محمد یعقوب
رکن
- شمولیت
- اپریل 06، 2013
- پیغامات
- 138
- ری ایکشن اسکور
- 346
- پوائنٹ
- 90
بسم اللہ الرحمن الرحیم الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی سید الانبیاء والمرسلین وعلی آلہ وصحبہ اجمعین اما بعد
اس فورم پر بہت سارے ساتھیوں نے اپنی اپنی رائے کا اظہار کیا اور ہر کوئی حق تک پہونچنے کی لگن میں رہا مگر شاید ریسرچ اور مواد کی کمی کی بنیاد پر راستہ بھٹکتا رہا آج انشاء اللہ میں ایک ایسے موضوع کے ساتھ حاضر ہورہا ہوں جو آپ سبکو ان شاء اللہ بہت پسند آئیگا۔
قصہ مختصر یوں کہ اسلامی نظریہ دو چیزوں سے ملکر مکمل ہوتا ہے۔ ایک تو عقیدہ جسکی بنیاد پر آخرت کی نجات کا دارومدار ہے اور دوسرا فقہ جسکی بنیاد پر انسان اپنے اعمال کو اپنے رب کی مرضی کے مطابق ڈھال کر اخروی درجات کی بلندی حاصل کرتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں عقیدہ کا تعلق دل سے ہے اور فقہ کا تعلق انسانی اعضاء وجوارح سے۔
اسی لئے عقدی اختلاف کی صورت میں ضلالت وہدایت جبکہ فقہی کی اختلاف کی صورت میں خطا وصواب کا اطلاق ہوتا ہے۔
اس مختصر سے مقدمہ کے بعد میں یہ بات کرنے کی کوشش کرونگا کہ امت اسلامیہ کے اندر جہاں فقہی اختلاف کا ظہور ہوا اسی طرح عقدی اختلاف کا ظہور بھی ہوا
چنانچہ عقدی اختلاف کی صورت میں دو جماعتیں سامنے آئیں (۱) اہل سنت والجماعت (۲) اوراہل بدعت۔
جبکہ فقہی اختلاف کی صورت میں کئی مناہج کا ظہور ہوا جیسے (۱) فتاوی ابن عباس (۲) فتاوی ابن مسعود (۳) فتاوی عمر ابن الخطاب (۴) فتاوی علی ابن ابی طالب
اسکے بعد قرن ثانی میں چند مزید مناہج ظہور پذیر ہوئے جیسے مثلا (۱) فقہ حنفی (۲) فقہ ثوری (۳) فقہ جعفری (۴) فقہ مالکی (۵) فقہ اباضی (۶) فقہ شافعی (۷) فقہ اوزاعی
اسکے بعد قرن ثالث میں چند مزید مناہج کا اضافہ ہوا جبکہ چند مناہج کا زوال بھی سامنے آیا چنانچہ جن مناہج کا اضافہ ہوا ان میں مثلا (۱) فقہ حنبلی (۲) فقہ ظاہری جبکہ جو مناہج ختم ہوگئے انکی مثال جیسے (۱) فقہ ثوری (۲) فقہ اوزاعی
چنانچہ قرن رابع کے شروع ہوتی ہی اہل سنت والجماعت کے صرف چار مناہج بچ گئے جبکہ باقی مناہج مثلا (۱) فقہ ظاہری (۲) فقہ ثوری (۳) اور فقہ اوزاعی تقریبا ناپید ہوتے چلے گئے اور انکے ماننے والوں کا وجود اگلی صدی میں تقریبا ختم ہوگیا اسطرح اہل سنت والجماعت کے تمام علماء ان چاروں مناہج میں سے کسی ایک منہج کی پیروی کرنے لگے۔ اسی لئے پانچویں صدی ہجری کے بعد سے تیرہویں صدی کے وسط تک تمام علماء اسلام کے ساتھ ان چار مناہج میں سے کسی ایک منہج کا لاحقہ لگنا ضروری تصور کیا جانے لگا۔
یہاں پر ہر منصف شخص مجھ سے ایک سوال پوچھے گا وہ یہ کہ آپ فقہ اہل الحدیث اور فقہ اہل الرائے کو بالکل ہڑپ ہی کرگئے۔
تو اسکا جواب یہ ہیکہ میں مناہج کی بات کررہا ہوں اور منہج ان اصولوں کی بنیاد کا نام ہے جن پر چلتے ہوئے کوئی بھی عالم قرآن وحدیث سے استنباط کرتا ہے۔ اور فقہ اہل الحدیث کسی منہج کا نام نہیں اسی لئے انکی کوئی اصول فقہ اب تک سامنے نہیں آئی۔ اسی طرح فقہ اہل الرائے بھی کسی منہج کا نام نہیں اور اس کی بھی کوئی اصول فقہ سامنے نہیں آئی۔
بہر کیف یہاں تک اگر کسی کو مجھ سے اختلاف ہو تو ہو میرا اصل مقصد اب شروع ہورہا ہے اور میں آپ حضرات سے گزارش کرتا ہوں کہ باقی باتیں چھوڑکر اگلی باتوں کا حقیقت پسندی سے جواب دیں۔
بات یہ ہورہی تھی کہ سن ۴۰۰ صدی ہجری صدی کے بعد سے سن ۱۲۵۰ صدی ہجری تک دنیا کا ہر عالم (اہل سنت والجماعت) ان چار مناہج میں سے کسی ایک منہج کی پیروی کرنے لگا اس زمانہ میں نہ کوئی اثری ہمیں ملتا ہے نہ سلفی نہ غیر مقلد نہ مدخلی نہ تیمی نہ البانوی نہ غرباء اہلحدیث حتی کہ اہل حدیث جنکا وجود چوتھی صدی کے آخر تک تھا’ انکا وجود بھی ختم ہوگیا اس زمانہ ہمیں صرف حنفی شافعی مالکی اور حنبلی عالم ہی ملتا ہے۔
(۱) بات میں آپ سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ سن ۱۲۵۰ ہجری یعنی تقریبا ۸۵۰ سال کے بعد دوبارہ اہل حدیث حضرات کو کس نے زندہ کیا؟
(۲) تمام علماء اہل وسنت والجماعت نے فقہی مناہج کے مابین ان چار مناہج کو اختیار کرنا لازمی کیوں سمجھا؟
(۳) کیا اس اتفاق کو اجماع امت شمار کرنا درست نہیں؟
(۴) اور کیا اجماع امت کا توڑنا آپکے نزدیک درست ہے یا نہیں؟
میری بات کی دلیل کیلئے ملاحظہ فرمائیں (۱) طبقات الشافعیۃ الکبری للسبکی (۱) طبقات الشافعیۃ لابن قاضی شہبۃ (۳) الجواہر المضیۃ فی طبقات الحنفیۃ (۴) الطبقات السنیۃ فی تراجم الحنفیۃ (۵) ذیل طبقات الحنابلۃ لابن رجب (۶) طبقات الحنابلۃ لابن ابی یعلی (۷) طبقات الشافعیین لابن کثیر (۸) طبقات الفقہاء لابن الشیرازی (۹) طبقات الفقہاء الشافعیۃ لابن الصلاح
بطور مثال یہ چند کتابیں آپکے سامنے حاضر خدمت ہے ورنہ اس موضوع پر بلکہ مطلق طبقات پر لکھی گئی ہر کتاب اس بات پر دال ہیکہ تمام علماء امت کا اس بات پر اتفاق ہوچکا تھا کہ ان چار مناہج سے نکلنا گمراہی اور راہ راست سے بھٹک جانا ہے۔
یہ میرا ایک سوال ہے جو ہر صاحب تحقیق اور انصاف پسند شخص کیلئے جہاں لمحہ فکریہ ہے وہیں ہر باحث کیلئے راہ ہدایت بھی ہے ان شاء اللہ
اگر میری بات غلط ہے تو اس غلطی کا ثبوت دینے کیلئے چند شرائط ہیں جسکا لحاظ کرنا بہت ضروری ہے۔
(۱) سن ۴۰۰ صدی ہجری کے بعد سے ۱۲۵۰ صدی ہجری تک کسی اہل سنت والجماعت عالم کے بارے میں ثبوت دیں کہ وہ مناہج اربعہ سے ہٹ کر کوئی نیا منہج اختیار کرچکا تھا (یاد رہے کہ ہر مناہج کے اندر رہتے علماء نے جزوی اختلاف تو کیا ہے مثال کے طور پر شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ نے حنبلی رہتے ہوئے کچھ اختلاف کیا ہے اسی طرح ابن ابی العز الحنفی اور ابن الہمام الحنفی بھی حنفیت کے اندر رہتے ہوئے کچھ اختلاف کیا ہے مگر کوئی ایسا شخص نہیں ملتا جو اپنے آپکو اہل حدیث یا کسی اور لقب سے یاد کرتا ہو) اور اگر شاذ ونادر کوئی ایسا شخص مل بھی جائے تو الشاذ کالمعدوم کے درجہ میں ہوگا۔
(۲) اس بات کا رد کرنے کیلئے جو بھی ثبوت پیش کیا جائے وہ ان علماء کی کتاب سے پیش کیا جائے جو سن ۴۰۰ صدی ہجری کے بعد سے ۱۲۵۰ ہجری تک انتقال کرگئے اس کے بعد کے علماء ابھی زیر بحث نہیں۔
اگر کوئی منصف تحقیق کرنے کے بعد مجھ سے یہ پوچھے گا کہ پھر اس جماعت کا وجود کیوں اور کس لئے آیا تو اسکا مفصل جواب بعد میں دیا جائیگا۔
شکریہ
اس فورم پر بہت سارے ساتھیوں نے اپنی اپنی رائے کا اظہار کیا اور ہر کوئی حق تک پہونچنے کی لگن میں رہا مگر شاید ریسرچ اور مواد کی کمی کی بنیاد پر راستہ بھٹکتا رہا آج انشاء اللہ میں ایک ایسے موضوع کے ساتھ حاضر ہورہا ہوں جو آپ سبکو ان شاء اللہ بہت پسند آئیگا۔
قصہ مختصر یوں کہ اسلامی نظریہ دو چیزوں سے ملکر مکمل ہوتا ہے۔ ایک تو عقیدہ جسکی بنیاد پر آخرت کی نجات کا دارومدار ہے اور دوسرا فقہ جسکی بنیاد پر انسان اپنے اعمال کو اپنے رب کی مرضی کے مطابق ڈھال کر اخروی درجات کی بلندی حاصل کرتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں عقیدہ کا تعلق دل سے ہے اور فقہ کا تعلق انسانی اعضاء وجوارح سے۔
اسی لئے عقدی اختلاف کی صورت میں ضلالت وہدایت جبکہ فقہی کی اختلاف کی صورت میں خطا وصواب کا اطلاق ہوتا ہے۔
اس مختصر سے مقدمہ کے بعد میں یہ بات کرنے کی کوشش کرونگا کہ امت اسلامیہ کے اندر جہاں فقہی اختلاف کا ظہور ہوا اسی طرح عقدی اختلاف کا ظہور بھی ہوا
چنانچہ عقدی اختلاف کی صورت میں دو جماعتیں سامنے آئیں (۱) اہل سنت والجماعت (۲) اوراہل بدعت۔
جبکہ فقہی اختلاف کی صورت میں کئی مناہج کا ظہور ہوا جیسے (۱) فتاوی ابن عباس (۲) فتاوی ابن مسعود (۳) فتاوی عمر ابن الخطاب (۴) فتاوی علی ابن ابی طالب
اسکے بعد قرن ثانی میں چند مزید مناہج ظہور پذیر ہوئے جیسے مثلا (۱) فقہ حنفی (۲) فقہ ثوری (۳) فقہ جعفری (۴) فقہ مالکی (۵) فقہ اباضی (۶) فقہ شافعی (۷) فقہ اوزاعی
اسکے بعد قرن ثالث میں چند مزید مناہج کا اضافہ ہوا جبکہ چند مناہج کا زوال بھی سامنے آیا چنانچہ جن مناہج کا اضافہ ہوا ان میں مثلا (۱) فقہ حنبلی (۲) فقہ ظاہری جبکہ جو مناہج ختم ہوگئے انکی مثال جیسے (۱) فقہ ثوری (۲) فقہ اوزاعی
چنانچہ قرن رابع کے شروع ہوتی ہی اہل سنت والجماعت کے صرف چار مناہج بچ گئے جبکہ باقی مناہج مثلا (۱) فقہ ظاہری (۲) فقہ ثوری (۳) اور فقہ اوزاعی تقریبا ناپید ہوتے چلے گئے اور انکے ماننے والوں کا وجود اگلی صدی میں تقریبا ختم ہوگیا اسطرح اہل سنت والجماعت کے تمام علماء ان چاروں مناہج میں سے کسی ایک منہج کی پیروی کرنے لگے۔ اسی لئے پانچویں صدی ہجری کے بعد سے تیرہویں صدی کے وسط تک تمام علماء اسلام کے ساتھ ان چار مناہج میں سے کسی ایک منہج کا لاحقہ لگنا ضروری تصور کیا جانے لگا۔
یہاں پر ہر منصف شخص مجھ سے ایک سوال پوچھے گا وہ یہ کہ آپ فقہ اہل الحدیث اور فقہ اہل الرائے کو بالکل ہڑپ ہی کرگئے۔
تو اسکا جواب یہ ہیکہ میں مناہج کی بات کررہا ہوں اور منہج ان اصولوں کی بنیاد کا نام ہے جن پر چلتے ہوئے کوئی بھی عالم قرآن وحدیث سے استنباط کرتا ہے۔ اور فقہ اہل الحدیث کسی منہج کا نام نہیں اسی لئے انکی کوئی اصول فقہ اب تک سامنے نہیں آئی۔ اسی طرح فقہ اہل الرائے بھی کسی منہج کا نام نہیں اور اس کی بھی کوئی اصول فقہ سامنے نہیں آئی۔
بہر کیف یہاں تک اگر کسی کو مجھ سے اختلاف ہو تو ہو میرا اصل مقصد اب شروع ہورہا ہے اور میں آپ حضرات سے گزارش کرتا ہوں کہ باقی باتیں چھوڑکر اگلی باتوں کا حقیقت پسندی سے جواب دیں۔
بات یہ ہورہی تھی کہ سن ۴۰۰ صدی ہجری صدی کے بعد سے سن ۱۲۵۰ صدی ہجری تک دنیا کا ہر عالم (اہل سنت والجماعت) ان چار مناہج میں سے کسی ایک منہج کی پیروی کرنے لگا اس زمانہ میں نہ کوئی اثری ہمیں ملتا ہے نہ سلفی نہ غیر مقلد نہ مدخلی نہ تیمی نہ البانوی نہ غرباء اہلحدیث حتی کہ اہل حدیث جنکا وجود چوتھی صدی کے آخر تک تھا’ انکا وجود بھی ختم ہوگیا اس زمانہ ہمیں صرف حنفی شافعی مالکی اور حنبلی عالم ہی ملتا ہے۔
(۱) بات میں آپ سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ سن ۱۲۵۰ ہجری یعنی تقریبا ۸۵۰ سال کے بعد دوبارہ اہل حدیث حضرات کو کس نے زندہ کیا؟
(۲) تمام علماء اہل وسنت والجماعت نے فقہی مناہج کے مابین ان چار مناہج کو اختیار کرنا لازمی کیوں سمجھا؟
(۳) کیا اس اتفاق کو اجماع امت شمار کرنا درست نہیں؟
(۴) اور کیا اجماع امت کا توڑنا آپکے نزدیک درست ہے یا نہیں؟
میری بات کی دلیل کیلئے ملاحظہ فرمائیں (۱) طبقات الشافعیۃ الکبری للسبکی (۱) طبقات الشافعیۃ لابن قاضی شہبۃ (۳) الجواہر المضیۃ فی طبقات الحنفیۃ (۴) الطبقات السنیۃ فی تراجم الحنفیۃ (۵) ذیل طبقات الحنابلۃ لابن رجب (۶) طبقات الحنابلۃ لابن ابی یعلی (۷) طبقات الشافعیین لابن کثیر (۸) طبقات الفقہاء لابن الشیرازی (۹) طبقات الفقہاء الشافعیۃ لابن الصلاح
بطور مثال یہ چند کتابیں آپکے سامنے حاضر خدمت ہے ورنہ اس موضوع پر بلکہ مطلق طبقات پر لکھی گئی ہر کتاب اس بات پر دال ہیکہ تمام علماء امت کا اس بات پر اتفاق ہوچکا تھا کہ ان چار مناہج سے نکلنا گمراہی اور راہ راست سے بھٹک جانا ہے۔
یہ میرا ایک سوال ہے جو ہر صاحب تحقیق اور انصاف پسند شخص کیلئے جہاں لمحہ فکریہ ہے وہیں ہر باحث کیلئے راہ ہدایت بھی ہے ان شاء اللہ
اگر میری بات غلط ہے تو اس غلطی کا ثبوت دینے کیلئے چند شرائط ہیں جسکا لحاظ کرنا بہت ضروری ہے۔
(۱) سن ۴۰۰ صدی ہجری کے بعد سے ۱۲۵۰ صدی ہجری تک کسی اہل سنت والجماعت عالم کے بارے میں ثبوت دیں کہ وہ مناہج اربعہ سے ہٹ کر کوئی نیا منہج اختیار کرچکا تھا (یاد رہے کہ ہر مناہج کے اندر رہتے علماء نے جزوی اختلاف تو کیا ہے مثال کے طور پر شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ نے حنبلی رہتے ہوئے کچھ اختلاف کیا ہے اسی طرح ابن ابی العز الحنفی اور ابن الہمام الحنفی بھی حنفیت کے اندر رہتے ہوئے کچھ اختلاف کیا ہے مگر کوئی ایسا شخص نہیں ملتا جو اپنے آپکو اہل حدیث یا کسی اور لقب سے یاد کرتا ہو) اور اگر شاذ ونادر کوئی ایسا شخص مل بھی جائے تو الشاذ کالمعدوم کے درجہ میں ہوگا۔
(۲) اس بات کا رد کرنے کیلئے جو بھی ثبوت پیش کیا جائے وہ ان علماء کی کتاب سے پیش کیا جائے جو سن ۴۰۰ صدی ہجری کے بعد سے ۱۲۵۰ ہجری تک انتقال کرگئے اس کے بعد کے علماء ابھی زیر بحث نہیں۔
اگر کوئی منصف تحقیق کرنے کے بعد مجھ سے یہ پوچھے گا کہ پھر اس جماعت کا وجود کیوں اور کس لئے آیا تو اسکا مفصل جواب بعد میں دیا جائیگا۔
شکریہ