- شمولیت
- اگست 25، 2014
- پیغامات
- 6,372
- ری ایکشن اسکور
- 2,589
- پوائنٹ
- 791
ترجمہ : اور يہ (وحي بھي کي گئي ہے ) کہ مسجديں خاص اللہ کي ہيں تو اللہ کے ساتھ کسي اور کي عبادت
نہ کرو،،
علامہ بغوي رحمہ اللہ لکھتے ہيں :
{وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّهِ} يَعْنِي الْمَوَاضِعَ الَّتِي بُنِيَتْ لِلصَّلَاةِ وَذِكْرِ اللَّهِ {فَلَا
تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا} قَالَ قَتَادَةُ: كَانَتِ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى إِذَا دَخَلُوا كَنَائِسَهُمْ وَبِيَعَهُمْ أَشْرَكُوا بِاللَّهِ فَأَمَرَ اللَّهُ
الْمُؤْمِنِينَ أَنْ يُخْلِصُوا لِلَّهِ الدَّعْوَةَ إِذَا دَخَلُوا الْمَسَاجِدَ وَأَرَادَ بِهَا الْمَسَاجِدَ كُلَّهَا ( أخرجه عبد الرزاق في
التفسير: 2 / 323
علامہ قرطبي رحمہ اللہ فرماتے ہيں :ه
ذا توبيخ للمشركين في دعائهم مع الله غيره في المسجد الحرام.
وقال مجاهد: كانت اليهود والنصارى إذا دخلوا كنائسهم وبيعهم أشركوا بالله، فأمر الله نبيه والمؤمنين أن
يخلصوا لله الدعوة إذا دخلوا المساجد كلها. يقول: فلا تشركوا فيها صنما وغيره مما يعبد
.
ان دونوں مفسروں کي تفسيري عبارت سے معلوم ہوا کہ عہود ونصاري اپنے عبادت خانوں اور
مشرکين مکہ حرم کعبہ ميں اللہ کے ساتھ دوسروں کي عبادت اوران سے استغاثہ واستمداد کرتے
تھے ،ان کے رد ميں،اور انہيں اس شرک سے روکنے کے لئے يہ آيت نازل ہوئي؛
آيت کا مطلب واضح ہے کہ مسجديں صرف اللہ کي عبادت اوراسي سے دعاء ومناجات اور استغاثہ
واستمداد کے لئے ہيں، ان ميں شرک نہيں ہونا چاہئے؛
---------------------------
يعني مساجد ميں شرک سے روکا ہے ،اور توحيد کے شرعي مظاہرواعمال بجالانے کا حکم ديا ہے،
اس سے صحیح تعریف النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ممانعت قطعاً نہیں نکلتی،بلکہ یہ تو توحید ہی
کے ضمن آتی ہے مثلاً (ورفعنا لک ذکرک )ان کی بڑی تعریف ہے ،کون کہہ سکتا ہے کہ مسجد میں
پڑھنا جائز نہیں ،ایسے ہی وہ تمام آیات جوپیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم،اور ان کے صحابہ کی
تعریف وتوصیف پر مشتمل ہیں ،وہ صحیح طریقہ اور شرعی مقاصد سے پڑھنا ایمان کا حصہ ہیں؛
البتہ شرکیہ کلام خواہ نعت کے نام پر ہو یا کسی اور عنوان سے وہ یقیناً اس آیت کی رو سے منع
ہے؛
نہ کرو،،
علامہ بغوي رحمہ اللہ لکھتے ہيں :
{وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّهِ} يَعْنِي الْمَوَاضِعَ الَّتِي بُنِيَتْ لِلصَّلَاةِ وَذِكْرِ اللَّهِ {فَلَا
تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا} قَالَ قَتَادَةُ: كَانَتِ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى إِذَا دَخَلُوا كَنَائِسَهُمْ وَبِيَعَهُمْ أَشْرَكُوا بِاللَّهِ فَأَمَرَ اللَّهُ
الْمُؤْمِنِينَ أَنْ يُخْلِصُوا لِلَّهِ الدَّعْوَةَ إِذَا دَخَلُوا الْمَسَاجِدَ وَأَرَادَ بِهَا الْمَسَاجِدَ كُلَّهَا ( أخرجه عبد الرزاق في
التفسير: 2 / 323
علامہ قرطبي رحمہ اللہ فرماتے ہيں :ه
ذا توبيخ للمشركين في دعائهم مع الله غيره في المسجد الحرام.
وقال مجاهد: كانت اليهود والنصارى إذا دخلوا كنائسهم وبيعهم أشركوا بالله، فأمر الله نبيه والمؤمنين أن
يخلصوا لله الدعوة إذا دخلوا المساجد كلها. يقول: فلا تشركوا فيها صنما وغيره مما يعبد
.
ان دونوں مفسروں کي تفسيري عبارت سے معلوم ہوا کہ عہود ونصاري اپنے عبادت خانوں اور
مشرکين مکہ حرم کعبہ ميں اللہ کے ساتھ دوسروں کي عبادت اوران سے استغاثہ واستمداد کرتے
تھے ،ان کے رد ميں،اور انہيں اس شرک سے روکنے کے لئے يہ آيت نازل ہوئي؛
آيت کا مطلب واضح ہے کہ مسجديں صرف اللہ کي عبادت اوراسي سے دعاء ومناجات اور استغاثہ
واستمداد کے لئے ہيں، ان ميں شرک نہيں ہونا چاہئے؛
---------------------------
يعني مساجد ميں شرک سے روکا ہے ،اور توحيد کے شرعي مظاہرواعمال بجالانے کا حکم ديا ہے،
اس سے صحیح تعریف النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ممانعت قطعاً نہیں نکلتی،بلکہ یہ تو توحید ہی
کے ضمن آتی ہے مثلاً (ورفعنا لک ذکرک )ان کی بڑی تعریف ہے ،کون کہہ سکتا ہے کہ مسجد میں
پڑھنا جائز نہیں ،ایسے ہی وہ تمام آیات جوپیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم،اور ان کے صحابہ کی
تعریف وتوصیف پر مشتمل ہیں ،وہ صحیح طریقہ اور شرعی مقاصد سے پڑھنا ایمان کا حصہ ہیں؛
البتہ شرکیہ کلام خواہ نعت کے نام پر ہو یا کسی اور عنوان سے وہ یقیناً اس آیت کی رو سے منع
ہے؛
Last edited: