یزید کی بیعت ان میں سے کسی نے بھی معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات تک نہیں کی بلکہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے یزید کی بیعت کو دین کا سودا بتایا
" أَخْبَرَنَا عَارِمُ بْنُ الْفَضْلِ قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ نَافِعٍ أَنَّ مُعَاوِيَةَ بَعَثَ إِلَى ابْنِ عُمَرَ بِمِائَةِ أَلْفٍ. فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ يُبَايِعَ لِيَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ قَالَ: أَرَى ذَاكَ أَرَادَ. إِنَّ دِينِي عِنْدِي إِذًا لَرَخِيصٌ.(طبقات ابن سعد 4/ 138 طبقہ الثانیہ من مھاجرین و الانصار ترجمہ 402عبداللہ بن عمر اسنادہ صحیح رجال الشیخین)
ترجمہ: معاویہ رضی اللہ عنہ نے ابن عمر رضی اللہ عنہ کو ایک لاکھ درھم بھیجا پھر جب یزید کی بیعت کا ان سے کہا تو ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا یہ کیا اس ارادہ سے بھیجے تھے پر تو میرا دین بہت سستا ہے۔
بعد میں انہوں نے جبر سے کر لی
ابن زبیر اور حسین رضی اللہ عنہما اس کی جبری حکومت کے خلاف کھڑے ہوئے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ایک فاسق وفاجر امت کا خلیفہ کیسے بن سکتا ہے تو انہوں نے امر بلمعروف و نہی عن المنکر انجام دیا ہے آپ کی یہ تمام گفتگو بے معنی ہے
آپ کی اس بیان کردہ روایت (جس کو آپ اسنادہ صحیح رجال الشیخین قرار دے رہے ہیں) سے دو باتیں سامنے آتی ہیں -
اول -یہ کہ
سیدنا امیر معاویہ رضی الله عنہ رشوت خور اور جابر حکمران تھے (نعوز باللہ)- رشوت دے کر یا جبر کر کے اپنے بیٹے کی خلافت کا سودا کیا- (لیکن کسی صحابی رسول نے ان کے اس اقدام پر مزاحمت نہیں کی اور نا ان کو ان کی اس حرکت پر آر دلائی-
دوم -یہ کہ سیدنا امیر معاویہ رضی الله عنہ جانتے تھے کہ ان کا بیٹا فاسق و فاجر اس کے باوجود
انہوں نے نا دانشمندی کا ثبوت دیتے ہوے اس بیٹے کو اپنے بعد خلافت کے لئے نامزد کردیا -(یعنی یزید رحم الله کی بد عادات کو سدھارنے کے بجاے اصحاب کرام سے مشوره لئے بغیر اس کو امّت کے لئے آئندہ کا حکمران نامزد کردیا- اور کسی صحابی رسول نے ان کی اس حرکت پر ان کو سرزش تک نہ کی-
(جب کہ حضرت حسین رضی الله عنہ کے بڑے بھائی حضرت حسن رضی الله عنہ نے تو اس جابر اور رشوت خور حکمران (بقول آپ کے)-
بغیر جبر اپنی خلافت تک سپرد کردی- اور اپنی باقی زندگی میں سیدنا امیر معاویہ رضی الله عنہ سے بیس لاکھ دینار سالانہ خراج وصول کرتے رہے - لیکن ابن عمر رضی الله عنہ نے ایک مرتبہ بھی حضرت حسن رضی الله عنہ سے یہ نہیں کہا کہ آپ ایک رشوت خور حکمران سے خراج وصول کر رہے ہیں آپ کو تو ایسے حکمران کا بائیکاٹ کرنا چاہیے؟؟
اب تصویر کا دوسرا رخ بھی ملاحظه فرمائیں :
سیدنا امیر معاویہ رضی الله عنہ اپنے بیٹے کو نامزد کرتے وقت فرماتے اور بعد جمعہ کے خطبے میں منبر پر دعا کرتے ہیں -
اے اللہ! اگر آپ کے علم میں ہے کہ میں نے اسے (یزید) کو اس لیے نامزد کیا ہے کہ وہ میری رائے میں اس کا اہل ہے تو اس ولایت کو اس کے لیے پورا فرما دیجیے۔ اور اگر میں نے اس لیے اس کو محض اس لیے ولی عہد بنایا ہے کہ مجھے اس سے محبت ہے تو اس ولایت کو پورا نہ فرمایے
(ابن کثیر۔ ١١/٣٠٨)
غور کرنے کا مقام یہ ہے کہ جس باپ کے دل میں چور ہو، کیا وہ عین نماز جمعہ میں اپنے بیٹے کے لیے یہ دعا کر سکتا ہے؟
مزید یہ کہ عبدللہ بن عمر رضی الله عنہ کے حوالے سے
صحیح بخاری مذکور ہے کہ :
نافع بیان کرتے ہیں کہ جب اہل مدینہ (کے بعض لوگوں نے) یزید بن معاویہ کے خلاف بغاوت کی تو ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنے ساتھیوں اور اولاد کو جمع کر کے فرمایا: “میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ ‘قیامت کے دن ہر معاہدہ توڑنے والے کے لیے ایک جھنڈا نصب کیا جائے گا۔’ ہ
م لوگ اللہ اور رسول کے نام پر اس شخص (یزید) کی بیعت کر چکے ہیں۔ میں نہیں جانتا کہ اللہ اور رسول کے نام پر کی گئی بیعت کو توڑنے اور بغاوت کرنے سے بڑھ کر کوئی معاہدے کی خلاف ورزی ہو سکتی ہے۔ ہر ایسا شخص جو اس بیعت سے الگ ہو جائے اور اس معاملے (بغاوت) کا تابع ہو جائے، تو اس کے اور میرے درمیان علیحدگی ہے۔ ( بخاری، کتاب الفتن، حدیث 6694) -
صاف ظاہر ہے کہ :اگر یزید بن معاویہ رح شرابی، فاسق و فاجر ہوتے تو ابن عمر رضی اللہ عنہما لوگوں کو ان کی خلافت پر کبھی نہ ابھارتے-اور ان سے بغاوت کرنے کو جرم قرار نہ دیتے -
اے الله تو ہمیں اپنی سیدھی راہ دیکھا (آ مین)