• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اہل حدیث نعت کی حیثیت کو کتنا مانتے ہیں ؟؟؟

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
ترجمہ : اور يہ (وحي بھي کي گئي ہے ) کہ مسجديں خاص اللہ کي ہيں تو اللہ کے ساتھ کسي اور کي عبادت
نہ کرو،،
علامہ بغوي رحمہ اللہ لکھتے ہيں :
{وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّهِ} يَعْنِي الْمَوَاضِعَ الَّتِي بُنِيَتْ لِلصَّلَاةِ وَذِكْرِ اللَّهِ {فَلَا
تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا} قَالَ قَتَادَةُ: كَانَتِ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى إِذَا دَخَلُوا كَنَائِسَهُمْ وَبِيَعَهُمْ أَشْرَكُوا بِاللَّهِ فَأَمَرَ اللَّهُ
الْمُؤْمِنِينَ أَنْ يُخْلِصُوا لِلَّهِ الدَّعْوَةَ إِذَا دَخَلُوا الْمَسَاجِدَ وَأَرَادَ بِهَا الْمَسَاجِدَ كُلَّهَا ( أخرجه عبد الرزاق في
التفسير: 2 / 323

علامہ قرطبي رحمہ اللہ فرماتے ہيں :ه
ذا توبيخ للمشركين في دعائهم مع الله غيره في المسجد الحرام.
وقال مجاهد: كانت اليهود والنصارى إذا دخلوا كنائسهم وبيعهم أشركوا بالله، فأمر الله نبيه والمؤمنين أن
يخلصوا لله الدعوة إذا دخلوا المساجد كلها. يقول: فلا تشركوا فيها صنما وغيره مما يعبد

.
ان دونوں مفسروں کي تفسيري عبارت سے معلوم ہوا کہ عہود ونصاري اپنے عبادت خانوں اور
مشرکين مکہ حرم کعبہ ميں اللہ کے ساتھ دوسروں کي عبادت اوران سے استغاثہ واستمداد کرتے
تھے ،ان کے رد ميں،اور انہيں اس شرک سے روکنے کے لئے يہ آيت نازل ہوئي؛
آيت کا مطلب واضح ہے کہ مسجديں صرف اللہ کي عبادت اوراسي سے دعاء ومناجات اور استغاثہ
واستمداد کے لئے ہيں، ان ميں شرک نہيں ہونا چاہئے؛
---------------------------
يعني مساجد ميں شرک سے روکا ہے ،اور توحيد کے شرعي مظاہرواعمال بجالانے کا حکم ديا ہے،
اس سے صحیح تعریف النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ممانعت قطعاً نہیں نکلتی،بلکہ یہ تو توحید ہی
کے ضمن آتی ہے مثلاً (ورفعنا لک ذکرک )ان کی بڑی تعریف ہے ،کون کہہ سکتا ہے کہ مسجد میں
پڑھنا جائز نہیں ،ایسے ہی وہ تمام آیات جوپیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم،اور ان کے صحابہ کی
تعریف وتوصیف پر مشتمل ہیں ،وہ صحیح طریقہ اور شرعی مقاصد سے پڑھنا ایمان کا حصہ ہیں؛
البتہ شرکیہ کلام خواہ نعت کے نام پر ہو یا کسی اور عنوان سے وہ یقیناً اس آیت کی رو سے منع
ہے؛
 
Last edited:

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
ترجمہ : اور يہ (وحي بھي کي گئي ہے ) کہ مسجديں خاص اللہ کي ہيں تو اللہ کے ساتھ کسي اور کي عبادت
نہ کرو،،
علامہ بغوي رحمہ اللہ لکھتے ہيں :{وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّهِ} يَعْنِي الْمَوَاضِعَ الَّتِي بُنِيَتْ لِلصَّلَاةِ وَذِكْرِ اللَّهِ {فَلَا
تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا} قَالَ قَتَادَةُ: كَانَتِ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى إِذَا دَخَلُوا كَنَائِسَهُمْ وَبِيَعَهُمْ أَشْرَكُوا بِاللَّهِ فَأَمَرَ اللَّهُ
الْمُؤْمِنِينَ أَنْ يُخْلِصُوا لِلَّهِ الدَّعْوَةَ إِذَا دَخَلُوا الْمَسَاجِدَ وَأَرَادَ بِهَا الْمَسَاجِدَ كُلَّهَا ( أخرجه عبد الرزاق في
التفسير: 2 / 323
علامہ قرطبي رحمہ اللہ فرماتے ہيں :هذا توبيخ للمشركين في دعائهم مع الله غيره في المسجد الحرام.
وقال مجاهد: كانت اليهود والنصارى إذا دخلوا كنائسهم وبيعهم أشركوا بالله، فأمر الله نبيه والمؤمنين أن
يخلصوا لله الدعوة إذا دخلوا المساجد كلها. يقول: فلا تشركوا فيها صنما وغيره مما يعبد.
ان دونوں مفسروں کي تفسيري عبارت سے معلوم ہوا کہ عہود ونصاري اپنے عبادت خانوں اور
مشرکين مکہ حرم کعبہ ميں اللہ کے ساتھ دوسروں کي عبادت اوران سے استغاثہ واستمداد کرتے
تھے ،ان کے رد ميں،اور انہيں اس شرک سے روکنے کے لئے يہ آيت نازل ہوئي؛
آيت کا مطلب واضح ہے کہ مسجديں صرف اللہ کي عبادت اوراسي سے دعاء ومناجات اور استغاثہ
واستمداد کے لئے ہيں، ان ميں شرک نہيں ہونا چاہئے؛
---------------------------
يعني مساجد ميں شرک سے روکا ہے ،اور توحيد کے شرعي مظاہرواعمال بجالانے کا حکم ديا ہے،
اس سے صحیح تعریف النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ممانعت قطعاً نہیں نکلتی،بلکہ یہ تو توحید ہی
کے ضمن آتی ہے مثلاً (ورفعنا لک ذکرک )ان کی بڑی تعریف ہے ،کون کہہ سکتا ہے کہ مسجد میں
پڑھنا جائز نہیں ،ایسے ہی وہ تمام آیات جوپیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم،اور ان کے صحابہ کی
تعریف وتوصیف پر مشتمل ہیں ،وہ صحیح طریقہ اور شرعی مقاصد سے پڑھنا ایمان کا حصہ ہیں؛
البتہ شرکیہ کلام خواہ نعت کے نام پر ہو یا کسی اور عنوان سے وہ یقیناً اس آیت کی رو سے منع
ہے؛
جزاک اللہ خیرا۔۔۔۔میں اہل حدیث ہوں ، مگر باوجود کوشش کے اہل حدیث کا نعت پر موقف نہیں تلاش کر سکی ہوں۔آپ کے بیان کے بعد میرا سوال ہے کہ یعنی مساجد میں نعت پڑھنا جائز ہے؟لیکن پھر بھی ہمیں کسی دور میں مساجد میں نعت پڑھنے کا ذکر کیوں نہیں ملتا ؟ ۔۔۔۔۔دوسری جانب کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ نعت پڑھنے کے کچھ اوقات ہیں ، جیسے کفار کےسامنے!
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
جزاک اللہ خیرا۔۔۔۔میں اہل حدیث ہوں ، مگر باوجود کوشش کے اہل حدیث کا نعت پر موقف نہیں تلاش کر سکی ہوں۔آپ کے بیان کے بعد میرا سوال ہے کہ یعنی مساجد میں نعت پڑھنا جائز ہے؟لیکن پھر بھی ہمیں کسی دور میں مساجد میں نعت پڑھنے کا ذکر کیوں نہیں ملتا ؟ ۔۔۔۔۔دوسری جانب کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ نعت پڑھنے کے کچھ اوقات ہیں ، جیسے کفار کےسامنے!
اب آپ ٹھيک سوال تک پہنچي ہيں ، دور سلف صالحين ميں نعت گوئي پيشہ کے طور پر نہ تھي ،نہ کثرت کے ساتھ رواج کي صورت ميں تھي ،اس لئے اس کا باقاعدہ ذکر کہیں نہیں مساجد ميں اکثر محافل واجتماع. تعليم ،تدريس ،مباحثہ کي غرض سے مسلسل اور باقاعدہ ہوتے تھے،، اور انہی تعلیمی وتبلیغی محافل میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے شمائل وخصائل اوراوصاف حمیدہ کا بیان ہوتا رہتا تھا ،مروجہ نعتیہ محافل کارواج نہ تھا ، ذیل میں ایک فتوی پیش خدمت ہے ،،
السؤال :ما حكم المدائح النبوية في الدين وجزاكم الله خيرا
الإجابة
الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وعلى آله وصحبه أما بعد:‏
فإن المدائح النبوية من الأشعار والقصائد التي قيلت وتقال في رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏مشروعة، بل إن الإنسان ليؤجر عليها إن أحسن القصد في ذلك. وقد كان الشعراء من ‏الصحابة يمدحون رسول الله صلى الله عليه وسلم، ويدافعون عنه، ويهجون المشركين، وهو ‏يسمع، بل قال لحسان بن ثابت كما في الصحيحين(( يا حسان أجب عن رسول الله، اللهم ‏أيده بروح القدس)).‏
لكن بشرط أن لا تحتوي هذه المدائح على باطل: من غلو في رسول الله صلى الله عليه وسلم يجاوز الحد المشروع، ‏ومن استغاثة به، أو من ترديد ألفاظ العشق ونحوها، مما لا يليق نسبته إلى رسول الله صلى الله ‏عليه وسلم، فإذا احتوت على مثل ذلك فإنها تصبح غير مشروعة، بل قد تؤدي بصاحبها إلى ‏الفسق والبدعة، أو الكفر بحسب الحال والمقال، فما اشتمل من الشعر على الحق فهو حق، وما ‏اشتمل على باطل فهو باطل.‏
وأما اجتماع الناس لسماع تلك المدائح بالصورة التي تعرف بالمولد فإن هذا بدعة ضلالة لأن ‏الأصل في العبادات التوقيف، وهذا لم يفعله السلف الصالح من الصحابة والتابعين، رغم قيام ‏المقتضي له، وعدم المانع، ولو كان خيراً محضاً ، أو راجحاً لسبقونا إليه، فهم أشد محبة ‏وتعظيماً لرسول الله صلى الله عليه وسلم من غيرهم، وهم أكثر الناس حرصاً على الخير.‏
ولا شك أن الرسول صلى الله عليه وسلم أحق الخلق بكل تعظيم، وليس من تعظيمه أن نبتدع ‏في دينه بزيادة، أو نقص، أو تبديل، أو تغيير لأجل تعظيمه به وإن كان بحسن قصد فإن ذلك ‏لا يبرر صحة العمل. ويراجع حكم المولد في الفتوى رقم: 6064‏
وكمال محبته صلى الله عليه وسلم وتعظيمه في متابعته وطاعته واتباع أمره، وإحياء سنته ‏ظاهراً وباطناً، ونشر رسالته التي جاء بها، والدعوة إليها، فإن هذه طريقة السابقين الأولين ‏من المهاجرين والأنصار والذين اتبعوهم بإحسان. والله أعلم.‏http://fatwa.islamweb.net
http://fatwa.islamweb.net/fatwa/index.php?page=showfatwa&Option=FatwaId&Id=6890
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
جزاک اللہ خیرا۔۔۔۔میں اہل حدیث ہوں ، مگر باوجود کوشش کے اہل حدیث کا نعت پر موقف نہیں تلاش کر سکی ہوں۔آپ کے بیان کے بعد میرا سوال ہے کہ یعنی مساجد میں نعت پڑھنا جائز ہے؟لیکن پھر بھی ہمیں کسی دور میں مساجد میں نعت پڑھنے کا ذکر کیوں نہیں ملتا ؟ ۔۔۔۔۔دوسری جانب کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ نعت پڑھنے کے کچھ اوقات ہیں ، جیسے کفار کےسامنے!
آپ کے اس موضوع اٹھائے گئے سوالات کے بعد ،،تلاش کرنے پر اردو میں ایک کتاب ملی ہے ،،نعت گوئی اور اس کے آداب،،دار السلام نے شائع کی ہے ،،www.kitabosunnat.com اگرچہ یہ کتاب تحقیقی تو نہیں کہی جاسکتی ،اور اس کے کچھ مندرجات محل نظر ہیں، تاہم معلوماتی ہے ،
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
آپ کے اس موضوع اٹھائے گئے سوالات کے بعد ،،تلاش کرنے پر اردو میں ایک کتاب ملی ہے ،،نعت گوئی اور اس کے آداب،،دار السلام نے شائع کی ہے ،،www.kitabosunnat.com اگرچہ یہ کتاب تحقیقی تو نہیں کہی جاسکتی ،اور اس کے کچھ مندرجات محل نظر ہیں، تاہم معلوماتی ہے ،
http://kitabosunnat.com/kutub-library/naat-goi-aur-us-k-adab.html
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
اب آپ ٹھيک سوال تک پہنچي ہيں ، دور سلف صالحين ميں نعت گوئي پيشہ کے طور پر نہ تھي ،نہ کثرت کے ساتھ رواج کي صورت ميں تھي ،اس لئے اس کا باقاعدہ ذکر کہیں نہیں مساجد ميں اکثر محافل واجتماع. تعليم ،تدريس ،مباحثہ کي غرض سے مسلسل اور باقاعدہ ہوتے تھے،، اور انہی تعلیمی وتبلیغی محافل میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے شمائل وخصائل اوراوصاف حمیدہ کا بیان ہوتا رہتا تھا ،مروجہ نعتیہ محافل کارواج نہ تھا ، ذیل میں ایک فتوی پیش خدمت ہے ،،
السؤال :ما حكم المدائح النبوية في الدين وجزاكم الله خيرا
الإجابة
الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وعلى آله وصحبه أما بعد:‏
فإن المدائح النبوية من الأشعار والقصائد التي قيلت وتقال في رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏مشروعة، بل إن الإنسان ليؤجر عليها إن أحسن القصد في ذلك. وقد كان الشعراء من ‏الصحابة يمدحون رسول الله صلى الله عليه وسلم، ويدافعون عنه، ويهجون المشركين، وهو ‏يسمع، بل قال لحسان بن ثابت كما في الصحيحين(( يا حسان أجب عن رسول الله، اللهم ‏أيده بروح القدس)).‏
لكن بشرط أن لا تحتوي هذه المدائح على باطل: من غلو في رسول الله صلى الله عليه وسلم يجاوز الحد المشروع، ‏ومن استغاثة به، أو من ترديد ألفاظ العشق ونحوها، مما لا يليق نسبته إلى رسول الله صلى الله ‏عليه وسلم، فإذا احتوت على مثل ذلك فإنها تصبح غير مشروعة، بل قد تؤدي بصاحبها إلى ‏الفسق والبدعة، أو الكفر بحسب الحال والمقال، فما اشتمل من الشعر على الحق فهو حق، وما ‏اشتمل على باطل فهو باطل.‏
وأما اجتماع الناس لسماع تلك المدائح بالصورة التي تعرف بالمولد فإن هذا بدعة ضلالة لأن ‏الأصل في العبادات التوقيف، وهذا لم يفعله السلف الصالح من الصحابة والتابعين، رغم قيام ‏المقتضي له، وعدم المانع، ولو كان خيراً محضاً ، أو راجحاً لسبقونا إليه، فهم أشد محبة ‏وتعظيماً لرسول الله صلى الله عليه وسلم من غيرهم، وهم أكثر الناس حرصاً على الخير.‏
ولا شك أن الرسول صلى الله عليه وسلم أحق الخلق بكل تعظيم، وليس من تعظيمه أن نبتدع ‏في دينه بزيادة، أو نقص، أو تبديل، أو تغيير لأجل تعظيمه به وإن كان بحسن قصد فإن ذلك ‏لا يبرر صحة العمل. ويراجع حكم المولد في الفتوى رقم: 6064‏
وكمال محبته صلى الله عليه وسلم وتعظيمه في متابعته وطاعته واتباع أمره، وإحياء سنته ‏ظاهراً وباطناً، ونشر رسالته التي جاء بها، والدعوة إليها، فإن هذه طريقة السابقين الأولين ‏من المهاجرين والأنصار والذين اتبعوهم بإحسان. والله أعلم.‏http://fatwa.islamweb.net
http://fatwa.islamweb.net/fatwa/index.php?page=showfatwa&Option=FatwaId&Id=6890
اللہ تعالی آپ کی محنت قبول فرمائے۔محترم بھائی سوال سمیت فتوی کااردو ترجمہ کر دیں۔بہت شکریہ !
 
شمولیت
مارچ 08، 2012
پیغامات
215
ری ایکشن اسکور
147
پوائنٹ
89
دعاء دینے کا شکریہ،،،لیکن ایک گزارش ہے ،،دعاء کے لئے ہمیشہ لفظ (اللہ جزاء خیر دے ، یا ، جزاک اللہ خیراً )لکھا اور کہا کریں ،
ترجمہ حسب ارشاد پیش خدمت ہے ،بندہ محض ایک طالبعلم ہے ، من آنم کہ من دانم،
اگر اس میں کوئی کوتاہی پائیں تو براہ کرم مطلع فرمائیں ، والسلام علیکم
اگرچہ یہ بات موضوع سے ہٹ کر ہے مگر ۔۔۔
یہی بات چند دن پہلے ایک محفل میں کی گئ کہ جزاک اللہ خیرا کہنا چاہیے کیونکہ جزاء شر کے ساتھ بھی ہوسکتی ہے۔۔۔۔ الخ
لیکن کیا ایسا نہیں کہ جزاک اللہ خیرا کہنا ضروری نہیں، کیونکہ جزاک اللہ کسی عامل کے عمل کرنے پر کہا جاتا ہے اور یہ بات حقیقت ہے کہ عمل خیر کی جزاء بھی خیر ہی ہوگی اور عمل شر کی جزاء بھی شر ہی ہو گی اور خصوصا جب جزاء اللہ رب العزت کی طرف منسوب ہو۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
اگرچہ یہ بات موضوع سے ہٹ کر ہے مگر ۔۔۔
یہی بات چند دن پہلے ایک محفل میں کی گئ کہ جزاک اللہ خیرا کہنا چاہیے کیونکہ جزاء شر کے ساتھ بھی ہوسکتی ہے۔۔۔۔ الخ
لیکن کیا ایسا نہیں کہ جزاک اللہ خیرا کہنا ضروری نہیں، کیونکہ جزاک اللہ کسی عامل کے عمل کرنے پر کہا جاتا ہے اور یہ بات حقیقت ہے کہ عمل خیر کی جزاء بھی خیر ہی ہوگی اور عمل شر کی جزاء بھی شر ہی ہو گی اور خصوصا جب جزاء اللہ رب العزت کی طرف منسوب ہو۔
آپ کی بات لغت کے لحاظ سے صحیح ہوسکتی ہے، لیکن حدیث کے لحاظ درست نہیں ،کیونکہ حدیث شریف میں آتا ہے،(عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا قال الرجل لأخيه: جزاك الله خيرا، فقد أبلغ في الثناء "المصنف في الأحاديث والآثار
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
اللہ تعالی آپ کی محنت قبول فرمائے۔محترم بھائی سوال سمیت فتوی کااردو ترجمہ کر دیں۔بہت شکریہ !
سوال :نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح کا شرعی حکم کیا ہے؟
جواب : حمد و ثنا کے بعد ،واضح ہو کہ اشعار وقصائد کی صورت میں جناب رسول کریم کی شان میں جوکچھ پہلے یا اب کہا گیا،وہ نہ صرف شرعاً ٹھیک ہے بلکہ اگر نیت وارادہ اچھا ہے ،تو اس پر یقیناً اجر بھی ملے گا ،اور صحابہ کرام میں جو شاعر تھے وہ آپ کی مدح بھی کرتے تھے اور کفار کے جواب میں آپ کا دفاع ، اور مشرکین کی مذمت بھی کرتے تھے ،بلکہ خود جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا حسان کو فرمایا :اے حسان ! اللہ کے رسول کی طرف سے جواب دے ،اور اے اللہ روح القدس سے اس کی مدد فرما ،
لیکن یہ اس صورت میں جائز ومستحسن ہے جب یہ مدح باطل امور سے پاک ہو،اس میں آپ کی حقیقی حد سے غلو نہ کیا گیا ہو ،اور آپ سے استغاثہ نہ کیا گیا ہو ،یا (عشق )اور اس جیسے الفاظ استعمال نہ کیے گئے ہوں جو آپ کی شان کے منافی ہوں ،اور اگر ان امور کا ارتکاب کیا گیا ہو تو نہ صرف یہ کہ ایسی مدح و نعت ناجائز ہوگی بلکہ ایسا کلام کہنے ،لکھنے والا حسب حال ومقال فاسق ،یا بدعتی یا کافر ہو جائے گا
اور ان نعتیہ کلام کے لئے محافل میلاد یا اجتماعات کا انعقاد گمراہی والی بدعت کے سوا کچھ نہیں،
کیونکہ عبادت کی ہر قسم توقیفی ہے (یعنی جب تک شارع سے منصوص نہ ہو جائز نہیں )
اور اس امت کے سلف محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے باوجود ،اور کسی بھی رکاوٹ کے نہ ہونے کے باوجود،اس اھتمام سے ایسی محافل کا انعقاد نہیں کیا ،اگر ایسا کرنا نیکی ہوتا تو یقیناً وہ سب سے بڑھ کر ایسا کرتے ،،
اور یاد رہے جناب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ،تمام مخلوق سے بڑھ کر تعظیم وتوصیف کے مستحق ہیں ،لیکن ان کے لائے ہوئے دین میں اضافہ ،یاتبدیلی کرکے انکی تعظیم نہیں کی جا سکتی،
اگرچہ نیت کتنی ہی اچھی ہو ،
انکی حقیقی تعظیم وتکریم تو انکی پیروی اور اطاعت میں اور انکی سنتوں کو ظاھراً وباطناً زندہ کرنے ،اور ان کی تبلیغ وترویج میں ہے
 
Top