عبدالرحمن بھٹی
مشہور رکن
- شمولیت
- ستمبر 13، 2015
- پیغامات
- 2,435
- ری ایکشن اسکور
- 293
- پوائنٹ
- 165
اپنے آپ کو مالکیہ، شافعیہ یا حنابلہ وغیرہ سے منسوب کرنے میں نہ تو کوئی قباحت ہے اور نہ ہی اس سے کسی قسم کی کوئی تقلید یا تعصب لازم آتی ہے۔
محترم! آپ کا یہ فرمانا کہ عامی کا عالم یا مفتی کی تقلید کرنا واجب ہے اس سے سو فی صد متفق ہوں کہ عامی کو اس کے بغیر چارہ کار نہیں۔جو شخص شریعت کے مسائل کا علم نہیں رکھتا اور نہ ہی دلائل کو سمجھنے کی استطاعت رکھتا ہے اس پر واجب ہے کہ وہ ماہر شریعت عالم یا مفتی سے مسئلہ پوچھے اور اس پر عمل کرے۔ گویا اس پر واجب ہے کہ وہ عالم یا مفتی کی تقلید کرے جب تک کہ وہ خود دلائل کو سمجھنے کی استطاعت حاصل نہ کرلے لیکن اس پر یہ واجب نہیں کہ وہ ایک مخصوص مذھب کے مفتی ہی سے اپنے سارے مسائل پوچھے وہ اس معاملے اہل سنت کے صحیح العقیدہ علماء میں سے کسی سے بھی مسئلہ پوچھ سکتا ہے۔ اس درجہ کے شخص کو عامی یا جاہل کہتے ہیں۔
آپ کا یہ فرمانا بھی بجا کہ کسی بھی صحیح العقیدہ اہلِ سنت عالم یا مفتی سے بلا تخصیص پوچھ لے جائز ہے۔
محترم! برصغیر میں اہلِ سنت میں سے صرف اور صرف حنفی مسلک کے عالم اور مفتی تھے۔ لہٰذا لوگ انہی سے مسائل پوچھتے تھے۔ میرا پہلاسوال یہ ہے کہ؛
کیا بر صغیر کےعلماء احناف اہلِ سنت تھے ؟
میرا دوسرا سوال؛
کیا اس مفتی یا عالم کے بتائے ہوئے مسئلہ پر اس عامی کو اعتراض یا اختلاف کا حق حاصل ہوتا ہے؟ اگر اعتراض کرے تو اس کا کیا حکم ہے
محترم! میرا تیسرا سوال یہ ہے کہ؛جو شخص شریعت کے مسائل کا کسی حد تک علم رکھتا ہے اور ان کے دلائل کو بھی کسی حد تک ذاتی طور پر سمجھنے کی استطاعت رکھتا ہے تو ایسے شخص پر ان مسائل میں جن کے دلائل وہ خود سمجھ سکتا ہے تقلید جائز نہیں بلکہ اس پر براہ راست حق کی اتباع واجب ہے لیکن جن مسائل میں وہ خود اجتھاد کرنے سے قاصر ہے ان میں وہ علماء ہی کی طرف رجوع کرے گا اور ان میں کسی کی بھی تقلید کرے گا۔ اس درجہ کو متوسط درجہ کہتے ہیں اور اس پر فائز شخص عام طور پر طالب علم ہوتا ہے۔
کسی مسئلہ میں اجتہاد کی صلاحیت حاصل ہونے کی نشانی یا شرائط کیا ہیں؟ کیا اس مسئلہ میں وہ فتویٰ دے سکتا ہے یا عامی اس کی تقلید کر سکتا ہے؟
محترم! میرا چوتھا سوال یہ ہے کہ؛جو شخص شرعی مسائل میں اجتہاد کرنے کی استطاعت رکھتا ہے اور براہ راست نصوص سے مسائل کو اخذ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے تو اس پر تقلید حرام ہے اس لئیے کہ وہ مجتہد ہے اور اسے دلائل کی معرفت حاصل ہے لحاظہ اب تقلید کرنے کا جواز باقی نہیں رہتا۔ اس درجہ کو درجہ اجتہاد کہتے ہیں اور اس پر فائز شخص کو مجتہد۔ اجتہاد کے کل چھ مراتب ہیں اور مختلف شرائط ہیں۔
اس کی کیا دلیل ہے کہ مجتہد پر تقلید ”حرام“ ہے؟
محترم! آپ نے لکھا کہ عامی کا عالم اور مفتی سے پوچھنا واجب ہے۔ میرا پانچواں سوال یہ ہے کہ؛آج اہل حدیث سلفیہ اور ہمارے ہاں کے احناف میں ایک بہت بڑا اختلاف تقلید شخصی پر ہے نہ کہ تقلید عامی پر اور احناف کے علاوہ بہت سے متاخرین مالکیہ اور شوافع میں بھی تصوف اور تقلید شخصی کی بیماری نے جنم لیا
اگر کوئی عامی کسی ایک ہی عالم یا مفتی سے ہمیشہ پوچھتا رہے تو کیا یہ جائز ہے یا ناجائز اور گناہ؟
محترم! میرا چھٹا سوال؛تقلید سے متعلق ہمارے ہاں کے احناف کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ فقہ حنفی ہی کو حق سمجھ بیٹھے ہیں اور اس سے باہر نکلنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔
آپ فقہ حنفی سے لوگوں کو کیوں نکالنا چاہتے ہیں (جب کہ اوپر آپ یہ وضاحت کر آئے ہیں کہ عامی کسی بھی عالم مفتی سے مسئلہ پوچھ لے جائز بلکہ واجب ہے)؟
Last edited: