• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اہل حدیث حضرات کی سند مطلوب ہے

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
مطلب آپ کے پاس تمام کی تمام مقلدین کی سند نہیں ہے
ہمارے پاس ہے یا نہیں یہ بعد کی بات ہے پہلے آپ اس کا اقرار کریں
ٹھیک ہے ہماری طرف سے بھی فرض کرلیں کہ ہمارے پاس نہیں ہے ۔ اور لگائیں حکم کہ اب ایسی صورت میں کیا خرابی لازم آتی ہے ۔

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا مطلب یہ ہے کہ صرف حدیث کو رٹ لینے سے محدیث نہیں ہوتا بلکہ اس پر عمل کرنا چاہئے جبھی وہ محدث ہوتا ہے۔آپ یہ مطلب لیں
ابن تیمیہ علیہ الرحمہ کی عبارت سے بھی عام آدمی مراد نہیں ہےکیونکہ أحق بحفظه و معرفته و فهمه ظاهرا و باطنا عام آدمی کو کیسے حاصل ہے۔
احسن الفتاوی کے مکمل فتوی دیکھ کر بات کی جاسکتی ہے۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں وہ یہ کہ مذاہب اربعہ کے علاوہ اہل حدیث سے مراد محدثیں فقہاء ہیں جو ائمہ اربعہ کےسے مسائل میں اختلاف رکھتے تھے۔جیسے امام بخاری رحمۃاللہ علیہ تھے،
محمد ادریس کاندھلوی صاحب کی بات سےمراد محدث ہیں کے تمام کے تما م صحابہ محدث تھے ۔
اگر آپ دوسروں سے یہ امید رکھتے ہیں کہ مقلدین کے اندر عامی اور عالم کا فرق موجود ہے تو آپ کو یہ نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ اہل حدیث میں یہ تفاوت موجود ہے ۔ البتہ دونوں میں یہ چیز مشترک ہے کہ دونوں قرآن وسنت پر عمل کرنا اپنا مطمع نظر سمجھتے ہیں ۔
جو حدیث پہ عمل کرتا ہے اس کو چاہے ’’ محدث ‘‘ کہیں یا ’’ اہل حدیث ‘‘ کہیں یا آج کل کے مقلدین اس کو ’’ غیر مقلد ‘‘ کہیں ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں ۔ احمد بن حنبل کا قول تو اس لیے پیش کیا ہے کہ حدیث پر عمل کرنے کا تصور ( جسے آج ایک جرم سمجھا جاتا ہے ) اس وقت موجود تھا ۔ اور اس دور میں بھی اہلحدیث ان کو کہا جاتا تھا جو حدیث پر عمل بھی کرتے تھے نہ کہ صرف حدیث کو روایت کرلینے سے کوئی اہل حدیث بن جاتا تھا جیساکہ آج کل بعض لوگوں کا یہ رویہ ہے کہ جناب ’’ اہل حدیث ‘‘ سے مراد عاملین حدیث نہیں بلکہ ’’ راویان حدیث ‘‘ ہیں ۔
مان لیا کاندھلوی صاحب کی مراد وہی جو آپ نے بتائی ۔ لیکن کیا صحابہ کرام حدیث پر عمل کرنے والے نہیں تھے ؟ اگر صحابہ کرام حدیث پر عمل کرنے والے تھے تو ’’ عمل بالحدیث ‘‘ کی تحریک کو انگریز دور کی پیداوار قرار دینا کیونکر روا ہے ؟
آپ یہاں نہیں تھے تو کہاں تھے یہ تو بتائے ؟
امام عبد القاہر البغدادی ( المتوفی سنۃ 429 ھ ) اپنی کتاب ’’ اصول الدین ص 317 پر فرماتے ہیں :
في ثغور الروم والجزيرة و ثغور الشام و ثغور آذر بيجان و باب الأبواب كلهم على مذهب أهل الحديث من أهل السنة
روم ، جزیرہ ، شام ، آذر بائیجان اور باب الأبواب کی سرحدوں پر تمام لوگ اہل سنت میں سے اہل حدیث کے مذہب پر ہیں ۔
مذاہب اربعہ کی مسائل جمع ہیں آپ کے وہ مسائل کہاں ہیں؟نہ فروعی مسائل ہیں نہ جزئی۔پانچ مکاتب فکر تھے تو اہل حق صرف آپ کیسے ہوگئے؟
'' تقریبا دوسری تیسری صدی ہدری میں اہل حق فروعی اور جزئی مسائل کےحل کرنے میں اختلاف انظار کے پیش نظر پانچ مکاتب فکر میں قائم ہوگئے یعنی مذاہب اربعہ اور اہل حدیث ۔ اس زمانے سے لیکر آج تک انہی پانچ طریقوں میں حق کو منحصر سمجھا جاتا رہا ۔ احسن الفتاوی ج 1 ص 216 )
ہم حق کو کسی تقلیدی مذہب میں منحصر نہیں سمجھتے ۔ حق بات جہاں بھی ہو قبول کرتے ہیں ۔ اسی لیے ہمیں علیحدہ سے اس طرح سے تدوین کرنے کی ضرورت نہیں تھی کہ یہ ہماری کتابیں ہیں اور ہم نے اسی کنویں کے اندر زندگی گزارنی ہے ۔ یہی وجہ ہے کسی بھی فقہی مسئلہ میں اہل حدیث کا موقف کسی نہ کسی امام کی بات کے موافق ہوتا ہے ۔
ہاں تقلیدی پابندیوں سے آزاد رہ کر فقہ الحدیث کو تصنیفات میں مرتب کرنے والے حضرات تدوین و تصنیف کے دور سے ہی موجود ہیں جن میں امام بخاری ، ابو داؤد ، ابن المنذر ، ابن الجارود اور پھر ابن القیم و ابن الوزیر اور صنعانی و شوکانی جیسے اساطین علم سر فہرست ہیں ۔

یہ بات آپ کو بھی معلوم ہے کہ امام صاحب کے بہت سے مسائل میں ان کے شاگردوں نے اختلاف کیا ہے
یہ مسلک کسی ایک کا نہیں ہے ۔
یہ مسلک کسی ایک کا نہیں ہے بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ ایک کی پابندی کے نعرے کے باوجود عملی طور پر اس پر عمل ممکن نہیں ہے ۔ لیکن دوسرا مسئلہ بھی تو حل طلب ہے کہ اس اختلاف و اتفاق کا محور صرف ’’ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ‘‘ کی ذات کیوں ہے ؟ کیا أئمہ مالک ، شافعی ، احمد بن حنبل وغیرہم کی شخصیات اس لائق نہیں کہ اسلام کے لیے کی گئی ان کی جہود اور کوشش و کاوشوں سے فائدہ اٹھایا جائے ۔ ؟
بہر صورت یہ ایک الگ مسئلہ ہے جو آپ نے بغیر کسی تعلق سے یہاں شروع کردیا ۔ میں نے عرض کی تھی :
کسی امام کی تقلید کا ہار گلے میں پہننے کی بجائے تمام سلف صالحین کے متفقہ فہم کے مطابق قرآن وسنت کے چشمہ صافی سے سیراب ہونے کا مسئلہ ہے توایسے خوش نصیب صحابہ کے دور سے لے کر آج تک الحمدللہ موجود ہیں ۔
مالک ، شافعی ، احمد بن حنبل ، بخاری ، مسلم ، ابن خزیمہ ، ابن جریر طبری ، ابو یعلی الموصلی ، ابن المنذر سے لے کر ابن تیمیہ ، ابن قیم تک سب کب کسی کی تقلید کرتے تھے ۔
کیا یہ سب برصغیر میں انگریز کے دور کی پیدائش ہیں ؟
یہ آپ کے ایک اعتراض کا جواب تھا ۔ جس سے آپ مطمئن ہوئے نہیں ہوئے ؟ اور کیوں نہیں ہوئے اس کی وضاحت آپ سے مطلوب تھی ۔ جس کا جواب آپ نے پتہ نہیں یہ کیوں سمجھ لیا کہ مذہب حنفی بھی کسی ایک کی پیروی کی بجائے مختلف أئمہ کی آراء کی مجموعہ ہے ۔ حالانکہ اس تعلق سے میں نے کوئی بات نہیں کی ۔ واللہ اعلم ۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
یہ مسلک کسی ایک کا نہیں ہے بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ ایک کی پابندی کے نعرے کے باوجود عملی طور پر اس پر عمل ممکن نہیں ہے ۔؟
!!!

'' تقریبا دوسری تیسری صدی ہدری میں اہل حق فروعی اور جزئی مسائل کےحل کرنے میں اختلاف انظار کے پیش نظر پانچ مکاتب فکر میں قائم ہوگئے یعنی مذاہب اربعہ اور اہل حدیث ۔ اس زمانے سے لیکر آج تک انہی پانچ طریقوں میں حق کو منحصر سمجھا جاتا رہا ۔'' ( احسن الفتاوی ج 1 ص 216 )
طبع؟

ایک عجیب سی بحث جاری ہے جس کا اختتام نہیں معلوم ہوتا۔ کیا مجھے اجازت ہے کہ میں دو سوال پوچھ سکوں؟
خضر حیات بھائی کیا اہل حدیث کے پاس کوئی ایسی سند ہے جس کے تمام رجال غیر مقلد ہوں یا نہیں؟ (جواب براہ کرم ہاں یا ناں میں)
محمد یوسف بھائی اگر ایسی کوئی سند موجود نہیں ہے تو پھر اس میں کیا حرج ہے؟ کیا اس سے کسی مسئلہ یا قاعدے میں کوئی حرج لازم آتا ہے؟
 
شمولیت
نومبر 14، 2013
پیغامات
177
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
43
ٹھیک ہے ہماری طرف سے بھی فرض کرلیں کہ ہمارے پاس نہیں ہے ۔ اور لگائیں حکم کہ اب ایسی صورت میں کیا خرابی لازم آتی ہے ۔
آپ کا دعوی باطل ہوگا کہ شروع زمانے سے صرف غیر مقلدین ہیں ۔​
اگر آپ دوسروں سے یہ امید رکھتے ہیں کہ مقلدین کے اندر عامی اور عالم کا فرق موجود ہے تو آپ کو یہ نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ اہل حدیث میں یہ تفاوت موجود ہے ۔ البتہ دونوں میں یہ چیز مشترک ہے کہ دونوں قرآن وسنت پر عمل کرنا اپنا مطمع نظر سمجھتے ہیں ۔​
جو حدیث پہ عمل کرتا ہے اس کو چاہے ’’ محدث ‘‘ کہیں یا ’’ اہل حدیث ‘‘ کہیں یا آج کل کے مقلدین اس کو ’’ غیر مقلد ‘‘ کہیں ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں ۔ احمد بن حنبل کا قول تو اس لیے پیش کیا ہے کہ حدیث پر عمل کرنے کا تصور ( جسے آج ایک جرم سمجھا جاتا ہے ) اس وقت موجود تھا ۔ اور اس دور میں بھی اہلحدیث ان کو کہا جاتا تھا جو حدیث پر عمل بھی کرتے تھے نہ کہ صرف حدیث کو روایت کرلینے سے کوئی اہل حدیث بن جاتا تھا جیساکہ آج کل بعض لوگوں کا یہ رویہ ہے کہ جناب ’’ اہل حدیث ‘‘ سے مراد عاملین حدیث نہیں بلکہ ’’ راویان حدیث ‘‘ ہیں ۔​
مان لیا کاندھلوی صاحب کی مراد وہی جو آپ نے بتائی ۔ لیکن کیا صحابہ کرام حدیث پر عمل کرنے والے نہیں تھے ؟ اگر صحابہ کرام حدیث پر عمل کرنے والے تھے تو ’’ عمل بالحدیث ‘‘ کی تحریک کو انگریز دور کی پیداوار قرار دینا کیونکر روا ہے ؟​
عامی کو شروع زمانے سے محدث نہیں کہاجاتا تھا،اورنا ہی اس زمانے میں عامی کو محدث کہتے ہیں ۔اہل حدیث (غیرمقلدین نہیں)سے مراد محدیثیں ہی ہیں۔جیساکہ​
حافظ ابن تیمیہ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :
ولا نعني بأهل الحديث المقتصرين على سماعه أو كتابته أو روايته بل نعني بهم كل من كان أحق بحفظه و معرفته و فهمه ظاهرا و باطنا واتباعه باطنا وظاهرا ۔ ( مجموع الفتاوی ج 4 ص 95 )
اور ہم اہل حدیث سے مراد صرف سامعین حدیث ، کاتبین حدیث یا راویاں حدیث ہی نہیں لیتے بلکہ ہم ہر وہ شخص مراد لیتے ہیں جو اسے کما حقہ یاد رکھتا ہے ، ظاہری و باطنی معرفت و فہم رکھتا ہے ہے ، اور باطنی و ظاہری اتباع کرتا ہے۔​
آپ اس فرق کو سمجھیں آپ کے بہت سے مسئلہ حل ہوجائیں گے ۔​
امام عبد القاہر البغدادی ( المتوفی سنۃ 429 ھ ) اپنی کتاب ’’ اصول الدین ص 317 پر فرماتے ہیں :​
في ثغور الروم والجزيرة و ثغور الشام و ثغور آذر بيجان و باب الأبواب كلهم على مذهب أهل الحديث من أهل السنة
روم ، جزیرہ ، شام ، آذر بائیجان اور باب الأبواب کی سرحدوں پر تمام لوگ اہل سنت میں سے اہل حدیث کے مذہب پر ہیں ۔​
اس کی وضاحت کرچکا ہوں کہ اہل حدیث سے مراد فقہاء محدیثیں ہیں جنکی لوگ اتباع کرتے تھے۔​
پانچ طبقات چار آئمہ اور فقہاء محدیثیں ان سب کی مسائل کتابی شکلوں میں اس زمانے تک موجود ہیں ۔​
ہم حق کو کسی تقلیدی مذہب میں منحصر نہیں سمجھتے ۔ حق بات جہاں بھی ہو قبول کرتے ہیں ۔ اسی لیے ہمیں علیحدہ سے اس طرح سے تدوین کرنے کی ضرورت نہیں تھی کہ یہ ہماری کتابیں ہیں اور ہم نے اسی کنویں کے اندر زندگی گزارنی ہے ۔ یہی وجہ ہے کسی بھی فقہی مسئلہ میں اہل حدیث کا موقف کسی نہ کسی امام کی بات کے موافق ہوتا ہے ۔​
عامی الگ ہے محدث الگ ہے،آپ دونو ں کو ایک کررہے ہیں ۔​
کتا بیں اس لئے نہیں ہیں کہ یہ مسلک تھا ہی نہیں۔​
یہ مسلک کسی ایک کا نہیں ہے بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ ایک کی پابندی کے نعرے کے باوجود عملی طور پر اس پر عمل ممکن نہیں ہے ۔ لیکن دوسرا مسئلہ بھی تو حل طلب ہے کہ اس اختلاف و اتفاق کا محور صرف ’’ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ‘‘ کی ذات کیوں ہے ؟ کیا أئمہ مالک ، شافعی ، احمد بن حنبل وغیرہم کی شخصیات اس لائق نہیں کہ اسلام کے لیے کی گئی ان کی جہود اور کوشش و کاوشوں سے فائدہ اٹھایا جائے ۔ ؟​
بھائی علی طور پر ممکن نہیں ہے تعجب ہے ، عدالتی فیصلے تمام کے تما م احناف کے مسلک پر تھے ۔آج بھی دنیا میں اکثریت احناف کے مسلک پر عمل کرکے دیکھا رہی ہے۔​
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ '' کی ذات سے چڑ کیوں ؟ ۔ ان کی ذات اتنی اہم تھی کہ امام شافعی ان کی وفات کے بعد ان کے قبر پر حاضر ہوئے تو نمازمیں احتراماً رفع یدین نہ فراما تےاور امام صاحب کے مسلک پر عمل کرتے۔​
کسی امام کی تقلید کا ہار گلے میں پہننے کی بجائے تمام سلف صالحین کے متفقہ فہم کے مطابق قرآن وسنت کے چشمہ صافی سے سیراب ہونے کا مسئلہ ہے​
اسی کو جواب تھا (یہ بات آپ کو بھی معلوم ہے کہ امام صاحب کے بہت سے مسائل میں ان کے شاگردوں نے اختلاف کیا ہے)۔​
حنفیت تقلید جامد نہیں ہے اور نہ ہی ایک فرد کا مسلک ہے​
اس کا ہر مسئلہ قران و حدیث سے مستنبط ہے اور اس پر امت نے اتنا اعتماد کیا کہ عدالتی نظام اس کے سپرد کیااور اپنے فیصلہ اس کے کروتے تھے۔​
 
شمولیت
نومبر 14، 2013
پیغامات
177
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
43
ایک عجیب سی بحث جاری ہے جس کا اختتام نہیں معلوم ہوتا۔ کیا مجھے اجازت ہے کہ میں دو سوال پوچھ سکوں؟
خضر حیات بھائی کیا اہل حدیث کے پاس کوئی ایسی سند ہے جس کے تمام رجال غیر مقلد ہوں یا نہیں؟ (جواب براہ کرم ہاں یا ناں میں)
محمد یوسف بھائی اگر ایسی کوئی سند موجود نہیں ہے تو پھر اس میں کیا حرج ہے؟ کیا اس سے کسی مسئلہ یا قاعدے میں کوئی حرج لازم آتا ہے؟
اسلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
بھائی اشماریہ
آپ کو مکمل اجازت ہے آپ جو چاہے پوچھ سکتے ہیں۔
سند سے ان کی تاریخ کا پتہ لگے گا ۔ اور ان کے نظریات کا بھی ۔
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
تمہا ری سند کا تو اب تک نام و نشان نہیں ہے اور دوسروں سے سند مانگ رہے ہیں
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
اسلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
بھائی اشماریہ
آپ کو مکمل اجازت ہے آپ جو چاہے پوچھ سکتے ہیں۔
سند سے ان کی تاریخ کا پتہ لگے گا ۔ اور ان کے نظریات کا بھی ۔
تو بتا دیں بھائی جو پوچھا ہے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
آپ کا دعوی باطل ہوگا کہ شروع زمانے سے صرف غیر مقلدین ہیں ۔​
کسی بھی حدیث کی سند امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے شروع ہوتی ہے یا پھر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ تعالی علیہ وسلم سے شروع ہوتی ہے ۔
تو پھر شروع زمانے میں مقلدین ہوئے یا غیر مقلدین ہوئے؟
رہی یہ بات کہ ’’ شروع زمانے سے ‘‘ تو اس بات کا تو ہم نے کبھی بھی دعوی نہیں کیا کہ شروع سے لے کر آج تک ’’ مقلدین ‘‘ کا وجود ہی نہیں رہا ۔
ہاں آپ کا یہ دعوی ہے کہ ’’ غیر مقلدین ‘‘ بعد کی پیداوار ہیں حالانکہ ’’ مقلدین ‘‘ بعد کی پیداوار ہیں ۔ کیونکہ جب ’’ مقلَد ‘‘ کا وجود بعد میں ہے تو ’’ مقلِد ‘‘ کیسے پہلے کی پیداوار ہوسکتا ہے ؟ یا تو ’’مقلَد ‘‘ کوئی پہلے زمانے کا ڈھونڈ لیں ۔
اور ایک بات جس کا جواب آپ نے نہ دیا نہ امید ہے کہ اگر ہماری سند میں مقلدین کا وجود اس بات کی دلیل بن سکتا ہے کہ کسی زمانے میں ہم نہیں تھے تو پھر آپ کی سند میں غیر حنفیوں کا وجود اس بات کی دلیل کیوں نہیں بن سکتا کہ کسی زمانےمیں مذہب حنفی اس دنیا سے ختم ہوچکا تھا ؟
وہی پرانی بات نہ دھرائیں کہ ہیں تو سب مقلدین ہی ۔ آپ کے سند والے قاعدے کے اعتبار سے میرا استدلال حنفیوں کے عدم وجود پر ہے نہ کہ مقلدین کے عدم وجود پر ۔
امید ہے کہ وہی بات کریں گے جو آپ سے مطلوب ہے۔
عامی کو شروع زمانے سے محدث نہیں کہاجاتا تھا،اورنا ہی اس زمانے میں عامی کو محدث کہتے ہیں ۔اہل حدیث (غیرمقلدین نہیں)سے مراد محدیثیں ہی ہیں۔جیساکہ​
حافظ ابن تیمیہ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :​
ولا نعني بأهل الحديث المقتصرين على سماعه أو كتابته أو روايته بل نعني بهم كل من كان أحق بحفظه و معرفته و فهمه ظاهرا و باطنا واتباعه باطنا وظاهرا ۔ ( مجموع الفتاوی ج 4 ص 95 )​
اور ہم اہل حدیث سے مراد صرف سامعین حدیث ، کاتبین حدیث یا راویاں حدیث ہی نہیں لیتے بلکہ ہم ہر وہ شخص مراد لیتے ہیں جو اسے کما حقہ یاد رکھتا ہے ، ظاہری و باطنی معرفت و فہم رکھتا ہے ہے ، اور باطنی و ظاہری اتباع کرتا ہے۔​
آپ اس فرق کو سمجھیں آپ کے بہت سے مسئلہ حل ہوجائیں گے ۔​
شروع سے لے کر آپ پینترے بدلنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ پہلے یہ ہی بتادیں کہ آپ کے نزدیک ’’ اہل حدیث ‘‘ اور ’’ محدث ‘‘ کسے کہتے ہیں ؟
اور یہ بھی بتادیں کہ جو شخص ’’ حدیث پر عمل کرتا ہے اس کیا کہتے ہیں ؟ ‘‘ ابو بکر و عمر اور جمیع صحابہ رضی اللہ عنہم حدیث پر عمل کرتے تھے کہ نہیں ؟ ان کو کیا کہیں گے ؟
اگر کوئی کہے کہ تمام صحابہ کرام ’’ اہل حدیث ‘‘ تھے تو اس سے کیا مراد ہوگا ؟ کہ وہ عاملین بالحدیث تھے یا پھر راویان حدیث تھے ؟ یا دونوں ہی ؟
اس کی وضاحت کرچکا ہوں کہ اہل حدیث سے مراد فقہاء محدیثیں ہیں جنکی لوگ اتباع کرتے تھے۔​
پانچ طبقات چار آئمہ اور فقہاء محدیثیں ان سب کی مسائل کتابی شکلوں میں اس زمانے تک موجود ہیں ۔​
یہ پانچواں طبقہ مقلدین کا تھا ؟ یہی تو اہل حدیث ہیں جناب جو قرآن وسنت پر عمل کرتے تھے اور کسی ایک امام کو دین کی کل ذمہ داری دینے کی بجائے تمام علماء کی خدمات سے استفادہ کرتے تھے ۔
اور انہی کے بارے میں امام عبد القاہر البغدادی ( المتوفی سنۃ 429 ھ ) اپنی کتاب '' اصول الدین ص 317 پر فرماتے ہیں :
في ثغور الروم والجزيرة و ثغور الشام و ثغور آذر بيجان و باب الأبواب كلهم على مذهب أهل الحديث من أهل السنة
روم ، جزیرہ ، شام ، آذر بائیجان اور باب الأبواب کی سرحدوں پر تمام لوگ اہل سنت میں سے اہل حدیث کے مذہب پر ہیں ۔
امام عبد القاہر کے نزدیک ’’ اہل حدیث ‘‘ ایک مذہب تھا جو اس وقت موجود تھا ۔ جس کو آپ جیسے حضرات ’’ انگریز دور کی پیداوار ‘‘ کہتے نہیں تھکتے ۔
کتا بیں اس لئے نہیں ہیں کہ یہ مسلک تھا ہی نہیں۔​
جناب مسلک بھی تھا اور کتابیں بھی تھیں اور ابھی تک ہیں ۔ ہاں البتہ جس طرح مقلدین نے ایک امام کے گرد چکر در چکر کاٹے ہیں اسی طرح واقعتا کچھ نہیں ہے اور نہ ہی اس کی ضرورت تھی ۔ کیونکہ اس مسلک کے ہاں اصل قرآن وسنت ہیں اور حق کسی ایک امام یا مذہب میں محصور ہونے کی بجائے پوری امت کے علما و فضلاء میں منشور ہے ۔ لہذا جہاں سے ملا اسے لے لیا اور قبول کرلیا ۔ مذہب کی بے جا پابندیوں کی وجہ سے حق کی قربانی دینا اس مسلک کے دستور میں شامل نہیں ۔
بھائی علی طور پر ممکن نہیں ہے تعجب ہے ، عدالتی فیصلے تمام کے تما م احناف کے مسلک پر تھے ۔آج بھی دنیا میں اکثریت احناف کے مسلک پر عمل کرکے دیکھا رہی ہے۔​
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ '' کی ذات سے چڑ کیوں ؟ ۔ ان کی ذات اتنی اہم تھی کہ امام شافعی ان کی وفات کے بعد ان کے قبر پر حاضر ہوئے تو نمازمیں احتراماً رفع یدین نہ فراما تےاور امام صاحب کے مسلک پر عمل کرتے۔​
۔۔۔۔۔​
اسی کو جواب تھا (یہ بات آپ کو بھی معلوم ہے کہ امام صاحب کے بہت سے مسائل میں ان کے شاگردوں نے اختلاف کیا ہے)۔​
حنفیت تقلید جامد نہیں ہے اور نہ ہی ایک فرد کا مسلک ہے​
اس کا ہر مسئلہ قران و حدیث سے مستنبط ہے اور اس پر امت نے اتنا اعتماد کیا کہ عدالتی نظام اس کے سپرد کیااور اپنے فیصلہ اس کے کروتے تھے۔​
جناب اس قدر جذباتی ہونے کی کیا ضرورت ہے ۔ میں نے صرف یہ کہا تھا کہ نعرہ ایک امام کی تقلید کا ہے جبکہ عملی طور پر مقلَدین میں جم غفیر ہے ۔ جو کچھ بھی احناف کے ہاں رائج ہے وہ خود بزبان احناف ’’ حنفی مذہب کے علماء کے اقوال کا مجموعہ ‘‘ ہے نہ کہ ’’ امام ابو حنیفہ ‘‘ کے فرمودات ۔
باقی آپ حنفی ہیں جو چاہیں کہیں لیکن صرف کہنے سے کیا ہونے والا ہے ؟ کہنے والوں نے تو یہ بھی کہہ دیا ہے کہ امام مہدی ( اور غالبا عیسی علیہ السلام بھی ؟) بھی مذہب حنفی پر عمل کریں اور کروائیں گے ۔
ایک عجیب سی بحث جاری ہے جس کا اختتام نہیں معلوم ہوتا۔ کیا مجھے اجازت ہے کہ میں دو سوال پوچھ سکوں؟
خضر حیات بھائی کیا اہل حدیث کے پاس کوئی ایسی سند ہے جس کے تمام رجال غیر مقلد ہوں یا نہیں؟ (جواب براہ کرم ہاں یا ناں میں)
بھائی اشماریہ صاحب اس انداز سے سوچنا یہ صرف محمد یوسف صاحب جیسے لوگوں کا ہی کام ہے ۔ ورنہ میرے نزدیک تو یہ سوال ہی فضول ہے لہذا میں نے کبھی اس پر توجہ ہی نہیں دی ۔ البتہ یہ ضرور کہتا ہوں ( پہلے بھی کئی دفعہ کہہ چکا ہوں ) کہ فرض کرلیں کہ کوئی بھی سند ایسی نہیں جس کے تمام رجال ’’ غیر مقلد ‘‘ ہوں ، تو پھر کیا ہوگا ؟
اس کے جواب میں محمد یوسف صاحب نے ایک بات جو اوپر کہی اس کا جواب بھی اسی انداز میں اوپر دے دیا گیا ۔ ایک مزید اسی سے ملتی جلتی بات پھر کہی کہ :
سند سے ان کی تاریخ کا پتہ لگے گا ۔ اور ان کے نظریات کا بھی ۔
تواس کے بارے میں سن لیں کہ
ٹھیک ہے اگر اسی طرح آپ نے تاریخ کا پتہ لگانا ہے تو پھر ثابت کریں کہ
مالك عن نافع عن ابن عمر عن رسول صلى الله عليه وسلم
میں ابن عمر حنفی تھے ، نافع حنفی تھے ، مالک حنفی تھے ،
اور اگر کسی شخص کا سند میں آجانا اس کے جمیع نظریات کو قبول کرنے کے مترادف ہے تو پھر حنفیوں کی اسانید میں جو غیر حنفی ہیں کیا ہم یہ سمجھ لیں کہ ان اسانید کے حاملین مذہب حنفی کی پابندیوں سے آزاد ہوگئے ہیں؟
اور لاپرواہی کا یہ عالم ہے کہ نظریات اور مذاہب کی پرکھ کر رہے ہیں حدیث کی اسانید کے لین دین کی بنیاد پر ۔ مثلا ایک حنفی عالم دین ہیں کسی اہل حدیث نے ان سے ’’ صحیح بخاری ‘‘ کا سماع کیا اور ان سے سند لے لی تو یوسف صاحب کی سوچ کے مطابق ان کی اہل حدیثیت خطرے میں پڑگئی ہے ۔ و کذا العکس ۔
حالانکہ صاحب علم لوگ ( جہلاء کی بات نہیں کررہا ) یہ جانتے ہیں ک کہ کسی سے کوئی حدیث روایت کرنا یا کسی سے کوئی سند لینا یہ اس کی تقلید نہیں ہوتی ورنہ تو ہر راوی حدیث پہلے والے کا مقلد کہلائے گا حالانکہ ایسا ہے نہیں ۔
خلاصہ یہ ہے بھائی اشماریہ کہ سند پر جس اعتبارسے بحث ہونا چاہیے تھی ( جس کا ذکر میں پہلے کسی شراکت میں کرچکا ہوں ) اس طرف آپ کے بھائی آنے کا نام نہیں لے رہے ۔ اور وہ بات جس کا فسانے میں کہیں ذکر نہیں اس پر بہت توجہ دے رہے ہیں ۔
 
شمولیت
نومبر 14، 2013
پیغامات
177
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
43
خضر حیات صاحب اسلام علیکم ورحمۃ اللہ
ایک بات کی وضاحت کردیں کہ غیر مقلدین کے مقابل مقلدین آتے ہیں یا احناف ؟
اگر آپ کہیں کہ احناف تو اسکی بھی وضاحت کردیں کہ کیا آپ کے نزدیک باقی آئمہ کے مقلدین حق پر ہیں ؟
پھر مزید بات ہوگی
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
خضر حیات صاحب اسلام علیکم ورحمۃ اللہ
ایک بات کی وضاحت کردیں کہ غیر مقلدین کے مقابل مقلدین آتے ہیں یا احناف ؟
اگر آپ کہیں کہ احناف تو اسکی بھی وضاحت کردیں کہ کیا آپ کے نزدیک باقی آئمہ کے مقلدین حق پر ہیں ؟
پھر مزید بات ہوگی
یہ مزید بات ہی ہے ۔ پہلے اوپر والی باتیں نپٹا لیں پھر یہ بھی کرلیں گے ۔
 
Top