- شمولیت
- مارچ 03، 2011
- پیغامات
- 4,178
- ری ایکشن اسکور
- 15,351
- پوائنٹ
- 800
بجا فرمایا، جزاکم اللہ خیرا!جزاکم اللہ خیرا
ثانی کا لفظ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ضمیر سے حال بن رہا ہے اور اسے مراد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں۔ لیکن ثانی اثنین سے مراد ابو بکر ہیں یہ نقطہ واضح کرنا مقصود تھا۔ ثانی سے مراد بلاشبہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہوں لیکن یہاں ہیں تو اثنین، ان اثنین میں سے ایک تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہوئے اور دوسرے ابو بکر رضی اللہ عنہ۔ اگر یہاں ابو بکر رضی اللہ عنہ کا دوسرا ہونا، دو میں سے دوسرے ہونے کے معنی میں بھی ہے لیکن یہ ان کی فضیلت کی دلیل بھی ہے کہ دو میں سے ایک تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے اور دوسرے ابو بکر رضی اللہ عنہ تھے کہ جن کا تذکرہ قرآن میں آیا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دوسرے شخص ابو بکر رضی اللہ عنہ تھے لیکن یہ ساتھ ہونا صرف عدد بتلانے کا ہی فائدہ نہیں دے رہا بلکہ ساتھی کی فضیلت بھی بیان کر رہا ہے کہ جبکہ کسی اور مدد نہ کی تھی اور جبکہ کوئی اور ساتھ نہ تھا تو اس وقت بھی یہ ساتھ تھے۔ بس یہی واضح کرنا مقصود تھا۔ جزاکم اللہ
اس اعتبار سے یہ واقعی سیدنا ابو بکر صدیق کی بہت بڑی فضیلت ہے۔
إلا تنصروه اللہ تعالیٰ کی طرف سے عتاب ہے، کہ اگر تم مدد نہیں کرو گے تو اللہ تو مددگار ہیں ہی۔
بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ اس عتاب سے صرف سیدنا ابو بکر مستثنیٰ ہیں کیونکہ وہ ثاني اثنين میں شامل ہیں، جبکہ دیگر مفسرین کے نزدیک غزوۂ تبوک میں شریک ہونے والے تمام صحابہ کرام اس عتاب سے مستثنیٰ ہیں، کیونکہ یہ آیات غزوۂ تبوک کے موقع پر نازل ہوئی تھیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم!