مالکیہ شافعیہ اورحنابلہ کواگراہل حدیث میں شمار کرتے ہیں تو وہ تو تقلید کے جواز کے قائل ہیں صرف ظاہریوں کا فرقہ اس سے مستثنی ہیں توکیاہم مانیں کہ اہل حدیث کا بیشتر حصہ تقلید کے جواز کا قائل ہے اورایک شرذمہ قلیلہ اس کا انکار کررہاہے؟
ہم پہلے بھی گزارش کر چکے ہیں کہ کسی فقہی مذہب کی طرف نسبت کرنے سے تقلید لازم نہیں آتی یہ بات آپ اچھی طرح سمجھ لیں۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور آپ کے شاگرد خاص امام ابن قیم رحمہ اللہ دونوں حنبلی مذھب سے تعلق رکھتے تھے اس کے باوجود دونوں عظیم مجتھدین تھے اور تقلید کرنا تو در کنار انہوں نے تو تقلید کی شدید مخالفت کی ہے۔ دوسری بات یہ کہ ظاہریہ بھی دیگر مذاھب کی طرح ایک مذہب ہے اور اہل سنت میں شامل ہے اگرچہ چند اصولی مسائل میں اہل سنت سے مختلف ہے لیکن اس کو فرقہ کہنا مناسب نہیں۔ تیسری بات یہ کہ تقلید نہ تو مطلقا حرام ہے اور نہ ہی مطلقا حلال بلکہ اس میں تفصیل ہے۔ الوحیز سمیت اصول فقہ کی اکثر کتب میں تقلید و اجتھاد کے باب میں انسانوں کے علمی درجات کے اعتبار سے تقلید کی تین اقسام کی گئی ہیں:
۱۔ جو شخص شریعت کے مسائل کا علم نہیں رکھتا اور نہ ہی دلائل کو سمجھنے کی استطاعت رکھتا ہے اس پر واجب ہے کہ وہ ماہر شریعت عالم یا مفتی سے مسئلہ پوچھے اور اس پر عمل کرے۔ گویا اس پر واجب ہے کہ وہ عالم یا مفتی کی تقلید کرے جب تک کہ وہ خود دلائل کو سمجھنے کی استطاعت حاصل نہ کرلے لیکن اس پر یہ واجب نہیں کہ وہ ایک مخصوص مذھب کے مفتی ہی سے اپنے سارے مسائل پوچھے وہ اس معاملے اہل سنت کے صحیح العقیدہ علماء میں سے کسی سے بھی مسئلہ پوچھ سکتا ہے۔ اس درجہ کے شخص کو عامی یا جاہل کہتے ہیں۔
۲۔ جو شخص شریعت کے مسائل کا کسی حد تک علم رکھتا ہے اور ان کے دلائل کو بھی کسی حد تک ذاتی طور پر سمجھنے کی استطاعت رکھتا ہے تو ایسے شخص پر ان مسائل میں جن کے دلائل وہ خود سمجھ سکتا ہے تقلید جائز نہیں بلکہ اس پر براہ راست حق کی اتباع واجب ہے لیکن جن مسائل میں وہ خود اجتھاد کرنے سے قاصر ہے ان میں وہ علماء ہی کی طرف رجوع کرے گا اور ان میں کسی کی بھی تقلید کرے گا۔ اس درجہ کو متوسط درجہ کہتے ہیں اور اس پر فائز شخص عام طور پر طالب علم ہوتا ہے۔
۳۔ جو شخص شرعی مسائل میں اجتہاد کرنے کی استطاعت رکھتا ہے اور براہ راست نصوص سے مسائل کو اخذ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے تو اس پر تقلید حرام ہے اس لئیے کہ وہ مجتہد ہے اور اسے دلائل کی معرفت حاصل ہے لحاظہ اب تقلید کرنے کا جواز باقی نہیں رہتا۔ اس درجہ کو درجہ اجتہاد کہتے ہیں اور اس پر فائز شخص کو مجتہد۔ اجتہاد کے کل چھ مراتب ہیں اور مختلف شرائط ہیں۔
پس معلوم ہوا کہ آدمی پر اس کے علمی مرتبہ اور استطاعت کے اعتبار سے تقلید واجب، جائز یا حرام ہوتی ہے اور اہل حدیث کے علماء ہمیشہ سے اس کے قائل رہے ہیں۔ البتہ بعض علماء عامی کا مفتی سے سوال کرنے کو بھی تقلید نہیں مانتے بلکہ وہ اس کو بھی اتباع ہی کہتے ہیں لیکن یہ بھی محض لفظی اختلاف ہے ورنہ جاہل عامی کے مفتی سے مسئلہ پوچھنے کو تو یہ علماء بھی واجب ہی کہتے ہیں۔ تو یوں کہہ لیجئے کہ مجتہد پر کسی اور سے پوچھ کر عمل کرنا حرام ہے اور عامی پر مفتی سے پوچھ کر عمل کرنا واجب ہے۔ الغرض یہ کہ نہ تو کسی فقہی مذہب کی طرف نسبت کرنے سے تقلید لازم آتی ہے اور نہ تقلید خود مطلقا حرام ہے بلکہ جو چیز مطلقا حرام ہے وہ تقلید شخصی ہے یعنی کسی ایک معین امام یا مذہب کی پیروی کو اپنے اوپر لازم کرلینا بھلے نص اس کے مخالف ہو تو یہ ایسا خطرناک عمل ہے کہ جس کے بارے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ "جو شخص یہ کہے کہ امت کے ہر فرد پر کسی ایک مذہب یا امام کے تمام اقوال کی تقلید کرنا واجب ہے تو ایسے شخص سے توبہ کروائی جائے اور اگر نہ مانے تو قتل کردیا جائے کیونکہ کسی شخص کے تمام اقوال کی پیروی واجب نہیں مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی"۔
امید ہے اب اشکال دور ہوجائیں گے انشاء اللہ۔