• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اہل حدیث نعت کی حیثیت کو کتنا مانتے ہیں ؟؟؟

ماریہ انعام

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 12، 2013
پیغامات
498
ری ایکشن اسکور
377
پوائنٹ
164
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

نعت درست ہو ۔۔۔شرکیہ عقائد سے پاک ہو تو اس کا پڑھنا مستحسن ہے۔۔۔ہمارے ہاں محفلِ قرآت کا انعقاد کیا جاتا ہے کیا اس کی کوئی دلیل شریعت میں موجود ہے ۔۔۔؟؟؟؟
اس تھریڈ کو پڑھ لیجیے۔۔۔۔امید ہےاس میں آپ کو اپنے سوالوں کے جواب مل جائیں گے
http://forum.mohaddis.com/threads/نعت-پڑھنے-کو-صحابہ-کرام-سے-منسوب-کرنا.23062/
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

نعت درست ہو ۔۔۔شرکیہ عقائد سے پاک ہو تو اس کا پڑھنا مستحسن ہے۔۔۔ہمارے ہاں محفلِ قرآت کا انعقاد کیا جاتا ہے کیا اس کی کوئی دلیل شریعت میں موجود ہے ۔۔۔؟؟؟؟
اس تھریڈ کو پڑھ لیجیے۔۔۔۔امید ہےاس میں آپ کو اپنے سوالوں کے جواب مل جائیں گے
http://forum.mohaddis.com/threads/نعت-پڑھنے-کو-صحابہ-کرام-سے-منسوب-کرنا.23062/
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ !
بہنا جی یہ تھریڈ میرا ہی شروع کیاہوا ہے۔اور اس میں مزکورہ مسئلہ کی کوئی وضاحت نہیں ہے!
اگر آپ نعت کی حیثیت پر اہل حدیث کا موقف پیش کر سکتی ہیں تو کریں ، باقی یہ بات تو ثابت ہے کہ حسان بن ثابت نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں اشعار کہے تھے۔ لہذا گزارش ہے کہ موضوع کے مطابق مواد اور دلائل پیش کریں۔شکریہ!
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
اگر اہل حدیث محفل قرات کا انعقاد کرتے ہیں۔۔۔تو اس کی کوئی شرعی دلیل ضرور ہونی چاہیئے۔
لیکن اس میں بھی یہ دیکھا جانا ضروری ہے کہ محفل قرات میں کیا کیا جاتا ہے؟ کوئی اگر ان محفل قرات میں شرکت کرتا ہے تو ایک مختصر سا احوال یہاں بیان کر دیں۔کیونکہ میرا کبھی ایسی محفل میں جانا نہیں ہوا!
 

ماریہ انعام

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 12، 2013
پیغامات
498
ری ایکشن اسکور
377
پوائنٹ
164
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ !
بہنا جی یہ تھریڈ میرا ہی شروع کیاہوا ہے۔اور اس میں مزکورہ مسئلہ کی کوئی وضاحت نہیں ہے!
اگر آپ نعت کی حیثیت پر اہل حدیث کا موقف پیش کر سکتی ہیں تو کریں ، باقی یہ بات تو ثابت ہے کہ حسان بن ثابت نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں اشعار کہے تھے۔ لہذا گزارش ہے کہ موضوع کے مطابق مواد اور دلائل پیش کریں۔شکریہ!
اہل حدیث حضرات کا موقف حدیث سے ہٹ کر تو نہیں ہوتا۔۔۔۔جب حدیث سامنے موجود ہو تو اس کے بعد موقف کا مطالبہ کرنا ۔۔۔چہ معنی دارد؟؟
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
اہل حدیث حضرات کا موقف حدیث سے ہٹ کر تو نہیں ہوتا۔۔۔۔جب حدیث سامنے موجود ہو تو اس کے بعد موقف کا مطالبہ کرنا ۔۔۔چہ معنی دارد؟؟
حدیث کے مطابق کیا موقف ہے ؟ یہ تو بیان کریں۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمتہ اللہ !
مجھے اہل علم سے یہ استفسار کرنا ہے کہ اہل حدیث نعت گوئی کرنے یا غیر شرکیہ نعتیہ اشعار کو کتنا مانتے ہیں ؟
نیز اس ضمن میں "محفل نعت " کا کیا تصور ہے؟ واضح رہے کہ اویس رضا قادری اور دیگر نعت خواں کوسعودی عرب میں نعت پڑھنے سے سختی سے روکا جاتا ہے۔۔۔۔لیکن اس کے دلائل کیا ہیں ؟​
@ابوالحسن علوی ، بھائی۔
کچھ رہنمائی کیجیئے۔۔۔جزاک اللہ خیرا۔

آپ نے تین سوال کئے ہیں ،،محذورات سے پاک نعت گوئی کا شرعی حکم
محفل نعت کا شرعی حکم
گمراہ نعت خوانوں پر پابندی
پہلے دونوں سوالوں کا جواب مندرجہ ذیل ایک ہی روایت سے مل جاتا ہے،
عن أبي هريرة، أن عمر، مر بحسان وهو ينشد الشعر في المسجد، فلحظ إليه، فقال: قد كنت أنشد، وفيه من هو خير منك، ثم التفت إلى أبي هريرة، فقال: أنشدك الله أسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «أجب عني، اللهم أيده بروح القدس»؟ قال: اللهم نعم.(الجامع المسند الصحيح المختصر ،وصحیح مسلم )
دیکھیئے اس روایت سے تین چیزیں ثابت ہو رہی ھیں ، الاول :اشعار میں مدح النبی صلى الله عليه وسلم
الثانی :مسجد میں شعری مدح کرنا
الثالث :محفل میں مدح رسول صلى الله عليه وسلم والے اشعار سنانا
ھاں اس کے کچھ شرائط ہیں ،جو ہر سلیم فطرت مومن سمجھ سکتا ہے
--------------
تیسرے سوال کا جواب مختصراً یہ کہ(وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا )
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
اوپر جو حدیث نقل کی ہے ، اس کی توضیح درج ذیل ہے ،
وقد وقفتُ على كلامٍ نفيس في علة استدلال الإمام البخاري بطريق حديث حسان الخالية من ذكر المسجد في متنها مع تخصيصه الباب بالشعر في المسجد فرأيت أن أرد لكم بعض جميلكم وهذا البيان:
قال الإمام ابن المنير في كتابه ( المتواري على أبواب البخاري ) في ( باب إنشاد الشعر في المسجد ): ( فيه أبو سلمة: إنه سمع حسان بن ثابت يستشهد أبا هريرة: أنشدك الله، هل سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «يا حسان أجب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ اللهم أيده بروح القدس». قال أبو هريرة: نعم.
قلت: رضي الله عنك-: ليس لي في هذا الحديث أنه أنشد في المسجد، وإن كان مثبتاً في غير هذا الطريق، وقد ذكره البخاري في كتابه في غير هذا. قال: مر عمر بحسان وهو ينشد في المسجد. ثم ساق الحديث. فإن قلت: لم عدل عن الطريق المفهم للمقصود إلى ما لا يفهمه مع الإمكان؟
قلت: كان البخاري لطيف الأخذ لفوائد الحديث، دقيق الفكرة فيها، وكان ربما عرض له الاستدلال على الترجمة بالحديث الواضح المطابق، فعدل إلى الأخذ من الإشارة والرمز به. وكان على الصواب في ذلك لأن الحديث البين يستوي الناس في الأخذ منه. وإنما يتفاوتون في الاستنباط من الإشارات الخفية. ولم يكن مقصود البخاري كغيره يملأ الصحف بما سبق إليه، وبما يعتمد في مثله على الأفهام العامة. وإنما كان مقصده فائدة زائدة. ووجه الأخذ من هذا الطريق أنه صلى الله عليه وسلم قال: «يا حسان أجب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم» ودعا له أن يؤيد بروح القدس، فدلّ على أن من الشعر حقاً يؤمر به، ويتأهل صاحبه، لأن يكون مؤيداً في النطق به بالملائكة. وما كان هذا شأنه، فلا يتخيل ذو لب أنه يحرم في المسجد، لأن الذي يحرم في المسجد من الكلام إنما هو العبث والسفه، وما يعدّ في الباطل المنافي لما اتخذت له المساجد من الحق. فأما هذا النوع فإنه حق لفظه حسن، ومعناه صدق. فهذا وجه الأخذ. والله أعلم. وبه يرتفع الخلاف، ويحمل المنع على شعر السفه والعبث، والإجازة على شعر الفائدة والحكمة. ونحو ذلك مما تحسن القصد إليه. والله أعلم.) إنتهى
فرحمه الله رحمةً واسعة فوائد جمة كم أفنى العلماء من أعمارهم في العلم رحمهم الله وجمعنا بهم
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
اوپر جو حدیث نقل کی ہے ، اس کی توضیح درج ذیل ہے ،
وقد وقفتُ على كلامٍ نفيس في علة استدلال الإمام البخاري بطريق حديث حسان الخالية من ذكر المسجد في متنها مع تخصيصه الباب بالشعر في المسجد فرأيت أن أرد لكم بعض جميلكم وهذا البيان:
قال الإمام ابن المنير في كتابه ( المتواري على أبواب البخاري ) في ( باب إنشاد الشعر في المسجد ): ( فيه أبو سلمة: إنه سمع حسان بن ثابت يستشهد أبا هريرة: أنشدك الله، هل سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «يا حسان أجب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ اللهم أيده بروح القدس». قال أبو هريرة: نعم.
قلت: رضي الله عنك-: ليس لي في هذا الحديث أنه أنشد في المسجد، وإن كان مثبتاً في غير هذا الطريق، وقد ذكره البخاري في كتابه في غير هذا. قال: مر عمر بحسان وهو ينشد في المسجد. ثم ساق الحديث. فإن قلت: لم عدل عن الطريق المفهم للمقصود إلى ما لا يفهمه مع الإمكان؟
قلت: كان البخاري لطيف الأخذ لفوائد الحديث، دقيق الفكرة فيها، وكان ربما عرض له الاستدلال على الترجمة بالحديث الواضح المطابق، فعدل إلى الأخذ من الإشارة والرمز به. وكان على الصواب في ذلك لأن الحديث البين يستوي الناس في الأخذ منه. وإنما يتفاوتون في الاستنباط من الإشارات الخفية. ولم يكن مقصود البخاري كغيره يملأ الصحف بما سبق إليه، وبما يعتمد في مثله على الأفهام العامة. وإنما كان مقصده فائدة زائدة. ووجه الأخذ من هذا الطريق أنه صلى الله عليه وسلم قال: «يا حسان أجب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم» ودعا له أن يؤيد بروح القدس، فدلّ على أن من الشعر حقاً يؤمر به، ويتأهل صاحبه، لأن يكون مؤيداً في النطق به بالملائكة. وما كان هذا شأنه، فلا يتخيل ذو لب أنه يحرم في المسجد، لأن الذي يحرم في المسجد من الكلام إنما هو العبث والسفه، وما يعدّ في الباطل المنافي لما اتخذت له المساجد من الحق. فأما هذا النوع فإنه حق لفظه حسن، ومعناه صدق. فهذا وجه الأخذ. والله أعلم. وبه يرتفع الخلاف، ويحمل المنع على شعر السفه والعبث، والإجازة على شعر الفائدة والحكمة. ونحو ذلك مما تحسن القصد إليه. والله أعلم.) إنتهى
فرحمه الله رحمةً واسعة فوائد جمة كم أفنى العلماء من أعمارهم في العلم رحمهم الله وجمعنا بهم
بھائی اللہ تعالی آپ کو جزاء دے ،برائے مہربانی اس کا اردو ترجمہ کر دیں۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
السلام علیکم ورحمت الله -

نبی کریم صل الله علیہ وآ لہ وسلم کی مدہ سرائی ایک مستحسن عمل ہے - لیکن شعرگوئی یا نعت گوئی کی صورت میں اس کی زیادہ حوصلہ افزائی نہیں کی گئی- اس لئے اس کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنانا میرے خیال میں صحیح نہیں- صحابہ کرام رضوان الله اجمعین میں بھی صرف ایک دو صحابہ سے نعت گوئی ثابت ہے - اور وہ بھی "ہجو" کی صورت میں- یعنی جب کفار شعرگوئی کی صورت میں آپ صل الله علیہ و الہ وسلم پر طنز و تشنیع کرتے تھے - تو آپ صل الله علیہ و الہ وسلم شاعر حضرت حسان بن ثابت سے فرماتے تھے کہ "اے حسان ان کو ان ہی کی زبان میں جواب دو"-

الله رب العزت نے شعرگوئی کو ایک نبی کے شایان شان قرار نہیں دیا -

وَمَا عَلَّمْنَاهُ الشِّعْرَ وَمَا يَنْبَغِي لَهُ ۚ إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ وَقُرْآنٌ مُبِينٌ سوره یٰسین ٦٩
اور ہم نے نبی کو شعر نہیں سکھایا اور نہ یہ اس کے شایان شان ہی تھا- یہ تو صرف نصیحت اور واضح قرآن ہے-
 
شمولیت
اگست 23، 2012
پیغامات
188
ری ایکشن اسکور
143
پوائنٹ
70
ماشاء اللہ
ادوار کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں جن کو شریعت میں رہ کر پورا کیا جاسکتاہے۔پہلی بات تو یہ کہ نعت میں کوئی دو رائے نہیں جیسے کے خضر بھائی نے کہا ۔لیکن حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی اشعار کہے چنانچہ ایک بار مسجد میں اشعار پڑھ رہے تھے تو عمر رضی اللہ عنہ نے کچھ خفگی سے دیکھا تو حسان نے کہا میں تب بھی شعر پڑھتا تھا جب تجھ سے بہتر یہاں موجود تھا۔سو رسول اللہ کے بعد بھی اشعار کہے جاتے رہے۔
اب ہم آتے ہیں جدید دور میں ،آج ہم اہلحدیث کو گستاخ رسول کا لیبل لگادیا گیا ہے ،اور یہ بھی الزام لگا دیا گیا ہے کہ ہم نعت نہیں پڑھتے کم سے کم اس دورمیں تو نعت گئی کا مقابلہ کروانا چاہئے تاکہ بھولے بسرے لوگ اس غلط فہمی سے نکل جائیں کہ اہلحدیث نعت گوئی کے منکر ہیں۔دوسرا بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ لوگ جو شرکیہ نعتوں کے چنگل میں پھنس گئےہیں اس سے آزاد ہو جائیں۔
دیکھیں ایک فطرتی عمل ہے انسان جس سے محبت کرتا ہے اس کی تعریف سننا بھی پسند کرتاہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ ہستی پاک ہیں جن کی تعریف اپنے بھی اور بیگانے بھی سب سننا چاہتے ہیں۔اسلئے بہت بہتر ہے کہ اس قسم کی محفل ہونی چاہئے لازمی طور پر یہ بہت سے فوائد رکھتی ہے۔اور اس میں کوئی ایسی غیر شرعی بات بھی نہیں ہے جس سے ہم یہ کہہ سکیں کہ یہ غیر درست ہے۔
واللہ اعلم باقی بہتر تو علماء ہی بتا سکتے ہیں۔
 
Top