يُصَلِّي وَقَدْ أُقِيمَتْ صَلَاةُ الصُّبْحِ فَكَلَّمَهُ بِشَيْءٍ لَا نَدْرِي مَا هُوَ فَلَمَّا انْصَرَفْنَا أَحَطْنَا نَقُولُ مَاذَا قَالَ لَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ قَالَ لِي يُوشِكُ أَنْ يُصَلِّيَ أَحَدُكُمْ الصُّبْحَ أَرْبَعًا قَالَ الْقَعْنَبِيُّ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَالِكٍ ابْنُ بُحَيْنَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ أَبُو الْحُسَيْنِ مُسْلِمٌ وَقَوْلُهُ عَنْ أَبِيهِ فِي هَذَا الْحَدِيثِ خَطَأٌ.
عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے ہمیں حدیث بیان کی ،کہا ہمیں ابراہیم بن سعد نے اپنے والد سے حدیث سنائی۔انھوں نے حفص بن عاصم سے اور ا نھوں نے عبداللہ بن مالک ابن بحینہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک شخص کے پاس سے گزرے جو نماز پڑھ رہاتھا جب صبح کی نماز کے لئے اقامت کہی جاچکی تھی آپ نے کسی چیز کے بارے میں اس سے گفتگو فرمائی ہم نہ جان سکے کہ وہ کیا تھی جب ہم نماز سے فارغ ہوئے تو ہم نے اسے گھیرلیا ہم پوچھ رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تم سے کیا کہا؟اس نے بتایا:آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا:" لگتا ہے کہ تم میں سے کوئی صبح کی چار رکعات پڑھنے لگے گا۔" قعنبی نے کہا:عبداللہ بن مالک ابن بحینہ نے رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے والد سے روایت کی۔ ابو الحسین مسلم ؒ (مولف کتاب) نے کہا:قعنبی کا اس حدیث میں " عَنْ أَبِيهِ"(والد سے روایت کی) کہنا درست نہیں۔(عبداللہ کے والد صحابی مالک صحابی تو ہیں لیکن ان سے کوئی حدیث مروی نہیں)-
صحيح مسلم: كِتَابُ صَلَاةِ الْمُسَافِرِينَ وَقَصْرِهَا (بَابُ كَرَاهَةِ الشُّرُوعِ فِي نَافِلَةٍ بَعْدَ شُرُوعِ الْمُؤَذِّنِ)
صحیح مسلم: کتاب: مسافرو ں کی نماز قصر کا بیان (باب: مؤذن کے اقامت شروع کر لینے کے بعد نفل کا آغاز کرنا ناپسندیدہ)
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ عَنْ ابْنِ بُحَيْنَةَ قَالَ أُقِيمَتْ صَلَاةُ الصُّبْحِ فَرَأَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا يُصَلِّي وَالْمُؤَذِّنُ يُقِيمُ فَقَالَ أَتُصَلِّي الصُّبْحَ أَرْبَعًا.
ابو عوانہ نے سعد بن ابراہیم سے،انہوں نے حفص بن عاصم سے،اورانہوں نے حضرت (عبداللہ) ابن بحینہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی،کہا:صبح کی نماز کی اقامت(شروع) ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو نماز پڑھتے دیکھا جبکہ موذن اقامت کہہ رہا ہے تو آپ نے فرمایا:" کیا تم صبح کی چار رکعتیں پڑھو گے؟"
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,410
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
یہ احادیث کس نماز کے بارے میں ہیں؟ اس نماز کا ذکر بھی ان احادیث میں موجود ہے۔ بس ذرا سا آنکھوں کا استعمال مطلوب ہے۔
جناب ! یہ احادیث اقامت کے بعد نفل نماز کے متعلق ہے! امام بخاری اور امام النووی نے بھی اس کی وضاحت کردی ہے!
اسے سمجھنے کے لئے بس ذرا عقل مطلوب ہے!
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

جناب ! یہ احادیث اقامت کے بعد نفل نماز کے متعلق ہے! امام بخاری اور امام النووی نے بھی اس کی وضاحت کردی ہے!
اسے سمجھنے کے لئے بس ذرا عقل مطلوب ہے!
ان احادیث میں لکھا ہے یا آپ امام بخاری اور امام نووی کے اندھے مقلد ہیں؟
 
شمولیت
مارچ 16، 2017
پیغامات
290
ری ایکشن اسکور
10
پوائنٹ
39
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اگر آپ صحیح روایت پیش کریں گے تو روایت سے انکار نہ ہوگا!
آپ روایت پیش کیجئے!
(نوٹ: جس اسکول کے آپ شاگرد ہیں ہم اس کے پرنسپل رہ چکے ہیں)
یہ تحریر آپ کے دستخط کا منہ چڑا رہی ہے۔
یہ روایت مصنف ابن ابی شیبہ سے ہے۔
 
Top