• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اہل سنت کا تصور سنت

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
سولہواں اصول
بعض اوقات کوئی امتی آپ کے حکم کے ظاہر کی بجائے آپ کے مقصود و منشا کو ملحوظ رکھتا ہے جس کی وجہ سے آپ کے ظاہری حکم پر عمل نہیں ہوتا۔اس صورت میں آپ کے ظاہری حکم پر عمل نہ کرنا ہی افضل ہوتا ہے اگرچہ ظاہری حکم پر عمل بھی درست ہوتا ہے۔مثلاً غزوہ احزاب کے بعد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بنوقریظہ سے ان کی بد عہدی کا بدلہ لینے کے لیے صحابہ کو حکم دیا کہ وہ بنو قریظہ کی طرف کوچ کریں۔ایک روایت کے الفاظ ہیں کہ آپ نے مسلمانوں میں یہ منادی کرائی کہ:
((لاَ یُصَلِّیَنَّ أَحْد الظُّھْرَ ِالاَّ فِیْ بَنِیْ قُرَیْظَةَ)) فَتَخَوَّفَ نَاس فَوْتَ الْوَقْتِ فَصَلُّوْا دُوْنَ بَنِیْ قُرَیْظَةَ' وَقَالَ آخَرُوْنَ لَا نُصَلِّیْ ِلاَّ حَیْثُ أَمَرَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ وَِنْ فَاتَنَا الْوَقْتُ' قَالَ : فَمَا عَنَّفَ وَاحِدًا مِنَ الْفَرِیْقَیْنِ (١٠١)
''تم میں کوئی بھی اُس وقت تک ظہر کی نماز ہرگز نہ پڑھے جب تک کہ وہ بنو قریظہ میں نہ پہنچ جائے''۔تو بعض لوگوں کو یہ اندیشہ لاحق ہوا کہ( بنو قریظہ تک پہنچتے پہنچتے) ہماری نماز کا وقت فوت ہو جائے گا تو انہوں نے بنو قریظہ پہنچنے سے پہلے ہی (راستے میں) نماز پڑ ھ لی' جبکہ صحابہ کے ایک دوسرے گروہ نے کہا کہ ہم اسی جگہ ظہر کی نماز پڑھیں گے جہاں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے چاہے ہماری نماز کا وقت ہی کیوں نہ گزر جائے۔ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دونوں گروہوں کے عمل کا تذکرہ کیا گیا تو آپ نے کسی گروہ کے فعل کا انکار نہیں کیا''۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آپ کے ظاہری حکم کی جن صحابہ نے یہ تأویل کی تھی کہ آپ کا اس حکم سے اصل مقصود یہ تھا کہ بنو قریظہ تک جلدی پہنچو یہاں تک کہ ظہر کی نماز وہاں جا کر پڑھو' وہ تأویل درست تھی اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اس فعل کی اپنی تقریر کے ذریعے تصویب فرمائی۔علاوہ ازیں راستے میں نماز پڑھنے والا گروہ اس لیے افضل ہے کہ اس نے قرآن کے حکم(اِنَّ الصَّلَاةَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتَابًا مَّوْقُوْتًا) پر بھی عمل کیا۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
سترہواں اصول
بعض اوقات کوئی عالم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی حکم کی یہ تأویل کرتا ہے کہ وہ لازمی حکم نہیں ہے لہٰذا وہ اس حکم پر عمل نہیں کرتا۔ مثلاً حضرت براء بن عازب سے روایت ہے کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر حضرت علی بن ابی طالب نے مشرکین اور مسلمانوں کے درمیان ہونے والا معاہدہ لکھا اور اس میں 'مُحَمَّد رَّسُوْلُ اللّٰہ' کے الفاظ لکھے تو اس پر مشرکین نے اعتراض کیاکہ یہ الفاظ معاہدے میں نہ لکھے جائیں'کیونکہ اگر ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم 'کو اللہ کارسول مانتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ نہ کرتے ۔اس پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی سے فرمایا:
(( اُمْحُہ)) فَقَالَ عَلِیّ مَا أَنَا بِالَّذِیْ أَمْحَاہُ' فَمَحَاہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ بِیَدِہ(١٠٢)
''اِن الفاظ کو مٹا دو''۔ حضرت علی نے کہا: میں ان الفاظ کو مٹانے والا نہیں ہوں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے مٹا دیے''۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس مسئلے میں آپ کے حکم کی تعمیل کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور اپنے ایمان کے منافی سمجھا لہٰذا انہوں نے اس پر عمل نہ کیااور آپ کے حکم کی یہ تأویل کی کہ وہ کوئی لازمی حکم نہیں ہے ۔ امام نووی نے 'شرح مسلم' میں اس حدیث کی یہی تأویل بیان کی ہے۔ اس طرح کی اور بھی بیسیوںروایات ایسی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ و تابعین نے آپ کے ہر حکم کی اتباع کو لازم نہیں سمجھااور نہ ہی وہ آپ کے ہر قول کو شریعت سمجھتے تھے۔
لیکن یہ فرق کرنا کہ آپ کے کون سے اقوال کا تعلق تشریع سے ہے اور کون سے اقوال ہمارے لیے شریعت نہیں ہیں ' یہ کسی عام آدمی کا کام نہیں ہے 'بلکہ یہ ان علماء کا کام ہے جن کی زندگیاں حدیث پڑھنے اور پڑھانے میں گزرتی ہیں ۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ائمہ سلف میں شارحین حدیث اور فقہاء و محدثین نے یہ کام بحسن و خوبی کیا ہے اور حدیث کی شرح میں جا بجا یہ واضح کیا ہے کہ آپ کا یہ حکم وجوب کے لیے ہے یا استحباب کے لیے ' اباحت کے لیے ہے یا منسوخ ہے 'عام ہے یا خاص' مستقل ہے یا عارضی' مطلق ہے یا مقید 'وغیر ہ۔
اس مضمون کی اگلی قسط میں ہم اِن شاء اللہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال اور اتباع کے حوالے سے بحث کریں گے۔
(جاری ہے)
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال کی طرح آپ کے افعال بھی ہمارے لیے سنت اور مصدرِ تشریع ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
(لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَة حَسَنَة) (الاحزاب:٢١)
''یقینا تمہارے لیے اللہ کے رسول(صلی اللہ علیہ وسلم )میں بہترین اُسوہ موجود ہے ''۔
لیکن کیا آپ کا ہر ہر فعل، چاہے دنیا سے متعلق ہو یا دین سے ، ہمارے لیے مصدر ،ماخذاور سنت کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کی اتباع لازمی یا کم ازکم مستحب ہے؟اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے صرف وہی افعال ہمارے لیے شریعت یا ایسی سنت ( جس کی اتباع کرنی چاہیے) کا درجہ رکھتے ہیں جو کہ آپ سے بطورِ شریعت صادر ہوئے ہوں۔
ڈاکٹر عبد الکریم زیدان لکھتے ہیں :
السنة الفعلیة : وھی ما فعلہ کأداء الصلاة بہیئاتھا وأرکانھا.ومثل قضائھا بشاھد واحد ویمین المدعی' ونحو ذلک. وأفعالہ منہا ما یکون مصدرا للتشریع' ومنھا مالا یکون (١٠٣)
''سنتِ فعلیہ سے مراد وہ عمل ہے جس کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہو،جیسا کہ آپ نے نماز کومختلف ارکان اور شکلوں کے ساتھ ادا کیا ہے ۔اسی طرح آپ نے ایک گواہ اور مدعی کی قسم کے ساتھ فیصلہ کیا ہے اور اس طرح کی بہت سی مثالیں ہیں ۔آپ کے بعض افعال ہمارے لیے شریعت ہیں جبکہ بعض شریعت نہیں ہیں''۔
ڈاکٹر حمزہ الملیباری لکھتے ہیں :
السنة فی الاصطلاح ما ھو عن رسول اللّٰہۖ علی وجہ التشریع من قول أو فعل أو تقریر أو صفة خلقیة من مبدأ بعثتہ لی وفاتہ(١٠٤)
''اصطلاح میں سنت سے مراد ہر وہ قول یا فعل یا تقریر یا اکتسابی وصف ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کی بعثت کے بعد سے لے کر وفات تک کے دورانیے میں بطورِ شریعت صادر ہوا ہو''۔
خود اس آیت میں بھی اس بات کا قرینہ موجود ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر ہر فعل ہمارے لیے اُسوہ نہیں ہے۔آیت مبارکہ میں (فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ)کے الفاظ ہیں 'یعنی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں یا ان کے افعال میں یا ان کی زندگی میں یا ان کے طریقے میں تمہارے لیے اُسوہ ہے۔عربی زبان میں'فی' کالفظ عموماً ظرفیت کا معنی دیتا ہے۔ بعض اوقات یہ ظرفیت حقیقی ہوتی ہے 'مثلاً(غُلِبَتِ الرُّوْمُ فِیْ اَدْنَی الْاَرْضِ)اور بعض اوقات مجازی ہوتی ہے 'جیسا کہ(فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ) میں ہے۔ اگر آیت کا اسلوب یوں ہوتا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے لیے اُسوہ ہیں تو پھر یہ معنی مراد ہوسکتے تھے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے جمیع افعال میں اتباع مطلوب و مقصودہے۔ امام ابن حزم رحمہ اللہ نے ''الاحکام'' میں اس نکتے کی طرف اشارہ کیا ہے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
اتباعِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا معنی و مفہوم اور شرعی حکم
حال ہی میں یہ فلسفہ متعارف ہوا ہے جس کا ذکر ہم سابقہ قسط میں بھی کر چکے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر ہر فعل کی پیروی اس اتباع میں شامل ہے جس کا قرآن میں مسلمانوں کو حکم دیا گیاہے۔ لہٰذ ا اگر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تہبند باندھا ہے تو ہمیں بھی تہبند باندھنا چاہیے۔آپ نے عمامہ باندھا' موزے پہنے' اونٹ' گھوڑے اور گدھے کی سواری کی 'ثرید کھائی ' سرمہ لگایا وغیرہ' تو ہمیں بھی یہ سب کام کرنے چاہئیں اور ان سب کو کرنا آپ کی اتباع اور باعث ثواب و بلندی درجات ہے۔یہ حضرات آپ کے ہر ہر فعل کو سنت کا نام دیتے ہیں اور سنت کی پیروی میں اس حد تک غلواختیار کرتے ہیں کہ ان کے نزدیک زمین پر بیٹھنا سنت اور کرسی پر بیٹھنا خلافِ سنت ہے۔ اور چونکہ ان کے بقول ہر سنت طیب ہے اور ہر خلافِ سنت کام ان کے نزدیک خبیث ہے 'لہٰذا کرسی پر بیٹھنا خباثت ہے ۔اسی طرح ان کے فلسفہ سنت کی رو سے کراچی سے لاہور جانے کے لیے اونٹ کی سواری ' گاڑی کی سواری سے افضل ہے ۔وہ اس پر بھی مصر ہیں کہ ہاتھ سے کھانا سنت ہے اور چمچ سے کھانا خباثت ہے 'عمامہ اور تہبند باندھنا ہی سنت ' باعث ثواب اور بلندی درجات کا سبب ہے' وغیر ذٰلک۔ان میں سے بعض حضرات نے تو اِس درجہ غلو اختیار کیا کہ قرآن کی طباعت' پاروں اور رکوعوں کی تقسیم' قرآن کے اعراب و حرکات تک کو یہودی سازش قرار دیا ہے کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کام نہ کیا تھا۔
ہمارے خیال میں یہ نقطہ نظر بوجوہ غلط افکار پر مشتمل ہے۔اس کے قائلین ایک ایسی چیز کو دین قرار دے رہے ہیں جسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ''دین'' قرارنہیں دیا ہے۔لہٰذا یہ لوگ سنت کا ایسا تصور پیش کر رہے ہیں جو اُمت مسلمہ کی چودہ سو سالہ تاریخ میں پیش نہیں ہوا۔ہاں اس بات سے انکار نہیں ہے کہ اگر کوئی شخص ان افعال کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور تعلق کے اظہار کی نیت سے اد اکرتا ہے تو ان شاء اللہ العزیز اس نیت و ارادہ پراجرو ثواب ملنے کی امید ہے۔ ذیل میں ہم ان حضرات کے افکار کا ایک علمی اور تحقیقی جائزہ لے رہے ہیں۔ قرآن مجید میں ہمیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کا حکم دیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
(قُلْ ِانْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَاللّٰہُ غَفُوْر رَّحِیْم) (آل عمران)
''(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !) آپ ان سے کہہ دیں کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو 'اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہوں کو بخش دے گا 'اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے ''۔
اتباع کے لفظ کا مادہ'تبع' ہے ۔'لسان العرب' میں ہے کہ معروف لغوی فراء نے اتباع کا معنی ''ان یسر الرجل و أنت تسیر وراء ہ'' بیان کیا ہے ۔یعنی کوئی شخص چلے اور تم اس کے پیچھے چلو تو یہ اس کی اتباع ہے۔پس اتباع کے لغوی معنی پیروی کرنے اور پیچھے چلنے کے ہیں۔
اس آیت کا سیاق و سباق یہ بتلا رہا ہے کہ کچھ لوگوںنے عہد نبوی میں اللہ سے محبت کا دعویٰ کیا تو اُن کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔جمہور مفسرین کا کہنا یہ ہے کہ یہ آیت مبارکہ نجران کے اس عیسائی وفد کے بارے میں نازل ہوئی تھی جو اللہ سے محبت کے دعوے دار تھے لیکن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے اور آپ کی بات ماننے سے انکاری تھے۔اس آیت مبارکہ کے شانِ نزول کے بارے میں چار اقوال مروی ہیں' جن کا تذکرہ علامہ ابن جوزی نے اپنی تفسیر '' زاد المسیر' میں کیا ہے۔یہ اقوال درج ذیل ہیں:
(١) یہ آیتِ مبارکہ ان مشرکین مکہ کے بارے میں نازل ہوئی تھی جو اللہ سے محبت کے دعوے دار تھے' جیسا کہ قرآن نے آیت مبارکہ (مَا نَعْبُدُھُمْ اِلاَّ لِیُقَرِّبُوْنَا اِلَی اللّٰہِ زُلْفٰی)(الزمر:٣) میں اس طرف اشارہ کیا ہے ۔یعنی مشرکین کا یہ دعویٰ تھا کہ وہ اللہ کے غیر کی عبادت بھی اللہ کے قرب کے حصول کے لیے کرتے تھے ۔یہ قول ضحاک نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے۔
(٢) دوسرا قول یہ ہے کہ یہ آیت مبارکہ نجران کے اس عیسائی وفد کے بارے میں نازل ہوئی تھی جو اللہ سے محبت کے دعوے دار تھے ۔یہ قول مفسرین کی ایک جماعت کا ہے ۔امام المفسرین ابن جریر طبری کی بھی یہی رائے ہے ۔امام قرطبی کا رجحان بھی اسی طرف ہے۔
(٣) مفسرین کی ایک جماعت کی رائے یہ ہے کہ یہ آیت مبارکہ ان یہود کے بارے میں نازل ہوئی ہے جنہوں نے (نَحْنُ اَبْنٰؤُا اللّٰہِ وَاَحِبَّاؤُہ)'(المائدة:١٨) کا دعویٰ کیا تھا۔امام رازی 'علامہ مجد الدین فیروز آبادی' علامہ سمرقندی اور امام بغوی نے اسی رائے کو اختیار کیا ہے۔بعض مفسرین نے دوسرے اور تیسرے دونوں اقوال کو اس آیت مبارکہ کا شان نزول قرار دیا ہے ۔یعنی ان مفسرین کے نزدیک یہ آیت مبارکہ اہل کتاب کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔اس رائے کے حاملین میں اما م ابن عطیہ ' امام خازن اور امام ابو حیان ا لاندلسی رحمہم اللہ وغیرہ شامل ہیں۔
(٤) ایک رائے یہ بھی ہے کہ یہ آیت مبارکہ ایک ایسی قوم کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو اللہ سے محبت کی دعوے دار تھی۔یہ قوم کون تھی 'اس کا تعین اس قول میں موجود نہیں ہے ۔یہ رائے حضرت حسن بصری رحمہ اللہ کی ہے ۔
بعض مفسرین نے اس آیت مبارکہ کو اس کے شانِ نزول سے خاص کرنے کی بجائے اسے عام رکھا ہے۔ مثلاً امام ابن کثیر اور امام نسفی رحمہما اللہ وغیرہ ۔صحیح بات بھی یہی ہے کہ آیت اگرچہ اپنے نزول کے اعتبار سے خاص ہے لیکن اس کا معنی عام ہے 'جیسا کہ مفسرین کا قاعدہ ہے ''العبرة بعموم اللفظ لا بخصوص السبب'' یعنی کسی آیت کی تفسیر میں شانِ نزول کے اعتبار کی بجائے اس آیت کے الفاظ کے عموم کا اعتبار ہو گا۔شانِ نزول سے کوئی آیت مبارکہ کسی فرد یا ایک جماعت کے ساتھ خاص تونہیں ہوجاتی لیکن پھر بھی آیت کے معنی و مفہوم کو سمجھنے میں شانِ نزول کو بہت اہمیت حاصل ہوتی ہے۔
اتباع کا لفظ قرآن میں معمولی فرق کے ساتھ مختلف معانی میں استعمال ہوا ہے۔قرآن میں یہ لفظ پیچھے چلنے اور پیروی کرنے کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے 'جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشادہے(فَاَسْرِ بِاَھْلِکَ بِقِطْعٍ مِّنَ الَّیْلِ وَاتَّبِعْ اَدْبَارَھُمْ)(الحجر:٦٥) اور(لَوْ کَانَ عَرَضًا قَرِیْبًا وَّسَفَرًا قَاصِدًا لاَّتَّبَعُوْکَ)(التوبة:٤٢)اور(ذَرُوْنَا نَتَّبِعْکُمْ)(الفتح:١٥)اور(قَالُوْالَوْ نَعْلَمُ قِتَالًا لَّا اتَّبَعْنٰکُمْ) (آل عمران:١٦٧) اور(فَاِذَا قَرَاْ نٰہُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَہ)(القیٰمة)۔
عام طور پر اطاعت اور اتباع کا فرق بیان کرنے کے لیے یہ کہا جاتا ہے کہ اطاعت حکم کی ہوتی ہے اور اتباع حکم کے بغیر ہوتی ہے 'حالانکہ بعض اوقات اتباع کا لفظ قرآن میں کسی کا حکم ماننے اور ا س حکم کی پیروی کرنے کے لیے بھی استعمال ہوا ہے'جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان(فَاتَّبَعُوْا اَمْرَ فِرْعَوْنَ) (ھود:٩٧)اور (وَاتَّبَعُوْا اَمْرَ کُلِّ جَبَّارٍ عَنِیْدٍ)(ھود) ہے ۔ ان آیات میں مصدر کا صیغہ 'امر'بمعنی اسم مفعول یعنی'مامور'ہے اور مصدر کا اسم مفعول کے معنی میں استعمال قرآن میں عام ہے۔ لہٰذا یہ ثابت ہواکہ اتباع کا لفظ اس معنی میں عام ہے کہ اگر کسی کے حکم پرعمل کیا جائے تویہ بھی اتباع ہے اور اگر کسی کے حکم کے بغیر اس کے نقش قدم پر چلا جائے تو یہ بھی اتباع ہے۔
اتباع کا یہ معنی تو لغت سے واضح ہے کہ کسی کے پیچھے چلنا 'لیکن کیا اتباع کے معنی میں یہ بات بھی شامل ہے کہ جہاں کوئی دایاں پاؤں رکھے بعینہ اُس جگہ اُس کے پیچھے چلتے ہوئے دایاں پاؤں رکھا جائے اور جہاں کسی کا بایاں پاؤں زمین پرپڑے عین اسی جگہ اپنا بایاں پاؤں ہی رکھا جائے؟ اہل لغت میں سے کسی نے بھی اتباع کا یہ مفہوم بیان نہیں کیا ہے ۔قرآن میں بہت سے مقامات ایسے ہیں جن سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع سے ہر ہر فعل میں آپ کی پیروی مراد نہیں ہے ۔مثلاً ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
(یٰاَیُّھَا النَّبِیُّ حَسْبُکَ اللّٰہُ وَمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ) (الانفال)
''اے نبی(صلی اللہ علیہ وسلم !)اللہ تعالیٰ آپ کے لیے بھی اور اہل ایمان میں سے جنہوں نے آپ کی اتباع کی ' ان کے لیے بھی کفایت کرنے والا ہے ''۔
اگر اتباع سے مراد یہ لی جائے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے جبلی افعال مثلاً آپ کا کھانا' پینا' اٹھنا اور بیٹھنا وغیرہ بھی اس میں شامل ہیں تواکثر صحابہ رضی اللہ عنہم آپ کے جبلی افعال میں آپ کی پیروی نہیں کرتے تھے تو کیا ان صحابہ کو اللہ کی ذات کفایت کرنے والی نہیں ہے؟
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سب سے زیادہ حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہ کے بارے میں روایات میں ملتا ہے کہ وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر ہر فعل کی پیروی کرنے کی کوشش کرتے تھے۔حج یا عمرہ کے دوران اگر کسی جگہ سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کاگزر ہواہوتا تھاتو وہ بھی اسی جگہ سے گزرنے کی کوشش کرتے تھے اور آپ اگر کسی جگہ راستے میں قضائے حاجت کے لیے بیٹھے تھے تو وہ بھی اسی جگہ قضائے حاجت کااہتمام کرتے تھے ۔حضرت عبد للہ بن عمر کے علاوہ باقی جلیل القدر صحابہ رضی اللہ عنہم آپ کی اس درجے پیروی نہیں کرتے تھے ۔اگر تو حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کا آپ کی پیروی میں حد درجے آگے بڑھ جانا اتباع کے مفہوم میں شامل ہے تو پھر(فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ)کا مفہوم یہ نکلتا ہے کہ صحابہ کی اکثریت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرنے والی نہیں تھی اور نہ ہی اللہ کی محبوب تھی۔کیونکہ تمام صحابہ آپ کے ہر ہر عمل میں آپ'کی پیروی نہیں کرتے تھے۔اسی طرح قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا :
(وَاخْفِضْ جَنَاحَکَ لِمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ) (الشُّعراء)
''اور(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !)آپ اپنے دونوں بازو اِن اہل ایمان کے لیے پست رکھیں جنہوں نے آپ کی اتباع کی ''۔
اس آیت کے نزول کے بعد کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بازو صرف حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہ کے لیے پست رہے یا جمیع صحابہ کے لیے؟جواب بالکل واضح ہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد آپ تمام صحابہ کے ساتھ نرمی اختیار کرتے تھے 'جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اتباع سے مراد جمہور صحابہ رضی اللہ عنہم کا طرزِ عمل ہے نہ کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ وغیرہ کا۔کیونکہ اگر اتباع سے مراد حضرت عبد اللہ بن عمر کا طرز عمل لیا جائے تو پھر گویاجمہور صحابہ نے آپ کی اتباع نہ کی اور آپ نے بھی (معاذاللہ!)جمہور صحابہ کے ساتھ نرمی کا رویہ اختیار کر کے اللہ کے حکم کی خلاف ورزی کی ہے ۔
اگر اتباع سے جمیع افعال میں آپ کی پیروی مراد لی جائے تو یہ اتباع کسی ایک صحابی نے بھی نہیں کی ہے 'حتیٰ کہ حضرت عبد اللہ بن عمر سے بھی بعض معاملات میں آپﷺ کے بعض افعال کی خلاف ورزی مروی ہے۔
جیسا کہ ہم صحیح بخاری کی ایک روایت بیان کر چکے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عمر حج یا عمرہ کے موقع پر اپنی داڑھی اپنی مٹھی میں لے کر زائد بال کاٹ دیتے تھے 'جبکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے زندگی بھر ایسا ثابت نہیں ہے۔
قرآن مجید میں حق اور باطل دونوں کی پیروی کے لیے اتباع کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ پہلی قسم کی مثالیں (وَاَنَّ ھٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ)(الانعام: ۱۵۳) اور (وَھٰذَا کِتٰب اَنْزَلْنٰہُ مُبٰرَک فَاتَّبِعُوْہُ)(الانعام: ۱۵۵) اور (اِنْ اَتَّبِعُ اِلاَّ مَا یُوْحٰی اِلَیَّ)(یونس:١٥) اور (اَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ اِبْرٰہِیْمَ حَنِیْفًا)(النحل:١٢٣) اور (فَاتَّبِعُوْنِیْ وَاَطِیْعُوْا اَمْرِیْl)(طٰہٰ) اور (وَاتَّبِعْ سَبِیْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَیَّ)(لقمٰن:١٥) اور (یٰاَ بَتِ اِنِّیْ قَدْ جَائَ نِیْ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَمْ یَاْتِکَ فَاتَّبِعْنِیْ اَھْدِکَ صِرَاطًا سَوِیًّا)(مریم) اور (اَلَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُ فِیْ سَاعَةِ الْعُسْرَةِ)(التوبة:١١٧)اور (اِنَّ اَوْلَی النَّاسِ بِاِبْرٰہِیْمَ لَلَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُ)(آل عمران:٦٨) اور (فَاتَّبِعُوْا مِلَّةَ اِبْرٰہِیْمَ حَنِیْفًا)(آل عمران:٩٥) اور(وَجَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا)(آل عمران:٥٥) اور (وَاخْفِضْ جَنَاحَکَ لِمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ)(الشُّعراء) وغیرہ شامل ہیں ۔ان آیات میں اتباع کالفظ سیدھے راستے کی پیروی' وحی الٰہی کی پیروی' نبی کی پیروی' قرآن کی پیروی وغیرہ کے لیے استعمال ہوا ہے ۔سیدھے راستے کی پیروی سے مراد دینِ اسلام کی پیروی یعنی اس پر عمل ہے اور قرآن کی پیروی سے مراد قرآن پر عمل کرنا ہے۔ قرآن میں بہت سے مقامات پر اتباع کا لفظ باطل خواہشات و نظریات اور شیطان کی پیروی کے لیے بھی استعمال ہوا ہے۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان(وَاتَّبَعَ ھَوٰٹہُ) (الاعراف:١٧٦)اور(وَلَا تَتَّبِعْ اَھْوَآئَ ھُمْ) (المائدة:٤٨) اور(وَلَا تَتَّبِعْ اَھْوَا ئَ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا) (الانعام:١٥٠) اور (وَاتَّبَعُوا الشَّھَوٰتِ) (مریم:٥٩)اور (وَمَا یَتَّبِعُ اَکْثَرُھُمْ اِلاَّ ظَنًّا) (یونس:٣٦) اور(اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلاَّ الظَّنَّ) (الانعام:١١٦) اور (وَیَتَّبِعُ کُلَّ شَیْطٰنٍ مَّرِیْد) (الحج) وغیر ہ ہے۔
لہٰذاقرآن کے استعمالات سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کی اتباع سے مراد اپنی خواہش نفس و شیطان کے بالمقابل نبی کی وحی الٰہی پر مبنی بات مانتے ہوئے اس کے پیچھے چلنا ہے 'جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ کو شیطان کی عبادت کے بالمقابل اپنی پیروی کی تبلیغ کی۔اسی طرح حضرت ہارون علیہ السلام نے بھی اپنی قوم کو بچھڑے کی پرستش میں خواہش نفس کے پیچھے چلنے کی بجائے اپنی اتباع کا حکم دیا۔ علاوہ ازیں مذکورہ بالا آیات میں خواہش نفس' شیطان اور گمان وغیرہ کی پیروی کو مذموم قرر دیا گیا ہے اور اس کے بالمقابل دین اسلام ' وحی الٰہی اور نبی کی اتباع کا حکم جاری کیا گیا ہے۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے طریقے کی اتباع کا جوحکم دیا گیا ہے یا مسلمانوں کے بارے میں یہ خبر دی گئی ہے کہ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زیادہ قریب ہیں 'کیونکہ انہوں نے ان کی اتباع کی ہے یا مسلمانوں کو بھی قرآن مجید میں حضرت ابراہیم کی اتباع کا جو حکم دیا گیا ہے' تو اس سے کیا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہر ہر فعل کی پیروی مراد ہے؟یقینا ایسا نہیں ہے' کیونکہ حضرت ابراہیم کا ہر ہر طریقہ نہ تو کسی آسمانی کتاب میں محفوظ ہے ' نہ ہی آپ کو وحی کیا گیا ہے اور نہ ہی حضرت ابراہیم کی شریعت ہمارے لیے بھی شریعت ہے۔اس سے مراد بعض مخصوص معاملات مثلاً شرک سے اجتناب وغیرہ میں حضرت ابراہیم کی پیروی ہے۔قرآن کی آیت(اَلَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُ فِیْ سَاعَةِ الْعُسْرَةِ) (التوبة:١١٧)بھی اس بات کی دلیل ہے کہ بعض اوقات اتباع کا لفظ ایک محدود دائرے میں کسی کے پیچھے چلنے کے معنی میں بھی استعمال ہو جاتا ہے۔اسی طرح اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے (وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِیْ کُنْتَ عَلَیْھَا اِلاَّ لِنَعْلَمَ مَنْ یَّتَّبِعُ الرَّسُوْلَ مِمَّنْ یَّنْقَلِبُ عَلٰی عَقِبَیْہِ) (البقرة:١٤٣)میں بھی اتباع سے مراد ذاتی خواہش کے بالمقابل رسول اللہ ﷺ کی پیروی کرناہے۔خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اتباع کالفظ وحی اور سابقہ ابنیاعلیہم السلام کی پیروی کے لیے استعمال ہوا ہے' جیسا کہ اللہ کا فرمان(اِنْ اَتَّبِعُ اِلاَّ مَا یُوْحٰی اِلَیَّ)اور(اِنَّمَا اَتَّبِعُ مَا یُوْحٰی اِلَیَّ) (الاعراف:٢٠٣) اور(اَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ اِبْرٰہِیْمَ حَنِیْفًا) ہے ۔
جس طرح اتباع سے مراد ہر ہر فعل کی پیروی نہیں ہے' اسی طرح یہ بات کہنا کہ اتباع میں محبت شامل ہے' یا یہ کہ اطاعت اور اتباع میں اصل فرق یہ ہے کہ اطاعت بغیر محبت کے ہوتی ہے اور اتباع محبت کے ساتھ اطاعت کا نام ہے 'یہ بھی پورے طور پر درست معلوم نہیں ہوتی ۔ ہاں' اس بات سے انکار نہیں ہے کہ اتباع و اطاعت کا کمال بغیر محبت کے حاصل نہیں ہو سکتا' لیکن انہیں محبت سے مشروط کرنے کے لیے دلیل درکار ہے۔اس کی پہلی وجہ تو یہ ہے کہ اہل لغت میں سے کسی ایک نے بھی اتباع کے مفہوم میں یہ بات بیان نہیں کی ہے کہ اتباع سے مراد محبت یا دلی آمادگی کے ساتھ کسی کی اطاعت کرنا ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ قرآن نے اتباع کو جن معانی میں استعمال کیا ہے ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اتباع کے لیے ضروری نہیں ہے کہ محبت بھی اس میں شامل ہو' جیسا کہ ارشاداتِ باری تعالیٰ(قَالُوْا لَوْ نَعْلَمُ قِتَالًا لاَّ اتَّبَعْنٰکُمْ) (آل عمران:١٦٧)اور(ذَرُوْنَا نَتَّبِعْکُمْ) (الفتح:١٥)اور(فَاتَّبِعُوْنِیْ وَاَطِیْعُوْا اَمْرِیْ) (طٰہٰ) اور (وَیَتَّبِعُ کُلَّ شَیْطٰنٍ مَّرِیْدٍ) (الحج) وغیرہ ہیں ۔پہلی دونوں آیات منافقین کے بارے میں ہیں اور یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ان کی اتباع کبھی بھی محبت کے ساتھ نہیں ہو تی تھی ۔تیسری آیت میں حضرت ہارون بچھڑے کے پجاریوں سے اپنی اتباع کا مطالبہ کر رہے ہیں اور کلام کا سیاق و سباق مثلاً(وَاَطِیْعُوْا اَمْرِیْ4) کے الفاظ بتلا رہے ہیں کہ یہاں حضرت ہارون کی اپنی اتباع سے مراد صرف یہ ہے کہ شرک چھوڑ دو' چاہے اس کو چھوڑنے کے لیے تمہارے دل آمادہ ہیں یانہیں ۔چوتھی آیت میں شیطان کی اتباع کی بات ہے اور یہ ضروری نہیں ہے کہ شیطان کی اتباع محبت کے ساتھ ہوتی ہو۔ تیسری بات یہ ہے کہ جب اہل لغت نے اتباع کے معنی میں محبت کو لازماً شامل نہیں کیاہے تو اس بات کی کوئی شرعی دلیل ہونی چاہیے کہ اتباع کے معنی میں محبت کا مفہوم بھی شامل ہے تاکہ یہ دعویٰ ممکن ہو کہ اتباع کا ایک لغوی مفہوم ہے اور ایک شرعی معنی ہے۔قرآن میں اتباع کامطالبہ مسلمانوں اور کفار دونوں سے ہے۔ کفار کے لیے اس کی مثال حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اپنے باپ کو (فَاتَّبِعْنِیْ اَھْدِکَ صِرَاطًا سَوِیًّا) (مریم) کے ذریعے اپنی اتباع کا حکم دینا ہے۔
اس ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ(قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ) (آل عمران:٣١) میں اصلاً خطاب ان مشرکین اور اہل کتاب سے ہے جو کہ اللہ سے محبت کے دعویدار تھے یا اب بھی ہیں ۔ان کفار کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کا حکم دیا گیا ہے اور اس اتباع سے مراد آپ پر ایمان لانے کے مطالبے میں آپ کی بات کی پیروی کرنا ہے۔تبعاً اس آیت کے عمومی مفہوم میں تمام مسلمانوں سے بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کا مطالبہ ہے اور اس اتباع سے مراد آپ کے ان اقوال و افعال اور تقریر و تصویب کی پیروی کرنا ہے جو کہ آپ سے بطورِ دین و شریعت صادر ہوئے ہوں نہ کہ آپ کے ہر ہر قول اور فعل کی پیروی کرنا' کیونکہ صحابہ نے آپ کے ہر ہر قول اور فعل کی پیروی نہیں کی ہے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
افعالِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی درجہ بندی

نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال کو اہل علم نے مختلف اقسام میں تقسیم کیا ہے' جس کی تفصیل حسب ذیل ہے:
(١)۔جبلی اور اتفاقی امور
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے جبلی اور اتفاقی امور اُمت کے لیے نہ تو شریعت ہیں اور نہ ہی ایسی سنت ہیں جن کی اتباع باعث ثواب ہے ۔جبلی امور سے مراد وہ کام ہیں جو ایک انسان اپنے جبلی تقاضوں کے تحت سر انجام دیتا ہے 'مثلاً ایک انسان کھانا کھاتا ہے ' پانی پیتا ہے ' سوتا ہے ' اٹھتا ہے ' بیٹھتا ہے ' پیشاب پاخانہ کرتا ہے ' لباس پہنتا ہے 'جوتا پہنتا ہے 'اپنی ضروریاتِ زندگی پوری کرنے کے لیے بھاگ دوڑ کرتا ہے'وغیرہ وغیرہ۔یہ تمام امور ایسے ہیں کہ ان کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہے 'یعنی اگر کوئی شخص مسلمان نہ بھی ہو تو پھر بھی وہ اپنی جبلت کے تقاضوں کے تحت یہ سب کام کرتا ہے ۔اس کے برعکس ایک مسلمان نماز پڑھتا ہے ' روزہ رکھتا ہے ' حج ادا کرتا ہے' زکوٰة دیتا ہے 'وغیرہ تو یہ افعال جبلی نہیں ہیں کیونکہ عام انسان یہ کام نہیں کرتے۔ آپ کے جبلی افعال سے کم ازکم یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ کام حرام نہیں ہیں 'کیونکہ آپ سے حرام کا ارتکاب ناممکن ہے ۔ڈاکٹر عبد الکریم زیدان لکھتے ہیں :
أفعالہ الجبلیة أی التی تصدر منہ بحب الطبیعة البشریة و بصفتہ انسانا: کالأکل' والشرب' والمشی' والقعود' ونحو ذلک' فھذہ لا تدخل فی باب التشریع لا علی اعتبار اباحتھا فی حق المکلفین' فلا تجب متابعة الرسول فی طریقة مباشرتہ لھا' وان کان بعض الصحابة یحرص علی ھذہ المتابعة کعبد اللّٰہ بن عمر' وھذہ المتابعة أمر حسن۔(١٠٥)
''اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے جبلی افعال جو کہ ایک انسان ہونے اور بشری تقاضوں کے تحت آپ سے صادر ہوئے تھے 'مثلاً کھانا ' پینا' چلنا' بیٹھنا وغیرہ تو یہ تشریع کے باب میں نہیں ہیں' سوائے اس کے کہ یہ مکلفین کے لیے مباحات کا دائرہ ہے ۔ان افعال میں آپ کے طریقے کی پیروی لازمی نہیں ہے' اگرچہ بعض صحابہ اس متابعت کے بہت زیادہ حریص تھے اور ایسی متابعت ایک اچھی چیزہے ''۔
لہٰذا آپ کے جبلی افعال مباح کے درجے میں ہیں 'یعنی ان کے کرنے اور نہ کرنے دونوں کا کوئی ثواب نہیں ہے۔علماء نے مباح کی یہی تعریف بیان کی ہے' جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ علامہ آمدی رحمہ اللہ لکھتے'ہیں :
فنقول أما ما کان من الأفعال الجبلیة کالقیام و القعود و الأکل و الشرب و نحوہ فلا نزاع فی کونہ علی الاباحة بالنسبة الیہ و الی أمتہ(١٠٦)
''پس ہم یہ کہتے ہیں کہ آپ کے جبلی افعال مثلاً کھانا' پینا' اٹھنا ' بیٹھنا وغیرہ میں کسی قسم کا اختلاف نہیں ہے کہ یہ افعال آپ کے لیے اورآپ کی امت کے لیے مباح ہیں''۔
مباح کے بارے میں ہم یہ بات واضح کر چکے ہیں کہ بعض علماء کے نزدیک بعض مباحات ایسے ہو سکتے ہیں کہ ان کی ادائیگی میں ایک مسلمان کو اس کی نیت و ارادے کا ثواب ملے' جیسا کہ ڈاکٹر عبد الکریم زیدان لکھتے ہیں :
وان حکم المباح : أنہ لا ثواب فیہ ولا عقاب' ولکن قد یثاب علیہ بالنیة والقصد' کمن یمارس أنواع الریاضیة البدنیة بنیة تقویة جسمہ' لیقوی علی محاربة الأعداء(١٠٧)
''مباح کا حکم یہ ہے کہ اس کے کرنے میں نہ تو ثواب ہے اور نہ ہی عذاب ہے۔لیکن بعض مباحات ایسے ہیں کہ ان کے کرنے پر بعض اوقات نیت و ارادے کا ثواب ہوتا ہے 'جیسے کوئی شخص ورزش کرتا ہے تاکہ اس کاجسم قوی ہو اور وہ اللہ کے دشمنوں کا اچھی طرح مقابلہ کر سکے(یعنی جہاد کر سکے)''۔
لہٰذا اگر کوئی شخص ان افعال کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور تعلق کے اظہار کی نیت سے ادا کرتا ہے تو پھر اس نیت و ارادے پر اللہ تعالیٰ سے ثواب کی امید رکھی جا سکتی ہے ۔ اُمید کی بات اس لیے کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے جبلی و اتفاقی افعال کو شریعت نہیں بنایا اور نہ ہی کسی نص میں آپ کے جبلی و اتفاقی افعال کی اتباع کا حکم دیا ہے اور نہ ہی ان افعال کی اتباع پر ثواب کا کوئی وعدہ کیا ہے۔ اس لیے یقینی طور پر یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ ان افعال کی اتباع پر ثواب دیں گے 'ایک دعویٰ ہے جس کے لیے کوئی دلیل چاہیے۔اس کو ایک سادہ سی مثال سے سمجھیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت امامہ بنت زینب رضی اللہ عنہاکو اپنی گردن پر بٹھا کر جماعت کروائی اور یہ ایک اتفاقی امر تھا۔ اب اگر کوئی امام صاحب آپ کی محبت میں آپ کی اقتداء کرتے ہوئے ایسا کرتے ہیں تو کیاانہیں اس عمل کا ثواب بھی ہو گا؟زیادہ سے زیادہ یہی بات کی جا سکتی ہے کہ امام صاحب کے اس عمل پر ان کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تعلق کے اظہارکے جذبے پر ثواب ملنے کی امید ہے۔ اس عمل میں آپ کی اقتداء پر ثواب اگر ایک یقینی امر ہوتا تو سب صحابہ یہ کام کرتے' کیونکہ وہ نیکیوں کے معاملے میں بہت حریص تھے 'لیکن کسی ایک بھی صحابی کے بارے میں مروی نہیں ہے کہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں اس فعل کو سنت سمجھتے ہوئے کیا ہو۔
امام مسلم رحمہ اللہ جب اس روایت کو اپنی صحیح میں لائے ہیں تو امام نووی رحمہ اللہ نے اس پر”جوازحمل الصبیان فی الصلاة'' کے عنوان سے باب باندھا ہے ۔یعنی اس حدیث سے زیادہ سے زیادہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ نماز میں یہ فعل جائز ہے۔اسی طرح اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم گدھے پر سوار ہوئے اور یہ ایک اتفاقی امر تھا ' اگر گدھے پر سواری سنت ہوتی یا اس پر سواری کرنے میں ثواب ایک یقینی امر ہوتا تو تمام صحابہ یہ کام کرتے۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
وکذلک ابن عمر کان یتحری أن یسیر مواضع سیر النبی ﷺ و ینزل مواضع منزلہ' ویتوضأ فی السفر حیث رآہ یتوضأ' و یصب فضل مائہ علی شجرة صب علیھا' ونحو ذلک مما استحبہ طائفة من العلماء ورأوہ مستحبا' و لم یستحب ذلک جمھور العلماء' کما لم یستحبہ و لم یفعلہ أکابر الصحابة کأبی بکر و عمر و عثمان و علی وابن مسعود و معاذ بن جبل و غیرھم لم یفعلوا مثل ما فعل ابن عمر' و لو رأوہ مستحبا لفعلوہ کما کانوا یتحرون متابعتہ و الاقتداء بہ(١٠٨)
''اسی طرح حضرت عبد اللہ بن عمراس بات کی کوشش کرتے تھے کہ جہاں سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہوسلم کا گزر ہواہے وہاں سے گزریں اور جہاں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام کیا وہ بھی وہاں قیام کریں اور جہاں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا وہ بھی وہاں وضو کریں اور جس درخت پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے وضو کا باقی ماندہ پانی ڈالا وہ بھی اسی درخت پر اپنے وضو کا باقی ماندہ پانی ڈالیں۔اس کے علاوہ اور بھی آپ کے ایسے افعال ہیں کہ جن کو علماء کی ایک جماعت نے مستحب قرار دیا ہے' لیکن جمہور علماء کے نزدیک آپ کے یہ افعال مستحب نہیں ہیں اور نہ ہی اکابر صحابہ حضرت ابو بکر ' حضرت عمر'حضرت عثمان' حضرت علی'حضرت عبد اللہ بن مسعو داور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہم وغیرہ نے ان کو مستحب سمجھا ہے اور نہ ہی ان اکابر صحابہ نے ایسا کیا ہے جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کرتے تھے۔ اگر یہ اکابر صحابہ آپ کے ان افعال کو مستحب سمجھتے تو وہ لازماً ان کو کرتے'کیونکہ وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء اور متابعت کے لیے حد درجہ کوشش کرتے تھے (یعنی ان افعال میں آپ کی پیروی اکابر صحابہ کے نزدیک آپ کی متابعت اوراقتداء کے مفہوم میں شامل نہیں تھی)''۔
امام صاحب کی اس عبارت سے یہ بات واضح ہو گئی کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اتفاقی امور میں آپ کی پیروی کرنا باعث ثواب نہیں ہے 'کیونکہ اگر یہ باعث ثواب ہوتا تو اکابر صحابہ بھی ایسا کرتے۔امام ابن تیمیہ کی طرح امام زرکشی نے 'البحر المحیط' میں لکھا ہے کہ جمہور علماء کا یہی موقف ہے اور اصول فقہ کی کتابوں میں بھی معروف مذہب کے طور پر یہی موقف بیان ہوا ہے کہ آپ کے وہ افعال جن کا جبلی ہونا واضح ہو ' مباح ہیں۔امام شوکانی نے بھی 'ارشاد الفحول' میں اسے ہی جمہور کا مذہب قرار دیا ہے۔علامہ آمدی نے ' الاحکام' میں اس موضوع پر بیان سے محسوس ہوتا ہے کہ اس مسئلے میں علماء کا یہی ایک موقف ہے کہ آپ کے جبلی افعال مباح ہیں۔البتہ قاضی عیاض نے لکھا ہے کہ علماء کی ایک جماعت کے نزدیک یہ افعال مستحب ہیں 'جیسا کہ ابن تیمیہ نے بھی اس طرف اشارہ کیا ہے 'لیکن علماء کی اس جماعت کے نام اصول کی کتابوں میں منقول نہیں ہیں 'لہٰذا اس قول کی اہمیت ویسے ہی کم ہو جاتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ علامہ آمدی نے اس مسئلے میں ایک ہی رائے کا بالجزم اظہار کیا ہے اور مندوب والی رائے بیان نہیں کی ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جبلی افعال کو مندوب کہنے والے علماء کا موقف اس اعتبار سے بھی کمزور ہے کہ یہ صحابہ کے عمل کے خلاف ہے' جیسا کہ امام ابن تیمیہ نے واضح کیا ہے۔
اس کے بعد امام صاحب لکھتے ہیں:
أن المتابعة أن یفعل مثل ما فعل علی الوجہ الذی فعل' فاذا فعل فعلا علی وجہ العبادة شرع لنا أن نفعلہ علی وجہ العبادة' وا ذا قصد تخصیص مکان أو زمان بالعبادة خصصناہ بذلک' کما کان یقصد أنیطوف حول الکعبة' وأن یستلم الحجر الأسود' و أن یصلی خلف المقام' وکان یتحری الصلاة عند أسطوانة مسجد المدینة' وقصد الصعود علی الصفا والمروة والدعاء والذکر ھناک' و کذلک عرفة و المزدلفة و غیرھا۔ وما فعلہ بحکم الاتفاق و لم یقصدہ مثل أن ینزل بمکان و یصلی فیہ لکونہ نزلہ لا قصدا لتخصیصہ بالصلاة و النزول فیہ فذا قصدنا تخصیص ذلک المکان بالصلاة أو النزول لم نکن متبعین بل ھذا من البدع التی کان ینھی عنھا عمر بن الخطاب کما ثبت بالاسناد الصحیح من حدیث شعبة عن سلیمان التمیمی عن المعرور بن سوید قال: کان عمر بن الخطاب فی سفر فصلی الغداة' ثم أتی علی مکان فجعل الناس یأتونہ و یقولون: صلی فیہ النبیؐ فقال عمر: نما ھلک أھل الکتاب أنھم اتبعوا أنبیائھم فاتخذوھا کنائس و بیعا' فمن عرضت لہ الصلاة فلیصل' و لا فلیمض(١٠٩)
''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی متابعت کا مفہوم یہ ہے کہ وہی کام کیا جائے جو کہ آپ نے کیا ہے اور اسی طور پر کیا جائے جیسا کہ آپ نے اس کو کیا ہے (یعنی اگر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو عبادت کے طور پر کیا ہے تو اس کو بطور عبادت کیا جائے اور اگرآپ نے اسے اتفاقاً یا عادتاًکیا ہے تو ہم بھی اسے ایک اتفاق یا عادت کے طور پر کریں)۔پس جب آپ نے ایک کام عبادت کے طور پر کیا ہے تو ہمارے لیے بھی مشروع یہ ہے کہ ہم اسے بطور عبادت ہی کریں ۔اور اگر آپ نے کسی عبادت والے کام کو کسی جگہ یا وقت کے ساتھ مخصوص کیا ہے تو ہم بھی اس عبادت والے کام کی اس جگہ یا وقت کے ساتھ تخصیص کریں' جیسا کہ آپ کوشش کرتے تھے کہ بیت اللہ کے گرد طواف کریں' حجر اسود کا استلام کریں 'مقام ابراہیم کے پیچھے نماز پڑھیں ' اور مسجد نبوی کے ستون کے پاس نماز پڑھیں۔ اور آپ نے صفا اور مروہ پر چڑھنے اور ان پر دعا اور ذکر و اذکار کاکام قصداً کیا ہے۔اسی طرح کا معاملہ عرفات اور مزدلفہ کے قیام کا بھی ہے۔لیکن آپ نے جو کام اتفاقاً کیا ہے اور آپ نے اس کام کے کرنے میں عبادت کا قصد نہیں کیا 'مثلاً آپ نے کسی خاص جگہ اتفاقاً نماز پڑھی یا قیام کیاتو ہم اس جگہ نماز پڑھنے یا قیام کرنے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع نہیں کریں گے اور ایسے کاموں میں آپ کی اتباع ایسی بدعت ہے جس سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ منع کرتے تھے 'جیسا کہ صحیح سند سے ثابت ہے کہ حضرت شعبہ بن سلیمان التمیمی حضرت معرور بن سوید سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت عمرنے ایک دفعہ سفر میں صبح کی نماز پڑھائی 'پھر آپ ایک ایسے مقام پر آئے جہاں لوگوں کا ہجوم تھا اور لوگ یہ کہہ رہے تھے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں نماز پڑھی ہے(یعنی ہم بھی آپ کیاتباع میں اس جگہ نماز پڑھیں) تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: تم سے پہلی قومیں اس لیے ہلاک ہو گئیں کہ انہوں نے اپنے انبیاء کی اتباع میں ان کی جگہوں کو اپنی عبادت گاہیں بنا لیا ۔پس جس کے لیے نماز کا وقت ہو جائے تو وہ نماز پڑھ لے اور اگر نماز کا وقت نہیں ہے تو (بجائے انتظار کرنے کے)آگے چلا جائے''۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے متابعت کی تعریف واضح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اگر ایک کام کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اتفاقاً کیا ہے 'مثلاً آپ نے گدھے پر سواری اتفاقاً کی ہے 'اب اس کو عبادت یا ثواب کا کام سمجھ کر کرنا بدعت ہے 'کیونکہ آپ نے جب اس فعل کوکیا تھا تو ثواب سمجھ کر نہیں کیا تھا۔اس لیے جس کام کو آپ نے ثواب سمجھ کر نہیں کیا اس کو ثواب سمجھ کر کرنا ایسا ہی ہے جیسا کہ ایک کام آپ کے نزدیک عبادت نہیں ہے اور ہم اس کوعبادت بنا لیں۔ اور یہی دین میں اضافہ اوربدعت ہے جس سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔
اس مسئلے میں کسی صاحب عقل کو اختلاف نہیں ہو سکتا کہ آپ کا نماز میں بچے کو اٹھانا یا گدھے پر سوار ہونا بطور عبادت(یعنی اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لیے) نہیں تھا بلکہ اتفاقاً تھا۔علامہ آمدی نے ''الاحکام'' میں لکھا ہے کہ اتباع کی تعریف بالاتفاق یہ ہے کہ کسی کام کوا سی طور پر کیا جائے جس طرح آپ نے کیا ہے۔ آپ نے اگر کوئی کام اتفاقاً کیا ہے تو اس کو اتفاق سمجھ کر کیا جائے' جیسا کہ گدھے کی سواری 'اور اگر آپ نے کسی کام کو جبلی تقاضوں کے تحت کیا ہو تو اس کو آپ کا جبلی فعل سمجھ کر اس کی پیروی کی جائے نہ کہ دین سمجھ کر 'جیسا کہ کدو کھانا۔ اور اگر آپ نے کسی فعل کو تقرب الی اللہ کی نیت اور ارادے سے کیا ہے تواس فعل میں آپ کی اتباع اسی نیت و ارادے سے کی جائے اور اس فعل کود ین سمجھا جائے ' اس پر ثواب کی امید رکھی جائے وغیرہ۔
صحیح بخاری کی ایک روایت کے مطابق اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی اس حال میں کہ آپؐ نے اپنے گریبان کے بٹن کھولے ہوئے تھے ۔اب اگر کوئی شخص نماز میں یہ حالت عبادت یا ثواب سمجھ کر اختیار کرتا ہے تو امام صاحب کے بقول یہ بدعت ہے' کیونکہ آپؐ نے اس فعل کو اتفاقاً کیااور عبادت سمجھ کر نہ کیاتھا۔اس شخص نے نماز کی سنن میں ایک ایسے فعل کا اضافہ سنت سمجھ کر کر دیا ہے جو درحقیقت نماز کی سنت نہیں ہے۔ اس فعل کے اتفاقی ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اگر نماز میں گریبان کھلا رکھناعبادت یا باعث ثواب ہوتا تو صحابہ بھی اس فعل میں آپ کی متابعت کرتے۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے جبلی یا اتفاقی امور کے سنت نہ ہونے کی دلیل حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی درج ذیل روایت بھی ہے۔حضرت ابوطفیل نے ایک دفعہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے کہا:
یَزْعُمُ قَوْمُکَ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِؐ طَافَ عَلٰی بَعِیْرٍ بِالْبَیْتِ وَاَنَّہ سُنَّة' قَالَ: صَدَقُوْا وَکَذَبُوْا' قُلْتُ مَا صَدَقُوْا وَمَا کَذَبُوْا؟ قَالَ: صَدَقُوْا طَافَ عَلٰی بَعِیْرٍوَلَیْسَ بِسُنَّةٍ' اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِؐ کَانَ لَا یَصْرِفُ النَّاسُ عَنْہُ وَلَا یَدْفَعُ فَطَافَ عَلَی الْبَعِیْرِحَتّٰی یَسْمَعُوْا کَلَامَہ وَلَا تَنَالُہ اَیْدِیْھِمْ(١١٠)
''آپ کی قوم کے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلمنے اونٹ پر بیٹھ کر بیت اللہ کا طواف کیا اور یہ سنت ہے! تو حضرت عبد اللہ بن عباس نے کہا کہ ایک بات میں وہ سچے ہیں اور ایک میں جھوٹے ہیں ۔میں نے کہا: ان کی کون سی بات سچی ہے اور ان کی کس بات میں جھوٹ ہے ؟تو حضرت عبد اللہ بن عباس نے کہا:اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ پر بیت اللہ کاطواف کیا (یعنی یہ بات درست ہے)اور یہ سنت نہیں ہے (یعنی اس فعل کو سنت کہنا جھوٹ ہے)۔(اصل معاملہ یہ ہے کہ) اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے لوگ ہٹتے نہیں تھے (یعنی آپ پر ہجوم کر لیتے تھے )پس آپ نے اونٹ پر طواف کیا تاکہ لوگ آپؐ کی بات اچھی طرح سن سکیں اور ان کے ہاتھ آپ تک نہ پہنچ سکیں(اور آپؐ کو تکلیف نہ ہو)''۔
یہ روایت صحیح مسلم میں بھی موجود ہے لیکن اس میں بیت اللہ کے طواف کی بجائے صفا اور مروہ کے طواف کا ذکر ہے۔سنن ابی داؤد' مسند احمد اور بعض دوسری کتب احادیث میں بھی یہ روایت موجود ہے لیکن وہاں بھی صفاو مروہ کے درمیان سعی کا ذکر ہے۔بعض دوسری صحیح روایات سے بھی صرف یہ بات ثابت ہے کہ آپ نے بیت اللہ کا طواف بھی اونٹ پر بیٹھ کر کیاتھا(١١١)۔علامہ البانی نے ان دونوں روایات کو حسن کہا ہے جبکہ ابن دقیق العید نے بیت اللہ کے اونٹ پر بیٹھ کر طواف کرنے والی روایت کو 'ثابت' کہا ہے(١١٢)۔ ابن العربی نے بھی اس روایت کو صحیح کہا ہے(١١٣)۔
اہم نکتہ
یہ واضح رہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ جبلی افعال جن کو آپ نے اُمت کے لیے تشریع کے طور پر جاری کیاہے' وہ مستحبات میں شمار ہوں گے اور ان کا کرنا باعث اجر و ثواب اور درجات کی بلندی کا سبب ہو گا' جیسا کہ آپ نے 'بِسْمِ اللّٰہِ' پڑھ کر اور دائیں ہاتھ سے کھانے کاحکم دیا ہے ۔اسی طرح آپ نے رات کو سونے کی دعا پڑھ کر اور دائیں کروٹ پر سونے کی تلقین کی ہے 'وغیر ذلک۔جبلی افعال میں آپ کاحکم نہ بھی ہو 'جیسا کہ مذکورہ بالامثالوں میں ہے 'لیکن اگر احادیث میں کوئی ایسا قرینہ بھی موجود ہو جو اس بات پر دلالت کر رہا ہوکہ آپ نے یہ کام بطور تشریع کے کیا ہے تو پھر بھی آپ کا ایسا جبلی فعل امت کے حق میں مشروع اور مستحب ہو گا۔کیا کسی جبلی فعل پر آپ کی مواظبت اور دوام اس بات کا قرینہ ہے کہ وہ فعل بھی امت کے حق میں مستحب کا درجہ رکھتا ہے؟اس مسئلے میں علماء کا اختلاف ہے جس کو تفصیل کے ساتھ امام زرکشی رحمہ اللہ نے 'البحر المحیط' میں بیان کیا ہے'طوالت کے خوف سے ہم اس بحث کو یہاں بیان نہیں کررہے ہیں۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
(٢)۔عادی اُمور
عادی اُمور سے مراد وہ امور ہیں جو معاشرے کے عرف ' رواج وغیرہ کی وجہ سے سرانجام دیے جائیں' مثلاًجسم ڈھانپنا انسان کے لیے ایک جبلی امر ہے۔اب ایک خاص علاقے میں جسم ڈھانپنے کے لیے تہبند استعمال ہوتاہے تو اپنے علاقے کے رسم و رواج کا لحاظ رکھتے ہوئے تہبند پہنناامورِ عادیہ میں شمار ہو گا۔ اسی طرح کھانا کھانا جبلی اُمور میں سے ہے۔ اب ایک علاقے میں چاول کھانے کا رواج زیادہ ہے تو کھانے میں چاول ہی کھانا امور عادیہ میں سے ہوگا۔مثلاآپ کا تہبند باندھنا اور عمامہ باندھنااُمورِ عادیہ میں سے ہے۔ عادت اصول فقہ کی ایک اصطلاح ہے جو کہ عرف کے معنوں میں استعمال ہوتی ہے۔علامہ احمد العدوی لکھتے ہیں :
محض الفعل لا یدل علی أن الفعل قربة' بل یدل علی أنہ لیس بمحرم فقط' وأما کونہ قربة علی الخصوص فذلک شیء آخر' فان الصحابة رضوان اللہ علیھم و ھم أعلم الناس بالدین و أحرص الناس علی اتباع الرسول فی کل ما یقرب الی اللہ تعالی کانوا یشاھدون من النبیؐ أفعالا' ولما لم یظھر لھم فیھا قصد القربة لم یتخذوھا دینا یتعبدون بہ ویدعون الناس ا لیہ ولذلک أمثلة کثیرة(١١٤)
''محض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی کام کوکرنا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ آپ نے وہ کام اللہ تعالیٰ کے قرب کے حصول کے لیے کیا ہے 'بلکہ اس سے صرف یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ وہ کام کرنا حرام نہیں ہے ۔لیکن یہ کہنا کہ آپ نے وہ کام اللہ کے قرب کے حصول کے لیے کیا یہ ایک دوسری چیز ہے۔ صحابہ کرام جو دین کو سب سے زیادہ جاننے والے اور لوگوں میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسے افعال میں اتباع میں سب سے زیادہ حریص تھے جو اللہ کے قریب کرتے ہیں'اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال کا مشاہدہ کرتے تھے 'اس لیے جب انہیں آپ کے کسی فعل میں یہ نظر آتا تھا کہ آپ نے وہ فعل اللہ کے قرب کے حصول کے لیے نہیں کیا تو وہ ا س فعل کو دین نہیں بناتے تھے اور نہ ہی لوگوں کو اس کی ترغیب و تشویق دلاتے تھے اور آپ کے ایسے افعال کی مثالیں بہت زیادہ ہیں(یعنی جن کوصحابہ نے نہ دین بنایا ہے اور نہ ہی ان کی اتباع کی دعوت دی ہے)''۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عادی اُمور ہمارے لیے تشریع ہیں یا نہیں ہیں' اس کی وضاحت میں درج ذیل روایت ہے۔حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
اُتِیَ النَّبِیُّ ؐ بِضَبٍّ مَشْوِیٍّ فَأَھْوٰی اِلَیْہِ لِیَأْکُلَ' فَقِیْلَ لَہ اِنَّہ ضَبّ' فَأَمْسَکَ یَدَہ' فَقَالَ خَالِد: أَحَرَام ھُوَ؟ قَالَ : ((لَا وَلٰکِنَّہ لَا یَکُوْنُ بِأَرْضِ قَوْمِیْ فَأَجِدُنِیْ أَعَافُہ)) فَأَکَلَ خَالِد وَرَسُوْلُ اللّٰہِؐ یَنْظُرُ(١١٥)
''اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک بھنی ہوئی گوہ لائی گئی ۔آپ اس کو کھانے کے لیے جھکے تو آپؐ سے کہا گیا کہ یہ گوہ ہے۔ پس آپؐ نے اپنا ہاتھ روک لیا۔ حضرت خالدبن ولید رضی اللہ عنہ نے سوال کیا کہ کیا یہ حرام ہے؟ تو آپؐ نے جواب دیا: ''نہیں 'لیکن چونکہ یہ جانور میری قوم کی سرزمین (یعنی مکہ ) میں نہیں پایا جاتا اس لیے میں نے اسے چھوڑ دیا''۔ پس حضرت خالد نے اس کو کھایا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو دیکھ رہے تھے ''۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے گوہ کو اس لیے نہیں کھایا کہ آپ کے علاقے میں یہ نہیں کھائی جاتی تھی' یعنی آپ نے عادتاًگوہ کے کھانے کو ترک کیا ہے نہ کہ شرعاً۔اب اگرکسی شخص کو گوہ کا گوشت پیش کیا جائے اور وہ عادتاًگوہ کا گوشت نہ کھائے یعنی اس کے علاقے میں گوہ نہیں کھائی جاتی لہٰذا وہ بھی گوہ نہیں کھاتاتو یہ صحیح عمل ہے اور آپ کی متابعت و اتباع شمار ہو گا 'لیکن اگر کوئی یہ عمل ایسی سنت سمجھ کر کرے کہ جس میں ثواب کا بھی یقین رکھا جائے تو اس صورت میں گوہ کا گوشت نہ کھانا بدعت ہو گا ۔اس طرح کا معاملہ ان چیزوں کا بھی ہے جن کو آپ طبعاً نا پسند کرتے تھے ۔مثلاً آپ کو لہسن اور پیاز کھانا طبعاً ناپسند تھا۔فتح خیبر کے موقع پر صحابہ کو بہت بھوک لگی تھی تو انہوں نے مال غنیمت میں حاصل ہونے والے یہودیوں کے کھیتوں سے کثرت سے لہسن کھایا۔ جب صحابہ مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے آئے تو آپ نے ان کے مونہوں سے لہسن کی بو محسوس کی تو آپ نے فرمایا:
((مَنْ اَکَلَ مِنْ ھٰذِہِ الشَّجَرَةِ الْخَبِیْثَةِ شَیْئًا فَلَا یَقْرَبَنَّا فِی الْمَسْجِدِ)) فَقَالَ النَّاسُ: حُرِّمَتْ' حُرِّمَتْ فَبَلَغَ ذَاکَ النَّبِیَّؐ فَقَالَ: ((اَیُّھَا النَّاسُ اِنَّہ لَیْسَ بِیْ تَحْرِیْمُ مَا اَحَلَّ اللّٰہُ لِیْ وَلٰکِنَّھَا شَجَرَة اَکْرَہُ رِیْحَھَا))(١١٦)
''جس نے بھی اس خبیث درخت میں سے کھایا ہو و ہ ہماری مسجد کے قریب نہ آئے''۔اس پر لوگوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ لہسن حرام کر دیا گیاہے 'لہسن حرا م کر دیا گیا ہے۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کوجب اس کی خبر ہوئی تو آپ نے فرمایا:''اے لوگو! میرے پاس یہ اختیار نہیں ہے کہ جس کو اللہ نے میرے لیے حلال قرار دیا ہو اُس کو حرام ٹھہراؤں۔یہ تو ایک درخت ہے جس کی بو مجھے بڑی ناپسندہے'' ۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم طبعاً لہسن اور پیازوغیرہ کو ناپسند کرتے تھے لیکن یہ شرعاًحرام نہیں ہیں۔صحیح بخاری کی ایک روایت کے مطابق آپ کو اگر ایسا کھانا ہدیہ کیا جاتا جس میں لہسن ہوتا تو آپ اس کونہ کھاتے تھے۔ایک دفعہ آپ نے ایسا ہی کھانا حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی طرف بھجوا دیا تو انہوں نے یہ کہہ کراس کھانے کو نہ کھایا کہ جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ناپسند ہے وہ مجھے بھی ناپسند ہے ۔صحیح روایات کے مطابق جمہور صحابہ پیاز اور لہسن استعمال کرتے تھے۔لہٰذا اگر کوئی شخص اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور تعلق کے اظہار کے لیے لہسن اور پیاز کھانا بند کر دے تو یہ ایک جائز امر ہے اور آپ سے محبت کا اظہار ہے اور اِن شاء اللہ نیت صالحہ پر اجر و ثواب کی امیدہے' لیکن اگر کوئی پیاز اور لہسن کو نہ کھانے کو سنت شرعیہ یا باعث ثواب، امر سمجھے تو یہ بدعت ہے' کیونکہ آپ نے پیاز کا شرعی حکم خود ہی واضح کر دیاہے کہ یہ حلال ہے ۔یہ واضح رہے کہ مسجد میں پیاز یا لہسن کھا کر آنا آپ کے حکم کی خلاف ورزی ہونے کی وجہ سے خلاف ِسنت امر ہے۔
صحیح بخاری کی ایک روایت کے مطابق اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو کدو بہت پسند تھے اور آپ سالن میں سے کدو تلاش کر کر کے کھاتے تھے۔ اسی وجہ سے حضرت انس رضی اللہ عنہ بھی سالن میں سے کدو تلاش کر کے کھاتے تھے۔کدو کی طرف آپ کی رغبت ایک طبعی امر تھا نہ کہ اللہ کا حکم 'اسی لیے یہ کہنا ناممکن ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کدو اس لیے کھائے تاکہ اللہ کا قرب حاصل کر سکیں یاآپ نے کدو بطور عبادت کے کھائے ہیں' یعنی ان کے کھانے کو باعث ثواب سمجھا ہے۔جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کدو کو بطور عبادت یاثواب کی نیت سے نہیں کھایا تو ایک اُمتی کے لیے بھی یہ جائز نہیں ہے کہ وہ کدو اس وجہ سے کھائے کہ اس کا کھانا ایسی سنت ہے جس پر وہ اجر و ثواب کا مستحق ہو گا۔اسی طرح کا معاملہ ثرید اور دوسرے کھانوں کابھی ہے ۔ یعنی ظاہر عمل کے ساتھ نیت میں آپ کی موافقت ضروری ہے اور تبھی اتباع ، کامل اتباع بنے گی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاتہبند باندھنا' عمامہ باندھنا ' موزے پہنناوغیرہ بھی عادی امور میں سے ہے' کیونکہ صحابہ عمامہ بھی باندھتے تھے اورصرف ٹوپی بھی پہنتے تھے ' تہبند بھی باندھتے تھے اور شلوار بھی پہنتے تھے' موزے بھی پہنتے تھے اور بغیر موزوں کے بھی رہتے تھے ۔ایک روایت کے الفاظ ہیں کہ آپ سے ایک شخص نے سوال کیا کہ حالت احرام میں انسان کون سا لباس پہن سکتا ہے؟ تو آپ نے فرمایا:
((لَا تَلْبَسُوا الْقُمُصَ وَلَا الْعَمَائِمَ وَلَا السَّرَاوِیْلَاتِ وَلَا الْبَرَانِسَ وَلَا الْخِفَافَ))(١١٧)
''قمیصیں' عمامے' شلواریں 'لمبی ٹوپیاں اور موزے (حالت احرام میں )نہ پہنو۔''
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حالت احرام میں صحابہ رضی اللہ عنہم کو ٹوپی اور شلوار پہننے سے منع کیا ہے تو معلوم ہوا کہ صحابہ کی ایک جماعت ابتداء ً ٹوپی اور شلوار بھی پہنتی تھی 'اسی لیے تو آپ نے منع کیاتھا۔صحیح احادیث سے یہ بات بھی ثابت ہے کہ آپ اور صحابہ کرام بغیر ٹوپی اور عمامے کے بھی نماز پڑھ لیتے تھے۔ایک روایت کے الفاظ ہیں کہ حضرت محمد بن المنکدر فرماتے ہیں:
رَاَیْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ ص یُصَلِّیْ فِیْ ثَوْبٍ وَاحِدٍ وَقَالَ : رَاَیْتُ النَّبِیَّؐ یُصَلِّیْ فِیْ ثَوْبٍ(١١٨)
''میں نے حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کو ایک کپڑے میں نماز پڑھتے دیکھا تو انہوں نے کہا:میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک کپڑے میں نماز پڑھتے دیکھا ہے۔''
بس اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنی ہدایت جاری فرمائی ہے کہ اگر کوئی شخص ایک کپڑے میں نماز پڑھنا چاہے تو کپڑے کو اپنے بدن پر اس طرح لپیٹ لے کہ ستر کے علاوہ اس کے کندھے بھی چھپ جائیں۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
(( لاَ یُصَلِّیْ اَحَدُکُمْ فِی الثَّوْبِ الْوَاحِدِ لَیْسَ عَلٰی عَاتِقَیْہِ شَیْئ)) (١١٩)
''تم میں کوئی شخص ایک کپڑے میں نماز اس طرح نہ پڑھے کہ اس کے دونوں کندھوں پر کچھ نہ ہو۔''
ایک اور روایت کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ عموما ًبغیر ٹوپی اور عمامے کے نماز پڑھتے تھے۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
قَامَ رَجُل اِلَی النَّبِیِّؐ فَسَاَلَہ عَنِ الصَّلَاةِ فِی الثَّوْبِ الْوَاحِدِ فَقَالَ: ((اَوَ کُلُّکُمْ یَجِدُ ثَوْبَیْنِ؟)) ثُمَّ سَاَلَ رَجُل عُمَرَ فَقَالَ: اِذَا وَسَّعَ اللّٰہُ فَاَوْسِعُوْا' جَمَعَ رَجُل عَلَیْہِ ثِیَابَہ صَلّٰی رَجُل فِیْ اِزَارٍ وَ رِدَائٍ فِیْ اِزَارٍ وَقَمِیْصٍ فِیْ اِزَارٍ وَقَبَائٍ فِیْ سَرَاوِیْلَ وَ رِدَائٍ فِیْ سَرَاوِیْلَ وَقَمِیْصٍ فِیْ سَرَاوِیْلَ وَقَبَائٍ فِیْ تُبَّانٍ وَقَبَائٍ فِیْ تُبَّانٍ وَقَمِیْصٍ' قَالَ وَاَحْسِبُہ قَالَ فِیْ تُبَّانٍ وَرِدَائٍ(١٢٠)
''ایک آدمی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور ایک کپڑے میں نماز پڑھنے کے بارے میں سوال کیا (کہ کیا یہ جائز ہے؟) تو آپ نے فرمایا: ''کیا تم میں سے ہر ایک کے پاس دو کپڑے ہیں؟''(یعنی تم خواہ مخواہ سوال تو نہیں کر رہے ہو ؟حالانکہ کئی صحابہ کے پاس ستر ڈھانپنے کے لیے بھی ایک سے زائد کپڑا موجود نہیں ہے)۔اسی طرح حضرت عمررضی اللہ عنہ سے جب کسی نے یہی سوال کیا تو انہوں نے جواب دیا:اللہ نے تم کو وسعت دی ہے تو اس وسعت کو اختیار کرو (یعنی ایک کپڑے میں نماز پڑھنا تو جائز ہے لیکن جب تمہارے پاس ایک سے زائد کپڑے موجود ہیں تو ان کو پہنو)۔ایک آدمی کواپنے بدن کو کپڑوں سے ڈھانپنا چاہیے۔ایک آدمی کو چاہیے کہ وہ ایک تہبند اور چادر میں یا ایک تہبند اور قمیص میں یا ایک تہبند اور چوغے میں یاشلوار اور چادر میں یاشلوار اور قمیص میں یاشلوار اور چوغے میں یا لنگوٹ اور چوغے میں یالنگوٹ اور قمیص میں نماز پڑھے ۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرا گمان ہے کہ حضرت عمر نے یہ بھی کہا کہ وہ لنگوٹ اور چادر میں نماز پڑھے''۔
اس روایت میں حضرت عمررضی اللہ عنہ نے وسعت کے زمانے میں مسلمانوں کی نماز کا لباس تفصیل سے بیان کیا ہے کہ جس میں دُور دُور تک کسی ٹوپی یا عمامے کا تذکرہ نہیں ہے۔اسی طرح اگر عمامہ ہی کو سنت کہا جائے تو تہبند پہننا بھی اسی درجے کی سنت ہونی چاہیے کیونکہ آپ نے عمامے کے ساتھ تہبند بھی باندھا ہے۔ جبکہ حضرت عمررضی اللہ عنہ تہبند کے علاوہ شلوار اور لنگوٹ میں بھی نماز پڑھنے کا حکم دے رہے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تہبند باندھنا یا شلوار پہننا صحابہ کے نزدیک ایک ہی حکم رکھتا تھا٭۔ پس ثابت ہوا کہ آپ نے عمامہ اور تہبند اللہ کا قرب حاصل کرنے یا عبادت کے لیے نہیں باندھا بلکہ آپ نے اپنے معاشرے کے مروج لباس کا لحاظ رکھتے ہوئے عمامہ اور تہبند باندھا ہے۔
ایک صاحب نے جب ' اللجنة الدائمة السعودیة' سے عمامے کے بارے میں سوال کیا تو اللجنة الدائمة کے شیوخ 'شیخ بکر ابوزید' شیخ عبدالعزیز آل الشیخ ' شیخ صالح الفوزان' شیخ عبد اللہ بن غدیان اور شیخ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز نے درج ذیل فتویٰ دیا۔ہم یہاں سوال اور جواب دونو ں کو نقل کر رہے ہیں:
س: أعفیتُ لحیتی وقصرتُ ثوبی ولبستُ العمامة بفضل اللّٰہ' اتباعا واقتداء' ولکن الغریب فی الأمر: ان الکثیر و الکثیر من الناس انکر علی ذلک' واستھزؤوا بی لترکی الغترة و الشماغ و العقال' و ینظرون الی بسخریة و استنکار' وکانی أفعل شیئا منکرا أو غریبا۔ فھل الرسولؐ لبس العمامة' وھل ھی سنة مؤکدة' ھل ھذہ العمامة لا تصلح لھذا الزمان الذی نحن فیہ؟ وما ھی صفات رسول اللّٰہؐ فی لبس العمامة؟ وھل کانت لھا ألوان کالأبیض والأسود؟ وھل اؤثم علی لبسھا؟ وھل علی ثم ن أنا حثیت من حولی علی لبسھا؟ أفیدونی أفادکم اللّٰہ و جزاکم اللّٰہ خیرا کثیرا۔
''سوال:میں نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور اقتداء میں اپنی داڑھی بڑھا لی ہے اور اپنے کپڑوں کو ٹخنوں سے اوپر کر لیا ہے اور اللہ کے فضل سے عمامہ بھی باندھ لیا ہے' لیکن عجیب بات یہ ہے کہ اکثر لوگوںنے میرا اس بات پر مذاق اڑایا ہے اور اس کو ناپسند کیاہے کہ میں نے سعودی رومال اور عقال پہننا چھوڑ دیاہے ' لوگ میری طرف مذاق اور ناپسندیدگی کی نگاہ سے اس طرح دیکھتے ہیں گویا میں نے کوئی ناپسندیدہ اور عجیب کام کیا ہو۔کیا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عمامہ باندھا ہے؟کیا عمامہ باندھنا سنت مؤکدہ ہے؟ کیا اس زمانے میں جس میں ہم رہ رہے ہیں 'عمامہ باندھنا ایک درست کام ہے؟کیا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے عمامے کا رنگ کالا اور سفید تھا؟ کیا عمامہ باندھنے سے میں گناہگار ہوں گا؟ کیا اگر میں کسی کو عمامہ باندھنے کی ترغیب دوں تو یہ گناہ ہے؟ مجھے شرعی حکم بتا کر فائدہ پہنچائیں ' اللہ بھی آپ کو فائدہ دے گا۔اللہ آپ کو جزائے خیر دے''۔
ج: الحمد للّٰہ الذی ھداک و وفقک لاتباع السنة' وما ذکرتَہ من اعفاءاللحیة فھو واجب؛ لأنہ من سنن الأنبیاء' و من خصال الفطرة' وقد نھی النبیؐ عن حلق اللحیة وقصھا: لما فیہ من التشبہ بالکفار' وأما تقصیر الثوب فالواجب تقصیرہ لی الکعبین' وما نزل عن الکعبین فھواسبال محرم وکبیرة من کبائر الذنوب' وأما لبس العمامة فھو من المباحات ولیس بسنة کما توھمتَ' والأولی أن تبقی علی ما یلبسہ أھل بلدک علی رؤوسھم من الغترة والشماغ ونحوہ۔ وأما استھزاء الناس بل بسبب تمسک بالدین وحرصک علی اتباع السنة فلا تلتفت ا لیہ' ولا یھمک' وفقنا اللّٰہ وایاک للفقہ فی الدین والعمل بسنة سید المرسلین۔ وباللّٰہ التوفیق' وصلی اللّٰہ علی نبینا محمد و آلہ وصحبہ و سلم (١٢١)
''جواب: تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے آپ کو ہدایت دی اور آپ میں اتباع سنت کا جذبہ پیدا کیا۔ جہاں تک داڑھی کو چھوڑنے کا ذکر ہے تو یہ فرض ہے اور انبیاء کی سنت ہے اور خصالِ فطرت میں سے ایک خصلت ہے ۔اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے داڑھی کو مونڈنے اور کتروانے سے منع فرمایا ہے کیونکہ اس میں کفار سے مشابہت ہے ۔جہاں تک کپڑوں کو اوپر کرنے کا معاملہ ہے تو ٹخنوں سے اوپر کپڑے کرنا واجب ہے ' جو کپڑا ٹخنوں سے نیچے ہو گا تو وہ اسبالِ ازار ہے اور یہ حرام اور کبیرہ گناہوں میں سے ایک گناہ ہے ۔جہاں تک عمامہ باندھنے کا تعلق ہے تو یہ مباحات میں سے ایک مباح ہے اور یہ سنت نہیں ہے جیسا کہ آپ کا وہم ہے ۔اور بہتر یہی ہے آپ اپنے علاقے کے لوگوں کا لباس پہنیں جیسا کہ وہ اپنے سروں پر رومال اور عقال لیتے ہیں۔ آپ کے دین کے ساتھ تمسک اور اتباع سنت پر حرص کی وجہ سے لوگ آپ کا جومذاق اڑاتے ہیں تو اس کی پرواہ نہ کریں اور نہ ہی اس پر پریشان ہوں۔اللہ تعالیٰ ہمیں اور آپ کو دین کی سمجھ عطا کرے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کی توفیق دے۔ عمل کی توفیق اللہ ہی کی طرف سے عطا ہوتی ہے۔اللہ تعالیٰ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی آل اور ان کے صحابہ پر رحم فرمائے''۔
عمامے سے متعلق ایک اور سوال کے جواب میں اللجنة الدائمة نے یہ جوا ب دیا:
ج: لبس العمامة من العادات ولیس من العبادات' و انما لبسھا النبیؐ لأنھا کانت من لباس قومہ' ولم یصح فی فضل العمائم شیئ' غیر أن النبی لبسھا' فالمشروع للانسان أن یلبس ما تیسر لہ من لباس أھل بلدہ ما لم یکن محرما۔ وباللّٰہ التوفیق و صلی اللّٰہ علی نبینا محمد وآلہ و صحبہ وسلم (١٢٢)
''جواب: عمامہ پہننااللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عادات میں سے ہے اور یہ عبادت کا کام نہیں ہے۔اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عمامہ اس لیے باندھا ہے کہ یہ آپ کی قوم کالباس تھا' عمامےکی فضیلت میں کوئی ایک بھی روایت صحیح سند سے ثابت نہیں ہے' ہاں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمامہ پہننا ثابت ہے۔انسان کے لیے شرعی حکم یہ ہے کہ اس کے علاقے والوں کا جو لباس ہے وہ اس کو پہنے بشرطیکہ وہ حرام نہ ہو''۔
عمامے کی فضیلت میں بعض ضعیف اور موضوع روایات بھی پھیلا دی گئی ہیں 'کسی مناسب وقت میں ہم ان تمام روایات کی استنادی حیثیت پر گفتگو کریں گے۔یہ بات ثابت ہے کہ آپ کے معاشرے میں کفار و مشرکین بھی عمامہ پہنتے ' تہبند باندھتے اورموزے وغیرہ پہنتے تھے ۔لہٰذ ا آپ سے تعلق و محبت کے اظہار کرنے کے لیے یہ سب کام کرنا جائز ہیں 'لیکن ان کو ثواب یا عبادت کی نیت سے کرنا بدعت ہے ۔یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ مسلمان معاشروں میں علماء و مذہبی طبقوں کے رواج و عرف کا لحاظ رکھتے ہوئے علماء، خطباء اور دینی جماعتوں و اسلامی تحریکوں کے کارکنان کے لیے اپنے سر کو ڈھانپنا یاٹوپی پہننا ایک مستحسن امر ہے لیکن اس مستحسن ہونے کی دلیل عرف ہے ۔
اسی طرح اگر کسی عادی امر کے بارے میں احادیث میں کوئی قرائن موجود ہوں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان امور عادیہ کو بطور تشریع جاری کیا ہے تو وہ عادی امور اُمت کے حق میں مشروع ہوں گے۔بعض امور عادیہ کے بارے میں علماء میں اختلاف بھی ہواہے کہ یہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے عادی امور ہیں یا آپ نے انہیں بطور دین جاری کیا ہے 'جیسا کہ مصر اور بعض دوسرے ممالک کے علماء نے داڑھی کو اُمورِ عادیہ میں شمار کیا ہے جبکہ سعودیہ اور برصغیر کے علماء کے نزدیک داڑھی کا حکم آپ نے بطور تشریع جاری کیا ہے 'اور یہی رائے صحیح ہے 'کیونکہ اس رائے کے حق میں قرائن و دلائل بہت قوی ہیں ۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
(٣)۔افعالِ خصوصی
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ افعال جو کہ آپ کے ساتھ خاص ہیں وہ اُمت کے لیے سنت نہیں ہیں' جیسا کہ آپ کا چار سے زائد عورتوں سے شادی کرنا' صومِ وصال یعنی مغرب کے وقت بغیر افطار کیے مسلسل رات اور دن کا روزہ رکھنااور عصر کے بعد نوافل پڑھنا وغیرہ۔
اصل قاعدہ یہی ہے کہ آپ کے عمومی افعال اُمت کے لیے بھی تشریع ہیں 'کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
(لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَة حَسَنَة) (الاحزاب:٢١)
''البتہ تمہارے لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں بہترین نمونہ ہے''۔
اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرے گا کہ فلاں فعل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت ہے تو اسے اس کے لیے کوئی دلیل لانی پڑے گی۔اگر کوئی دلیل مل جائے تو پھرآپ کا وہ فعل اُمتِ مسلمہ کے لیے ایسی سنت کا درجہ نہیں رکھے گا جس کی اتباع مشروع ہو۔ مثلاً حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:
نَھٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ عَنِ الْوِصَالِ' قَالُوْا: اِنَّکَ تُوَاصِلُ' قَالَ: ((اِنِّیْ لَسْتُ مِثْلَکُمْ اِنِّیْ اُطْعَمُ وَاُسْقٰی))(١٢٣)
''اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک دن صحابہ کو) صومِ وصال سے منع کیا تو صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ بھی تو وصال کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا:میں تمہاری طرح نہیں ہوں ۔مجھے اپنے رب کی طرف سے کھلایا اور پلایا جاتا ہے ''۔
اس حدیث میں یہ دلیل موجود ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر فعل ہمارے لیے سنت نہیں ہے۔جب صحابہ نے آپ کے فعل کو اپنے عمل کی دلیل بنایا توآپ نے اپنے اور اُمتیوں کے فرق کو واضح کرتے ہوئے اپنے فعل کو اُمت کے حق میں مشروع قرار نہ دیا۔
بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی فعل کے بارے میں اسی نص میں کوئی ایسا قرینہ موجود نہیں ہوتا جو اس کی خصوصیت پر دلالت کر رہا ہو' حالانکہ وہ فعل آپ کے ساتھ خاص ہوتا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے :
مَا تَرَکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ السَّجْدَتَیْنِ بَعْدَ الْعَصْرِ عِنْدِیْ قَطُّ(١٢٤)
''اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے پاس عصر کے بعد کی دو رکعتیں کبھی بھی ترک نہ کیں''۔
اسی حدیث کی بنا پر بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم عصر کے بعد نفل نماز پڑھ لیتے تھے۔جیسا کہ عبد العزیز بن رفیع فرماتے ہیں :
رَأَیْتُ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ الزُّبَیْرِ یُصَلِّیْ رَکْعَتَیْنِ بَعْدَ الْعَصْرِ وَیُخْبِرُ اَنَّ عَائِشَةَ ؓ حَدَّثَتْہُ اَنَّ النَّبِیَّ ﷺ لَمْ یَدْخُلْ بَیْتَھَا اِلاَّ صَلَّاھُمَا(١٢٥)
''میں نے حضرت عبد اللہ بن زبیررضی اللہ عنہماکو دیکھا کہ وہ عصر کے بعد دو رکعتیں نماز پڑھ لیا کرتے تھے اور یہ کہتے تھے کہ حضرت عائشہ نے ان کو یہ خبر دی ہے کہ جب بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم (عصر کے بعد) حضرت عائشہ کے پاس داخل ہوئے تو آپ نے یہ دو رکعتیں ادا کیں''۔
لیکن حضرت عبد اللہ بن عباس اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما' عصر کے بعد نفل نماز پڑھنے پر لوگوں کو مارا کرتے تھے' کیونکہ ان کے نزدیک یہ صرف اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کاخاصہ تھا۔حضرت کریب فرماتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عباس' حضرت مسوربن مخرمہ اور حضرت عبد الرحمن بن ازھررضی اللہ عنہم نے ان کو حضرت عائشہ کے پاس بھیجا اور یہ کہا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو ہماری طرف سے سلام کہنا اور عصر کے بعد دو رکعتوں کے بارے میں پوچھنااور یہ کہنا:
اِنَّا اُخْبِرْنَا عَنْکِ اَنَّکِ تُصَلِّیْنَھُمَا وَقَدْ بَلَغَنَا اَنَّ النَّبِیَّؐ نَھٰی عَنْھَا' وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ وَکُنْتُ اَضْرِبُ النَّاسَ مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ عَنْھَا… (١٢٦)
''ہمیں یہ خبر دی گئی ہے کہ آپ بھی عصر کے بعد دو رکعتیں پڑھتی ہیں اور ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث پہنچی ہے کہ آپ نے عصر کے بعد نماز پڑھنے سے منع کیاہے' اورحضرت عبد اللہ بن عباس نے کہاہے: میں اورحضرت عمر ایسے شخص کو مارا کرتے تھے (جوکہ عصر کے بعد نماز پڑھتاتھا)…''
اسی روایت میں آگے چل کر بیان ہوا ہے کہ حضرت عائشہ نے حضرت کریب کو حضرت اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہاکے پاس بھیج دیاتو حضرت اُمّ سلمہ نے اس بات کی وضاحت کی کہ آپ عصر کے بعد دو رکعتیں کیوں پڑھتے تھے ۔حضرت اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک دفعہ بنو عبد القیس کے لوگ آئے جن کی وجہ سے آپ ظہر کے بعد کی دو رکعتیں نہ پڑھ سکے یہاں تک کہ عصر کا وقت ہو گیا۔ عصر کے بعد آپ اندر تشریف لائے اور آپ نے ظہر کی دو رکعتیں ادا کیں۔صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ چونکہ آپ کا معمول تھا کہ جب ایک کام شروع کر لیتے تھے تو اس پرمداومت کرتے تھے ' اسی لیے آپؐ نے عصر کے بعد مستقل طور پر دو رکعتیں پڑھنی شروع کر دیں۔عصر کے بعد آپ کے نماز پڑھنے کی یہ وجہ بعض صحابہ کو معلوم نہ ہو سکی 'جس کی بنا پر وہ ایک ایسے عمل کو سنت سمجھ کر کرتے رہے،جس سے آپ نے منع فرمایا تھا۔جیسا کہ آپ کا فرمان ہے:
((لَا صَلَاةَ بَعْدَ الصُّبْحِ حَتّٰی تَرْتَفِعَ الشَّمْسُ وَلَا صَلَاةَ بَعْدَ الْعَصْرِ حَتّٰی تَغِیْبَ الشَّمْسُ))(١٢٧)
''فجر کی فرض نماز کے بعد سورج چڑھ آنے تک کوئی نماز نہیں ہے اور عصر کی فرض نماز کے بعد سورج غروب ہونے تک کوئی نماز نہیں ہے'' ۔
علامہ آمدی اس اصول کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
وأما ما سوی ذلک مما ثبت کونہ من خواصہ التی لا یشارکہ فیھا أحد فلا یدل ذلک علی التشریک بیننا و بینہ ا جماعا(١٢٨)
''اس کے علاوہ آپ کے وہ افعال جن کے بارے میں یہ ثابت ہو جائے کہ وہ صرف آپ کے لیے تھے اور اُمت میں سے کوئی بھی آپ کے ان افعال میں شریک نہیں ہے تو اس بات پر اجماع ہے کہ آپ کے ایسے افعال کسی اُمتی کے حق میں مشروع نہیں ہیں''۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
(٤)۔فعلِ محض کا درجہ
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے صرف عمل سے کسی فعل کا وجوب ثابت نہیں ہوتا۔امام ابن حزم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب 'الاحکام فی أصول الأحکام' میں لکھا ہے کہ قرآن کی آیت (لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَة حَسَنَة) میں 'لَکُمْ' کے ساتھ خطاب ہے ۔اگر یہاں 'لَکُمْ' کی بجائے 'عَلَیْکُمْ' ہوتا تو آپ کے عمل سے کسی فعل کا وجوب ثابت ہو سکتا تھا۔لیکن یہ بات واضح رہے کہ کسی امر کے بیان یااس کی تنفیذ میں آپ کا فعل وجوب کا حامل ہو سکتا ہے ۔جیسا کہ آپ نے حکم جاری فرمایا: ((صَلُّوْا کَمَا رَاَیْتُمُوْنِیْ اُصَلِّیْ))(١٢٩)یعنی نماز پڑھو جیسا کہ مجھے نماز پڑھتے دیکھتے ہو۔ اور آپ کا ارشاد ہے: ((خُذُوْ اعَنِّیْ مَنَاسِکَکُمْ))(١٣٠) یعنی مجھ سے حج کے طریقے سیکھ لو۔یہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک امر ہے۔ اب اس امر کی تنفیذ یا بیان کے لیے آپ نے جس طریقے سے نماز یا حج ادا کیا اس طریقے کے مطابق نماز یا حج اداکرنافرض ہے۔
لیکن اس میں بھی یہ بات بھی واضح رہے کہ کسی امر کی تنفیذ یا تطبیق میں آپ کے ایسے امور کا بیان جب آپ کے افعال کی صورت میں سامنے آتا ہے تو ان امور کے بیان میں وہ تمام افعال فرض یا سنت نہیں ہوتے بلکہ ان میں سے بعض اُمور عادت سے متعلق بھی ہوتے ہیں ۔مثلاًصحیحین میں ہے :
اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِﷺ کَانَ یُصَلِّیْ وَھُوَ حَامِل اُمَامَةَ بِنْتَ زَیْنَبَ بِنْتِ رَسُوْلِ اللّٰہﷺ(١٣١)
''اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نواسی حضرت امامہ بنت زینب رضی اللہ عنہاکو اٹھا کر نماز پڑھتے تھے ''۔
صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے 'حضرت ابو قتادہ انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
رَأَیْتُ النَّبِیَّ ﷺ یَؤُمُّ النَّاسَ وَاُمَامَةُ بِنْتُ اَبِی الْعَاصِ وَھِیَ ابْنَةُ زَیْنَبَ بِنْتِ النَّبِیِّ ﷺ عَلٰی عَاتِقِہ فَاِذَا رَکَعَ وَضَعَھَا وَاِذَا رَفَعَ مِنَ السُّجُوْدِ اَعَادَھَا(١٣٢)
''میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگوں کی امامت کرواتے دیکھا جبکہ آپ نے حضرت امامہ بنت زینب رضی اللہ عنہ کو اپنی گردن پربٹھایا ہوا تھا۔جب آپ رکوع کرتے تھے تو ان کو اتار کر رکھ دیتے تھے اور جب سجدے سے اٹھتے تھے تو ان کو دوبارہ اٹھا لیتے تھے ''۔
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت امامہ بنت زینب رضی اللہ عنہ کو فرض نماز میں اپنی گردن پر بٹھا کر نماز پڑھا کرتے تھے ۔اب جن صحابہ نے آپ کو اس طرح نماز پڑھاتے دیکھا تو کیا ان کے لیے یہ واجب یافرض ہو گیا کہ وہ اپنی نواسیوں کو اپنی گردنوں پر بٹھا کر نماز پڑھیں یا پڑھائیں ؟کوئی بھی صحابی آپ کی اقتدا میں اپنی نواسی کو مسجد میں نہیں لایا تاکہ وہ بھی اسی طرح نماز پڑھے جیسے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے ہیں۔اس لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم((صَلُّوْا کَمَا رَاَیْتُمُوْنِیْ اُصَلِّیْ)) میں آپ کے کون سے افعال اس حکم کا بیان ہیں اور کون سے امور عادیہ میں سے ہیں ' ان میں فرق کرنا پڑے گا۔اور اس میں بعض اوقات فقہاء میں اختلاف بھی ہوجاتا ہے۔
مثلاً تمام فقہاء اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں جلسۂ استراحت کیا 'یعنی پہلی اور تیسری رکعت میں دو سجدوں کے بعد پہلے بیٹھے اور پھر قیام کیا۔ لیکن احناف کے نزدیک یہ آپ کے عادی اُمور میں سے ہے' آپ نے نماز میں جلسہ استراحت بڑھاپے کی وجہ سے کیا ۔آپ کا یہ فعل ((صَلُّوْا کَمَا رَاَیْتُمُوْنِیْ اُصَلِّیْ)) کا بیان نہیں ہے 'جبکہ جمہور علماء جلسۂ استراحت کو ((صَلُّوْا کَمَا رَاَیْتُمُوْنِیْ اُصَلِّیْ))کا بیان مانتے ہیں۔اسی طرح صحیح احادیث میں ہے کہ حج کے دوران عرفات سےمنیٰ واپسی تک کا سفر آپ نے اونٹ پر کیا 'حتیٰ کہ آپ نے بیت اللہ کا طواف بھی اونٹ پر کیا 'اور صفا ومروہ کی سعی بھی۔تو کیا اونٹ پر بیٹھ کر بیت اللہ کا طواف کرنا یا صفا ومروہ کی سعی کرناواجب یا فرض ہے؟واجب یا فرض تو کجا 'یہ سنت بھی نہیں ہے ! حضرت ابو طفیل نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے کہا:
یَزْعُمُ قَوْمُکَ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِﷺ طَافَ عَلٰی بَعِیْرٍ بِالْبَیْتِ وَاَنَّہ سُنَّة' قَالَ صَدَقُوْا وَکَذَبُوْا' قُلْتُ مَا صَدَقُوْا وَمَا کَذَبُوْا؟ قَالَ صَدَقُوْا طَافَ عَلٰی بَعِیْرٍ وَلَیْسَ بِسُنَّةٍ' اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ کَانَ لَا یَصْرِفُ النَّاسُ عَنْہُ وَلَا یَدْفَعُ فَطَافَ عَلَی الْبَعِیْرِحَتّٰی یَسْمَعُوْا کَلَامَہ وَلَا تَنَالُہ اَیْدِیْھِمْ(١٣٣)
''آپ کی قوم کے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلمنے اونٹ پر بیٹھ کر بیت اللہ کا طواف کیا اور یہ سنت ہے۔ تو حضرت عبد اللہ بن عباس نے کہا کہ ایک بات میں وہ سچے ہیں اور ایک میں جھوٹے ہیں۔میں نے کہا: ان کی کون سی بات سچی ہے اور ان کی کس بات میں جھوٹ ہے؟ تو حضرت عبد اللہ بن عباس نے کہا:اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ پر بیت اللہ کاطواف کیا ( یہ بات درست ہے)اور یہ سنت نہیں ہے (یعنی اس فعل کو سنت کہنا جھوٹ ہے)۔(اصل معاملہ یہ ہے کہ)اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے لوگ ہٹتے نہیں تھے (یعنی آپ پر ہجوم کر لیتے تھے )پس آپ نے اونٹ پر طواف کیا تاکہ لوگ آپ کی بات اچھی طرح سن سکیں اور ان کے ہاتھ آپ تک نہ پہنچ سکیں''۔
بعض اوقات صحابہ رضی اللہ عنہم میں بھی اس امر میں اختلاف ہو جاتا تھا کہ حج کے دوران آپ کا فلاں فعل ((خُذُوْا عَنِّیْ مَنَاسِکَکُمْ))کا بیان یعنی وضاحت ہے یا امور عادیہ میں سے ہے ۔مثلاً بعض صحابہ حضرت ابو بکر ' حضرت عمر اور حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہم وغیرہ حج کے موقع پر وادی 'مُحَصَّب' یعنی مقام 'ابطح' میں قیام کرتے تھے۔ (١٣٤) اور اس قیام کو یہ صحابہ حج کی سنن میں سے شمار کرتے تھے' کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حج کے دوران اس جگہ قیام کیا تھا ۔لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت عبد اللہ بن عباس اس جگہ آپ کے قیام کو اُمورِ عادیہ میں سے شمار کرتے تھے اور اس کو سنت نہیں سمجھتے تھے ۔جیسا کہ ایک روایت کے الفاظ ہیں' حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :
کَانَ نُزُوْلُ الْاَبْطَحِ لَیْسَ بِسُنَّةٍ' اِنَّمَا نَزَلَہ رَسُوْلُ اللّٰہِﷺ لِاَنَّہ کَانَ اَسْمَحَ لِخُرُوْجِہ اِذَا خَرَجَ (١٣٥)
''مقام 'ابطح' میں قیامِ سنت نہیں ہے 'کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے اس جگہ قیام اس لیے کیا تھا کہ آپ کے لیے اس مقام سے نکلنے میں آسانی تھی ''۔
یہ بھی ذہن میں رہے کہ((صَلُّوْا کَمَا رَاَیْتُمُوْنِیْ اُصَلِّیْ)) اور ((خُذُوْا عَنِّیمَنَاسِکَکُمْ)) کے بیان میں بھی آپ کے تمام افعال ایک درجے کے نہیں ہیں ۔بعض افعال ان میں سے فرائض کے درجے کے ہیں اور بعض سنن کے درجے کے ہیں۔مثلاً وادی 'مُحَصَّبْ' کا قیام اگر بعض صحابہ نے کیا بھی ہے تو اس کو فرض یا واجب سمجھ کر نہیں بلکہ مستحب سمجھ کر کیاہے اور معروف مذاہب میں سے کسی بھی مذہب کے ماننے والوں کے ہاں یہ قیام حج کے فرائض یا واجبات میں سے نہیں ہے۔شوافع اور مالکیہ کے نزدیک یہ مستحب ہے جبکہ باقی فقہاء کے نزدیک مستحب بھی نہیں ہے ۔ اسی طرح نماز میں سورة الفاتحہ سے پہلے 'بِسم اللّٰہ' پڑھنے کو کسی بھی فقیہ نے فرض قرار نہیں دیا 'حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں 'بِسم اللّٰہ' پڑھی ہے۔
یہ بھی واضح رہے کہ جن فرائض میں صرف فرض کی ادائیگی پر زور دیاگیا ہے اور اس کے طریقے کو لازم نہیں کیا گیاتو اس کاطریقہ بیان میں شامل نہیں ہے اور یہ عموماً ایسے فرائض میں ہے جن کی ادائیگی کے طریقے میں حالا ت و زمانے کی تبدیلی کو بہت زیادہ عمل دخل حاصل تھا'جیسا کہ جہاد و قتال اور اعلائے کلمة اللہ کا معاملہ ہے ۔اقامت دین اور نفاذ شریعت امت مسلمہ کا ایک اجتماعی دینی فریضہ ہے اور اس کی ادائیگی کا طریقہ سنت نبوی سے بھی ملتا ہے تو کیا اس فریضے کی ادائیگی میں آپ کا ہر ہر فعل فرض کے درجے میں ہو گا؟اس کا جواب یہ ہے کہ اقامت دین اور اعلائے کلمة اللہ کے فریضے کی ادائیگی کے دوران آپ سے صادر ہونے والے متعدد افعال بھی اُن اُمورِ عادیہ سے تعلق رکھتے ہیں' جنہیں آپﷺ نے کسی ضرورت کے تحت کیا نہ کہ بطور تشریع کے کیا ہے' جیسا کہ آپ نے نماز میں امامہ بنت زینب کو اٹھایا یا اونٹ پر بیٹھ کر بیت اللہ کا طواف کیا تو یہ نماز یا حج کے فریضے کا بیان یعنی وضاحت نہیں ہے بلکہ یہ کسی حکمت یا ضرورت کے تحت اُمورِ عادیہ ہیں۔اسی طرح اقامت دین کے فریضے کی ادائیگی میں آپ کا ہجرت کرنا' یہودیوں سے معاہدہ کرنا(میثاق مدینہ)'مشرکین سے صلح کرنا(صلح حدیبیہ)'اپنے دفاع کے لیے خندق کھودنا'منافقین مثلاً عبد اللہ بن اُبی وغیرہ کو قتل نہ کرنا 'باوجودیکہ ان کا کفر مشرکین مکہ کے کفر سے بڑھ کر تھا اور ان کے دائمی جہنمی ہونے کی وعید قرآن نے سنا دی تھی وغیرہ' یہ ضرورتاً ' مصلحتاًاور عادتاً تھا نہ کہ یہ اقامت دین کے فریضے کے کسی طریقے کی ادائیگی کا بیان تھا۔یہی وجہ ہے کہ جب چند ایک مواقع پر بعض صحابہ نے بعض منافقین کو قتل کرنے کی دربار رسالت سے اجازت چاہی تو آپ نے یہ نہیں کہا کہ یہ مسلمان ہیں اور ان کا خون بہانا ہم پر حرام ہے 'بلکہ آپﷺ نے جواباً یہ فرمایا کہ لوگ کیا کہیں گے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں کو قتل کرنا شروع کر دیاہے؟ یعنی اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں دین کا اسی طرح غلبہ کروں گا جیسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے یعنی پہلے ١٣ سال دعوت کا کام کروں گا پھر کسی دوسری جگہ ہجرت کر جاوں گا اور پھر دس سال جہاد وقتال کروں گا وغیرہ تو یہ انتہائی بچگانہ سوچ ہے لیکن اس کے باوجود یہ بعض لوگوں میں پیدا ہوئی ہےمثلا ایک زمانے میں ڈاکٹر مسعود الدین صاحب پر یہ خیال سوار ہو گیا کہ میں اتنے ہی ہاتھ لمبی اور چوڑی مسجد تعمیر کروں جتنی آپ کے زمانہ میں مسجد نبوی تھی اور اس کی چھت اور ستون بھی ویسے ہی کھجور کے تنوں اور پتوں کے ہوں جیسا کہ اصل مسجد نبوی تھی وغیرہ ذلک۔
اسی طرح اگر کوئی امر استحباب یا اباحت کے درجے میں ہوگا تو اس امر کا بیان جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کسی فعل سے کریں گے تو آپ کی ایسی سنت بھی مستحب یا مباح کادرجہ رکھے گی' جیسا کہ علامہ آمدی نے 'الاحکام فی اُصول الاحکام' میں لکھا ہے۔مثلاً آپ نے حکم دیا:((اِذَا انْتَعَلَاَحَدُکُمْ فَلْیَبْدَاْ بِالْیَمِیْنِ)) (١٣٦)یعنی جب تم میں کوئی جوتا پہنے تو پہلے دایاں جوتا پہنے۔اب یہ حکم استحباب کے لیے ہے لہٰذا اس امر کا بیان یعنی وضاحت جب آپ کے فعل سے ہو گی تو آپ کا وہ فعل بھی مستحب ہو گا۔ علامہ آمدی رحمہ اللہ نے اس ساری بحث کو مختصر انداز میں یوں بیان کیا ہے :
واما ما عرف کون فعلہ بیانا لنا فھو دلیل من غیر خلاف فذلک ما لصریح مقالہ کقولہ صلوا کما رأیتمونی أصلی و خذوا عنی مناسککم أو بقرائن الأحوال و ذلک کما اذا ورد لفظ مجمل أو عام أرید بہ الخصوص أو مطلق أرید بہ التقیید و لم یبینہ قبل الحاجة لیہ ثم فعل عند الحاجة فعلا صالحا للبیان فنہ یکون بیانا حتی لا یکون مؤخرا للبیان عن وقت الحاجة وذلک کقطعة ید السارق من الکوع بیانا لقولہ تعالی فاقطعوا أیدیھما و کتیممہ الی المرفقین بیانا لقولہ فامسحوا بوجوھکم و أیدیکم و نحوہ والبیان تابع للمبین فی الوجوب والندب و الاباحة(١٣٧)
'' آپ کا وہ فعل جو ہمارے لیے بیان یعنی وضاحت ہو گا 'وہ ہمارے حق میں دلیل ہو گاا ور اس میں کسی کااختلاف نہیں ہے۔اور آپ کا ایسا فعل یا تو آپ کے کسی صریح حکم کی وجہ سے ہمارے لیے بیان ہوتے ہوئے حجت ہو گا 'جیسا کہ آپ کا فرمان ہے:' 'جیسے مجھے نماز پڑھتے دیکھتے ہو ویسے تم بھی نماز پڑھو'' اور آپ' کا فرمان ہے :' 'مجھ سے حج کے مناسک سیکھ لو''۔یا پھر آپ کا فعل قرائن و احوال کی وجہ سے بیان ہو گا جیساکہ کوئی لفظ عام تھا لیکن اس سے مراد خاص تھی یا لفظ مطلق تھالیکن اس سے مراد مقید تھی اور آپ نے اس لفظ کی مراد کو ضرورت سے پہلے واضح نہیں کیا تھا'پھر جب ضرورت پڑی تو آپ نے کوئی کام کیا جوکہ بیان بننے کی صلاحیت رکھتا تھا'لہٰذا آپ کا وہ فعل بیان ہو گااور آپ اس بیان کو ضرورت کے وقت سے زیادہ مؤخر کرنے والے نہ ہوں ۔جیسا کہ آپ کا چور کا ہاتھ کلائی سے کاٹنا' اللہ کے حکم'' پس تم ان دونوں کے ہاتھ کاٹو'' کابیان ہے۔اسی طرح آپ کا کہنیوں تک تیمم کرنا اللہ کے حکم'' پس تم اپنے چہرے اور ہاتھوں کا مسح کر لو'' کا بیان ہے' اور اسی طرح اور بھی آیات ہیں۔اور بیان وجوب ' ندب اور اباحت میں مبیّن کے تابع ہے''۔
عربی زبان میں 'ید' کا لفظ انگلیوں سے لے کے کندھے تک بولا جاتا ہے ۔آپ نے اپنے فعل سے قرآن کے دونوں مقامات پر لفظ 'ید' کی وضاحت کی ہے اورآپﷺ کی یہ عملی وضاحت ان آیات کا بیان ہے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
(٥)۔فعل برائے بیانِ جواز
بعض اوقات آپ کا فعل امور شرعیہ سے متعلق ہوتا ہے لیکن اس فعل سے آپ کا مقصود صرف یہ بتلانا ہوتا ہے کہ یہ کام جائز ہے نہ کہ آپ اس فعل کو ثواب کی نیت یا درجات کی بلندی کے لیے بطور ترغیب وتشویق کرتے ہیں۔ مثلاً ایک روایت کے الفاظ ہیں :
کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ۖ یُصْبِحُ جُنْبًا مِنْ غَیْرِ حُلْمٍ ثُمَّ یَصُوْمُ(١٣٩)
''اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم صبح اس حال میں کرتے تھے کہ آپ جنبی ہوتے تھے اور آپ کی یہ جنابت احتلام سے نہ ہوتی تھی ۔پھرآپ اسی حالت میں (بغیر غسل کیے) روزہ رکھ لیتے تھے''۔
اب اگر کوئی شخص یہ کہے کہ حالت جنابت میں روزہ رکھنا ایک ایسی سنت ہے جو کہ باعث اجر و ثواب ہے اور اس سے آخرت میں درجات بلند ہوتے ہیں تو بلاشبہ یہ شخص غلطی پر ہے۔شارحین حدیث نے اس حدیث کی تشریح میں اس عمل کو جائز قرار دیا ہے 'نہ کہ مستحب کہا ہے۔ مستحب یہی ہے کہ انسان کو اگر غسل کی حاجت ہو توطلوع فجر سے پہلے غسل کر لے۔اور اگر کسی وجہ سے طلوع فجر سے پہلے غسل نہ کر سکا تو اب سحری کھا کر روزہ رکھے اور طلوع فجرکے بعد غسل کر لے ۔آپ کا یہ فعل امت کے لیے آسانی پیدا کرنے اور ایک جائز شرعی امر بتلانے کے لیے تھا نہ کہ اللہ کا قرب حاصل کرنے کا کوئی ذریعہ یا عبادت کا کوئی طریقہ بتلانا آپ کا مقصود تھا۔یہ واضح رہے کہ مباح کو اصولیین نے حکم شرعی کی ایک قسم قرار دیا ہے' لیکن مباح کی تعریف میں یہ بات داخل ہے کہ یہ وہ فعل ہے کہ جس کے کرنے اور نہ کرنے پر کوئی اجر و ثواب یا سزا و عذاب نہیں ہوتا ہے۔ علامہ آمدی رحمہ اللہ نے آپ کے ایسے افعال کو اس اصول کے تحت بیان کیا ہے :
وأما ما لم یظھر فیہ قصد القربة فقد اختلفوا أیضا فیہ علی نحو اختلافھم فیما ظھر فیہ قصد القربة غیر أن القول بالوجوب و الندب فیہ أبعد مما ظھر فیہ قصد القربة والوقف و الاباحة أقرب… والمختار انکل لم یقترن بہ دلیل یدل علی أنہ قصد بہ بیان خطاب سابق فن ظھر فیہ قصد القربة الی اللہ تعالی فھو دلیل فی حقہ السلام علی القدر المشترک بین الواجب و المندوب وھو ترجیح الفعل علی الترک لا غیر ون الاباحة وھی استواء الفعل والترک فی رفع الحرج خارجة عنہ و کذلک عن أمتہ وما لم یظھر فیہ قصد القربة فھو دلیل فی حقہ علی القدر المشترک بین الواجب والمندوب و المباح وھو رفع الحرج عن الفعل لا غیر و کذلک عن أمتہ (١٤٠)
''اور آپ کے وہ افعال جن میں آپ نے تقرب الی اللہ کا قصد نہ کیا ہے تو ان افعال کی شرعی حیثیت کے بارے میں بھی علماء کا اختلاف ہے۔ آپ کے افعال کی اس قسم میں وجوب اور استحباب کا قول بعید ہے اس قسم کی نسبت سے کہ جس میں آپ نے تقرب الی اللہ کا قصد کیا ہے ۔جبکہ اباحت اور وقف کاقول زیادہ صحیح ہے...اور بہترین قول یہ ہے کہ آپ کے وہ ا فعال جن کے کسی سابق خطاب کے بیان ہونے پر کوئی واضح دلیل موجود نہیں ہے اور آپ نے ان افعال کے ذریعے اللہ کے قرب کا قصد کیا ہے تو آپ کے ایسے افعال آپ کے حق میں واجب ہوں گے یا مندوب' اور یہ ترکِ فعل پر فعل کو ترجیح دینا ہے اور اس کے علاوہ کچھ نہیں ہے اور اباحت جو کہ رفع حرج کے لیے کسی کام کو کرنے اور نہ کرنے کے درمیان برابری کا نام ہے ' آپ اور آپ 'کی اُمت دونوں سے خارج ہے۔اور جن افعال میں آپ نے تقرب الی اللہ کا قصد نہیں کیا ہے وہ آپ کے حق میں واجب ' مستحب یا مباح ہو سکتے ہیں اور یہ فعل سے حرج کو دور کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے اور اسی طرح کا حکم آپ کی اُمت کے بارے میں بھی ہے ''۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
(٦)۔فعلِ متردَّد
بعض اوقات آپ کا فعل اُمورِ شرعیہ سے متعلق ہوتا ہے لیکن آپ کے اس فعل کے بارے میں یہ بات واضح نہیں ہوتی کہ وہ قرآن کے کسی حکم یا آپ کی ہی کسی قولی سنت کا بیان ہے یا نہیں ہے ۔اگر دلائل و قرائن سے یہ بات واضح ہو جائے کہ آپ نے یہ کام تقرب اِلی اللہ کی نیت سے کیا ہے تو پھر آپ کے ایسے فعل کا کیا حکم ہے ' اس کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے۔ علامہ آمدی رحمہ اللہ اس اختلاف کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وأما ما لم یقترن بہ ما یدل علی أنہ للبیان لا نفیا و لا اثباتا فأما أن یظھر فیہ قصد القربة فقد اختلفوا فیہ فمنھم من قال أن فعلہ علیہ السلام محمول علی الوجوب فی حقہ و فی حقنا کابن سریج و الأصطخری وابن أبی ھریرة وابن خیزان والحنابلة وجماعة من المعتزلة ومنھم من صار الی أنہ للندب وقد قیل أنہ للشافعی وھو اختیار مام الحرمین و منھم من قال نہ للاباحة و ھو مذھب مالک ومنھم من قال بالوقف و ھومذھب جماعة من أصحاب الشافعی کالسیرفی والغزالی وجماعة من المعتزلة... والمختارأن کل لم یقترن بہ دلیل یدل علی أنہ قصد بہ بیان خطاب سابق فن ظھر فیہ قصد القربةا لی اللہ تعالی فھو دلیل فی حقہ السلام علی القدر المشترک بین الواجب و المندوب وھو ترجیح الفعل علی الترک لا غیر و ن الاباحة وھی استواء الفعل والترک فی رفع الحرج خارجة عنہ وکذلک عن أمتہ (١٣٨)
''اور آپ کے وہ افعال جن کے بارے میں نفی یا اثبات میں کوئی دلیل ایسی موجود نہ ہو کہ جس سے یہ معلوم ہو سکے کہ وہ بیان ہیں یا نہیں تو ایسے افعال کی دو قسمیں ہیں ۔(پہلی قسم تو یہ ہے کہ) آپ نے اپنے اس فعل کے ذریعے اللہ کے قرب کا ارادہ کیا ہو۔آپ کے ایسے افعال(یعنی جو بیان نہیں ہیں لیکن آپ نے ان کو تقرب الی اللہ کے لیے کیا ہے ) کی شرعی حیثیت کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے۔ سریج' اصطخری' ابن ابی ہریرہ ' ابن خیزان' حنابلہ او ر معتزلہ کی ایک جماعت کا کہنا یہ ہے کہ آپ کے ایسے افعال آپ اور اُمت دونوں کے لیے وجوب کا درجہ رکھتے ہیں۔علماء کادوسرا قول یہ ہے کہ آپ کے ایسے افعال مندوب ہیں اور کہا گیا ہے کہ یہ امام شافعی کا موقف ہے ' امام الحرمین نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے ۔تیسرا قول یہ ہے کہ آپ کے ایسے افعال مباح ہیں اور چوتھا توقف کا ہے ' اس کو شوافع کی ایک جماعت امام سیرفی' اور امام غزالی وغیرہ نے اختیار کیا ہے اور معتزلہ کی ایک جماعت کابھی یہی نقطہ نظر ہے...ان اقوال کے بالمقابل بہترین قول یہ ہے کہ آپ کے وہ افعال جن کے کسی سابق خطاب کے بیان ہونے پر کوئی واضح دلیل موجود نہیں ہے اور آپ نے ان افعال کے ذریعے اللہ کے قرب کا قصد کیا ہے تو آپ کے ایسے افعال آپ کے حق میں واجب ہوں گے یا مندوب 'اور یہ ترکِ فعل پر فعل کو ترجیح دینا ہے اور اس کے علاوہ کچھ نہیں ہے اور اباحت جو کہ رفع حرج کے لیے کسی کام کو کرنے اور نہ کرنے کے درمیان برابری کا نام ہے ' آپ اور آپ کی اُمت دونوں سے خارج ہے''۔
ڈاکٹر وہبہ الزحیلی نے بھی '' اصول الفقہ الاسلامی'' میں علامہ آمدی کے اس موقف کو ترجیح دی ہے کہ آپ کے وہ افعال جن میں آپ نے تقرب اِلی اللہ کی نیت کی ہے وہ اُمت کے حق میں واجب ہوں گے یا مندوب ہوں گے 'نہ کہ مباح ' چاہے آپ کا وہ فعل بظاہر کسی اَمر کا بیان یعنی وضاحت نہ بھی معلوم ہوتا ہو۔ علامہ آمدی رحمہ اللہ نے باقی اقوال کے قائلین کے دلائل کا بیان اور ان کا کافی و شافی رد اپنی کتاب 'الاحکام' میں کر دیا ہے۔تفصیل کے لیے اس کتاب کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top