ریحان احمد
مشہور رکن
- شمولیت
- ستمبر 13، 2011
- پیغامات
- 266
- ری ایکشن اسکور
- 708
- پوائنٹ
- 120
1۔ حدیث کے حصص مقرر کرنے اور ذکر کا طریقہ مقرر کرنے میں موازنہ کیسے کیا جا سکتا ہے جبکہ دونوں کی نوعیت ہی الگ ہے۔ اذکار مسنونہ جو مروی ہیں ان کے طریقہ کار بھی مروی ہے اور بعض اذکار کی تعداد بھی۔ حدیث ذریعہ ہے حصول علم کا یعنی وہ علم جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پہنچایا ہے اور اس علم کو حاصل کرنے کے لئے اگر حصص مقرر کئے جائیں تو اسے ہم انتظامی امر ہی کہیں گے۔ اذکار مسنونہ بھی اسی علم کا ایک حصہ ہیں۔ اس کی مثال ہم اس حدیث سے لے لیتے ہیں جو تین صحابہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادات کے متعلق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے استفسار کیا اور جواب پانے کے بعد ان تینوں میں سے ایک نے انتظامی ظور پر شادی نہ کرنے دوسرے نے ساری زندگی مسلسل روزہ رکھنے اور تیسرے نے ساری رات عبادت کرنے کا ارادہ کیا۔ تو اب ان کا یہ ارادہ خالص انتظامی تھا لیکن نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو پسند نہیں فرمایا۔اولابخاری و ترمذی کے حصص اور ان کی پڑھائی کا نظام جو ابھی مدارس میں رائج ہے وہ طریقہ دور نبوی میں نھیں تھا ۔ آپ ذرا اس کو ثابت تو کریں ۔ آج مدارس میں جو حصص محتص کرنے کا نظام ، پیپروں کا نظام اور سال کا نصاب و امتحانات کا طریقہ کار رائج ہے ذرا بعینہ اسی طرح کا نظام دور نبوت میں دکھائيں ۔ یہ نظام بطور انظامی امور سے متعلق ہے اور شریعت کے مقاصد کے حصول میں جو انتظامی امور یا جو ذریعہ ہوتا ہے وہ بعینہ ثابت کرنا ضروری نہیں اور وہ انتظامی امر في نفسہ سنت عمل نہیں ہوتا ہے ۔ اسی طرح اگر کوئی انتطامی امر میں ذکر کی مخصوص تعداد متعین کرلے تو کیا قباحت ہے ، اس تعداد کو سنت تو نہیں سمجھا جا رہا ،اگر دونوں امور میں تفاوت ہے تو واضح کریں یا اگر تعلیمی طریقہ کار کا بعینہ ثبوت ہے تو پیش کریں صرف دعوی نہ کریں
ثانیابخاری میں ایک صحابی کا واقعہ درج ہے جس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھے بغیر سورہ الفاتحہ کا بطور وظیفہ پڑھ کر بغیر سنت سجھے دم کیا تھا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر کوئی نکیر نہ فرمائی تھی تو جو اذکار بطور انتظامی امور کے وظیفہ کے طور پر کیے جاتے ہیں تو کیوں اعتراض کر رہے ہیںثالثااس سے یہ بات بھی معلوم ہو گئی کہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے جن افراد کی سرزنش کی تھی وہ سنت سمجھ کر وہ عمل کر رہے تھے ورنہ یہ کیسے ہوسکتا ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم تو اس صحابی پر نکیر نہ کریں جس نے سورہ الفاتحہ بطور وظیفہ پڑھی اور عبد اللہ بن مسعود جیسے جلیل القدر صحابی عام افراد پر سخت نکیر کریںرابعاجو اذکار صحابہ سے ثابت ہوں اور حدیث سے ثابت نہ ہوں تو وہ اذکار بدعت ہوں گے ؟؟؟ آپ کی بات سے سے تو ایسی ہی لگ رہا ہے کیوں آپ ہر اس ذکر جو حدیث سے ثابت نہ بدعت قرار دے رہے ہیں1
2۔ جہاں تک تعلق ہے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کا دم کرنا تو اس پر نبی نے نکیر نہیں فرمائی کیونکہ یہ صحیح تھا نکیر نہ فرمانے کی وجہ یہ ہرگز نہیں تھی کہ انہوں نے اسے سنت نہیں سمجھا۔ فاتحہ سے دم کرنے کی وجہ بھی حدیث میں بیان ہوئی ہے جو صحابی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے استفسار" کہ آپ کو کیسے علم ہوا کہ فاتحہ میں شفا ہے" کے جواب میں عرض کی تھی۔ اور پھر اس عمل پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شاباشی سے اس کو سنت تقریری مان لیا گیا۔
3۔ پس آپ کا جواب ثالث صحیح نہیں ہے۔
4۔ احادیث میں جتنے بھی اذکار ہیں وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے قولی ، فعلی یا تقریری طور پر ثابت ہیں اور میرے ناقص مطالعے لے مطابق اس میں کسی طرح کا اضافہ یا کمی کسی صحابی نے نہیں کی۔ واللہ اعلم