- شمولیت
- مارچ 08، 2011
- پیغامات
- 2,521
- ری ایکشن اسکور
- 11,555
- پوائنٹ
- 641
پانچواں اصول
بعض اوقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول سے کسی فعل کی حرمت معلوم ہوتی ہے۔ مثلاً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے:
((لَا یَبِعْ بَعْضُکُمْ عَلٰی بَیْعِ بَعْضٍ وَلَا یَخْطُبْ بَعْضُکُمْ عَلٰی خِطْبَةِ بَعْضٍ)) (٥٦)
ھذہ الأحادیث ظاہرة فی تحریم الخطبة علی خطبة أخیہ و أجمعوا علی تحریمھا اذکان قد صرح للخاطب بالجابة و لم یأذن و لم یترک(٥٧)
بعض اوقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول سے کسی فعل کی حرمت معلوم ہوتی ہے۔ مثلاً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے:
((لَا یَبِعْ بَعْضُکُمْ عَلٰی بَیْعِ بَعْضٍ وَلَا یَخْطُبْ بَعْضُکُمْ عَلٰی خِطْبَةِ بَعْضٍ)) (٥٦)
اگر کسی شخص نے بذریعہ ایجاب و قبول کوئی سودا مکمل کر لیا ہے تو اس کے اس سودے پر سودا کرنا حرام ہے۔اسی طرح ا گر کسی شخص کا کسی خاندان میں رشتہ طے ہو چکا ہو تو وہاں اپنے رشتے کی بات چلانا حرام ہے سوائے اس کے کہ پہلا شخص دوسرے کو اجازت دے دے یا وہ اس جگہ نکاح کا اردہ ترک کر دے۔ امام نووی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :''تم میں سے کوئی اپنے بھائی کے سودے پر سودا نہ کرے اور نہ ہی کوئی اپنے بھائی کی منگنی پر منگنی کرے''۔
ھذہ الأحادیث ظاہرة فی تحریم الخطبة علی خطبة أخیہ و أجمعوا علی تحریمھا اذکان قد صرح للخاطب بالجابة و لم یأذن و لم یترک(٥٧)
احناف ایسے فعل کو حرام کی بجائے مکر وہ تحریمی کہتے ہیں۔جمہور اور احناف کے نزدیک اس کی تعریف ایک ہی ہے اور وہ یہ ہے کہ حرام یامکروہ تحریمی سے مراد ایسا فعل ہے جس کے نہ کرنے کا شارع نے حکم دیا ہو اور اس کے نہ کرنے کو لازم بھی ٹھہرایا ہو۔اس کے مرتکب کو ملامت کی جائے گی اور اس کو آخرت میں عذاب بھی ہو گا ۔احناف کے نزدیک اگر اس کا علم قطعی ذریعے یعنی قرآن ' خبر متواتر یا اجماع سے ہو گا تو یہ حرام ہے اور اگر اس کا علم ظنی ذریعے یعنی خبر واحد سے ہو گا تویہ مکروہ تحریمی ہے ۔جبکہ جمہور اسے حرام ہی کہتے ہیں چاہے قرآن سے اس کا علم حاصل ہو یا خبر واحد سے اور یہی بات راجح ہے ۔ائمہ جمہور اور احناف کا اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ اگر کسی فعل کی حرمت بذریعہ سنت( یعنی خبر واحد) معلوم ہو اور اس سنت کا کوئی شخص انکار کر دے تو اس کی تکفیر نہیں کی جائے گی اگرچہ دنیا میں اس کوسخت ملامت کی جائے گی اور آخرت میں وہ عذابِ الٰہی کا مستحق ہو گا۔الشیخ عاصم الحداد لکھتے ہیں :''ان احادیث مبارکہ کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی مسلمان بھائی کی منگنی پر منگنی کرنا حرام ہے اور اُمت کا اس فعل کی حرمت پر اجماع ہے جبکہ لڑکی والوں نے پیغام بھیجنے والے کے پیغام کو صراحتا قبول کر لیا ہو اور پہلے شخص نے دوسرے کو نہ تو وہاں پیغام بھیجنے کی اجازت دی ہو اور نہ ہی اس جگہ نکاح کا ارادہ ترک کیا ہو''۔
''اور سب'وہ (یعنی احناف) اور دوسرے(یعنی مالکیہ ' شافعیہ' حنابلہ ور اہل الحدیث) یہ کہتے ہیں کہ تکفیر اس شخص کی کی جائے گی جو کسی قطعی دلیل سے ثابت چیز کا انکار کر ے اور اس شخص کی تکفیر نہیں کی جائے جو کسی ظنی دلیل سے ثابت چیز کا انکار کرے۔اسے صرف فاسق یا گمراہ قرار دیا جا سکتاہے''۔(٥٨)