• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایک سانس میں 200 مرتبہ لا الہ الا اللہ کا ورد' میرے تبلیغی جماعت کے بھا ئیوں تم خود کوشش کیوں نہیں ؟

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
"محمد علی جواد, post: 119453, member: 2540"]السلام و علیکم تلمیذ بھائی -


سانس سے ذکر نہیں ہو سکتا ۔اگر سانس کوئی تسبیح یا اللہ کا نام لیا جانا ممکن ہو تو پھر بندہ سانس سے بات بھی کر لیں ،یوں دنیا میں کوئی انسان گونگا نہیں ہوتا۔یہ معاملہ کہ ایک سانس ے دو سو مرتبہ ذکر کرتے تھے، کسی صوفی عالم سےپو چھو،اور پھر اسکی تشریحات میں میں دیکھ کر بحث کو اصل رخ دیا جائے۔



اور سوال یہ بھی ہے کہ کیا دین میں ہر نیا عمل بدعت ہو گا ؟ اگر نہیں تو پھر نیا عمل کیا کہلائے گا۔



اگر یہ ثابت ہو جائے کہ آپﷺ کی وفات کے بعد بھی صحابہ نے اس طرح کا عمل کیا تو پھر آپکا رد عمل کیا ہو گا،،وہ آپ بتا دے قرآن و حدیث سے مختلٖف وظائف بتانا جو صراحت آپ ﷺ سے منسوب نہیں ،تابعین کابھی عمل رہا ،اور آج بھی مختلف وظایف جو بتا ئے جاتے ہیں ،جن میں علماء اہلحدیث بھی شامل ہیں ، کسی نے انکو بدعت نہیں کہا ہے۔اقبال سلفی صاحب جو جادو کے توڑ میں آیات بتا تے ہیں وہ مکمل وظائف کس حدیث میں لکھے ہوئے ہیں ہ انکو اس طرح پڑھو؟ کبھی انکا دیا ہو ا وہ چھوٹا سا کارڈ پڑھ لینا۔
نیکی صرف اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا نام ہے

صحیح بخاری میں ایک حدیث ہے کہ تین افراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر تشریف لائے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں موجود نہ تھے ۔ انہوں نے پردے کے پیچھے سے ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی عبادت کے بارے میں پوچھا ، ان کی خواہش تھی کہ ہماری رات کی عبادت اس کا طریقہ اور اس کا وقت بھی نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کے طریقہ اور وقت کے مطابق ہو ، بالکل ویسے کریں جیسے اللہ کے پیغمبر کیا کرتے تھے ۔
حدیث کے الفاظ ہیں

فلما اخبروا تقالوھا
جب انہیں پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام کی عبادت کے بارے میں بتلایا گیا تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کو تھوڑا سمجھا ۔ پھر خود ہی کہا کہ نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام تو وہ برگزیدہ ہستی ہیں جن کے اللہ تعالیٰ نے تمام گناہ معاف کر دئیے ہیں اور ہم چونکہ گناہ گار ہیں لہٰذا ہمیں آپ سے زیادہ عبادت کرنی چاہئیے ۔ چنانچہ تینوں نے کھڑے کھڑے عزم کر لیا ۔ ایک نے کہا میں آج کے بعد رات کو کبھی نہیں سوؤں گا بلکہ پوری رات اللہ کی عبادت کرنے میں گزاروں گا ۔ دوسرے نے کہا میں آج کے بعد ہمیشہ روزے رکھوں گا اور کبھی افطار نہ کروں گا ۔ تیسرے نے کہا میں آج کے بعد اپنے گھر نہیں جاؤنگا اپنے گھر بار اور اہل و عیال سے علیحدہ ہو جاؤں گا تا کہ ہمہ وقت مسجد میں رہوں ۔ چنانچہ تینوں یہ بات کہہ کر چلے گئے اور تھوڑی دیر بعد نبی علیہ الصلوٰۃ والتسلیم تشریف لے آئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ تین افراد آئے تھے اور انہوں نے یوں عزم ظاہر کیا ۔

جب امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات سنی تو حدیث کے الفاظ ہیں
فاحمر وجہ النبی کانما فقع علی وجھہ حب الرمان

" نبی علیہ السلام کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا یوں لگتا تھا گویا سرخ انار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر نچوڑ دیا گیا ہے اتنے غصے کا اظہار فرمایا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تینوں کو بلا کر پوچھا کہ تم نے یہ کیا بات کی ؟ کیا کرنے کا ارادہ کیا ؟ پھر نبی علیہ الصلوٰۃ والتسلیم نے اپنا عمل بتایا کہ میں تو رات کو سوتا بھی ہوں اور جاگتا بھی ہوں ، نفلی روزے رکھتا بھی ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں اور میرا گھر بار ہے اور میری بیویاں ہیں ۔ میں انہیں وقت بھی دیتا ہوں اور اللہ کے گھر میں بھی آتا ہوں ۔ یہ میرا طریقہ اور سنت ہے جس نے میرے اس طریقے سے اعراض کیا اس کا میرے ساتھ کوئی تعلق نہ ہے ۔ یعنی جس نے اپنے طریقے پر چلتے ہوئے پوری پوری رات قیام کیا ۔ زمانے بھر کے روزے رکھے اور پوری عمر مسجد میں گزار دی اس کا میرے دین سے میری جماعت سے میری امت سے کوئی تعلق نہ ہو گا ۔ وہ دین اسلام سے خارج ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نیکی محنت کا نام نہیں بلکہ اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا نام نیکی ہے ۔ ایک عمل اس وقت تک " عمل صالح نہیں ہو سکتا جب تک اس کی تائید اور تصدیق محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ فرمادیں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے عمل کو بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رد کر دیا ۔ کیونکہ وہ عمل اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے اور منہج کے خلاف تھا ۔ یاد رہے کہ کوئی راستہ بظاہر کتنا ہی اچھا لگتا ہو اس وقت تک اس کو اپنانا جائز نہیں جب تک اس کی تصدیق و تائید محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ فرمادیں ۔

اس حدیث مبارکہ میں جو اعمل بیان کے گئے ہیں جن کا عزم صحابہ کرام نے کیا تھا -یعنی رات کی عبادت، روزہ رکھنا اور نکاح کرنا وغیرہ - یہ سب سنّت رسول صل الله علیہ وسلم ہیں - لیکن چوں کہ صحابہ کرام رضوان الله اجمعین نے اپنی طرف سے ان کی تعداد کا تعین کرلیا تھا - تو اس پر بھی نبی کریم صل الله علیہ وسلم نے ناراضگی کا اظھار فرمایا - تو پھر ایک سانس میں 200 مرتبہ لا الہ الا اللہ کا ورد' کرنا اور اس کو جائزقرار دینا اور ایسے خود ساختہ وظیفوں کو شہرت دینا ایک مومن کو کس طرح زیب دے سکتا ہے ؟؟؟

نبی کریم صل الله علیہ وسلم تو اپنی امّت پر مہربان تھے -فرماتے تھے کہ "دین میں آسانی پیدا کرو اس کو مشکل مت بناؤ - اگر تم نے ایسا نا کیا تو یہ دین تم پر غالب آجاے گا اور تم اس کا حق ادا نا کر سکو گے "
اور یہ بھی فرمایا کہ "الله کو وہ عمل پسند آتا ہے جو اگرچہ تھوڑا ہو لیکن اس میں دوام (ہمیشگی ہو) "
لہذا اس قسم کی وظیفے جیسے ایک سانس میں 200 مرتبہ لا الہ الا اللہ کا ورد' یا سوا لاکھ آیت کریمہ کا ختم ، درود تاج کا ختم وغیرہ کرنا اور عوام میں ان وظائف کو شہرت دینا ایک مومن کی شان نہیں - اس کا مطلب تو صاف ظاہر ہے کہ آپ نبی کریم صل الله علیہ وسلم کے نافذ کردہ احکامات پر اپنے بزرگان دین کے اعمال کو فوقیت دے رہے ہیں- اور یہ کھلی منافقت ہے -(الله ہم سب کو اپنی سیدھی راہ کی طرف گامزن کرے آمین)
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
اولا

ایک سانس مں دو سو بار کلمہ طیبہ کے ذکر کو کہاں مسنون کہا گيا ذرا بتائیے گا
ثانیا

حب بچے قرآن مجید حفظ کرتے ہیں اور بعض آیات ان کو یاد نہیں ہو رہی ہوتیں تو قاری صاحب ان کو کہتے ہیں اس آیت کو دو سو مرتبہ پڑھو یا اس آیت کو جو یاد نہیں ہو رہی 30 منٹ تک پڑھو تو آیت کو دو سو مرتبہ پڑھنا یا 30 منٹ تک پڑھنا کسی حدیث سے بھی ثابت نہیں ہوتا لیکن وہاں اس کو کوئی بدعت نہیں کہتا کیوں کہ آیت کا دو سو مرتبہ پڑھنا بذات خود مسنون عمل نہیں اور نہ قاری صاحب نے بطور مسنون عمل کے لئیے کہا بلکہ انہوں نے بچہ کو وہ آیت یاد کروانے کے ل‍یئے پڑھواہی ۔ تو اب اگر ایک شیخ اپنے مرید کے دل میں ذکر کا داعیہ پیدا کرنے کے لئیے مرید کو ایک سانس میں دو سو مرتبہ کلمہ طیبہ پڑھنے کا کہے (اس عمل کو مسنون نہ سمجھتے ہوئے اور صرف ذکر کا داعیہ پیدا کرنے کا طریق سمجھتے ہوئے ) تو یہ عمل کیسے بدعت ہوا اور قاری صاحب کا عمل کیسے بدعت نہ ہوا ذرا سمجھائیۓ گا
ثالثا

آپ صحابہ ر‍ضی اللہ عنہم کے ان اوراد و اذکار کے متعلق کیا کہتے ہیں جو حدیث سے ثابت نہیں لیکن صحابہ کرام سے ثابت ہیں وہ بدعت کہلائیں گے یا مسنون ۔
نیکی صرف اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا نام ہے
صحیح بخاری میں ایک حدیث ہے کہ تین افراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر تشریف لائے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں موجود نہ تھے ۔ انہوں نے پردے کے پیچھے سے ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی عبادت کے بارے میں پوچھا ، ان کی خواہش تھی کہ ہماری رات کی عبادت اس کا طریقہ اور اس کا وقت بھی نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کے طریقہ اور وقت کے مطابق ہو ، بالکل ویسے کریں جیسے اللہ کے پیغمبر کیا کرتے تھے ۔
حدیث کے الفاظ ہیں
فلما اخبروا تقالوھا
جب انہیں پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام کی عبادت کے بارے میں بتلایا گیا تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کو تھوڑا سمجھا ۔ پھر خود ہی کہا کہ نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام تو وہ برگزیدہ ہستی ہیں جن کے اللہ تعالیٰ نے تمام گناہ معاف کر دئیے ہیں اور ہم چونکہ گناہ گار ہیں لہٰذا ہمیں آپ سے زیادہ عبادت کرنی چاہئیے ۔ چنانچہ تینوں نے کھڑے کھڑے عزم کر لیا ۔ ایک نے کہا میں آج کے بعد رات کو کبھی نہیں سوؤں گا بلکہ پوری رات اللہ کی عبادت کرنے میں گزاروں گا ۔ دوسرے نے کہا میں آج کے بعد ہمیشہ روزے رکھوں گا اور کبھی افطار نہ کروں گا ۔ تیسرے نے کہا میں آج کے بعد اپنے گھر نہیں جاؤنگا اپنے گھر بار اور اہل و عیال سے علیحدہ ہو جاؤں گا تا کہ ہمہ وقت مسجد میں رہوں ۔ چنانچہ تینوں یہ بات کہہ کر چلے گئے اور تھوڑی دیر بعد نبی علیہ الصلوٰۃ والتسلیم تشریف لے آئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ تین افراد آئے تھے اور انہوں نے یوں عزم ظاہر کیا ۔
جب امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات سنی تو حدیث کے الفاظ ہیں
فاحمر وجہ النبی کانما فقع علی وجھہ حب الرمان
" نبی علیہ السلام کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا یوں لگتا تھا گویا سرخ انار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر نچوڑ دیا گیا ہے اتنے غصے کا اظہار فرمایا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تینوں کو بلا کر پوچھا کہ تم نے یہ کیا بات کی ؟ کیا کرنے کا ارادہ کیا ؟ پھر نبی علیہ الصلوٰۃ والتسلیم نے اپنا عمل بتایا کہ میں تو رات کو سوتا بھی ہوں اور جاگتا بھی ہوں ، نفلی روزے رکھتا بھی ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں اور میرا گھر بار ہے اور میری بیویاں ہیں ۔ میں انہیں وقت بھی دیتا ہوں اور اللہ کے گھر میں بھی آتا ہوں ۔ یہ میرا طریقہ اور سنت ہے جس نے میرے اس طریقے سے اعراض کیا اس کا میرے ساتھ کوئی تعلق نہ ہے ۔ یعنی جس نے اپنے طریقے پر چلتے ہوئے پوری پوری رات قیام کیا ۔ زمانے بھر کے روزے رکھے اور پوری عمر مسجد میں گزار دی اس کا میرے دین سے میری جماعت سے میری امت سے کوئی تعلق نہ ہو گا ۔ وہ دین اسلام سے خارج ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نیکی محنت کا نام نہیں بلکہ اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا نام نیکی ہے ۔ ایک عمل اس وقت تک " عمل صالح نہیں ہو سکتا جب تک اس کی تائید اور تصدیق محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ فرمادیں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے عمل کو بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رد کر دیا ۔ کیونکہ وہ عمل اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے اور منہج کے خلاف تھا ۔ یاد رہے کہ کوئی راستہ بظاہر کتنا ہی اچھا لگتا ہو اس وقت تک اس کو اپنانا جائز نہیں جب تک اس کی تصدیق و تائید محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ فرمادیں ۔
اس حدیث مبارکہ میں جو اعمل بیان کے گئے ہیں جن کا عزم صحابہ کرام نے کیا تھا -یعنی رات کی عبادت، روزہ رکھنا اور نکاح کرنا وغیرہ - یہ سب سنّت رسول صل الله علیہ وسلم ہیں - لیکن چوں کہ صحابہ کرام رضوان الله اجمعین نے اپنی طرف سے ان کی تعداد کا تعین کرلیا تھا - تو اس پر بھی نبی کریم صل الله علیہ وسلم نے ناراضگی کا اظھار فرمایا - تو پھر ایک سانس میں 200 مرتبہ لا الہ الا اللہ کا ورد' کرنا اور اس کو جائزقرار دینا اور ایسے خود ساختہ وظیفوں کو شہرت دینا ایک مومن کو کس طرح زیب دے سکتا ہے ؟؟؟
نبی کریم صل الله علیہ وسلم تو اپنی امّت پر مہربان تھے -فرماتے تھے کہ "دین میں آسانی پیدا کرو اس کو مشکل مت بناؤ - اگر تم نے ایسا نا کیا تو یہ دین تم پر غالب آجاے گا اور تم اس کا حق ادا نا کر سکو گے "
اور یہ بھی فرمایا کہ "الله کو وہ عمل پسند آتا ہے جو اگرچہ تھوڑا ہو لیکن اس میں دوام (ہمیشگی ہو) "
لہذا اس قسم کی وظیفے جیسے ایک سانس میں 200 مرتبہ لا الہ الا اللہ کا ورد' یا سوا لاکھ آیت کریمہ کا ختم ، درود تاج کا ختم وغیرہ کرنا اور عوام میں ان وظائف کو شہرت دینا ایک مومن کی شان نہیں - اس کا مطلب تو صاف ظاہر ہے کہ آپ نبی کریم صل الله علیہ وسلم کے نافذ کردہ احکامات پر اپنے بزرگان دین کے اعمال کو فوقیت دے رہے ہیں- اور یہ کھلی منافقت ہے -(الله ہم سب کو اپنی سیدھی راہ کی طرف گامزن کرے آمین)
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
نیکی صرف اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا نام ہے
صحیح بخاری میں ایک حدیث ہے کہ تین افراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر تشریف لائے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں موجود نہ تھے ۔ انہوں نے پردے کے پیچھے سے ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی عبادت کے بارے میں پوچھا ، ان کی خواہش تھی کہ ہماری رات کی عبادت اس کا طریقہ اور اس کا وقت بھی نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کے طریقہ اور وقت کے مطابق ہو ، بالکل ویسے کریں جیسے اللہ کے پیغمبر کیا کرتے تھے ۔
حدیث کے الفاظ ہیں
فلما اخبروا تقالوھا
جب انہیں پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام کی عبادت کے بارے میں بتلایا گیا تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کو تھوڑا سمجھا ۔ پھر خود ہی کہا کہ نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام تو وہ برگزیدہ ہستی ہیں جن کے اللہ تعالیٰ نے تمام گناہ معاف کر دئیے ہیں اور ہم چونکہ گناہ گار ہیں لہٰذا ہمیں آپ سے زیادہ عبادت کرنی چاہئیے ۔ چنانچہ تینوں نے کھڑے کھڑے عزم کر لیا ۔ ایک نے کہا میں آج کے بعد رات کو کبھی نہیں سوؤں گا بلکہ پوری رات اللہ کی عبادت کرنے میں گزاروں گا ۔ دوسرے نے کہا میں آج کے بعد ہمیشہ روزے رکھوں گا اور کبھی افطار نہ کروں گا ۔ تیسرے نے کہا میں آج کے بعد اپنے گھر نہیں جاؤنگا اپنے گھر بار اور اہل و عیال سے علیحدہ ہو جاؤں گا تا کہ ہمہ وقت مسجد میں رہوں ۔ چنانچہ تینوں یہ بات کہہ کر چلے گئے اور تھوڑی دیر بعد نبی علیہ الصلوٰۃ والتسلیم تشریف لے آئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ تین افراد آئے تھے اور انہوں نے یوں عزم ظاہر کیا ۔
جب امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات سنی تو حدیث کے الفاظ ہیں
فاحمر وجہ النبی کانما فقع علی وجھہ حب الرمان
" نبی علیہ السلام کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا یوں لگتا تھا گویا سرخ انار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر نچوڑ دیا گیا ہے اتنے غصے کا اظہار فرمایا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تینوں کو بلا کر پوچھا کہ تم نے یہ کیا بات کی ؟ کیا کرنے کا ارادہ کیا ؟ پھر نبی علیہ الصلوٰۃ والتسلیم نے اپنا عمل بتایا کہ میں تو رات کو سوتا بھی ہوں اور جاگتا بھی ہوں ، نفلی روزے رکھتا بھی ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں اور میرا گھر بار ہے اور میری بیویاں ہیں ۔ میں انہیں وقت بھی دیتا ہوں اور اللہ کے گھر میں بھی آتا ہوں ۔ یہ میرا طریقہ اور سنت ہے جس نے میرے اس طریقے سے اعراض کیا اس کا میرے ساتھ کوئی تعلق نہ ہے ۔ یعنی جس نے اپنے طریقے پر چلتے ہوئے پوری پوری رات قیام کیا ۔ زمانے بھر کے روزے رکھے اور پوری عمر مسجد میں گزار دی اس کا میرے دین سے میری جماعت سے میری امت سے کوئی تعلق نہ ہو گا ۔ وہ دین اسلام سے خارج ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نیکی محنت کا نام نہیں بلکہ اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا نام نیکی ہے ۔ ایک عمل اس وقت تک " عمل صالح نہیں ہو سکتا جب تک اس کی تائید اور تصدیق محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ فرمادیں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے عمل کو بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رد کر دیا ۔ کیونکہ وہ عمل اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے اور منہج کے خلاف تھا ۔ یاد رہے کہ کوئی راستہ بظاہر کتنا ہی اچھا لگتا ہو اس وقت تک اس کو اپنانا جائز نہیں جب تک اس کی تصدیق و تائید محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ فرمادیں ۔
اس حدیث مبارکہ میں جو اعمل بیان کے گئے ہیں جن کا عزم صحابہ کرام نے کیا تھا -یعنی رات کی عبادت، روزہ رکھنا اور نکاح کرنا وغیرہ - یہ سب سنّت رسول صل الله علیہ وسلم ہیں - لیکن چوں کہ صحابہ کرام رضوان الله اجمعین نے اپنی طرف سے ان کی تعداد کا تعین کرلیا تھا - تو اس پر بھی نبی کریم صل الله علیہ وسلم نے ناراضگی کا اظھار فرمایا - تو پھر ایک سانس میں 200 مرتبہ لا الہ الا اللہ کا ورد' کرنا اور اس کو جائزقرار دینا اور ایسے خود ساختہ وظیفوں کو شہرت دینا ایک مومن کو کس طرح زیب دے سکتا ہے ؟؟؟
نبی کریم صل الله علیہ وسلم تو اپنی امّت پر مہربان تھے -فرماتے تھے کہ "دین میں آسانی پیدا کرو اس کو مشکل مت بناؤ - اگر تم نے ایسا نا کیا تو یہ دین تم پر غالب آجاے گا اور تم اس کا حق ادا نا کر سکو گے "
اور یہ بھی فرمایا کہ "الله کو وہ عمل پسند آتا ہے جو اگرچہ تھوڑا ہو لیکن اس میں دوام (ہمیشگی ہو) "
کاپی پیسٹ
یہاں سے مواد کاپی پیسٹ کیا گيا ہے
https://www.facebook.com/islamicideology.official/posts/590344927660738
کاپی پیسٹ سے ٹو دی پوائنٹ جواب نہیں ملتا اس لئیے اس سے اجتناب کیا کریں
میرے سوالات اپنی جگہ موجود ہیں

اولا
ایک سانس مں دو سو بار کلمہ طیبہ کے ذکر کو کہاں مسنون کہا گيا ذرا بتائیے گا
ثانیا
حب بچے قرآن مجید حفظ کرتے ہیں اور بعض آیات ان کو یاد نہیں ہو رہی ہوتیں تو قاری صاحب ان کو کہتے ہیں اس آیت کو دو سو مرتبہ پڑھو یا اس آیت کو جو یاد نہیں ہو رہی 30 منٹ تک پڑھو تو آیت کو دو سو مرتبہ پڑھنا یا 30 منٹ تک پڑھنا کسی حدیث سے بھی ثابت نہیں ہوتا لیکن وہاں اس کو کوئی بدعت نہیں کہتا کیوں کہ آیت کا دو سو مرتبہ پڑھنا بذات خود مسنون عمل نہیں اور نہ قاری صاحب نے بطور مسنون عمل کے لئیے کہا بلکہ انہوں نے بچہ کو وہ آیت یاد کروانے کے ل‍یئے پڑھواہی ۔ تو اب اگر ایک شیخ اپنے مرید کے دل میں ذکر کا داعیہ پیدا کرنے کے لئیے مرید کو ایک سانس میں دو سو مرتبہ کلمہ طیبہ پڑھنے کا کہے (اس عمل کو مسنون نہ سمجھتے ہوئے اور صرف ذکر کا داعیہ پیدا کرنے کا طریق سمجھتے ہوئے ) تو یہ عمل کیسے بدعت ہوا اور قاری صاحب کا عمل کیسے بدعت نہ ہوا ذرا سمجھائیۓ گا
ثالثا
آپ صحابہ ر‍ضی اللہ عنہم کے ان اوراد و اذکار کے متعلق کیا کہتے ہیں جو حدیث سے ثابت نہیں لیکن صحابہ کرام سے ثابت ہیں وہ بدعت کہلائیں گے یا مسنون ۔
اگر میرے سوالالات کے جوابات آپ کے کاپی پیسٹ میں شامل ہیں تو ان کو ہائیٹ لائٹ کردیں
 
Top