اتباعِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا معنی و مفہوم اور شرعی حکم
حال ہی میں یہ فلسفہ متعارف ہوا ہے جس کا ذکر ہم سابقہ قسط میں بھی کر چکے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر ہر فعل کی پیروی اس اتباع میں شامل ہے جس کا قرآن میں مسلمانوں کو حکم دیا گیاہے۔ لہٰذ ا اگر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تہبند باندھا ہے تو ہمیں بھی تہبند باندھنا چاہیے۔آپ نے عمامہ باندھا' موزے پہنے' اونٹ' گھوڑے اور گدھے کی سواری کی 'ثرید کھائی ' سرمہ لگایا وغیرہ' تو ہمیں بھی یہ سب کام کرنے چاہئیں اور ان سب کو کرنا آپ کی اتباع اور باعث ثواب و بلندی درجات ہے۔یہ حضرات آپ کے ہر ہر فعل کو سنت کا نام دیتے ہیں اور سنت کی پیروی میں اس حد تک غلواختیار کرتے ہیں کہ ان کے نزدیک زمین پر بیٹھنا سنت اور کرسی پر بیٹھنا خلافِ سنت ہے۔ اور چونکہ ان کے بقول ہر سنت طیب ہے اور ہر خلافِ سنت کام ان کے نزدیک خبیث ہے 'لہٰذا کرسی پر بیٹھنا خباثت ہے ۔اسی طرح ان کے فلسفہ سنت کی رو سے کراچی سے لاہور جانے کے لیے اونٹ کی سواری ' گاڑی کی سواری سے افضل ہے ۔وہ اس پر بھی مصر ہیں کہ ہاتھ سے کھانا سنت ہے اور چمچ سے کھانا خباثت ہے 'عمامہ اور تہبند باندھنا ہی سنت ' باعث ثواب اور بلندی درجات کا سبب ہے' وغیر ذٰلک۔ان میں سے بعض حضرات نے تو اِس درجہ غلو اختیار کیا کہ قرآن کی طباعت' پاروں اور رکوعوں کی تقسیم' قرآن کے اعراب و حرکات تک کو یہودی سازش قرار دیا ہے کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کام نہ کیا تھا۔
ہمارے خیال میں یہ نقطہ نظر بوجوہ غلط افکار پر مشتمل ہے۔اس کے قائلین ایک ایسی چیز کو دین قرار دے رہے ہیں جسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ''دین'' قرارنہیں دیا ہے۔لہٰذا یہ لوگ سنت کا ایسا تصور پیش کر رہے ہیں جو اُمت مسلمہ کی چودہ سو سالہ تاریخ میں پیش نہیں ہوا۔ہاں اس بات سے انکار نہیں ہے کہ اگر کوئی شخص ان افعال کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور تعلق کے اظہار کی نیت سے اد اکرتا ہے تو ان شاء اللہ العزیز اس نیت و ارادہ پراجرو ثواب ملنے کی امید ہے۔ ذیل میں ہم ان حضرات کے افکار کا ایک علمی اور تحقیقی جائزہ لے رہے ہیں۔ قرآن مجید میں ہمیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کا حکم دیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
(قُلْ ِانْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَاللّٰہُ غَفُوْر رَّحِیْم) (آل عمران)
''(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !) آپ ان سے کہہ دیں کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو 'اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہوں کو بخش دے گا 'اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے ''۔
اتباع کے لفظ کا مادہ'تبع' ہے ۔'لسان العرب' میں ہے کہ معروف لغوی فراء نے اتباع کا معنی
''ان یسر الرجل و أنت تسیر وراء ہ'' بیان کیا ہے ۔یعنی کوئی شخص چلے اور تم اس کے پیچھے چلو تو یہ اس کی اتباع ہے۔پس اتباع کے لغوی معنی پیروی کرنے اور پیچھے چلنے کے ہیں۔
اس آیت کا سیاق و سباق یہ بتلا رہا ہے کہ کچھ لوگوںنے عہد نبوی میں اللہ سے محبت کا دعویٰ کیا تو اُن کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔جمہور مفسرین کا کہنا یہ ہے کہ یہ آیت مبارکہ نجران کے اس عیسائی وفد کے بارے میں نازل ہوئی تھی جو اللہ سے محبت کے دعوے دار تھے لیکن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے اور آپ کی بات ماننے سے انکاری تھے۔اس آیت مبارکہ کے شانِ نزول کے بارے میں چار اقوال مروی ہیں' جن کا تذکرہ علامہ ابن جوزی نے اپنی تفسیر
'' زاد المسیر' میں کیا ہے۔یہ اقوال درج ذیل ہیں:
(١) یہ آیتِ مبارکہ ان مشرکین مکہ کے بارے میں نازل ہوئی تھی جو اللہ سے محبت کے دعوے دار تھے' جیسا کہ قرآن نے آیت مبارکہ
(مَا نَعْبُدُھُمْ اِلاَّ لِیُقَرِّبُوْنَا اِلَی اللّٰہِ زُلْفٰی)(الزمر:٣) میں اس طرف اشارہ کیا ہے ۔یعنی مشرکین کا یہ دعویٰ تھا کہ وہ اللہ کے غیر کی عبادت بھی اللہ کے قرب کے حصول کے لیے کرتے تھے ۔یہ قول ضحاک نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے۔
(٢) دوسرا قول یہ ہے کہ یہ آیت مبارکہ نجران کے اس عیسائی وفد کے بارے میں نازل ہوئی تھی جو اللہ سے محبت کے دعوے دار تھے ۔یہ قول مفسرین کی ایک جماعت کا ہے ۔امام المفسرین ابن جریر طبری کی بھی یہی رائے ہے ۔امام قرطبی کا رجحان بھی اسی طرف ہے۔
(٣) مفسرین کی ایک جماعت کی رائے یہ ہے کہ یہ آیت مبارکہ ان یہود کے بارے میں نازل ہوئی ہے جنہوں نے
(نَحْنُ اَبْنٰؤُا اللّٰہِ وَاَحِبَّاؤُہ)'(المائدة:١٨) کا دعویٰ کیا تھا۔امام رازی 'علامہ مجد الدین فیروز آبادی' علامہ سمرقندی اور امام بغوی نے اسی رائے کو اختیار کیا ہے۔بعض مفسرین نے دوسرے اور تیسرے دونوں اقوال کو اس آیت مبارکہ کا شان نزول قرار دیا ہے ۔یعنی ان مفسرین کے نزدیک یہ آیت مبارکہ اہل کتاب کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔اس رائے کے حاملین میں اما م ابن عطیہ ' امام خازن اور امام ابو حیان ا لاندلسی رحمہم اللہ وغیرہ شامل ہیں۔
(٤) ایک رائے یہ بھی ہے کہ یہ آیت مبارکہ ایک ایسی قوم کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو اللہ سے محبت کی دعوے دار تھی۔یہ قوم کون تھی 'اس کا تعین اس قول میں موجود نہیں ہے ۔یہ رائے حضرت حسن بصری رحمہ اللہ کی ہے ۔
بعض مفسرین نے اس آیت مبارکہ کو اس کے شانِ نزول سے خاص کرنے کی بجائے اسے عام رکھا ہے۔ مثلاً امام ابن کثیر اور امام نسفی رحمہما اللہ وغیرہ ۔صحیح بات بھی یہی ہے کہ آیت اگرچہ اپنے نزول کے اعتبار سے خاص ہے لیکن اس کا معنی عام ہے 'جیسا کہ مفسرین کا قاعدہ ہے
''العبرة بعموم اللفظ لا بخصوص السبب'' یعنی کسی آیت کی تفسیر میں شانِ نزول کے اعتبار کی بجائے اس آیت کے الفاظ کے عموم کا اعتبار ہو گا۔شانِ نزول سے کوئی آیت مبارکہ کسی فرد یا ایک جماعت کے ساتھ خاص تونہیں ہوجاتی لیکن پھر بھی آیت کے معنی و مفہوم کو سمجھنے میں شانِ نزول کو بہت اہمیت حاصل ہوتی ہے۔
اتباع کا لفظ قرآن میں معمولی فرق کے ساتھ مختلف معانی میں استعمال ہوا ہے۔قرآن میں یہ لفظ پیچھے چلنے اور پیروی کرنے کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے 'جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشادہے
(فَاَسْرِ بِاَھْلِکَ بِقِطْعٍ مِّنَ الَّیْلِ وَاتَّبِعْ اَدْبَارَھُمْ)(الحجر:٦٥) اور
(لَوْ کَانَ عَرَضًا قَرِیْبًا وَّسَفَرًا قَاصِدًا لاَّتَّبَعُوْکَ)(التوبة:٤٢)اور
(ذَرُوْنَا نَتَّبِعْکُمْ)(الفتح:١٥)اور
(قَالُوْالَوْ نَعْلَمُ قِتَالًا لَّا اتَّبَعْنٰکُمْ) (آل عمران:١٦٧) اور
(فَاِذَا قَرَاْ نٰہُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَہ)(القیٰمة)۔
عام طور پر اطاعت اور اتباع کا فرق بیان کرنے کے لیے یہ کہا جاتا ہے کہ اطاعت حکم کی ہوتی ہے اور اتباع حکم کے بغیر ہوتی ہے 'حالانکہ بعض اوقات اتباع کا لفظ قرآن میں کسی کا حکم ماننے اور ا س حکم کی پیروی کرنے کے لیے بھی استعمال ہوا ہے'جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان
(فَاتَّبَعُوْا اَمْرَ فِرْعَوْنَ) (ھود:٩٧)اور
(وَاتَّبَعُوْا اَمْرَ کُلِّ جَبَّارٍ عَنِیْدٍ)(ھود) ہے ۔ ان آیات میں مصدر کا صیغہ 'امر'بمعنی اسم مفعول یعنی'مامور'ہے اور مصدر کا اسم مفعول کے معنی میں استعمال قرآن میں عام ہے۔ لہٰذا یہ ثابت ہواکہ اتباع کا لفظ اس معنی میں عام ہے کہ اگر کسی کے حکم پرعمل کیا جائے تویہ بھی اتباع ہے اور اگر کسی کے حکم کے بغیر اس کے نقش قدم پر چلا جائے تو یہ بھی اتباع ہے۔
اتباع کا یہ معنی تو لغت سے واضح ہے کہ کسی کے پیچھے چلنا 'لیکن کیا اتباع کے معنی میں یہ بات بھی شامل ہے کہ جہاں کوئی دایاں پاؤں رکھے بعینہ اُس جگہ اُس کے پیچھے چلتے ہوئے دایاں پاؤں رکھا جائے اور جہاں کسی کا بایاں پاؤں زمین پرپڑے عین اسی جگہ اپنا بایاں پاؤں ہی رکھا جائے؟ اہل لغت میں سے کسی نے بھی اتباع کا یہ مفہوم بیان نہیں کیا ہے ۔قرآن میں بہت سے مقامات ایسے ہیں جن سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع سے ہر ہر فعل میں آپ کی پیروی مراد نہیں ہے ۔مثلاً ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
(یٰاَیُّھَا النَّبِیُّ حَسْبُکَ اللّٰہُ وَمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ) (الانفال)
''اے نبی(صلی اللہ علیہ وسلم !)اللہ تعالیٰ آپ کے لیے بھی اور اہل ایمان میں سے جنہوں نے آپ کی اتباع کی ' ان کے لیے بھی کفایت کرنے والا ہے ''۔
اگر اتباع سے مراد یہ لی جائے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے جبلی افعال مثلاً آپ کا کھانا' پینا' اٹھنا اور بیٹھنا وغیرہ بھی اس میں شامل ہیں تواکثر صحابہ رضی اللہ عنہم آپ کے جبلی افعال میں آپ کی پیروی نہیں کرتے تھے تو کیا ان صحابہ کو اللہ کی ذات کفایت کرنے والی نہیں ہے؟
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سب سے زیادہ حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہ کے بارے میں روایات میں ملتا ہے کہ وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر ہر فعل کی پیروی کرنے کی کوشش کرتے تھے۔حج یا عمرہ کے دوران اگر کسی جگہ سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کاگزر ہواہوتا تھاتو وہ بھی اسی جگہ سے گزرنے کی کوشش کرتے تھے اور آپ اگر کسی جگہ راستے میں قضائے حاجت کے لیے بیٹھے تھے تو وہ بھی اسی جگہ قضائے حاجت کااہتمام کرتے تھے ۔حضرت عبد للہ بن عمر کے علاوہ باقی جلیل القدر صحابہ رضی اللہ عنہم آپ کی اس درجے پیروی نہیں کرتے تھے ۔اگر تو حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کا آپ کی پیروی میں حد درجے آگے بڑھ جانا اتباع کے مفہوم میں شامل ہے تو پھر
(فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ)کا مفہوم یہ نکلتا ہے کہ صحابہ کی اکثریت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرنے والی نہیں تھی اور نہ ہی اللہ کی محبوب تھی۔کیونکہ تمام صحابہ آپ کے ہر ہر عمل میں آپ'کی پیروی نہیں کرتے تھے۔اسی طرح قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا :
(وَاخْفِضْ جَنَاحَکَ لِمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ) (الشُّعراء)
''اور(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !)آپ اپنے دونوں بازو اِن اہل ایمان کے لیے پست رکھیں جنہوں نے آپ کی اتباع کی ''۔
اس آیت کے نزول کے بعد کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بازو صرف حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہ کے لیے پست رہے یا جمیع صحابہ کے لیے؟جواب بالکل واضح ہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد آپ تمام صحابہ کے ساتھ نرمی اختیار کرتے تھے 'جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اتباع سے مراد جمہور صحابہ رضی اللہ عنہم کا طرزِ عمل ہے نہ کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ وغیرہ کا۔کیونکہ اگر اتباع سے مراد حضرت عبد اللہ بن عمر کا طرز عمل لیا جائے تو پھر گویاجمہور صحابہ نے آپ کی اتباع نہ کی اور آپ نے بھی (معاذاللہ!)جمہور صحابہ کے ساتھ نرمی کا رویہ اختیار کر کے اللہ کے حکم کی خلاف ورزی کی ہے ۔
اگر اتباع سے جمیع افعال میں آپ کی پیروی مراد لی جائے تو یہ اتباع کسی ایک صحابی نے بھی نہیں کی ہے 'حتیٰ کہ حضرت عبد اللہ بن عمر سے بھی بعض معاملات میں آپﷺ کے بعض افعال کی خلاف ورزی مروی ہے۔
جیسا کہ ہم صحیح بخاری کی ایک روایت بیان کر چکے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عمر حج یا عمرہ کے موقع پر اپنی داڑھی اپنی مٹھی میں لے کر زائد بال کاٹ دیتے تھے 'جبکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے زندگی بھر ایسا ثابت نہیں ہے۔
قرآن مجید میں حق اور باطل دونوں کی پیروی کے لیے اتباع کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ پہلی قسم کی مثالیں
(وَاَنَّ ھٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ)(الانعام: ۱۵۳) اور
(وَھٰذَا کِتٰب اَنْزَلْنٰہُ مُبٰرَک فَاتَّبِعُوْہُ)(الانعام: ۱۵۵) اور
(اِنْ اَتَّبِعُ اِلاَّ مَا یُوْحٰی اِلَیَّ)(یونس:١٥) اور
(اَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ اِبْرٰہِیْمَ حَنِیْفًا)(النحل:١٢٣) اور
(فَاتَّبِعُوْنِیْ وَاَطِیْعُوْا اَمْرِیْl)(طٰہٰ) اور
(وَاتَّبِعْ سَبِیْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَیَّ)(لقمٰن:١٥) اور
(یٰاَ بَتِ اِنِّیْ قَدْ جَائَ نِیْ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَمْ یَاْتِکَ فَاتَّبِعْنِیْ اَھْدِکَ صِرَاطًا سَوِیًّا)(مریم) اور
(اَلَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُ فِیْ سَاعَةِ الْعُسْرَةِ)(التوبة:١١٧)اور
(اِنَّ اَوْلَی النَّاسِ بِاِبْرٰہِیْمَ لَلَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُ)(آل عمران:٦٨) اور
(فَاتَّبِعُوْا مِلَّةَ اِبْرٰہِیْمَ حَنِیْفًا)(آل عمران:٩٥) اور
(وَجَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا)(آل عمران:٥٥) اور
(وَاخْفِضْ جَنَاحَکَ لِمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ)(الشُّعراء) وغیرہ شامل ہیں ۔ان آیات میں اتباع کالفظ سیدھے راستے کی پیروی' وحی الٰہی کی پیروی' نبی کی پیروی' قرآن کی پیروی وغیرہ کے لیے استعمال ہوا ہے ۔سیدھے راستے کی پیروی سے مراد دینِ اسلام کی پیروی یعنی اس پر عمل ہے اور قرآن کی پیروی سے مراد قرآن پر عمل کرنا ہے۔ قرآن میں بہت سے مقامات پر اتباع کا لفظ باطل خواہشات و نظریات اور شیطان کی پیروی کے لیے بھی استعمال ہوا ہے۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان
(وَاتَّبَعَ ھَوٰٹہُ) (الاعراف:١٧٦)اور
(وَلَا تَتَّبِعْ اَھْوَآئَ ھُمْ) (المائدة:٤٨) اور
(وَلَا تَتَّبِعْ اَھْوَا ئَ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا) (الانعام:١٥٠) اور
(وَاتَّبَعُوا الشَّھَوٰتِ) (مریم:٥٩)اور
(وَمَا یَتَّبِعُ اَکْثَرُھُمْ اِلاَّ ظَنًّا) (یونس:٣٦) اور
(اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلاَّ الظَّنَّ) (الانعام:١١٦) اور
(وَیَتَّبِعُ کُلَّ شَیْطٰنٍ مَّرِیْد) (الحج) وغیر ہ ہے۔
لہٰذاقرآن کے استعمالات سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کی اتباع سے مراد اپنی خواہش نفس و شیطان کے بالمقابل نبی کی وحی الٰہی پر مبنی بات مانتے ہوئے اس کے پیچھے چلنا ہے 'جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ کو شیطان کی عبادت کے بالمقابل اپنی پیروی کی تبلیغ کی۔اسی طرح حضرت ہارون علیہ السلام نے بھی اپنی قوم کو بچھڑے کی پرستش میں خواہش نفس کے پیچھے چلنے کی بجائے اپنی اتباع کا حکم دیا۔ علاوہ ازیں مذکورہ بالا آیات میں خواہش نفس' شیطان اور گمان وغیرہ کی پیروی کو مذموم قرر دیا گیا ہے اور اس کے بالمقابل دین اسلام ' وحی الٰہی اور نبی کی اتباع کا حکم جاری کیا گیا ہے۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے طریقے کی اتباع کا جوحکم دیا گیا ہے یا مسلمانوں کے بارے میں یہ خبر دی گئی ہے کہ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زیادہ قریب ہیں 'کیونکہ انہوں نے ان کی اتباع کی ہے یا مسلمانوں کو بھی قرآن مجید میں حضرت ابراہیم کی اتباع کا جو حکم دیا گیا ہے' تو اس سے کیا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہر ہر فعل کی پیروی مراد ہے؟یقینا ایسا نہیں ہے' کیونکہ حضرت ابراہیم کا ہر ہر طریقہ نہ تو کسی آسمانی کتاب میں محفوظ ہے ' نہ ہی آپ کو وحی کیا گیا ہے اور نہ ہی حضرت ابراہیم کی شریعت ہمارے لیے بھی شریعت ہے۔اس سے مراد بعض مخصوص معاملات مثلاً شرک سے اجتناب وغیرہ میں حضرت ابراہیم کی پیروی ہے۔قرآن کی آیت
(اَلَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُ فِیْ سَاعَةِ الْعُسْرَةِ) (التوبة:١١٧)بھی اس بات کی دلیل ہے کہ بعض اوقات اتباع کا لفظ ایک محدود دائرے میں کسی کے پیچھے چلنے کے معنی میں بھی استعمال ہو جاتا ہے۔اسی طرح اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے
(وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِیْ کُنْتَ عَلَیْھَا اِلاَّ لِنَعْلَمَ مَنْ یَّتَّبِعُ الرَّسُوْلَ مِمَّنْ یَّنْقَلِبُ عَلٰی عَقِبَیْہِ) (البقرة:١٤٣)میں بھی اتباع سے مراد ذاتی خواہش کے بالمقابل رسول اللہ ﷺ کی پیروی کرناہے۔خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اتباع کالفظ وحی اور سابقہ ابنیاعلیہم السلام کی پیروی کے لیے استعمال ہوا ہے' جیسا کہ اللہ کا فرمان
(اِنْ اَتَّبِعُ اِلاَّ مَا یُوْحٰی اِلَیَّ)اور
(اِنَّمَا اَتَّبِعُ مَا یُوْحٰی اِلَیَّ) (الاعراف:٢٠٣) اور
(اَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ اِبْرٰہِیْمَ حَنِیْفًا) ہے ۔
جس طرح اتباع سے مراد ہر ہر فعل کی پیروی نہیں ہے' اسی طرح یہ بات کہنا کہ اتباع میں محبت شامل ہے' یا یہ کہ اطاعت اور اتباع میں اصل فرق یہ ہے کہ اطاعت بغیر محبت کے ہوتی ہے اور اتباع محبت کے ساتھ اطاعت کا نام ہے 'یہ بھی پورے طور پر درست معلوم نہیں ہوتی ۔ ہاں' اس بات سے انکار نہیں ہے کہ اتباع و اطاعت کا کمال بغیر محبت کے حاصل نہیں ہو سکتا' لیکن انہیں محبت سے مشروط کرنے کے لیے دلیل درکار ہے۔اس کی پہلی وجہ تو یہ ہے کہ اہل لغت میں سے کسی ایک نے بھی اتباع کے مفہوم میں یہ بات بیان نہیں کی ہے کہ اتباع سے مراد محبت یا دلی آمادگی کے ساتھ کسی کی اطاعت کرنا ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ قرآن نے اتباع کو جن معانی میں استعمال کیا ہے ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اتباع کے لیے ضروری نہیں ہے کہ محبت بھی اس میں شامل ہو' جیسا کہ ارشاداتِ باری تعالیٰ
(قَالُوْا لَوْ نَعْلَمُ قِتَالًا لاَّ اتَّبَعْنٰکُمْ) (آل عمران:١٦٧)اور
(ذَرُوْنَا نَتَّبِعْکُمْ) (الفتح:١٥)اور
(فَاتَّبِعُوْنِیْ وَاَطِیْعُوْا اَمْرِیْ) (طٰہٰ) اور
(وَیَتَّبِعُ کُلَّ شَیْطٰنٍ مَّرِیْدٍ) (الحج) وغیرہ ہیں ۔پہلی دونوں آیات منافقین کے بارے میں ہیں اور یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ان کی اتباع کبھی بھی محبت کے ساتھ نہیں ہو تی تھی ۔تیسری آیت میں حضرت ہارون بچھڑے کے پجاریوں سے اپنی اتباع کا مطالبہ کر رہے ہیں اور کلام کا سیاق و سباق مثلاً(وَاَطِیْعُوْا اَمْرِیْ4) کے الفاظ بتلا رہے ہیں کہ یہاں حضرت ہارون کی اپنی اتباع سے مراد صرف یہ ہے کہ شرک چھوڑ دو' چاہے اس کو چھوڑنے کے لیے تمہارے دل آمادہ ہیں یانہیں ۔چوتھی آیت میں شیطان کی اتباع کی بات ہے اور یہ ضروری نہیں ہے کہ شیطان کی اتباع محبت کے ساتھ ہوتی ہو۔ تیسری بات یہ ہے کہ جب اہل لغت نے اتباع کے معنی میں محبت کو لازماً شامل نہیں کیاہے تو اس بات کی کوئی شرعی دلیل ہونی چاہیے کہ اتباع کے معنی میں محبت کا مفہوم بھی شامل ہے تاکہ یہ دعویٰ ممکن ہو کہ اتباع کا ایک لغوی مفہوم ہے اور ایک شرعی معنی ہے۔قرآن میں اتباع کامطالبہ مسلمانوں اور کفار دونوں سے ہے۔ کفار کے لیے اس کی مثال حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اپنے باپ کو
(فَاتَّبِعْنِیْ اَھْدِکَ صِرَاطًا سَوِیًّا) (مریم) کے ذریعے اپنی اتباع کا حکم دینا ہے۔
اس ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ
(قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ) (آل عمران:٣١) میں اصلاً خطاب ان مشرکین اور اہل کتاب سے ہے جو کہ اللہ سے محبت کے دعویدار تھے یا اب بھی ہیں ۔ان کفار کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کا حکم دیا گیا ہے اور اس اتباع سے مراد آپ پر ایمان لانے کے مطالبے میں آپ کی بات کی پیروی کرنا ہے۔تبعاً اس آیت کے عمومی مفہوم میں تمام مسلمانوں سے بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کا مطالبہ ہے اور اس اتباع سے مراد آپ کے ان اقوال و افعال اور تقریر و تصویب کی پیروی کرنا ہے جو کہ آپ سے بطورِ دین و شریعت صادر ہوئے ہوں نہ کہ آپ کے ہر ہر قول اور فعل کی پیروی کرنا' کیونکہ صحابہ نے آپ کے ہر ہر قول اور فعل کی پیروی نہیں کی ہے۔