بھائی اللہ تعالی آپ کو جزاء دے ،برائے مہربانی اس کا اردو ترجمہ کر دیں۔
حسب حکم مذکورہ عربی عبارت کا ترجمہ ،پیش خدمت ہے
،،شارح کہتے ہیں ،سید المحدثین امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری کے باب (مسجد میں شعر گوئی ) میں سیدنا حسان رضی اللہ عنہ کی حدیث ،کے جس طریق سے اسدلال فرمایا ہے ،اس طریق میں مسجد کا سرے سے ذکر ہی نہیں،جناب امام کے اس مخصوص طریق سے استدلال کی وضاحت وبیان پرمجھے علامہ ابن منیر رح کا بہت عمدہ اور نفیس کلام ملا ہے،جو انہوں نے (المتواری علی ابواب البخاری )لکھا ہے ، وہ فرماتے ہیں (کہ ابوسلمہ کہتے ہیں ،جناب حسان نے ،سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ کو اللہ کا حوالہ دیکر کہا کہ تم گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مجھے خود فرماتے تھے کہ «يا حسان أجب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم ، اللهم أيده بروح القدس»اے حسان ! اللہ کے رسول ،کی طرف سے (اشعار میں کفار کو)جواب دے،،اور دعاء فرمایا کرتے ، کہ اے اللہ !روح القدس سے حسان کی مدد فرما،،تو ابوھریرہ نے گواہی دی کہ ہاں ایسا ہی ھے )
ابن منیر کہتے ہیں کہ اگر تم کہو کہ اس طریق میں مسجد کا سرے سے ذکر ہی نہیں ،تو اس متن سے مسجد میں اشعار کے جواز پر استدلال کیسا؟؟
حالانکہ یہی روایت دوسرے طرق سے خود بخاری میں ہی ،، اس صراحت کے ساتھ موجود ہیں کہ سیدنا حسان نے مسجد میں اشعار پڑھے تھے اور اسی پر ابو ھریرہ کی گواہی طلب کی تھی ،،مر عمر بحسان وهو ينشد في المسجد،، تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت امام نے جس متن سے مقصود یعنی مسجد میں اشعار پڑھنا ،صراحتاً ثابت ہوتا ہے ، اس طریق کو چھوڑکر عدم ذکر والے متن وطریق کو یہاں کیوں اختیار فرمایا ؟؟
ابن منیر کہتے ہیں:میں کہتا ہوں،،کہ امام بخاری بڑی باریکی سے احادیث میں موجود نکات اخذ کرتے تھے،اور انتہائی گہری فکر سے کام لیتے تھے،اور اکثر ترجمہ باب کے استدلال کے لئے واضح حدیث ان کے سامنے موجود ہوتی ،تاہم وہ اسے چھوڑ کر رمز واشارہ والے متن والفاظ کو ترجمہ باب کے لئے اختیارکرتے ،اور اس صورت میں بھی وہ حق پر ہوتے،یعنی انکی نکتہ شناسی کمال راستی لئے ہوتی،،
اور چونکہ ایک واضح حدیث سے مسئلہ کا شرعی حکم سمجھ لینا تو ہر کس وناکس کے بس میں ہوتا ہی ہے،،لیکن مخفی اشارات سے استنباط مسائل میں فہم کا تفاوت ہوتا ہے،،کوئی رمز شناس ہوتا ہے تو کوئی کج فہم ،،اور جناب امام کا صحیح بخاری لکھنے کا مقصد دیگر مصنفین کی طرح محض پہلے سے موجود دلیل واستدلال سے صفحے سیاہ کرنا نہیں تھا ، اور نہ ہی عوامی فھم کی معتمد اشیاء کو جمع کرنا مطلوب تھا بلکہ مخصوص مزید کی طلب میں تھے،،
تو ذکر مسجد کے بغیر متن سے مسجد میں شعر گوئی پر استدلال کی صحت کاپہلو یہ ہے ،کہ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حسان کو جوابی ودفاعی شعر کہنے کا حکم دیا اور ان کے لئے دعاء فرمائی تو اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ کچھ شعر حق بھی ہوتے ہیں ،اور شارع کی طرف سے ان اشعار کے پڑھنے کا حکم ہوتا ہے اور ایسے شعر کہنے والا اس بات کا مستحق ہوتا ہے کہ فرشتے اس کی ہمنوائی کریں،، تو جس کلام کا یہ مقام ہو ،،اس چیز کے متعلق کوئی ذی فھم سوچ بھی نہیں سکتا کہ وہ کلام مسجد میں حرام ہوگی ،،کیونکہ یہ تو سب کو معلوم ہے کہ مساجد میں صرف ،وہ کلام حرام ہیں ،جو شرعاً عبث فضول ،یا باطل ہوں ،، اور مسجد کے شرعی مقاصد کے منافی ہوں ،اور جو کلام معنی کے لحاظ سے سچا اور لفظ کے لحاظ سے اچھا ہو تو مسجد میں ایسا کلام پڑھنا یقیناً ٹھیک ہے ،،اور امام صاحب کی وجہ استدلال یہی ہے