یہ ایسے ہی ہے جیسے اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطاق کفار کی دشمنی مین کمی بیشی ہوتی ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے؛
إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بَعْدَ إِيمَانِهِمْ ثُمَّ ازْدَادُوا كُفْرًا لَنْ تُقْبَلَ تَوْبَتُهُمْ وَأُولَئِكَ هُمُ الضَّالُّونَ (سورۃ آلِ عمران آیت 90)
اب اس آیت سے یہ مراد و نہیں لی جاسکتی کہ کفر میں بھی کوئی کمی بیشی ہوتی ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ایمان کے مقابلہ میں صرف کفر کا تذکرہ کیا پھر جو بیان آیا وہ بے یقینی میں بڑھنے کا آیا۔ یہ اس لئے ہؤا کہ پہلے ایمان لایا پھر اس کا یقین متذبذب ہؤا تو کفر میں داخل ہوگیا اور پھر اس کا کفر میں یقین بڑھتا چلا گیا۔ جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہؤا۔ منافقین کے بارے ان آیات میں بھی غور و خوض کرنے سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔
وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آَمِنُوا كَمَا آَمَنَ النَّاسُ قَالُوا أَنُؤْمِنُ كَمَا آَمَنَ السُّفَهَاءُ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاءُ وَلَكِنْ لَا يَعْلَمُونَ (13) وَإِذَا لَقُوا الَّذِينَ آَمَنُوا قَالُوا آَمَنَّا وَإِذَا خَلَوْا إِلَى شَيَاطِينِهِمْ قَالُوا إِنَّا مَعَكُمْ إِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِئُونَ (14) اللَّهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ (15) أُولَئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُا الضَّلَالَةَ بِالْهُدَى فَمَا رَبِحَتْ تِجَارَتُهُمْ وَمَا كَانُوا مُهْتَدِينَ (16) مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ الَّذِي اسْتَوْقَدَ نَارًا فَلَمَّا أَضَاءَتْ مَا حَوْلَهُ ذَهَبَ اللَّهُ بِنُورِهِمْ وَتَرَكَهُمْ فِي ظُلُمَاتٍ لَا يُبْصِرُونَ (17) صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لَا يَرْجِعُونَ (18) أَوْ كَصَيِّبٍ مِنَ السَّمَاءِ فِيهِ ظُلُمَاتٌ وَرَعْدٌ وَبَرْقٌ يَجْعَلُونَ أَصَابِعَهُمْ فِي آَذَانِهِمْ مِنَ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ الْمَوْتِ وَاللَّهُ مُحِيطٌ بِالْكَافِرِينَ (19) يَكَادُ الْبَرْقُ يَخْطَفُ أَبْصَارَهُمْ كُلَّمَا أَضَاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ وَإِذَا أَظْلَمَ عَلَيْهِمْ قَامُوا وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَذَهَبَ بِسَمْعِهِمْ وَأَبْصَارِهِمْ إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (20)
یہ میرے سوال کا جواب نہیں ہے. میں نے آپ سے کہا تھا کہ آپ یقین کے معنی میں کیوں استعمال کر رہے ہیں. قرینہ کیا ہے؟؟؟
ان آیات میں ایمان کا ترجمہ کرنا غلط ہو جاۓ گا.
ویسے ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول نقل کر دیتا ہوں. وہ ایمان کے متعلق کہتے ہیں:
قَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ: «اليَقِينُ الإِيمَانُ كُلُّهُ» (رواہ البخاری تعلیقا فی کتاب الایمان)
اور عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا قول ہے:
وَكَتَبَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ العَزِيزِ إِلَى عَدِيِّ بْنِ عَدِيٍّ: «إِنَّ لِلْإِيمَانِ فَرَائِضَ، وَشَرَائِعَ، وَحُدُودًا، وَسُنَنًا، فَمَنِ اسْتَكْمَلَهَا اسْتَكْمَلَ الإِيمَانَ، وَمَنْ لَمْ يَسْتَكْمِلْهَا لَمْ يَسْتَكْمِلِ الإِيمَانَ، فَإِنْ أَعِشْ فَسَأُبَيِّنُهَا لَكُمْ حَتَّى تَعْمَلُوا بِهَا، وَإِنْ أَمُتْ فَمَا أَنَا عَلَى صُحْبَتِكُمْ بِحَرِيصٍ»