- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,771
- ری ایکشن اسکور
- 8,496
- پوائنٹ
- 964
ٹھیک ہے ہماری طرف سے بھی فرض کرلیں کہ ہمارے پاس نہیں ہے ۔ اور لگائیں حکم کہ اب ایسی صورت میں کیا خرابی لازم آتی ہے ۔مطلب آپ کے پاس تمام کی تمام مقلدین کی سند نہیں ہے
ہمارے پاس ہے یا نہیں یہ بعد کی بات ہے پہلے آپ اس کا اقرار کریں
اگر آپ دوسروں سے یہ امید رکھتے ہیں کہ مقلدین کے اندر عامی اور عالم کا فرق موجود ہے تو آپ کو یہ نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ اہل حدیث میں یہ تفاوت موجود ہے ۔ البتہ دونوں میں یہ چیز مشترک ہے کہ دونوں قرآن وسنت پر عمل کرنا اپنا مطمع نظر سمجھتے ہیں ۔امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا مطلب یہ ہے کہ صرف حدیث کو رٹ لینے سے محدیث نہیں ہوتا بلکہ اس پر عمل کرنا چاہئے جبھی وہ محدث ہوتا ہے۔آپ یہ مطلب لیں
ابن تیمیہ علیہ الرحمہ کی عبارت سے بھی عام آدمی مراد نہیں ہےکیونکہ أحق بحفظه و معرفته و فهمه ظاهرا و باطنا عام آدمی کو کیسے حاصل ہے۔
احسن الفتاوی کے مکمل فتوی دیکھ کر بات کی جاسکتی ہے۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں وہ یہ کہ مذاہب اربعہ کے علاوہ اہل حدیث سے مراد محدثیں فقہاء ہیں جو ائمہ اربعہ کےسے مسائل میں اختلاف رکھتے تھے۔جیسے امام بخاری رحمۃاللہ علیہ تھے،
محمد ادریس کاندھلوی صاحب کی بات سےمراد محدث ہیں کے تمام کے تما م صحابہ محدث تھے ۔
جو حدیث پہ عمل کرتا ہے اس کو چاہے ’’ محدث ‘‘ کہیں یا ’’ اہل حدیث ‘‘ کہیں یا آج کل کے مقلدین اس کو ’’ غیر مقلد ‘‘ کہیں ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں ۔ احمد بن حنبل کا قول تو اس لیے پیش کیا ہے کہ حدیث پر عمل کرنے کا تصور ( جسے آج ایک جرم سمجھا جاتا ہے ) اس وقت موجود تھا ۔ اور اس دور میں بھی اہلحدیث ان کو کہا جاتا تھا جو حدیث پر عمل بھی کرتے تھے نہ کہ صرف حدیث کو روایت کرلینے سے کوئی اہل حدیث بن جاتا تھا جیساکہ آج کل بعض لوگوں کا یہ رویہ ہے کہ جناب ’’ اہل حدیث ‘‘ سے مراد عاملین حدیث نہیں بلکہ ’’ راویان حدیث ‘‘ ہیں ۔
مان لیا کاندھلوی صاحب کی مراد وہی جو آپ نے بتائی ۔ لیکن کیا صحابہ کرام حدیث پر عمل کرنے والے نہیں تھے ؟ اگر صحابہ کرام حدیث پر عمل کرنے والے تھے تو ’’ عمل بالحدیث ‘‘ کی تحریک کو انگریز دور کی پیداوار قرار دینا کیونکر روا ہے ؟
امام عبد القاہر البغدادی ( المتوفی سنۃ 429 ھ ) اپنی کتاب ’’ اصول الدین ص 317 پر فرماتے ہیں :آپ یہاں نہیں تھے تو کہاں تھے یہ تو بتائے ؟
في ثغور الروم والجزيرة و ثغور الشام و ثغور آذر بيجان و باب الأبواب كلهم على مذهب أهل الحديث من أهل السنة
روم ، جزیرہ ، شام ، آذر بائیجان اور باب الأبواب کی سرحدوں پر تمام لوگ اہل سنت میں سے اہل حدیث کے مذہب پر ہیں ۔
ہم حق کو کسی تقلیدی مذہب میں منحصر نہیں سمجھتے ۔ حق بات جہاں بھی ہو قبول کرتے ہیں ۔ اسی لیے ہمیں علیحدہ سے اس طرح سے تدوین کرنے کی ضرورت نہیں تھی کہ یہ ہماری کتابیں ہیں اور ہم نے اسی کنویں کے اندر زندگی گزارنی ہے ۔ یہی وجہ ہے کسی بھی فقہی مسئلہ میں اہل حدیث کا موقف کسی نہ کسی امام کی بات کے موافق ہوتا ہے ۔مذاہب اربعہ کی مسائل جمع ہیں آپ کے وہ مسائل کہاں ہیں؟نہ فروعی مسائل ہیں نہ جزئی۔پانچ مکاتب فکر تھے تو اہل حق صرف آپ کیسے ہوگئے؟
'' تقریبا دوسری تیسری صدی ہدری میں اہل حق فروعی اور جزئی مسائل کےحل کرنے میں اختلاف انظار کے پیش نظر پانچ مکاتب فکر میں قائم ہوگئے یعنی مذاہب اربعہ اور اہل حدیث ۔ اس زمانے سے لیکر آج تک انہی پانچ طریقوں میں حق کو منحصر سمجھا جاتا رہا ۔ احسن الفتاوی ج 1 ص 216 )
ہاں تقلیدی پابندیوں سے آزاد رہ کر فقہ الحدیث کو تصنیفات میں مرتب کرنے والے حضرات تدوین و تصنیف کے دور سے ہی موجود ہیں جن میں امام بخاری ، ابو داؤد ، ابن المنذر ، ابن الجارود اور پھر ابن القیم و ابن الوزیر اور صنعانی و شوکانی جیسے اساطین علم سر فہرست ہیں ۔
یہ مسلک کسی ایک کا نہیں ہے بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ ایک کی پابندی کے نعرے کے باوجود عملی طور پر اس پر عمل ممکن نہیں ہے ۔ لیکن دوسرا مسئلہ بھی تو حل طلب ہے کہ اس اختلاف و اتفاق کا محور صرف ’’ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ‘‘ کی ذات کیوں ہے ؟ کیا أئمہ مالک ، شافعی ، احمد بن حنبل وغیرہم کی شخصیات اس لائق نہیں کہ اسلام کے لیے کی گئی ان کی جہود اور کوشش و کاوشوں سے فائدہ اٹھایا جائے ۔ ؟یہ بات آپ کو بھی معلوم ہے کہ امام صاحب کے بہت سے مسائل میں ان کے شاگردوں نے اختلاف کیا ہے
یہ مسلک کسی ایک کا نہیں ہے ۔
بہر صورت یہ ایک الگ مسئلہ ہے جو آپ نے بغیر کسی تعلق سے یہاں شروع کردیا ۔ میں نے عرض کی تھی :
یہ آپ کے ایک اعتراض کا جواب تھا ۔ جس سے آپ مطمئن ہوئے نہیں ہوئے ؟ اور کیوں نہیں ہوئے اس کی وضاحت آپ سے مطلوب تھی ۔ جس کا جواب آپ نے پتہ نہیں یہ کیوں سمجھ لیا کہ مذہب حنفی بھی کسی ایک کی پیروی کی بجائے مختلف أئمہ کی آراء کی مجموعہ ہے ۔ حالانکہ اس تعلق سے میں نے کوئی بات نہیں کی ۔ واللہ اعلم ۔کسی امام کی تقلید کا ہار گلے میں پہننے کی بجائے تمام سلف صالحین کے متفقہ فہم کے مطابق قرآن وسنت کے چشمہ صافی سے سیراب ہونے کا مسئلہ ہے توایسے خوش نصیب صحابہ کے دور سے لے کر آج تک الحمدللہ موجود ہیں ۔
مالک ، شافعی ، احمد بن حنبل ، بخاری ، مسلم ، ابن خزیمہ ، ابن جریر طبری ، ابو یعلی الموصلی ، ابن المنذر سے لے کر ابن تیمیہ ، ابن قیم تک سب کب کسی کی تقلید کرتے تھے ۔
کیا یہ سب برصغیر میں انگریز کے دور کی پیدائش ہیں ؟