• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایک سانس میں 200 مرتبہ لا الہ الا اللہ کا ورد' میرے تبلیغی جماعت کے بھا ئیوں تم خود کوشش کیوں نہیں ؟

ریحان احمد

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2011
پیغامات
266
ری ایکشن اسکور
708
پوائنٹ
120
اولا
بخاری و ترمذی کے حصص اور ان کی پڑھائی کا نظام جو ابھی مدارس میں رائج ہے وہ طریقہ دور نبوی میں نھیں تھا ۔ آپ ذرا اس کو ثابت تو کریں ۔ آج مدارس میں جو حصص محتص کرنے کا نظام ، پیپروں کا نظام اور سال کا نصاب و امتحانات کا طریقہ کار رائج ہے ذرا بعینہ اسی طرح کا نظام دور نبوت میں دکھائيں ۔ یہ نظام بطور انظامی امور سے متعلق ہے اور شریعت کے مقاصد کے حصول میں جو انتظامی امور یا جو ذریعہ ہوتا ہے وہ بعینہ ثابت کرنا ضروری نہیں اور وہ انتظامی امر في نفسہ سنت عمل نہیں ہوتا ہے ۔ اسی طرح اگر کوئی انتطامی امر میں ذکر کی مخصوص تعداد متعین کرلے تو کیا قباحت ہے ، اس تعداد کو سنت تو نہیں سمجھا جا رہا ،​
اگر دونوں امور میں تفاوت ہے تو واضح کریں یا اگر تعلیمی طریقہ کار کا بعینہ ثبوت ہے تو پیش کریں صرف دعوی نہ کریں
ثانیا
بخاری میں ایک صحابی کا واقعہ درج ہے جس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھے بغیر سورہ الفاتحہ کا بطور وظیفہ پڑھ کر بغیر سنت سجھے دم کیا تھا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر کوئی نکیر نہ فرمائی تھی تو جو اذکار بطور انتظامی امور کے وظیفہ کے طور پر کیے جاتے ہیں تو کیوں اعتراض کر رہے ہیں​
ثالثا
اس سے یہ بات بھی معلوم ہو گئی کہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے جن افراد کی سرزنش کی تھی وہ سنت سمجھ کر وہ عمل کر رہے تھے ورنہ یہ کیسے ہوسکتا ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم تو اس صحابی پر نکیر نہ کریں جس نے سورہ الفاتحہ بطور وظیفہ پڑھی اور عبد اللہ بن مسعود جیسے جلیل القدر صحابی عام افراد پر سخت نکیر کریں​
رابعا
جو اذکار صحابہ سے ثابت ہوں اور حدیث سے ثابت نہ ہوں تو وہ اذکار بدعت ہوں گے ؟؟؟ آپ کی بات سے سے تو ایسی ہی لگ رہا ہے کیوں آپ ہر اس ذکر جو حدیث سے ثابت نہ بدعت قرار دے رہے ہیں1​
1۔ حدیث کے حصص مقرر کرنے اور ذکر کا طریقہ مقرر کرنے میں موازنہ کیسے کیا جا سکتا ہے جبکہ دونوں کی نوعیت ہی الگ ہے۔ اذکار مسنونہ جو مروی ہیں ان کے طریقہ کار بھی مروی ہے اور بعض اذکار کی تعداد بھی۔ حدیث ذریعہ ہے حصول علم کا یعنی وہ علم جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پہنچایا ہے اور اس علم کو حاصل کرنے کے لئے اگر حصص مقرر کئے جائیں تو اسے ہم انتظامی امر ہی کہیں گے۔ اذکار مسنونہ بھی اسی علم کا ایک حصہ ہیں۔ اس کی مثال ہم اس حدیث سے لے لیتے ہیں جو تین صحابہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادات کے متعلق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے استفسار کیا اور جواب پانے کے بعد ان تینوں میں سے ایک نے انتظامی ظور پر شادی نہ کرنے دوسرے نے ساری زندگی مسلسل روزہ رکھنے اور تیسرے نے ساری رات عبادت کرنے کا ارادہ کیا۔ تو اب ان کا یہ ارادہ خالص انتظامی تھا لیکن نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو پسند نہیں فرمایا۔

2۔ جہاں تک تعلق ہے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کا دم کرنا تو اس پر نبی نے نکیر نہیں فرمائی کیونکہ یہ صحیح تھا نکیر نہ فرمانے کی وجہ یہ ہرگز نہیں تھی کہ انہوں نے اسے سنت نہیں سمجھا۔ فاتحہ سے دم کرنے کی وجہ بھی حدیث میں بیان ہوئی ہے جو صحابی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے استفسار" کہ آپ کو کیسے علم ہوا کہ فاتحہ میں شفا ہے" کے جواب میں عرض کی تھی۔ اور پھر اس عمل پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شاباشی سے اس کو سنت تقریری مان لیا گیا۔

3۔ پس آپ کا جواب ثالث صحیح نہیں ہے۔

4۔ احادیث میں جتنے بھی اذکار ہیں وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے قولی ، فعلی یا تقریری طور پر ثابت ہیں اور میرے ناقص مطالعے لے مطابق اس میں کسی طرح کا اضافہ یا کمی کسی صحابی نے نہیں کی۔ واللہ اعلم
 

ریحان احمد

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2011
پیغامات
266
ری ایکشن اسکور
708
پوائنٹ
120
مداخلت پر معذرت ،اگر اثر عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بات ہے تو پہلے ثابت تو کریں یہ روایت صیح ہے۔ ذرا محدثین کی جرح دیکھ کر یہ روایت پیش کریں۔
جہاں تک میرے مطالعہ کا تعلق ہے یہ حدیث صحیح ہے۔ اگر آپ کے علم میں کوئی علت ہے تو پیش کریں۔
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
میرا خیال ہے میں اپنی بات آپ کو سمجھا نہیں سکا۔ قرطبی والے واقعے اور جریج والے قصے کا موازنہ کرنا غلط ہے اس کی وجوہات ہیں۔
آپ نے قرطبی والے واقعہ اور جریج کے درمیان تقابل کرے تفاوت ظاہر کیا ہے ۔ آئیے آپ کے ایک ایک پوائنٹ کو دیکھتے ہیں

1۔ جریج والے واقعے میں جریج کو الہام (یا کشف) ہوا کہ بچہ اس کی پاکیزگی کی گواہی دے گا لیکن عموم یہی ہے کہ بچے ایک عمر کے بعد کلام شروع کرتا ہے ۔ جریج نے اپنے الہام کی بنیاد پر اس کو ٹہوکا دیا تو وہ واقعی بول پڑا۔ تو جریج کا کشف یا الہام درست ثابت ہوا۔
یہیں آپ کو زبردست غلط فہمی ہوئی ہے ۔ جس عمر میں بچے نے گفتگو کی ، اس عمر میں بچے عموما کلام نہیں کرتے ۔ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے
عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " لَمْ يَتَكَلَّمْ فِي الْمَهْدِ إِلَّا ثَلَاثَةٌ
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : گود میں کسی بچے نے بات نہیں کی سوائے تین بچوں کے
جب اس عمر میں دنیا میں میں صرف تین بچوں نے گفتگو کی تو عموم کہاں سے ہو گيا ۔ آپ نے کہا کہ چوں کہ 70000 کلمہ پڑھنا حدیث سے ثابت نہیں اس لئیے قرطبی کے واقعہ والا کشف مردود ہے تو جب جریج کو کشف ہوا کہ بچہ کلام کرے گا اور اس کو اپنے نبی سے ثابت نہیں تھا کہ بچہ کلام کرے گا تو اس نے اپنے کشف اور الہام پر کیوں بھروسہ کرتے ہوئے ایسے بچے سے کیوں سوال کیا جو کلام کرنے پر قادر نہیں ، اگر آپ کا نظریہ درست مانیں تو جریج کو تو اس کشف اور الہام کو ٹھکرا دینا چاہئیے تھا جو اس نے نہ کیا جیسا کہ حدیث سے ثابت ہے
2۔ قرطبی والے قصے میں نوجوان کے بارے میں کشف کا دعویٰ کیا گیا اور اس کو آزمانے کے لئے قرطبی نے ایک طریقہ اپنایا۔ لیکن کشف کی حقیقت پھر بھی ثابت نہ ہوئی کیونکہ اگر تو 70000 دفعہ کلمہ کا ثواب کسی کو بخشنے سے اس کا جنت میں جانا ثابت ہوتا تو نوجوان کے کشف کے دعوی کو دلیل ملتی۔ کیونکہ کلمہ کا ایسا ثواب ثابت نہیں اس وجہ سے کشف کے دعوی کو دلیل مہیا نہیں ہوتی۔ (اور ایصال ثواب بھی ایک مختلف فیہ مسئلہ ہے جس پر بحث کا یہ موقع نہیں۔)
دوسری غلط فہمی آپ کو یہ ہو رہی ہے کہ گویا میں ، محترم ذکریا صاحب رحمہ اللہ اس نوجوان کے کشف کو ثابت کرہے ہیں ، نہیں وہ صرف ذکر کی طرف داعیہ پیدا کر رہے ہیں اور میں بھی اس تھریڈ پر قلم اٹھایا (کی بورڈ استعمال کیا ) تو میرا مقصد صرف اس الزام کو رفع کرنا تھا جو صاحب مضمون نے اس واقعہ کی وجہ تبلیغی جماعت پر لگایا کہ تبلیغی جماعت اللہ کی علم الغیب کی صفت بندوں میں بانٹتی ہے
اس کی ایک تازہ مثال میں کل جمعہ کے خطبے کی دیتا ہوں ، کل جمعہ کی نماز میں امام صاحب نے ایک واقعہ سنایا ۔ جنید بغدادی رحمہ اللہ ایک دفعہ کہیں جارہے تھے تو بعض افراد نے ان کا تمسخر اڑایا اور چند جملے کسے ۔ محترم جنید بغدادی رحمہ اللہ کے ساتھیوں نے کہا کہ حضرت انہوں نے آپ کے ساتھ تمسخر کیا اور آپ نے انہیں بدعا بھی نہیں کہی، جنید بغداد رحمہ اللہ نے دعا کی " یا اللہ جس طرح آپ نے ان کو دنیا میں خوش رکھا ہے ، ان کو ایسے اعمال کی توفیق دے کہ یہ آخرت میں بھی خوش رہیں " اس سے نہ امام صاحب نے کوئی مسئلہ اخذ کیا اور نہ میں اور نہ انہوں نے حجت سمجھا اور نہ میں نے بس اس واقعہ سے ایک داعیہ دل میں پیدا ہوا کہ آئندہ کوشش کرنی چاہئیے کہ اپنی ذات کے لئیے انتقام نہ لیا جائے
بعنیہ اسی طرح محترم ذکریا صاحب نے یہ قصہ اس لئيے نقل کیا کہ دل میں یہ داعیہ پیدا ہو کہ ہر حال میں ذکر کرنا چاہئيے اور ذکر کی کثرت رکھنی چاءئیے ، نہ انہوں کچھ اور اس قصہ سے کچھ اخذ کیا اور نہ کسی حنفی عالم نے کچھ اس واقعہ سے کچھ مسائل اخذ کیے
3۔ جریج والی قصے میں جریج (جو کہ ایک نیک انسان تھے) پر سنگین الزام لگا تو اللہ نے ان کی عصمت ثابت کرنے کے لئے بچے سے کلام کروایا۔ جبکہ قرظبی والے قصہ میں ایسی کوئی سنگین بات نہیں۔ اگر آپ کہیں گے کہ نوجوان کی ماں کا دوزخ میں جانا سنگین بات ہے تو اس طرح تو بہت سے لوگ دوزخ میں جاتے ہیں اور ہر بچہ کو اپنی ماں ایسی ہی عزیز ہوتی ہے۔
یعنی سنگین الزام لگے تو کرامات کا ظھور ممکن ہے دوسرے حالات میں نہیں تو محترم یہ کلیہ آپ نے کہاں سے اخذ کیا ، دلائل سے بتائيے گا

اعتراض یہ ہے ہی نہیں کہ کشف خلاف حدیث ہے۔ بلکہ اعتراض تو یہ ہے کہ کشف کو صحیح کہنے کے لئے جو ثبوت دیا جا رہا ہے وہی ثابت نہیں۔
یہاں تو آپ نے ساری بحث ختم کردی ۔ اگر کوئی شخص کہے کہ اسے کوئی ایسا کشف ہوا ہے جو حدیث کے مخالف ہے تو وہ کشف بلا شبہ رد ہوگا ۔ مثلا کوئی کہے اس کشف ہوا کہ فرعون کی بخشش کر دی گئی ہے اور وہ جنتی ہو گيا ہے ، یہ معاملہ قرآن و حدیث کے صریخ خلاف ہے تو ایسا کشف یقینا رد ہو گا ۔
آپ خود کہ رہے ہیں کشف خلاف حدیث کا آپ نے اعتراض نہیں کیا ، اعتراض آپ کا یہ ہے کہ کشف کو صحیح کہنے کے لئیے جو ثبوت دیا جارہا ہے وہی ثابت نہیں۔
پہلی بات میں نے اس کشف کو صحیح ثابت نہیں کیا ۔ ہاں اس کو من گھڑت قرار دینے کے اعتراض پر رد کیا ۔
میں نے پہلے بھی تھا کہ اگر آپ کو یہ کشف والا واقعہ صحیح نہیں لگتا تو مجھے آپ سے کوئی تعارض نہیں لیکن جب اس طرح کے واقعات کو من گھڑت کہا جاتا ہے اور وہ بھی بغیر کسی دلیل کے تو اعتراض اٹھتا ہے ۔
آپ یہ بتائيں کہ ایسا کشف جو قرطبی والے واقعہ میں نوجوان کو ہوا وہ کشف ممکن ہے یا نہیں ، یہ واقعہ حقیقت میں پیش آیا یا نہیں یہ الگ بحث ہے جس سے میں اجتناب کر رہا ہوں
اس کا اندازہ ان الفاظ سے لگایا کہ نوجوان کو جنت و دوزخ کا کشف ہوتا تھا اور جب قرطبی اس کو آزمانے کے لئے گئے تو اس وقت بھی اس کو کشف ہوا۔ اس سے اگر دوام کا ندازہ نہ لگایا جا سکتا ہو تو کم از کم تواتر کا اندازہ ضرور لگایا جا سکتا ہے۔
تواتر میں انقطاع ہوتا ہے اور اس قصے میں یہ الفاظ ہیں
جنت دوزخ کا بھی اس کو کشف ہوتا ہے
1 -اس میں تواتر کے معنی کہاں سے آپ نے ثابت کیے ۔
2- اگر تواتر میں بالفرض معنی لئیے جائيں تو تواتر کے ساتھ کرامت ممکن نہیں تو آپ کے پاس اس کی کیا دلیل ہے
 

ریحان احمد

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2011
پیغامات
266
ری ایکشن اسکور
708
پوائنٹ
120
آپ نے قرطبی والے واقعہ اور جریج کے درمیان تقابل کرے تفاوت ظاہر کیا ہے ۔ آئیے آپ کے ایک ایک پوائنٹ کو دیکھتے ہیں

1۔ جریج والے واقعے میں جریج کو الہام (یا کشف) ہوا کہ بچہ اس کی پاکیزگی کی گواہی دے گا لیکن عموم یہی ہے کہ بچے ایک عمر کے بعد کلام شروع کرتا ہے ۔ جریج نے اپنے الہام کی بنیاد پر اس کو ٹہوکا دیا تو وہ واقعی بول پڑا۔ تو جریج کا کشف یا الہام درست ثابت ہوا۔
یہیں آپ کو زبردست غلط فہمی ہوئی ہے ۔ جس عمر میں بچے نے گفتگو کی ، اس عمر میں بچے عموما کلام نہیں کرتے ۔ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے
عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " لَمْ يَتَكَلَّمْ فِي الْمَهْدِ إِلَّا ثَلَاثَةٌ
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : گود میں کسی بچے نے بات نہیں کی سوائے تین بچوں کے
جب اس عمر میں دنیا میں میں صرف تین بچوں نے گفتگو کی تو عموم کہاں سے ہو گيا ۔ آپ نے کہا کہ چوں کہ 70000 کلمہ پڑھنا حدیث سے ثابت نہیں اس لئیے قرطبی کے واقعہ والا کشف مردود ہے تو جب جریج کو کشف ہوا کہ بچہ کلام کرے گا اور اس کو اپنے نبی سے ثابت نہیں تھا کہ بچہ کلام کرے گا تو اس نے اپنے کشف اور الہام پر کیوں بھروسہ کرتے ہوئے ایسے بچے سے کیوں سوال کیا جو کلام کرنے پر قادر نہیں ، اگر آپ کا نظریہ درست مانیں تو جریج کو تو اس کشف اور الہام کو ٹھکرا دینا چاہئیے تھا جو اس نے نہ کیا جیسا کہ حدیث سے ثابت ہے
یہاں عموم سے مراد میری یہ نہیں تھی کہ جریج کے واقعہ میں بھی بچے نے عمومی عمر میں گفتگو کی بلکہ میرا کہنے کا مقصد یہ تھا کہ جریج کو کشف یا الہام ہوا کہ بچہ گفتگو کرے گا جبکہ عموماَ َ بچے اس عمر میں گفتگو نہیں کرتے جس عمر میں جریج والے قصے میں کی لیکن جریج نے اس عموم کا خیال نہیں کیا اور اپنے الہام کے مطابق اس کو ٹہوکا دیا۔

دوسری غلط فہمی آپ کو یہ ہو رہی ہے کہ گویا میں ، محترم ذکریا صاحب رحمہ اللہ اس نوجوان کے کشف کو ثابت کرہے ہیں ، نہیں وہ صرف ذکر کی طرف داعیہ پیدا کر رہے ہیں اور میں بھی اس تھریڈ پر قلم اٹھایا (کی بورڈ استعمال کیا ) تو میرا مقصد صرف اس الزام کو رفع کرنا تھا جو صاحب مضمون نے اس واقعہ کی وجہ تبلیغی جماعت پر لگایا کہ تبلیغی جماعت اللہ کی علم الغیب کی صفت بندوں میں بانٹتی ہے
تو یہاں جو بات باعث اختلاف تھی وہ ختم ہوئی۔ اگرچہ اس بات پر کسی علیحدہ دھاگے پر بحث کی جاسکتی ہے کہ کیا عبادت کا داعیہ پیدا کرنے کے لئے ایسے واقعات کو استعمال کیا جانا چاہئے یا نہیں۔۔۔ جزاک اللہ
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
1۔ حدیث کے حصص مقرر کرنے اور ذکر کا طریقہ مقرر کرنے میں موازنہ کیسے کیا جا سکتا ہے جبکہ دونوں کی نوعیت ہی الگ ہے۔ اذکار مسنونہ جو مروی ہیں ان کے طریقہ کار بھی مروی ہے اور بعض اذکار کی تعداد بھی۔ حدیث ذریعہ ہے حصول علم کا یعنی وہ علم جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پہنچایا ہے اور اس علم کو حاصل کرنے کے لئے اگر حصص مقرر کئے جائیں تو اسے ہم انتظامی امر ہی کہیں گے۔ اذکار مسنونہ بھی اسی علم کا ایک حصہ ہیں۔ اس کی مثال ہم اس حدیث سے لے لیتے ہیں جو تین صحابہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادات کے متعلق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے استفسار کیا اور جواب پانے کے بعد ان تینوں میں سے ایک نے انتظامی ظور پر شادی نہ کرنے دوسرے نے ساری زندگی مسلسل روزہ رکھنے اور تیسرے نے ساری رات عبادت کرنے کا ارادہ کیا۔ تو اب ان کا یہ ارادہ خالص انتظامی تھا لیکن نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو پسند نہیں فرمایا۔
میں نے ایک سانس میں دو سو بار کلمہ کی ادائیگی کو مسنون کہ ہی نہیں رہا اور نہ آپ ثابت کر رہے ہیں حنفی فقہاء نے اس کو مسنون کہا تو بار بار مسنون اذکار کے حوالہ سے بحث کرنا چہ معنی دارد !!!
دوسرا آپ انتظامی امر یا کسی ذریعہ کی حیثیت کو نہیں سمجھے ۔
حج ایک عبادت ہے اس کا طریقہ کتاب و سنت سے ثابت ہے اس میں کوئی کمی و بیشی نہیں ہوسکتی ، ہوائی جہاز کے ذریعہ وہاں مکہ پہنچنا ذریعہ ہے ۔
نماز کی ادائگی کے لئیے مسجد جانا مسنون بلکہ واجب عمل ہے لیکن ایک شخص موٹرسائکل پر بھی مسجد جاسکتا ہے ، اگر چہ موٹر سائکل پر جانا مسنون عمل نہیں لیکن اس پر اعتراض بھی نہیں ہو گا کیوں کہ یہ بذات خود ایک ذریعہ ہے ۔
اسی طرح مدارس میں حدیث کی کتب کو حصص ميں پڑھانا مسنون عمل نہیں صرف علم سیکھنا کا ذریعہ ہے ، اگر مدارس کا یہ نظام مسنون عمل ہے تو کتاب و سنت سے اس کو ثابت کیجئیے
اسی طرح ایک سانس میں اگر کوئي دو سو بار کلمہ پڑھتا ہے اور اس کو بغیر مسنون سمجھے دل میں یاد الہی کا داعیہ پیدا کرنے کے ذریعہ کے طور پر پڑھتا ہے تو اس میں کیا قباحت ہے؟؟؟

2۔ جہاں تک تعلق ہے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کا دم کرنا تو اس پر نبی نے نکیر نہیں فرمائی کیونکہ یہ صحیح تھا نکیر نہ فرمانے کی وجہ یہ ہرگز نہیں تھی کہ انہوں نے اسے سنت نہیں سمجھا۔ فاتحہ سے دم کرنے کی وجہ بھی حدیث میں بیان ہوئی ہے جو صحابی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے استفسار" کہ آپ کو کیسے علم ہوا کہ فاتحہ میں شفا ہے" کے جواب میں عرض کی تھی۔ اور پھر اس عمل پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شاباشی سے اس کو سنت تقریری مان لیا گیا۔
جب مذکورہ صحابی نے سورہ الفاتحہ پڑھی تھی تو ان کے پاس نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا کوئی ارشاد نہیں تھا تصحیح تو بعد میں ہوئی اس کے بعد تو بلا شبہ یہ عمل جائز ہو گيا اور سنت تقریری سے بھی ثابت ہو گیا ۔ لیکن ان صحابی رضی اللہ عنہ کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات سے قبل ان کا عمل کیا تھا کیوں کہ انہوں نے بغیر کسی حدیث کے یہ عمل کیا
4۔ احادیث میں جتنے بھی اذکار ہیں وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے قولی ، فعلی یا تقریری طور پر ثابت ہیں اور میرے ناقص مطالعے لے مطابق اس میں کسی طرح کا اضافہ یا کمی کسی صحابی نے نہیں کی۔ واللہ اعلم
میں صرف یہ پوچھ رہا ہوں کہ ایک وظیفہ اگر کسی صحابی سے ثابت ہو اور حدیث سے ثابت نہ ہو تو تو اس صحابی کا یہ عمل کیا کہلائے گا ، کیوں بغیر ثبوت حدیث وظیفہ آپ کے نذدیک بدعت ہے ۔ اگر آپ کے علم میں ایسا کوئی وظیفہ نہیں تو وہ ان شاء اللہ ہم آپ کو بتائيں گے ، پہلے اپنے موقف سے تو آگاہ کریں
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
تو یہاں جو بات باعث اختلاف تھی وہ ختم ہوئی۔ اگرچہ اس بات پر کسی علیحدہ دھاگے پر بحث کی جاسکتی ہے کہ کیا عبادت کا داعیہ پیدا کرنے کے لئے ایسے واقعات کو استعمال کیا جانا چاہئے یا نہیں۔۔۔ جزاک اللہ
جزاک اللہ خیرا
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
میں نے ایک سانس میں دو سو بار کلمہ کی ادائیگی کو مسنون کہ ہی نہیں رہا اور نہ آپ ثابت کر رہے ہیں حنفی فقہاء نے اس کو مسنون کہا تو بار بار مسنون اذکار کے حوالہ سے بحث کرنا چہ معنی دارد !!!
دوسرا آپ انتظامی امر یا کسی ذریعہ کی حیثیت کو نہیں سمجھے ۔
حج ایک عبادت ہے اس کا طریقہ کتاب و سنت سے ثابت ہے اس میں کوئی کمی و بیشی نہیں ہوسکتی ، ہوائی جہاز کے ذریعہ وہاں مکہ پہنچنا ذریعہ ہے ۔
نماز کی ادائگی کے لئیے مسجد جانا مسنون بلکہ واجب عمل ہے لیکن ایک شخص موٹرسائکل پر بھی مسجد جاسکتا ہے ، اگر چہ موٹر سائکل پر جانا مسنون عمل نہیں لیکن اس پر اعتراض بھی نہیں ہو گا کیوں کہ یہ بذات خود ایک ذریعہ ہے ۔
اسی طرح مدارس میں حدیث کی کتب کو حصص ميں پڑھانا مسنون عمل نہیں صرف علم سیکھنا کا ذریعہ ہے ، اگر مدارس کا یہ نظام مسنون عمل ہے تو کتاب و سنت سے اس کو ثابت کیجئیے
اسی طرح ایک سانس میں اگر کوئي دو سو بار کلمہ پڑھتا ہے اور اس کو بغیر مسنون سمجھے دل میں یاد الہی کا داعیہ پیدا کرنے کے ذریعہ کے طور پر پڑھتا ہے تو اس میں کیا قباحت ہے؟؟؟


جب مذکورہ صحابی نے سورہ الفاتحہ پڑھی تھی تو ان کے پاس نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا کوئی ارشاد نہیں تھا تصحیح تو بعد میں ہوئی اس کے بعد تو بلا شبہ یہ عمل جائز ہو گيا اور سنت تقریری سے بھی ثابت ہو گیا ۔ لیکن ان صحابی رضی اللہ عنہ کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات سے قبل ان کا عمل کیا تھا کیوں کہ انہوں نے بغیر کسی حدیث کے یہ عمل کیا

میں صرف یہ پوچھ رہا ہوں کہ ایک وظیفہ اگر کسی صحابی سے ثابت ہو اور حدیث سے ثابت نہ ہو تو تو اس صحابی کا یہ عمل کیا کہلائے گا ، کیوں بغیر ثبوت حدیث وظیفہ آپ کے نذدیک بدعت ہے ۔ اگر آپ کے علم میں ایسا کوئی وظیفہ نہیں تو وہ ان شاء اللہ ہم آپ کو بتائيں گے ، پہلے اپنے موقف سے تو آگاہ کریں
السلام و علیکم تلمیذ بھائی -

میرے خیال میں آپ بدعت اور انتظامی امور میں تھوڑی غلط فہمی کا شکار ہیں اور اس بنا پر دو سو بار کلمہ کی ادائیگی کو انتظامی امر میں شامل کرنے پر مصر ہیں -

میرے بھائی بدعت اس امر کو کہتے ہیں جو کہ نبی کریم صل الله علیہ وسلم کے دور میں رائج ہو سکتا تھا اور اس کے رائج ہونے میں کوئی رکاوٹ درپیش نہیں تھی -اس کے باوجود نبی کریم صل الله علیہ وسلم نے الله کے حکم سے اس کو شریعت کا حصہ نہیں بنایا -اور بعد میں آنے والوں نے اس کو شریعت کا حصہ سمجھ کر نافذ العمل کر دیا- دو سو بار کلمہ کی ادائیگی ادائیگی میں کیا امر مانع تھا جو اس کو آج ہم جائز قرار دے رہے ہیں- کیا نبی کریم صل الله علیہ وسلم اس بات سے انجان تھے کہ اس عمل (یعنی ایک سانس میں دو سو بار کلمہ کی ادائیگی) کی کتنی فضیلت ہے؟؟؟؟

آپ کا یہ کہنا "اسی طرح مدارس میں حدیث کی کتب کو حصص ميں پڑھانا مسنون عمل نہیں صرف علم سیکھنا کا ذریعہ ہے ، اگر مدارس کا یہ نظام مسنون عمل ہے تو کتاب و سنت سے اس کو ثابت کیجئیے"- صحیح نہیں
"
حدیث کی کتب کو حصص ميں پڑھانا یا مدارس میں صرفو نحو پڑھانا یا علم تدریس کے طریقے جسے ناظرہ وغیرہ یہ سب وقت کی ضرورت کے تحت نافذ العمل ہے - ورنہ جو قران نبی کریم صل الله علیہ وسلم کے دور میں نازل ہوا تھا وہ زیر زبر پیش کے بغیر تھا - قران کی آیات پر اعرا ب نبی کریم کے دور میں کیوں نہیں لگاے گئے - ظاہر ہے اس لئے کہ اس وقت تک اسلام اور قران کی تعلیمات عرب سے باہر تک نہیں پہنچی تھی اس لئے ان کی لوگ بغیر اعرا ب کے قرآن کو سمجھ لیتے تھے - جب قرانی تعلیمات عرب سے باہر پہنچانا شروع ہوئیں تو حجاج بن یوسف نے قرآن پر اعرا ب لگانے کا حکم دیا -اب بتائیں کہ قرآن کی آیات پراعرا ب لگانے کو ہم قرآن و سنّت سے کس طرح ثابت کریں گے؟؟؟

جہاں تک بات ہے ایک سانس میں دو سو بار کلمہ پڑھنے کی تو یہ اس لئے باعث ثواب نہیں کہ یہ عمل نبی کریم صل الله علیہ کے دور میں بھی نافذ العمل ہو سکتا تھا لیکن آپ صل الہ علیہ وسلم نے اس کو شریعت کا حصہ نہیں بنایا - آپ کہتے ہیں کہ "اس کو بغیر مسنون سمجھے دل میں یاد الہی کا داعیہ پیدا کرنے کے ذریعہ کے طور پر پڑھتا ہے تو اس میں کیا قباحت ہے؟؟" - سوال ہے کہ کوئی عمل اگر مسنوں نا ہو تو کیا وہ باعث ثواب بن سکتا ہے ؟؟؟

آپ چاہیں تو باقی عبادات بھی آپ اپنی مرضی سر انجام دیں دے اس میں بھی قباحت کی کون سی؟؟؟ لیکن پھر ثواب کی امید نا رکھیں تو بہتر ہو گا -

جہاں تک صحابی کے سوره فاتحہ کے دم والا معاملہ ہے تو یہ ان کا اپنا ذاتی اجتہادی عمل تھا - ظاہر ہے اس وقت تک اس کی ممانعت پر کوئی حکم نازل نہیں ہو تھا -اس لئے صحابی رسول نے اس کو کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کی-

جب یہ آیات نبی کریم صل الله علیہ وسلم پر نازل ہوئیں -

الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا سوره المائدہ ٣
آج میں تمہارے لیے تمہارا دین پورا کر چکا اور میں نے تم پر اپنا احسان پورا کر دیا اور میں نے تمہارے واسطے اسلام ہی کو دین پسند کیا ہے -


تو اس کے بعد ہر وہ عمل جو نبی کریم صل الله علیہ وسلم کے دور مبارک میں شریعت کا حصہ بن سکتا تھا لیکن نہیں بنا تو وہ بدعت کہلاے گا -اور صحابی رسول ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کا دم والا عمل دوران نبوت کا تھا -
 

حسن شبیر

مشہور رکن
شمولیت
مئی 18، 2013
پیغامات
802
ری ایکشن اسکور
1,834
پوائنٹ
196
السلام و علیکم تلمیذ بھائی -

میرے خیال میں آپ بدعت اور انتظامی امور میں تھوڑی غلط فہمی کا شکار ہیں اور اس بنا پر دو سو بار کلمہ کی ادائیگی کو انتظامی امر میں شامل کرنے پر مصر ہیں -

میرے بھائی بدعت اس امر کو کہتے ہیں جو کہ نبی کریم صل الله علیہ وسلم کے دور میں رائج ہو سکتا تھا اور اس کے رائج ہونے میں کوئی رکاوٹ درپیش نہیں تھی -اس کے باوجود نبی کریم صل الله علیہ وسلم نے الله کے حکم سے اس کو شریعت کا حصہ نہیں بنایا -اور بعد میں آنے والوں نے اس کو شریعت کا حصہ سمجھ کر نافذ العمل کر دیا- دو سو بار کلمہ کی ادائیگی ادائیگی میں کیا امر مانع تھا جو اس کو آج ہم جائز قرار دے رہے ہیں- کیا نبی کریم صل الله علیہ وسلم اس بات سے انجان تھے کہ اس عمل (یعنی ایک سانس میں دو سو بار کلمہ کی ادائیگی) کی کتنی فضیلت ہے؟؟؟؟

آپ کا یہ کہنا "اسی طرح مدارس میں حدیث کی کتب کو حصص ميں پڑھانا مسنون عمل نہیں صرف علم سیکھنا کا ذریعہ ہے ، اگر مدارس کا یہ نظام مسنون عمل ہے تو کتاب و سنت سے اس کو ثابت کیجئیے"- صحیح نہیں
"
حدیث کی کتب کو حصص ميں پڑھانا یا مدارس میں صرفو نحو پڑھانا یا علم تدریس کے طریقے جسے ناظرہ وغیرہ یہ سب وقت کی ضرورت کے تحت نافذ العمل ہے - ورنہ جو قران نبی کریم صل الله علیہ وسلم کے دور میں نازل ہوا تھا وہ زیر زبر پیش کے بغیر تھا - قران کی آیات پر اعرا ب نبی کریم کے دور میں کیوں نہیں لگاے گئے - ظاہر ہے اس لئے کہ اس وقت تک اسلام اور قران کی تعلیمات عرب سے باہر تک نہیں پہنچی تھی اس لئے ان کی لوگ بغیر اعرا ب کے قرآن کو سمجھ لیتے تھے - جب قرانی تعلیمات عرب سے باہر پہنچانا شروع ہوئیں تو حجاج بن یوسف نے قرآن پر اعرا ب لگانے کا حکم دیا -اب بتائیں کہ قرآن کی آیات پراعرا ب لگانے کو ہم قرآن و سنّت سے کس طرح ثابت کریں گے؟؟؟

جہاں تک بات ہے ایک سانس میں دو سو بار کلمہ پڑھنے کی تو یہ اس لئے باعث ثواب نہیں کہ یہ عمل نبی کریم صل الله علیہ کے دور میں بھی نافذ العمل ہو سکتا تھا لیکن آپ صل الہ علیہ وسلم نے اس کو شریعت کا حصہ نہیں بنایا - آپ کہتے ہیں کہ "اس کو بغیر مسنون سمجھے دل میں یاد الہی کا داعیہ پیدا کرنے کے ذریعہ کے طور پر پڑھتا ہے تو اس میں کیا قباحت ہے؟؟" - سوال ہے کہ کوئی عمل اگر مسنوں نا ہو تو کیا وہ باعث ثواب بن سکتا ہے ؟؟؟

آپ چاہیں تو باقی عبادات بھی آپ اپنی مرضی سر انجام دیں دے اس میں بھی قباحت کی کون سی؟؟؟ لیکن پھر ثواب کی امید نا رکھیں تو بہتر ہو گا -

جہاں تک صحابی کے سوره فاتحہ کے دم والا معاملہ ہے تو یہ ان کا اپنا ذاتی اجتہادی عمل تھا - ظاہر ہے اس وقت تک اس کی ممانعت پر کوئی حکم نازل نہیں ہو تھا -اس لئے صحابی رسول نے اس کو کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کی-

جب یہ آیات نبی کریم صل الله علیہ وسلم پر نازل ہوئیں -

الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا سوره المائدہ ٣
آج میں تمہارے لیے تمہارا دین پورا کر چکا اور میں نے تم پر اپنا احسان پورا کر دیا اور میں نے تمہارے واسطے اسلام ہی کو دین پسند کیا ہے -


تو اس کے بعد ہر وہ عمل جو نبی کریم صل الله علیہ وسلم کے دور مبارک میں شریعت کا حصہ بن سکتا تھا لیکن نہیں بنا تو وہ بدعت کہلاے گا -اور صحابی رسول ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کا دم والا عمل دوران نبوت کا تھا -
اس حدیث کے بارے میں آپکا کیا خیال ہے جبکہ ان آیات کے حوالے سے میں الحمدللہ اتنا کہہ سکتا ہوں اس میں لاعلاج بیماریوں والے بھی ہر طرح کے مصائب پریشان لوگ ٹھیک ہوئے ہیں۔یقین کی طاقت کے ساتھ جس جس نے بھی پڑھا وہ الحمدللہ ٹھیک ہو گیا اب آپ کیا کہتے ہیں؟؟؟
1238918_569060266494151_790203038_n.jpg
 

عزمی

رکن
شمولیت
جون 30، 2013
پیغامات
190
ری ایکشن اسکور
304
پوائنٹ
43
"محمد علی جواد, post: 119453, member: 2540"]السلام و علیکم تلمیذ بھائی -


میرے خیال میں آپ بدعت اور انتظامی امور میں تھوڑی غلط فہمی کا شکار ہیں اور اس بنا پر دو سو بار کلمہ کی ادائیگی کو انتظامی امر میں شامل کرنے پر مصر ہیں -

میرے بھائی بدعت اس امر کو کہتے ہیں جو کہ نبی کریم صل الله علیہ وسلم کے دور میں رائج ہو سکتا تھا اور اس کے رائج ہونے میں کوئی رکاوٹ درپیش نہیں تھی -اس کے باوجود نبی کریم صل الله علیہ وسلم نے الله کے حکم سے اس کو شریعت کا حصہ نہیں بنایا -اور بعد میں آنے والوں نے اس کو شریعت کا حصہ سمجھ کر نافذ العمل کر دیا- دو سو بار کلمہ کی ادائیگی ادائیگی میں کیا امر مانع تھا جو اس کو آج ہم جائز قرار دے رہے ہیں- کیا نبی کریم صل الله علیہ وسلم اس بات سے انجان تھے کہ اس عمل (یعنی ایک سانس میں دو سو بار کلمہ کی ادائیگی) کی کتنی فضیلت ہے؟؟؟؟
سانس سے ذکر نہیں ہو سکتا ۔اگر سانس کوئی تسبیح یا اللہ کا نام لیا جانا ممکن ہو تو پھر بندہ سانس سے بات بھی کر لیں ،یوں دنیا میں کوئی انسان گونگا نہیں ہوتا۔یہ معاملہ کہ ایک سانس ے دو سو مرتبہ ذکر کرتے تھے، کسی صوفی عالم سےپو چھو،اور پھر اسکی تشریحات میں میں دیکھ کر بحث کو اصل رخ دیا جائے۔



آپ کا یہ کہنا "اسی طرح مدارس میں حدیث کی کتب کو حصص ميں پڑھانا مسنون عمل نہیں صرف علم سیکھنا کا ذریعہ ہے ، اگر مدارس کا یہ نظام مسنون عمل ہے تو کتاب و سنت سے اس کو ثابت کیجئیے"- صحیح نہیں
"
حدیث کی کتب کو حصص ميں پڑھانا یا مدارس میں صرفو نحو پڑھانا یا علم تدریس کے طریقے جسے ناظرہ وغیرہ یہ سب وقت کی ضرورت کے تحت نافذ العمل ہے - ورنہ جو قران نبی کریم صل الله علیہ وسلم کے دور میں نازل ہوا تھا وہ زیر زبر پیش کے بغیر تھا - قران کی آیات پر اعرا ب نبی کریم کے دور میں کیوں نہیں لگاے گئے - ظاہر ہے اس لئے کہ اس وقت تک اسلام اور قران کی تعلیمات عرب سے باہر تک نہیں پہنچی تھی اس لئے ان کی لوگ بغیر اعرا ب کے قرآن کو سمجھ لیتے تھے - جب قرانی تعلیمات عرب سے باہر پہنچانا شروع ہوئیں تو حجاج بن یوسف نے قرآن پر اعرا ب لگانے کا حکم دیا -اب بتائیں کہ قرآن کی آیات پراعرا ب لگانے کو ہم قرآن و سنّت سے کس طرح ثابت کریں گے؟؟؟

جہاں تک بات ہے ایک سانس میں دو سو بار کلمہ پڑھنے کی تو یہ اس لئے باعث ثواب نہیں کہ یہ عمل نبی کریم صل الله علیہ کے دور میں بھی نافذ العمل ہو سکتا تھا لیکن آپ صل الہ علیہ وسلم نے اس کو شریعت کا حصہ نہیں بنایا - آپ کہتے ہیں کہ "اس کو بغیر مسنون سمجھے دل میں یاد الہی کا داعیہ پیدا کرنے کے ذریعہ کے طور پر پڑھتا ہے تو اس میں کیا قباحت ہے؟؟" - سوال ہے کہ کوئی عمل اگر مسنوں نا ہو تو کیا وہ باعث ثواب بن سکتا ہے ؟؟؟

آپ چاہیں تو باقی عبادات بھی آپ اپنی مرضی سر انجام دیں دے اس میں بھی قباحت کی کون سی؟؟؟ لیکن پھر ثواب کی امید نا رکھیں تو بہتر ہو گا -

جہاں تک صحابی کے سوره فاتحہ کے دم والا معاملہ ہے تو یہ ان کا اپنا ذاتی اجتہادی عمل تھا - ظاہر ہے اس وقت تک اس کی ممانعت پر کوئی حکم نازل نہیں ہو تھا -اس لئے صحابی رسول نے اس کو کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کی-

جب یہ آیات نبی کریم صل الله علیہ وسلم پر نازل ہوئیں -

الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا سوره المائدہ ٣
آج میں تمہارے لیے تمہارا دین پورا کر چکا اور میں نے تم پر اپنا احسان پورا کر دیا اور میں نے تمہارے واسطے اسلام ہی کو دین پسند کیا ہے -
اور سوال یہ بھی ہے کہ کیا دین میں ہر نیا عمل بدعت ہو گا ؟ اگر نہیں تو پھر نیا عمل کیا کہلائے گا۔



تو اس کے بعد ہر وہ عمل جو نبی کریم صل الله علیہ وسلم کے دور مبارک میں شریعت کا حصہ بن سکتا تھا لیکن نہیں بنا تو وہ بدعت کہلاے گا -اور صحابی رسول ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کا دم والا عمل دوران نبوت کا تھا -
اگر یہ ثابت ہو جائے کہ آپﷺ کی وفات کے بعد بھی صحابہ نے اس طرح کا عمل کیا تو پھر آپکا رد عمل کیا ہو گا،،وہ آپ بتا دے قرآن و حدیث سے مختلٖف وظائف بتانا جو صراحت آپ ﷺ سے منسوب نہیں ،تابعین کابھی عمل رہا ،اور آج بھی مختلف وظایف جو بتا ئے جاتے ہیں ،جن میں علماء اہلحدیث بھی شامل ہیں ، کسی نے انکو بدعت نہیں کہا ہے۔اقبال سلفی صاحب جو جادو کے توڑ میں آیات بتا تے ہیں وہ مکمل وظائف کس حدیث میں لکھے ہوئے ہیں ہ انکو اس طرح پڑھو؟ کبھی انکا دیا ہو ا وہ چھوٹا سا کارڈ پڑھ لینا۔
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
السلام و علیکم تلمیذ بھائی -

میرے خیال میں آپ بدعت اور انتظامی امور میں تھوڑی غلط فہمی کا شکار ہیں اور اس بنا پر دو سو بار کلمہ کی ادائیگی کو انتظامی امر میں شامل کرنے پر مصر ہیں -

میرے بھائی بدعت اس امر کو کہتے ہیں جو کہ نبی کریم صل الله علیہ وسلم کے دور میں رائج ہو سکتا تھا اور اس کے رائج ہونے میں کوئی رکاوٹ درپیش نہیں تھی -اس کے باوجود نبی کریم صل الله علیہ وسلم نے الله کے حکم سے اس کو شریعت کا حصہ نہیں بنایا -اور بعد میں آنے والوں نے اس کو شریعت کا حصہ سمجھ کر نافذ العمل کر دیا- دو سو بار کلمہ کی ادائیگی ادائیگی میں کیا امر مانع تھا جو اس کو آج ہم جائز قرار دے رہے ہیں- کیا نبی کریم صل الله علیہ وسلم اس بات سے انجان تھے کہ اس عمل (یعنی ایک سانس میں دو سو بار کلمہ کی ادائیگی) کی کتنی فضیلت ہے؟؟؟؟

آپ کا یہ کہنا "اسی طرح مدارس میں حدیث کی کتب کو حصص ميں پڑھانا مسنون عمل نہیں صرف علم سیکھنا کا ذریعہ ہے ، اگر مدارس کا یہ نظام مسنون عمل ہے تو کتاب و سنت سے اس کو ثابت کیجئیے"- صحیح نہیں
"
حدیث کی کتب کو حصص ميں پڑھانا یا مدارس میں صرفو نحو پڑھانا یا علم تدریس کے طریقے جسے ناظرہ وغیرہ یہ سب وقت کی ضرورت کے تحت نافذ العمل ہے - ورنہ جو قران نبی کریم صل الله علیہ وسلم کے دور میں نازل ہوا تھا وہ زیر زبر پیش کے بغیر تھا - قران کی آیات پر اعرا ب نبی کریم کے دور میں کیوں نہیں لگاے گئے - ظاہر ہے اس لئے کہ اس وقت تک اسلام اور قران کی تعلیمات عرب سے باہر تک نہیں پہنچی تھی اس لئے ان کی لوگ بغیر اعرا ب کے قرآن کو سمجھ لیتے تھے - جب قرانی تعلیمات عرب سے باہر پہنچانا شروع ہوئیں تو حجاج بن یوسف نے قرآن پر اعرا ب لگانے کا حکم دیا -اب بتائیں کہ قرآن کی آیات پراعرا ب لگانے کو ہم قرآن و سنّت سے کس طرح ثابت کریں گے؟؟؟

جہاں تک بات ہے ایک سانس میں دو سو بار کلمہ پڑھنے کی تو یہ اس لئے باعث ثواب نہیں کہ یہ عمل نبی کریم صل الله علیہ کے دور میں بھی نافذ العمل ہو سکتا تھا لیکن آپ صل الہ علیہ وسلم نے اس کو شریعت کا حصہ نہیں بنایا - آپ کہتے ہیں کہ "اس کو بغیر مسنون سمجھے دل میں یاد الہی کا داعیہ پیدا کرنے کے ذریعہ کے طور پر پڑھتا ہے تو اس میں کیا قباحت ہے؟؟" - سوال ہے کہ کوئی عمل اگر مسنوں نا ہو تو کیا وہ باعث ثواب بن سکتا ہے ؟؟؟

آپ چاہیں تو باقی عبادات بھی آپ اپنی مرضی سر انجام دیں دے اس میں بھی قباحت کی کون سی؟؟؟ لیکن پھر ثواب کی امید نا رکھیں تو بہتر ہو گا -

جہاں تک صحابی کے سوره فاتحہ کے دم والا معاملہ ہے تو یہ ان کا اپنا ذاتی اجتہادی عمل تھا - ظاہر ہے اس وقت تک اس کی ممانعت پر کوئی حکم نازل نہیں ہو تھا -اس لئے صحابی رسول نے اس کو کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کی-

جب یہ آیات نبی کریم صل الله علیہ وسلم پر نازل ہوئیں -

الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا سوره المائدہ ٣
آج میں تمہارے لیے تمہارا دین پورا کر چکا اور میں نے تم پر اپنا احسان پورا کر دیا اور میں نے تمہارے واسطے اسلام ہی کو دین پسند کیا ہے -


تو اس کے بعد ہر وہ عمل جو نبی کریم صل الله علیہ وسلم کے دور مبارک میں شریعت کا حصہ بن سکتا تھا لیکن نہیں بنا تو وہ بدعت کہلاے گا -اور صحابی رسول ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کا دم والا عمل دوران نبوت کا تھا -
اولا

ایک سانس مں دو سو بار کلمہ طیبہ کے ذکر کو کہاں مسنون کہا گيا ذرا بتائیے گا
ثانیا

حب بچے قرآن مجید حفظ کرتے ہیں اور بعض آیات ان کو یاد نہیں ہو رہی ہوتیں تو قاری صاحب ان کو کہتے ہیں اس آیت کو دو سو مرتبہ پڑھو یا اس آیت کو جو یاد نہیں ہو رہی 30 منٹ تک پڑھو تو آیت کو دو سو مرتبہ پڑھنا یا 30 منٹ تک پڑھنا کسی حدیث سے بھی ثابت نہیں ہوتا لیکن وہاں اس کو کوئی بدعت نہیں کہتا کیوں کہ آیت کا دو سو مرتبہ پڑھنا بذات خود مسنون عمل نہیں اور نہ قاری صاحب نے بطور مسنون عمل کے لئیے کہا بلکہ انہوں نے بچہ کو وہ آیت یاد کروانے کے ل‍یئے پڑھواہی ۔ تو اب اگر ایک شیخ اپنے مرید کے دل میں ذکر کا داعیہ پیدا کرنے کے لئیے مرید کو ایک سانس میں دو سو مرتبہ کلمہ طیبہ پڑھنے کا کہے (اس عمل کو مسنون نہ سمجھتے ہوئے اور صرف ذکر کا داعیہ پیدا کرنے کا طریق سمجھتے ہوئے ) تو یہ عمل کیسے بدعت ہوا اور قاری صاحب کا عمل کیسے بدعت نہ ہوا ذرا سمجھائیۓ گا
ثالثا

آپ صحابہ ر‍ضی اللہ عنہم کے ان اوراد و اذکار کے متعلق کیا کہتے ہیں جو حدیث سے ثابت نہیں لیکن صحابہ کرام سے ثابت ہیں وہ بدعت کہلائیں گے یا مسنون ۔
 
Top